یہ آرٹیکل ہزارہ اسلامیکس میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کا حوالہ درج ذیل ہے؛
، محمد ابوبکرصدیق، سود کے جواز پر جدید معاشی نظریات اور عقلی توجیہات کا تجزیاتی مطالعہ، ہزارہ اسلامیکس، جنوری تا جون 2018، ص؛13-39
Siddique, M.Abubakar, An Analytical Study of Modern Economic Theories and Rationales Behind Interest, Hazara Islamicus, January-June 2018, Volume 7, Issue 1, p: 13-39
Its pdf file can be downloaded from following link
https://papers.ssrn.com/sol3/papers.cfm?abstract_id=3230546
سود کے جواز پرجدید معاشی نظریات اورعقلی توجیہات کا تجزیاتی مطالعہ
An Analytical Study of Modern Economic Theories and Rationales Behind Interest
محمد ابوبکر صدیق
لیکچرر (پی ایچ ڈی اسکالر)،سکول آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس ،انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔
muhammad.abubakar@iiu.edu.pk
Abstract
The Islamic economic system is built-in ethic based system in which contracts and matters have been raised in a way that the attitudes of trust and sincerity between human beings may prevail. Therefore, where Islam has given orders related to sales, transactions, and other contracts, Islam also prohibited the elements those are disastrous for relations on both National and International levels. Interest is an element that promotes hatred among people as well as Nations. Islam prohibited the interest. Conventional economics, on the contrary, encourages the interest in different ways. Conventional economists presented theories of interest e.g. Waiting theory, Time preference theory, Theory of compensation, Theory of Exploitation, Theory of Production and Classical Theory of Interest. Every theory is the devil advocacy of interest permissibility. All these theories provide economic rationales behind charging the interest. In this article all above mentioned theories along with their economic rationales are briefly analyzed and criticized in the light of socioeconomic rationales. This article also explains the weaknesses and flaws of these theories. Besides these theories this article also discuses the types of interest in brief. In this article it is attempted to make clear the idea why Islam prohibited the interest.
Keywords: Riba, Economic rationales of Interest, Theories of Interest, Commercial Interest, Usury.
تعارف
اسلام کے معاشی نظام میں معاملات کو اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے تاکہ معاملات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے مابین محبت و اخلاص کے جذبے کوفروغ ملے اور یہی مقصود فطرت بھی ہے۔جبکہ اخلاقی پابندیوں سے عاری نظام میں معاملات نہ صرف بے مقصد ہوکررہ جاتے ہیں،بلکہ وہ انسانوں کے مابین عدم اعتمادپیداکرنے کے ساتھ اُن میں باہم نفرت وعنادکو بھی ہوا دیتے ہیں۔اسی لیےاسلام نے جہاں خرید و فروخت، لین دین اور دیگر عقود سے متعلق احکام دیے ہیں ۔ وہیں اُن عناصر کا سد باب بھی کیاہےجو نہ صرف معاشی سطح پرانسانوں کےباہمی تعلقات کے لیے مضرہیں،بلکہ زندگی کےہرگوشے میں ان کے مابین بغض و حسدکی تخم ریزی کرسکتےہیں۔سودانہی عناصر میں سے ایک ایسا عنصر ہےجو افراد تو افرادرہےقوموں کے مابین بھی دشمنی کوفروغ دیتاہے۔انسانی گناہوں میں سے شاید ہی کوئی گناہ ایسا ہو جس کی اتنی مذمت کی گئی ہوجتنی کہ سود کی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ جل مجدہ نے اسے اپنے اور اپنے رسولﷺ کے ساتھ محاربت قرار دیا ہے۔خداوندی احکامات سے متعلق بنی اسرائیل کو ناجائز حیلوں کے راستوں پر لگانے والا ابلیس آج بھی اپنے نت نئے ہتھکنڈوں کے ساتھ موجود ہے۔سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت ابلیسیت کا ایسا نظام ہے جوانسان کو وہ سارے راستے دکھاتاہے جس پرچلنے کے بعد ہر حرام عمل اُس کی نظر میں جاذب اور ہر ناجائز دولت اُس کے نزدیک جائز ٹھہرتی ہےاور اُس کی عقل پر لالچ کا ایسا پردہ پڑجاتا ہے کہ وہ سود جیسے اُس حرام مال کو بھی مختلف حیلوں اور دلیلوں سے جائز قرار دے کر ہڑپ کرنا چاہتا ہے کہ جس کے کھانے اور کھلانے والے پر، جس کی گواہی دینے والے پر اور جس معاملے کے کاتب پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہو۔
موجودہ مقالے میں ابتداءًسود کی اقسام پر اجمالی بحث کی گئی ہے۔ اس مقالے کا بنیادی مقصدجدیدمعیشت دانوں کی جانب سے سود کےجواز پرعقلی دلائل کو بیان کرنا اور پھرقران و سنت کے ساتھ ساتھ عقل ِخُداد کی روشنی میں انہی عقلی دلائل کی تحلیل کرنا ہے۔تاکہ قاری پر یہ بات واضح ہوسکے کہ اللہ جل مجدہ کی جانب سے سود کی حرمت عقلی دلائل کی روشنی میں بھی ایک بیّن حکم ہے۔اس مقالے میں سود کی دوسری قسم ربا الفضل پر بحث نہیں کی گئی کیونکہ تمام جدید نظریات کا بنیادی تعلق ربا النسیئہ سے ہے۔
ربا النسیئہ
قاضی ابوبکر الجصاص ؒ کےنزدیک ‘‘قرض کا ایسا معاملہ جس میں ابتداءًیہ شرط عائد کی گئی ہو کہ مقروض ایک خاص مدت میں قرض کی ادا ئیگی کے ساتھ ساتھ طے شدہ زیادہ مال بھی دے گا، ربا کہلاتا ہے’’[1] سود کی اس قسم کو ربا النسیئہ کے علاوہ ربا الجاھلیۃ [2] بھی کہتے ہیں۔
فقہا کے نزدیک صرف اُسی اضافے کو سود کہاجائے گا جو قرض دیتے وقت مشروط ہو ۔یعنی اگر قرض دیتے وقت اضافی رقم کی شرط عائد نہیں تھی۔لیکن ادائیگی کے وقت مقروض اپنی مرضی سے کوئی اضافی مال یا تحفہ دے دیتا ہے تو اسے سود شمار نہیں کیا جائےگا۔[3] مقروض کا اصل قرض سے زیادہ دینا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اقدام ہے جسے‘‘احسن طریقے سے قرض کی ادائیگی ’’ کہا گیا ہے۔جیسےحضرت ابوہریرہ ؓ سےمروی ہے :
كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنٌّ مِنَ الإِبِلِ، فَجَاءَهُ يَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: أَعْطُوهُ ، فَطَلَبُوا سِنَّهُ، فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ إِلَّا سِنًّا فَوْقَهَا، فَقَالَ:أَعْطُوهُ، فَقَالَ: أَوْفَيْتَنِي أَوْفَى اللَّهُ بِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً[4]
حضورنبی اکرمﷺ پرکسی شخص کا اونٹ بطورقرض واجب الاداءتھا۔ جب وہ شخص اپنا اونٹ واپس لینے آیا تو آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو اس کا اونٹ دینے کا حکم فرمایا۔ صحابہ کرام ؓ نے اس کے اونٹ کی عمر کا ایک اوراونٹ ڈھونڈھا لیکن نہ ملا ،تاہم اس سے بڑی عمر کا بہتراونٹ مل گیا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہی دے دو۔اُس شخص نے کہا آپﷺنے مجھے پورا دیا اللہ آپ کو بھی پورا اجر دے۔حضورنبی رحمت ﷺنے فرمایا: وہ شخص تم میں سے بہتر ہے جواپنا قرض اچھی طرح ادا کرے۔
اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے
كَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَقَضَانِي وَزَادَنِي[5]
( حضور اکرم ﷺ پر میرا کچھ قرض تھا ، تو قرض کی ادائیگی کے وقت آپ ﷺ نے قرض سے کچھ زیادہ ادا کیا)
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر قرض دینے سے قبل فریقین کے مابین کسی بھی قسم کے اضافے یا منافع کی شرط طے نہ پائی ہو اور قرض ادائیگی کے وقت مقروض اپنی خوشی سے کچھ اضافی رقم دے دیتا ہے تو وہ اضافہ سود شمار نہیں ہوگا۔
ربا النسیئہ کی اقسام
قبل از اسلام دور ِجاہلیت میں معاشرے میں دو طرح کا سود رواج پذیر تھا جسے سود مفرد اور سود مرکب کہا جاتا ہے۔جدیدمعیشت کی دنیا میں یہ اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ اصطلاحات فقہا کے ہاں لفظاً استعمال نہیں ہوئیں البتہ مفہوماً یہ دونوں اقسام کتب فقہ کے اندر موجود ہیں۔قرآن مجیدمیں جس سود کو أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً [6] کہا ہے وہ در حقیقت سود مرکب ہی ہے۔
سود مفرد
اگر کوئی شخص ایک خاص شرح سود پر کسی بھی مدت کے لئے قرض اُٹھا تا ہے اور پھر اپنے مقررہ وقت پر اصل رقم کے ساتھ طے کردہ سود بھی ادا کرتا ہے تو اسے سود مفرد کہا جاتا ہے ۔[7] اگر متعین مدت کے بعد اصل رقم مع سود ادا نہیں کرتا اور اُسے پہلی شرح سود پر ہی مزید وقت دے دیا جاتا ہے تو بھی یہ سود مفرد کہلائے گا۔[8]
سودِ مرکب
اگر کوئی شخص متعین مدت کے لئے ایک خاص شرح سود پر کچھ رقم قرض لے ، پھر وہ مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرے اور قرض دینے والا کہے کہ ” اب تک تم نے جو‘‘رقم مع سود’’ ادا کرنی تھی ،اُس کی ادائیگی کے لئے میں تمہیں مزید وقت دیتا ہوں لیکن اِس شرط پر کہ ‘‘ اصل رقم مع سود’’ پر تم اتنا سوداضافی ادا کرو گے ’’۔یعنی پہلےسود کو اصل سرمائے میں شامل کر کے نیا قرض شمار کیا اور پھر اُس پر مزید سود وصول کیا ۔ اِسے سود در سود وصول کرنا یا سود مرکب کہتے ہیں ۔[9] مثلا ََ زید نے بکر سے ایک ماہ کی مدت کے لئے ٪20 شرح سود پر ایک لاکھ روپے قرض لیا ۔یعنی ایک ماہ بعد زید بکر کو اصل رقم مع سود ایک لاکھ بیس ہزار روپے ادا کرے گا۔ لیکن ایک ماہ بعد زید یہ رقم ادا نہیں کر تا اور بکر سے مزید وقت مانگتا ہے تو بکر اِس شرط پر اُسے مزید ایک ماہ کا وقت دیتا ہے کہ اب وہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے پر ٪20 سود ادا کرے گا جو کہ نئے سود کی رقم چوبیس ہزار روپے ملا کر کل رقم ایک لاکھ چوالیس ہزار روپے بنتی ہے۔ کیونکہ اِس میں سود پر بھی سود لگایا جاتا ہے ، لہذا اسے سود ِ مرکب کہا جاتا ہے جس کے بارے اللہ تعالی نے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! سود کو دوگنا چوگنا کرکے مت کھاؤ۔[10] کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سود مرکب نہ ہو یعنی دوگنا چوگنا کر کے نہ لیا جائے تو پھر سود لینا حرام نہیں ہے ۔ یہ ان کی خام خیالی ہے جو کسی طرح بھی قرین ِ قیاس نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں سود کو مطلق طور پر منع کیا گیا ہے خواہ وہ مفرد ہو یا مرکب ، اور جس آیت میں ” دوگنا چوگنا سود ” کھانے کی بات کی گئی ہے وہاں اللہ تعالی نے سود خوروں کے اِس شرمناک طریقے کی مذمت کرنے کے لئے اس کا ذکر کیا ہےکیونکہ اُس وقت یہ طریقہ بہت ہی زیادہ رواج پذیر تھا ، ورنہ سود تو مطلق طور پر حرام کر دیا گیا ہے۔[11]
قرض کی نوعیت کے اعتبار سے ربا النسیئہ کی تقسیم
انیسویں صدی عیسوی میں جب مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب آیا اور تجارت و صنعت نے ترقی کی تو لین دین کے نت نئے طریقے بھی متعارف ہوئے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مغرب سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ دنیا کے کونے کونے پراپنے پنجے گاڑرہاتھا۔ اُس وقت مسلم دنیا اُن کے زیر ِنگیں اور معاشی میدان میں اُن کی دستِ نگر بنی ہوئی تھی۔ اُسی زمانےمیں مغربی ماہرین ِمعاشیات نے اپنی تجزیاتی تحقیق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مغرب کی یہ ترقی صرف اور صرف تجارت و صنعت اور بینکنگ کی رہین منت ہے۔مزیدیہ کہ بینکنگ نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔اِس طرح انہوں نے بینکنگ کی ایسی وکالت شروع کر دی کہ جس میں حلال و حرام کی تمیز تک کو بھلا دیا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جس نے اُنہیں یہ کہنے پر آمادہ کیا کہ حرام تو صرف مہاجنی یا صرفی سود ہےجبکہ تجارتی سود تو ایک طرح کا نفع ہے کیونکہ یہ تجارت و صنعت سے کمایا جاتا ہے۔ اگر اِسے بھی حرام قرار دیا گیا تو تجارت اور صنعت ختم ہو کر رہ جائیں گی۔اس طرح انہوں نے سود کو جائز قرار دینے کے لئے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا کہ اسلام میں تو بس صرفی سود کو حرام کیا گیا ہے نہ کہ تجارتی سود کو۔اِس طرح سود کی دو نئی اقسام صرفی سود اور تجارتی سود سامنے آئیں جو کہ ربا النسیئہ کی ہی قسمیں ہیں۔ ذاتی ضروریات کے لئے اٹھائے گئے قرض پردیا جانے والا سود صرفی سود یا مہاجنی سود کہلاتا ہے۔ یوژری کا لفظ عیسائیت کی تاریخ سے لیا گیا ہے،[12] تاہم اسلامی تاریخ میں اس سود کو بھی ربا ہی کہا گیا ہے۔تجارتی یا کسی نفع آور پیداواری مقاصد کے پیش نظر لیے گئے قرض پرادا کیا جانے والا سود تجارتی سود کہلاتا ہے ۔سودکی یہ تقسیم سرمایہ داریت سے متاثر کچھ مسلم ماہرین معاشیات نے بھی قبول کی اورسود کی حرمت سے متعلق قرآن مجید کی آیات کو اپنے تئیں تاریخی تناظر میں بیان کرکے اپنے موقف کی صحت کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
تجارتی سود جائز ہے یا ناجائز ؟
تجارتی سود کو جائز کہنے والےمفکرین دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ جن میں سے ایک گروہ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن مجید کے نزول کے وقت معاشرے میں صرف مہاجنی سود رائج تھا جبکہ تجارتی سود کا توتصور ہی نہیں تھا لہذا قرآن مجید نے جس سود کو حرام قرار دیا وہ مہاجنی سود ہے نہ کہ تجارتی سود۔[13] لہذا یہ گروہ صرف عقلی دلائل کی بنیاد پر ہی تجارتی سود کو جائز قرار دیتا ہے ۔ جبکہ دوسرا گروہ مضبوط تاریخی دلائل کی روشنی میں پہلے گروہ کے دلائل کی کمزوری کو واضح کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ تجارتی سود کے بارے میں یہ تصور بالکل غلط ہے کہ وہ نزول قرآن کے زمانے میں مروج نہیں تھا۔
قرآن مجید کے نزول کے وقت تجارتی سود رائج تھا یا نہیں ؟
اگر دنیا کا نقشہ ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہو جائیگا کہ ازمنہ وسطیٰ میں مشرق و مغرب کی تجارت خشکی کے راستے سے ہوتی تھی اور تجارتی کاروانوں کی راہ گزر جزیرہ عرب تھا ۔یہ سلسلہ چھٹی صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی عیسوی کے اخیر تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ نہر سویز کی کھدائی ہو ئی اور بحری جہازوں کے لئے بحیرہ قلزم اور بحیرہ روم کے درمیان آمدورفت ممکن ہوئی۔ مشرق و مغرب یعنی ہندوستان اور اس کے اردگرد کے ممالک کی مصر، براعظم افریقہ اور بلادِ شام سے تجارت جزیرہ عرب کے راستے ہی ہوتی تھی۔ اسی طرح شمال سے جنوب یورپ کی تجارت بھی جزیرہ عرب کے واسطے سے ہوتی تھی۔ عرب کی سرزمین سنگلاخ چٹانوں، ناقابل کاشت ریگزاروں او رلق ودق صحراؤں پر مشتمل تھی۔لہذااہل عرب کا ذریعہ معاش یہی تھا کہ وہ ان تجارتی قافلوں میں اپنا قابل فروخت سامان شامل کرتے تھے یا پھر انہی مسافرقافلوں پر شب خون مار کر ہی اپنی زیست کا سامان کرتے تھے۔ بعض لوگ انہی قافلوں کو بحفاظت گزارنے کے عوض ٹیکس وصول کرتےتھے۔ گویا جزیرہ عرب مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں بین ُالاقوامی منڈی بنا ہوا تھا جس میں شہر مکہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شہر جسے بین الاقوامی تجارت کی منڈی کی حیثیت حاصل ہو اُس کے باشندے تجارت اور تجارتی لین دین کے معاملات سے نا واقف رہے ہوں!چنانچہ ایک تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
امام طبریؒ اپنی تفسیر میں ابن جریجؒ سے روایت کرتے ہیں:
وَكَانَتْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عُمَيْرِ بْنِ عَوْفٍ يَأْخُذُونَ الرِّبَا مِنْ بَنِي الْمُغِيرَةِ وَكَانَتْ بَنُو الْمُغِيرَةِ يُرْبُونَ لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَجَاءَ الْإِسْلَامُ وَلَهُمْ عَلَيْهِمْ مَالٌ كَثِيرٌ، فَأَتَاهُمْ بَنُو عَمْرٍو يَطْلُبُونَ رِبَاهُمْ، فَأَبَى بَنُو الْمُغِيرَةِ أَنْ يُعْطُوهُمُ فِي الْإِسْلَامِ،وَرَفَعُوا ذَلِكَ إِلَى عَتَّابِ بْنِ أُسَيْدٍ، فَكَتَبَ عَتَّابٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ، فَكَتَبَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَتَّابٍ وَقَالَ: «إِنْ رَضُوا وَإِلَّا فَآذِنْهُمْ بِحَرْبٍ [14]
زمانہِ جاہلیت میں دو قبائل بنو عمرو اور بنو مغیرہ کے درمیان سودی قرضوں کا لین دین تھا۔ جب اسلام نے سود کی حرمت کا اعلان کیا تو بنو مغیرہ کے ذمے بنو عمرو کا بہت سا مال واجب الادا تھا۔ جس کو بنو مغیرہ نے سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد ادا کرنے سے انکار کردیا۔اس پر بنو عمرو نے عتاب بن اُسیدؓ (امیرمکہ) کے پاس اپنا دعویٰ دائر کردیا۔ حضرت عتاب ؓنے نبی اکرمﷺ سے اس سود کے بارے میں پوچھاتو اللہ نے یہ آیت اتار دی:‘‘اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اس کو چھوڑ دو، اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو’’۔رسولِ اکرمﷺ نے یہ آیت لکھ کر عتابؓ (امیرمکہ) کو بھجوائی اور ساتھ یہ ہدایت کی کہ اگر بنو عمرو سود چھوڑنے پر راضی نہ ہوں تو ان کو جنگ کا الٹی میٹم دے دو۔
حضرت ضحاک سورہ البقرہ کی آیت نمبر 278 کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس ربا کا ذکر کیا گیا ہے
:كَانَ رِبًا يَتَبَايَعُونَ بِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ [15]
(یہ وہ سود تھا جو جاہلیت میں لوگ تجارتی مقصد کے لئے لیتے تھے)
امام ابن جریرطبری ؒ سورہ قریش کی تفسیر میں حضرت ابن زیدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ
كانت لهم رحلتان الصيف إلى الشام،والشتاء إلى اليمن في التجارة[16]
(قریش دو تجارتی سفر کیا کرتے تھے ، گرمیوں میں ملک ِشام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف )
اور اس بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ ابو سفیان جب تجارتی قافلہ لے کر شام گئے ہوئے تھے تو وہ بھی گرمیوں کا موسم تھا اور جب واپسی پر انہیں مسلمانوں کی طرف سے حملے کا خوف ہوا تو مکہ سے اپنے لئے تحفظ مانگا جو بالآخر غزوہ بدر کا سبب بنا ۔ یہ وہ تجارتی قافلہ تھا جس میں مکہ کے تقریبا ہر باشندے کا کچھ نہ کچھ سرمایہ لگا ہوا تھا۔[17]
حضرت عباسؓ اور حضرت خالدؓبن ولید زمانہ جاہلیت میں باہمی شراکت سے سودی کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ طائف کے قبیلہ بنو عمیر کو کاروباری مقاصد کے لئے سود دیتے تھے۔ اس آیت کے نازل ہونے پر انہوں نے اپنا اچھا خاصا سود ،جو بنوعمیر کے ذمے تھا، چھوڑ دیا۔ یہ وہی سود تھا جس کا تذکرہ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ان الفاظ سے کیا;
إِنَّ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَا الْعَبَّاسِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ
(جاہلیت کے تمام سودمنسوخ کر دیئے گئے ہیں اور میں سب سے پہلے اپنے خاندان یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سودمنسوخ کرتا ہوں) [18]
خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کے بیٹے عبداللہ ؓاور عبیداللہ ؓایک لشکر میں شامل ہو کرعراق گئے۔ واپسی پر بصرہ کے امیر ابوموسیٰ اشعریؓ سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ ”میرے پاس بیت المال کا کچھ حصہ ہے جسے میں امیرالمؤمنین کو بھیجنا چاہتا ہوں
فَأُسْلِفُكُمَاهُ فَتَبْتَاعَانِ بِهِ مَتَاعًا مِنْ مَتَاعِ الْعِرَاقِ، ثُمَّ تَبِيعَانِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَتُؤَدِّيَانِ رَأْسَ الْمَالِ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، وَيَكُونُ الرِّبْحُ لَكُمَا
میں تمہیں وہ مال قرض دیتا ہوں تم اُسے لے کر عراق سے اس کا سامان خرید لواور مدینہ پہنچ کر منافع پر بیچ دینا،اور اصل رقم امیر المومنین کو ادا کرکے منافع خود رکھ لینا”حضرت عمرؓ کے بیٹوں نے کہاکہ ٹھیک ہے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا
ہندؓ بنت عتبہ نے حضرت عمرؓ سے بیت المال سے ۴ ہزار درہم کا قرض (تجارت کے لئے) مانگا جو انہوں نے دے دیا۔ ہند ؓبنت عتبہ کو کاروبار میں خسارہ ہوگیا اور حضرت عمرؓ کو نقصان کے متعلق بتایا:
فَقَالَ لَهَا عُمَرُ: لَوْ كَانَ مَالِي لَتَرَكْتُهُ لَكِ، وَلَكِنَّهُ مَالُ الْمُسْلِمِينَ
(حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر یہ میرا مال ہوتا تو ضرور معاف کر دیتا لیکن یہ مسلمانوں کا مال ہے )جب حضرت ابو سفیان ؓ کو اس کاپتہ چلا تو انہوں نے ہندؓ بنت عتبہ کی طرف اتنا مال بھیجا کہ انہوں نے بیت المال کو پورا قرضہ اداکردیا۔[20]
حضرت زبیربن العوّامؓ جو اپنے اعتماد اور ا یمانداری کی وجہ سے عرب معاشرے میں شہرت رکھتے تھے ۔اُن کے متعلق بخاری شریف میں ہے؛
أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَأْتِيهِ بِالْمَالِ، فَيَسْتَوْدِعُهُ إِيَّاهُ، فَيَقُولُ الزُّبَيْرُ: «لاَ وَلَكِنَّهُ سَلَفٌ، فَإِنِّي أَخْشَى عَلَيْهِ الضَّيْعَةَ [21]
(حضرت زبیرؓ کے پاس جب کوئی آدمی آتا اورعرض کرتا کہ وہ اپنا مال اُن کے پاس امانت رکھنا چاہتا ہے تو آپؓ فرماتے نہیں تمہارا مال میرے پاس قرض ہے۔ کیونکہ مجھے امانت کے ضائع ہونے کا خوف ہے۔حضرت زبیربن العوّامؓ کے اس طریقے سے لوگوں میں اُن کا اعتماد اور پختہ ہو جاتا۔ چونکہ آپ تجارت پیشہ تھے اور خدشہ تھا کہ کہیں لوگوں کی امانتیں دوسری رقوم کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں۔ نیز آپ نے لوگوں کی رقوم کو تجارت کی غرض سے بھی استعمال کرنا ہوتا تھا لیکن شریعت میں امین کے لیے امانت کے استعمال کی ممانعت کے باعث آپ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔اس کے لیے آپ نے امانت کی بجائے قرض کاطریقہ اختیارکیا۔چنانچہ آپ لوگوں کی رقوم امانت کی بجا ئے بطورقرض رکھنے کو ترجیح دیتے تھے تاکہ ممکنہ خیانت سے بچا جا سکے۔علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ مندرجہ بالا روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
زَاد بن بَطَّالٍ وَلِيَطِيبَ لَهُ رِبْحُ ذَلِكَ الْمَال[22]
( ابن بطال ؒ نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ وہ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ اِس مال سے تجارت کرنا اور نفع کمانا اُن کے لئے جائز ہوجائے)
چنانچہ حضرت زبیرؓ کی شہادت کے بعد جب ان کے بیٹے نے حساب کیا تو یہ تجارتی قرضے ۲۲ لاکھ درہم تھے جو ان کی جائیداد سے ادا کئے گئے۔[23]
مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ دیگر بیسیوں ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ مفروضہ بالکل غلط ثابت کردیتے ہیں کہ عہد ِنبوی میں تجارتی قرضوں کا کوئی تصور نہ تھا اور صرف ذاتی مقاصد کے لئے قرضے لئے جاتے تھے۔لہذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کے وقت معاشرے میں تجارتی لین دین بھی موجود تھا اور تجارتی مقاصد کے لئے سودی قرضے بھی معروف تھے ۔اس لئے قرآن مجید کا حرمت ِ سودکا حکم عام ہے جو ہر قسم کے سود پر لاگو ہوتا ہے۔
سودسے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
نزول وحی کے زمانے میں سودی کاروبار میں ملوث لوگوں کی دلیل یہ تھی کہ ربا بھی دراصل ایک نفع ہے ، جس طرح آدمی تجارت سے نفع کماتا ہے اسی طرح ربا میں بھی نفع ہی کماتا ہے اس لئے دونوں ایک ہی جیسے ہیں ۔لیکن کیا واقعی ربا اور تجارت پر نفع ایک ہی چیز ہے؟
اسلام کی نظر میں قرض اور تجارت دو الگ معاملے ہیں ۔تجارت میں نفع کا حصول یقینی نہیں ہوتا ،بلکہ نفع کے ساتھ نقصان کا بھی امکان ہوتا ہے۔جبکہ قرض میں کسی قسم کا منافع جائز ہی نہیں۔ اگر کوئی نفع وصول کرتا ہے تو وہ سود کی صورت میں ملتا ہے جس کے حصول میں کسی رِسک(خطرے ) سے دو چار نہیں ہونا پڑتا۔تجارت کی صورت میں کسی جنس کو نقدی کے بدلے خریدا یافروخت کیا جاتا ہے اور اس جنس کی تیاری میں انسانی قوتیں صرف ہو کر اس کو قابل فروخت بناتی ہیں اور ان کی فروخت میں نفع کے امکان کے ساتھ نقصان کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے ۔لہذاان اشیاء پر حاصل ہونے والا نفع دراصل انسانی کاوشوں کا ثمرہ ہوتا ہے۔ جبکہ قرض پر سود کی صورت میں رقم کا رقم سے سودا ہوتا ہے اور حاصل ہونے والا فائدہ صرف رقم کو مخصوص مہلت کے عوض دینے پر حاصل کیا جاتا ہے اور اس میں نہ تو کسی قسم کے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ انسانی کاوشوں کا کوئی عمل دخل۔
اس کادوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ نے تجار ت کو جائز جبکہ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ربا اور تجارت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ معاملات سے متعلق ان کا تجزیاتی طریقہ کار کاغلط ہوناہےجس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وہ لوگ ربا اور بیع کے نتائج میں مماثلت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ دونوں معاملات میں کوئی فرق نہیں۔اسے مندرجہ ذیل مثال سے یوں سمجھیے؛
اول: اگر زید بکر سے دو لاکھ روپے کا قرض لیتا ہے اس شرط پر کہ زید تیس ہزار روپے سود بھی ادا کرےگا، جس کانتیجہ یہ ہوا کہ اسے بمعہ سود دولاکھ تیس ہزارروپے ادا کرنے ہوں گے۔
دوم: اسی طرح اگر وہ کسی فرد یا اسلامی بینک سے مرابحہ کی بنیاد پردو لاکھ روپے کی تمویلی سہولت حاصل کرتے ہوئے کوئی چیز خریدتا ہے جس میں چیز کی قیمت پر تیس ہزار روپے کا نفع باہم رضامندی سے طے ہوتا ہےجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چیز کی قیمت بمعہ منافع دولاکھ تیس ہزارروپے ہی ادا کر ے گا۔
چونکہ مندرجہ بالاقرض اور تجارت کے معاملے کا نتیجہ‘‘ دو لاکھ تیس ہزار روپے کی ادائیگی ’’ ایک ہی ہے۔ اس لئے وہ لوگ یہ حکم لگا تے ہیں کہ ربا اور بیع (تجارت )کوئی فرق نہیں۔ اگر اس تجزیاتی طریق کار کو درست تسلیم کیا جائے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دو معاملات کا نتیجہ ایک ہو تو کیا دونوں کا حکم ایک ہی ہو گا؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو پھر شریعت مطہرہ کے بہت سے حلال کردہ امور حرام ہو جائیں گے ۔ مثلاََاگر زید نے پھلوں کی خرید و فروخت سے ایک ہزار روپیہ کمایا اور بکر نے جوا کھیل کر ایک ہزار روپیہ کمایا ۔ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ زید اور بکر کی کمائی ایک جتنی ہے اس لئے زید کی کمائی بھی حرام ہے کیونکہ دونوں کے کام کا انجام اور نتیجہ (ایک ہزار روپے کمانا) ایک ہی ہے ۔ اسی طرح بہت سے امور کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اور یہی وہ بنیادی غلط فہمی کفار کو ہوئی اور کہنے لگے؛
قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا [24]
(بیع بھی تو ربا کی مانند ہے)۔ کیونکہ انہوں نےبیع اور ربا دونوں معاملات میں صرف نتیجے کو ملاحظہ کیااور بول اٹھے کہ ربا اور بیع میں کوئی فرق نہیں۔لہذادونوں ایک جیسےمعاملےہیں۔جبکہ قرآن مجیدنے ان کے اس باطل تجزیاتی طریق کار کومسترد کرتے ہوئے فرمایا؛
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا [25]
(اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام کیا)
حلت و حرمت کا دارو مدار نتائج اور انجام کی بجائے معاملات کے طریقہ کار اور ان کی حقیقت میں تبدیلی پر منحصر ہوتاہے۔ ربا کا طریقہ کار ناجائز اور حرام ہے جبکہ تجارت کا معاملہ تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک پسندیدہ ہے ۔حضور اکرم ﷺ نےتجارت کو انسان کی مغفرت کے اسباب میں سے ایک سبب بتایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا؛ جس نے اپنے حلال مال سے یا تجارت کی کمائی سے ، یا ورثے میں ملی دولت سے حج کیا تو؛
لَمْ يَخْرُجْ عَنْ عَرَفَةَ حَتَّى تُغْفَرَ ذُنُوبُهُ [26]
(وہ عرفات سے نہیں نکلے گا حتّٰی کہ اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے)
ایسے ہی دیانت دار تاجر جنت میں بھی پہلے جائیگا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا؛
أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ[27]
(جنت میں جو پہلے داخل ہو گا وہ دیانت دار تاجر ہو گا)۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے
أطيب إِنَّ أَطْيَبَ الْكَسْبِ كَسْبُ التُّجَّارِ الَّذِينَ إِذَا حَدَّثُوا لَمْ يَكْذِبُوا، وَإِذَا ائْتُمِنُوا لَمْ يَخُونُوا، وَإِذَا وَعَدُوا لَمْ يُخْلِفُوا، وَإِذَا اشْتَرَوْا لَمْ يَذُمُّوا، وَإِذَا بَاعُوا لَمْ يُطْرُوا، وَإِذَا كَانَ عَلَيْهِمْ لَمْ يَمْطُلُوا، وَإِذَا كَانَ لَهُمْ لَمْ يُعَسِّرُوا[28]
سب سے زیادہ پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی کمائی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے،خریدتے وقت چیز میں عیب نہیں نکالتے، بیچتے وقت چیز کی جھوٹی خوبیا ں بیان نہیں کرتے، اور جب ان پر کچھ دین ہوتا ہے تو اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہیں کرتے اور جب انہوں نے کچھ وصول کرنا ہوتا ہے تو اس میں وہ کسی پر سختی نہیں کرتے ۔
جس تجارت اور اس کی کمائی کی اتنی فضیلتیں ہوں وہ ربا جیسی حرام کمائی کے برابر کیسے ہو سکتی ہے ۔اہل عقل کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔
یہاں کوئی یہ بات کر سکتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ روایت کرتی ہیں؛
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ؛الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ[29]
(نفع ضمان کے ساتھ ہے) یعنی نقصان کی ذمہ داری کے ساتھ ہی نفع کمایا جا سکتا ہے۔لہذاایک آدمی اپنی پس انداز کی ہو ئی دولت جب کسی کوبطور قرض دیتا ہے تو وہ نقصان کا رِسک بھی اُٹھاتا ہے کہ ممکن ہے یہ رقم اُسے واپس ہی نہ ملے لہذا حدیث مبارکی رُو سے اُس کے لئے قرض پر نفع کمانا جائز ہونا چاہیے ۔دوسرا یہ کہ کسی کو قرض دے کر وہ اپنی ضروریات پر دوسرے کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے قربانی دیتا ہے، لہذا یہ اُس کا حق ہے کہ وہ اِس بات پر کوئی معاوضہ وصول کرے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرض کی صورت میں پایا جانے والے رِسک وہ رِسک نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام کہتا ہے کہ نفع کمانے کے لئے نقصان کا رِسک اُٹھانا ضروری ہےجسے انگلش میں (رسک آف لاس) کہتے ہیں۔ کیونکہ قرض کی صورت میں پایا جانے والا یہ خطرہ کہ ممکن ہے رقم واپس ہی نہ ملے ‘‘ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ’’ کہلاتا ہے جسے انگلش میں (رسک آف ڈیفالٹ) کہتے ہیں۔اس خطرے پر رہن کے ذریعے قابو پایا جاسکتاہےاور اس کے بعد کوئی رسک باقی نہیں رہتا۔جبکہ نقصان کے رِسک کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ جس پر کسی طرح بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق کسی شخص کے لیےنفع کمانے کا استحقاق اُس وقت ثابت ہوتاہے جب وہ نقصان کا خطرہ برداشت کرنے کے لیے راضی ہو ۔ یہ رسک اس لحاظ سے بھی ایک الگ تصور ہے کہ نقصان کے خطرے کے ساتھ نفع کا امکان بھی موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ رقم ایک پیداواری عمل میں لگائی گئی ہوتی ہے ۔ جبکہ قرض دی گئی رقم میں صرف یہ خطرہ ہوتاہے کہ مقروض اگر دیوالیہ ہو گیا تو میرا پیسہ کیسے وصول ہوگا؟ اس میں کہیں بھی نفع آوری کا تصور نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرض اپنی ذات میں کبھی بھی کاروبار کی مانند پیداوار ی خاصیت کا حامل نہیں ہوتا۔ ممکن ہے مقروض نے صرف گھر کا خرچ چلانے کے لئے قرض لیا ہوتو پھر اُس سے کس بات کا نفع وصول کیا جائے گا۔ یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر قرض پیداواری مقصد کے لئے لیا گیا ہو تو کیا پھر نفع وصول کیا جا سکتا ہے ، تو جواب ہے ‘‘نہیں ’’۔ کیونکہ مقروض جب وہ رقم پیداواری عمل میں لگائے گا تو اُس وقت اُس رقم کی حیثیت بدل چکی ہوگی وہ اب مقروض کی ملکیت کا سرمایہ تصور ہو گا جس پر وہ نفع ونقصان کا مالک ہو گا۔ اب وہ رقم قرض نہیں رہے گی کہ اُس پر قرض دینے والےکا حق ثابت کیا جائے ، لہذا جس رقم پر اب اُس کا حق ہی نہ رہا تو اُس پر وہ نفع کیسے طلب کر سکتا ہے!پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ پیداواری عمل کے آخر میں نفع حاصل ہو، نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔
رہی یہ بات کہ مال کے مالک نے قرض دینے میں “قربانی اور ایثار” کیا ، تو اگر وہ قرض پر معاوضہ وصول کرے گا تو پھر کیسی قربانی اور کیسا ایثار! اگر اُس نے ایثار اور قربانی ہی دینی ہی ہے تو پھر اُس کا معاوضہ اللہ تعالی پر چھوڑ دےاور اس احسان کے بدلے اللہ کے احسان کی امید میں رہے ۔اور اگر معاوضے پر ہی بضد ہے تو پھر “قربانی اور ایثار” کی رٹ لگانا چھوڑ دےاور سیدھی طرح سوداگری کرے اور بتائے کہ وہ قرض کے معاملے میں اصل رقم کے علاوہ ماہانہ ، سہ ماہی ، شش ماہی یا سالانہ طور پر جو خاص رقم وصول کرتا ہے ، آخر وہ کس بنیاد پر اُس کا مستحق بنتا ہے؟ [30]
سود اگر فریقین کی رضامندی سے طے کیا جائے تو جائز ہے
جدید معیشت دانوں کی جانب سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ قرآن مجید کی جتنی آیات بھی سود کی مذمت میں ہیں ان سے یہ بات عیاں ہے کہ اصل رقم پر صرف ناجائز اور ظلم کے طریقے سے وصول کیا گیا اضافہ حرام ہے ۔ اگروہ اضافی رقم باہم رضامندی سے لی جائے تو پھر ظلم نہیں ہوگا۔ کیونکہ اسلام بھی باہم رضامندی سے طے کیے گئے معاملے کو قبول کرتا ہے۔
اسلام میں باہم رضامندی کو ایک خاص اصول کی حیثیت میں لیا جاتا ہے،جس کا ایک مخصوص مفہوم ہے۔باہم رضامندی کا یہ اصول قرآن مجید کی اس آیت سے لیا گیا ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ [31]
اے ایمان والو!ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں اگر تم باہمی رضامندی سے تجارت کرو [تو یہ جائزہے]۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کوبتایا جارہا ہےکہ تجارتی معاملے میں باہمی رضا مندی شرط ہے۔ہم پہلے یہ بحث کر آئے ہیں کہ تجارت اور سود دونوں میں واضح طور پر فرق ہے اور
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا [32]
(اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے)
تجارت اور ربا دونوں میں نتائج کے لحاظ سے اگرچہ واضح فرق نہیں لیکن عمل اور طریقہ کار کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شریعت میں جہاںسود کی شدید ترین مذمت آئی ہےوہاں تجارت کی واضح ترغیبات موجود ہیں۔ لہذا باہم رضامندی کو شریعت کے اصولوں کے تحت ہی قبول کیا جائے گا۔ ورنہ فریقین کسی گناہ پر بھی راضی ہوسکتے ہیں تو کیا اسے صرف باہم رضامندی کی بنا پر قبول کر لیا جائے!
اس کے علاوہ عقلی دلائل کی روشنی میں بھی اگر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ کوئی شخص خوش دلی سے سود دینے پر راضی نہیں ہوتا ۔ اگر ایک شخص کو کچھ رقم بطور قرض درکار ہے اور اس کوایک جگہ سے کم شرح سود کے ساتھ قرض مل رہا ہو لیکن ساتھ ہی دوسری جگہ سے بلا سود قرض ملنے کی امید بھی ہو تو کون ایسا شخص ہے جو سودی قرض لینا پسند کرے گا۔ لہذا یہ کہنا محض ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں کہ قرض دار اپنی رضا مندی سے سود ادا کرے تو جائز ہے۔کیونکہ اگر اُسے بلا سود قرض دستیاب ہوسکے تو وہ کبھی سود ی قرض حاصل نہ کرے۔ درحقیقت یہ مقروض کی مجبوری کو رضا مندی سے تعبیر کرنے کا محض ایک فریب ہے۔ جس کی حقیقی مثال اینگلو امریکی قرض ہے، جو امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کودیا تھا۔ اس قرض کے معاہدے کے لیے برطانیہ کی جانب سے وفد کی سربراہی مشہور معیشت دان جان مینارڈ کینز نے کی تھی، جس نے امریکہ سے منت سماجت کی کہ اُنہیں کم شرح سود پر قرض دیا جائے لیکن امریکہ نے انکار کیا اور زیادہ شرح سود پر قرض دینے پر معاہدہ طے پایا اور جان مینارڈ کینز کو مجبورا دستخط کرنے پڑے۔جان کینز واپسی کے وقت امریکی رویے پر سخت پریشان تھا جس کے سبب اسےراستے میں ہی دل کی تکلیف کا سامناہوا۔[33]جان مینارڈ کینز نے واپسی پر برطانوی دارلامرا میں امریکہ کے اس ظالمانہ رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:امریکہ نے ہمارے ساتھ جس بنیے پن کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ اِس موقع پر برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا : یہ بنئے پن کا جو برتا ؤ ہمارے ساتھ ہوا مجھے اس کی گہرائی میں بڑے خطرات نظر آتے ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کا ہمارے باہمی تعلقات پر بہت ہی برا اثر پڑا ہے۔[34] یہ معاہد اگرچہ فریقین کے مابین باہم رضامندی سے ہوا تھا لیکن کینز اور چرچل کے الفاظ اس رضامندی کی ساری حقیقت کھول کر رکھ دیتے ہیں۔جبکہ اسلام خدمت ِانسانی ، باہمی ایثارو محبت اور خلوص کے وہ جذبات پیدا کرتا ہے کہ جس کی بدولت مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت قرضِ حسنہ کی صورت میں پوری کرتا ہے کیونکہ مسلمان کا تصورِ فلاح اپنے رب کی اطاعت اور حصولِ درجات سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اُخروی مقاصد کے تحت ایسا کرتا ہے۔
سود کے جواز پر جدید نظریات، عقلی توجیہات اور ان کی تحلیل
قطع نظر اس سے کہ سود سے متعلق دین یا مذہب کیا کہتا ہے ۔خالص معاشی نقطہ نظر سے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ سودی نظام کیوں چل رہا ہے۔ سودی نظام معیشت کے ماہرین نے کچھ نظریات پیش کئے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے سودکوعقلاً درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بحث میں ان تمام نظریات کاخالص عقلی دلائل کی بنیاد پرتجزیہ کیا گیاہے اوریہ کوشش کی گئی ہے کہ قاری کے لیےیہ واضح کیا جاسکے کہ کیا یہ نظریات عقلی اصولوں پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
(Waiting theory)انتظار کا نظریہ
معیشت دان نساؤ ولیم سینئر نے 1836 میں ایک نظریہ پیش کیا تھا جس کے مطابق بچت کا عمل صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے صرفی اخراجات کو جان بوجھ کر روکےرکھےاوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی شخص کسی معاوضے کے بغیر خود کو اس مشکل میں مبتلا نہیں کرےگا۔لہذا کسی کو بچت پر آمادہ کرنے کے لیے کچھ معاوضہ دینا لازمی ہے۔معاوضے کی لالچ میں ہر شخص ضروریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی بچت کو دوسرے کے حوالے کرنے اور کچھ عرصہ انتظار کرنے پرآسانی سےراضی ہوجاتاہے۔ اسی وجہ سے اس نظریے کو صَرفی عمل سے جان بوجھ کر رُکے رہنے کا نظریہ بھی کہتے ہیں۔[35] بعد میں مشہور معیشت دان الفرڈمارشل نے اسی نظریے کو صرفی عمل سے جوڑنے کی بجائے بچت سے جوڑا اور کہا کہ جب کوئی شخص بچت کرتا ہے تو درحقیقت اسے اپنی ضرورت کوپورا کرنے کے لیے مستقبل کا انتظارکرنا پڑتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی معاوضے کے بغیر کیوں انتظار کرےگا۔لہذا اسے سود دینا ضروری ہے۔[36] اسی لیے جان کینزنے کہا کہ اپنے سرمائے کو صَرفی عمل میں لگانے کے ارادے کو ملتوی کرنا انتظارکانظریہ کہلاتا ہے۔[37]
سودسے متعلق یہ نظریہ اپنے دامن میں کوئی مضبوط دلیل نہیں رکھتا۔کیونکہ ‘‘صرفی اخراجات کو جان بوجھ کر روکےرکھناایک مشکل امرہے’’ کا مفروضہ کسی متوسط یا غریب طبقے کے افراد کے لیے تو درست ہوسکتا ہے لیکن امیر آدمی کے تناظر میں یہ نظریہ غلط ہوجاتا ہے۔ تو کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ صرف غریب آدمی کو ہی سود ادا کیا جائے کہ اس نے بچت کرنے کے لیے ایک مشکل کا سامنا کیا۔ جبکہ امیر آدمی کو کچھ نہ دیا جائے کیونکہ اس نے کسی قسم کی مشکل کا سامناہی نہیں کیا۔اس نظریے کی غلطی کو ایک مثال سے یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ مثال کے طور پر زید ایک سرمایہ دار ہے۔ اس کے پاس دس لاکھ روپے کا سرمایہ موجود ہے۔اس کے پاس تین راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اسےاپنی ضروریات پر صرف کرے۔دوسرا یہ کہ وہ خود اس سرمائےسے کوئی کاروبار کر سکتا ہے ۔لیکن اس صورت میں اسے نفع کے ساتھ نقصان اندیشہ بھی ہے۔ تیسراراستہ یہ ہے کہ وہ دس لاکھ روپے عمرو کو بطورقرض دےدے۔ لیکن اس صورت میں اسے اپنے کاروبار کی قربانی دینا ہوگی، تاہم اس کا سرمایہ کسی نقصان سے محفوظ ہوجائے گا۔کیونکہ جب کوئی شخص کسی کو سرمایہ بطورقرض دیتا ہے تو وہ سرمایہ اُس کی ضمان (ذمہ داری) سے نکل کر مقروض کی ضمان میں چلاجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مقروض کے قبضے میں جانے کے بعد اگر وہ سرمایہ کسی سماوی آفت سے تباہ ہو جائے،چوری ہوجائے یا مقروض کے کاروبار میں ڈوب جائے تو اُس نقصان کی ذمہ داری صرف مقروض پر آئےگی۔لیکن اس کے باوجودانتظار کا نظریہ کہتا ہے کہ زید اپنے کاروبار کی قربانی دے کر کسی دوسرے کو اپنا سرمایہ دے رہا ہے حالانکہ وہ خود اس سے منافع کما سکتا تھا۔ اس لیے عمرو پر لازم ہے کہ وہ زید کو ایک معین مقدار منافع ادا کرےجو کہ واضح استحصال اور ظلم ہے۔
اس نظریے کی غلطی کو مزیدواضح کرنےکے لیےاس سوال کے جواب پر غور کر یں کہ در حقیقیت زید نےکس چیز کی قربانی دی ہے ؟ انتظار کے نظریہ کے مطابق زید نےعمرو کو قرض دے کر اپنے لیے یقینی نفع کی قربانی دی ہے۔گویایہ نظریہ نفع کو قرض کے مقابلےپر فرض کرتا ہے۔ جبکہ غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ زید نےیا تواپنے صرفی عمل یا پھراپنے کاروبار کے ارادےکو قربان کیاہے۔صرفی عمل کی صورت میں اس کی صرف ضروریات پوری ہوتیں اور سرمایہ خرچ ہوجاتا۔جبکہ کاروبار کرتا تو اس کےنفع یا نقصان کی صورت میں دو ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس لیے قرض کا حقیقی مقابل نفع کی قربانی نہیں بلکہ صرفی عمل یا کاروبار کے ارادےکی قربانی کرناہے۔جہاں تک صرفی عمل کا تعلق ہے تو وہ کوئی نفع آور عمل نہیں۔جبکہ کاروبار میں نفع کے ساتھ نقصان کا امکان بھی ہے۔ پھر انتظار کا نظریہ کس معاشی اصول کے تحت کاروبار میں نقصان کے ممکنہ نتیجے کو پس پشت ڈالتے ہوئےصِرف نفع کے امکانی نتیجے کو ترجیح دے کرعمرو سے یقینی نفع کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے اُس کے سرمائے نے پیداواری عمل میں نقصان اُٹھایا ہو تو پھر وہ کیسے نفع کا طلب گار بن سکتا ہے۔لہذا اُس آدمی کا کیا قصور کہ جس نے کاروبار میں وقت لگایا اوراپنی خدمات بھی دیں نقصان کی صورت میں وہ نقصان بھی اُٹھائے اورساتھ ہی سرما ئے کے مالک کو اپنی جیب سے نفع کی ادائیگی بھی کرے۔ جبکہ سرمائے کا مالک جس نے نہ تو کوئی کام کیا، نہ ہی کاروبار میں وقت دیا، نہ ہی کسی قسم کی خدمات مہیا کیں اور نہ ہی نقصان کا خطرہ مول لیا وہ ہر صورت یقینی نفع وصول کرے ۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ایسے استحصالی نظریے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
نیزانسان اپنے صرفی عمل کو اس وقت ترک کرتا ہے جب اس کی ضروریات کافی حد تک مکمل ہوچکی ہوں۔لیکن اگر کوئی شخص اپنی ضروریات کو نامکمل چھوڑ کر سرمایہ روک لے تو کیا اس کا یہ عمل نفع آور ہوگا؟ایسی کمزور دلیل پر سودی نظام کا بڑا حامی بوہم باورک بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ سرمایہ دار کا صرفی عمل سے محض رک جانا ایک منطقی قسم کی بے وقوفی کےسوا کچھ نہیں اور اس بے وقوفی کومنافع کا سبب نہیں بنایا جاسکتا۔[38] سرمایہ دار اگر اپنے سرمائے کوروکے رکھنے کی بجائے اُس میں بڑھوتری کا خواہاں ہے تو اُس کے لئے صرف ایک ہی جائز راستہ کاروبار ہے کہ جس میں نقصان کا خطرہ مول لے کر وہ منافع کما سکتا ہے۔
یہاں پر یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ زید نے اپنے کاروبار کےارادے کو ترک کرتے ہوئے عمرو کو قرض دیا پھر اس کو ترکِ ارادہ کا کیا فائدہ ملا ؟ تو جواباً کہا جائے گا کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہنے کی صورت میں اسے فائدہ ملا کیونکہ اگر وہ کاروبار کرتا اور نقصان ہوتا تو اس کا سرمایہ ضائع ہوسکتا تھا اور اس طرح وہ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ لیکن قرض دے کر اس نے خود کو ایک ممکنہ نقصان سےمحفوظ کرلیا۔ یہ محفوظ رہنا ہی زید کا فائدہ ہے جو اُسے صرف قرض کی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے۔
(Production theory) نظریہ پیداواریت
بنیادی طور پر یہ نظریہ نیوکلاسیکل معیشت دانوں نے پیش کیا تھا۔ اس نظریے کی رو سے سرمایہ ایک اہم عامل پیداوار ہے، جس سے ملکی سطح پر اشیاء وخدمات پیدا کی جاتی ہیں۔لہذا جس طرح دیگر عاملین پیدائش زمین، تنظیم اور محنت کو اُن کا معاوضہ دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح سرمائے کو بھی سود کی صورت اُس کا معاوضہ دیا جانا چاہیے۔[39]
جدیدمعاشی محققین اشیاء اور سرمایہ میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔وہ سرمائے کو بھی ایک ایسی تصور کرتے ہیں کہ جس کے استعمال پر چیز کے مالک کے لیے کرایہ کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے۔لہذاسرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ کو عامل پیدائش تصور کرتے ہوئے کرائے کی صورت میں اس کے استعمال کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے جسے سود کہا جاتا ہے۔
اس نظریے کی حقیقت اس سوال کے جواب میں مضمر ہےکہ کیا سرمایہ بذاتِ خود عامل پیدائش ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جدید معیشت میں ذرائع پیداوار چار ہیں تنظیم ، زمین،انسانی محنت ، اور سرمایہ یہ وہ چار عناصر ہیں جوایک سال کی مدت میں ملکی معیشت میں وہ اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں جو صارفین تک پہنچتی ہیں جسے جدید معیشت کی اصطلاح میں کہا جاتا ہے۔اس پیداوار سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ انہی چار عاملین پیدائش میں معاوضے کے طور پر تقسیم کردی جاتی ہے جیسے زمین کو کرایہ، انسانی محنت کو مزدوری، سرمائے کو سود اور تنظیم کو منافع ۔گویاسرمایہ دارانہ نظام “سرمایہ” جو کہ ازخود کسی قسم کی پیداواری صلاحیت نہیں رکھتا، کو عامل پیدائش تصور کرتے ہوئے سود کی صورت میں اسےمعین معاوضہ ادا کرتا ہے ۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے برخلاف اسلامی نظام معیشت میں سرمائے کو الگ ذریعہ پیداوار کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔بلکہ اسے تنظیم کا حصہ گردانا جاتا ہے۔لہذااسلامی معیشت دانوں کے نزدیک عاملین پیدائش تین ہیں: تنظیم (سرمایہ)، زمین اور محنت۔اس بارے میں اسلامی معیشت دان ڈاکٹر محمد عزیر نے اپنی کتاب میں جو بحث کی ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے؛
ہر عامل پیدائش کی دو جہتیں: ظاہری شکل اور حقیقی عمل داری ہوتی ہیں۔ زمین ایک عامل پیدائش ہے جس کی بیرونی سطح اُس کی ظاہری شکل ہے کہ جس سے اُس کی پہچان ہوتی ہے۔جبکہ اُس زمین کی زرخیزی، سیرابی کا نظام، موسم، مقام وغیرہ یہ سب چیزیں ایسی خصوصیات ہیں جو زمین کو ایک حقیقی عامل پیدائش بناتی ہیں۔ زمین کی اسی حقیقی خصوصیت کی بنا پر ہی اسے کرائے کی صورت میں معاوضہ دیا جاتا ہے۔اسی طرح دوسرا عامل پیدائش محنت ہےجس کی ظاہری شکل انسانی جسم ہے، لیکن حقیقی عمل داری میں انسان کی تعلیم، عمر، صحت، طاقت، تجربہ، جنس وغیرہ جیسی خصوصیات محنت کو حقیقی عامل بناتی ہیں جس کو مزدوری کی صورت میں معاوضہ دیا جاتا ہے۔ تیسرا عامل پیدائش تنظیم ہے جو کہ انسان ہی ہوتا ہے، لیکن اس کو محنت سے الگ عامل پیدائش بنانے کے لیے لازمی ہے کہ تنظیم کی ظاہری شکل محنت کی ظاہری شکل سے مختلف ہو۔ تنظیم عمل پیدائش (کاروبار)کی مالک ہوتی ہے اور مالک وہ ہوتا ہے جو سرمایہ لگاتا ہے۔ کاروبار میں سرمائے کے بغیرملکیت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔لہذا سرمایہ تنظیم کی ظاہری شکل ہے اور کاروبار میں تجربہ، وقت اورعمل پیدائش کے دوران سرمائے پرنقصان کاخطرہ یہ سب خصوصیات تنظیم کو حقیقی عامل پیدائش بناتی ہیں اور اسے نفع کا مستحق ٹھہراتی ہیں۔ سرمائے کے بغیر کوئی شخص منافع کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے؟ اس لیے سرمایہ الگ سے کوئی عامل پیدائش نہیں بلکہ تنظیم کا حصہ ہوتا ہے۔تنظیم کواگرسرمائے سے الگ کر دیا جائے تو پھر تنظیم کے پاس نفع کے مطالبہ کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔[40]
اس کو آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرض کریں ایک معیشت کی سالانہ کل پیداوار مبلغ 100 روپے ہے۔جس میں سے زمین کو 30 روپے بطور کرایہ، انسانی محنت کو 35 روپے بطور محنت، سرمائے کو 20روپے بطور سود اور تنظیم کو 15 روپے بطور منافع تقسیم کیا جاتا ہے۔ (تفہیم کے لیے اس مثال میں یہ اعدا و شمار کم اور اس انداز میں دیے گئے ہیں)۔ سوال یہ ہے کہ سرمائے کا سود اور تنظیم کا منافع کس کی جیب میں جائے گا؟ تو جواب ملتا ہے یہ دونوں معاوضے منتظم کی جیب میں جائیں گے۔گویا ملکی معیشت کی کل پیداوار 100 روپے میں سے منتظم مختلف مدّات میں 55 روپے اپنی جیب میں رکھے گا اور باقی کے 45 روپے میں سے زمین کو 30 روپے جبکہ 15 روپے باقی مزدوروں میں تقسیم ہوں گے۔ کیا اس سے مزدور کی معاشی حالت بہتر ہوپائے گی؟ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں غریب کی حالت گزرت وقت کے ساتھ ساتھ ابتر ہوتی جاتی ہے جبکہ دولت مندوں کی دولت میں اضافہ در اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
لہذا تنظیم اس وقت تک پیداواری عمل کی مالک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ وہ عمل پیداوار میں اپنے سرمائے پر نقصان کا خطرہ مول نہ لے۔ورنہ تنظیم کا یہ مطالبہ نفع کسی وجہ کے بغیر ہونے کی بدولت غیر منصفانہ قرار پاتا ہے۔منتظم دیگر دو ذرائع پیداوار (زمین اور انسانی محنت) کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ کام پر لگاتا ہے۔ یہ دونوں ذرائع پیداوار پیداواری کے عمل کے دوران خرچ نہیں ہوتے اس لئے زمین کا معاوضہ کرائے اور انسانی محنت کا معاوضہ مزدوری کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے ۔ رہی بات منتظم کی تو وہ کیونکہ پیداواری عمل کا مالک ہوتا ہے اور مالک اُسی وقت بنے گا جب وہ اُس میں اپنی دولت لگائے گا ،جس سے وہ معاوضے ادا کرے گا، خام مال خریدے گا، اور دیگر اخراجات بھی پورے کرے گا۔ کبھی وہ یہ دولت اپنی جیب سے لگاتا ہے اور کبھی مختلف افراد یاا داروں سے قرض لے کر لگاتا ہے۔ لہذا منتظم اپنی دولت کے ساتھ ایک ذریعہ پیداوار ہوتا ہے۔ دولت الگ طور پر ذریعہ پیداوار نہیں ہو سکتی۔ منتظم چونکہ اپنی دولت پر نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے اِس لئے وہ ایک جائز منافع کا حقدار تسلیم کیا جاتا ہے اور اُسے نقصان کے امکانی خطرے کے ساتھ غیر معین منافع کی صورت میں معاوضہ ملتا ہے ۔ لیکن اگر پیداواری عمل میں نقصان ہوتا ہے تو پھر اُسے کسی قسم کا نفع نہیں دیا جاتا بلکہ وہ نقصان برداشت کرتا ہے۔نقد سرمائے کو عامل پیدائش بنائے جانے کی قباحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الازہر شیخ محمد عبدہ ؒفرماتے ہیں:جب نقد بذات خود ذریعہ پیداوار بن جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت ان لوگوں کے پاس جمع ہوجائے گی، جن کا کام ہی یہ ہوتاہے کہ نقد سے نقد کمایا جائے۔ [41]لہذا کرنسی کی غلط حیثیت ہی سرمایہ دارانہ نظام میں طبقاتی تقسیم کی بنیاد ہے اور آج تک کوئی بھی سلیم الذہن انسان اس کو عامل پیداوار کی حیثیت میں قبول نہیں کر سکا ۔جب سرمایہ الگ عامل پیدائش ہی نہیں ہے تو اس نظریۂ پیداواریت کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ اس طرح سرمائے کو سود دیا جائے یا نہ دیا جائے پر بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔
نیز یہ نظریہ سرمائے کے صرف رسد کے پہلو کو مد نظر رکھتا ہے۔جبکہ طلب کے پہلو کو بالکل پس پشت ڈالتا ہے۔ یعنی یہ نظریہ سرمایہ فراہم کرنے والے کو تو ایک متعین معاوضے کا مستحق قرار دیتا ہے،جبکہ اس کے سرمائے کو پیداواری عمل میں لگانے والے فرد کا بالکل خیال نہیں کرتا بلکہ الٹا اُس کے ساتھ ظلم اور استحصال کا رویہ اپناتا ہے۔کیونکہ یہ نظریہ پہلے سے ہی فرض کرتا ہے کہ کاروبار کرنے والا شخص لازماً منافع ہی کمائے گا،حالانکہ کاروبار کا نتیجہ ہمیشہ مبہم ہواکرتا ہے ۔جب ایسا ہے تو پھر سرمائے کے مالک کا معاوضہ یقینی اور معین کیسے ہو سکتا ہے جب کہ پیداواری کے اس عمل میں اُس کا کردار صرف ایک قرض فراہم کرنے والے شخص کا ہوتا ہے جس کا حق صرف اتنا ہی ہے کہ وقت مقررہ پر وہ صرف اپنا قرض ہی واپس لے۔نیز اگر ادھار کی رقم کو غیر پیداواری کاموں میں صرف کیا جائے، مثلاً بنیادی ضروریات کی تکمیل میں ، تو پھر منافع کا تصور کیسا! اگر تو اُس کا کردار کاروبار میں ایک متحرک شریک یا غیر متحرک شریک کا ہوتا ہے تو وہ نقصان کی ذمے داری بھی قبول کرے ورنہ وہ شریک کیا جو نقصان کی ساری ذمہ داری دوسرے شریک کارپر ڈالے اور خود نفع لے کر اپنے ہاتھ ہلاتا ہوا چل دے۔اس ساری بحث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسلام سرمائے کی پیداواریت کا انکار کرتا ہے۔ بلکہ اسلام ان معنوں میں سرمائے کی پیداواریت کا اقرار کرتا ہے کہ کمائے جانے والے منافع میں سرمائے کا تناسب کے اعتبار سے ایک حق ہے لیکن یہ استحقاق سرمایہ دارکو اُس وقت حاصل ہوگا جب وہ سرمائے پر نقصان کا خطرہ مول لینے پر راضی ہوگا۔
سرمایہ دارانہ نظام پر کارل مارکس نے جو تنقید کی ہے آسان لفظوں میں اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر سرمایہ کو عامل پیدائش تسلیم کرلیا جائے تو پھر استحصال کا دروازہ کھل جاتا ہے کہ امیر کے پاس دولت جمع ہوگی اور وہ امیر تر ہوتا جائے گا۔ایک سرمایہ دار زمین اور سرمائے کا مالک ہوتا ہے وہ مزدور کا استحصال کرتا ہے اور اس کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دیتا۔کارل مارکس نے کہا کہ مزدور کی محنت کی دو جہتیں ہوتی ہیں۔ایک جہت میں وہ اپنی مزدوری کے لیے کام کرتا ہے، جبکہ دوسری میں وہ خام مال کو اشیاءوخدمات میں بدل کر اس میں زائد قدر پیدا کرتا ہے جسے کارل مارکس نے کا نام دیا۔ کارل مارکس کہتا ہے کہ سرمایہ دار مزدور کو صرف اس کی محنت کی پہلی جہت کی اجرت دیتا ہے اور دوسری جہت کی ساری کمائی اپنی جیب میں ڈالتا ہے۔ حالانکہ دوسری جہت میں خام مال کو اشیاء و خدمات میں بدلنےاور اسے قابل قدر بنانے میں مزدور کی محنت شامل ہے جس کا اُسے حق نہیں دیا جاتا۔[42] یوں کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی عاملین پیدائش کی اس تقسیم کی استحصالی حقیقت سے پردہ اُٹھایا۔
(Compensation theory) معاوضے کا نظریہ
اس نظریے کے مطابق پیداواری عمل کے لیےبچتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔اگر کسی معیشت میں بچت کا رجحان کم ہو تو وہاں کی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہےجس کی بدولت ترقی کاعمل رک جاتاہے۔اس لیے لوگوں کو بچت پر آمادہ کرنا بہت ضروری ہوجاتاہے۔یہ ایک فطری امر ہے کہ کوئی بھی شخص کسی مادی فائدے کے بغیر بچت کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ لہذا جس کے پاس سرمایہ ہے تواسے بچت پرآمادہ کرنے بچت کا معاوضہ دیاجانالازمی ہے اوریہ معاوضہ پیداواری عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع سے سود کی شکل میں ادا ہو گا۔سرمایہ دارکواگر اس کی بچت پرمعاوضہ نہیں دیا جائے گا تو اس کا نقصان ہوگا کیونکہ جب ایک خاص مدت کے بعد اسے صرف وہی رقم ہی واپس کی جائے گی تو اس کی قوت خرید میں کمی آچکی ہوگی۔ اس لیے اس کے نقصان کا مداوا کیا جانا لازمی ہے۔
اس کا جواب یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ اگر سرمایہ دار اپنی بچت سرمایہ کاری کے عمل میں نہ دیتا اور اپنے گھر میں اتنی ہی مدت کے لیے پس انداز کیے رہتا تو کیا اس صورت میں اس کی بچت کی قوت خرید مستحکم رہتی ؟ اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو پھر کس معاشی بنیاد پر کسی شخص کو صرف اس کی بچت کی بنیاد پر معاوضہ ادا کیا جائے؟
نیز یہ نظریہ بچت کے دو پہلووں میں سے صرف رسد کے پہلو پر بات کرتا ہے اور بچت کی طلب کے پہلو کو بالکل پس پشت ڈالتا ہے۔ یعنی یہ نظریہ اپنی بچت فراہم کرنے والے کو تو ایک متعین معاوضے کا مستحق قرار دیتا ہے،جبکہ اس کی بچت کو پیداواری عمل میں لگانے والے فرد کا بالکل خیال نہیں کرتا بلکہ الٹا اُس کے ساتھ ظلم اور استحصال کا رویہ اپناتا ہے۔حالانکہ وہ بھی تو مساوی طور پر اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ بچتوں کو پیداواری عمل میں صرف کرتا ہے اور اس دوران وہ نقصان کا خطرہ مول لینے کے ساتھ ساتھ اپنی محنت،وقت، تجربہ اورصحت سب داؤ پر لگاتا ہے اور کبھی نفع اٹھاتا ہے تو کبھی نقصان۔ لیکن یہ نظریہ اُس فرد پر یہ لازم کرتا ہے کہ وہ بچتوں کے مالک کو ایک متعین مقدار کا نفع ادا کرےبھلے اُسے خود کو نقصان کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی پیداواری عمل میں عملی کردار اداکرنےوالا نقصان کی صورت میں نقصان بھی برداشت کرے اور اپنی جیب سے سرمائے کے مالک کوسود کی صورت میں نفع بھی ادا کرے۔ تو یہ معاملہ کس معاشی اور اخلاقی اصول کے تحت جائز قرار پاتا ہے؟ اگربچتوں کو طلب کرنے والا موجودہی نہ ہوتا توکیا بچت کرنے والے کو اپنی بچت کاکوئی فائدہ ہوتا؟ سوائے اس کے کہ وہ یا تو اپنی بچت کو ضروریات پر خرچ کرتا یا نقصان کا خطرہ مول لیتے ہوئے خود کوئی کاروبار کرتا ۔ جب وہ اپنی بچت سے کیے جانے والے خودکے کاروبار میں نقصان کا خطرہ اٹھاسکتا ہے تو پھروہ دوسرے شخص کےاسی نوعیت کے کاروبار میں اپنی بچت لگاتے وقت اُس پر نقصان کا خطرہ کیوں نہیں اُٹھا سکتا؟
(Time Preference Theory) نظریہ وقتی ترجیح
مشہور امریکی معیشت دان بوہم باورک نے آگیو نظریہ پیش کیا تھا۔[43]بعد میں پروفیسر اِرونگ فشر نے 1930 میں اپنی کتاب سود کا نظریہ میں اسی طرح کا نظریہ پیش کیا کہ انسان فطری طور پر حال کو مستقبل پر ترجیح دیتا ہےکیونکہ حال کی خوشیاں اور راحتیں مستقبل کے مقابلے میں زیادہ عزیز ہوتی ہیں اور اس طرح حال کی مصیبتیں اور دکھ بھی مستقبل کے مقابلے میں زیادہ شدید محسوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ مستقبل ابھی دور ہوتا ہےجبکہ حال سامنے ہوتا ہے ۔جو رقم آج ہاتھ میں موجود ہے اس کی قدر کل ملنے والی متوقع رقم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اِس فطری طرز عمل کو اس طرح بدلنے کے لیے کہ انسان اپنے‘‘ آج ’’ کو کسی دوسرے شخص کے ‘‘ آج ’’ پر قربان کرتے ہوئے اپنا سرمایہ اُس کے حوالے کر دے، ضروری ہے کہ اُس انسان کو مستقبل میں اصل سرمائےکے ساتھ کچھ اضافی رقم ملنے کی امید اور لالچ دی جا ئے اورسود ہی وہ اضافی رقم ہے جس کے عوض بندہ اپنے موجودہ سرمائےکو دوسرے کے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اس لیے آج کے ‘‘سرمائے’’ کو کل حاصل ہونے والے ‘‘سرمائے’’ کے ساتھ سود کے ذریعہ منسلک کیا جاتا ہے۔[44] پروفیسر ارونگ فشر نے اپنی اِسی کتاب میں نظریہ وقتی ترجیح کی بنیادوں پر بحث کرتے ہوئے افراد کی حال اور مستقبل کی ترجیحات کا تقابلی جائزہ لیاہے۔اس تقابلی جائزے میں ارونگ فشر نے رقم، گھر ،پھل اور صنعت کار کے کپڑا بنانے جیسی مثالوں کے ساتھ افراد کی حال اور مستقبل کی ترجیحات پر بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ افراد ان سب چیز وں کو زمانہ مستقبل کی بجائے حال میں لینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی فشر آگے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اگر وہ اس ترجیح کو چھوڑ کر مستقبل کو ترجیح دیں تو مستقبل میں اِن اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہوچکی ہونگیں اور یہ فیصلہ ان کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔لہذا افراد کو اس دوسری ترجیح پر انگیخت دینے کے لیے سودکی صورت میں ایک معقول معاوضہ دینا لازمی ہے۔ اسی نظریے کو ٹائم ویلیو آف منی بھی کہا جاتا ہے۔
پروفیسر ارونگ فشر کے نظریے کا تجزیہ کرنے سے قبل اس سوال پر غور کرنا ضروری ہےکہ کیا روپے پیسے کو کموڈٹی کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب سمجھنے کے بعد ہی قاری کے لیے پروفیسر فشر کے نظریے پر تجزیے کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ بنیادی طور پر کموڈٹی اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس کی کوئی ‘‘ ذاتی افادیت ’’ ہو تاکہ اُس سے استفادہ کیا جا سکے۔ جبکہ کرنسی کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کی کوئی اپنی ذاتی افادیت ہواوراس سے استفادہ کیا جا سکے ، جیسے گاڑی، گھر وغیرہ کہ ان اشیا کی افادیت اِن کی اپنی ذات میں ہی پوشیدہ ہے ۔ اِسے اِس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ گاڑی اگر نہ بیچی جائے ، نہ کسی کو تحفۃََ دی جائے، نہ ھبہ کی جائے بلکہ صرف اور صرف وہ اپنے مالک کے پاس رہے تو وہ مالک کو جو فائدہ دے گی وہی اُس گاڑی کی ” ذاتی افادیت کہلائے گی۔ جو کہ کرنسی میں نہیں ہے کیونکہ اگر کرنسی کسی طرح کی بھی خرید وفروخت یا لین دین میں استعمال نہ کی جائے اور عرصہ دراز تک وہ اپنے مالک کے پاس رکھی رہے تو وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی فائدہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی ،نہ اسے کھایا جاسکتا ہے، نہ پہنا جاسکتا ہے اور نہ اس میں رہائش رکھی جاسکتی ہے۔ کرنسی کا تو ایک ہی مصرف ہے کہ اس سے کچھ خریدا جائے اور اس خریدی ہوئی چیز سے استفادہ کیا جائے۔غرض کرنسی کا بنیادی کام قابل فائدہ ہونا نہیں بلکہ مفید شے کو خریدنے کی صلاحیت رکھنا ہے ۔اِس ضمن میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کرنسی کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ؟ اُن سے کیا کام لیا جا سکتا ہے؟ کرنسی کے درج ذیل تین بنیادی مقاصد ہیں اور کرنسی کا تما م ارتقا انہی تین مقاصد کے گرد ہی گھومتا ہے ۔
اول: کرنسی کی مددسے کسی شے کی حقیقی قدر کا تعین کیا جاتا ہے، کرنسی کے اِس بنیادی مقصد کو انگلش میں یونٹ آف اکاونٹ کہا جاتا ہے۔ مثلا کرنسی کے ایک یونٹ جیسے ایک روپے سے کسی شے کے کتنے یونٹ(کلو گرام، لیٹر ، میٹر وغیرہ) خریدے جا سکتے ہیں۔
دوم: کرنسی کا دوسرا بنیادی مقصد ہے پسندیدہ چیز کے حصول میں” آلہ کار” بنناجسے انگلش میں میڈیم آف ایکسچینج کہا جاتا ہے۔ یعنی جس کے ذریعے انسان اپنی پسند کی چیز حاصل کر سکے ۔کیونکہ مختلف اجناس میں تبادلہ ہر وقت ممکن نہیں ہوتا۔ ہر شخص کو اپنی مطلوبہ جنس وقت پر بآسانی میسرنہیں آتی۔ایک درمیانی ذریعہ یاواسطہ ضروری تھا کہ جس کے عوض اپنی چیز کو فروخت کرکے اپنی مطلوبہ چیز خرید لی جائے۔
سوم: کرنسی کا تیسرا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ دیگر اشیا کی قدر یعنی ویلیو کو اپنے اندر کچھ عرصے کے لئے محفوظ کر لیتی ہے اور آسانی کےساتھ اس قدر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کرنسی کی اس خصوصیت کو انگلش میں سٹور آف ویلیو کہا جاتا ہے۔ مثال کےطورپرایک جگہ آدمی اپنا مکان فروخت کرتا ہے۔ تو وہ اُ س کی قدر کو کرنسی کی شکل میں محفوظ کر لیتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد دوسری جگہ اپنی پسند کا مکان یا کوئی دوسری چیز خرید لیتا ہے۔ کیونکہ انسانوں کی ضروریات ایک مخصوص علا قہ میں پوری نہیں ہو تیں ۔بعض علاقے اگر اچھی فصلیں پیدا کرتے ہیں تو دوسرے مقامات پر بہتر ہنر مند ؍کاریگر دستیاب ہوتےہیں ۔ چنانچہ اشیاءکو محفوظ صورت میں منتقل کرنے اور آزادانہ نقل وحمل میں آسانی کیلئے کرنسی کا نظام وجود میں آیا ۔[45]
ابھی تک انسانی شعور نے ان تین مقاصد کے علاوہ کرنسی کا کوئی چوتھا مقصدمتعارف نہیں کیا۔
ذاتی افادیت کے تصور کواس سوال کے جواب سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی چیز پر نفع کس بنیاد پر کمایا جاتا ہے؟ اس کے لیے عموماً یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ایک شخص محنت کرنے اور وقت لگانے کی بدولت منافع کماتا ہے۔حالانکہ یہ مکمل جواب نہیں ہے ۔فرض کریں ایک شخص ایک چیز مارکیٹ میں لاتا ہے لیکن حادثاتی طور پر اُس چیز کی افادیت ضائع ہوجاتی ہے اور اُسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اُسے نفع کیوں نہیں ہوا؟ حالانکہ اُس نے محنت بھی کی اور وقت بھی دیا۔لہذا یہ فرض کرلینا کہ نفعٍ ٍصرف محنت اور وقت کی بنیاد پر ملتا ہے غلط ہے۔ درست یہ ہے کہ محنت اور وقت ایسے تصور ہیں جو کسی شخص کو نفع کمانے کے قابل اور اہل قرار دیتے ہیں۔جبکہ نفع و نقصان کا امکان چیز کی ذاتی افادیت پر منحصر ہوتا ہے۔اگر ذاتی افادیت بڑھ گئی یا برقرار رہی تو منافع ملے گا اور ذاتی افادیت کم ہوگئی یا ختم ہوگئی تو نقصان ہوگا۔اسلام میں اسی اصول کو یوں بیان کیاجاتا ہے کہ نفع کمانے کے لیے نقصان کا خطرہ مول لینا پڑے گا۔لہذا نفع ہمیشہ کسی چیز کی ذاتی افادیت کی بنیاد پر ہی کمایا جاتا ہے ۔ جس چیز میں ذاتی افادیت نہ ہو اُس پر نفع غیر معقول سی بات لگتی ہے۔ مثلا اگر زید ایک سیب 10 روپے میں خریدتا ہے اور15= (5+10) روپے میں فروخت کرتا ہے تو اِن 15 روپوں میں سے 10 روپے قیمت کے بدلے 10 روپے ہوجائیں گےتو اضافی 5 روپے کس چیز کے بدلے میں ہوئے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیب کی اپنی ایک ذاتی افادیت ہےجس کے بدلے 5 روپے نفع کمایا گیا ہے۔اگر سیب گل سڑ جائے تو پھرکوئی شخص بھی قیمتِ خرید تو کُجامفت میں بھی نہیں لےگاکیونکہ اب اس کا ذاتی افادہ باقی نہیں رہا۔لہذاسیب کے مالک کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔حالانکہ سیب کے مالک کی محنت اور وقت بھی اس سیب کے حصول میں صرف ہوئےتھے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی چیزسے نفع کے حصول میں محنت اور وقت سے زیادہ اہم عنصرچیز کا ذاتی افادہ ہوتا ہے۔اسی طرح اگر زید 10 روپے کسی کو فروخت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے بدلے 15روپے لوں گا ۔ تو سوال پھر بھی وہی ہوگا کہ اِن 15 روپوں میں سے 10 روپے کے بدلے 10 روپے ہوجائیں گےتو اضافی 5روپے کس چیز کے بدلے میں ہوئے ؟ کیونکہ سیب والی صورت میں تو 5 روپے اُس کی ذاتی افادیت کا بدل تھے ، جبکہ روپے پیسے کی تو ذاتی افادیت ہے ہی نہیں تو پھر یہ 5 روپے کا نفع کس کا بدل ہے؟اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ روپیہ ایسی چیز ہے جس کا کوائی ذاتی افادہ نہیں ہے اس لیے وہ سے مختلف اور الگ پہچان رکھتا ہے۔لہذا کرنسی ، روپیہ ، پیسہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اُسے نفع پر بیچا جائے ۔ صحیح صورت صرف اور صرف یہ ہوگی کہ 10 روپے کے بدلے صرف 10 روپے ہی ہوں گے جتنی زیادتی ہوگی وہ کسی عوض کے بغیر ہونے کی وجہ سے سود قرارپائےگی۔
اس کے جواب میں سود کو جائز قرار دینے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کرنسی کی خرید وفروخت پر نفع نہیں کمایا جا سکتا تو پھر روپے کے بدلے میں ڈالر ، ڈالر کے بدلے میں پاؤنڈ یا ان کے الٹ جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو پھربرابری کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ مثلا ایک ڈالر کو 100 روپے کے بدلے فروخت کیا جاتا ہے کیا یہ کرنسی پر نفع کمانا نہیں ہے جسے سود تو نہیں کہاجاتا بلکہ جائز سمجھا جاتا ہے ، کیوں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ڈالر کو 100 روپے کے بدلے فروخت کرنے کا مطلب ہے 100 روپے کو 100 روپے عوض تبادلہ کیا گیا ہےجو کہ بالکل ٹھیک ہے۔[46] کیونکہ ڈالر دوسرے ملک امریکہ کی کرنسی ہے جس کے ایک یونٹ کی مالیت پاکستانی روپے کے 100 یونٹوں کے برابر ہے ۔ لہذا یہاں کوئی نفع نہیں کمایا گیا ۔ ہاں اگر کوئی ایک امریکی ڈالر کو دو امریکی ڈالر کے بدلے فروخت کرے گا وہ ناجائز ہو گا اور اضافی ڈالر سود ہو گا۔ کیونکہ رباالفضل کے اصول کے تحت یہ باہم ہم جنس ہیں اور نقدی ہیں تو یہ تبادلہ ہاتھوں ہاتھ اور برابری کی بنیاد پر ہوگا۔ ڈالر کے بدلے روپے کے تبادلے کی صورت میں مختلف اجناس اور نقدی ہونے کی بنا پر یہ تبادلہ ہاتھوں ہاتھ ہوگا اور برابری کی شرط نہیں ہوگی۔
مندرجہ بالا بحث میں یہ بات ثابت ہوچکی کہ روپیہ پیسہ کموڈٹی نہیں ہیں۔لہذا پروفیسر ارونگ فشر کاسرمائے کو دیگر حقیقی اشیاء پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا کہ مستقبل میں اس کی قیمت بھی بڑھ جائے گی جس کا ازالہ سود کی صورت میں کیا جانا چاہیے ایک غلط نظریہ قرار پاتا ہے۔نیزانسان کا فطری رویہ ہی یہ ہے کہ اس کے ذہن میں بچت کا تصور صرف اسی وقت آتا ہے جب اس کے پاس اس کی بنیادی ضروریات و حاجات سے زائد رقم موجود ہو۔ ورنہ ایک غریب انسان کو فاقہ کشی کر کے بچت کرنی چاہیے لیکن وہ نہیں کرتا کیونکہ اس کی ضروریات اس کی آمدن سے اول تو زیادہ ہوتی ہیں یا پھر ضروریات کے برابر۔نیز یہ نظریہ اس بات کو بھی نظر انداز کرتا ہے کہ نقصان کا خطرہ ہر کاروبار کا ایک لازمی جز ہے۔ جب تک آدمی اس خطرے کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں کرتا اور ان دیکھے مستقبل کے گدلے پانی میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اُس وقت تک کسی قسم کا منافع حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ بات عدل کے خلاف ہے کہ ساری کاوش ایک فریق کرےاور نقصان کا خطرہ مول لے، اس امید پر کہ شاید کچھ منافع حاصل ہو گا جو کہ بالکل غیر یقینی ہے۔ جبکہ دوسرا فریق صرف اس بنیاد پر یقینی منافع کا مستحق بنے کے وہ سرمایہ کا مالک ہے۔
اس نظریے کے تحت جدید معاشیات میں آج کی رقم کے بدلے میں ایک خاص شرح سود پر ایک معینہ مدت کے بعد کتنا رقم ملے گی ، کے لیے درج ذیل فارمولا استعمال ہوتا ہے ؛
(Saving and Investment Theory of Interest)بچت اورسرمایہ کاری نظریہ
کلاسیکل ماہرین معاشیات نے سودکوبچت کی قیمت قرار دیا اوریہ نظریہ پیش کیا کہ اگربچت پر شرح سود زیادہ ملے گی تو لوگ سرمایہ کاری کے لیے زیادہ بچتیں فراہم کریں گے۔اسی طرح کم شرح سود پرکم بچتیں فراہم کریں گے۔تاہم شرح سود کی کم یا زیادہ سطح کا تعین بچت کی فراہمی یعنی رسد اور بچت کی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔عموماً لوگ زیادہ شرح سود پر زیادہ بچتیں فراہم کرنے پر راضی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ مارکیٹ میں ان بچتوں کو اتنی زیادہ قیمت پر لینے والے بہت ہی کم ہوں ۔لہذا بچتیں فراہم کرنے والوں کو شرح سود تھوڑا کم کرنے پڑے گا ورنہ ان کی بچتیں غیر مستعمل رہیں گی۔یوں کسی خاص سطح پر بچت کی رسد اور طلب میں برابری آئےگی اورشرح سود کی قابل قبول سطح کا تعین ہوگا۔[47]
اس نظریے میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ شرح سود زیادہ ہونے کی صورت میں لوگ زیادہ بچتیں فراہم کریں گے۔ لیکن کلاسیکل ماہرین معاشیات اپنے اس نظریے پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں دیتے کہ لوگ کیوں اپنے صرفی عمل کو چھوڑ کر بچت کریں گے؟ یہاں کلاسیکل دو مفروضات کو فرض کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اول یہ کہ لوگوں کی سب ضروریات مکمل ہیں اور وہ بچت کر رہے ہیں لہذا وہ اپنی بچتیں فراہم کرنے کے لیے زیادہ شرح سود کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ اپنی دانست میں ایک غیردانشمندانہ مفروضہ ہے۔کیونکہ علم ِمعاشیات کی اپنی نظر میں ضروریات و خواہشات لامحدود ہوتی ہیں جو مکمل طور پر کبھی بھی پوری نہیں ہوسکتیں ۔اس کےعلاوہ بھی دیگرمعاشی دلائل ہیں جس کے لیے گرافیکل تجزیے کی ضرورت ہوگی اور یہ اس کا محل نہیں۔
کیونکہ یہ ایک غیر معقول بات ہے کہ ایک آدمی اپنی ضروریات کی فہرست ہاتھ میں تھامے ہو ئے ہو اور راستے میں زیادہ شرح سود پر اس سے کوئی اُس کی رقم طلب کرے تو وہاپنی ضروریات کی فہرست پھاڑ کر یا جیب میں ڈالتے ہوئے اسے اپنی وہ رقم دے دے ۔
(Exploitation theory) استحصال کا نظریہ
یہ نظریہ انیسویں صدی کے مشہور فلاسفر اور سوشلزم نظریات کے بانی کارل مارکس کے افکار پر مشتمل ہے۔ کارل مارکس اپنے وقت کے سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے سخت مخالف اور ناقد تھے۔ اس نظریہ کے مطابق سرمایہ دار چار میں سے تین عاملین پیداوار کا خود مالک ہوتا ہے۔ یعنی زمین ، بلڈنگ، اشیا ئےسرمایہ اور کاروبار۔ وہ صرف انسانی محنت کو کرایہ پرحاصل کرتا ہے۔ لیکن مزدور کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ادا نہیں کرتا۔مزدور اپنی محنت اور لگن سے ایک خام چیز کو قابل استعمال اور مفید چیز میں بدل کر اُسے کارآمد بناتا ہے اور اس میں اضافی قدر پیدا کرتا ہے لیکن اُسے اس کا کوئی بھی صلہ نہیں دیا جاتا اور سرمایہ دار اُس ساری اضافی قدر کا مالک بن جاتا ہے۔ یہی اضافی قدر دراصل سود ہے جو مزدور کے خون پسینے سے نکلتا ہے۔لیکن اس استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے کارل مارکس نے ایک اور نظام دیا جس میں مزدور سرمایہ دار کا استحصال کرتا ہے ۔[48]
یہ نظریہ ذی شعور افراد کے لیے کوئی قابل قبول حل نہیں ہے ۔کیونکہ مظلوم کی داد رسی کا نعرہ مستانہ بلندکرتے ہوئےکسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ خود بھی کسی دوسرے کا استحصال کرنا شروع کردے کہ یہ عین ظلم اور ناانصافی ہے۔ اس کے بر عکس اسلام ایک ایسا معتدل نظام معیشت دیتا ہے جس میں چاروں عاملین پیدائش میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور کسی کا استحصال بھی نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کو اخوت کی لڑی میں اس طرح پرو دیتا ہے کہ جو عوامل دیگر نظامہائے معیشت میں ایک دوسرے کے حقوق تلف کرنے پر تُلے رہتے تھے ، وہ ایک دوسرے کے لیے جذبہ ایثار سے سرشار رہتے ہیں۔
کیا سود افراطِ زر کی بدولت رقم کی قوت خرید میں آنے والی کمی کا معاوضہ ہے؟
اس نظریے کے مطابق سود درحقیقت افراطِ زر کی وجہ سے روپے کی قوتِ خرید میں آنے والی کمی کا معاوضہ ہے۔مثلاً آج زیدکے پاس مبلغ 10000 روپے ہیں۔ زید اس رقم سے 100 کلو گرام گندم خرید سکتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت 100 روپے فی کلو گرام ہے۔لیکن وہ گندم خریدنے کی بجائے وہ رقم بکر کو ایک سال کی مدت کے لیے بطور قرض دیتا ہے ۔جب ایک سال بعد بکر اپنا قرض واپس کرے گا تو اس وقت افراط زر کی شرح 10 فیصد تک پہنچ جانے کی وجہ سے گندم مہنگی ہوچکی ہوگی اور اس کی قیمت110 روپے فی کلو ہوچکی ہوگی، جس کی بدولت زید اس رقم سے تقریبا ً90 کلو گندم خرید سکے گا۔زید کو اضافی 10 کلوگرام خریدنے کے لیے مبلغ 1100 روپے اپنی جیب سے ادا کرنے پڑیں گے۔لہذا زیدکو10 کلوگرام گندم یا 1100 روپے کے برابر ہونے والے نقصان کا مداوا ہونا چاہیے ۔
اس کا جواب دینے سے قبل پہلے افراط زر کا مفہوم سمجھنا لازمی ہے۔ اکنامکس کی زبان میں افراط زر ایک ایسی صورت حال کو کہتے ہیں جہاں قیمتوں کی عمومی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا ہےاور زرکی قدر میں کمی آجاتی ہے۔اسی طرح قیمتوں کی عمومی سطح میں مسلسل گراوٹ کوتفریطِ زر کہاجاتا ہے۔[49] جب زر کی زیادہ مقدار سے اشیائے صرف کی تھوڑی مقدار خریدی جائے توایسی صورت حال کو تفریطِ زر کہا جاتاہے۔ اور جب زر کی تھوڑی مقدار سے زیادہ اشیائے صرف خریدی جائیں تو اسے تفریطِ زر کہاجاتا ہے۔ایک چیز ذہن میں رکھنا لازمی ہے کہ افراطِ زریا تفریطِ زرکسی ایک شئے نہیں بلکہ عمومی سطح پربہت سی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے یا گراوٹ کا نام ہے۔قیمتوں کی سطح میں واقع ہونے والے سالانہ فیصداضافے کو افراط زر کی شرح کہا جاتا ہے۔[50] معیشت دانوں کے نزدیک ملکی سطح پر شرح سود میں کمی [51]، اجرتوں میں اضافہ، زر کی رسد میں اضافہ، ملکی سطح پر پیداوار میں کمی، آبادی میں اضافہ، غلط معاشی پالیسیاں افراطِ زر کےاہم اسباب ہیں۔[52]
اس مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشی ماہرین کے نزدیک افراطِ زر بہت سے عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا ذمہ دار کسی ایک شخص کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ لہٰذا کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کا ذمہ دار بکر کوٹھہراتے ہوئے اس سے 1100 روپے کا مطالبہ کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ اگر زید افراطِ زر سے بچنا چاہتا ہے اور گندم کا حقیقی خواہش مند ہے تو اُسے چاہیے کہ قرض کی فراہمی گندم کی صورت میں کرے اور واپسی بھی گندم وصول کرے۔اس طرح وہ افراطِ زر کی الجھن سے بچ جائے گا۔اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس ایک سال کی مدت میں افراطِ زرکا سامنا کیا صرف زید کو کرنا پڑا؟ نہیں بلکہ زید، بکر اور پوری معیشت نے اس کا سامنا کیا ہے ہے توپھر اس کا مداوا اکیلے زید کے لیے ہی خاص کیوں؟
دوسرا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ افراط زر کوئی یقینی ضابطہ بھی نہیں کہ مستقبل میں ہر صورت روپے کی قدر میں کمی ہی آئےگی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ روپے کی قدرمیں اضافہ ہو جائے ۔ جب افراطِ زر ایک ظنّی یعنی اندازے والا تصور ہے تو اُ س کی مد میں کوئی شخص سود کی شکل میں کیسے ایک یقینی رقم وصول کر سکتا ہے۔مندرجہ بالا مثال کو ہی لے لیں کہ زید قرض دیتے وقت ہی یہ فرض کرلیتا ہے کہ ایک سال بعد افراط زر کی شرح 10 فیصد ہوگی اور اس کی رقم کی قوت خرید میں 1100 روپے کے برابر کمی آچکی ہوگی لہذا بکر مجھے یہ 1100 روپے ادا کرے۔لہذااب بکر پر لازم ہو گیا کہ وہ ایک سال بعد 1100 روپے واپس کرے خواہ مستقبل میں افراط زر کی شرح10 فیصد کی بجائے 6 فیصد ہو یعنی زید کو اضافی گندم خریدنے کے لیے 1100 روپے کی بجائےصرف 636 روپے کی ضرورت ہو لیکن زیدپھر بھی 1100 روپے ہی وصول کرےگاکیونکہ یہ بات عقد میں پہلے سے طے ہوچکی ہوتی ہے۔اِسی طرح فرض کریں کہ اگر ایک سال بعد10 فیصد تفریط ِزر ہو یعنی گندم کی قیمت 90 روپے فی کلو گرام ہوچکی ہواور 100 کلو گرام کی قیمت 9000 روپے ہو ، تو کیا زید 9000 روپے قبول کرے گاکہ آج کے 9000 روپے ایک سال پہلےکے 10000 روپے کے برابر ہیں ؟ نہیں زید ایسا پھر بھی نہیں کرے گا، حالانکہ اُسے ایسا کرنا چاہیے ۔اس دوسری صورت حال کو جدید معاشی اصطلاح میں بھی کہتے ہیں۔
اس لیے یہ صرف سود کمانے کا ایک کمزور بہانہ اور دلیل ہے کہ سود درحقیقت رقم کی قوت خرید میں آنے والی کمی کی تلافی کے طور پر وصول کیا جاتا ہے۔ اگر حقیقت حال اس کے برعکس ہوجائے اور قوت خرید میں اضافہ جائے توسودی ذہن رکھنے والا لالچی انسان کبھی بھی اپنے اسی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے کم رقم قبول نہیں کرتا۔ لہذاروپے کی قدر میں کمی ایک تخمینی معاملہ ہے جس پر کوئی یقینی رقم چارج کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں ہے۔بالکل اسی طرح روپے کی قدر میں اضافے کی صورت میں اصل قرض کی رقم پر ڈسکاونٹنگ بھی جائز نہیں ہے۔ اس لیے مناسب اور جائز طریقہ صرف یہی ہے کہ قرض جتنا لیا تھا اتنا ہی واپس کیا جائے نہ کم نہ زیادہ۔
جدید ماہرین معیشت اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سود بذات خود افراط ِزر کو کنٹرول کرنےکاایک اہم عنصرہے۔ملک میں افراط زر کی شرح زیادہ ہونے کی صورت میں حکومت سود کی شرح کو بڑھا دیتی ہے۔جس کی بدولت بینکوں سے ملنے والے قرضے مہنگے ہو جاتے ہیں۔ صنعتیں بینکوں سے مہنگے قرضے لے کر اشیائے صرف پیدا کرنے میں تامل کرتی ہیں۔ اسی طرح لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسہ بھی کم ہوجاتا ہے اور اشیاء مہنگی ہونے کے سبب صارفین کی جانب سے ان کی طلب میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سود کی شرح کم کرنے کا نتیجہ افراط زر کی شرح بڑھنے کی صورت میں نکلتا ہے۔[53] لہذا جو چیز افراط ِزر کا کنٹرولنگ عنصر بن رہی ہو، وہ اُس کا معاوضہ کیسے بن سکتی ہے۔یہ عقلی توجیہ بجائےخود عقل کے خلاف ہے۔
تاہم یہ ایک مسئلہ تو ہے جس کا حل صرف اور صرف اسلامی نظامِ معیشت ہی فراہم کر سکتی ہے کہ جس کا مکمل ڈھانچہ عدل پرقائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ان معاملات کو ممنوع قرار دیاہے جو عدل کے منافی ہیں ۔ چونکہ تمام مالی معاملات در حقیقت زرہی کے گرد گھومتے ہیں اورکسی مالی معاہدے کے وقوع اور وقت ادائیگی کے درمیان زر کی قوتِ خرید میں غیر معمولی کمی یا اضافے سے فریقین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں جو تقاضائے عدل کے خلاف ہے۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مناسب حد تک کرنسی کی قدرکومستحکم رکھے۔ چنانچہ
الموسوعة الفقهیة
میں درج ہے؛
حکومت ِوقت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے مفاداتِ عامہ کا تحفظ یقینی بنائے ۔مزید یہ کہ وہ زر کی قیمتوں میں استحکام لانے کے اقدامات کرے تاکہ اس سے اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں نہ بڑھیں اور غربت میں اضافہ نہ ہو۔ اور افراد اس بات سے مطمئن ہوں کہ اُن کا کمایا ہوا مال و زر رائیگاں نہیں جائے گا نیز کوئی خلل اور فساد واقع نہیں ہوگا۔[54]
خلاصہ بحث
انسانوں کی دنیا میں اگر انسان ہی کوئی نظام وضع کرے گا تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ نظام یکساں طور پر دنیا کے تمام افراد اور معاشروں کے حقوق کی پاسداری کرے۔ کیونکہ انسان جب بھی کوئی نظام بناتا ہے تو اس میں علاقائی، قومی اور ذاتی مفادات جیسے مہلک عناصر جزو لاینفک کی طرح بدرجۂ اتم موجود ہوتے ہیں۔سرمایہ دارطبقے نےجب اپنا نظام معیشت بنایا تواس میں کل دولت کی تقسیم کو اس طرح ترتیب دیاکہ دولت کے دریاؤں کا رُخ اپنی جیبوں کی جانب موڑاجبکہ زمین اور مزدور جیسےدیگر عاملین پیدائش کا استحصال کیا۔ مغرب زدہ انسانی ذہن نے دولت کو ہی مقصود حیات جانااور اس کےحصول کے لیے ہر ممکنہ طریقہ اختیار کیا خواہ وہ اخلاقی اقدارسے گرا ہوا کیوں نہ تھا۔سود کو جائز قرار دینے کے لیے مختلف حیلے تلاش کیے۔ چنانچہ انہوں نے کبھی سود کو بچت کا معاوضہ قراردیا تو کبھی کاروباری قربانی کےتحت اُسے قربانی کا انعام قرار دیا۔ کبھی اُسےصرفی عمل سے رکے رہنے کی مشقت کو سہنے کا صلہ گرداناتو کبھی کسی دوسرے کے لیے اپنے حال کو قربان کرنے کا اجرشمارکیا ۔کسی نے سرمائے کو عامل پیدائش قرار دے کر مزدوروں کا استحصال کیا تو کسی نے مزدوروں کےساتھ ظلم اور ان کی استحصالی کا نعرہ مستانہ لگا کرسرمایہ داروں کا استحصال کیا۔ الغرض انسانی ذہن نے جب بھی کوئی نظام دیا اس نے کسی خاص علاقے اور خاص طبقےکے حقوق کا ہی خیال رکھا جبکہ دوسروں کا صرف استحصال کیا۔اس ضمن میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ لکھتے ہیں: نظامِ سرمایہ داری اگر انسان کی محنت اور عرق ریزی کوکوئی وقعت نہیں دیتا تو اشتراکی کیمپ بھی انسان کی حریت اور آزادئ فکر کو برداشت نہیں کرتا اور اُسے آہنی زنجیروں میں جکڑ دینے کے درپے ہوتاہے۔اس ہنگامۂ داروگیر میں کہیں امید کی کرن نظر آتی ہے تو وہ سیدکائنات، فخرِ موجودات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا دینِ فطرت ہے جسے ہم اسلام کے نام سے پہچانتے ہیں۔[55]
سرمایہ دار ذہن نے سود کے جواز میں جو عقلی دلائل وضع کیےہیں، اسلامی فکر نے بڑے مضبوط دلائل کی روشنی میں اُن کے بخیے ادھیڑے ہیں ۔اِس کے باوجود پیغامِ حق سے اُن کی روگردانی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ واقعی قران مجید نے حق فرمایا ہے کہ سودخور اس پاگل کی مانند ہوتا ہے کہ جس کی عقل کو شیطان نے مس کر کے پگلا دیا ہو کہ انہیں حق دکھائی اور سجھائی ہی نہیں دیتا۔قران و سنت کے قطعی دلائل اور تاریخی واقعات و حالات اور عقلی دلائل کے تناظر میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جدید معیشت میں سود کی موجودہ تمام شکلیں حرام ہیں۔یہ بات بھی واضح ہوچکی کہ نزول قرآن کے وقت دونوں تجارتی اور صرفی سود مروّج تھے۔ اس لیے سود کی ان اقسام پر کسی نئے اجتھاد کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ جسے اللہ نے حلال کیا وہ قیامت تک حلال رہے گا اور جسے حرام کردیا وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ سود ایک ایسی لعنت ہے کہ جس کے قبیح اثرات سے صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے معاملات میں سود سے بچنا لازمی ہے۔اسلام نے نفع کمانے کا صرف سودی راستہ بند کیا ہے جبکہ اس کے بدلے نفع و نقصان میں شراکت کے اصول پر مبنی شرکت و مضاربت کا نظام دیا ہے۔بیوعات میں مرابحہ، مساومہ ، سلم اور استصناع جیسے اہم عقود متعارف کرائے ہیں۔مالکانہ حقوق اپنے پاس رکھتے ہوئے چیز پر کرایہ کمانے کے لیے اجارہ کی صورت ایک اور اہم عقد دیا ہے۔قرض و دیون کے ساتھ حوالہ کا تصور دیا۔ تمام عقودکو مزید مؤثر کرنے کے لیے کفالت کا ایک مکمل طریقہ کار دیا ہے۔الغرض اسلام نے منافع کمانے کے کئی جائز اور حلال راستے دکھائے ہیں۔جس کی جانب صرف وہ سعادت مند روحیں ہی راغب ہوتی ہیں جنہیں احکام خداوندی کا پاس ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے;
إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ہ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ہ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا[56]
(بےشک انسان بہت لالچی پیدا کیا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچے تو سخت گھبرا جانے والاہےاور جب اسے دولت ملے تو حد درجہ بخیل ہے)
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [57](انسان مال کی محبت میں بہت شدید ہے)۔ ایسی سرشت و فطرت رکھنے والے انسان کے لیے اگر دولت کمانے کے ناجائز راستے بھی کھول دیے جائیں تو پھر اُسے جذبات و احساسات سے عاری معاشی حیوان بننے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگے گی ۔ انسان کاوجود صرف جسمانی ومادّی ہی نہیں، غالب طورپر اخلاقی بھی ہے۔سود انسان کو خود غرض، سخت دل اور بے رحم بناتاہے۔ اسے دولت اور دنیا کا حریص بناتا ہے۔ اُسے معاشرے کے پریشان حال لوگوں کے تئیں اپنی معروف اخلاقی ذمہ داریوں اور اسلامی تعلیمات سے بے نیاز اور بے حس بناتاہے۔ اسلام کے نزدیک اس طرز کی بے اخلاق و خود غرض زندگی کاکوئی تصور نہیں ہے۔ انسان کو امکان کی آخری حد تک سود لینے سے بچناچاہیے اور دینے سے بھی۔ اسلام کو ایسے پیروکارمطلوب ہیں جو آخرت کو دنیاپرترجیح دیں، آزمائشوں میں جن کے پُر عزم حوصلے کسی تشویش میں مبتلا نہ ہوں، جن کے ثابت قدم لڑکھڑاہٹ کا شکار نہ ہوں، جن کی نگاہ میں فائدہ و نقصان اور منافع وخسارہ کے پیمانے، دوسری قوموں سے اعلیٰ وارفع ہوں جو سیلابِ وقت کے تیز دھارے میں نہ بہہ جا ئیں اور جو سود و زیاں کے چکر سے نکل صرف اللہ اور اُس کے رسول کی خوشنودی کو ہی اپنا مقصدِحیات بنا ئیں [58]۔
حوالہ جات
[1] الجصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، دار الكتب العلمية بيروت ، ص1/569
[2] المنیاوی، ابو المنذر محمود بن محمد، المعتصر من شرح مختصر الأصول من علم الأصول، المكتبة الشاملة، مصر، 2010، ص342
[3] البخاری، برهان الدين محمود بن أحمد، المحيط البرهاني، دار الكتب العلمية، بيروت، 2004، ص 7/126
[4] البخاری، محمد بن اسماعيل، الصحیح بخاری، دار طوق النجاة ، 1422ھ، کتاب فی الاستقراض، باب حسن القضا، ص 3/117
[5] ایضاً ، کتاب الصلاة، باب الصلاة إذا قدم من سفر،ص 1/96
[6] آل عمران: 3/130
[7] Hardy, Peter (F.R.S) The Doctrine of Simple and Compound Interest, Annuities, and Reversions, (A.H. Baily & Co. 83, Cornhill, London, 1839), p: 3.
[8] ریاضی میں سود مفرد معلوم کرنے فارمولا یہ ہے []
[9] Hardy, p: 4.
[10] آل عمران: 3/130
[11] ریاضی میں سود مرکب معلوم کرنے فارمولا یہ ہے [ X اصل زر = کل قرض]
[12] Yahia Abdul-Rahman, The Art of Islamic Banking and Finance, (New Jersey: John Wiley & Sons, Inc., 2010), p: 18-19.
[13] Sookhdeo, Patrick, Understanding Shariah Finance, (USA: Isaac Publishing, 2008), Chapter:2.
[14] الطبری، محمد بن جرير، تفسیر ابن جریر طبری، بیروت، مؤسسة الرسالة، 2002، البقرہ آیت278 ، ص 5/50
[15] ایضاً، سورۃ قریش، ص 5/51
[16] ایضاً، سورۃ قریش، ص 24/652
[17] الطبقات الکبری لابن سعد، بیروت، دار الكتب العلمية ، باب غزوۃ بدر، ص2/8۔ احمد بن ابو یعقوب، تاريخ اليعقوبي، شركة الاعلمي للمطبوعات، 2010، ص 1/ 363۔
[18] تفسیر خازن، بيروت ،دار الكتب العلمية ،البقرہ آیت 278، 1/211
[19] امام مالک، الموطأ ، کتاب القراض، باب ماجاء فی القراض، بیروت،دار إحياء التراث العربي1985، ص 2/687
[20] الطبری، محمد بن جرير ، تاريخ الطبري ، بيروت، دار التراث، 1387ھ، سنة ثلاث وعشرین، ص 4/221
[21] الصحیح البخاری ، کتاب الجهاد، قوله باب بركة الغازي في ماله ، ص 4/87
[22] عسقلانی، امام ابن حجر ،فتح الباری شرح صحيح البخاری، کتاب الجهاد، قوله باب بركة الغازي في ماله ، بیروت، دار المعرفة 1959، ص 6/229
[23] ایضاً، ص6/ 231
[24] البقرہ، 2 :275
[25] ایضاً
[26] الهندی، علي بن حسام الدين، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، مؤسسة الرسالة، 1981، ص 5/27
[27] ابو بكر بن ابی شيبة، المصنف في الأحاديث والآثار، الرياض، مكتبة الرشد، 1409ھ، ص 7/275
[28] البيهقي، أبو بكر، شعب الإيمان، الرياض، مكتبة الرشد، 2003، ص 6/488
[29] أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، بيروت، المكتبة العصرية، صيدا، ص 3/284
[30] مودودی، مولاناابوالاعلی، معاشیات اسلام ، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز ، 2013، ص 192
[31] النساء4 : 29
[32] البقرہ2 : 275
[33] Cate, Thomas, An Encyclopedia of Keynesian Economics, (Edward Elgar Publishing Ltd, UK, 2013), Second edition, p: 51.
[34] قاسم،حکیم ایم ۔اے ، حضرت محمد ﷺ بحیثیت ماہر معا شیات ، علم و عرفان پبلی کیشنز، ص 312
[35] Senior, Nassau William, An Outline of the Science of Political Economy, W. Clowes and Sons, London 1836, p:153.
[36] Wood, John C. (Editor), Alfred Marshall: Critical Assessments, (London: Croom Helm Ltd, 2002), Vol: II, p: 20.
[37]Keynes, John Maynard, General Theory Of Employment , Interest And Money, Harcourt Brace Jovanovich Publisher, London 1964, p: 188۔
[38] Böhm-Bawerk, Eugen von, Capital and Interest: A Critical History of Economical Theory, (London: Macmillan and Co.1890), p: 278.
[39]Mankiw, N. Grogory, Principles of Microeconomics, (South Western Cengage Learning, USA, 2009), 5th Edition, p: 409.
[40]Uzair, Dr. Muhammad, Interest Free Banking, (Ktab Bhawan, India, 2000), p: 5-9.
[41] محمد رشيد بن علي رضا، تفسیر المنار، الهيئة المصرية العامة للكتاب، 1990 ، ص3/91
[42] Marx, Karl, Capital: Critique of Political Economy, (England: Penguin Books, 1982), p: 283-306.
[43] N. B. Ghodke, Encyclopaedic Dictionary of Economics, (India:Mittil Publication,1985), p: 24.
[44] Fisher, Irving, The Theory of Interest, The MacMillon Company, New York, 1930). p: 61-66.
[45] Abel, Andrew B. and Bernanke, Ben S., Macroeconomics, 5th Edition, p: 246-247
[46] فقہا اصل میں نقود کے باہم تبادلے کو خرید و فروخت سے تعبیر نہیں کرتے کیونکہ اس میں عوضین دونوں کے دونوں ثمن ہوتے ہیں اور مبیع مفقود ہوتی ہے جبکہ خرید و فروخت میں ایک عوض ثمن اور دوسرا عوض مبیع ہوتا ہے۔ جدید معاشیات کرنسیوں کے باہمی تبادلے کوبھی فروخت سے تعبیر کرتے ہیں۔
[47] Satija, Dr. Kalpana , Textbook on Economics for Law Students, (Universal Law Publishing, 2009), p: 273.
[48] Marx, Karl, Capital: Critique of Political Economy, (England: Penguin Books, 1982), p: 283-306.
[49]Abel, Andrew B. and Bernanke, Ben S., Macroeconomics, 5th Edition, p: 6.
[50] Ibid
[51] Grant, Susan and Vidler, Chris, Economics in Context, (Heinemann Educational Publishers, 2000), p: 167.
[52] شاہد، عبدالحمید، زری معاشیات و سرکاری مالیات، علمی کتاب خانہ، لاہور2006، ص: 284-287
[53] Grant, p: 167.
[54] الموسوعة الفقهية الكويتية، الكويت، وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية ، 1487ھ، ص 41/197
[55] جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، مقالات ضیاء الامت، لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، 2015، ص: 212
[56] المعارج 70: 19-21
[57] العادیات8 :100
[58] Siddique, M. A., & Shahzad, M. A. (2015). The juristic status of currency note and currency Salam in contemporary Islamic banking: A juristic analysis. Fikr‐O‐Nazar, 52(4), 63-106.
https://waterfallmagazine.com
Tremendous things here. I am very happy to see your post.
Thanks a lot and I am looking ahead to contact you.
Will you kindly drop me a e-mail?