سلجوقی سلطنت 

 

اس وقت نظام عالم کے نام سے سلجوقی تاریخ پر مبنی ترکش ڈرامے کا پہلا سیزن چل رہا ہے۔ اس ڈرامے کی ابتداء سلجوق سلطان الپ ارسلان سے کی گئی ہے۔ 

سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔

طغرل بے اور چغری بیگ

طغرل بے سلجوق کا پوتا تھا جبکہ چغری بیگ اس کا بھائی تھا جن کی زیر قیادت سلجوقیوں نے غزنوی سلطنت سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ابتداء میں سلجوقیوں کو محمود غزنوی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ خوارزم تک محدود ہوگئے لیکن طغرل اورچغری کی زیرقیادت انہوں نے 1028ء اور 1029ء میں مرو اور نیشاپور پر قبضہ کر لیا۔ ان کے جانشینوں نے خراسان اور بلخ میں مزید علاقے فتح کئے اور 1037ء میں غزنی پر حملہ کیا۔ 1039ء میں جنگ دندانیقان میں انہوں نے غزنوی سلطنت کے بادشاہ مسعود اول کو شکست دے دی اور مسعود سلطنت کے تمام مغربی حصے سلجوقیوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھا۔ 1055ء میں طغرل نے بنی بویہ کی شیعہ سلطنت سے بغداد چھین لیا۔

 

الپ ارسلان

الپ ارسلان ایک سلجوق سلطان تھا جو اپنے چچا طغرل بیگ کے بعد تخت پر بیٹھا۔ اس نے 1063ء سے 1072ء تک حکومت کی۔ بہت بیدار مغز اور بہادر بادشاہ تھا۔ مشہور مدبر نظام الملک طوسی کو اپنے باپ چغری بیگ کی سفارش پر وزیر سلطنت مقرر کیا۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ پہلے ہرات اور جند (ماوراء النہر) کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ پھر فاطمی حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔ بازنطینیوں نے حملہ کیا تو 26 اگست 1071ء کو جنگ ملازکرد میں انہیں عبرتناک شکست دی۔ اور قیصر روم رومانوس چہارم کو گرفتار کر لیا۔ قیصر روم نے نہ صرف تاوان جنگ ادا کیا اور خراج دینے پر رضامند ہوا۔ بلکہ اپنی بیٹی سلطان کے بیٹے سے بیاہ دی اور آرمینیا اور جارجیا کے علاقے اس کو دے دیے۔ سلطان الپ ارسلان خوارزمی ترکوں کے خلاف ایک مہم میں قیدی بناکر لائے گئے خوارزمی گورنر یوسف الخوارزمی کی تلوار سے شدید زخمی ہوئے اور 4 دن بعد 25 نومبر 1072ء کو محض 42 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ الپ ارسلان کو مرو میں ان کے والد چغری بیگ کی قبر کے برابر میں دفن کیا گیا۔

 

ملک شاہ اول

جلال الدولہ ملک شاہ المعروف ملک شاہ اول (فارسی: معزالدنیا و الدین ملکشاه بن محمد الب ارسلان قسیم امیرالمومنین) جو 1072ء سے 1092ء تک سلجوقی سلطنت کا حکمران رہا۔ وہ اپنے والد الپ ارسلان کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ یہ لائق اور بہادر باپ کا سچا جانشیں تھا اور اوصاف میں اسی کے مشابہ تھا۔ الپ ارسلان نے اپنی زندگی میں اس کو نامزد کر دیا تھا۔ عباسی خلیفہ قائم باللہ نے اس کی حکومت کی تصدیق کی اور اس کا سکہ اور خطبہ سارے سلجوقی مقبوضات میں جاری ہو گیا۔ اس کا عہد سیاسی عروج، علمی ترقی اور دینی عظمت کے لحاظ سے بہت اہم تھا۔ اس کے عہد میں نہ صرف پورے دمشق کو سلجوقی حکومت میں شامل کر لیا گیا بلکہ ترکستان کو فتح کرکے خاقان چین سے بھی خراج وصول کیا گیا اور اسلامی جھنڈا ساحل شام تک لہرایا۔ اس کے عہد میں ہر جگہ فارغ البالی اور امن و عافیت تھی۔ تجارت اور صنعت کو فروغ حاصل تھا۔ راستے محفوظ تھا اور اس کا عہد ہر اعتبار سے سنہری کہلانے کا مستحق تھا۔ علمی ترقی، دینی عظمت، معاشی خوشحالی اور تمدنی عروج کسی جگہ کمی نہ تھی۔ وہ بلا کا شجاع اور بہادر تھا اور جہاں رخ کیا وہاں کامیابی حاصل کی۔ ہر دشمن کو زیر کیا اور سلجوقی حکومت کو وسعت دی۔

ملک شاہ اول اور ان کے دو ایرانی وزراء نظام الملک اور تاج الملک کی زیر قیادت سلجوق سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی جس کی مشرقی سرحدیں چین اور مغربی سرحدیں بازنطینی سلطنت سے جاملی تھیں۔ ملک شاہ نے دار الحکومت رے سے اصفہان منتقل کر دیا۔ اس دوران میں نظام الملک نے بغداد میں جامعہ نظامیہ قائم کی۔ ملک شاہ کے دور حکمرانی کو سلجوقیوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ 1087ء میں عباسی خلیفہ نے ملک شاہ کو “سلطان مشرق و مغرب” کا خطاب کیا۔ ملک شاہ کے دور میں ہی ایران میں حسن بن صباح نے زور پکڑا جس کے فدائین نے نے کئی معروف شخصیات کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

 

ملک شاہ کی بیوی ترکان خاتون

19 نومبر 1092ء کو ملک شاہ اول سلجوقی کا انتقال ہوا تو ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) نے اِس خبر کو پوشیدہ رکھا اور اُس کی لاش کو لے کر اصفہان پہنچ گئی جہاں اُس نے ملک شاہ اول کی وفات اور اپنے نو عمر بیٹے محمود کی تخت نشینی کا اعلان کیا۔ محمود ملک شاہ اول کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا جس کی عمر محض چار سال تھی۔ فوج اور امرائے سلطنت نے محمود کے نام پر بیعت کرلی۔ عباسی خلیفہ المقتدر باللہ نے نو عمر سلجوقی سلطان محمود کے لیے خطبات میں نام شامل کرنے کی اجازت صرف اِس شرط پر دے دی کہ بلوغت سے قبل مجد المک سلطنت کا نگران و منتظم رہے گا اور یہی مجد الملک صیغہ مال اور عزل و نصب کا اختیار اپنے پاس رکھے گا۔

ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) نے یہ شرائط منظور کر لیں اور چند امرا کو برکیاروق کی گرفتاری کے لیے اصفہان بھیجا، چنانچہ اُس کے حکم پر برکیاروق کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) کے حکومت میں آ جانے کے بعد سلجوقی سلطنت کی صورت حال خراب ہوتی گئی۔ اِن حالات سے متوفی سلطان ملک شاہ اول کی دوسری بیوی اور برکیاروق کی والدہ زبیدہ بیگم نے فائدہ اُٹھایا اور وزیر نظام الملک طوسی کے غلاموں سے مل کر اصفہان کے قید خانہ پر دھاوا بول دیا جہاں برکیاروق کو آزاد کروا لیا اور تختِ حکومت پر بٹھا دیا۔ اِن دنوں ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) اپنے بیٹے محمود اول سلجوقی کے ہمراہ دارالخلافت بغداد میں تھی، یہ خبر سن کر وہ فوراً اصفہان کے لیے بغداد سے روانہ ہوئی۔ ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) جب بغداد سے روانہ ہوئی تو برکیاروق تخت سلجوقی سلطنت پر قابض ہوچکا تھا۔ ارغش نظامی اور اُس کی فوج نے برکیاروق کے ماتحت ہو گئی تو برکیاروق کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ اُس نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے قلعہ طبرک فتح کر لیا اور جب ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) کو یہ خبر ملی تو برہم ہوئی اور برکیاروق کو شکست فاش دینے کے لیے فوج روانہ کی مگر اُس کے بعض امرا برکیاروق سے مل گئے اور باقی فوج میدان چھوڑ کر واپس اصفہان پہنچ گئی۔ برکیاروق نے اُن کا پیچھا کیا اور اصفہان کا محاصرہ کر لیا۔ اِس دوران مختلف امرا برکیاروق کے پاس آتے رہے اور اُس کی عسکری قوت کا سبب بنتے گئے۔ اِن میں عز الملک ابوعبداللہ حسن بن نظام الملک طوسی والی خوارزم بھی شامل تھا جو اپنے بھائیوں، اقربا اور اپنی فوج کے ہمراہ برکیاروق سے آ ملا۔ برکیاروق نے پرجوش استقبال کیا۔ امیر تاج الملک جو ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) کا وزیر تھا اور جسے اُس نے فوج کا کمان دے کر روانہ کیا تھا، گرفتار کر لیا گیا اور اُسے برکیاروق کے سامنے پیش کیا گیا، برکیاروق نے اُسے آزاد کر دیا۔ برکیاروق تاج الملک کو عہدہ نظامت دینا چاہتا تھا لیکن فوج اُسے نظام الملک طوسی کے قتل کا ذمہ دار سمجھتی تھی، لہٰذا اُسے ماہِ محرم 486ھ میں قتل کر دیا گیا۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ برکیاروق کے چچا تاج الدولہ تکش نے بھی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اُس نے دیاربکر اور آذربائیجان پر حملہ کر دیا مگر اُس کے اور برکیاروق کے درمیان میں جنگ کی نوبت نہ آئی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ تاج الدولہ تکش کے دو بڑے امرا قسیم الدولہ آق سنقر اور بوزان، والی حران اپنی فوجوں کے ہمراہ برکیاروق سے مل گئے۔ اِس پر تاج الدولہ تکش جنگ نہ کرسکا اور بلاد الشام کی طرف واپس پلٹ گیا۔

ترکان خاتون (زوجہ ملک شاہ سلجوقی) نے جب دیکھا کہ تخت تک کوئی راستہ باقی نہ رہا تو اسماعیل بن داؤد کی طرف رجوع کیا جو برکیاروق کا ماموں اور والی آذربائیجان تھا۔ اُسے لالچ دیا کہ اگر وہ جنگ کرکے برکیاروق کو تخت سے ہٹا دے اور سلطنت پر قبضہ کرلے تو وہ اُس سے نکاح کرلے گی۔ اسماعیل اِس فریب میں آ گیا اور اُس نے فوج جمع کرکے برکیاروق کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ دونوں کے مابین مقامِ کرج میں جنگ ہوئی جس میں لشکر کے سردار برکیاروق سے مل گئے اور اسماعیل کو شکست ہو گئی۔ اِس پر سلطان برکیاروق کی والدہ زبیدہ بیگم نے دونوں میں مصالحت کروا دی۔ اِس مصالحت کے بعد بھی سردارنِ لشکر کمشگین، آق سنقر اور بوزان کے مابین عداوت رہی اور اُنہوں نے مصالحت قبول نہ کی اور کہا کہ اسماعیل تخت کا دعویدار ہے اور تخت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، لہٰذا اِن سردارانِ لشکر نے اسماعیل بن داؤد کو قتل کر دیا اور برکیاروق کو اِس کی خبر کردی۔اِن واقعات کے بعد برکیاروق کے تخت کے تمام دعویدار اِس راستے سے ختم ہو گئے، برکیاروق کے مخالفین کا آہستہ آہستہ قلع قمع ہو گیا اور اُس کے والد سلطان ملک شاہ اول کی سلطنت پر مکمل قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔

محرم الحرام 487ھ میں خلیفہ خلافت عباسیہ المقتدی بامر اللہ نے سلطان برکیاروق کو دار الخلافہ بغداد طلب کیا اور اُسے خلعت سے نوازا۔ اُس کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا گیا، اُمورِ سلطنت کے تمام اختیارات برکیاروق کو سونپ دیے گئے۔ چند دن بعد عباسی خلیفہ المقتدی بامر اللہ کا 15 محرم الحرام 487ھ/3 فروری 1094ء کو بغداد میں انتقال ہو گیا۔ خلیفہ کے جانشین المستظہر باللہ نے اپنے والد کی پالیسی کو جاری رکھا اور برکیاروق سے معاملات اُسی نہج پر چلتے رہے۔

فتوحات و سلطنت(برکیاروق اور اس کے بھائی )۔

۔1094ء میں عباسی خلیفہ المقتدی بامر اللہ کی پزیرائی کے بعد برکیاروق سلجوقی سلطنت پر مکمل طور پر حکمران تسلیم کر لیا گیا۔ چنانچہ برکیاروق نے نیشاپور، خراسان، ترمذ اور خوارزم پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اب یہ ہوا کہ برکیاروق کے دو بھائیوں کو اُمورِ مملکت میں شریک کرتے ہوئے سلطان سنجر کو خراسان اور سلطان محمد کو گنجہ اور اُس کے متعلقہ علاقوں کی حکومت تفویض کی۔ چونکہ سلطان محمد کی عمر کم تھی، اِس لیے امیر قطلغ تکین اتابک کو بطور وزیر اُس کے ہمراہ روانہ کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہی سلطان محمد نے اپنے وزیر تکین اتابک کو قتل کر دیا اور تمام صوبہ ایران پر قابض ہو گیا، برکیاروق نے اُس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ ماہِ ذوالقعدہ 492ھ میں رے (شہر) پر قبضہ کر لیا اور اُس کے ایک امیر مؤید الملک نے برکیاروق کی والدہ زبیدہ بیگم کو گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ اِس وقت حالات اِتنے خراب ہوچکے تھے کہ برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑا اور سلطان محمد اُس کی غیر موجودگی میں بغداد میں داخل ہو گیا۔ عباسی خلیفہ المستظہر باللہ نے اُسے غیاث الدنیاء والدین کا خطاب دے کر سلجوقی سلطان نامزد کر دیا اور اُس کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد 15 صفر 493ھ اور اُس کی افواج کا سالار نیال بن انوشتگین اپنی فوج کے ساتھ بغداد آ گئے۔ برکیاروق کے بغداد آتے ہی دوبارہ جامع بغداد میں برکیاروق کا خطبہ پڑھا گیا اور سلطان محمد کا نام خطبہ سے نکال دیا گیا۔15 صفر 493ھ کو سلطان برکیاروق بغداد میں داخل ہوا تو دونوں بھائیوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی اور برکیاروق کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی، جس کے سبب 5 رجب 493ھ کو سلطان محمد کا بغداد پر قبضہ ہو گیا۔ برکیاروق اپنے چند جانثاروں کے ساتھ رے پہنچا۔ سلطان محمد کے خلاف دوسری بڑی جنگ 3 جمادی الثانی 493ھ کو لڑی گئی جس میں سلطان محمدکو شکست ہوئی اور مؤید الملک کو گرفتار کرکے قتل کر دیا گیا۔3 جمادی الثانی 493ھ کو لڑی گئی جنگ میں سلطان محمد کو شکست ہوئی اور وہ جرجان روانہ ہو گیا اور اپنے بھائی سنجر سے مدد کی درخواست کی۔ دونوں بھائیوں کی ملاقات اور باہم مل جانے کے بعد سلطان برکیاروق اُن کا مقابلہ نہ کرسکا اور اُسے بغداد چھوڑنا پڑا اور سلطان محمد نے اپنی حیثیت بغداد میں مستحکم کرلی اور عباسی خلیفہ المستظہر باللہ نے اُسے مبارکباد کا پیغام بھیجا۔نہاوند میں دونوں کے لشکر دوبارہ آمنے سامنے ہوئے لیکن امرا کی مصالحت آڑے آئی۔ یہ مصالحت بھی کچح روز رہی اور سلطان برکیاروق اور سلطان محمد کی افواج میں معرکہ آرائی ہو گئی۔ یہ چوتھی جنگ ماہِ جمادی الاول 495ھ میں ہوئی اور اِس میں سلطان محمد کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ نکلی اور سلطان محمد اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اصفہان میں جان بچاتا ہوا پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ دونوں بھائیوں کے مابین اگلا معرکہ خراسان میں پیش آیا ور اِس جنگ میں بھی سلطان محمد کو شکست ہوئی اور اُس نے ارقیس یعنی صوبہ خلاط میں جا کر اقامت اختیار کی۔سلطان برکیاروق اور سلطان محمد کے مابین مدتِ مدید سے جنگوں کا ایک نا رکنے والا سلسلہ جاری تھا، جس کے باعث جانی و مالی نقصان ہو رہا تھا۔ برکیاروق کو اِس کا بہت احساس تھا، لہٰذا اُس نے صلح کرنے کی کوشش کی۔ دونوں میں کچھ شرائط پر صلح ہو گئی اور پابندی شرائط پر حلف لیا گیا۔ شرائط میں سے ایک یہ شرط بھی تھی کہ جن شہروں کا اقتدار سلطان محمد کو دیا جائے گا، وہ اُس کی مستقل حکمرانی کے دائرہ کار میں ہوں گے اور سلطان برکیاروق اپنے علاقوں شہروں کا مستقل حکمران ہوگا۔ صلح کے بعد 497ھ میں سلطان برکیاروق کے نام کا خطبہ جامع بغداد اور واسط میں پڑھا گیا۔ ماہِ ذوالقعدہ 497ھ میں خلیفہ المستظہر باللہ نے سلطان برکیاروق، امیر ایاز اور وزیر سلطنت کو خلعت عطاء کی اور اُن سے اطاعت و فرماں برداری کا حلف لیا۔سلطان برکیاروق جب اصفہان سے واپس بغداد آیا تھا تو وہ سل اور بواسیر کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔ یزد پہنچا تو بیماری میں شدت آ گئی۔ چنانچہ برکیاروق نے اپنے بیٹے ملک شاہ دؤم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا جو محض پانچ سال کا تھا اور امیر ایاز کو انتظاماتِ سلطنت سپرد کیے اور بغداد کو روانہ ہوا۔ ابھی بغداد نہیں پہنچا تھا کہ اصفہان میں بروز جمعہ 12 ربیع الاول 498ھ2 دسمبر 1104ء کو 24 سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ تدفین اصفہان میں کی گئی۔ مدتِ حکومت 12 سال 12 دن شمسی اور 12 سال 6 ماہ قمری تھی۔

 

سلطان احمد سنجر

سلطان احمد سنجر سلجوقی سلطنت کا عظمت و شان والا بادشاہ تھا۔ سیلجوک خاندان کا چھٹا سلطان معیزالدین احمد سنجر بن ملک شاہ بن الپ ارسلان سیلجوک سلطان ہیں۔ وہ سلجوق خاندان کے چھٹے سلطان تھے اور ان کا نام ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اول، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق ہے۔ اس کی والدہ ایک لونڈی تھی اور اس کا نام تاج الدین خاتون الصفریہ تھا، جو سلطان ملک شاہ بن الپ ارسلان کی غلام تھی۔ملک شاہ سلجوقی کا تیسرا بیٹا تھا اس کی حکومت خراسان، غزنہ، خوارزم اور ماوراءالنہر تک پھیلی ہوئی تھی اس کا نام کظبہ مین ایران آرمینیا، آذر بائیجان، موصل، دیار ربیعہ، دیار بکر اور حرمین تک پڑھا جاتا تھا، 1092ء میں خراسان پر قابض ہوا اس کے بعد فارس کا بادشاہ بھی تسلیم کیا گیا، سلطان سنجر نے غزنوی خاندان کے بادشاہ بہرام شاہ کو خراج گزار بنا لیا علاؤ الدین بادشاہ غور نے بہرام شاہ کو شکست دی اور غزنی لے لیا۔ اور یہی علاؤ الدین بھی سلطان سنجر کا مطیع ہوا۔اس نے سمرقند کی مالک محترمہ ترکان خاتون، بنت ارسلان خان سے شادی کی اور وہ اپنے سارے سفر اور جنگوں میں اپنے شوہر کے ساتھ گئی، اسے دو بار قید کا نشانہ بنایا گیا جب سلطان نے قطوان کی لڑائی ہار دی، تو اس نے اسے پانچ لاکھ دینار دے کر چھڑا لیا۔ دوسری بار، وہ سلطان سنجر کے ساتھ اس وقت دوبارہ وگرفتار ہوئی جب سلطان نے غز سے شکست کھائی تھی اور سلطان سنجر نے اپنے پورے خاندان میں اپنی اہلیہ سے وفاداری کرتے ہوئے غز کی قید سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی جو پورے تین سال ان کی قید میں رہی یہاں تک کہ اس کا اسی حالت میں 551ھ میں انتقال ہو گیا سلطان احمد سنجر کا کوئی بیٹا نہیں تھا تاریخ میں سلطان احمد سنجر کی ایک بیٹی کا ذکر ضرور موجود ہے جن سے بعد میں عباسی خلیفہ مسترشد باللہ نے 518ھ میں شادی کی اور سلطان احمد سنجر کی بیٹی کے لے دریائے دجلہ پر ایک شاندار گھر تعمیر کروایا۔سلطان سنجر کو عالم اسلام میں بہت بلند مرتبہ حاصل ہوا اسے ’’سلطان اعظم‘‘ کا لقب دیا گیا اس کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت ضرب المثل تھی۔8 مئی 1157ء کو سلطان سنجر کا انتقال ہوا جس کے ساتھ ہی سلجوقی خاندان کا خاتمہ ہو گیا سلطان سنجر مرو میں مدفون ہے۔علامہ اقبال نے سلطان سنجر کی عظمت و شان کو سراہا ہے۔

فقر جنیدؔ و بایزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

شکوہ سنجر و فقر جنید و بسطامی

جب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Article Source is Wikipedia 

ؒحضرت فیض محمد شاہجمالی

  

محمد ابوبکر صدیق 

Dec. 27, 2020 

……………………………….

نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

 

اہل ایمان اصحاب ِ علم وہ مبارک لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی عزتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ حضور نبی رحمت ﷺ کاارشاد گرامی ہے “اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارداہ فرماتا ہے اسے دین میں تفقہ عطا کردیتا ہے“۔ امت محمدیہ ﷺ ہر دور میں ایسے مبارک اصحاب علم و دانش سے فیض یاب ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ حضور فیض محمد شاہ جمالی ؒ بھی انہی یگانہ روزگار نیاگانِ کُہن کے مبارک کاروانِ حق کا ایک عظیم فرد ہیں ۔ آپ جامع منقول و معقول تھے۔ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے بیک وقت نظر اور علم دونوں دریاؤں سے فیض پاتے تھے۔گویا وہ اپنے وقت میں امام مالک ؒ کے اس قول کا مصداق تھے کہ ” جس نے تفقہ پایا لیکن تصوف سے ہم کنار نہ ہوا تو وہ فاسق ہوا ، اور جس نے تصوف کو پایا لیکن تفقہ کی دولت سے محروم رہا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو اپنی ذات میں جمع کردیا اس نے حق کو پالیا“۔ حضور شاہ جمالی ؒ نے ایک طرف تفقہ کے دریا بہائے تو دوسری جانب روحانیت کی دنیا میں بھی مردہ دلوں کو پیغام ِ حق سے جلا بخشی ۔

 

اسم گرامی و پیدائش


آپ کا مکمل اسم گرامی خواجہ فیض محمد شاہ جمالی بن مولانا نور الدین علیہماالرحمۃ۔ آپ کی تاریخ ولادت: 16/ذیقعدہ1290ھ 5 جنوری بمطابق/1874ءبروز جمعرات بوقتِ سحر اپنے وقت کے ممتاز عالم وعارف حضرت مولانا نور الدین ؒ کے گھر قصبہ شاہ جمال (ڈیرہ غازی خان )میں ہوئی۔

 

شریعت و طریقت میں کسب فیض


آپ نے تصوف اور تفقہ کے دریا ڈیرہ غازیخان کی ایک بستی سندیلہ شریف میں بہائے لیکن آج اُس سے سیراب ایک جہان ہورہا ہے۔آپ نے خود طریقت کے جام حضرت خواجہ عبدالرحمن ملتانی ؒ کے مے خانہ حق سے نوش کئے اور انہیں سے خرقہ خلافت حاصل کرکے صاحب ِارشاد ہو ئے ۔اُ ن کے واسطے سے آپ کا شجرہ طریقت قبلہ عالم حضور خواجہ نور محمد مہاروی ؒ سے جاملتا ہے۔ حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی ؒ نے بھی حضور شاہ جمالی ؒ کو خلافت عطا کی۔


شریعت کی ابتدائی تعلیم قر آنِ پاک اور ابتدائی درسی کتب اپنے والد گرامی سے حاصل کی،اسکے بعد علوم متد اولہ کی کتب حضرت مولانا نصیر بخش چشتی سے پڑھیں ۔بعدازاں مولانا خلیل احمد (قصبہ روہیلا انوالی )ضلع مظفر گڑھ ،اور حضرت حافظ صاحب سیلا نوالی ضلع میا نوالی سے دیگر کتب متداولہ اور درس حدیث شریف کی تحصیل و تکمیل کی۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا عبد الغفور ہمایونی ؒ اور حضرت مولانا جندوڈہ سیت پوری ؒ سے بھی تکمیل کتب اور سند فراغت حاصل کی۔

 

خدمت دین


آپ ؒ ساری زندگی درس وتدریس ،قا ل اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کا ورد فرماتے رہے۔آپ ؒ اس علاقے میں رسول اللہ ﷺ کے سچے نائب، اور علومِ نبویہ کے وارثِ کامل تھے۔ آپ کی ساری زندگی اسوۂ رسول اللہ ﷺ کی پیکر تھی۔آپ کی تعلیم وتربیت اور رشد وہدایت،وعظ ونصیحت ،اور مجالسِ خیر میں رسول اللہ ﷺ کے عشق ومحبت کے جام پلائے جاتے تھے۔


حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے : دنیا میں دو لوگ ہی قابل رشک ہیں ۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر اسے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا کردی ،اور دوسرا وہ آدمی جسے اُس نے علم دیا جس سے وہ حق فیصلہ کرتا ہے اور اسکی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے (بخاری شریف، کتاب العلم )۔یعنی مسند قضاء پر فائز ہوتے ہوئے وہ مخلوق خدا کے الجھاؤ کو سلجھاؤ میں بدلتے ہیں اور مسند تدریس پر فائز ہوتے ہوئے تشنگان ِ علم کو سیراب کرتے ہیں۔ آپ ؒ کے مے خانہ علم و حکمت کے بادہ خواروں کی فہرست بہت طویل ہے مگر اس میں سے چند سرخیل اصحاب علم و دانش جنہوں نے دنیا کو فیض یاب کیا ، اُن کے نام یہ ہیں :۔ شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف ؒجو عرصہ دراز تک مسجد نبوی ﷺ میں درس حدیث دیتے رہے۔ حضرت مولانا سید میر ؒ مدرس جامعہ معینیہ اجمیر شریف ۔ شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی ؒ کے استاد محترم حضرت مولانا غلام معین الدینؒ ۔ان کے علاوہ آپ کے بالواسطہ شاگردوں میں محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد ؒ ، شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی ؒ ، حضرت خواجہ عطا محمد بندیالویؒ اور حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ جیسے یگانہ روزگار اسلاف شامل ہیں۔

 

علمی قابلیت


مولوی احمد بخش صاحب ڈیروی جو ایک قابل دیوبندی عالم تھے۔ وہ ڈیرہ غازی خان کی مسجد اخوند میں پڑھاتے تھے ۔ ایک بار وہ کتاب ” مطول ” کا سبق پڑھا رہے تھے اور انہیں ایک مقام پر عبارت سمجھ نہیں آرہی تھی۔ تو ایک دن انہوں نے اپنے طلباء سے کہا کہ شاہ جمالی صاحب ایک قابل عالم دین ہیں وہ آج ڈیرہ غازی خان شہر میں تشریف لائے ہوئے ہیں ۔ تم لوگ ان کے پاس جاو اور ان سے مطول کا یہ مقام سمجھ کر آو ۔ طلبا ء کتاب بغل میں دبائے حاضر ہوئے ۔ اس وقت حضور شاہجمالی ؒ چائے نوش فرما رہے تھے۔ آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا مولانا کیونکر آئے ہیں ؟ انہوں نے عرض کی کہ ایک کتاب کا سبق سمجھنا ہے۔آپ نے فرمایا کون سی کتاب ہے ؟ انہوں نے عرض کی کہ آپ چائے سے فارغ ہو لیں پھر کتاب دیکھیں ، مشکل مقام ہے ، پہلے آپ پڑھ لی جئے گا پھر ہمیں سمجھائے گا۔ آپ ؒ نے فرمایا تم پڑھو میں سن رہا ہوں ۔ ایک طالب علم نے عبارت پڑھنی شروع کی ۔آپ نے فرمایا عبارت اس طرح نہیں ہے ۔ دوبارہ پڑھو۔ اس نے جب دوبارہ پڑھا تو آپ نے فرمایا مولانا عبارت غلط پڑھے رہے ہو پھر پڑھو چنانچہ اس نے تیسری بار بھی اسی طرح پڑھی ۔ آپ نے فرمایا کتاب مجھے دو ۔ آپ نے جب کتاب دیکھی تو فرمایا کہ کتاب کے دو صفحات ہی بیچ میں سے غائب ہیں جس کی وجہ سے تم سے غلطی ہورہی تھی اور اسی وجہ سے تمہیں اس مقام کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔تو پھر آپ ؒ نے غیر موجود دو صفحات زبانی لکھوا دئے اور عبارت اور سبق بمعہ چند اعتراضات مکمل سمجھادیا ۔

 

بیعت کی ابتداء


حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی ؒ نے آپ کو حکماً ارشاد فرمایا تھا کہ ” شاہ جمالی آپ بیعت کیا کریں “۔ مگر کسرِ نفسی کی وجہ سے آپ رکے رہے اور بیعت کرنا شروع نہ کیا ۔پھر ایک رات خواب میں حضور نبی رحمت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا ” اے شاہ جمالی اللہ بخش کو ہم نے کہا تھا کہ آپ کو بیعت کا حکم دیں “ ۔ اس طرح تصوف کا یہ اذن بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ملنے کے بعد آپ نے باقاعدہ بیعت کرنا شروع کیا ۔

 

تقوی


تقوی میں حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے نقش قدم پر چلے۔ بارہا عقیدت مندوں اور شاگردوں نے عرض کی کہ حضور کچھ تصنیف فرما دیں ۔ مگر جواباً ارشاد فرماتے “ ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی ایسی غلطی نہ ہوجائے جو بعد میں مریدین اور شاگردوں کے کے لئے سند بن جائے اور وہ عقیدت میں اس غلطی کو حق ثابت کرنے میں لگے رہیں ” ۔

 

اولاد


حضور شاہجمالی ؒ کے تین صاحبزادے حضرت خواجہ پیر غلام یسین شاہجمالی ، حضرت خواجہ پیر  محمد اکرم شاہجمالی، اور حضرت خواجہ پیر محمد اعظم شاہجمالی رحمھم اللہ تھے۔ ان میں آپ کے منجھلے صاحبزادے خواجہ پیر محمد اکرم شاہجمالی ؒ ایک صاحب نظر اور جید عالم دین تھے۔آپ ؒ نے شاہ جمالی ٹرسٹ قائم کیا۔جس کے زیر انتظام کئی مدارس خدمت دین میں مصروف ہیں۔   راقم الحروف کی بیعت بھی  حضرت خواجہ پیر محمد اکرم شاہجمالی ؒسے ہے۔حضور فیض محمد شاہ جمالی ؒ کی تین صاحبزادیاں بھی ہیں۔ 

 

وفات


آپ کا وصال8/رجب المرجب1364 ہجر ی،11 جون بمطابق 1945بروز پیر کو ہوا، مزار پر انوار ضلع ڈیرہ غازی خان میں مانہ احمدانی کے قریب قصبہ ” سند یلہ شریف ” مرجع خاص وعام ہے ۔


بندہ حق وارث پیغمبراں        ۔۔۔۔۔۔       او نہ گنجد در جہان دیگراں


تا جہان دیگرے پیدا کند        ۔۔۔۔۔۔        ایں جہان کہنہ را برہم زند


بندہ حق پیغمبروں کا وارث ہے وہ دوسروں کی بنائی ہوئی اور ظلم کے نظام پر مبنی دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا اور ایک عظیم الشان اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے وہ اس پرانے جہان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔

 

حضور شاہ جمالی ؒ پر آپ کے صاحبزادے اور میرے مرشد کریم حضرت خواجہ پیر محمد اکرم شاہجمالی ؒ نے ” فیض شاہجمالی” کے نام سے ایک چھوٹی کتاب تحریر کی ہے۔مزید تفصیل کے لئے وہ کتاب ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔