اسلامی بینکاری اورجناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی آراء
محمد ابوبکر صدیق
January 22, 2017
…………………………………….
پس منظر
فقہ، اصول فقہ اور اسلامی قانون میں محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی قابلیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔اسلامی بینکاری کے حوالے سے اُن کا ایک خاص نقطہ نظر ہے ۔ لیکن اِس وقت یہاں اسلامی بینکاری سے متعلق اُ ن کی درج ذیل ایک مختصر تحریرزیر بحث ہے۔
“The Islamic Banking Industry and its Dubious Claims“
اس تحریر میں انہوں نے اسلامی بینکاری سے متعلق ایک نجی ٹی وی کے اشتہار کو موضوع بنایا ہے جس میں ایک جید اور نامور عالمِ دین قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب اسلامی بینکاری کا اسلامی ہونا بیان کرتے ہیں۔محترم نیازی صاحب نے مفتی صاحب کے بیان پرمختلف پہلووں سے تنقید کی۔ شخصیات کا احترام اپنی جگہ لیکن علمی اختلاف کی گنجائش بہر طور رہتی ہے۔راقم خود محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی شان کا معترف ہے اور اصول فقہ کی تدریس میں ان کی کتب سے اکتساب ِ فیض بھی کیا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ تاہم راقم اسلامی بینکاری سے متعلق قبلہ نیازی صاحب کی آراء سے جزوی اختلاف بھی رکھتا ہے ۔اس تحریر کا بنیادی مقصد محترم نیازی صاحب کی مذکورہ بالا مختصر تحریر کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔ تاکہ اسلامی بینکاری کے مبتدی کے سامنے وہ پہلو بھی سامنے رہیں جو عموما پس پردہ رہتے ہیں۔
محترم نیازی صاحب کی تحریر بنیادی طور پر انگلش زبان میں ہے۔ قاری کی تسہیل کے لیے راقم یہاں ان کا موقف اردو زبان میں پیش کرے گا ۔ ترجمے میں خاص خیال رکھا گیا ہے کہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کا موقف درست طور پر پیش ہوجائے۔ تاہم اگرمجھ سے اُن کے موقف کے ترجمے میں کچھ غلطی سرزد ہوجائے تو اسے راقم کی غیر منوی لغزش سمجھا جائے۔ارباب علم اگر نشاندہی کریں تو راقم اُن کا مشکور ہوگا ۔
۔۱۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب
سودی بینکوں کے لیے ایک قانون ہے جو عامۃ الناس کی دسترس میں ہے ۔لیکن اسلامی بینکاری کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اور جو ہے وہ عامۃ الناس کی دسترس میں نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلامی بینکاری کی پروڈکٹس سے متعلق معلومات عوام کی دسترس میں ہیں کہ وہ معاملات کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فیصلہ کرسکیں ۔ (پیراگراف نمبر3)۔
تجزیہ
سودی نظام بینکاری کا قانون بنے اور دنیا میں عام ہوئے صدیاں لگی ہے ۔ اس میدان میں لوگوں نے تعلیم بھی حاصل کی ہے ۔ اس نظام کی ترویج میں ریاستی وسائل بھی استعمال ہوئے ۔ اس لیے سودی نظام بینکاری کے متعلق ڈیٹا کی پہنچ بہت آسان ہوچکی ہے ۔ کیا سودی نظام بینکاری کے ڈیٹا تک یہ آسان رسائی اول دن سے ہے ؟ تو جواب نہیں میں ہے ۔ یہ نظام چار صدیوں سے جاری ہے ۔ جبکہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے متعارف ہونے سے پہلے عوام تو کیا خواص کو بھی اس کے ڈیٹا اور معلومات تک رسائی نہیں ہوتی تھی۔تو گزارش ہے کہ سودی نظام جہاں آج پہنچا ہے اس کے پیچھے مختلف میدانوں میں انسانی کاوشوں کاایک انسائیکلوپیڈیا موجود ہے۔نیز اس نظام سے متعلق قانون وضع کرنے سے لیکر اشاعت تک معاملات اس لیے بھی آسان تھے اس نظام کے مقابلے میں کوئی نظام نہیں تھا۔ اگر یہ نظام پہلے سے موجود کسی نظام کے متبادل کے طور پر متعارف ہوا ہوتا تو صورت حال موجودہ تناظر سے قدرے مختلف ہوتی ۔ اسی طرح یہ ایک ایسا نظام تھا جس کے نفاذ کے لیے مذہب سے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی ۔اور نہ ہی اس کے قوانین وضع کرنے میں کسی مذہبی جواز کی جھنجٹ میں پڑنا گوارا کیا گیا۔
اس کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کو متعارف ہوئے چالیس سال گزرے ہیں۔ اس میں بھی پہلے بیس سال صرف بنیادی تصور پیش کرنے اور پائلٹ پروجیکٹس کے ہیں ۔ اس کے بعد اس نظام مقبولیت حاصل ہوئی ۔ گویا پوری دنیا میں موجودی اسلامی بینکاری کی عملی عمر صرف 20 سال ہے ۔جس میں اس کا عملی بچپن 10 سال کا ہے ۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز ۲۰۰۴ سے ہوا ۔اس نظام کے وضع ہونے اور عملاًمیدان میں آنے کے بعد دو طرح کے سوال پیدا ہونا شروع ہوئے جن کا تعلق مذہب اور قانون سے تھا۔ کیونکہ سودی نظام بینکاری کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کواپنے جواز کے لیے مذہب سے مہر ِتصدیق ثبت کرانا بھی ایک لازمی امر تھا۔
دوسری طرف مذہبی حلقوں میں ایک مسئلہ جدید اقتصادی علوم سے دوری اور نا آشنائی تھا ۔جس کی بدولت بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مذہبی شخصیات کو پہلے صورت مسئلہ سمجھائی جائے پھر ان سے رائے لی جائے ۔تواسلامی بینکاری کے ابتدائی ایام میں ڈاکٹر منذر کہف، شیخ مصطفی زرقا ؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، شیخ یوسف قرضاوی، علمائے الازہر شریف ، وغیر ھم جیسے فقہا نے جدید علوم کے ماہرین کی مدد سے سودی نظام کو سمجھا اور اسلامی بینکاری نظام کی مبادیات کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضع کیا ۔ ۱۹۶۰ کی دہائی سے لے کر ۱۹۸۰ تک کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں تھا جو اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون وضع کرتا کیونکہ یہ ایسا نظام تھا جس کے لیے مذہب اور جدید اقتصاد کے حامل افراد مل کر ہی قانون بنا سکتے تھے ۔ اکیلے طور پر یہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے ان بیس سالوں میں فرد کی سطح پر کچھ اصول وضع کیے گئے لیکن اسلامی بینکاری کو انہی عمومی طور پر انہی قوانین پر چلا یا گیا جن پر سودی نظام چلایا جارہا تھا۔
۱۹۸۱ میں فقہائے امت نے جدید مسائل میں امت کی رہنمائی کے لیے مجمع الفقہ الاسلامی کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی کام جدید سائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کرنا تھا۔اس ادارے نے اسلامی بینکاری نظام کے لیے اپنی قراردادوں کی صورت شرع کی روشنی میں اصول وضع کیے جسے انفرادی اور اختیاری طور پر مختلف ممالک نے اپنے ہاں نافذ کرنا شروع کیا۔
اس کے بعد پھر ۱۹۹۰ کو اسلامی سلطنت بحرین میں هيئة المحاسبة و المراجعة للمؤسسات المالية الاسلامية کی بنیاد رکھی گئی۔ انگلش میں اسے
“Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions“- AAOIFI
جسے مختصراً ’’ ایوفی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔اس ادارے میں مذاہبِ اربعہ (حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی) کے۲۰۰ علماء ا ور سکالر ز ممبر ہیں جو جدیدتعلیم اور تحقیق کے جدید طرق سے بہرہ و ر ہیں۔ اس ادارے کے اجلاس سہ ماہی ، شش ماہی اور سالانہ بنیا دوں پرمنعقد ہوتے ہیں، جن میں عصرِحاضر کے جدید معاشی و حسابی مسائل کے اسلامی حل کے لئے غور و فکر کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ہر دو سطح پر اسلامی بینکوں اور دیگر اسلامی مالیاتی اداروں کے لیے قانون وضع کرتا ہے ۔ پروڈکٹس اور سروسز سے متعلق شریعہ اسٹینڈرڈ کے نام سے قانون شائع کرتا ہے ۔ حساب و کتاب یعنی اکاونتنگ ، آڈٹنگ اور گورننس کے لیے بھی اسٹینڈرڈ وضع کرتا ہے۔اس ادارے کے وضع کردہ قوانین اسلامی بینکوں میں گزرتے وقت کے ساتھ نافذ کیے جارہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے اور اس کے تحقیقی کام میں بہتری بھی آرہی ہے۔
یہ قوانین ایسے ہیں جن تک دسترس اب مشکل نہیں رہی ۔ لیکن اگر عوام و خواص بھی ان قوانین تک پہنچ جائیں تو یہ قوانین ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ انہیں سمجھنے کے لیے جہاں شرعی تعلیم لازمی ہے وہاں جدید اقتصادی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ قوانین نئے ہیں اس کی تعلیم ابھی یونیورسٹیوں میں دی جارہی ہے ۔ ان کے عام فہم ہونے میں کافی وقت درکار ہے ۔ نیز یہ عام آدمی کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ اس نظام کے جواز اور عدم جواز پر اپنی رائے دے سکے ۔ عوام پر اہل علم کی اقتدا لازمی ہوتی ہے ۔
اسلامی بینکاری ایک متبادل نظام کے طور پر متعارف ہوئی ہے جسے صرف ایک میدان میں نہیں بلکہ پروڈکٹس، سروسز،اسلامی بینکنگ کی تعلیم سے آشنا افرادی قوت ،تعلیمی اداروں میں اس کی تعلیم و تحقیق جیسے سارے میدانوں میں ایک ایسے مقابل نظام کا سامنا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ مقابلہ آسان نہیں ہے۔ جہاں ان میدانوں میں محنت درکار ہے وہیں وقت بھی درکار ہے ۔
اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی جانب سے یہ اعتراض شاید اسلامی بینکاری سے متعلق سارے مندرجہ بالا لوازمات اور حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون بھی ہے اور دسترس میں بھی ہے ۔ البتہ عام فہم نہیں اور اس کی بنیادی وجہ ذکر کر دی گئی ہے۔
۔۲۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب
اسلامی بینکاری کے معاملات کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور شریعہ بورڈ کے افراد کی اجازت پر چھوڑنے کی بجائے پارلیمنٹ یا عدالتی نظام کے ذریعے قانونی قرار دیا جانا چاہیے ۔ بالفاظ دیگر اس بارے میں لازمی طور پر واضح قانون سازی کی جانی چاہیے ۔کیونکہ شریعہ بورڈ ز کی حیثیت ایک مفتی کی سی ہے جس کے فتوے کو صرف ذاتی مفاد میں قبول کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کا مفاد وابستہ نہ ہو۔ نیز یہ فتوے افراد پر لازم بھی نہیں ہوتے کہ وہ اسے اپنے اوپرنافذکریں ۔ (پیرا گراف نمبر 4)۔
تجزیہ
اس حد تک تو اسلامی بینکاری کے حاملین بھی قائل ہیں کہ اسلامی بینکاری نظام کو ریاستی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے ۔ موجودہ حکومت نے اسلامی بینکاری کی جانب توجہ دی ہے امید ہے اس بارے میں مستقبل قریب میں کوئی نہ کوئی پیش رفت ہوگی۔جہاں تک اس اعتراض کا دوسرا حصہ ہے ، اس کے لیے اس پہلو پر غور کرنا ضروری ہے ۔ کہ اسلامی بینکاری کے معاملات کسی افرادی نہیں بلکہ اجتماعی نوعیت کے ہیں۔ماضی بعید میں معاملات فرد کی سطح پر دیکھے جاتے تھے ۔ فقہ کی کتب میں ایک دو یا چند افراد کے معاملات سے متعلق مسائل کا حل ملتا ہے ۔ لیکن فی زمانہ اقتصادی معاملات افراد کی سطح سے نکل کر اداراتی سطح تک آپہنچے ہیں ۔ توجید فقہا نے اجتماعی اجتہاد کے ذریعے شریعت کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں نئے اصول و ضوابط متعارف کرائے تاکہ معاشرے کے اجتماعی سطح کے اقتصادی امور میں یکسانیت بھی پیدا ہو اور افراد کی سطح تک سہولت بھی پہنچے ۔ شریعہ بورڈ کے ممبر علما عمومی طور پر اپنے اسلامی بینکوں کو ان اصولوں پر چلاتے ہیں جو مسلمانوں کے جید علما نے اجتماعی اجتھاد کے ذریعے مقرر کیے ہیں۔ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ اور ایوفی جیسے اداروں میں اجتماعی اجتھاد کے کام کو بطریق احسن سرانجام دیا جارہاہے ۔
عوام میں اسلامی بینکاری سے متعلق پائے جانے والے تذبذب کی بنیاد علما کے فتاوی نہیں ہیں بلکہ اسلامی بینکاری نظام کی معلومات کا عوامی سطح تک نہ پایا جانا ہے ۔لیکن کسی حد تک لوگوں میں علما کے فتاوی کی ساکھ پر تشویش پائی جاتی ہے جس کی وجہ بھی لاعلمیت ہے ۔عوامی تشویش کسی نظام کے عدم جواز کی دلیل نہیں ہوتا ۔ ورنہ تو شاید ہی کوئی نظام ہوگا جس پر عوام تشویش کا شکار نہ ہو۔عوام کا کام ہے اہل علم کے پاس جائے اور اپنے لیے تشفی قلب کا سامان کرے۔
یہ اعتراض کہ فتوے افرادپرلازم نہیں ہوتے ۔ تو اس پر عرض ہے کہ عوام کو جب اس بات کا علم ہوجائے کہ اسلامی بینک کس طرح اپنے شریعہ بورڈ کے ممبر علما کے فتووں کا پابند ہوتا ہے تو ان کے لیے بھی یہ بات کسی حد تک تسلی کا باعث ہوتی ہےکہ وہ اس پر اعتماد کریں ۔ نیز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین اور سپر ویژن میں اسلامی بینکوں کا کام کرنا افراد کی انویسٹمنٹ کے محفوظ ہونے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس پردرج ذیل ایکٹ موجود ہے ۔
The Deposit Protection Corporation Act, 2016
اس بارے میں قانون سازی کا عمل تدریجا جاری ہے ۔ رہی بات کہ اسلامی بینکوں پر نافذ فتوے کسی فرد پر لازم نہیں ہوتے ، تو جناب ایسے تو حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی بھی کسی فرد پر نافذ نہیں ہوتی ۔اگر اس نے اعتبار نہیں کرنا تو وہ حکومت کا بھی نہیں کرےگا۔عوامی اعتبار کے بنیادی اسباب کچھ اور ہوا کرتے ہیں تاہم حکومتی سرپرستی اس باب میں ایک سبب ضرور ہے لیکن صرف یہی ایک ہی سبب نہیں ہے۔لہذا پارلیمنٹ یا عدالتی قانون سازی کا نہ ہونا اسلامی بینکاری کے عدم جواز کی دلیل نہیں بنتا ۔
۔۳۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب
اسلامی بینکوں کے سارے معاملات : اکاؤنٹ اوپننگ ،قرضہ جات کے اجرا ، دستاویزات کی ڈسکاؤنٹنگ یا دیگر طرق ، گارنٹی ، ایل سی جاری کرنا ، رہن ، مورٹگیج وغیرہ جیسے سب معاملات پر پارلیمنٹ کی قانون سازی ہونی چاہیے ، ورنہ اسلامی بینکاری غیر قانونی متصور ہوگی ۔اس طرح اسلامی بینکاری ایک ایسا ماڈل وجود میں آئے گا جو قانونی ہونے کے ساتھ اسلامی بھی ہوگا۔یعنی پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے ہر ایک پروڈکٹ کا اسلامی ڈھانچہ مقرر ہوجائے گا تو پھر ہر اسلامی بینک پر لازم ہوجائے گا کہ وہ اپنی اپنی ویب سائیٹس پر اپنے کنٹریکٹ کی کاپیاں ، گارنٹی ، اور دیگر ڈاکومنٹس کو ڈال دیں جس تک ہر کسی کی رسائی ہو۔ اس طرح قانون سازی اسلامی بینکاری کو قانونی جواز بھی ملے گا اور اسلامی ہونے کا اعتماد بھی ۔اس کے بغیر اسلامی بینکاری غیر قانونی ہے۔اگر اسلامی بینکاری موجود ہ طرز پر اسی طرح چلنے دی جاتی ہے تو پھراسی پر قیاس کرتے ہوئے عوام الناس کو آفر کرنے والی دوسری پرائیویٹ اسکیموں کو بھی اجازت دے دی جائے ۔ (پیرا گراف نمبر 5)
تجزیہ
اسلامی بینکاری پر قانون سازی سے متعلق تو اسلامی بینکاری کے حاملین بھی قائل ہیں جیسا کہ گزشتہ قسط میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔
اس اعتراض میں دو معلومات غلط ہیں ۔ اول یہ کہ اسلامی بینک قرضہ جات کا اجرا بالکل نہیں کرتے ۔دوسرا اسلامی بینکوں کو دستاویزات کی ڈسکاؤنٹنگ کی بھی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ اس لیے ایوفی شریعہ اسٹینڈرڈ بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ لیکن کچھ احباب اس پر مُصِر ہوتے ہیں کہ اسلامی بینک سودی بینکوں کی طرح قرضہ جات میں ہی ڈیل کرتا ہے۔اسلامی بینک کا مرابحہ ، مضاربہ، سلم وغیرہ کچھ بھی ہو ، اُن کے نزدیک وہ سب کچھ حقیقت میں قرض ہی ہے جس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں ۔حالانکہ اسلامی بنکاری میں یہ تمام عقود کے اپنی اپنی شرائط کے ساتھ مکمل ہوتے ہیں۔
قانون سازی کے بعد اسلامی بینکاری کی ہر پروڈکٹ کی اسلامی صورت متعین ہوجائے گی والی بات بھی قابل غور ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک صورت تمام فقہی مکاتب فکر کے لیے یکساں قابل عمل ہوگی ؟ کیونکہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اسلامی بینکاری نظریہ تلفیق پر چل رہا ہے تو کیا یہاں تلفیق قابل قبول ہو گی ؟
اسلامی بینکاری کی جن دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ساری کی ساری مہیا ہوجاتی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کلائنٹ کی سائن شدہ کاپی تو نہیں دی جاتی اور وہ تو کوئی بھی نہیں دیتا ۔پروڈکٹس سے متعلق جنرل ڈاکومنٹس تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائیٹ پر درج ذیل لنک پرموجود ہیں اور تمام اسلامی بینک انہی سے استفادہ کرتے ہیں۔
Essentials of Islamic Modes of Financing
اسی طرح دیگر اسلامی بینکوں کی دستاویزات بھی ان کی ویب سائیٹس پر مل جاتی ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے لیے ریگولٹری اور سپر ویژن اتھارٹی ہے جو ایک حکومتی ادارہ ہے ،جس نے بینکنگ کمپنی آرڈیننس میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ترمیم کے ذریعے اسلامی بینکنگ کو قانونی جواز فراہم کیا ہے اور لائسنس جاری کیا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر قانون سازی کی اہمیت کو واضح کرنا راقم کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ قانون سازی نہ ہو تو نظام بھی اسلامی نہیں رہتا ۔ اور اس پر قیاس کرتے ہوئے دیگر پرائیویٹ اداروں کو بھی اجازت دے دی جانی چاہیے والی بات بھی قیاس مع الفارق کی صورت ہے ۔ جب حکومت پاکستان کے ایک ادارے نے جازت دے دی ہے اور اسے ریگولیٹ اور سپروائز کر رہا ہے تو کیا قانونی جوازکے لیے یہ کافی نہیں ہے ! نیز مقننہ کی قانون سازی کا تعلق کسی چیز کے شرعی جواز اور عدم جواز سے نہیں ہے۔ شرعی جواز وعدم جواز کا تعلق فقہ اور فقہا کے مرہون منت ہے۔ ورنہ کئی ایسے قانون ہیں جو مقننہ نے بنائے ہیں لیکن شریعت سے متصادم ہیں اور خود محترم نیازی صاحب اس پر بارہا لکھ بھی چکے ہیں۔
۔۴۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب
اسلامی بینکنگ کے ایک ٹی وی اشتہار میں ایک عالم دین (جناب مفتی منیب الرحمن صاحب ) اسلامی بینک کے ڈیپازٹس کے اسلامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ اس بارے کوئی واضح دلائل نہیں دیتے، تفصیل ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ علما کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ اسلامی بینکوں کو فنڈ دینے کے لیے اتنی سی بات کہہ دینا ناکافی ہے۔(پیراگراف نمبر 7)۔
تجزیہ
ٹی وی اشتہار کا مقصد کسٹمر کو متوجہ کرنا ہوتا ہے ۔ جتنی تفصیل کا مطالبہ اعتراض میں کیا گیا ہے اس کے لیے فارمیٹ اشتہارکا نہیں ہوتا بلکہ پروگرام کا ہوتا ہے۔ باقی تفصیل تو مہیا ہے کتابوں میں بھی موجود ہے اور مختلف آرٹیکلز میں مل جاتی ہے ۔
۔۵۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب
جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ اسلامی بینک میں اکاؤنٹ مضاربہ کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔ جبکہ جدید بینکاری کے بارے میں یہ واضح ہے کہ بینکوں کے ڈیپازٹس قرض کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔ امریکی عدالتوں نے یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ بینکوں کے ڈیپازٹس صرف اور صرف قرض ہی شمار ہوں گے جن کی واپسی کی ضمانت ہوگی ۔
تجزیہ
اسلامی بینکاری نظام امریکہ یا کوئی اور ملک یا سودی نظام سے الگ ایک مستقل نظام ہے جس کے اپنے اصول ہیں و ضوابط ہیں۔ امریکی عدالتوں کے حکم کا نفاذ سودی بینکوں پر تو ہو سکتا ہے لیکن اسلامی بینکوں پر قطعا نہیں ہوتا ۔ اسلامی بینک کے ڈیپازٹس کی تعریف کیا ہوگی اس کا تعین اسلامی بینک سے متعلقہ ریگلولیٹری ادارے ہی کریں گے ۔ اور یہ تعین کیا جا چکا ہے کہ اسلامی بینکوں کے انوسٹمنٹ اور سیونگ ڈیپازٹس مضاربہ بنیادوں پر ہی کھولے جائیں گے اور ان پر شرعی مضاربہ کے اصولوں کا اطلاق ہوگا۔ لہذا اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس پر سودی بینکاری نظام کی تعریف کو چسپاں کرنا اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ایک طرف شکو ہ کیا جات ہےکہ اس کے لیے الگ سے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی تو دوسری طرف اگر اس کا اپنا تشخص قائم کر کے اصطلاحات کی اپنی تعریفات مقرر کی جائیں تو اس کا انکار کر دیا جاتا ہے جو ہر لحاظ سے نامناسب ہے ۔ اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس سے وہی مراد ہے جو اسلامی بینکوں نے دی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تعریف قابل قبول نہیں ۔ذیل میں ڈپازٹس کے حوالے سے تفصیل اس لنک پر مذکور ہے۔
………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1