جمہوریت کی گود میں ریاستِ مدینہ کا خواب
…………………………………….
محمد ابوبکر صدیق
ہمارا وزیر اعظم کب سایئکل پر پارلیمنٹ جائے گا؟
یہ وہ سوال ہے جوعموما ً فکری ناپختگی کا شکار نوجوان اٹھاتے ہیں۔ میرا اُن سے سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم کے سایئکل پر پارلیمنٹ جانے سے ملک میں خوش حالی آجائے گی ؟ اس پر عرض ہے کہ جن ممالک میں وزیر اعظم ایک بارسائیکل پر پارلیمنٹ گیا تھا وہاں دہشت گردی کا جن ایسے کھلے عام نہیں تھا جیسے ہمارے ہاں ہے۔اور اس سوال پر بھی غور کی جئے گا اس دہشت گردی کے پیچھے کہیں انہی ممالک کی ہی فنڈنگ تو نہیں ؟ نیز ذرا یہ بھی دیکھ لی جیے گا کہ اس کے سائیکل پر جانے سےاُس دن وزیر اعظم کی سیکیورٹی کی مد میں اُن کے ملکی خزانے پر کتنا بوجھ پڑا تھا؟
جب دشمن زیادہ ہوں تو شریعت حکمران کے لئے حفاظتی اقدامات کی اجازت دیتی ہے ۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں اگرچہ جاسوسی نظام وہ نہیں تھا جو آج ہے اور نہ ہی موجودہ دور کے جدید ہتھیار جیسے کوئی ہتھیار تھے۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات بھی موجودہ زمانے کی مانند دگرگوں نہیں تھے۔ لیکن اُس کے باوجود ہمارے تین عظیم خلفائے راشدین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی شہادت قاتلانہ حملوں میں ہوئی جس کی ایک وجہ سیکیورٹی کا نہ ہونا بھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان دل اندوہ نقصانات کی بدولت فقہائے کرام نے مسلم حکمران کی حفاظت کے لئے انتظام کو شریعت کا حکم قرار دیا۔
جہاں تک حکومتی اللوں تللوں یعنی فضول خرچی کی بات ہے تو اس پر واقعی اقدامات لازمی ہیں۔ اب کیا کریں پارلیمنٹ میں پہنچنے والے آسمان سے تو اترے نہیں۔ بلکہ ہم میں سے ہی نکل کر وہاں پہنچے ہیں۔ ہم ٹھیک ہونگے تو وہ بھی ٹھیک ہونگے۔ ہم ٹھیک کیوں نہیں ہو پا رہے؟اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مذہباً مسلمان ہیں لیکن ہمارا اپنایا ہوا نظام ِ حیات مغربی ہے۔ ’’کانچ کا پیوند لگاو گے تو شاخوں پر کرچیاں ہی اگیں گیں‘‘۔ ایسے منافقانہ معاشرے میں ایسے ہی افرادکی کھیپ ہی تیار ہوتی ہے جیسی پارلیمنٹ میں پہنچی ہوئی ہے۔ووٹ دیتے وقت ہماری ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔
۔1۔ میرا تعلق دار جیتے بھلے کیسا ہی خبیث کیوں نہ ہو۔
۔2۔ میں یا میرا کوئی بھی رشتے دار کسی جرم میں پکڑا جائے تو میں جسے ووٹ دوں وہ مجھے چھڑائے۔
۔3۔ جسے میں ووٹ دوں وہ ہر حالت میں میرے مخالف پر ظلم کے پہاڑ توڑ دے خواہ وہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔
ہم ایسی ترجیحات کے ساتھ ووٹ دے کر سیاستدان منتخب کرتے ہیں اور سوچیں وہ سیاستدان کیسا ہو گا جو ہماری ان ترجیحات پرپورا بھی اترتا ہو۔ پھر خود فریبی میں مبتلا لوگ دعا یہ کرتے ہیں کہ اُن کے ووٹ سے اُ ن کا ملک مدینہ کی ریاست بن جائے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو پس پشت ڈالیں اور اخلاق باختہ، ظالم ، کرپٹ لوگ پارلیمنٹ بھیجیں اور پھر ان سے امید کریں کہ وہ صدیقی و فاروقی، عثمانی و حیدری کردار ادا کریں۔ پیشاب سے پھل دار درخت سیراب کرو گے تو ذائقہ بھی وہی ملے گاپیارے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم خود فریبی میں مبتلا ہواور یہ ہمارے معاشرے کی ایک کڑوی سچائی ہے۔
مغربی جمہوریت کی گود سے مغربی اقوام تو فوائد لے رہی ہیں پھر ہم کیوں نہیں لے پا رہے؟
اس سوال کا درست جواب ایک اور سوال میں مضمر ہے کہ کیا واقعی مغربی معاشرہ اپنی جمہوریت سے خواطر خواہ فوائد لے رہا ہے ؟ یا یہ صرف میڈیا کا ڈرامہ اور پراپگنڈہ ہے ؟ یہ محض ایک دھوکہ ہے اور کچھ نہیں۔اس پر غور کرنے سے قبل پہلے یہ طے کر لیں کہ جن ’’فوائد ‘‘ کی بات کی جارہی ہے اُن کی تعریف کیا ہے ؟ فائدہ ، کامیابی ، خوش حالی اور امن کہتے کسے ہیں ؟ آپ اگر مغربی فکر سے آگاہ ہیں تو جواب ملے گا ’’ انسانی خواہشات کی تکمیل‘‘ ہی وہ تصور ہے جو خوش حالی اور امن کی علامت ہے۔ اگر امن اسی تصور کا نام ہے تو پھر یہ تسلیم کرلیں واقعی مغرب کی دنیا کسی حد تک فوائد لے رہی ہے اور وہ اپنے خدا (خواہشات) کو راضی کر رہے ہیں۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ زیادہ بھیانک ہے کہ مغربی معاشرے میں مذہب سے دوری نے روحانی تسکین کا بیڑا غرق کردیا ہے۔جرائم کے اعدادوشمار بہت زیادہ ہیں۔ اگر فوائد کی تعریف وہ ہے جو مذہب فراہم کرتا ہے تو پھر مغرب سراسر گھاٹے میں ہے۔
مغرب کے گال کی سرخی کے پیچھے دیگر اقوام کے خون کی لالی شامل ہے۔بقول حضرت اقبال ؒ ’’ شفَق نہیں مغربی اُفق پر یہ جُوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے!‘‘۔
مغربی جمہوریت میں جسمانی تسکین کے فوائد کی قیمت مذہب سے آزادی ہے اور مغربی جمہوریت کی یہ اولین شرط ہے۔ وہاں اقتدار اعلی کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے۔ جبکہ اسلام میں مقتدر اعلی اللہ جل مجدہ کی ذات ہے۔انسان اُس کا نائب ہے۔مغرب انسان کو خدا سمجھ کر چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مطلق آزادی کے نام پر ہیومن رائٹس جیسے تصور سامنے آئے۔ ’’ میں جیسے چاہوں اور جو چاہوں کرسکوں ‘‘ کی خواہش انسان کا حق قرار پاتی ہےاور مغربی جمہوریت اُسے یہ حق دینے کا سارا زور لگاتی ہے۔ جبکہ اسلام کے نظام میں انسان اپنی خواہشات میں آزاد نہیں ہے، بلکہ یہاں تو خواہشات کو جائز و ناجائز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور پھر جائز خواہشات میں بھی خواہشات کی قربانی کا سبق ازبر کرایا جاتا ہے۔
ایسے میں کیا ایک مسلمان جسمانی تسکین کے حصول میں مغربی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو اپنا سکتا ہے؟
نہیں کبھی بھی نہیں کیونکہ اس کے لئے اُسے اپنے ایمان کی قربانی دینی پڑے گی۔اس لئے مسلمان مغربی جمہوریت سے کبھی بھی وہ فوائد حاصل نہیں کر سکتے جو مغرب لے رہا ہے۔اس لئے ہمیں فلاح (دنیا و آخرت کی کامیابی )کے لئے اپنے مذہب حق اسلام کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ وہ نظام جسے ہمارے اسلاف نے اپنا کر دنیا کی تاریخ میں اپنے زمانے کو ’’ گولڈن ایج‘‘ کے نام سے امر کر گئے۔اس لئے ہمیں بھی اپنے اسلامی نظام حیات کی طرف دیکھنا ہوگا جس میں فلاح کی امید نہیں بلکہ یقین دہانی ہے۔زندگی کے حقیقی مقصد کی پہچان کا سبق اپنی نسلوں کو دیں پھر دیکھیں عزتوں کے سارے رستے تمہارے قدموں میں ہونگے۔
لوٹ جا عہدِ نبیﷺ کی سمت رفتارِ جہاں
پھر میری پسماندگی کو اِرتقاء درکار ہے
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا
اسلام کچھ اور ہے اور جمہوریت کچھ اور ہے ۔ اس لیے خدارا اسلامی جمہوریت کا دھوکہ کبھی نہ کھائیے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1