سود کے خلاف جنگ: کیا جنگ ایسے لڑی جاتی ہے ؟
محمد ابوبکر صدیق
Dec.21, 2020
…………………………………….
بندہ مومن کے لئے سودی نظام معیشت کی حمایت یا اس سے کسی طرح کی مفاہمت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی جنگ میں جھونک رہا ہے جس کا یقینی نتیجہ اس کی دنیا و آخرت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ 60 کی دھائی میں مخلصین امت علمائے کرام نے اسلامی بینکاری کا تصور دیا تھا تاکہ امت ایسی جنگ میں یقینی تباہی سے بچ جائے۔ ان کا مقصود یہی تھا کہ بتدریج یہ نظام روایتی سودی نظام کو کمزور کردے گا اور معاشرے میں اس کے خلاف اپنے قدم مضبوط کرے گا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مخلصین کی کاوشیں رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ جس نظام نے سودی نظام کے خلاف کردار ادا کرنا تھا۔ وہ خود اسی سودی نظام کی اترن پہننے کے در پے ہے۔ “سود کی برداشتی حدیں ” مقرر کرتے ہوئے کہیں 5 فیصد تو کہیں 20 فیصد تو کسی سطح پر 37 فیصد تک سود قابل برداشت قرار دے کر کمپنیوں کو شرعی جواز کی سند دے دی گئی کہ بتدریج اس نظام کو ختم کیا جائے گا۔ لیکن دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ برداشتی حدیں “زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد” کے مصداق وہیں پر موجو د ہیں۔ کیا سودی نظام کے خلاف جنگ ایسے لڑی جائے گی ؟ اس کا گلا بھی دبائیں گے ساتھ ساتھ آکسیجن کی فراہمی بھی کریں گے۔حد تو یہ ہے کہ ضرورت و حاجت کے شرعی اصولوں کے نام پر اسلامی بینکاری کی نہر وں سے اب سودی نظام کی زمین کو سیراب کیا جارہا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تو ان بینکوں کے ساتھ شرعی پروڈکٹس اور موڈز میں معاملات کرتے ہیں۔ حیلے بھی ایسے اپنا رکھے کہ اللہ کی پناہ ۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :۔
عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم أنَّه قال:يأتي على الناسِ زمانٌ يستحلُّونَ الرِّبَا بالبيعِ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں لوگ بیع کے نام پر ربا کو حلال کریں گے۔
کموڈٹی مرابحہ کے نام پر جو ہوا کیا وہ کسی سے مخفی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی خود فریبی ہوسکتی ہے بھلا کہ شراب کشید کرنے والی کمپنی کو آپ بیع موجل کے شرعی قواعد پر انگور کی سپلائی کا معاہدہ کریں اور خود کو تسلی یہ دیں کہ ہم تو شرعی قوانین پر عمل کر رہے ہیں!یا للعجب
سود پر جنم لینے والی موجودہ بحث میں کسی فورم پر ایک درد دل رکھنے والے انتہائی محترم صاحب کے یہ الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں :”سود کے خلاف جنگ کے بہت سے تقاضے ہیں۔ ایک اہم تقاضا میری نگاہ میں یہ ہے ہم سودی نظام کے ساتھ ہر طرح کی مفاہمت و مصالحت ختم کردیں ۔یہ نہیں ہوسکتاکہ دشمن کے خلاف ہم معرکہ آراء ہوں اور اسے راشن اور غذا کی سپلائی بھی جاری رکھیں۔یہ کس طرح کی جنگ ہے کہ اسلامی بنک سودی بنکوں کی ” کیش کی ضروریات ” پورا کرنے کے لئے انہیں اربوں روپے فراہم کر رہے ہیں۔ کیا اس طرح وہ سودی نظام کو تقویت دینے کا باعث نہیں بن رہے؟ کیا 37 فیصد تک سودی قرضے لینے والی کمپنیوں کو شرعی جواز کا سڑٹیفیکیٹ تھماتے ہوئے ان میں سرمایہ کاری کرنا سودی نظام کے ساتھ مفاہمت نہیں ہے؟ اگر آپ واقعی جنگ کر رہے ہیں تو آپ کے عمل سے یہ مترشح ہونا چاھئے کہ آپ نورا کشتی نہیں بلکہ ایک حقیقی جنگ میں مصروف ہیں“۔
اسلامی بینکاری کے موجودہ پیش رو احباب کیسے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ سودی نظام کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ ہیں جب کہ انہوں نے اسی سودی نظام کی سانسیں بحال رکھنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں آکسیجن سپلائی کے سلنڈر بھی اٹھا رکھے ہیں ۔ اگر آپ واقعی اس دعوے میں سچے ہیں تو پھر آپ کا عمل بھی اس پر شاہد ہونا چاھئے ۔ کئی دہائیوں کے بعد بھی اسلامی بینکاری کا نظام معاشرے میں اپنے لئے وہ اعتماد حاصل نہیں کرسکا جس کی توقع تھی اور اس کی بنیادی اور بڑی وجہ سودی نظام کے ساتھ اس کی مفاہمتی پالیسی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اس مفاہمت کو ختم کیا جائے اور “سود کی برداشتی حد ” قران و سنت کے مطابق صفر پر لائی جائے۔ ورنہ خاکم بدہن موجودہ دورُخی پالیسی خود اسلامی بنکاری کے لئے ہی مہلک ثابت ہوگی اور سودی نظام کے خاتمے کا خواب پھر خواب ہی رہے گا۔سود پر مندرجہ ذیل مقالہ ایک مفید تحریر ہے جس میں سود سے متعلق جدید معاشی نظریات کا عقلی دلائل کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے [۱]۔
[۱] Siddique, M. A. (2015). Islamic Banking in an Interest Based Economic System: A Reality or Deception? Al-Azwa, University of Punjab Lahore, 30(44), 153-170.
………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1