وفا کیش شاگردِ ضیاء الامتؒ
محمد ابوبکر صدیق
1/1/2021
…………………
حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ کے پہلے شاگردوں میں سے ایک استاذالعلما ء اور شیخ الادب العربي حضور ملک عطاء محمد صاحب زید مجدہ ۔
آپ دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں عربی ادب کے شیخ ہیں۔ آپ نے مختلف علوم صرف نحو بلاغت کے علاوہ دیگر اہم اسباق العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ البتہ اب صرف العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی مقامات الحريرى اور ریاض الصالحین پڑھاتے ہیں۔
آپ بہت ہی نرم خو اور شستہ لہجے کے مالک ہیں۔ بڑی اپنائیت سے گفتگو کرتے ہیں۔ موانست ایسی کہ اجنبی بھی خود کو ان سے پہلے سے آشنا سا محسوس کرتا ہے۔ بڑے ہی مشفق اور خوش گفتار ہیں۔ عربی ادب کی بدولت آپ کی حس مزاح خوب ہے۔
ہمیں آپ سے العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی اور مقامات الحريرى کے اسباق میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف ملا۔
تدریس ادب عربی میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ تدریس کے وقت آپ کے سامنے کتب کھلی نہیں رہتیں۔ کیونکہ آپ کو یہ کتب ازبر ہیں۔ العبرات جیسی ادق کتاب کے ہر لفظ پر مترادفات ازبر تھے۔ الفاظ کا صلہ بدلنے سے کیا معنی بنتا ہے تفصیل سے بتاتے ۔ نثر میں الفاظ کے استعمال کے لیے عربی اشعار پیش کرتے ۔ ہم کہا کرتے تھے استاد چلتی پھرتی “” لسان العرب “” ہیں۔
حماسہ متنبی پڑھاتے تو کمال سے مختلف شعرا کے ساتھ کلام کا موازنہ کرتے اور یہاں تک بتاتے کہ یہ ترکیب کس شاعر نے کہاں استعمال کی ہے۔ حتی کہ مختلف شعرا کے اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد کے کلام پر سیر حاصل گفتگو فرماتے۔ مقامات الحريري میں بھی یہی درک رکھتے ہیں۔
ان مخلصین امت کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ 2018 کی گرمیوں میں ایک بار میں راولا کوٹ کشمیر گیا۔ تو وہاں دار العلوم بھیرہ شریف کی برانچ میں حاضر ہوا ۔ تو آپ وہاں تشریف لائے ہوئے تھے اور اسباق پڑھا رہے تھے۔ میں نے عرض کی حضور دارالعلوم بھیرہ شریف میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور آپ آرام کرنے کی بجائے یہاں پڑھانے آگئے۔ تو مسکرا کر فرمایا “”” ہمارا آرام اب ان کتابوں کی تدریس میں ہے۔ تعطیلات کے دوران ادارے کے خالی کمرے کھانے کو آتے ہیں۔ میں جب تک اسباق نہ پڑھاوں سکون نہیں ملتا۔ بس یہاں اس برانچ میں چھٹیاں نہیں ہوتیں تو یہ مجھے یہاں لے آئے۔””
حضور ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ کیونکہ آپ کے اولین شاگردوں میں سب سے چھوٹے تھے جنہیں شفقت کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ آپ فرماتے ہیں میرے پاس صرف ایک بھینس تھی جس کا دودھ میرے گھر کے لئے کافی ہوتا تھا۔ ایک دن وہ مر گئی تو دل رنجیدہ ہوا۔ فرماتے ہیں اس وقت میرا گھر دار العلوم سے تھوڑا فاصلے پر تھا۔ رات کو دیر سے اچانک دروازے دستک ہوئی تو دیکھا حضور ضیاء الامت سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ” میں نے سوچا میرے ملک عطا کی بھینس تو مرگئ ہے پھر ملک عطا دودھ کیسے پئے گا۔ اس لئے میں اپنے ملک عطا کے لئے اپنے باڑے سے ایک بھینس لے آیا ہوں یہ لو اب یہ تمہاری ہے”۔ استاد صاحب فرماتے ہیں اس وقت حضور ضیاء الامت شرعی عدالت کے جسٹس تھے اور اس دن اسلام آباد تھے اور جب رات کو دیر سے واپس بھیرہ شریف گھر تلاش لائے اور انہیں میری بھینس کے مرنے کا پتا چلا تو پھر وہ اپنے باڑے گئے اور خادم سے کہا میرے باڑے میں سب سے بہترین بھینس کون سی ہے۔ خادم نے بتایا تو حضور ضیاء الامت خود بھینس کی رسی اپنے ہاتھ میں لئے بھیرہ کی گلیوں سے گزرتے تشریف لائے ۔ خادم و مرید عرض کرتے رہے حضور رسی ہمیں دے دیں ہم لے چلتے ہیں۔ لیکن آپ نہ مانے اور خود تشریف لے آئے۔ ۔۔۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد استاد محترم کی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا “” میرے کریم مرشد نے مجھ سے اتنی محبت کی کہ مجھے خرید لیا۔ ہے کوئی ایسا پیر جو لینے کی بجائے دیتا ہو۔ہے کوئی ایسا مہتمم جو اتنے بڑے منصب پر ہوکر بھی اپنے ادارے کے اساتذہ سے اس قدر محبت کرتا اور ان کی عزت کرتا ہو۔ یہ اخلاق و محبت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ مخلص بندے کا ہوتا ہے۔ انہی محبتوں سے پیر صاحب نے ہمیں خرید لیا تھا۔””
یہ ہیں وہ با کمال لوگ کہ جنہوں نے دین متین کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اور کر رہے ہیں۔
اللہ پاک استاد محترم کا سایہ ہم پر سلامت رکھے اور امت ان سے فیض یاب ہوتی رہے۔ آمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1