اسلامی تورق کریڈٹ کارڈ کی شرعی حیثیت : ایک تجزیہ
محمد ابوبکر صدیق
18 -02- 2021
……………………………..
سودی نظام بینکاری کے مقابلے میں اسلامی بینکاری ایک بہتر نظام شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں سود سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ اس بارے میرااپنا نقطہ نظر’’ پرواسلامک بینکنگ‘‘ کا ہے۔ علوم شرعیہ سے فراغت کے بعدیونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری کے بعد میں نے اپنے تعلیمی کیرئیر کا انتخاب بھی اسلامی بینکاری میں کیا۔ میرے تحقیقی مقالہ جات بھی اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ البتہ میرا تعلق ایسے طبقے سے تو بالکل بھی نہیں ہے جو اسلامی بینکاری کو مقدس گائے سمجھتے ہوئے اس کے ہر رطب و یابس کو قبول کر تے ہوئےاس کی وکالت کے لئے پرائی اوکھلی میں اپنا سر دئے رکھتے ہیں۔ہم اسلامی بینکاری کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اس لئے ہر اس ایشو پر آواز اٹھاتے ہیں جہاں شرعی قوانین اور ان کی روح کو یکسر پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ اسلامی بینکاری پر میرا یہ بلاگ جہاں اسلامی بینکاری کی مثبت وکالت کے لئے وقف ہے، وہیں اس نظام کی کمزوریوں اور اس میں پیدا ہونے والے ایشوز پر توجہ دلانے کے لئےاس پر آواز بھی اٹھائی جاتی ہے تاکہ اسلامی بینکاری کے ایوان بالا کے محترم افراد کے ذہن میں رہے کہ اُن پر بھی نظر رکھی جارہی ہے۔احتساب کے اس عمل کو علمائے کرام کی جانب سے خوش آمدید کرنا چاھئے بلکہ یوں کہئے اس عمل کو قبول کرنے اور اس کی ترغیب دینے میں طبقہ علما کو پیش پیش ہونا چاھئے بالآخر رسالت محمدی ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے وارث یہی لوگ ہی تو ہیں۔ احتساب کی اس وراثت کی ذمہ داری اگر یہ لوگ ہی نہیں اٹھائیں گے اور خود کو اس کے لئے پیش نہیں کریں گے تو پھر کس سے یہ توقع کی جائے!۔
احکامِ شریعت میں دین اسلام کا مزاج یہ ہے کہ امورکے جواز و عدم جواز کے فیصلوں میں ان کے طریق کار کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے اور ان سے پیدا ہونے والے ممکنہ نتائج کو بھی ۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی امر کے نتائج سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اُس کے طریق کار کی صحت پر اس کے جواز کا حکم دے دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید شراب کی حرمت ، غیر محرم کے ساتھ خلوت کی ممانعت ، یتیم بچے کی جائیداد کو اس کے حوالے کرنے کی ممانعت ، ربا کی حرمت جیسے احکامات کبھی صادر نہ ہوتے ۔ یہ اور ان جیسے کئی امور ہیں جنہیں نتائج کی قباحت کی پیش نظر حرام کیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ فخر الاسلام بزدوی ؒ (۷۳۰ھ)نے قاعدہ بیان کیا :۔
’’ وَإِنَّمَا الْأُمُورُ بِعَوَاقِبِهَا أَيْ الْمُعْتَبَرُ عَوَاقِبُ الْأُمُورِ
امور کی حلت و حرمت میں ان کے نتائج کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
دین اسلام میں عقود و معاملات کے خاص مقاصد ہوا کرتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے شارع علیہ السلام نے خاص اصول مقرر کئے ہیں ۔ ان اصولوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ بندے کو یہ باور کرایا جائے کہ ’’تم نے اپنی خواہشات کی تقلید نہیں کرنی بلکہ احکام الہی کو بجا لانا ہے‘‘۔ شریعت اسلامیہ کے تمام احکامات کا مقصد وحید انسان کو اس کی نفسانی خواہشات سے نکال کر ایک اللہ کے سامنے جھکانا ہے۔ لیکن فی زمانہ سودی بینکوں کی اشیاء و خدمات کا شرعی متبادل لانے کی روش اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ متبادل کی یہ تلاش نفسانی خواہشات کو بندے پر مسلط کرنے کے لئےہے یا واقعی اس تلاش کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہے۔ کلائنٹ کی سودی بینکوں کے برابر منافع وصولنے کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے متبادل لانا کیسے رضائے الہی کے ساتھ نتھی کیا جاسکتا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔
یہ ایک امر مسلّم ہے کہ شریعت جہاں امور کے طریق کار پر نظر رکھتی ہے وہیں ان کے نتائج کو بھی سامنے رکھتی ہےاور یہ اصول قیامت تک جاری رہے گا۔ اسلامی بینکاری کے معاملات میں بھی اس اصول کا اطلاق ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ صرف طریق کار پر توجہ دیں اور نتائج سے یک سر صرف نظر کریں وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جہاں حیلوں پر حیلے اصلی احکام سے زیادہ مستعمل ہو رہے ہوں۔ حال ہی میں ایک اسلامی بینک نے اپنا اسلامی تورق کریڈٹ کارڈ متعارف کرایا ہے۔ میرے ایک عزیز شاگرد اور دوست نے اس کا فتوی مجھ تک پہنچایا۔ میں نے اسے کافی غور و خوض کے ساتھ پڑھا اور بار بار پڑھا۔ اس فیلڈ سے وابستہ دوستوں کے ساتھ ایک ایک نکتے اور پہلو پر بات کی ۔ فتوی سے ہٹ کر اضافی معلومات حاصل کیں ۔ تب جاکر میں اپنا یہ تجزیہ پیش کر نے کے قابل ہوسکا ہوں۔ حیرت ہے کہ فتوی جسے عام کیا جانا چاھئے تھا وہ ایک ذاتی اور انٹرنل ڈاکومنٹ قرار پایا ہے اور ظلم تو یہ کہ کمرشل دنیا نے شرعی حکم پر بھی کمرشل رائٹ کی مہر ثبت کردی ہے۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ شریعت کے احکام یوں پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا فتوی واقعی درست ہے تو پھر اسے پبلک کرنے میں خوف کس بات کا ؟ محققین کے لئے اسے عام کریں تو اگر اس میں کوئی کمی ہے تو اس میں بہتری لائی جا سکے۔ نظام اسی طرح تحقیقات کے ساتھ ہی تو پروان چڑھتے ہیں۔ کمزوریاں ہر نظام میں ہوتی ہیں لیکن نشاندہی اسے بہتر سے بہتر بنانے کی جانب لے جاتی ہے۔ اسلامی بینکاری کی دنیا کے فتاوی جات کا محققین کی دسترس میں نہ ہونا بھی اسلامی بینکاری کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اسلامی بینکاری سے باہر کی دنیا کے دار الافتاء کے مفتیان عظام میں اسلامی بینکاری کے فتاوی جات کو پوشیدہ رکھنے پر خاصی تشویشات لاحق ہیں۔ بلکہ ان کی اکثریت تو یہاں تک کہتی ہے کہ شاید اسلامی بینکاری کی پروڈکٹس کے پیچھے کوئی تحقیقی اور تفصیلی فتاوی جات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ صرف دو لائنیں لکھی جاتی ہیں کہ ہم نے ان پروڈکٹس کو شرعی اصولوں کے مطابق پایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فتوی موجود ہوتا تو سامنے ہوتا۔ آخر کچھ تو ایسا ہے جس کی پردہ داری ہے۔
کیونکہ میرا تعلق اسلامی مالیات کے ایکیڈیمیا یعنی شعبہ تعلیم و تحقیق سے ہے۔ اس لئے میری تجزیاتی تحریروں کا مقصد نئے محققین اور طلباء کے سامنے ایک مثال بھی رکھنی ہوتی ہے کہ کسی معاملے کو دیکھنے اور اس میں سوال نکالنے کے کیا کیا انداز ہوتے ہیں اور اس پر تجزیہ کس انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ ان میں تجزیاتی قابلیت کا مادہ پیدا کیا جاسکے اور اسلامی مالیات کو اچھے محقق مل سکیں ۔
پروڈکٹ کا بنیادی ڈھانچہ
اسلامی کریڈٹ کارڈ تورق کے اسلامی اصول پر مبنی ہے یعنی ایک فریق سے کوئی چیز (زیادہ قیمت پر ) ادھار خرید کر دوسرے فریق کو نقد (کم ) قیمت پر بیچنا۔اس پروڈکٹ کا ڈھانچہ درج ذیل ہے:۔
۔1۔جب اندرون بینک کسی کلائنٹ کے لئے اسلامک تورق کارڈ کی منظوری ہوجاتی ہے تو اس کے لئے کریڈٹ کی حد مقرر کی جاتی ہے کہ کلائنٹ اس کارڈ پر کتنی رقم خرچ کر سکے گا۔ اور اس کے لئے کلائنٹ کا ایک اکاونٹ اوپن کیا جاتا ہے۔
۔2۔اس اسٹیج پر اسلامی بینک اور کلائنٹ وکالہ کا عقد کرتے ہیں۔ جس میں کلائنٹ اسلامی بینک کے وکیل کے طور پر (اسلامی بینک کے اپنے) اے بی سی میوچل فنڈ سے میوچل فنڈ کے یونٹس خریدے گا جن پر ملکیت اسلامی بینک کی ہوگی۔لیکن وہ میوچل فندز یونٹس کلائنٹ کے نام پر جاری ہونگے ۔اسلامی بینک اے بی سی میوچل فنڈز کو یونٹس کی قیمت کی ادائیگی کر دے گا۔اور یہ قیمت اسلامی کریڈٹ کارڈ کی مقرر کی گئی لمٹ یعنی حد کے مساوی ہوگی۔
نوٹ : تورق ٹرانزیکشن کے لئے صرف اسلامک میوچل فنڈز ہی استعمال کئے جائیں گے۔میوچل فنڈز کے یونٹس کی خرید وفروخت کے لئے کسٹمر کا اکاؤنٹ (اسلامی بینک کے) اے بی سی میوچل فنڈ میں ہی کھولا جائے گا۔[اسلامی بینک کا میوچل فنڈ اس لئے کہا ہے کہ جو دستاویز ملی ہے ان میں اس اسلامی بینک کے اپنے میوچل فنڈ کا ہی نام درج ہے]
۔3۔ کسٹمراسی وقت آزادانہ طور پرپہلے عقد سے الگ یہ وعدہ جمع کروائے گا کہ وہ بینک سے میوچل فنڈز کے یونٹس خریدے گا۔
۔4۔ اے بی سی میوچل فنڈ سے یونٹس خریدنے کے بعد یونٹس سے وابستہ خطرات اور ملکیت اسلامی بینک کو منتقل ہوجائے گی۔ اس سٹیج پر اسلامی بینک اپنے میوچل فنڈ کلائنٹ کو مرابحہ مؤجل پر فروخت کرنے کے لئے ایجاب (آفر) کرے گا ۔ منافع کے تعین کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ اس کریڈٹ کارڈ کی زیادہ سے زیادہ استعمال شدہ حد پر سالانہ شرح منافع کا اطلاق ہوگا۔ [جو عموما کائبر ہوتا ہے۔]
۔5۔کسٹمر یا اس کے کسی ایجنٹ کی جانب سے قبول کر نے کے بعد میوچل فنڈز کے یونٹس کی ملکیت اور اس کے خطرات کسٹمر کو منتقل ہوجائیں گے۔ اور مرابحہ مؤجلہ کی قیمت بھی اس وقت لاک یعنی طے ہوجائے گی جو ناقابل تبدیل ہوگی۔
……………………………………………………………..
نوٹ: [یہاں ایک نوٹ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ شریعہ بورڈ ممبرز کے درمیان اس پروڈکٹ پر بحث کے دوران بیع عینہ سے متعلق تفصیلی بات ہوئی۔ بیع عینہ سے بچنے کے لئے شریعہ بورڈ نے درج ذیل نکات تجویز کئے:۔
الف : اسلامی بینک کا اے بی سی میوچل فنڈ صرف ’’ٹرسٹی آف فنڈ ز‘‘ ہے۔اصل مالکان تو فنڈز کے سرمایہ دار ہیں۔
ب: یہاں اے بی سی کا میوچل فنڈ ’’ کیش بیسڈ ‘‘ ہوگا جس کی نیٹ ایسٹ ویلیو تقریبا ہر روز تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دونوں خرید و فروخت کے عقود میں معقود علیہ ایک ہی نہیں رہتی بلکہ مختلف ہوجاتی ہیں۔ پہلی خرید و فروخت جو اے بی سی میوچل فنڈ اور اسلامی بینک کے مابین ہوئی اور دوسری خرید و فروخت جو اسلامی بینک اور کلائنٹ کا مابین ہوئی جس میں اسلامی بینک فروخت کنندہ ہوگا۔ دونوں کنٹریکٹ چونکہ دو مختلف میوچل فنڈ پر واقع ہوئے ہیں اس لئے بیع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ج: دوسرا عقد بیع پہلے عقد بیع کے ایک دن بعد منعقد کیا جائے گا۔
چ: شرعی اصولوں کی روشنی میں میوچل فنڈز کی خرید درحقیقت استثمار یعنی انوسٹمنٹ کرنا ہے اور ان کی بیع ضمناً شمار ہوگی۔
ح: کلائنٹ کی مرضی ہے کہ میوچل فنڈز کی ملکیت جتنا عرصہ چاہے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ گویا کہ کلائنٹ کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ اپنے میوچل فندز کے یونٹس واپس اے بی سی میوچل فنڈز کو فروخت کرے۔
خ: اس عمل کی مثال اسلامی بینک کے مضاربہ ڈپازٹ پول میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں ڈپازٹر جب چاہے اپنی سرمایہ کاری جمع کرسکتا ہے اور واپس نکال بھی سکتا ہے ، یہ جمع اور واپسی بنیادی طور پر ایک سرمایہ کاری ہے ۔ لیکن اسی سرمایہ کاری کے تحت ضمنا ً بیع بھی ہورہی ہوتی ہے وہ یوں کہ جب کوئی ڈپازٹر اپنی رقم مضاربہ پول سے نکلواتا ہے تو وہ درحقیقت اپنا مضاربہ کا شیئر مضاربہ پول کے کسی اور انوسٹر کو فروخت کرہا ہوتا ہے اور یہ فروخت ضمنا پائی جارہی ہوتی ہے (جو ایجاب و قبول سے بالکل آزاد ہوتی ہے)۔
ان مندرجہ بالا چھے (۶) نکات کو سامنے رکھتے ہوئے شریعہ بورڈ نے واضح کیا کہ اب اس معاملے میں بیع عینہ کے در آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
……………………………………………………………………
۔6۔بینک سے میوچل فنڈز کے یونٹس کی خریداری کے بعد ، صارف انہیں خود یا اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے نقد رقم پر اے بی سی میوچل فنڈز کو بیچ سکتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ میوچل فنڈز کی خرید و فروخت کے ان دونوں کنٹریکٹس کے بارے میں کلائنٹ کو ایس ایم ایس میسجز کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا جو کہ اسے اے بی سی میوچل فنڈز کی جانب سے بھیجے جائیں گے۔
۔7۔کسٹمر کی جانب سے میوچل فنڈز کے یونٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اس کے مضاربہ اکاونٹ میں جمع ہوجائے گی جہاں پر اسے اُس رقم پر مضاربہ کا منافع بھی ملے گا۔
۔8۔ اس مضاربہ اکاونٹ میں جمع شدہ رقم اب کلائنٹ کی ملکیت شمار ہوگی جسے وہ اسلامی تورق کارڈ کے ذریعے جب چاہے گا خرچ کرے گا۔ [گویا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے وہ اسلامی بینک کا پیسہ استعمال نہیں کر رہا ہوگا بلکہ اپنا پیسہ استعمال کر رہا ہوگا]۔
اس کے بعد کریڈٹ کارڈ کے استعمال کا طریقہ کار بتایا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد چند شرائط کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں ایک شرط قابل ذکر ہے۔
شرط: میوچل فنڈ کے یونٹس کی نیٹ ایسٹ ویلیو میں کمی کا سارا خطرہ صرف اور صرف کلائنٹ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
……………………………………………………………………………………………………………………………..
اسلامی تورق کارڈ پر میرا تجزیہ
اسلامی بینک کے شریعہ بورڈ کی جانب سے پاس کی گئی شریعہ اپروول کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد اب آتے ہیں تجزیے کی جانب ۔میرا یہ تجزیہ ان معلومات کی روشنی میں ہے جو فتوی میں موجود تھی اور ان معلومات کی روشنی میں جو اس بینک سے وابستہ کچھ احباب سے حاصل کی گئیں۔ اگر کوئی صاحب سمجھے کہ یہاں موجود کوئی معلومات غلط ہے اور اس سے تجزیے پر اثر پڑتا ہو تو نیچے دئے گئے کمنٹس باکس میں ضرور میری رہنمائی کرے اور میں اس پر پیشگی ان کا شکرگزار ہوں۔ اس تجزیے میں اسلامی بینک کا نام نہیں لیا گیا اور نہ اس کے ماتحت کسی دوسرے ادارے کا نام لیا گیا بلکہ اس کے لئے ایک فرضی نام لکھا گیا ہے تاکہ معاملہ فہمی میں آسانی ہو۔میرا یہ تجزیہ اس فتوے کی حد تک محدود ہے جو ہمیں مل سکا ۔ اگر کسی کے پاس اس کے علاوہ بھی کوئی نئی دستاویز ہو جس میں معلومات تجزیے کے رُخ کو بدل سکتی ہوں تو ہماری رہنمائی کے لئے ہمیں وہ دستاویز بھیجیں ۔
۔1۔ اے بی سی میوچل فنڈز اور اس کی مینیجمنٹ
اے بی سی میوچل فنڈز کی حیثیت کا تعین کرنا سب سے اہم امرہے۔ پہلا سوال یہ بنا کہ اے بی سی میوچل فندز کی حیثیت کیا ہے ؟تو اس کا جواب ہے : یہ اسلامی بینک کے مالکان کی ملکیت ہے۔ گویا اس میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ اسلامی بینک کے مالکان کی وکیل ہوئی ۔ یہ وہ بات ہے جسے پوری رام کہانی میں سامنے نہیں رکھا گیا۔
شریعہ بورڈ کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ’’ اے بی سی میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ کی حیثیت فنڈز کے ٹرسٹی کی ہے۔ اصل مالکان تو انوسٹرز ہیں‘‘۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ میوچل فنڈز کسی ٹرسٹ کی بنیاد پر نہیں ہیں یہ مکمل طور پر کمرشل ہیں۔ لہذا اے بی سی میوچل فندز کی مینیجمنٹ ٹرسٹی نہیں بلکہ وکیل کی حیثیت رکھتی ہے جو انوسٹرز کے نمائندہ کے طور پر اپنا کام کرتی ہے اور اس کا کمیشن وصول کرتی ہے۔ شرع کی نظر میں یہ مینیجمنٹ انوسٹرز کے وکیل کی حیثیت رکھتی ہے اور وکیل پر اصیل کے ودیعت کردہ اختیارات چونکہ امانت ہوتے ہیں اس لحاظ سے وہ اصیل کی امین بھی بنتی ہے۔ لیکن یہ امین ہونا ضمنا ً ہے۔لہذا اے بی سی میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ کی اصل حیثیت وکیل کی ہوئی نہ کہ ٹرسٹی کی۔
اے بی سی میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ کے دو طرفہ تعلقات بنتے ہیں ۔ ایک طرف وہ اسلامی بینک کا مالکان کی وکیل اور دوسری طرف میوچل فنڈز کے انوسٹرز کے وکیل ۔
جب اسلامی بینک کلائنٹ کے ساتھ اپنا وکالہ کا عقد کرتا ہے تو کلائنٹ اسلامی بینک کے وکیل کی حیثیت میں اے بی سی میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ، جوکہ پہلے ہی اسلامی بینک کے مالکان کی وکیل ہے ، سے میوچل فنڈز خریدتا ہے ۔ یہاں دو اشکال پیدا ہوتے ہیں ۔
پہلا اشکال : جب اسلامی بینک کا وکیل پہلے ہی میوچل فندز کی خرید و فروخت کے لئے موجود ہے تو پھر کلائنٹ کو میوچل فنڈ کی خرید کا وکیل بنانا ایک عبث کام ہے جس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ۔بلکہ علما تو منع کرتے ہیں کہ کلائنٹ کو وکیل کیوں بنایا جارہا ہے۔ مرابحہ الآمر بالشراء میں تو کلائنٹ کو وکیل بنانے کی ایک قابل فہم حکمت تھی کہ کلائنٹ ایسی چیز جا کر خریدے جو اس کی پسند کی ہو تاکہ بعد میں اس چیز پر کسی عیب وغیرہ کی بنیاد پر وہ خریداری سے انکار نہ کرسکےاور اسلامی بینک نقصان سے بچ جائے۔ جبکہ یہاں تو میوچل فنڈز ہیں جہاں عیب وغیرہ کی گنجائش ہی نہیں ۔ پھر یہاں کس لئے وکیل بنایا گیا ۔ وہ بھی اس وقت جبکہ اسی کام کا وکیل میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ کی صورت میں پہلے سے موجود ہے۔
الأصل أن تشتري المؤسسة السلعة بنفسها مباشرة من البائع ويجوز لها تنفيذ ذلك عن طريق وكيل غير الآ مر بالشراءو ولا يلجأ لتوكيل العميل (الآمر بالشراء) إلا عند الحاجة الملحة
المعايير الشرعية ، المرابحة ، رقم المعيار8، 3/1/3
اصل یہ ہے کہ بینک خود براہ راست بیچنے والے سے سامان خریدے ، اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسی وکیل کے ذریعہ خریداری کرے لیکن یہ وکیل صارف نہ ہو، اور صارف کو کسی انتہائی ضرورت کے بنا وکیل نہ بنایا جائے‘‘۔
یہ ہم نہیں ایوفی شریعہ اسٹینڈرڈز کہتا ہے۔
دوسرا اشکال : میوچل فنڈز کی مینیجمنٹ وکیل بالبیع بھی بن رہی ہے اور وکیل بالشراء بھی۔ ایک ہی فریق جانبین ( بائع و مشتری )کا وکیل بن رہا ہے اور یہ شرع میں جائز نہیں۔ امام سرخسی ؒ فرماتے ہیں:جانبین سے ایک ہی وکیل جائز نہیں کیونکہ اس سے عقد مکمل ہی نہیں ہوتا، لہذا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔(الْوَكِيلِ مِنْ الْجَانِبَيْنِ أَنَّهُ لَا يَتِمُّ الْعَقْدُ بِعِبَارَتِهِ؛ لِأَنَّهُ لَا ضَرُورَةَ فِي تَوْكِيلِ الْوَاحِدِ مِنْ الْجَانِبَيْنِ)۔(المبسوط،5: 17، دار المعرفة – بيروت)
اسی طرح علامہ شامی ؒ عاقد کی اہلیت کی شرائط ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: وہ بندہ جو جانبین کی طرف سے وکیل بنے وہ بھی عاقد ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔فَشَرَائِطُ الْعَاقِدِ اثْنَانِ: الْعَقْلُ وَالْعَدَدُ، فَلَا يَنْعَقِدُ بَيْعُ مَجْنُونٍ وَصَبِيٍّ لَا يَعْقِلُ، وَلَا وَكِيلٍ مِنْ الْجَانِبَيْنِ)۔ (ردالمحتار4: 504، دار الفكر-بيروت1992)
۔2۔ وکیل (کلائنٹ) کے نام پر میوچل فنڈز کا اجرا
اس جگہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب کلائنٹ بحیثیت وکیل اے بی سی میوچل فنڈز سے اس کے یونٹس خریدتا ہے تو وہ یونٹس اسلامی بینک کے نام پر جاری نہیں کرتا بلکہ کلائنٹ یعنی وکیل کے نام پر جاری کرتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ ان کا مالک اسلامی بینک ہے۔ یہ کیسی سائنس ہے سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر اس کے ساتھ فتوی میں موجود آخری شرط کو ملا کر پڑھا جائے’’میوچل فنڈ کے یونٹس کی نیٹ ایسٹ ویلیو میں کمی کا سارا خطرہ صرف اور صرف کلائنٹ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا‘‘، تو خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اگرچہ اس شرط کے دوسرے امکان کی طرف بھی میں نے آگے چل کر بات کی ہے۔
۔3۔ آرگنائزڈ تورق
شریعہ بورڈ کی جانب سے کہا گیا : ’’کلائنٹ جب تک چاہے میوچل فنڈز کے یونٹس اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ لیکن فروخت کرنا چاھے تو واپس اسی اے بی سی میوچل فندز کو فروخت کرسکتا ہے‘‘۔
کلائنٹ میوچل فندز کی خرید و فروخت کے اس سارے جھنجٹ میں کیوں پڑ رہا ہے ؟ کیونکہ اس کا اصل مقصد کریڈٹ کارڈ کا حصول ہے نہ کہ میوچل فندز کے یونٹس۔ پھر وہ کیونکر میوچل فنڈز کے یونٹس کسی مدت کے لئے اپنے پاس رکھے گا۔ اگر میوچل فنڈ ز کے یونٹس ہی اس کا مقصود ہوں تو وہ بینک کے ملکیتی میوچل فنڈز سے ہی خریدنے کیوں آئے گا۔ اس لئے یہ شق کہ ’’وہ ان یونٹس کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے ‘‘ ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لا محالہ وہ ان یونٹس کو فروخت کرے گا ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ یہ یونٹس کسے فروخت کرے گا؟ کیا وہ کسٹمر خود کسی تیسرے فریق کو جا کر بیچے گا یا اسی اے بی سی کو بیچے گا ۔اگر تیسرے فریق کو بیچے گا تو اس میں اس کے لئے حرج لازم آئے گی۔ اس سے پیسے وصول کرے پھر اسلامی بینک میں جمع کروائے اور پھر اس پر کارڈ وصول کرے ۔ لیکن اس صورت میں یہ ڈیبٹ کارڈ بنے گا کریڈٹ کارڈ نہیں ہوگا۔ دوسرا امکان جس کا شریعہ بورڈ کی اپروول میں ذکر ہے کہ وہ اسی میوچل فنڈز کو واپس فروخت کرے گا۔ جب تورق میں یہ پہلے سے طے ہو کہ جس سے چیز خریدیں گے واپس اسی کو فروخت کریں گے تو یہ آرگنائزڈ تورق کی صورت بنتی ہےجو کہ ناجائز ہے۔ جس پر ایوفی شریعہ اسٹینڈرڈز کہتا ہے:
وﺟﻮﺏ أن يكون بيع السلعة (محل التورق) لغير البائع الذي اشتريت منه بالأجل (ﻃﺮﻑ ﺛﺎﻟﺚ) ،ﻟﺘﺠﻨﺐ ﺍﻟﻌﻴﻨﺔ ﺍﻟﻤﺤﺮﻣﺔ
ﻭﺃﻻ ﺗﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺒﺎﺋﻊ ﺑﺸﺮﻁ ﺃﻭ ﻣﻮﺍﻃﺄﺓ ﺃﻭ ﻋﺮف
المعايير الشرعية ، تورق ، رقم المعيار30، 5/4
یہ بھی ضروری ہے کہ سامان جس فریق (فروخت کنندہ) سے خریدا گیا ہے اس کے علاوہ کسی تیسرے فریق کو فروخت کیا جائے۔تاکہ بیع عینہ سے بچا جاسکے۔ علاوہ ازیں یہ کہ کسی شرط ، باہمی مفاہمت یا عرف کی وجہ سے وہ چیز لوٹ کر فروخت کنندہ کے پاس نہ آئے۔
مجمع الفقہ الاسلامی جدہ نے تو واضح طور پر آرگنائزڈ تورق کو ناجائز قرار دیا ہوا ہے۔چنانچہ ان کی قرار داد میں ہے:۔
لا يجوز التورقان (المنظم و العكسي) وذلك لأن فيهما تواطؤاً بين الممول والمستورق، صراحة أو ضمناً أو عرفاً، تحايلاً لتحصيل النقد الحاضر بأكثر منه في الذمة وهو ربا.
دونوں تورق (منظم اور عکسی)ناجائز ہیں۔ کیونکہ ان دونوں میں رقم مہیا کرنے والے (ممول) اور رقم کی طلب کرنے (مستورق) کے مابین ایک سمجھوتہ پایا جارہا ہوتا ہے جو صراحۃً، ضمناً یا عرفا ً پایا جاتا ہے۔اور یہ حیلے کے طور پر ایسا کیا جاتا ہے تاکہ اسکے ذریعے نقدی رقم حاصل کی جائے جس کے بدلے مستورق کے ذمے زیادہ رقم واجب الاداء ہوتی ہے اور یہ ربا کے حکم میں ہے۔(قرار بشأن التورق: حقيقته، أنواعه (الفقهي المعروف والمصرفي المنظم)
جبکہ یہاں میوچل فنڈز یونٹس واپس اُسی اے بی سی میوچل فندز کے پاس لوٹ رہے ہیں ۔ تو ان مندرجہ بالا چھ (۶) نکات کے جتن کرنے کا کیا فائدہ ہوا جب بیع عینہ نے کسی اور جگہ سے پھر سر اٹھا لیا۔
۔4۔ مقاصد شریعت اور استحصال
شریعت اسلامیہ میں عقود کے جواز میں اس کی مقصدیت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔میوچل فنڈز کے یونٹس کی مصنوعی خرید وفروخت کے اس سارے گھن چکر میں ایک چیز فوت ہوجاتی ہے اور وہ مقصد شرعی۔ بیع کے عقد میں بائع کا مقصد قیمت کا حصول ہوتا ہے اور خریدار مقصد مبیع کے استعمال سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن تورق کے اس معاملے میں میوچل فنڈز کے یونٹس کی طلب نہ تو اسلامی بینک کو ہے اور نہ ہی کلائنٹ ان میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے۔ انہیں صرف اضافی قیمت بطور منافع یعنی ربا کے حیلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
اس فتوے کے ساتھ ساتھ شریعہ بورڈ کے علمائے کرام کے ویڈیو کلپ بھی سننے کو ملے۔ جن میں وہ یہ فرماتے ہیں کہ شریعت کسی بھی چیز کا متبادل دینے میں وسعت کا مزاج رکھتی ہے۔ رقم چونکہ افراد کی ضرورت ہے اس لئے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سودی کریڈٹ کا رڈ کا متبادل دینا جائز ہے۔ اور اس کا طریق کار یہ ہے جو اوپر بیان ہوچکا۔
اس پر عرض ہے اسلامی تورق کارڈ کے جواز کے لئے’’ افراد کی ضرورت ‘‘ کو سبب بنایا گیا ۔چلیں فرض کریں ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ ’’ افراد ضرورت مند ہیں‘‘ اور آپ کے پاس متبادل کے لئے آئے ہیں۔ ان بے چاروں کہا کہنا یہ ہے کہ وہ سودی کریڈٹ کارڈ سے بچنا چاھتے ہیں ۔ وہ سودی کیونکر ہوا؟ کیونکہ جب بل کی ادائیگی میں تاخیر ہوگی تو دین کی اصل رقم پر اضافی جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی وقت سے پہلے ادا کردے تو پھر صرف اصل دین ہی ادا کرےگا اور سودی بینک اس پر دین پر کوئی منافع وصول نہیں کرے گا ۔ گویا سودی کریڈٹ کارڈ پر سودی بینک کا سود ی منافع یقینی نہیں ظنی ہے کہ اگر بل کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو سود کمائیں گے ورنہ نہیں۔ [سود سے متعلق اس مقالے کا مطالعہ مفید رہے گا(۱)]
ضرورت مند افراد ایسے سودی کارڈ کا متبادل لینے آپ کے پاس آئے اورآپ نے انہیں مندرجہ بالا طریق کار کا اسلامی تورق کارڈ پکڑا دیا ۔ ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آپ نے تو میوچل فندز کو مرابحہ مؤجلہ پر بیچ کر ان ضرورت مند افراد سے یقینی منافع کما لیا ۔اور مرابحہ مؤجلہ کی صورت میں ان بے چاروں پر دین بھی چڑھا دیا جس کی واپسی کی ایک تاریخ مقرر ہوتی ہے۔ اگر وہ ضرورت مند وقت پراس کی ادائیگی نہ کریں تو جرمانے کا ہتھوڑا بھی ان کے سر پر بج جائے گا۔
اب بتائیے صاحب! ضرور ت مند افرادکی ضرورت کا استحصال کس نے کیا ؟ کیا یہ طریق کار اور اس کے نتائج دونوں مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتے ہیں؟ یہاں تو ضرورت مند مقاصد شریعت کے تحت لوٹ لئے گئے۔یا للعجب!۔
۔5۔ تذکرہ اُس آخری شرط کا
شریعہ بورڈ کے فتوی میں آخر میں چار شرائط کا ذکر موجود تھا جن میں سے ایک شرط یہ بھی تھی ’’ میوچل فنڈ کے یونٹس کی نیٹ ایسٹ ویلیو میں کمی کا سارا خطرہ صرف اور صرف کلائنٹ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا ‘‘۔یہ شرط مبہم ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ اگر تو اس سے مراد یہ ہے کہ اسلامی بینک سے خریداری کے بعد کسٹمر جب تک میوچل فنڈز کے یونٹس اپنے پاس رکھے رہے گا تو اس عرصے میں میوچل فنڈ کے یونٹس کی نیٹ ایسٹ ویلیو میں کمی کا ذمہ دار کسٹمر ہوگا تو پھر اس شرط میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اگر اس سے مراد اس سے علاوہ کی ہے تو پھر یہ ناجائز ہے ۔ تاہم ہم یہ خوش گمانی رکھتے ہیں کہ اس سے مراد پہلا امکان ہوگا۔ تاہم شرط میں یہ ابہام ختم ہونا چاھئے۔
۔6۔ کیا واقعی یہ کریڈٹ کارڈ ہے ؟
جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس کارڈ میں جو لمٹ دی جاتی ہے اوراس میں سے کلائنٹ جو بھی خرچ کرتا ہے وہ اس کا اپنا پیسہ ہوتا ہے تو پھر یہ تو ڈیبٹ کارڈ ہوا۔ کریڈٹ کارڈ تو نہ ہوا۔ کیونکہ کریڈٹ کارڈ میں تو کریڈٹ یعنی دَین کا لزومہ ہوتا ہے۔ جو بقول آپ کے یہاں نہیں ہے۔ پھر تو یہ متبادل ہی نہ ہوا ۔ آپ نے متبادل دینے کے چکر میں کچھ اور ہی بنا دیا۔
میری مؤدبانہ گزارش
یہ ہم کس چکر میں پڑ گئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ عوام میں یہ شعور اجاگر کریں کہ وہ حلال اور جائز طریقوں کی جانب آئیں تاکہ اس اللہ اوررسول ﷺ راضی ہوں ، ان کی قبر اور آخرت کی زندگی سدھر جائے۔سود حرام ہے ۔اس سے بچیں۔ اگر چار پیسے اسلامی بینکاری میں کم ملیں گے تو کوئی حرج نہیں ۔آپ اس یقین کے ساتھ آئیں کہ میں اپنے رب کی رضا کے لئے حلال تجارت کی طرف جارہاہوں میرپروردگار اسی کم منافع میں وہ برکت ڈال دے گا جو یقینا سود کے بظاہر زیادہ پیسوں میں بھی نہیں ہوگی۔ سود کا حرام پیسہ گھر آئے گا تو ساتھ بے برکتی اور مصیبتیں لائے گا۔کلائنٹ (عوام) میں یہ احساس پیدا کروائیں کہ حرام رزق کمانے والا جہاں اپنی دنیا و آخرت برباد کرتا ہے وہیں وہ اپنے پیاروں کی دنیا و آخرت برباد کرنے کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ اس کی اولاد اس حرام مال سے کوئی نیکی کام تو کرے گی نہیں۔ شیطان کا پیسہ ہے شیطانی راستوں پر ہی خرچ ہوگا۔ یہ شعور پیدا کرنا اسلامی بینکوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ پہلے یہ احساس و شعور اسلامی بینک کے مالکان اور اس کی مینیجمنٹ کو اپنے اندر بھی پیدا کرنا پڑے گا۔ کیا اس کی ذمہ داری شریعہ ایدوائزرز پر بھی نہیں آتی کہ وہ ایسے کلمات حق ان کے سامنے رکھیں۔ جہاں ہر سطح پر مادی مفادات وابستہ ہوجائیں تو پھر وہاں معاملات میں سلجھاؤ آئے تو کیسے! اسلامی بینکاری کے سنجیدہ احباب سے میری یہ گزارش ہے خدا را ہر سودی پروڈکٹ کا متبادل تلاشنے اور تراشنے کی روش کو چھوڑ دیں اور شریعت اسلامیہ اور اس کے مقاصد کی جانب آئیں تاکہ اس کے ثمرات سے ملک وقوم کا دنیوی و اخروی فائدہ ہوسکے۔ ہم بھی چاھتے ہیں اسلامی بینکاری فروغ پائے اور ہم اس بارے میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں اسلامی بینکاری جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے کمزور فتوے صرف انہی شریعہ ایڈوائزرز کے اعتماد کو ہی ٹھیس نہیں پہنچاتے بلکہ تمام مفتیان کرام کے اعتماد پر سوال اٹھا جاتے ہیں۔ اسلامی بینکاری کی دنیا میں محتاط شریعہ ایڈوائزرز بھی ہیں لیکن ایسے فتاوی جات معاشرے میں ان سب کو ایک ہی لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس لئے شریعہ ایڈوائزری کا اعتماد بحال کرنا اور اسے دوام بخشنا ضروری ہے۔ اس بارے میں میری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذمہ دار افراد سے گزراش ہے کہ وہ اپنے شریعہ گوررننس فریم ورک کو اپ ڈیٹ کرے اور یہ شق شامل کرے کہ ہر اسلامی بینک کا شریعہ بورڈ مختلف مسالک سے وابستہ مفتیان کرام پر مشتمل ہوگا۔ایک ہی ذہن کے افراد کا ایک ہی شریعہ بورڈ میں اکٹھے رہنا اس طرح کی کمزوریوں کو باعث بن رہا ہے۔اللہ تعالی ہم پر کرم فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ
الفاظ میرے سخت ہوسکتے ہیں لیکن یہ سختی بھی اپنے اندر جذبات و معانی رکھتی ہے۔
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی
ہر شوق نہیں گستاخ ، ہر جذب نہیں بے باک
[1] Siddique, M. A. (2015). Islamic Banking in an Interest Based Economic System: A Reality or Deception? Al-Azwa, University of Punjab Lahore, 30(44), 153-170.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1
100 % agreed with views and comprehensive analysis by learned Brother Abubakar!
SBPs’ Sharia Board must probe to realise the gravity of the case. This is tailormade Islamic Banking “NOTHING MORE THAN BLUFFING OURSELVES “.