زومبی جنریشن – شاخِ بریدہ
…………………………………….
محمد ابوبکر صدیق
یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور پڑھانے سے ایک بات تو سمجھ میں آگئی ہے کہ نئی نسل اسلامی تہذیب بالعموم اور پاکستانی کلچر بالخصوص پر تو تیار نہیں ہورہی۔ اردو زبان سے عدمِ واقفیت اور انگریزی زبان ایسی کہ جسے انگریز لطیفے سے کم نہ گردانیں والی کیفیت ہو چکی ہے۔یہ تجزیہ اس نئے نظام کے احباب کے لیے نہ صرف قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ناگواری کا باعث بھی ہوگا۔ لیکن ہم نے “اقبال کا ترانہ بانگ درا ہوگیا ” کے مصداق صدائے حق بلند کرنی ہے اور یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ میں لشکر یزید میں مثلِ حُر رہتا ہوں۔
یہ نئی نسل جو نہ تو ” کوے ” رہے اور نہ ہی کبھی ” ہنس ” بن پائیں گے۔ایسے لگتا ہے کہ چند دہائیوں بعد یہ قوم شاید اردو پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتی ہوگی۔ جسمانی طور پر تو یہ نسل ہماری ہے لیکن ذہنی طور پر یہ کسی اور کی نسل تیار کی جارہی ہے۔ اور اس میں بنیادی کردار اور اہم کردار جدید تعلیمی ادارے اور بے لگام میڈیا ہاوسز کا ہے۔
آگے چلنے سے پہلے قاری صرف اتنا ذہن میں رکھے کہ جو معاشرتی فساد , الحاد، فحاشی اور بے حیائی آج ہمارے زمانے میں ہے کیا یہ ہمارے بچپن یا باپ دادا کے زمانے میں تھی ؟ اگر جواب نہیں میں آئے تو پھرسوچیں آخر وہ کیا وجوہات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ اسی موضوع پر آگے گفتگو کی گئی ہے ۔
فی زمانہ چنداں کمیوں کے باوجود دینی مدارس کا وجود کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں جو اس گئے گزرے دور میں بھی ایسے اسکالر پیدا کر رہے ہیں جو قرآن و سنت، عربی ، اردو حتی کہ فارسی زبان پر بھی کافی حد تک عبور رکھتے ہیں۔فارسی زبان وہ زبان ہے کہ جس میں علم کا ایک سمندر سمیٹا پڑا ہے مگر آج ان کتابوں پر دھول اٹی پڑی ہے کہ جسے کسی نے کھول کر بھی نہیں دیکھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جومعاشرے کی لاکھ بے اعتنائیوں اور طعنہ زنیوں کے باوجود 1400 سال سے قرآن و سنت کا ورثہ آج ہم تک سنبھال کر لائے ہیں۔ اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ یہ وہ با کمال لوگ ہیں کہ جنہیں نہ تو ریاستی وسائل مہیا ہیں اور نہ ہی بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات۔لیکن پھر بھی زبان پر اللہ کا شکر جاری رہتا ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی معاشرے کے ایسے نوجوان کو ایک با کمال انسان بناتے ہیں جسے اس کے اپنے ماں باپ بالعموم اس لیے مدرسے چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ اسے جدید تعلیم حاصل کر کے جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کمانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ یہی مدارس اسی نوجوان میں وہ دل ،وہ جگر پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ علوم قدیمہ کے ساتھ علوم جدیدہ میں بھی جدید تعلیمی اداروں کے طلبہ کے برابر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو مختلف اضلاع کے سکینڈری اور انٹرمیڈیٹ کے بورڈز کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں توپتہ چلے گا کہ دینی مدارس کا رزلٹ ۹۵ سے ۱۰۰ فیصد کامیابی کا ہوتا ہے۔
وہ نوجوان جسے اپنے والدین نے کسی کام کا نہیں سمجھا ہوتا وہی نوجوان اپنے والدین کے قدموں کا دھوون پینے کو اپنی سعادت گردانتا ہے۔ ان کے سامنے اپنی آواز اونچی نہیں کرتا۔ دیگر رشتوں میں تقدس کا خیال اور معاشرے کے بڑوں کا احترام کرتا ہے۔ یہ آداب فرزندی مکتب کی کرامت کے ساتھ ساتھ صاحبِ کردار اساتذہ کی مبارک نگاہ کےطفیل نصیب ہوتے ہیں۔
جدید تعلیمی اداروں سے پیدا ہونے والی نئی جنریشن کی کیا تربیت ہے ؟ تربیت کس منہج پر ہے ؟ کیا آداب زندگی ہیں ؟ یہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا اشارہ دیتا چلوں کہ جیسے جیسے مغرب کی ابلیسی تعلیم اور ابلیسی کلچر کو اپنے تعلیمی اداروں اور زندگیوں میں لے کر آئے ہیں ویسے ویسے ہمارے معاشرے کی اقدار پامال ہوئی ہیں ۔ اولڈ ہاوسز جیسی لعنت میں اضافہ ہوا ہے۔ فحاشی و عریانی بڑھی ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ وہ قابل برداشت بھی ہوئی ہے۔مخلوط تعلیمی اداروں میں جو بڑھتی ہوئی اخلاقی اور سماجی تباہی ہے اس کے حقائق مخفی لیکن چشم کشا ہیں ۔ ایک ایسا ماحوال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح اس اسلامی معاشرے میں کنواری مائیں اور کنوارے باپ پیدا ہوجائیں۔ والدین کی دولت اڑا کر اولاد جوں جوں اعلی تعلیم یافتہ ہوتی جاتی ہے والدین کے لئے درد سر بنتی جاتی ہے۔ بالآخر وہی بیٹا کام آتا ہے جسے وہ مدرسے چھوڑ آئے تھے۔ اور اگر خوش قسمتی سے اس جدید نظام سے کوئی اچھا آدمی نکل بھی آئے تو اس میں کردار پھر اسلامی تعلیم کا ہی ہوتا جو اسے یا تو بچپن میں ملی ہوتی ہے یا پھر کبھی کبھار علما کی آواز کانوں پڑنے کے سبب حاصل ہوئی تھی یا پھر گھرانہ ہی مذہبی تھا۔
پرائمری، او لیول اے لیول کے انگلش میڈیم برینڈڈ تعلیمی ادارے جہاں انگلش بہتر کرنے کی آڑ میں کم سن اور کچے ذہن کے طالب علموں کو مغرب کے مصنفین کے وہ ناول پڑھائے جاتے ہیں جس میں ابلیسی نظام سے محبت اور مذہب سے دوری کا بیج بویا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کا بچہ کلیسا کی جانب بہت ہی نرم لیکن مسجد کا مولوی اسے وحشی دکھائی دیتا ہے۔ اپنے معاشرے کی حقیقی اقدار بھی اسے دقیانوسی اور مغرب کی عریانیت اسے آزادی لگنے لگتی ہے۔ ایسے تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ریوڑ کی نظر میں شیکسپیئر ، نپولین، ڈیکارٹ اور اس جیسے لوگوں کی تاریخ کافی حد تک پڑھی ہوتی ہے۔ امریکہ کیسے آباد ہوا؟ یورپ میں انقلاب کی روشن داستاں کیا ہے؟ الغرض اسلام کے علاوہ ہر فضول باب انہوں نے ازبر کیا ہوا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اگر انہیں کچھ یاد ہوتا ہے تو وہ یہ کہ سلطان محمود غزنوی ، محمد بن قاسم لٹیرے تھے۔ انہیں بائبل اور دیگر ملحد دانش وروں کے انگلش اقوال یاد ہوتے ہیں لیکن ایک آیت یا حدیث کا پوچھ لیں تو ان کی جیسے سیٹی گم ہوجاتی ہے۔ ان کی اکثریت کو تو اسلامی تاریخ کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ نسل جو اپنے عظیم ماضی سے شاخِ برید کی مانند کٹ چکی ہو، اور زومبیز کی طرح بے شعوری میں چلے جارہی ہو یہ سوچے سمجھے بغیر کہ “وہ کیا گردوں تھا جس کا میں ہوں اک ٹوٹا ہوا تارا ” ، کیا خاک اگلی نسلوں کی قیادت کے اہل ہوگی۔ بقول اقبال
نئی بجلیاں کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہو جن کی آستین خالی
لبرل طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود کو مسلمان بھی کہلوانا چاہتا ہے لیکن مغربی روشن خیالی کا لبادہ بھی اوڑھے رکھنا چاھتا ہے۔ اس لیے انہیں قرآن و سنت کی صرف وہ تعبیر و تاویل ہی پسند آتی ہے جس میں انہیں یہ اجازت مل جائے کہ ایک ہاتھ میں قرآن تو دوسرے میں جامِ شراب رہے۔مسجد میں بھی اُن کے سجدے ہوتے رہیں اور کلیسا میں بھی حاضری لگتی رہے۔ شرعی احکام کی ایسی نادر تعبیر پیش کرنے والے لوگ ہی ان کے نزدیک حقیقی اسکالر اور روشن خیال عالم کہلاتے ہیں اور ان کے علاوہ باقی سب علمائے شریعت کو وہ دقیانوسی مولوی کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ ان کی دانش کی مثال یہ ہے کہ بھلے انہوں نے بھولے سے بھی کبھی قرآن نہ پڑھا ہو لیکن شرعی معاملے پر اصولوں کے خلاف وہ یوں زبان درازی کریں گے جیسے ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں اور اپنی ہر اول فول کو ایک دلیل قرار دیں گے اور “علمائے شرعیت سے کہیں گے کہ وہ اُن سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان سے زیادہ شریعت جانتے ہیں”۔ ایک طرف ان خودساختہ روشن خیال لبرلز کا یہ رویہ ہے دوسری جانب ان کا یہی رویہ یک سر الٹ جاتا ہے جب علما ئے حق علم اور درک رکھنے کے باوجود دنیوی امور میں اگر اپنی رائے پیش کریں تو انہی لبرلز کی زبانیں آگ اگلنے لگ جاتی ہیں اور آنکھوں خون اتر آتا ہے کہ جیسے علمائے حق نے اُن کی دُم پر پاؤں رکھ دیا ہو۔ یہ نام نہاد روشن خیال لبرل طبقہ ایسے دوغلے رویوں کا سراپا ہے۔اور علماء ایسوں سے ” قالوا سلاما ” کہتے ہوئے کنارہ کر جاتے ہیں۔
لبرل طبقے کو اسلاف علمائے حق اور مدارس سے اصل تکلیف ہی یہی ہے کہ ان مردان حق نے نئی نسلوں میں اسلام کی چنگاری سلگائے رکھی اور یہ سلسلہ ہر زمانے میں جاری رہا ہے ۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ انگریزوں نے کیسے اس قوم میں میر صادق و میر جعفر پیدا کیے۔ کیسے اپنے لئے ذہن سازی کرنے والے دماغ اور قلم خریدے ۔ کیسے علماء کا قتل عام کرایا ، مدارس ختم کروا دیے۔ لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ حق کی تعلیم سینہ بسینہ چلتی رہی اور یہی چنگاری پھر سے شعلہ بن کر ابھری۔ آج پھر انہی درویش صفت علما کو چیلنج کا سامنا ہے ۔ اُسی عیار کی سازشوں کے تانے بانے بننے والے نئے میر جعفر و میر صادق شاید نہیں جانتے کہ یہ درویش صفت علما آج بھی مدارس میں سخت کوشی اور سخت جانی کی جو تربیت پاتے ہیں جس کی شاید ہوا بھی ممی ڈیڈی تعلیم والوں کو نہیں لگی ہوتی ۔ یہ مضبوط اعصاب کے لوگ اسلامی تہذیب کے ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے ہزار راستے جانتے ہیں۔
بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو فرق ہے مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
کسی صاحب درد کے الفاظ ہیں جو یہاں نقل کر رہا ہوں آج کے دور کی بصیرت نے میری بصارت اندھی کر چھوڑی ہے۔ میرا ہرآنے والا دن پہلے سے زیادہ ڈروانا اور بھیانک ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوچکا۔ بیٹی حقوق کی جنگ میں اپنے ہی باپ کو عدالت کے کٹہر ے میں کھینچ لائی۔چادر زینب کے تقدس کی امین نے سارے پردوں کو چاک کر کے مرد کے شانہ بشانہہو نے کو اپنی عظمت گردان لیا۔ اپنی روایت اور مذہبی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر وہ اپنے لباس میں بے لباس گھومتی ہے۔ اسے نمائش کی وہ چاٹ لگ گئی کہ چند اخباری تصویروں کے لئے وہ کسی بھی سیاسی میراتھن میں دوڑ سکتی ہے اورحقوق انسانی کی ڈفلی پر کوئی اسے بہکاکر کسی بھی طرح نچوا سکتی ہے۔ اسکا دوپٹہ اس کے سر سے اتر کر گلے کا پھندا بن چکا ہے۔ حیا کی لالی میڈوراکے غاروں تلے جا چھپی ہےا دوپٹہ اس کے سر سے اتر کر گلے کا پھندا بن چکا ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ نظام جو عورت کو کاروبار کا اشتہار بنا کررکھ دے ۔ ہمیں نہیں چاہئے وہ ترقی جو ترقی کے نام پر حیا کی چادر کو تار تار کرتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ انصاف جو مختارائیں پیدا کرے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ نصاب جو ہمیں اپنے مذہب سے بے گانہ کر دے۔ نہیں چاہیے وہ کتاب جس پر الکتاب کا سایہ نہ ہو۔نہیں چاہیے وہ قلم جو چندپیسوں کے عوض امیرِ شہر کے قصیدے لکھتا ہے۔ نہیں چاہیے وہ معاشرہ جس میں عدل پیسوںکا محتاج ہے۔ نہیں چاہئے وہ طریقہ امتحان کہ امتحان سے پہلے ہی جس کےسوالنامے ردی میں بک جاتے ہیں۔ نہیں چاہیے وہ شہرت جو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہ کر سکے۔ نہیں چاہیے وہ حمیت جو المسلم اخوالمسلم کے نعرے سن کر بھی بیدار نہیں ہوتی ۔ نہیں چاہیے وہ نصیحت جو عمل سے خالی ہے۔ نہیں چاہیے وہ علم جس کاداعی خود اندھا ہے۔ آنے والے وقت کے سرابوں میں الجھا کر ہماری گزشتہ منزل بھی ہمچھین لی گئی۔ ہم کس معاشرتی ترقی کی بات کر تے ہیں ؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھاکہ جس میں باپ کی طرف محبت کی نگاہ کر نے والوں کو حج کے ثواب کا عندیہ ملے یا پھر یہ معاشرہ اچھا ہے جس میں باپ کو کچرے کا تھیلا سمجھ کر گلی کےنکڑ کے تھڑے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں ماں کےقدموں تلے جنت کی بشارت رکھی گئی تھی۔ یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے جس میں بوڑھی ماں کو اولڈ پیپلز ہوم کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ہم کس عدل و انصاف کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں جرم کی سزا بلا امتیازِ حسب و نسب دی جاتی ہے یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے جس میں اقربا ء کی کو تاہیوں کومصلحتوں کی غلاف اوڑھے جاتے ہیں۔ ہم کس اخلاقیات کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں خریدار کو بیچنے سے پہلے مال کے نقائص بیا ن کئےجاتے تھے یا پھر یہ زمانہ اچھا کہ خراب مال پر بہت اچھا کی مہریں لگا لگاکر گاہکوں کو لوٹ لیا جا تا ہے۔ ہم کس جنگ کی بات کرتے ہیں ! کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں شہر کے شہر بغیر کسی قطرہ خون بہائے فتح کر لئے جاتے ہیں یاپھر یہ زمانہ اچھا ہے کہ جہاں لاکھوں کی آبادی کولقمہ اجل بنا دیا جائے۔
علاج کیا ہے؟
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
حضرت علامہ اقبال ؒ نے بیماری کی تشخیص اور علاج دونوں کی جانب کچھ یوں اشارہ کیا تھا
وہی دیرینہ بیماری ، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
چودہ صدیاں قدیمی قرآن و سنت کا نظام ہی تمہاری جدید بیماری کا علاج ہے۔اپنی زبان کو اپنائیے ، اپنی اسلامی تہذیب کو اپنائیے ،اپنی معاشرتی اقدار کو اپنائے۔مغرب کی جدید تعلیم پر قرآن و سنت کی چھاننی لگائیے ۔ اچھا حصہ اپنا لیں اور اس کی غلاظت و گندگی باہر پھینکیں۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گرد شِ ایام تو کہ آج پھر میری اذان کو روح بلالی کی تلاش ہے۔آج پھر میری اکھیوں میں پیا ملن کی آس ہے۔ میری پلکیں اسی راہ کی گرد چننا چاہتی ہیں جس راہ کی مٹی نے میرے محسن ﷺکے قدم چومے تھے۔
لوٹ جا عہد نبوی ﷺ کی سمت اے رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقا ء درکار ہے
………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1
Sir G Allah kreem Apko hamesha salamt rakhy…
Dil khush hogyaa