قرآن مجید اور اقبال کا تصور خودی
محمد ابوبکر صدیق
…………………
زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خودنگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
خودی کیا ہے؟ خود پسندی، انا پرستی، خودپرستی کیا انہیں خودی کہتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ خود پسندی، انا پرستی، خودپرستی انسان کو غرور اور تکبر میں مبتلا کرتی ہے ۔ جبکہ خودی انسان کو رب سے روشناس کرواتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا یہ فطرت سراپا خیر ہے۔آدمی اس فطرت کو پہچانے ، اس کی قدر کرے اور اسے بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرے ۔لیکن اگر آدمی خود غرض اور بڑھتی ہوئی خواہشات کے دھارے میں بہہ نکلے تو یہ انسان میں غرور اور تکبر پیدا کردیتی ہے ، جس سے خودی کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ فطرت مسخ ہونے لگتی ہے اور زندگی شیطان کے پھیلائے ہوئے وسوسوں سے بھر جاتی ہے۔خودی کی بہترین عملی تعریف تو سیدنا حضرت علی المرتضی ؓ نے واضح کی۔ جب جنگ کے دوران ایک کافر نے آپ کے چہرہ انور کی جانب تھوکا تو آپ نے اُسے چھوڑ دیا۔ کافر محو حیرت ہوا، بول پڑا کہ ’ میرے پاس اپنی نفرت کے اظہار کا کوئی اور راستہ نہیں تھا تو میں نے تھوک دیا۔ آپ ؓ کو تو اور بھی زیادہ غصہ آنا چاھئے تھا ۔ لیکن آپ ؓ نے مجھے چھوڑ دیا۔ کیوں؟ ‘ اس پر حضرت علی المرتضی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ کسی ذاتی مقصد کے پیش نظر نبرد آزما نہیں تھا۔ بلکہ اللہ کی رضا کے لئے حق کے غلبے کے لئے لڑ رہا تھا۔ لیکن تم نے جس وقت میرے چہرے کی جانب تھوکا تو مجھے غصہ آگیا اور اس میں میری ذات کا مقصد شامل ہوگیا۔ مجھے ڈر لگ گیا کہ اگر آج تمہیں قتل کردیتا ہوں تو قیامت کے دن میرا رب یہ نہ فرما دے کہ ’ علی ؓ تم نے اسے اپنے غصے کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ ‘ یہ ہے تصور خودی ۔ یعنی خودی کا منبع و مرکز انسان کی ذات میں چھپی ہوئی غیرت ہے ۔ اگر اس غیرت کا سبب اپنی ذات ہے تو یہ خود پسندی اور انا پرستی ہے۔ اگر اس کا سبب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہو تو یہ خودی ہے۔
قرآن مجید اور صاحب قرآن حضور نبی رحمت ﷺ کے انداز تربیت پر بڑی گہری نظر رکھتے ہوئے حضرت اقبال ؒ نے کہا کہ فلاح کے آسمانی تصور کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ بندے کی خودی تین کمالات سے متصف ہو یعنی وہ خودنگر، خود گر ا ور خود گیر ہو ۔جب تک خودی ان کمالات سے متصف نہیں ہوگی بندہ راہ کی گرد میں گم ہوجائے گا لیکن مقصود ِحیات کبھی نہیں پاسکے گا۔ ایک نبی، رسول علیہ السلام کا بنیادی کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلےاپنے امتی کی عقل و نگاہ پر پڑے پردوں کو ہٹا کر اُس کی حقیقت اُس کے سامنے آشکار کرتا ہے۔
قرآن مجید نے بڑے جامع انداز میں بیان کیا کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی امت کی تربیت کن مراحل میں کی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود نگری کے مقام پر لوگوں پر کیسے واضح کیا کہ وہ کون ہیں ؟ ان کا رب کون ہے ؟ قرآن مجید سورہ الانعام میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے :۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ
پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا) ۔اسی طرح آگے فرمایا:۔
فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ
( پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھرجب وہ (بھی) غائب ہوگیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتا)۔
بات یہیں نہیں رکی ۔ قرآن مجید نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا:۔
لَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ
(پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک
گردانتے ہو)۔
پہلے رات کی تاریکی میں چمکتے تارے اور دمکتے ہوئے چاند کو دیکھ کر خود ہی کہنا ’کیا یہ میرا رب ‘ اور جب وہ ڈوب جائیں تو لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ فرما کر ڈوب جانے والوں سے اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے اُن کی ربوبیت کا انکار کرنا ۔پھر آخر میں سورج کو دیکھنا اور اس کی بڑائی اور چندھیا دینے والی روشنی کے رعب کو لوگوں میں ذہنوں میں بٹھانا کہ اس سے بڑھ کر تو اور کسی طاقتور وقت کا تصور بھی انسانی ذہن میں نہیں آسکتا لہذا کیا یہ رب ہوسکتا ہے ؟ پھر جب وہ بھی ڈوب جائے تو ان کی ربوبیت کا انکار کرنا یعنی ایک ایک کر کے بلند و بالا اور اوج ثریا کی پنہائیوں میں چمکنے دمکنے والی مخلوق کے رب ہونے کے امکان کو لوگوں کے سامنے انہی کی عقلوں کے ذریعے رد کروایا ۔ تو یہی وہ وقت تھا کہ ’لوہا گرم ہے اب ہتھوڑا ماراجائے‘۔ چنانچہقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ(ابراہیم بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک گردانتے ہو)۔ پھر ان کے سامنے یہ واضح کرنا کہ تم انہیں رب مانو تو مانو میں اپنے عظیم رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرونگا۔ یہی الفاظ اس پر واضح دلیل ہیں کہ رب کی توحید پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمان پہلے سے تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھرقَالَ هَذَا رَبِّيیہ سب کیا تھا ؟
یہ سب کچھ تو لوگوں کو خود نگری کے کمال سے متصف کرنے کا ایک انداز تھا جو نہایت مؤثر تھا۔ کسی جملے کے سوالیہ ہونے کے لئے لازمی نہیں کہ اس میں حروف استفہام کا استعمال ہو۔ بلکہ کبھی کبھی سادہ جملے’ سوالیہ انداز تخاطب ‘ کی بدولت سوال بن جاتے ہیں۔ ’یہ میرا رب ہے‘ کو سوالیہ انداز میں بولا جائے تو یہ سوال بن جاتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ معاذ اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود رب کو پہچاننے کے مراحل میں تھے اور یہ آیات اس کا بیان ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ۔ اور یہ امکان قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ سے رد ہوجاتا ہے۔ شرک کا تصور کا مطلب ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمان توحید باری تعالی پر پہلے سے تھا۔ ورنہ جو ابھی ذات یکتا کو پہچان ہی نہ پایا ہو اُسے کیا خبر کہ شرک کیا ہوتا ہے۔
یہ درحقیقت اُن لوگوں کے ذہنوں میں، اُن کی سوچوں میں ایک زلزلہ بپا کرنا تھا جو کبھی ستاروں کو تو کبھی چاند کو اپنا خدا سمجھتے تھے اور کبھی اپنے ہاتھوں سے بنائے بتوں کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکاتے تھے۔ ان کی عقل پر پڑے پردوں کو ہٹانے کے لیے یہ انداز اپنانا ضروری تھا ۔ تاکہ اُن کی عقل خود یہ سوال کر دے کہ جو خود ڈوب جائے وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔یہ زلزلہ بپا کرنے کی دیر تھی کہ غلط عقائد کی بنیادوں پر تعمیر شدہ ان کی ساری عمارتیں منہدم ہو کر ریت کا ڈھیر ثابت ہوئیں۔ لیکن حکمت کا تقاضا یہ بھی تھا کہ اگر اُن سے غلط خداؤں کا تصور چھینا جا رہا ہے تو پھر حقیقی خدا کا تصور بھی پیش کیا جائے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً فرمایا :إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ(بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں)۔
یہ وہ کمال کابراہیمی انداز تھا کہ خوش بخت روحیں اپنے خالق حقیقی سے روشناس ہوگئیں اور رب ابراہیم پر ایمان لے آئیں۔ لیکن جو ابھی بھی حق کے انکاری ، کج بحثی کے عادی تھے نہ مانے۔ اُن سے بحث بھی ہوئی اور انہیں دلائل بھی دئے لیکن انہوں نے پھر بھی یہ کہا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کیسے پھر جائیں۔ تب حق کی پہچان کے لئے ایک اور کمال انداز اپنایا اور انہیں چیلنج کرتے ہوئے کہا جس کا بیان قرآن مجید نے یوں کیا :۔
وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (75)فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) قَالُوا مَن فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (59) قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (60) قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ (61) قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ (63)
(اور اللہ کی قسم! میں تمہارے بتوں کے ساتھ ضرور ایک تدبیر عمل میں لاؤں گا اس کے بعد کہ جب تم پیٹھ پھیر کر پلٹ جاؤ گے۔پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے (بُت) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔. وہ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ بیشک وہ ضرور ظالموں میں سے ہے۔(کچھ) لوگ بولے: ہم نے ایک نوجوان کا سنا ہے جو ان کا ذکر (انکار و تنقید سے) کرتا ہے اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔وہ بولے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ (اسے) دیکھ لیں۔(جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو) وہ کہنے لگے: کیا تم نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حال کیا ہے اے ابراہیم۔آپ نے فرمایا: بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا تو ان (بتوں) سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں۔
بتوں کی ناک کاٹ کر اور ان کے بازو توڑ کر پھر ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کردینا کہ یہ کام اس نے کیا ہوگا ؟ اس سے پوچھو اگر یہ بول سکتا ہے ؟ واقعی یہ ایک کمال کا انداز تھا کہ ایک ایسا کام کیا جائے جس سے وہ بھڑک اٹھیں اور جذبات میں آ جائیں اور اسی دوران اُن کے سامنے ایسے سوال رکھ دئے جائیں کہ جس کے سامنے وہ خود لاجواب ہوجائیں اور اُن کی عقل خود ہی ان کی لوح ِدل پر یہ لکھ دے جو خود بول نہیں سکتے ، خود کی حفاظت نہیں کرسکتے تمہاری حفاظت کے کیا خاک ضامن ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ الفاظ خوش بخت اروح کے لئے حق کے پیغام کو قبول کرنے لئے بہت اہم ثابت ہوئے۔ چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم یہ بت بھلا کیسے بول سکتے ہیں کہ جواب دیں ۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:۔
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (66) أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔تف ہے تم پر (بھی) اور ان (بتوں) پر (بھی) جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب نے کئی لوگوں کی عقلوں پر پڑے پردے وا کر دئے اور انہیں راہ حق سے روشناس کرا دیا ۔ تاہم اکثریت نے اپنی شقاوت قلبی کی بدولت حق کو نہ پہچانا اور الٹا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشق ستم بنایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان پر بدعا نہیں کی اور نہ ہی ان پر عذاب کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ بلکہ صبر وتحمل سے کام لیا ۔ یہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذات بابرکات سے خود گری کے مرحلے کا بیان ہے ۔ کہ مصائب و آلام میں صبر و تحمل ہی وہ وہ بنیادی او صاف ہیں جن سے بندے کی خودی کی تعمیر یعنی تعمیر ِذات ہوتی ہے۔کفار بولے کہ انہیں آگ میں جلا دو ،جس کا بیان قرآن مجید نے یوں کیا:۔
قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو)۔
کفار آگ جلا چکے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آ گ کی جانب پھینک بھی چکے ۔ یہاں پھر قدرت خداوندی نے آگے بڑھ کر دکھایا کہ صاحب ِ خودی کی حفاظت وہ کیسے کرتا ہے ! وہ کیسے خود گیری کے مقام پر انہیں سرفراز کرتا ہے۔ ابھی وہ فضا میں ہی تھے کہ حکم الہی آیا:۔
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ (69) وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (70)
ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔اور انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ بری چال کا ارادہ کیا تھا مگر ہم نے انہیں بری طرح ناکام کر دیا۔
رب کریم نے اپنے خلیل علیہ السلام کا ساتھ دیا کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔یہی وہ صبر تھا جس کا پھل آگ کے گل وگلزار ہونے کی صورت میں مل گیا۔ بس آگ کا گل وگلزار ہونا تھا کہ کچھ لوگوں کی عقل پر پڑے پردے ہٹ گئے۔انہوں نے خود کو پہچان لیا کہ وہ کون ہیں !اور ان کا حقیقی رب کون ہے ۔ اور اہل شقاوت انگشت بدنداں تھے کہ وہ کیا توقع کر رہے تھے اورکیا ہوگیا! یہ آگ گلزار کیسے ہوگئی ؟ اسی کی جانب حضرت اقبالؒ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
جب بندہ یہ تین مرحلے طے کر لیتا ہے تو پھر بندہ مولا صفات بن جاتا ہے ۔ جس کی جانب اقبال اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
خاکی و نوری نہاد، بندہِ مولا صفات
ہر دوجہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہِ آفاق میں، گرمیِ محفل ہے وہ
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر بندہ وہ عظمتیں حاصل کر لیتا ہے جس کا بیان حدیث قدسی میں یوں ہوتا ہے:۔
( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارِ کشا و کارساز
اس مقام ِ علو کے انعام کی جانب حضرت اقبال اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
بندہ جب یہ سارے مراحل طے کر تے ہوئے اپنی خودی کو ان کمالات سے متصف کرلیتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچتا ہے کہ اس کے لئے موت حیات ِ جاوداں کا حسین پیغام بن جاتی ہے۔ جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقبال کہتے ہیں:۔
ہو اگر خودنگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1