مغرب سے امپورٹ بھی کیا تو کیا؟
محمد ابوبکر صدیق
لیکچرر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
21 – 11 -2020
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب سے مراد جغرافیائی مغرب نہیں بلکہ اس سے مراد اسلام کے مقابل یہود و نصاری کی تہذیبی و تمدنی فکر مراد ہے۔ ہمارے ہاں سیکولر، لبرلز، الحادی فکر اور دین بیزار احباب شور بپا کئے رکھتے ہیں کہ مغرب کی دنیا سائنس میں ترقی کر گئی اور ہم پیچھے رہ گئے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ’’دینی مدارس‘‘ ہیں۔ آئیے ذرا اس امر کا تجزیہ تو کریں ۔ سب سے پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈھیں کہ: پاکستان کے بننے سے اب تک کتنے مدراس کے کتنے لوگ حکمران رہے ؟ پالیسی ساز ادارے کے سربراہ یا ممبر رہے؟ جواب ہے ایک بھی نہیں۔ جمہوری حکمران ہوں یا فوجی آمر سب جدید یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے تھے۔ بلکہ اکثر خود اور ان کی اولادیں مغرب کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے۔ پالیسی ساز کمیٹی کا ممبر ہونے کی سب سے بڑی اہلیت ہی یہ ہے کہ بندہ مذہب بیزار و لبرل ہو۔
مولوی بے چارا نہ تو پالیسی ساز رہا اور نہ کبھی حکمران اور وہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ صرف مولوی ہونا ہی بڑے مناصب کے لئے نااہلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ایک مسلمان صرف اس لئے ہائی کورٹ کا جج بننے سے ناہل قرارپایا کہ وہ ’’ حافظ قران ہے‘‘۔لیکن اس سے بھی بڑے عدالتی منصب کے لئے رانا بھگوان داس ایک ہندو اہل قرار پاتا ہے اور وہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن جاتا ہے۔جہاں صرف حافظ قران بندہ چیف جسٹس نہیں بن سکتا وہاں مولوی کے لئے حکمران ہونا تو دور کی بات ہے۔ اس سب کے باوجود ساری بے اعتدالیوں کا ذمہ دار وہ مولوی ہی ہے! یا للعجب۔چلیں فرض کی جئے مان لیا کہ ہماری پستی کا سبب مولوی ہے۔ لیکن آئیے ذرا اس طرف بھی سوچیں کہ جن کے ہاتھ زمامِ اقتدار رہی انہوں نے ترقی لانے کے لئے کیا کردار ادا کیا؟ جواب ہے کہ انہوں نے اپنی پسندیدہ اور محبوب تہذیب مغرب کے سامنے کاسہ لیسی کی ۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے مغرب سے کیا امپورٹ کیا؟ لبرلز کی جانب سے اس کا عمومی جواب یوں دیا جاتا ہے کہ ’’ مولوی ‘‘ کے ڈر سے امپورٹ ہی نہیں کیا جا سکا ۔ پھر سوال یہ بنتا ہے کیا واقعی ایسا ہے ؟ اس کا جواب ایک اور سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ: مولوی کو مغرب سے کس چیز کی امپورٹ پر اعتراض ہے؟ مولوی کو مغرب سے درامد کی جانے والی بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے دینی و الحادی فکر پر اعتراض ہے۔ مولوی نے تو سائنس کی درامد پر کبھی اختلاف و احتجاج کیا ہی نہیں۔ ارباب اقتدار ( لبرلز سیکولر ملحد دین بیزار) نے مغرب سے صرف امپورٹ ہی وہ کیا جس پر مولوی کو تحفظات تھے اور سارا زور ہی اسی تہذیب و تمدن کے فروغ پر لگایا ۔ بظاہر یہی طبقہ جو سائنسی علوم و ایجادات کی رٹ لگاتا تھا جس پر مولوی معترض ہی نہیں تھا اس کو تو بھولے سے بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور تجربہ گاہوں تک آنے ہی نہیں دیا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوجاتا تو امت مسلمہ طاقت ور بنتی ، ترقی کرتی۔اور یہ ان کے مغربی آقاوں کو کب گوارا تھا۔ اس لئے بڑے پلان کے منصوبہ سازوں نے طریقہ کار ہی یہ اپنایا کہ ’’راگ سائنس و ایجاد کا الاپو لیکن مہیا عریانی فحاشی بد کاری اور بے دینی کا سامان کرو‘‘۔ اور جب مولوی اس کی مخالفت کرے تو فورا رونا پیٹنا شروع کردو کہ دیکھیں مولوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
مغرب کی یہودی و عیسائی دنیا کن مراحل سے گزر کر ترقی کی منزل پر آج پہنچی ہے وہ یہ ہیں۔
۔1۔ الحاد ، لادینیت اور مذہب بیزاری
۔2۔ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار
۔3۔ مطلق آزادی کا صرف تصور ( جو عملا کبھی بھی نہیں دی گئی)۔
۔4۔ عریانی، فحاشی بے حیائی کا فروغ
۔5۔غیر مغربی اقوام کی تحقیر و تذلیل
نوٹ: یہ سب مرحلے طے کرنے کے باجود مغرب کا قانون یہودی و عیسائی عقائد و اخلاق پر مبنی ہے۔ مثلا امریکہ کا صدر غیر عیسائی نہیں ہوسکتا۔ سیکولر اور انسانیت کو مذہب ماننے والے دریوزہ گروں کے اپنے لیے قوانین یہ ہیں۔ اور ان کے ذہنی غلام ہم سے کہتے پھرتے ہیں کہ پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم صرف مسلمان ہی کیوں ؟ غیرمسلم کو بھی یہ منصب ملنا چاھئے ۔وہ رات دن اسی نظریاتی بے راہ روی کا پرچار کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ اور اسے پاکستان کی ترقی کی ضمانت گردانتے ہیں۔ ’’ مولوی ‘‘ کو اسی سے تکلیف و اذیت ہوتی ہے اور وہ اسے برداشت نہیں کرتا۔ تو لبرل طبقہ فورا فورا سائنسی ترقی کو بنیاد بنا کر شور کرنا شروع کر دیتا ہے: ’’دیکھو مغرب سائنس میں ترقی کر گیا جبکہ ہمارا مولوی ترقی کے خلاف ہے۔‘‘ حالانکہ مولوی بے چارا سائنس کی ترقی کے خلاف نہیں بلکہ سائنس کے نام پر درامد کی جانے والی ’’ تہذیبی و تمدنی اور اخلاقی بیماریوں ‘‘ کے خلاف ہے۔ نشانی کے طور ہمارے اعلی مخلوط تعلیمی اداروں اور تعلیمی نصاب کو ملاحظہ کر لی جیے پھر میڈیا کے ذریعے معاشرے میں پھیلتے بے حیائی عریانی و فحاشی کو بھی دیکھ لیں کہ مولوی کے تحفظات کس حد تک درست ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1