سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام دریں مسئلہ کہ موجودہ زمانے میں کسان لوگ آڑھت والے کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنی پیداوار جیسے سبزیات اور پھل اُن کی آڑھت کو فروخت کریں گے ۔ لیکن انہیں اپنی ضروریات کے لئے رقم چاھئے تو آڑھتی انہیں وقفے وقفے سے بقدر ضرورت کچھ نہ کچھ رقم دیتے رہتے ہیں۔ کسان جب اپنی سبزیاں یا پھل اُن کی آڑھت پر لاتا ہے تو وہ دی گئی رقم اُن کی سبزی اور پھلوں کی قیمت میں ایڈجسٹ کرلی جاتی ہے۔ کیا شرعی اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے؟


مندرجہ ذیل جواب در اصل اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی ؒ کے ایک فتوی کی تشریح ہے۔ اصل فتوی مختصر ہے جس کی تصویر سامنے والے بکس میں دیکھ سکتے ہیں۔


جواب

اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلیؒ نے اپنے اس فتوی میں دو صورتوں کو بیان کیا ہے۔ تاہم بیع سلم کی تیسری صورت بھی فرض کی جاسکتی ہے۔ ان  دونوں صورتوں پر جو اعلی حضرت نے جو حکم شرعی بتایا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

استفتاء میں پوچھے گئے مسئلے کی درج ذیل ممکنہ صورتیں ہیں:

1۔ آڑھت کے مالک کسان کو اس شرط پر قرض دیتے ہیں کہ وہ اپنی سبزیاں اور پھل اُنہی کی آڑھت کو فروخت کریں گے:

ایسا کرنا شرعا ًناجائز و حرام ہے کیونکہ اس میں بیع یعنی خرید و فروخت کے معاملے کو قرض کے ساتھ مشروط طور پر جمع کیا گیا ہے اور اس  معاملے کی حرمت پر  واضح طور پر حدیث مبارکہ  موجود ہے ۔امام اسماعيل بن جعفرؒ (۱۸۰ھ) نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت  نقل کی ہے:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ، وَعَنْ شَفِّ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَعَنْ بَيْعٍ وَسَلَفٍ

( رسول اکرم ﷺ نے ایک ہی سودے میں دو سودے کرنے، نقصان کی ذمہ داری کے بغیر نفع لینے، اور بیع و قرض کے جمع کرنے سے منع فرمایا)۔

[اسماعيل بن جعفر (۱۸۰ھ)، حديث علي بن حجر السعدي عن إسماعيل بن جعفر المدني، (مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، الرياض، ۱۹۹۸)، حدیث نمبر: ۴۲۶]

امام احمد بن حنبل ؒ (۲۴۱ھ) نے اپنی مسند میں  حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت  نقل کی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ

(حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرض اور بیع کو [جمع کرنا]، اور ایک بیع میں دو شرطیں لگانا، نقصان کی ذمہ داری کے بغیر نفع لینا اور غیر مملوکہ چیز کو فروخت  کرنا جائز نہیں ہے)۔

[مسند الإمام أحمد بن حنبل ،(مؤسسة الرسالة، بیروت، ۲۰۰۱)، حدیث نمبر: ۶۶۷۱] ،

امام ابوعیسیٰ ترمذیؒ (۲۷۹ھ) نے اسے روایت کیا ہے اور حسن صحیح کہا ہے۔ امام ابوداود ؒ (۲۷۵ھ) ، امام نسائی ؒ (۳۰۳ھ) ،اورامام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔

[الترمذی،  الجامع الترمذي،(شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر، ۱۹۷۵) حدیث نمبر:۱۲۳۴]- [سنن أبي داود،(المكتبة العصرية، بيروت)، كتاب البيوع، حدیث نمبر: ۳۵۰۴][السنن الصغرى للنسائي، (مكتب المطبوعات الإسلامية ،حلب، ۱۹۸۶)،كتاب البيوع، حدیث نمبر: ۴۶۳۰]-[البيهقي،السنن الكبرى، (دار الكتب العلمية، بيروت، ۲۰۰۳) كتاب البيوع ،حدیث نمبر: ۱۰۴۱۹]

 

2۔ آڑھت کے مالک کسان کو سبزی اور پھل  کی ایڈوانس قیمت ادا کرتے ہیں:

یہ بیع سلم کی صورت بنتی ہےاوریہ جائز ہے بشرطیکہ بیع سلم کی مد میں فروخت کی جانے والی سبزی /پھل کی مقدار، کوالٹی ، قیمت ،فروخت کی جانے والی چیز کی  تاریخ حوالگی  پہلے سے باقاعدہ عقد کے تحت طے شدہ ہو۔ صاحب ہدایہ امام المرغینانی (۵۹۳ھ) فرماتے  ہیں:

أنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم …قال: وهو جائز في المكيلات والموزونات لقوله عليه الصلاة والسلام: من أسلم منكم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم.

حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسی چیز کی بیع سے منع فرمایا ہے جو انسان کے پاس نہ ہو جبکہ بیع سلم کے معاملے رخصت دی ہے ۔۔۔اور صاحب ہدایہ کہتے ہیں کہ بیع سلم  صرف ناپی اور تولی جانے والی اشیاء میں ہوسکتی ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بیع سلم کرے تو وہ ایسے سلم کرے کہ اس کا کیل معلوم ہو یا وزن معلوم ہو اور مدت بھی معلوم ہو۔

[ المرغینانی، برہان الدين علی بن ابوبکر (۵۹۳ھ) ، الهداية في شرح بداية المبتدي، (دار احياء التراث العربي، بيروت) ، كتاب البيوع ، ۳: ۷۰]

یعنی ناپی جانے والی چیز کو ناپ کر جیسے صاع معلوم ہوں کہ کتنے صاع گندم ، اور اگر چیز وزن کر کے فروخت ہوتی ہے تو اس کا وزن معلوم ہو کہ مبیع کا کتنا وزن دیا جائے گا اور مدت سے مراد یہ ہے کہ مبیع کب خریدار کے حوالے کی جائیگی ۔ قران و سنت کی روشنی میں فقہائے اسلام نے بنیادی اصولوں پر اتفاق  کیا ہے۔

واتفق أئمة المذاهب على أن السلم يصح بستة شروط: وهي أن يكون في جنس معلوم، بصفة معلومة، ومقدار معلوم، وأجل معلوم، ومعرفة مقدار رأس المال، وتسمية مكان التسليم إذا كان لحمله مؤنة ونفقة.

تمام مسالک کے آئمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بیع سلم چھے شرائط کے ساتھ درست ہوتی ہے: مبیع کی جنس، کوالٹی، مقداراور مدت حوالگی معلوم ہو، اور راس المال یعنی قیمت معلوم ہو ، اور مبیع کی حوالگی کی جگہ کا تعین بھی کیا گیا ہو اگر خریدی گئی چیز کے اٹھانے میں کوئی محنت اور اخراجات کا امکان ہو۔

[الزحیلی،   وھبہ(۲۰۱۵)، الفقه الاسلامی و ادلّته، (دار الفكر، دمشق)، كتاب البيوع، ۵: ۲۶۹]

مروجہ نظام میں آڑھتی حضرات اگر یہ چھ شرائط مکمل کرتے ہیں اور کسی ایک شرط کو بھی نامکمل نہیں چھوڑتے تو پھر کسانوں کو رقم دینےکا یہ معاملہ جائز قرار پاتا ہے۔ اگر وہ کسی ایک بھی شرط کو پورا نہیں کرتے جیسے سبزی یا پھلوں کی قیمت کو مقرر ہی نہیں کرتےیا مقرر تو کرتے ہیں لیکن مکمل قیمت کی ادائیگی  ایڈوانس میں نہیں کرتے اور کچھ قیمت کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں یا سبزی اور پھلوں کی مقدار ہی مقرر نہیں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ جتنی بھی مقدار ہو لے آنا۔ ان ساری صورتوں میں یہ معاملہ ناجائز ہوگا۔

3۔ آڑھت کے مالک کسان کوجو   رقم دیتے ہیں وہ قرض علی الحساب  کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

’’علی الحساب  ‘‘ تجارت کی ایک اصطلاح ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق اپنی  مختلف وقتی ضروریات و حاجت کے مطابق   دوسرے فریق سے گاہے بگاہے کچھ رقم لیتا رہتا ہے اورساتھ ہی ساتھ  وہ دوسرے فریق کو کچھ سامان بھی  فروخت کرتا رہتا ہے ۔فریقین میں اس پر پہلے سے تواطؤ  موجود ہوتا ہے یعنی  اُن کا   اتفاق ہوتا ہے  کہ ایک مقررہ مدت جیسے ہر ماہ کی  فلاں تاریخ کو حساب کتاب کر لیا کریں گے کہ ایک فریق  کتنی رقم لے چکا  اور دوسرا فریق کتنی قیمت کا مال وصول کر چکا ۔ اس طرح جس کے ذمے جو بچتا ہوگا وہ دوسرے فریق کو ادا کرے گا۔ تجارت کے عرف میں یہ جائز ہے ۔ البتہ جب جب فریقین کے مابین سبزیوں اور پھلوں کی بیع ہوگی توہر  بیع کے وقت باقاعدہ قیمت کا تعین کیا جائے گا۔اس بات کی اجازت قطعاً نہیں کہ وہ یہ ’’علی الحساب  ‘‘ دی جانے والی رقم ایسا قرض ہوتا ہے جس میں ’’ مستقبل کی بیع ‘‘ کی شرط لگانا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ تجار کے ہاں ایک معروف شرط ہے۔ اس طور پر رقم دینے والے خریدار کا مقصد قرض دینا بھی نہیں ہوتا  بلکہ اُسے علم ہوتا ہے کہ مستقبل کی بیع کے نتیجے میں ایک خاص قیمت ادا کرنا ہوگی اور اس کی ادائیگی میں یہ رقم ایڈجسٹ ہوگی اور اس طرح وہ مستقبل میں اُس  ذمہ داری سے بآسانی  فارغ ہوجائے گاکیونکہ اُسے یک مشت ایک ہی بار بڑی رقم نہیں دینا پڑے گی۔ اس لئے یہ ایک ایسے قرض کی صورت بن جاتی ہے جس میں  مستقبل کی بیع کو بطور شرط ذکر کیا جاتا ہے۔ اب کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قرض اور بیع کو اس طرح مشروط طور پر جمع کرنا جائز نہیں جیسا مندرجہ بالا بحث میں وضاحت ہوچکی تو پھر یہ معاملہ کیونکر جائز ہوگا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ معاملہ صرف قرض کا نہیں ہے۔ بلکہ ایسے قرض کا ہے جس کا دَین مستقبل  کی بیع کی  قیمت میں  ایڈجسٹ ہوجائے گا، گویا کہ اس میں مقاصہ کی صورت در آتی ہے ۔  چنانچہ ایوفی شریعہ اسٹینڈرڈز میں ہے :

Stipulating set-off between the customer and the Institution in respect of debts to the Institution arising out of sales on deferred payment. The agreement on contractual set-off of future debts, commonly known as set-off and consolidation, is a practice employed by a large number of financial Institutions

ادارہ اور صارف ادھار کی خرید و فروخت میں واجب ہونے والے دیون میں مقاصہ کو شرط قرار دے سکتے ہیں، جیسا کہ اکثر اداروں میں اس طرح کا مقاصہ کرنے کا معمول ہے جو کہ set off and consolidation کے نام سے معروف ہے۔

(Shari’ah Standard No. (4), Settlement of Debts by Set-Off, Clause: 4/1)

۔ لہذا یہ ایک ایسا قرض ہو گیا جس کے اندر بیع کی شرط متعارف ہے، اور ایسی شرط جو متعارف ہو جائے وہ حنفیہ کے نزدیک جائز ہوتی ہے اگرچہ وہ شرط مقتضاء عقد کے خلاف ہو جیسے اس شرط کے ساتھ جو تا خریدنا جائز ہے کہ بائع ان کو برابر کر کے دے گا۔ جیسا کہ محقق علی الاطلاق علامہ ابن ہمام ؒ فرماتے ہیں:

لَا يَقْتَضِيهِ وَلَيْسَ مِمَّا ثَبَتَ كَذَلِكَ لَكِنَّهُ مُتَعَارَفٌ كَشِرَاءِ نَعْلٍ عَلَى أَنْ يَحْذُوَهَا الْبَائِعُ أَوْ يُشْرِكَهَا فَهُوَ جَائِزٌ

(کمال الدین ابن ہمام (۸۶۱ھ)، فتح القدیر ، دار الفكر، ۶: ۴۴۳)

اس صورت میں اس معاملے پر  ’’بیع الاستجراربمبلغ مقدم ‘‘ یعنی ’’ثمن مقدم کے ساتھ بیع استجرار‘‘کے احکام لاگو ہونگے ۔

 

هذا عندي وما توفيقي الا بالله العلي العظيم

 

ڈاکٹر محمد ابوبکر صدیق

یکم رمضان المبارک، ۱۴۴۴ھ بمطابق مارچ ۲۳، ۲۰۲۳

absiddique111@gmail.com

http://islamicfina.com/

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام دریں مسئلہ  کہ  زید نے بکر سے اس شرط پر۰۰ ۵۰۰روپے  مانگے کہ میں فصل کٹنے پر  ۲۵۰ کلو گرام گندم  دوں گا اور خالدنے بکر سے ۵۰۰۰۰ روپے اس شرط پر مانگے کہ بازار میں جو گندم کا نرخ ہوگا اس حساب سے ۵۰۰۰۰ روپے کی   جتنے کلوگرام  گندم  بنتی ہوگی دونگا۔

بکر نے کہا : اِس وقت تو میرے پاس  رقم  نہیں ہے البتہ  تم دونوں آج کے نرخ (۲۰۰ روپے فی کلو) کے حساب سے دونوں شخص پچاس پچاس ہزار روپے کی گندم لے جاؤ ۔دونوں شخص رضامندی سے اپنی اپنی  طے کردہ شرائط بالا  پر گندم لے گئے اور مارکیٹ میں  فروخت کرکے پچاس پچاس ہزار روپے حاصل کئے اور اپنے مصرف میں لے آئے۔ ایک ماہ بعد زید نے  حسبِ وعدہ فصل کی کٹائی پر ۲۵۰ کلو گرام گندم  اور خالد نے حسبِ وعدہ  نئے مارکیٹ کے نرخ (۱۸۰ روپے فی کلو )  کے حساب  سے تقریبا  ۲۷۷ کلو گرام واپس کی ۔ کیا یہ معاملہ شرع کے اصولوں کے مطابق ہوا؟  نیز یہ بھی بتائیے کہ اگر بکر زید اور خالد دونوں کو انہی کی شرائط کے مطابق گندم کی بجائے رقم دیتا تو کیا ایسا کرنا جائز ہوتا یا نہیں؟


مندرجہ ذیل جواب در اصل اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی ؒ کے ایک فتوی کی تشریح ہے۔ اصل فتوی مختصر ہے جس کی تصویر سامنے والے بکس میں دیکھ سکتے ہیں۔


جواب

یہ صورت مسئلہ بنیادی طور پر ۳ نکات پر مشتمل  ہے ۔

۱۔ زید نے بکر سے اس شرط پر۰۰ ۵۰۰روپے  مانگے کہ میں فصل کٹنے پر  ۲۵۰ کلو گرام گندم  دوں گا۔

۲۔ اور خالدنے بکر سے ۵۰۰۰۰ روپے اس شرط پر مانگے کہ بازار میں جو گندم کا نرخ ہوگا اس حساب سے ۵۰۰۰۰ روپے کی   جتنے کلوگرام  گندم  بنتی ہوگی دونگا۔

۳۔  ایک ماہ بعد زید نے  حسبِ وعدہ فصل کی کٹائی پر ۲۵۰ کلو گرام گندم  اور خالد نے حسبِ وعدہ  نئے مارکیٹ کے نرخ (۱۸۰ روپے فی کلو ) کے حساب سے ۲۷۷ کلو گرام واپس کی۔

 

یعنی صورت مسئلہ میں بکر دائن ہے جبکہ زید اور خالد مدین یعنی مقروض ہیں ۔زید اور خالد  نے بکر سے اُس وقت کے بیان کردہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق پچاس ہزار روپے  کے بدلے  گندم وصول کی جو کہ ۲۵۰ کلوگرام بنتی ہے۔ لہذا زید اور خالد پر ۲۵۰ کلوگرام کا دَین واجب الاداء ہوتا ہے۔

 زید نے جب کہا کہ وہ فصل کی کٹائی پر ۲۵۰ کلو گرام گندم  دے گا اور اس بات کو بکر نے قبول کیا ۔ تو یہ  سمجھا جائے گا کہ گویا دونوں  نے باہم رضامندی سے  ۲۵۰ کلو گرام گندم    کی قیمت پچاس ہزار روپے مقرر کر لی ۔ لہذا شرعاً زید پر مبلغ پچاس ہزار روپے یا ۲۵۰ کلو گرام گندم کا دین واجب ہوگیا۔ چونکہ زید نے حسب ِوعدہ ۲۵۰ کلو گرام گندم    واپس  کی ہے اس لئے اس کا معاملہ جائز ہے۔ کیونکہ جتنی مقدار گندم دین لی تھی اتنی مقدار ہی واپس کی ہے۔ لہذا یہ معاملہ سود سے پاک ہے۔

 جبکہ اس کے برعکس خالد نے ۲۵۰ کلوگرام گندم بطور دَین لی تھی اور واپسی  کے لئے جو شرط مقرر کی تھی کہ مستقبل میں جو ریٹ ہوگا اُس کے مطابق پچاس ہزار روپے کی گندم دے گا۔ اس شرط کی بدولت دو برائیاں در آئیں اول غرر کیونکہ مستقبل میں گندم کا کیا ریٹ ہوگا یہ مخفی ہے۔ دوسری  برائی سود ہے کہ اگر مستقبل میں مارکیٹ ریٹ کم ہوجاتا ہے  تو وصول شدہ  گندم (۲۵۰ کلوگرام)کی نسبت  زیادہ مقدار (۲۷۷ کلوگرام)میں گندم ادا کرنا ہوگی  جیسا کہ خالد نے کی۔ اس لئے بکر کا  ۲۷ کلوگرام اضافی گندم کی مقدار لینا سود ہونے کی بدولت  حرام و ناجائز ہے ۔ اور اگر اس کے برعکس گندم کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا تو گندم کی مقدار وصول شدہ سے کم ادا کرنا پڑتی اور یہ صورت بھی ربا بنتی کیونکہ قرض /دین  کا اصول یہ ہے :

:حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا. (اشرفی کے بدلے میں اشرفی دو تو اضافہ مت کرو اور روپے کے بدلے میں روپے دو تو اضافہ مت کرو)۔

[مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1212، رقم: 1588، بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي]

قرض کے اس اصول پر امام کاسانی ؒ لکھتے ہیں:

فَهُوَ أَنْ لَا يَكُونَ فِيهِ جَرُّ مَنْفَعَةٍ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يَجُزْ، نَحْوُ مَا إذَا أَقْرَضَهُ دَرَاهِمَ غَلَّةٍ، عَلَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ صِحَاحًا، أَوْ أَقْرَضَهُ وَشَرَطَ شَرْطًا لَهُ فِيهِ مَنْفَعَةٌ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ «نَهَى عَنْ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا» ؛ وَلِأَنَّ الزِّيَادَةَ الْمَشْرُوطَةَ تُشْبِهُ الرِّبَا؛ لِأَنَّهَا فَضْلٌ لَا يُقَابِلُهُ عِوَضٌ

قرض میں بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں  (مشروط ) منافع کیا حصول نہ ہو ۔اور اگر (یہ شرط موجود ہوئی ) توپھر ایسا قرض جائز نہیں ہے ۔مثال کے طور پر  جب کوئی شخص کسی کو کھوٹے  دراہم  اس شرط پر بطور قرض دے کہ مقروض اُن کی واپسی صحیح دراہم کی صورت میں کرے گا، یا اُسے کسی منفعت کی شرط پر قرض دے تو ایسا قرض ناجائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے “نفع بخش قرض کو حرام قرار دیا”؛ اور چونکہ مشروط اضافہ سود کی طرح ہے۔ کیونکہ یہ ایک  ایسا اضافہ ہے جو بلاعوض ہے۔

[الکاسانیؒ ، امام علاؤالدین ابوبکر بن مسعود (۵۸۷ھ)، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ( بیروت،دار الكتب العلمیہ، ۱۹۹۶)،۷: ۳۹۵]

اس معاملے کی ایک ممکنہ صورت

اس  معاملے کی  ایک یہ صورت  بھی ممکن تھی کہ بکر دونوں کو نقد رقم ادا کرتا اور واپسی کے لئے گندم  میں ادائیگی کی شرط لگاتا ، تو اس صورت میں یہ شرط باطل ہوتی اور زید اور خالد پر وصول شدہ رقم ہی کی ادائیگی لازم آتی۔کیونکہ جو مال  قرض یا ادھار کی شکل میں واجب الاداء ہوتا ہے ، اُس کی واپسی اُسی  جنس اور اسی مقدار میں ادا کرنا پڑتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث مبارکہ اور امام کاسانی کی عبارت سے مترشح ہے۔ ورنہ قرض کی مقدار میں برابری کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا  جیسے یہ شرط رکھنا کہ  پچاس ہزار روپے کے قرض  کی واپسی ۲۵۰ کلو گرام گندم  کی صورت میں ہوگی ۔ تو مختلف الجنس ہونے کی بدولت برابری کا قیام ممکن  ہی نہیں۔علامہ ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں: فَإِنَّ الدُّيُونَ تُقْضَى بِأَمْثَالِهَا فَيَثْبُتُ لِلْمَدْيُونِ بِذِمَّةِ الدَّائِنِ مِثْلُ مَا لِلدَّائِنِ بِذِمَّتِهِ فَيَلْتَقِيَانِ قِصَاصًا(کیونکہ دیون (قرض)  کو برابری کی بنیاد پر چکتا کیا جاتا ہے ۔پس مقروض کا  قرض خواہ پر اُتنا ہی ذمہ ثابت ہوتا ہے جتنا کہ  قرض دہندہ کا  مقروض پر۔ اس سبب دونوں پر برابری لازم آتی ہے )۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۴: ۳۲۰]

 اس لئے قرض میں یہ شرط رکھی ہی نہیں جاسکتی کہ نقد لے کر کسی دوسری  جنس میں واپسی ہو۔ لہذا ایسی شرط خود باطل متصور ہوگی۔  اما م ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں: الْقَرْضُ لَا يَتَعَلَّقُ بِالْجَائِزِ مِنْ الشُّرُوطِ فَالْفَاسِدُ مِنْهَا لَا يُبْطِلُهُ وَلَكِنَّهُ يَلْغُو شَرْطُ رَدِّ شَيْءٍ آخَرَ ( قرض کسی بھی جائز شرط کے ساتھ معلق نہیں ہوتا  تو شرط فاسد بھی  قرض کی صحت کو باطل نہیں کرسکتی ۔قرض کے بدلے دوسری چیز کی شرط بذات خود لغو ہوجاتی ہے)۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۵: ۱۶۵]

ہاں یہ ممکن ہے کہ قرض دیتے وقت ایسی شرط نہ رکھی جائے  لیکن وصول کرتے وقت مقروض کے پاس رقم نہ ہونے کی صورت میں قرض خواہ وصولی  کے دن والی قیمت کے مطابق اپنے قرض کی رقم کے بدلے کوئی چیز یا  جنس لے لے ۔

قَالَ الْحَمَوِيُّ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ نَقْلًا عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ ۔۔۔: إنَّ عَدَمَ جَوَازِ الْأَخْذِ مِنْ خِلَافِ الْجِنْسِ كَانَ فِي زَمَانِهِمْ لِمُطَاوَعَتِهِمْ فِي الْحُقُوقِ، وَالْفَتْوَى الْيَوْمَ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ عِنْدَ الْقُدْرَةِ مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ لَا سِيَّمَا فِي دِيَارِنَا لِمُدَاوَمَتِهِمْ الْعُقُوقَ

علامہ حموی نے شرح کنز میں  بحوالہ امام علامہ علی مقدسی  نقل کیا  ہے۔۔۔: (قرض میں )خلاف جنس وصول کرنے کا عدم جواز مشائخ کے زمانہ میں تھا کیونکہ وہ لوگ حقوق میں باہم متفق تھے۔ آج کل فتوی اس پر ہے کہ جب اپنے قرض  کی وصولی پر قادر ہو چاہے کسی بھی مال سے ہو تو وصول کر لینا جائز ہے۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۶: ۱۵۱]

اس معاملے کی  دوسری  ممکنہ صورت

اور اگر بکر دونوں کو رقم دے کر اُن سے گندم  کی خریداری کرتا تو یہ گندم کی ایڈوانس مکمل قیمت کی ادائیگی ہونے کی وجہ سے  بیع سلم ہوتی اور اُس صورت میں بیع سلم کی دیگر شرائط  کو دیکھا جاتا ۔ اگر وہ شرائط پوری ہوتیں تو بیع سلم جائز ہوتی ۔

 

هذا عندي وما توفيقي الا بالله العلي العظيم

 

ڈاکٹر محمد ابوبکر صدیق

 شعبان المعظم ۲۶، ۱۴۴ھ بمطابق مارچ ۱۹، ۲۰۲۳

absiddique111@gmail.com

http://islamicfina.com/


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام دریں مسئلہ  کہ  نقدی رقم بطور قرض  دے  کر کسی دوسری چیز یا جنس میں اُس کی وصولی کر سکتا ہے؟


جواب

اگر تو قرض  دینے والا اس بات کی شرط ابتداء سے لگائے گا تو یہ شرط بذات خود باطل ہوجائے گی کیونکہ قرض کے باب میں ایسی شرائط لغو متصور ہوتی ہیں اور قرض کو باطل نہیں کرتیں۔علامہ  ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں: الْقَرْضُ لَا يَتَعَلَّقُ بِالْجَائِزِ مِنْ الشُّرُوطِ فَالْفَاسِدُ مِنْهَا لَا يُبْطِلُهُ وَلَكِنَّهُ يَلْغُو شَرْطُ رَدِّ شَيْءٍ آخَرَ ( قرض کسی بھی جائز شرط کے ساتھ معلق نہیں ہوتا  تو شرط فاسد بھی  قرض کی صحت کو باطل نہیں کرسکتی ۔قرض کے بدلے دوسری چیز کی شرط بذات خود لغو ہوجاتی ہے)۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۵: ۱۶۵]

تاہم شرع میں اس بات کی اجازت ہے کہ  قرض دیتے وقت ایسی شرط نہ رکھی جائے   کہ قرض کی واپسی کسی دوسری جنس یا چیز میں ہوگی، لیکن وصول کرتے وقت مقروض کے پاس رقم نہ ہونے کی صورت میں دائن  اپنے قرض کی رقم کے بدلے کوئی چیز یا  جنس لے لے البتہ جو چیز یا جنس وصول کی جائے گی اس کی قیمت قرض  وصولی  کے دن والی مقرر ہوگی  اور وہ اپنے قرض کی رقم کے برابر کی قیمت کا حساب پورا کرے گا ورنہ اضافہ ربا/سود شمار ہوگا۔ 

قَالَ الْحَمَوِيُّ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ نَقْلًا عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ ۔۔۔: إنَّ عَدَمَ جَوَازِ الْأَخْذِ مِنْ خِلَافِ الْجِنْسِ كَانَ فِي زَمَانِهِمْ لِمُطَاوَعَتِهِمْ فِي الْحُقُوقِ، وَالْفَتْوَى الْيَوْمَ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ عِنْدَ الْقُدْرَةِ مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ لَا سِيَّمَا فِي دِيَارِنَا لِمُدَاوَمَتِهِمْ الْعُقُوقَ

علامہ حموی نے شرح کنز میں  بحوالہ امام علامہ علی مقدسی  نقل کیا  ہے۔۔۔: (قرض میں )خلاف جنس وصول کرنے کا عدم جواز مشائخ کے زمانہ میں تھا کیونکہ وہ لوگ حقوق میں باہم متفق تھے۔ آج کل فتوی اس پر ہے کہ جب اپنے قرض  کی وصولی پر قادر ہو چاہے کسی بھی مال سے ہو تو وصول کر لینا جائز ہے۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۶: ۱۵۱]

هذا عندي وما توفيقي الا بالله العلي العظيم

 

ڈاکٹر محمد ابوبکر صدیق

 شعبان المعظم ۲۶، ۱۴۴ھ بمطابق مارچ ۱۹، ۲۰۲۳

absiddique111@gmail.com

http://islamicfina.com/