جدید زمانہ اور اسلام کا بیانیہ
محمد ابوبکر صدیق
20 – 11 – 2020
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بچے، نوجوان اور جدیدیت کی یلغار
سیکولر و لبرل احباب کے سطحی نظریات کے سامنے ہمارا نوجوان کیوں مرعوب و لاجواب ہوجاتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ اس کے نصاب تعلیم و مطالعہ میں اسلامی عقائد و نظریات اور اسلامی تاریخی کا نہ ہونا ہے یا نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ اسکول و کالج تو اب مغربی فکر نمائندے بن کر رہ گئے ہیں۔ 80 کی دہائی میں بھی پیدا ہونے والے خال خال ہی جوان ایسے ہیں جو نظریاتی پختگی کے مالک ہوں۔ کیونکہ اس وقت تعلیمی نصاب میں زیادہ تو نہیں کچھ نہ کچھ اسلامی تعلیمات ہوا کرتی تھیں۔ میڈیا اسلامی فکر پر مبنی پروگرام و ڈرامے بنایا کرتے تھے۔ سافٹ دنیا کا ظہور ابھی نہیں ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے شہر مانہ احمدانی میں میرے ماموں نوید کے گھر پہلا کمپیوٹر پی ون غالبا 1995 میں آیا تھا۔ ہدایات کے مطابق ہم نہا دھو کر ان کے گھر کمپیوٹر دیکھنے گئے تھے اور اندر آواز بھی پست رکھی تھی۔ سپیکر سے کمپیوٹر کو کلمہ پڑھتے دیکھ اور سن کر بہت حیران ہوئے تھے۔ اور بڑی مدت تک دوستوں کوحیرت کے ساتھ بتاتے رہے ہم نے کمپیوٹر کو کلمہ پڑھتے خود سنا قسم سے!۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے کے مصداق اب سافٹ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس ترقی نے فضولیات تک رسائی زیادہ آسان کردی ہے جو انسانی ذہن کو ایسا مسحور کئے رہتی ہیں کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ رہی سہی کسر جنسیات و شہوانیات پر مبنی مواد نے نکال دی۔ نماز، روزہ، تلاوت وغیرہ اب ثانوی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ترجیحات بدل گئیں۔ انگریزی سکھانے کی آڑ میں مسلم بچوں بچیوں میں سیدہ عائشہ صدیقہ و سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہما کی جگہ سنڈریلا جیسے کرداروں کو پرکشش بنا کر پیش کیا گیا۔ اس پر ہالی ووڈ فلموں اور ہمارے بے دین میڈیا نے خوب تڑکا لگایا۔ نئی نسل مطالعے سے تو آشنا ہی نہیں ہے۔ آپ قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے کی بات کرتے ہیں۔ اس جنریشن کے پاس تعلیمی نصاب کی کتب پڑھنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ موبائیل و انٹرنیٹ پر فضول وقت ضائع کرنے کی مصروفیت انہیں اور کچھ تعمیری کام کرنے ہی نہیں دیتی۔
اپنی تاریخ کے ساتھ ہماری نئی نسل کی وابستگی اور معلومات کا تو یہ عالم ہے کہ ڈرامے سے پہلے ارطغرل نام کا بھی علم نہ تھا۔ انہیں پتہ ہی نہیں رکن الدین بیبرس کون تھا؟ الپ ارسلان کون تھا؟ یہ تو بھلا ہو ترکوں کا کہ جنہوں نے شیر کے بچوں کو آئینہ دکھا کر بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ تم جو لگڑ بھگوں کے ریوڑ میں خود کو لگڑبھگا سمجھتے پھر رہے ہو تم وہ نہیں ہو تم ان شیروں کی نسل سے ہو جنہوں ’’ صحرا سے نکل کر روما کی سلطنت کو پلٹ دیا تھا‘‘ اور نئی نسل کی سماعتیں جن شیروں کے ناموں سے تو آشنا ہیں مگر کارناموں سے بے خبر ہیں۔ محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، طارق بن زیاد، موسی بن نضیر، جلال الدین اکبر، شیر شاہ سوری وغیرھم ۔ نئی نسل کو اگر ان کے بارے میں کچھ پتہ بھی ہے تو وہ بھی صرف اتنا جتنا کسی فلم میں یا کسی سیکولر کی زبان پر ذکر آیا۔ صاف ظاہر ہے سیکولر ان کرداروں کی تعریفیں تو کبھی نہیں کرے گا۔ انہوں نے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ گھڑنتو سطحی استدلال کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ لوگ حملہ آور اور لٹیرے تھے۔
ایسے کم مطالعہ ناپختہ، کیوراسٹی یعنی تجسس پسندانہ نوخیز ذہن کے مالک بچوں بچیوں کی دسترس میں جنسی، شہوانی مواد کی رسائی ایک کلک پر لائیں گے تو وہی گل کِھلیں گے جو اس وقت کھلے ہوئے ہیں۔ ہر طرح کی ’’ذمہ داری سے آزادی‘‘ کا وائرس ایسے انداز میں نوجوانوں کے ذہنوں میں اتارا جارہا ہے کہ انہیں خبر ہی نہیں۔ اس طرح ان کی دنیا و آخرت دونوں برباد کی جارہی ہیں کہ جب احساس ذمہ داری نہیں ہوگا تو پھر احساس زیاں کہاں سے آئے گا۔ اس طرح بے حسی کے بیج بوئے جارہے۔ ’’آخرت میں جوابدہی ‘‘ کا تصور ان کے سامنے بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ دشمن بڑے آرام سے اپنے سوفٹ فیئر ان کے ذہنوں میں انسٹال کررہا ہے۔ اور یہ انہی انسٹالڈ پروگرامز کا اثر ہے کہ آج نوجوانوں کے سامنے دین کی بات کی جائے تو فورا ان کی طبیعت اکتانا شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان شکلیں بنانا شروع کردیتے ہیں کہ کسی طرح ٹاپک کوئی اور چھڑ جائے۔ فلموں اور ڈراموں کی بات کریں تو ہشاش بشاش جیسے ان کی روح کو تازگی مل گئی ہو۔ لڑکے لڑکیوں کا مخلوط ماحول ہو تو ان کے لئے دینی موضوع پر گفتگو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کیونکہ دین تو شرم و عار دلاتا ہے کہ اسلام غیر محرم تعلقات پر کیا موقف رکھتا ہے اور یہ انہیں قبول نہیں۔ یہ تو ان نوجوانوں کا حال ہے جو پاکستان میں رہتے ہوئے سارے تعلیمی مراحل طے کرتے ہیں۔ ان کی فکری پستی کا کیا حال ہوگا جو اس سب کے بعد مغرب میں اعلی تعلیم کے نام پر جاتے ہیں اور بزر چمہر بن کر واپس آتے ہیں۔ ( اس کے لئے میری پوسٹ “مغرب پلٹ بزر چمہر” کا مطالعہ کی جئے)۔
ایسا نوجوان پھر ایسا مذہبی بیانیہ ڈھونڈتا ہے جہاں اسے گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ کا تصور بھی ملے۔ بے پردگی کی آزادی ہو۔ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہو، جہاد سے تو جان چھوٹے بس، کوئی ایسی عقیدہ و فکر نہ ہو جو مجھ پر کسی بھی طرح کی ذمہ داری ڈالے، مغرب کی چکا چوند مجھ پر حلال ہوجائے اور میں مسلمان بھی رہوں۔ ایک ہاتھ میں جام تو دوسرے میں اسلام بھی رہے۔ تو پھر ایسے بیانیے بیچنے والے سامری فن مداری تو ہر دوسرے چوک پر مل جاتے ہیں اور نوجوان اس کے گرد اکٹھے ہو کر خوب تماشہ دیکھتے ہیں۔ ہم جیسے بندے کبھی رکتے ہیں تاکہ مداری کے فریب و طرق واردات کو بھانپ لیں۔ بلکہ کبھی کبھار تو رکنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی دور سے مداری کی آواز سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ’’ذہانت کے کشتے‘‘ کے نام پر نسوار بیچ رہا ہے۔
میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی
1400 سال پرانا بیانیہ یا جدید بیانیہ
نئی مرعوب نسل جس کا نقشہ اوپر کھینچا گیا دو طرح کی ہے ایک وہ جو مکمل زومبیز (یعنی اپنی اصل سے کٹی ہوئی ) بن چکی ہےاگرچہ یہ تعداد میں بہت کم ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو اس خوف میں مبتلا ہیں کہ یہ وائرس کہیں زیادہ نہ ہوجائے۔ یہ جو آخر الذکر نوجوان ہیں اور یہ کثیر تعداد میں ہیں۔ یہ عصر حاضر کی مذہبی فکر سے اس وجہ سے نالاں و شاکی ہیں کہ جدید زمانے میں پھوٹتے نت نئے بیانیوں کی بھر مار کے سامنے انہیں ’’ دین کا نیا بیانیہ ‘‘ کیوں نہیں دے رہے؟ ایسے نوجوانوں سے جب کہا جائے کہ بھائی دین کا بیانیہ تو 1400 سال پرانا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین رضی اللہ عنھم اور ما بعد اسلاف سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ تو وہ یوں حیرت سے بڑبڑا اٹھتے ہیں کہ جیسے انوکھی بات سن لی ہو۔ تو وہ فورا یہ کہنا شروع ہوجاتے ہیں: ’’ دور دور میں فرق ہوتا ہے۔پہلے جنگیں تلوار سے لڑی جاتی تھیں۔اب میزائل آ گئے ہیں۔تو کیا ہم اب 1400 سال والی بات کو لے کر بیٹھ جائیں یا جب دشمن میزائل چھوڑیں تو ہم میزائل سے کہیں کہ جی ہم ایمان والے تم اپنا رخ موڑ لو تو کیا ایسا ہوگا ؟ ارطغل کی طرح اب ہمیں تیر چلانیں پڑیں گے؟ جناب یہ بیانیہ پرانا ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان درست بیانیہ نہ ہونے کے سبب مذہب سے دور ہوتا جارہا ہے۔ آپ کیا متبادل بیانیہ لائیے‘‘ ایسے نوجوانوں سے مجبورا پوچھنا پڑتا ہے۔ میاں! پہلے یہ بتائیے آپ بیانیہ کہتے کسے ہیں؟ بیانیہ کی تعریف کیا ہے ؟ بس پھر اس بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر کہیں سے پڑھ کر یا بیانیے کا اچار ڈالنے والوں سے اصطلاح تو سن لیتے ہیں لیکن اس سے آگاہ نہیں ہوتے کہ یہ ہوتا کیا ہے۔ جبکہ انہیں یہ فضول مطلب سمجھانے والے مداری خود بیانیے کی حقیقت سے خوب آگاہ ہوتے ہیں۔ لیکن نوجوانوں کو ایسی بے تکی مثالوں سے بیانیہ سمجھاتے ہیں تو نوجوان واقعی مرعوب ہوجاتا ہے کہ بات تو صحیح ہے میزائل کے بدلے میں ہم تلوار و تیر چلانے سے رہے۔ نتیجة نوجوان نئے بیانیے کا مطالبہ کرتا ہے۔ بیانیہ کیا ہوتا ہے ؟ اس پر آگے بات ہوگی۔ البتہ یہ کہتا چلوں ارطغرل کا ’’ حق ہے اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑنا، جنگ میں کمزوروں پر ہاتھ نہ اٹھانا، فتح کے بعد عدل قائم کرنا، قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اپنوں کے خلاف بھی عدل کے لئے ڈٹ جانا، اہم فیصلوں پر اہل نظر و اہل علم سے مشاورت کرنا۔ یہ سب 1400 سالہ قدیمی اسلامی بیانیہ ہی ہے۔ جس کی آج بھی ضرورت ہے۔ البتہ اس بیانیے کے تحفظ اور نفاذ کے لئے اس وقت تلوار و تیر اور منجنیق استعمال ہوتے تھے۔ اب جنگی طیارے، میزائل، توپ اور ایٹم بم وغیر ہیں۔ گویا بیانیے کے نفاذ کے لئے سٹریٹجی ہر زمانے کے عرف کے مطابق ہوتی ہے۔ الحمد للہ ہم اس میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ دنیا کی صف اول کی شہادت کے جذبے سر شار سخت جان فوج ہماری ہے، جدید جنگی سامان سے ہم کسی سے کم نہیں، ایٹمی طاقت ہم ہیں۔ ارطغرل دکھانے کا مقصد یہ نہیں کہ تم تلوار و تیر پر پریشان ہوجاو۔ بلکہ اسلامی بیانیے کی تفہیم و ترویج ہے۔
پیارے نوجوان! جسے تم بیانیہ سمجھتے ہو وہ بیانیہ نہیں ہے وہ بیانیے کے نفاذ و تحفظ کی سٹریٹجی ہے اور اس میں ہم مالا مال ہیں۔ البتہ اسلامی بیانیے کی جھلک اقبال نے یوں پیش کی ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جِبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
اسلام کا بیانیہ
ویسے تو کسی بیان کے بغیر بیانیے کا تصور بیان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بیانیے کے لئے بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔’’ الف‘‘ ہی نہیں ہوگا تو پھر بیان کے لئے زبان کو آگے کے حروف کہاں ملیں گے۔ اس لئے بیانیہ اور بیان آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ گویا بغیر بیان کے بیانیے پر کوئی ڈسکورس، گفتگو، مکالمہ یا مباحثہ قائم ہوہی نہیں سکتا۔
اسلام کا بیانیہ وہی ہے جو 23 سال کے عرصے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے تک اگلی نسلوں کی تفہیم کے لئے مفصل بیان کیا گیا اور اس کے لئے اصول و ضابطے مقرر کئے گئے۔ تاکہ ہر زمانے کے اہل علم نباض عصر، اور راسخ العلم لوگ اپنے اپنے زمانے کے حساب سے اسلامی بیانیے کی ترویج و نفاذ کے لئے مطلوبہ لائحہ عمل، اسٹریٹجی یا طریقہ کار ترتیب دینے میں کسی الجھن کا شکار نہ رہیں۔ اصول و ضابطے موجود ہوں گے تو ان کا کام آسان ہوجائے گا۔
اسلام کا بیانیہ دو عمومی جہات میں ہے۔ 1۔ عقیدہ 2۔ عمل۔ جہاں تک عقیدے کا تعلق ہے تو وہ بین و واضح ہےجیسےبندہ مومن یہ اقرار کرتا ہے کہ
آمَنْتُ بِاللهِ كَمَا هُوَ بأسمائه وَصِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ أَحْكَامِه وَأَرْكَانِه
میں اللہ پر اسکے اسماء و صفات کے مطابق ایمان لایا، اور اسکے تمام احکامات، اور ارکان کو قبول کرتا ہوں
آمَنْتُ بِاللهِ ، وملائكته ، وَكُتُبِه ، وَرَسُوْلِه ، وَالْيَوْمِ الْاخِرِ ، وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَشَرِّه مِنَ اللهِ تَعَالى ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
میں اللہ پر ، اسکے فرشتوں، کتابوں، رسولوں،یومِ آخرت، اللہ کی جانب سے اچھی بری تقدیرپر، اور مرنے کے بعد جینے پر ایمان لایا)
جہاں تک عملی جہت کی بات ہے تو وہ ’’ فقہ اور تصوف ‘‘ ہے۔ فقہ عملی زندگی کے لئے احکام الہی معلوم کرنے کا نام ہے اور تصوف انہی احکام پر عملا اطاعت کاملہ کا نام ہے۔ یہ عملی جہت بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ گویا تعلق بالنبوة کی مضبوطی اسی جہت کی روح ہے جسے قرآن مجید میں اس آیت سے تعبیر کیا گیا ہے:۔
إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
اللہ کے نبی ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرنا یہ اس محبت کا لازمی تقاضہ ہے جس کے بغیر اتباع مردود ہے۔ جب وہ مردود ہے تو اللہ کی محبت غضب میں بدل جائے گی اور پھر بندہ محبوب کی بجائے ’’مغضوب‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ عقیدہ ہو یا عملی جہت ایک مومن کی حیات من جملہ اسی بیانیے کی پابند ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے دیا تھا۔ سیاست، معیشت، سماج، ماحولیات، فلکیات، طبیعات، ماوراء الطبیعات وغیرھا جتنے بھی پہلو ہیں سب کے سب اسی آفاقی بیانیے کے پابند ہیں۔ اسلامی دائرے کار میں کسی بھی بشر خواہ فرد ہو یا اجتماع (پارلیمنٹ) وہ بیانیہ بدل نہیں سکتے۔ البتہ انہیں اس بات کا مکلف ضرور بنایا گیا ہے کہ وہ اس بیانیے کے نفاذ کے لئے باہم مشاورت سے متفقہ طور پر کوئی موثر لائحہ عمل اور طریقہ کار وضع کریں۔ کیونکہ مقصود اعلائے کلمہ حق ہے۔
اس بیانیے کے نفاذ کے لئے جہاد بالسیف کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے اس لئے اسلام مسلمانوں کو ہر وقت بہترین اسلحہ سے لیس اور تیار رہنے کا حکم دیتا ہے۔ گفتار کے لئے علم کی اہمیت پہلی وحی سے اجاگر کرائی گئی۔ گفتار کے ساتھ جب تک پختہ اور پاکیزہ کردار نہ ہو وہ مفید و موثر نہیں ہوسکتی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے عرب کے اجڈ، بے اصولے، اور ظالم معاشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چالیس سال گزروائے گئے تاکہ دنیا دیکھے کہ کردار مضبوط ہو تو زبان سے نکلا ہوا سادہ جملہ دشمن کی ہتھیلی میں بند پتھروں سے بھی کلمہ حق بلند کروا دیتا ہے۔
اخلاق اعلی ہوں تو دشمن بھی قیصر روم کے دربار میں صادق و امین کہے بنا نہیں رہ سکتا۔ اور اسے سارے فلسفے کو اسلامی بیانیے نے بندہ مومن کے لئے ” جہاد بالنفس” کے پیرائے میں سمو دیا۔ گویا اسلامی بیانیہ اول تا آخر جہاد ہی ہے جس کی پہلی قسم دوسری قسم کے تحفظ کی ضامن ہے۔ جہاد بالسیف نہ ہو تو دشمن چڑھ دوڑے گا اور آپ کو ختم کردے گا۔ جب آپ ہی نہیں رہیں گے تو پھر جہاد بالنفس کیسا! اور اگر جہاد بالنفس کو ترک کردیں گے اور جہاد بالسیف پر ڈٹے رہیں گے تو پھر آپ کی تلوار کے غضب پر سے عدل و انصاف کا پہرہ اٹھ جائے گا۔ ظالم و مظلوم کا فرق بھلا کر آپ کو ایک لٹیرا صفت سفلی انسان بنا دے گا۔
مختصر یہ کہ اسلام کا بیانیہ اول تا آخر جہاد ہی ہے: جہاد بالسیف + جہاد بالنفس ۔ جب سے ہم اس بیانیے سے پیچھے ہٹے ہیں۔ ذلت ہمارا مقدر ہوئی ہے۔ جو اول الذکر پر زور دیتے ہیں، دوسرے جہاد سے ان کا دامن خالی ہے۔ جو دوسرے جہاد پر زور دیتے اس میں تو وہ کوتاہ ہیں ہی، اور پہلے جہاد کے صرف نام سے ویسے ہی ان کی نکلتی ہے۔ اسلام کے بیانیے کو چھوڑ کر نت نئے بیانیے تلاشے گئے اور کانفرنسیں کروائی گئیں ۔ وہ سب کیا ہوئے ؟ قصہ پارینہ ہوئے۔
نجات اسی بیانیے میں ہے جو نسل در نسل پاکیزہ کردار کے حامل اسلاف سے ملتا آیا ہے۔ راستے کے مداریوں سے بیانیے کا چورن نہ لیں۔ کیونکہ وہ ایسی نسوار ہے جو عقل پر پردے ڈال دیتی ہے اور تمہیں احمقوں کی جنت میں لے جاتی ہے۔ جب تمہیں ہوش آئے گا تو پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ سیاست، معیشت، سماج وغیرھا پر فرد و اجتماع ہر سطح پر اسلامی بیانیہ اس کی روح کے ساتھ نافذ کی جئے پھر عظمت رفتہ کو آتا دیکھئے۔
لوٹ جا عہدِ نبیﷺ کی سمت رفتارِ جہاں
پھر میری پسماندگی کو اِرتقا درکار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1
نہایت معلوماتی اور موضوع پر بہترین تحریر
ماشاء اللہ ابوبکر صدیق صاحب اللہ پاک نے آپ کو صدق_ مقال کی توفیق عطا فرمائی آپ نے خالصتا علمی انداز میں اپنا موقف پیش کیا اور ایک بے جا اور غلط موقف کی حقیقت سی پردہ اٹھایا اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
ماشاء بہت ہی اچھی تحریر