مغرب اور احساس کمتری میں مبتلا لوگ
…………………………………….
محمد ابوبکر صدیق
مغرب کے نظریہ حیات میں زندگی کے عملی میدان سے مذہب کا کردارہی ختم کردیا گیا۔مغرب نے مذہب کی بنیادں کو کمزور کرنے کے لیے جس فکر کو بنیادی ہتھیار بنایا وہ معاشی فکر تھی۔ چنانچہ انہوں نے معاشی نظریہ حیات اس انداز میں متعارف کرایا کہ یہ ایک الگ مذہب بھی نہ لگے تاکہ اہل مذہب کی جانب سے ممکنہ مزاحمت سے بچا جا سکے لیکن آہستہ آہستہ یہ ان کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھے دے اور بالآخرخود ایک غیر اعلانیہ مذہب قرار پائے۔اس لیے مغربی معیشت جو کہ مغرب کا نظریہ حیات ہی ہے، میں مذہب کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے خدا کی بجائے خواہشاتِ نفس کو معاملات کا حکم بنادیا گیا۔
جب ایک فردسے خدائے لم یزل کا خوف اور یوم حساب کا تصور چھین کر اُسے خواہشات کے بھیڑیے کے سامنے ڈال دیں گے توپھروہ ایک دمڑی کے لیے کسی کی جان لینے سے گریز کیوں کرے؟ اپنی حیوانی خواہش کو پوراکرنے کے لیے عصمت دری کیوں نہ کرے؟ دولت جمع کرنے کی ہوس میں وہ تجارتی منڈیوں میں اجارہ داریاں قائم کیوں نہ کرے؟ ناجائز منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی سے کیوں رکے؟ جب ایک انسان سے اُس کا وہ خوف چھین لیں گے جو اُسے انسان بنائے رکھنے کے لیے ضروروی تھا تو پھر وہ دیگر حیوانوں کی طرح کام نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔اور یہی مغرب میں ہورہا ہے جو صرف اور صرف ان کے اِسی باطل نظریے کی دَین ہے۔
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام
چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!
مغرب کے نام نہاد فلسفیوں اور دانش وروں نے اپنی تہذیب کی بنیادجن نعروں پر رکھی وہ بظاہر تو خوش نما اور دلفریب نعروں تھے لیکن ان میں عملی فلاح کا تصور دوردور تک بھی نہیں تھا۔ کیونکہ ہر دانش ور کسی خاص طبقے سے نکل کر آیا تھا تو اُس نے اُسی طبقے کے مفادات کے پیش نظر سلوگن متعارف کیے کسی نے فرد کے حق میں تو کسی نے اجتماع کے حق ، کسی نے مزدور کی دادرسی کا نعرہ لگایا تو کسی نے سرمایہ دار کو طاقت وربنانے کی صدا لگائی۔لیکن یہ سب نعرے دل آویز جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگینوں کی ر یزہ کاری ہے
مغربی دانش وروں نے مطلق آزادی اورمطلق مساوات کے دل فریب نعروں کے جھانسے میں مبتلا رکھ کرپورے مغربی معاشرے کو ایک ایسی ڈگر پر چھوڑ دیا کہ جس پر چلتے ہوئے وہ بتدریج اپنا خاندانی نظام ، معاشرتی نظام حتی کہ اپنی نسلوں سے تعلق تک گنوا بیٹھے۔ظلم تو یہ ہے کہ صدیوں کے اس تباہ کن سفر پر سب کچھ گنوا دینے کے بعد جن کے پاس کھونے کو اب کچھ بچا ہی نہیں ، انہیں ترقی کی علامت قرار دےکر دوسری تہذیبوں کے احساس کمتری میں مبتلا لوگ اپنی اقوام کو انہی کے راستے پر چلنے کے لیے کمر کسنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔مغربی تہذیب کو بہت قریب سے جانچ پرکھ کر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا؛
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرےگی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اسلامی تہذیب کےعناصر میں اخوت،مساوات،جمہوریت،آزادی،انصاف پسندی،علم دوستی،احترام انسانی،شائستگی،روحانی بلندی اوراخلاقی پاکیزگی شامل ہیں اورانکی بنیادپریقیناایک صحت منداورمتوازن معاشرہ کاخواب دیکھاجاسکتاہے۔ جبکہ مغربی تہذیب ان تمام خوبیوں سے یک سر محروم ہے۔
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1