نظام اور عقیدے کا باہمی تعلق: اسلام اورسرمایہ داریت
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتداء میں یہ دو باتیں ذہن نشین رہیں
۔1۔ اسلام ایک پورا الگ نظام حیات ہے اور کامل و اکمل ہے۔
۔ 2۔ کیپیٹل ازم ایک الگ نظام حیات ہے
ہم اس وقت تقریبا ساری دنیا کے مسلمان ایسے نظام پر ہیں جس میں اسلام کم اور کیپیٹل ازم زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے رویوں میں سرمایہ داریت کا رویہ زیادہ اور اسلامی رویہ بہت کم ہے۔ یوں کہئے ہمارے رویوں میں بھی سرمایہ داریت اور اسلام اسی تناسب میں ہیں جس تناسب سے یہ دونوں اس وقت مخلوط نظام میں ہیں۔ یاد رکھیں ۔۔۔ کسی بھی نظام کے دو پہلو ہوتے ہیں اور ان کا آپس میں انتہائی گہرا تعلق اور ایک دوسرے پر گہرا اثر ہوتا ہے
۔1۔عقیدہ : کسی بھی نظام کی یہ پہلی بنیاد ہے۔ اس میں یہ ذہن سازی ہوتی ہے۔ انسان کیا ہے ؟ کیوں یے؟ اسے کس نے پیدا کیا؟ کسی اور نے پیدا کیا یا انسان خود ہی خالق ہے؟ اس زمین و کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ وغیرہ
۔2۔ عمل: کسی بھی نظام کی یہ دوسری بنیاد ہے۔ اس میں قانون اور احکام ہوتے ہیں۔ حیات کیسے گزارنی ہے۔ فلاں کام کا قانون، طریقہ کیا ہوگا۔ فلاں کام کب ، کیسے کیا جائے گا وغیرہ
عقیدہ کیوں ضروری ہے ؟؟؟؟
نظام معاشروں کو منظم کرنے اور منظم رکھنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ تاکہ معاشرہ منظم رہے اور فساد کا شکار نہ ہو۔ انسان کے عقیدے کا اس کے عمل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی زندگی کے 10 سال تک قرآن کا نزول صرف لوگوں کی عقائد کی درستگی پر اترتا رہا۔ نماز روزہ حج زکواة اور دیگر احکام شریعت وغیرہ کے عملی اقدامات مکی زندگی میں نہیں دئے جب تک کہ ان کے عقائد ٹھیک نہیں کردئے۔ کیونکہ عقیدے کے بغیر احکام پر عمل ممکن ہی نہیں تھا اور حکمت کے خلاف تھا۔ کسی حکم کی حقانیت کا عقیدہ ہی نہ ہو تو انسان وہ کیوں کرے گا اور اگر کرے گا تو کس بے دلی سے کرے گا یہ واضح۔
لہذا ہر نظام کے پیچھے کچھ ایسے بنیادی عقائد ہوتے ہیں جنہیں ان سے الگ کردیا جائے تو وہ نظام اپنی اصل پر باقی نہیں رہ سکتا۔ جیسے تصور توحید یا تصور ختم نبوت کے بغیر اسلام کا کوئی وجود نہیں۔ اسلام وہی ہے جو توحید، رسالت، ملائکہ، آسمانی کتب، حیات بعد الموت، آخرت اور اللہ کی تقدیر جیسے بنیادی کا عقائد کا مجموعہ ہے۔
کیا نظم اور امن کا یہ قیام از خود مقصود حیات ہے؟
اسلامی پیراڈائیم میں تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔ اسلامی تناظر میں یہ نظم اور امن در اصل انسانی تخلیق کے بنیادی مقصد کی تکمیل کا ذریعہ قرار پاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان آزادی اور اختیار سے اپنے کریم رب کی بندگی کرے اور اپنے معاشرے پر اللہ کے احکامات کا نفاذ کرے تاکہ مرنے کے بعد وہ اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوجائے ۔ اگر ناکام ہوا تو آخرت میں جوابدہی کا سامنا ہوگا۔ یہ آخرت میں جوابدہی کا عقیدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ انسانی رویوں اور اعمال پر اس کا بہت ہی گہرا اثر ہے۔
ایک انسان وہ ہے جس کا حیات بعد موت اور آخرت کا سرے سے ایمان ہی نہیں ہے۔ اس کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ بس یہی زندگی ہے جو کرنا ہے کر لو۔ تو سوچئے اس کا عمل کس حد تک اور کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
ایک انسان وہ ہے جو اخروی زندگی پر یقین تو رکھتا ہے لیکن عقیدہ ہی یہ ہے کہ میرے سارے گناہ عیسی علیہ السلام اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے گئے۔ یا ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں اور جنت ہماری ہے۔ تو وہاں آخرت میں جوابدہی کی اہمیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس لئے اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے اعمال انتہائی مفسدانہ، ظالمانہ اور راہ اعتدال سے ہٹے ہونگے۔ کیونکہ اسے تو آخرت کا خوف ہی نہیں۔
جبکہ اسلامی پیراڈائم میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں جوابدہی کا خوف ہے حتی کہ اس کے ماننے والے عشرہ مبشرہ ہوکر بھی آخرت میں جوابدہی کا خیال آنے پر خوف سے بے ہوش جایا کرتے تھے۔ خلیفہ کو اسی احساس جوابدہی کی وجہ سے رات کو بستر پر سکون نہیں آتا تھا وہ رات کو اٹھ کر شہر میں گشت کرتا اور لوگوں کی حاجات کا پتہ لگاتا تھا۔
۔ جن کے بعد جاکر وہ عملی احکامات دیتا ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات بھی مہیا کرتا ہے۔
یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ عقیدہ کی کیا اہمیت ہے اور انسانی عمل پر اس کا کتنا گہرا اثر ہے۔اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ کیپیٹل ازم میں عقیدہ اور عمل کا کیا تصور ہے؟
کوئی بھی نظام خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے وضع کیا جاتا ہے۔ جیسے اسلام کا نظام اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ بالکل اسی طرح کیپیٹل ازم بھی کسی کا پیدا کردہ نظام ہے۔ یہ کہنا خام خیالی ہے کہ یہ ایک فطری نظام ہے۔ یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
کسی بھی معاشرے پر کسی بھی نظام کو نافذ کرنے سے پہلے اس معاشرے کو تیار کیا جاتا ہے ۔ ذہن سازی کی جاتی ہے۔ وہ ذہن سازی عقیدے کی ترویج کی صورت میں ہوتی ہے ۔ لوگ جب اس نظام کے موافق عقیدے کو قبول کرلیں گے تو نظام بھی نافذ ہوجائے گا۔ ورنہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اسلام میں سب سے پہلے عقائد پر توجہ دی گئی بعد میں نظام دیا گیا۔ کیپیٹل ازم بھی ایک نظام ہے۔ لیکن اس نظام کے نفاذ سے پہلے ذہن سازی ہوئی ہے۔ لوگوں کو فکری بنیادوں پر تیار کیا گیا۔ ان کے عقائد بدلے گئے نئے عقائد قبول کروائے گئے۔ اور یہ کام زبردستی نہین ہوا۔ بلکہ لگاتار تحریکی کوششوں سے ہوا۔
کیپیٹل ازم کی بنیاد کس نے رکھی ؟
کیپیٹل ازم ” مین میڈ سسٹم” ہے۔ جو ایک دن میں نہیں بنا، کسی ایک انسان نے نہیں بنایا، کسی ایک ملک میں نہیں بنا۔ بلکہ مختلف جغرافیے کے ہم خیال انسانوں نے ترتیب دیا وہ انسان جو پہلے کسی عقیدے پر متفق ہوئے اور یہ اتفاق ان کی تحریروں سے جھلکتا ہے۔ لہذا اس نظام کی بنیاد میں مغرب کے فلسفیوں اور مفکروں کی تحریریں اور تبلیغ ہے۔
کیپیٹل ازم کے بنیادی عقائد کی ترویج کے تین زمانے ہیں پہلا زمانہ : پندرہویں اور سولویں صدی۔ دوسرا زمانہ: سترہویں اور اٹھارویں صدی۔ تیسرا زمانہ : انیسویں صدی
پہلا زمانہ
پندرہویں اور سولہویں صدی کے مغربی مفکرین نے باقاعدہ طور پر مذہب کے خلاف لکھنے، بولنے پر سارا زور لگایا۔ یہ انہی کی فکر کا اثر تھا کہ عیسائیت کی دنیا کے پادری یعنی مذہبی آدمی مارٹن لوتھر (10 نومبر 1483 – 18 فروری 1546)کو مذہب کے خلاف لا کر کھڑا دیا۔ اس نے کیتھولک کو شیطان قرار دیا۔ چونکہ مذہبی بندہ تھا اس لئے مذہب سے انکار تو نہ کیا اور مذہب کے ساتھ برائے نام جڑے رہنے کا تصور دیا اور ایک نئے عیسائی فرقے پروٹسٹنٹ کی بنیاد رکھی۔ مغرب میں تحریک کی سطح پر مذہب کے خلاف یہ پہلی منظم تحریک تھی جو کامیاب ہوئی۔ مغربی معاشرے کا مذہب کے خلاف بغاوت کا یہ پہلا قدم تھا جو مارٹن لوتھر نے اٹھایا اگرچہ دوسرا قدم مذہب میں ہی رکھا لیکن معاشرے کو مذہب کے خلاف اٹھنے کی جستجو دے دی۔ اس بغاوت میں مارٹن لوتھر کے ساتھ سب سے زیادہ نوجوان تھے۔ جن پر مذہب کی گرفت پہلے کی نسبت کم ہوگئی۔ مارٹن لوتھر سمجھ رہا تھا کہ شاید اس نے درست مذہبی فکر کی بنیاد رکھی ہے حالانکہ لاعلمی میں وہ اپنے بعد آنے والے الحادی مفکرین کے لئے راستہ ہموار کرگیا تھا اور لوگوں کے ذہن تیار کر گیا تھا کہ اگر کوئی اور نئی فکر اٹھے تو اسے قبول کرلینا۔
دوسرا زمانہ
سترہوین صدی میں اہم نام ’ڈیکارٹ (1556-1650)‘ کا آتا ہے۔ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں۔ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ڈیکارٹ کو پیدا کیا۔ ڈیکارٹ کا سب سے بدترین جرم یہ تھا کہ مغرب کی دنیا میں ’روح اور روحانیت‘‘ کی اہمیت کو ہی ختم کردیا۔ اس نے انسان کی نفس کو روح قرار دیا گویا انسان کا جسم روح یعنی نفس کا خادم ہے ‘ کا تصور دیا۔
اس کے بعد نیوٹن (1642-1727) سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ ’’کششِ ثقل کے قانون‘‘ کی دریافت ہے۔ لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے۔ یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل [جزوی] کی مدد سے یہ قوانین دریافت کر لے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح دیگر فلسفی بھی آئے اور مغربی ذہن کو مذہب سے آہستہ آہستہ دور کرتے چلے گئے۔
اٹھارہویں صدی میں جان لاک (1632- 1704ء), روسو (1712ء – 1778ء), ایڈم سمتھ،(1723ء – 1790ء), امانوئل کانٹ (1714ء – 1804ء), اور ڈیوڈ ریکارڈو (1772-1823) یہ وہ مفکر ہیں جنہوں نے مغرب میں انسانی زندگی سے مذہب کا کردار نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وہ صدی ہے جس میں مغرب کا معاشرہ مذہب بیزار اور مذہب آزاد ہوچکا تھا۔ اور یہی وہ صدی ہے جس میں ہیومنزم کا تصور اپنے جوبن پر ابھر کر نکلا۔ اس نظرئے نے تین عقائد پیش کئے۔
اول: ’’ کانٹ‘‘ نے کہہ کر یہ تصور دیا کہ ’’ انسان اٹانومس ہے یعنی اپنا خدا خود ہے‘‘ وہ اپنی مرضی میں کسی بھی دوسری طاقت کا پابند نہیں ہے۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔
Absolute Freedomدوم: انسان اپنے معاملات میں ’’مطلق آزاد ہے ‘‘ کا تصور یعنی میں جو چاہوں میں مکمل آزاد ہوں۔
تیسرا: اچھائی اور برائی یعنی خیر و شر کا فیصلہ ہر انسان خود کرنے میں آزاد ہے۔ اسے جو پسند ہو وہ اس کے لئے خیر ہے اور اسے جو برا لگے اس کے لئے وہ شر ہے۔
(ابھی ہم اس بحث میں نہیں جارہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ کتنے گمراہ کن عقائد ہیں)
معاشرے کے عام افراد تو اس مکمل بااختیاری پر تو بہت خوش ہوئے لیکن انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ اس خوش نما نظریے کو قبول کرنے کے بعد جو ان کے ساتھ ہونے والا ہے وہ کتنا بھیانک اور خطرناک ہے۔
اس کے علاوہ اسی صدی میں مذہب سے آزاد ’’ ریاست ‘‘ کا مغربی تصور ابھرا۔ ہمارے ہاں جس کی تبلیغ غامدی صاحب کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ نیز ریاست ایسی ہوگی جو ہیومن رائٹس کو تحفظ دے گی۔ ہیومن رائٹس کیا ہیں اس کا اجمال اور مختصر بیان اوپر کے تین نکات ہیں۔
انہی صدیوں میں مغربی دنیا میں ہونے والی ایجادات نے بھی مذہب کا کردار ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ابھی انیسویں صدی اس لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ کیپیٹل ازم کے نظام کی ۔ترویج میں یہ بحث بہت ضروری ہے۔ جیسے اسلام کی تکمیل میں مکی دور اہم ہے۔ ( ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب اور ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کی کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے )
اٹھارہویں صدی میں ایڈم سمتھ،(1723ء – 1790ء) نے ‘دولتِ اقوام’ کے نام سے مشہور کتاب لکھی جو 1776 میں چھپی تھی۔ یہ وہ پہلی کتاب تھی جس نے مغرب میں اکنامکس کو بطور مضمون متعارف کرایا۔جب بھی کوئی انسان کتاب لکھتا ہے تو وہ کتاب اس کی فکر و نظریے کی عکاس ہوتی ہے۔ آدم سمتھ چونکہ نظریاتی طور پر جان لاک سے زیادہ متاثر تھا۔ ایڈم سمتھ اگرچہ مذہب سے کچھ نہ کچھ جڑا ہوا تھا لیکن اس نے اکنامکس کے پودے کی آبیاری میں مذہب کے چشمے کو ہی بند کردیا۔ صاف ظاہر ہے جب وہ پودا درخت بنا اس کی شاخیں بنیں اور پھل دئے تو اس میں لادینیت و الحاد کا ذائقہ ہی پیدا ہونا تھا۔ اکنامکس کی پہلی کتاب یعنی بائبل آف اکنامکس جو مذہب بریدہ تھی تو آگے پوری تبلیغ معاشیات میں الحادی فکر پروموٹ ہوئی۔ مغرب کا معاشرہ جو پہلے ہی الحاد کی زد میں تھا۔ اکنامکس کے نئے علمی تصور نے الحادی آگ کو مزید ہوا دی اور یوں کیپیٹل ازم نے مذہب کو متبادل بیانیے کے طور پر ری پلیس کیا۔
مذہب کا کام ہوتا ہے کہ وہ انسان کو مقصد دے اور اس مقصد کے حصول کے طریقے بتائے۔ کیپیٹل ازم نے یہ کام کچھ یوں کیا کہ عقیدے اور معاشی مفروضوں کو اس انداز میں سمو دیا کہ عام ذہن کے لئے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ انہیں معاشی مفروضہ سمجھے یا عقیدہ گردانے۔
۔1۔معاشی فیصلوں میں مذہب کا کوئی کردار نہیں۔( اور یہ کام انہوں عملا کیا۔ یعنی تحریروں میں مذہب یا اس کے کسی بھی اخلاقی اصول کو اہمیت دیتے ہوئے جگہ ہی نہیں دی لیکن بظاہر انکار بھی نہیں کیا تاکہ اہل مذہب کی مخالفت سے بچا جاسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت سے مذہب کا کردار ہی نکل گیا )۔
Self interest is preferred۔2۔ اکنامک ایجنٹ ( پروڈیوسر ، کنزیومر اور حکومت) خود غرض ہیں۔ یعنی سب سے پہلے میں اور صرف میں۔
profit maximization۔3۔ زیادہ سے منافع، مفادات، افادہ (یوٹیلیٹی ) کا حصول مقصد (حیات) ہے۔
لیکن منافع کمانے کا یہ تصور جب پہلے دو مفروضوں کے تناظر میں دیکھیں گے تو بہت ہی بھیانک ہوجاتا ہے۔ یعنی پھر جملہ یوں بن جاتا ہے۔
Profit maximization at any costاردو میں اسکا مطلب ہے “” کوئی جئے یا مرے میرے دو روپے کھرے””۔
یہ ہیں وہ تین بنیادی مفروضے جن پر پوری معاشیات کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔ صاف ظاہر ہے کسی بھی معاشی نظام کو نافذ کرنے کے لئے معاشرے میں قوت و طاقت چاھیے۔ لہذا یہاں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس ابلیسی نظام کا نفاذ کیسے ہوگا؟
اس کے لئے جمہوریت کا نظام سب سے بہتر موافق نظام تھا۔ کیونکہ جمہوریت کا نظام بھی مذہب بریدہ تھا۔ ایسا نظام تھا جس پر سرمایہ دار افراد کا پہلے ہی راج تھا۔ جدید معاشیات دولت دوگنی چوگنی کرنے کا ذریعہ تھی تو جمہوریت اسی دولت کو حکمرانی کے منصب پر بٹھانے کا نظام تھا۔ گویا “” تو مجھے قبول میں تجھے قبول اس بات کا گواہ سرمایہ دار”” والا کام ہوا۔جمہوریت و معیشت کا یہ ملاپ بتدریج ” من و تو ” سے نکل کر ” من تو شدم، تو من شدی” تک پہنچ گیا۔فرق ہی ختم ہوگیا۔ بات یہاں تک آپہنچی کہ جمہوریت کے بغیر کیپیٹل ازم نہیں چل سکتا اور کیپیٹل ازم کے بغیر جمہوریت ناکام ہے۔ اس بیانیے نے اٹھارویں اور انیسویں صدی تک پورے مغرب و یورپ کے بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہیومن رائٹس اور این جی اوزجیسی دوسری جونکیں بعد میں ایجاد ہوئیں۔
تاہم اس سارے ابلیسی بیانیے کے سامنے اگر کوئی طاقت بند باندھے کھڑی تھی تو وہ تھی “ترک عثمانی خلافت” جو آدھی سے زیادہ دنیا پر اسلامی بیانیے کو قائم کئے کھڑی تھی۔ کیونکہ ہندوستان تو پہلے ہی ابلیسی قید میں آچکا تھا۔ غدار کیسے پیدا کئے گئے؟ کن انعامات سے نوازا گیا؟ کن مقاصد کے لئے گورے برطانیہ سے سات سمندر پار یہاں آ دھمکے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ سب مقاصد اوپر بیان ہوچکے۔
ترک خلافت کے خلاف سازشیں اگرچہ پہلے سے تھیں لیکن ایک دم سے کفر کا اتفاق امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس سب خلافت عثمانیہ کے خلاف متحد ہوگئے اور ان سب کی سازشوں کا 30 سال تک جس شخص نے اپنی اعلی ذہانت سے مقابلہ کیا وہ سلطان عبدالحمید ثانی تھا۔
بالآخر اندرونی غداروں نے ہی اس عظیم خلافت کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ ان ساری چالوں میں جو چال مغربی ابلیس نے چلی وہ تھی “” جمہوریت کا مطالبہ “”۔ بے وقوف نوجوانوں کو یہ کہہ کر خلافت کے خلاف اٹھایا کہ کیا حکومت صرف ایک ہی خاندان کا حق ہے؟؟؟ عام بندہ کیوں نہیں حکمران بن سکتا؟ یہ جمہوریت ہے جو عام بندے کو بھی یہ موقع اور آزادی دیتی ہے کہ وہ حاکم بنے۔ بظاہر یہ نعرہ تو دلفریب تھا۔ نائی،موچی اور میراثی کا بھی دل للچایا کہ ہاں یہ جمہوریت تو واقعی نعمت ہے۔ بس پھر کیا تھا تحریک زور پکڑ گئی ۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی نے مجبورا پارلیمنٹ بنائی جس میں ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ تک وہ پہنچے جو سرمایہ دار تھے۔ ایک بھی غریب یا عام بندہ نہیں تھا۔ دشمن کو تو صرف پاوں رکھنے کی جگہ چاھئے تھی۔ پھر اسی پارلیمنٹ نے عثمانی خلافت کا خاتمہ کیا اور یوں آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے ترک نادانوں نے ایک اسلامی قومی سلطنت کو 50 قومی مملکتوں میں تقسیم کروادیا۔ حکمرانی کا خواب دیکھ کر خلافت کے خلاف اٹھے بے وقوفوں کو بعد میں پتہ چلا کہ ان کے ہاتھ تو آیا ہی کچھ نہیں ۔ جیسے وہ پہلے محکوم تھے اب بھی محکوم ہیں۔ بلکہ پہلے اسلامی شعائر میں بھی آزاد تھے۔ اب تو کمال اتاترک نے نماز قرآن پر بھی پابندی لگادی۔ مگر اب وقت نکل چکا تھا۔ پچھتاوا کرتا بھی تو کیا۔ ہندوستان میں بیٹھے قلندر نے آہ بھری اور بول اٹھا
قافلے دیکھ اور اُن کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہروِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو اُفُق پر ہم لُٹاتے تھے گُہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ
یہ مضمون ابھی جاری ہے
…………………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1