مغرب پلٹ بزر چمہر اور ہمارا سادہ دل نوجوان
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
September 01, 2020
…………………………………….
پس نوشت
ہمارے نوجوان جو دیار مغرب میں اعلی تعلیم کے لئے جاتے ہیں اور جب پلٹتے ہیں تو اپنی دم پہ مور پنکھ چپکا لاتے ہیں۔ اس میں وہ احباب بھی شامل ہیں جن کے لئے مولانا و عالم کی اصطلاح باعث عار ہوتی ہے۔ اس لئے وہ خود کو اسکالر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ نظریات میں یہ بدلاو کیوں آتا ہے؟
تاریخ شاہد ہے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جس قوم کا سیاسی غلبہ ہو وہ فکری سطح پر بھی موثر ہوتی ہے۔ ان کا کلچر مغلوب اقوام کے لئے معیار ٹھہرتا ہے۔ یہ ایک عمومی رویہ ہے۔
البتہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو تہذیبی یلغار میں بھی اپنے افراد کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے کچھ مفروضے ہیں جو تاریخی شواہد کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں۔ اور یہ میری رائے ہے جس سے اصحاب علم و دانش کو اختلاف ہوسکتا ہے۔
۔1۔ نظریاتی و فکری سطح پر بندے کی اسلام کے ساتھ وابستگی غیر معمولی حد تک مضبوط ہو یعنی کمپرومائزڈ نہ ہو۔
۔2۔ بندہ خود اعلی و پاکیزہ کردار کا حامل ہو۔
۔3۔ بندے کی روحانی تربیت کے پیچھے اعلی کردار کا حامل کوئی صاحب نظر شخصیت ہو۔ یا پھر خاندانی نسبت ہی کمال ہو۔
۔4۔ قرآن و سنت اور اسلاف کے اصولی و فروعی علمی ورثے کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہو۔
یہ چار شرطیں جس بندہ مومن میں پائی جاتی ہوں مغرب اکیلا تو کیا اپنے جیسی لاکھ ابلیسی تہذیب کی چکا چوند لے آئے وہ ایسے بندہ مومن کی مست نگاہ کو خیرہ نہیں کرسکتیں۔
فی زمانہ دیار مغرب میں جانے والے مسلمان نوجوان دو طرح کے ہیں ایک وہ جو کالج و یونیورسٹی کی کھیپ ہے۔ بدقسمتی سے ان میں تو شاید ہی کوئی ہو جس میں مندرجہ بالا کوئی ایک بھی خوبی پائی جاتی ہو۔ چھوئی موئی صفت زومبی جنریشن جو پہلے ہی اپنی اصل سے کٹی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ وہ کمزور سپاہی ہیں جو مغرب کی دھرتی پر قدم رکھتے ہی ’’چاروں شانے چت‘‘ ہوجاتے ہیں اور وہاں ’’ہنس کی چال چلنا‘‘ شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم استثنائی مستحسن کردار اپنی جگہ موجود ہیں اور قابل تعریف ہیں۔
مدارس کے فارغ التحصیل طلبا جن میں چار میں سے کوئی چند شرطیں ہوں بھی تو وہ بہت ناقص ہوتی ہے جیسا کہ اس وقت ہمارا موجودہ معاشرہ ہے۔ آخر وہ بھی اسی کا حصہ ہیں۔ مطالعے کا حال تو پوچھئے ہی مت خواہ جناب “اسکالر ” ہی کیوں نہ ہو۔ سطحی نظر کو جناب گہرا مطالعہ سمجھتے ہیں۔
اگر یہ شرائط نہ ہوں یا ہوں لیکن ناقص ہوں تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟
ایسے نوجوان جب مغرب میں پہنچتے ہیں تو وہاں کی تہذیبی و فکری یلغار کے سامنے مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ اسلامی احکام اور عقائد کی اس تشریح کو آسانی سے قبول کرلیتے ہیں جو مغربی مفکرین نے کی ہوتی ہیں۔ یا پھر فکری و روحانی نا پختگی کی وجہ سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہ ایسی تاویل و تفسیر یا عقلی تعبیر پیش کرتے ہیں جو اہل مغرب کے لئے قابل قبول ہو تاکہ انہیں اہل مغرب کی جانب سے کسی ایسے تلخ اور تند تیز اعتراض کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کے سامنے وہ لاجواب ہوجائیں، لہذا اس کا سادہ سا حل انہیں یہ سوجھتا ہے اسلاف کے فہم دین سے ہی دستبردار ہوا جائے تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر انہیں ہر خوبی مغرب میں اور ہر خامی اسلام میں دکھائی دیتی ہے۔ مغرب بڑی ہی چالاکی سے ایسے مرعوب ذہن میں کامیابی سے یہ زہر بھرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ اسلام اور اسلامی علوم عصر حاضر میں ناکارہ ہوچکے ہیں۔ دنیا میں ترقی کرنی ہے تو پھر ہمیں اپنی ساری یہ اکثر علمی وراثت کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنا ہوگا۔ اور نئے سرے سے مغربی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ اور جب ان سے ترقی کی حقیقت یا تعریف دریافت کی جائے تو فورا ایک ایک کر کے مادیت زدہ ترقی کی مثالیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثلا چاند اور مریخ تک پہنچنا، کمپیوٹر کی ایجاد، وغیرہ وغیرہ۔
ایسے احباب کی سیٹی تب گم ہوجاتی ہے جب کوئی کٹر مسلمان ان سے صرف یہ سادہ سا سوال پوچھ لے کہ بھائی یہ بتاو کہ اتنی ساری ترقی کرنے کے بعد کہ ہواوں اور فضاوں کو مسخر کرلیا مریخ تک جاپہنچے ذرا یہ بتائیے اس ساری ترقی کی بدولت کیا وہ خالق کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ پائے ؟؟؟؟ مریخ کی رنگیلی مٹی لانے والوں کو کیا اس میں رب کا رنگ بھی نظر آیا ؟؟؟؟
یہ احباب “کھسیانی بلی کھمبا نوچے ” کی مثل آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں “” جناب یہ دوسری باتیں ہیں دیکھیں نا انہوں نے ترقی تو کی ہے “” ۔ اب مجھے بتائیے جسے مسلمان ہوکر یہ بنیادی بات ہی پتہ نہیں کہ جو اللہ تک نہ پہنچائے یا اللہ سے حجاب پیدا کردے اسے ترقی نہیں بلکہ “”ترکنا”” کہتے ہیں۔(پنجابی لفظ)۔ کیا ایسے غافل “مغرب پلٹ بزرچمہر ” کے کہنے پر یہ مان لیا جائے کہ اسلام اور مسلمان دقیانوسی ہیں اور مغرب ایک اعلی اقدار کی تہذیب ہے!
آج کل ایسے “”اسکالر”” کثرت سے میسر ہیں۔ جنہیں پڑھنے کے بعد مسلم نوجوان شرمندہ شرمندہ ہوا پھرتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کو نصیحت ہے اپنی روحانی و ذہنی تسکین کے لئے ایسوں سے دور رہا کریں کہ جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کے اسلاف آپ کی نظر میں بونے دکھائی دینے لگیں۔ مسئلہ آپ کی نگاہ کے ساتھ نہیں عینک کے ساتھ اس لئے عینک بدلئے۔
“””سیانے کہتے ہیں گھر سے باہر بھیجنے سے پہلے منڈا تگڑا کر لو۔ بھولا تو سب لٹا کے ہی آتا ہے بلکہ کبھی کبھار اپنا آپ بھی لٹا آتا ہے۔”””” جسے خود کا نہیں پتہ وہ بھلا خودی کیا سنبھالے گا۔ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ جو اپنے نظریات نہیں سنبھال سکا وہ تمہارے کیا سنبھالے گا۔
مغرب سے اسلامی نظریات و افکار سلامت لانے کے لئے قلندر لاہوری والا بندہ چاھیے ۔ جس کا اسلام سے تعلق بھی پختہ تھا، جس کا کردار بھی اعلی تھا، اور جو روحانی طور پر کاملین کی نگاہ کا فیض یافتہ تھا۔ تبھی تو وہ بول اٹھا
زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحَرخیزی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھُونڈ چُکا میں موج موج، دیکھ چُکا صدف صدف
عشقِ بُتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگارِ دَیر میں خُونِ جگر نہ کر تلَف
کھول کے کیا بیاں کروں سِرِّ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ با شرف، مرگ حیاتِ بے شرف
صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سربکف
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طُور سے آتی ہے بانگِ’ لاَ تَخَفْ‘
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1