(Deposits of Islamic Bank) اسلامی بینک کے ڈپازٹس
محمد ابوبکر صدیق
January 22, 2017
…………………………………….
اسلامی بینکوں میں عام طور پرچار طرح کے اکا ؤنٹس میں رقم جمع کرائی جاتی ہے۔ لیکن مختلف بینکوں نے خود کو دوسرے بینکوں سے ممتاز اور صارف کو متوجّہ کرنے کیلئے الگ الگ قسم کے اکاؤنٹس قائم کر رکھے ہیں۔ لیکن یہاں ہم چار بنیادی اکاؤنٹس کو بیان کریں گے ۔
کرنٹ اکاؤنٹ
روایتی بینک کی طرح اسلامی بینک میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم ایک قرض ہوتی ہے یعنی کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر اور اسلامی بینک کے مابین قرض خواہ اور مقروض کا تعلُّق ہوتا ہے نیزاکاؤنٹ ہولڈر کواپنی رقم کے قرض ہونے کی وجہ سے اُس پر کسی قسم کے نقصان کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پڑتا۔اسلامی بینک یہ رقم عندالطلب ادا کر تا ہے کیونکہ قرض کی رقم کسی بھی وقت طلب کی جاسکتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ کرنٹ اکاؤنٹ کی بنیاد امانت بتاتے ہیں جو کسی بھی طور درست نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ امانت کی رقم پر گارنٹی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بینکوں میں اپنی رقم جمع نہیں کراتے ۔ نیزاگر کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم کو ” امانت ” مان بھی لیا جائے تو پھر یہ معاملہ فقہا کے نزدیک شرکتِ ملک میں بدل جاتا ہے، کیونکہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم کو اپنی دیگر رقوم کے ساتھ ملا دیتا ۔ اس بارے میں علّامہ ابن عابدین شامی کتاب الشرکۃ میں ؒ فرماتے ہیں کہ اگردو لوگوں کے مال کا اختلاط کسی بھی سبب سے ہو تو وہ مخلوط مال دونوں صاحبوں کے مابین مشترک ہو جاتا ہے جو کہ شرکتِ ملک کے تحت آتا ہے۔ اور یہ فقہ اسلامی کا ایک مسلمہ اصول ہے ان الشریک امین فی المال ایک شریک کا مال دوسرے شریک کے پاس امانت کے طور پر ہوتا ہے اگر وہ مال بلا تعدی ضائع ہو جائے تو دوسرے شریک پر اُس کی ادائیگی لازم نہیں آتی ۔
لہذا اسلامی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقوم امانت نہیں ہیں بلکہ قرض ہیں ۔صرف اِیک ہی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنی رقوم پر گارنٹی مل سکتی ہے اور وہ قرض کی صورت ہے۔ ۱س لئے اسلامی بینک اس اکاؤنٹ کی رقم پر کوئی نفع نہیں دیتا کیونکہ اسلام میں قرض پر نفع کمانا سود ہے ۔ لیکن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ انشورنس (۲۰۰۰) کے مطابق کچھ مالیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر منافع دینے کی پالیسی کوکچھ شرائط کے ساتھ اسلامی بینکوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ۔ جیسا کہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کو کوئی بھی اضافی رقم بطور تحفہ دیں بایں طورکہ یہ اکاؤنٹ ہولڈر کا کوئی استحقاق نہیں ہو گانیز اسلامی بینک یہ ادائیگی باقاعدگی سے نہیں کرے گا۔ تاکہ وقت گزرنے کسے ساتھ یہ ایک روایت بن کر سود کی شکل اختیار نہ کر جائے ۔ لیکن راقم کی نظر میں کرنٹ اکاؤنٹ میں تحفۃََ رقم کی یہ رائے درست نہیں کیونکہ شرع میں جس طرح کچھ چیزیں سدِّذرائع کے طور پر منع کر دی جاتی ہیں بعینہ یہ معاملہ بھی ممنوع ہونا چاہیے۔ تاکہ سُود کی طرف جانے کا کوئی سبب بھی باقی نہ رہے۔
بچت اکاؤنٹ اور سرمایہ کاری اکاؤنٹ
ان تینوں ڈیپازٹس میں رقوم مضاربہ کی بنیا د پررکھی جاتی ہیں یعنی اکاؤنٹ ہولڈر رب المال جبکہ اسلامی بینک مُضارب ہوتا ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈر اور اسلامی بینک کے مابین مضاربہ کا یہ عقد مضاربہ مطلقہ ہوتا ہے جس میں اکاؤنٹ ہولڈر اسلامی بینک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسلامی بینک اِس رقم کوکسی ایسے کاروبار میں لگا سکتا ہے جو حلال ہو یا کسی ایسی کاروباری کمپنی کے ساتھ مشارکت یا مُضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری میں شامل کر سکتا ہے، جس کا کاروبار جائز ہو ۔ ان تینوں اکاؤنٹس میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اصل سرمائے پر نقصان کا امکانی خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔نقصان ہو نے کی صورت میں صارف رب المال ہونے کی حیثیت سے نقصان کی ذمہ داری لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بینکوں کو تو نقصان ہی نہیں ہوتا تو پھر صارف کو نقصان کیسے ہوگا؟۔ اس کا جو اب یہ ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے جس کے تحت یہ کہا جائے کہ مضاربہ اُس وقت تک جائز نہیں ہو گا جب تک کہ اُس میں نقصان نہ ہو۔ شریعت مطہرہ صرف اس بات کی شرط عائد کرتی ہے کہ رب المال کے لئے نقصان کا صرف خطرہ مول لینا ضروری ہے۔ اب یہ قسمت یابہترین کاروباری فیصلے پر منحصر ہے کہ نقصان ہو یا نہ ہو۔
اسلامی بینک اس مالِ مضاربت میں اکاؤنٹ ہولڈرز کی اجازت سے اپنی رقم بھی ملا لیتا ہے اور کاروبار میں لگادیتا ہے۔ اِس صورت میں نفع و نقصان کی تقسیم شرکت ومضاربت کے شرعی اصولوں پرہوتی ہے ۔ یہ شرکت و مضاربت کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک مضارب مالِ مضاربت میں اپنا سرمایہ بھی شامل کر دیتا ہے اور فقہاء کے نزدیک یہ جائز ہے۔ حضرت امام سرخسیؒ فرماتے ہیں لو خلط اٗلف المضاربۃ باٗلف من مالہ قبل الشراء جاز اگر مضارب ، مضاربت کے ایک ہزار روپے کے ساتھ اپنے مال سے ایک ہزار روپے( مضاربت کے سامان کی) خریداری سے پہلے ملا دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔
(Karachi Meezan Index) کراچی میزان انڈیکس
کسی کمپنی میں اسلامی بینک کی سرمایہ کاری سے متعلق سوال یہ ہے کہ یہ پتہ کیسے چلے گا کہ کس کمپنی کا کاروبار جائز اور حلال ہے ؟ اسلامی بینک کِس کمپنی کے سٹاک میں پیسہ لگائے گی ؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ کراچی اسٹاک مارکیٹ اور میزان اسلامک بینک نے۲۰۰۹ ء میں کراچی میزان انڈیکس کے نام سے ایک مشترکہ انڈیکس متعارف کرایا ہے جسے دونوں اداروں کے جدید مالیاتی امور کے ماہرین اور شرعی ایڈوائزر (مفتیانِ عظام) کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس میں مختلف کمپنیوں کے کاروبار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جس کمپنی کا کاروبار مکمّل طور پرجائز ہو یا کاروبار کا زیادہ حصہ جائز ہو توای سیتیس (۳۰) کمپنیوں کو انڈیکس میں ترتیب سے شامل کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں۔ (KMI-30) اس لئے اسے
جو افراد یا ادارے صرف اُن کمپنیوں کے سٹاک؍شیئر خریدنا چاہتے ہوں جن کے کاروبار شرعاً جائز ہوں تو وہ اس انڈیکس میں شامل کمپنیوں کے سٹاک ؍شیئر خریدتے ہیں۔ یہ انڈیکس ہر چھ ماہ بعد ’اپ ڈیٹ‘ کیا جاتا ہے۔اگر اسلامی بینک نے سٹاک ما رکیٹ میں پیسہ لگانا ہو تو اُسے انڈیکس کی کمپنیوں میں ہی انوسٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1