انسانی رویوں پر سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات
Behavioral Impact of Capitalism
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
…………………………………….
پندرھویں اور سولہویں صدی سرمایہ دارانہ نظام کی فکری ترویج کی صدیاں کہلاتی ہیں ۔ اس زمانے میں مغربی مفکرین کا سارا زور اپنے معاشرے کو مذہب سے آزاد کرنے میں صرف ہوا۔ سترہویں صدی میں مغرب نے مارٹن لوتھر کی قیادت میں چرچ سے آزادی حاصل کی۔ بظاہر تو وہ بھی مذہب کا نمائندہ رہا اور پروٹسٹنٹ عیسائیت کی بنیاد رکھی۔ لیکن مغربی معاشرے کو لادینیت کی طرف دھکیلنے کا بنیادی کردار اسی کا ہے۔ کیونکہ چرچ کے خلاف بغاوت کا پہلا قدم اٹھانے کی ہمت اس نے پیدا کی اور لادینیت کی جانب ایک اور قدم بڑھانے میں اس معاشرے کو کوئی جھجھک نہیں ہوئی۔ رہی سہی کسر دہریت کے علم بردار مفکرین نے پوری کر دی۔ ان دو صدیوں میں جو فکر پروان چڑھی اس میں اہم نکات یہ ہیں۔
۔1۔ مذہب کو ہماری زندگیوں میں مداخلت کی اجازت نہیں۔
۔2۔ اپنے فیصلوں میں انسان مطلق آزاد ہے۔
۔3۔ انسان اپنی خواہش میں آزاد ہے۔ وہ جو چاھنا چاھے اس میں وہ خود مختار ہے۔ اور اس چاہ کو پورا کرنا اس کا حق ہے۔
۔4۔ خیر و شر کے فیصلے کا اختیار انسان کو ہے۔
۔5۔ انسان مطلق آزاد ہے۔
یہ وہ نظریات تھے جنہوں نے مغربی معاشرے کو الحاد کی گہرائی میں دھکیل دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ خدا مرا چکا ہے‘‘ نظریات مقبول ہوئے۔ بالآخر انسان کو ’’ ہیومن بی ئنگ ‘‘ کے منصب پر براجمان کردیا گیا۔ یعنی انسان اپنے ہونے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنا خدا خود ہے۔ وہ تمام امور کے فیصلے خود کرتا ہے۔ وہ جو چاہے کرے یعنی ہر چاہت کے چاھنے کا حق اسی کا ہے۔ بقول ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب ان دونوں نظاموں کا کلمہ ایک ہے : لا الہ الا الانسان۔ یہی وجہ تھی کہ ان نظریات کے اثرات اس معاشرے میں وجود میں آنے والے ہر نظام سیاسی ، معاشی ، معاشرتی سطح پر کافی شدت سے مرتب ہوئے۔ حقوق کی بات آئی تو ہیومن رائٹس کا تصور ابھرا ۔ انسان چونکہ اپنی خواہشات میں آزاد ہے۔ اس لئے جو وہ چاہے اسے ملنا لازمی ہے۔چنانچہ مغربی ممالک نے پارلیمنٹ میں ہیومن رائٹس کی مد میں جو قوانین بنائے ان میں سے 3 یہ ہیں ورنہ فہرست طویل ہے۔
۔ جس انسان کی خواہش ہو کہ وہ ہم جنس کے ساتھ شہوانی خواہش پوری کرے یہ اس کا بنیادی حق ہے۔
۔ انسان اگر اپنی شہوانی خواہش کو شہوانی کھلونوں (سیکس ٹول) سے پورا کرنا چاھتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔
۔ مرد و عورت اپنی شہوانی جذبات کی تسکین کے لئے بغیر نکاح یا شادی کے ایک دوسرے سے تعلق استوار کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
۔ اسقاط حمل ہر عورت کا حق ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے چاہے تو وہ بچہ جنے چاہے تو نہ جنے۔ حتی کہ اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ اپنے پیٹ میں موجود بچے کو کسی بھی سٹیج پر قتل کرنا چاھے تو کردے۔
اٹھارویں صدی میں ایڈم سمتھ آتا ہے اور سرمایہ دارانہ معاشیات کا باقاعدہ تولد ہوتا ہے۔ اکنامکس کی ام الکتاب ” قومی دولت ” ویلتھ آف نیشن تحریر کرتا ہے۔ اس کے بعد علم معاشیات کے مختلف مفکرین آئے۔یہ سارے معاشی مفکرین کلاسیکل ہوں یا کینیزین یا ان کی گود سے نکلنے ” نیو ” فرقے خواہ سرمایہ داریت ہو یا اشتراکیت سب کے سب چونکہ ایک ہی خاص معاشرتی فکر سے نکل کر آئے تھے اس لئے ان سب نے مل کر جو اکنامکس مرتب کی اس کا مقصود ایک ہی تھا۔
سرمایہ داریت اور اشتراکیت میں اختلاف کیا ہے؟
ان دونوں نظاموں کے اہداف میں عمومی طور پر کوئی فرق نہیں۔ یہ دونوں نظام ایک مقصد کے حصول کی جد و جہد کرتے ہیں البتہ اس مقصود کے حصول میں طریقہ کار میں فرق ہے۔
وہ مقصد واحد کیا ہے؟؟
انسان کی خواہشات کی تسکین وتکمیل زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔
یہ دونوں نظام باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک نظام سرمایہ دار انسان کی خواہشات پر زور دیتا ہے تو دوسرا مزدور کی خواہشات کا علم لے کر اٹھتا ہے۔ لیکن دونوں میں خدائی کا منصب انسانی خواہشات کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سرمایہ داریت کا حامل ہو یا اشتراکیت کا لیکن ان سب ممالک میں ہیومن رائٹس مشترک ہیں ۔ جس کی ایک مثال ہم جنس پرستی کا قانونی جواز ہے۔
معاشی مسئلہ:
یہ دونوں معاشی نظام ایک ہی معاشی مسئلے کے گرد طواف کرتے ہیں اور وہ ہے ’’ خواہشات لامحدود ہیں جبکہ وسائل محدود اور کم ہیں‘‘۔ اس مسئلے سے نمٹنا کیسے ہے۔ اس کے لئے ان دونوں معاشی نظاموں کےدرج ذیل تین بنیادی مفروضے ہیں:
1۔ اکنامکس میں مذہب کا کوئی کردار نہیں۔
2۔ اکنامک ایجنٹ ( پروڈیوسر ، کنزیومر اور حکومت) خود غرض ہیں۔ Self interest
3۔ زیادہ سے منافع، مفادات، افادہ (یوٹیلیٹی ) کا حصول مقصد (حیات) ہے۔
اگر غور کریں تو واضح ہوجائے گا کہ موجودہ اکنامکس کے معاشی مسئلے اور تین مفروضات پر پندرھویں اور سولہویں صدی کے مفکرین کی فکر کتنا گہرا اثر پڑا ہے۔یہ تین مفروضے مجموعی طور پر انسان کے رویوں پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں کسی ذی شعور کے لئے مشکل نہیں ہے۔ مذہب کا دخل نہیں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آ خرت میں احتساب کا کوئی تصور ہی نہیں تو پھراسے کس بات کا ڈر ہو کہ وہ کوئی گناہ نہ کرے ۔ اکنامک ایجنٹ خود غرض ہے ۔ اُسے صرف اپنی ذات سے غرض ہے اور بس اور اسے ایک خوش نما اصطلاح دے دی ’’ سیلف انٹرسٹ‘‘ ۔ اس پر طرفہ یہ کہ منافع ، مفادات ، افادہ کے زیادہ سے زیادہ حصول کو زندگی کا مقصد بنا دیا ۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اس مقصد کے لئے کسی بھی حد تک گر سکتا ہے اور جا سکتا ہے۔ کیونکہ اخلاقی سطح پرانسان سے احتساب کا خوف تو چھین لیا پھر وہ کس سے ڈرے ؟ بڑی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ اسے ملکی قانون کا ڈر ہو گا ۔ تو اس پر عرض ہے کہ مغربی ممالک میں جرائم کے اعداد و شمار دیکھ لی جیے یہ اور بات کہ بہت سے جرائم تو اب قانونی ہیں ۔
یہ بحث تو مختلف الجہات ہے اور کافی وسیع ہے۔ اختصار کے طور پر میں یہاں صرف ’’ہیومن رائٹس اور اکنامکس ‘‘ کے باہم ملاپ سے وجود میں آنے والی معاشرت و معیشت پر عرض کرونگا۔
مغربی ہیومن رائٹس اور اکنامکس نے ملکر جو معیشت کا تصور دیا ہے وہ کیسا ہو سکتا ہے؟
مندرجہ بالا ہیومن رائٹس اور اس جیسے دیگر رائٹس متعین ہوئے تو ان کو پورا کرنے کے لئے ان کی سپلائی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ تو یہاں اس معاشرت سے جنم لینے والے معاشی نظام نے قدم بڑھائے اور سیکس ٹولز انڈسٹری، جوا خانے ، پورن انڈسٹری، قحبہ خانے سمیت سب ابلیسی اعمال کو باقاعدہ انڈسٹری کی حیثیت دے دی ۔ یہ انڈسٹری سپلائی فراہم کرے گی ۔ جس کی ڈیمانڈ پہلے ہی معاشرے میں موجود تھی۔ یوں یہ بزنس چل نکلا جسے باقاعدہ قانونی سند بھی فراہم کردی گئی۔ (معاشرت میں آسمانی خدا کا دخل نہیں تھا اس لیے وہ بھی جائز ۔ معیشت میں بھی خدا کا کوئی کردار نہیں اس لیے یہاں بھی یہ امور جائز )۔
(یہ ہیں مغربی دنیا کے ہیومن رائٹس اور معیشت کا وہ ’’امتزاج یا کمبی نیشن ‘‘ جس کے اطلاق کا مطالبہ اب اسلامی ممالک میں بھی گنتی کے چند لبرل گروہوں کی جانب سے ہونے لگا ہے)۔اب تو اقوام متحدہ کے باقاعدہ مقاصد میں شامل ہے کہ ہم جنس پرستی سمیت ان تمام ابلیسی کاروباروں کو پوری دنیا میں قانونا جائز تسلیم کیا جائے۔گویا مغرب کا کہنا یہ ہے کہ : اس میں کسی آسمانی خدا کو کیا اجازت ہے کہ وہ انسان کی خواہشات پر قدغن لگائے۔
انوسٹمنٹ سے کیا مراد ہے ؟
سرمایہ دار کا کسی بھی کاروبار میں نفع کمانے کی غرض سے پیسہ لگانا انوسٹمنٹ کہلاتا ہے۔ چنانچہ سرمایہ دار نے مندرجہ بالا سب ابلیسی کاموں میں پیسہ لگانے کو بھی “انوسٹمنٹ” کا نام دیا۔ اور اس پر نفع کمانا جائز ٹھہرا۔ سرمایہ داریت کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ورنہ حقائق تو
ہوش ربا ہیں۔ صاف ظاہر ہے قحبہ خانے چلانے کے لئے عورتیں درکار ہیں (سپلائی )۔ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے سپلائی کہاں سے ہوگی؟ اس کے لئے ہیومن ٹریفکنگ کے اعداد و شمار گوگل کر کے دیکھ لی جیے سب واضح ہوجائے گا ۔
کوئی بھی نظام کب کا میاب ہوتا ہے ؟
ہر نظام اپنے کچھ مفروضات اور مقاصد رکھتا ہے جن کے بغیر وہ نظام ایک بانجھ درخت مانند ہوتا ہے۔ سرمایہ داریت و اشتراکیت بھی اپنے اساسی ستونوں کے بغیر ایک بانجھ درخت ہیں بلکہ الٹا نقصان دہ نتائج کا سبب بنتے ہیں۔ سرمایہ داریت و استراکیت کے مشترکہ اساسی ستونوں میں لبرل ازم (مذہب آزاد)، ہیومن رائٹس، جمہوریت، قوم پرستی وغیرھا شامل ہیں۔ لہذا یہ دونوں نظام ان ستونوں کے بغیر کوئی فائدہ نہیں دے سکتے ۔
مغربی ممالک سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت سے فوائد لے رہے ہیں لیکن مسلم ممالک ان کے ثمرات سے کیوں محروم ہیں؟
اول تو اس وقت کوئی بھی مسلم ملک نہ تو خالصتا ً سرمایہ داریت پر مبنی ہے اور نہ ہی اشتراکیت پر اور نہ ہی مکمل طور پر اسلامی نظام کا حامل ہے۔ تقریباً تمام اسلامی ممالک میں اس وقت تینوں نظاموں کے مشترکہ چربے سے وجود میں آنے والے نظام کی کوئی نہ کوئی صورت مروج ہے البتہ اس میں غالب رنگ سرمایہ داریت کا ہی ہے۔
کوئی بھی اسلامی ملک اگر کلیتا ً سرمایہ داریت اپنا لے یا اشتراکیت کو گلے لگا لے وہ کبھی بھی اپنے ہاں ترقی و خوشحالی نہیں لاسکتے۔ کیونکہ اسلامی معاشرے کے افراد کے لئے ان نظاموں کی اساس کو اپنانا ممکن ہی نہیں۔ اس کے لئے انہیں اپنے ایمان کی قربانی دینا پڑے گی اور وہ یہ کرنے سے رہے۔ کیونکہ ان کے اساسی ستون قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔ لبرل ازم ، قوم پرستی، ہیومن رائٹس جیسی بکواسیات کا اسلام میں کوئی تصور ممکن ہی نہیں)۔
فی الوقت ہوکیا رہا ہے ؟
مسلمان عقائد تو اسلامی رکھنا چاھتے ہیں لیکن معاشی نظام سیاسی نظام دوسرے رکھنا چاھتے ہیں۔تو اس صورت حال میں مسلمان کی وہی صورت سامنے آتی ہے جو اس وقت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ایسے میں دین پر کاربند مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آخر اس نے بھی اسی نظام میں آنکھ کھولی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول سے وہ بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ البتہ ان کے متاثر ہونے کی شرح معاشرے کے دیگر طبقات کی نسبت کم ہے۔ تاہم مجموعی طور پر اسلامی ملک کے معاشرے کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف آفات کا سامنا ہو اور لوگ مصیبت میں مبتلا ہوں تو اس پر منافع خوری کی حرص سوار ہو جاتی ہے۔ چند روپے ماسک ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ بعد میں زیادہ منافع پر فروخت کریں ۔ ایکسپائر میڈیسن پر نئی تاریخ کا لیبل چسپاں کر کے فروخت کردیا جائے تاکہ چند سو روپے بچائے جا سکیں بھلے میڈیسن سے مریض کی جان چلی جائے ’’ کوئی جئے یا مرے ، میرے دو روپے کھرے‘‘۔ اشیاء میں ملاوٹ کر کے فروخت کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت کما لی جائے ۔ دھوکے فراڈ کی ایسی نئی سے نئی شکلیں اورایسے طرق ہائے ورادات سامنے آ رہے کہ ابلیس بھی شرما جائے۔ مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی عصمت داری کے بڑھتے واقعات ، بچوں بچیوں سے زیادتی کے بعد قتل کے پے در پے بڑھتے ہوش ربا اور دل دہلا دینے والے واقعات یہ سب اس بات کی عکاسی کر تے ہیں کہ کلمہ پڑھنے والے معاشرے میں ان ساری ابلیسی حرکات کا محرک آخر کیا ہے ! وہ ہے ملکی سطح پر اسلامی نظریہ حیات سے دوری ۔ ریاست معیشت و معاشرت ، عدالت سب کچھ مغربی فکر پر چلانا چاہ رہی ہے لیکن ملک کے باشندے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے حامل ہیں۔ راستہ ناہموار بناو گے تو گاڑی کیسے سکون سے چلے۔
اس سب کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلم معاشرے کسی بھی نظام کے ثمرات نہیں لے پا رہے۔ بلکہ صورت حال مزید بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ مسلم ممالک بین الاقوا می قرضوں تلے دن بدن دبتے چے جارہے ہیں۔ مسلم معاشروں کی مجموعی صورت حال کو دیکھ لیں ۔ خاندانی نظام تقریبا ً تباہ ہوچکا ہے۔ معاشرتی سطح پر تعلقات آلودہ ہو چکے ہیں۔ معاشی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نام کے مسلماں تو ہیں لیکن مساجد اب گرجا گھروں کی مانند صرف مخصوص دن جیسے جمعہ کو ہی بھری نظر آتی ہیں۔ اس صورت حال میں مسلم ممالک نے پایا کم کھویا زیادہ ہے۔ اس صورت حال میں موجودہ معاشرے کا مسلمان نہ تو اچھا مسلمان بن پایا اور نہ ہی سرمایہ دار یا اشتراکی ۔ کامیابی ملتی بھی تو کیونکر کہ ذلت کےراستے پر چلنے سے عزتیں کہاں ملا کرتی ہیں۔
قرآن مجید نے معاشرے کے اپنائے ہوئے موجودہ روش اور رویے کو گمراہی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے۔
مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا (143) النساء
(وہ اس (کفر اور ایمان) کے درمیان تذبذب میں ہیں نہ ان (کافروں) کی طرف ہیں اور نہ ان (مؤمنوں) کی طرف ہیں، اورجسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ہرگز اس کے لئے کوئی (ہدایت کی) راہ نہ پائیں گے)۔
یعنی دھوبی کا کتا نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ کیوں نہ پھراسلام کے دامن میں پناہ لی جائے۔
لوٹ جا عہد نبی ﷺ کی سمت اے رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقاء درکار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1