میڈیا اورففتھ جنریشن وار ۔ ہماری تدبیریں
November 10, 2021
5, Rabi-Ul-Sani, 1443AH
…………………………………….
محمد ابوبکر صدیق
……………………….
“عدم برداشت ’’ کوئی آسمانی بارش نہیں ہے کہ ایک دم سے ہوگئی۔ یہ ایک رویہ ہے جس کے پیچھے کچھ عناصر ہوتے ہیں‘‘۔مسلمانوں کے اندر بالعموم اور پاکستانیوں میں بالخصوص ” مخفی قوتیں” کئی دہائیوں سے ایسے عوامل پیدا کرنے میں بہت تیزی سے اور مستقل مزاجی سے اپنا کام کر رہی ہیں۔ ابھی تک کے سامنے آتے یا پیدا کیا جاتے معاشرتی حالات و رویے سے یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ سیاسی و مذہبی تشدد، سیاسی و مذہبی فرقہ وارانہ مباحث، مذہبی شعائر و مقدس ہستیوں کی بے حرمتی، سوشل میڈیا پر پرتشدد ویڈیوز کے ذریعے مسلمانوں کے غم و غصے کو بڑھاوا دینا، جیسے امور میں ایک دم سے اضافہ ایسے ہی نہیں ہورہا۔ کہیں نہ کہیں’’ اَن دیکھی ابلیسی قوت‘‘کار فرما ہے۔ جو ہمارے معاشرے میں نفرت کو بڑھانے کا کام کررہی ہے۔
میڈیا کے لئے خبر ہی صرف وہ ہے جو ” منفی” ہے۔ اگر منفی نہ ملے تو کیسے مثبت کو منفی دکھانا ہے یہ ان کی انجیبئرنگ ہے ۔ کیونکہ اصل مقاصد عوام میں بے چینی پیدا کئے رکھنا ہے۔ انہیں غصے کی کیفیت میں مبتلا رکھنا ہے۔ کیونکہ انہیں فنڈ دینے والے ” ان دیکھے ہاتھ” یہی تو چاھتے ہیں۔
اس میں بنیادی کردار “جمہوریت ” ادا کر رہی ہے۔ سامری فن رہنماوں نے ایک قوم کو کیسے ” تیتر بٹیر” میں تقسیم کردیا ۔ اللہ کی امان ۔۔۔ ایک خدا ایک نبی کے ماننے والے لیکن سیاسی سطح پر ایک دوسرے کے جانی دشمن۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ قوم ابھی تک بھیانک خواب سے نہیں نکل پارہی۔
اہل مذہب کے نمائندے بھی جمہوریت سے کچھ مختلف نہیں۔ یقینا یہ بھی اس ابلیسی نظام کی بے برکتی بھرے اثرات ہیں جن سے وہ طبقہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ جو عمائدین ہوش میں ہیں ان کی سنتا کوئی نہیں اور جو سرے سے قیادت کے اہل نہیں وہ عمائدین بنے ہوئے ہیں تو پھر ” نیَّا پار” لگے تو کیسے!۔
نظام حیات ہے تو کافرانہ ۔۔۔ سیاست الگ مذہب الگ ۔۔۔ سیاست کے گدھ ہیں تو مذہب بیزار ۔۔۔ اہل مذہب اٹھیں تو سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کی اصطلاح ۔۔۔۔ آج تک ان سیاست کے جماداروں نے قوم کو صوبائی کارڈ ، قومیت کارڈ ، مفادات کارڈ میں تقسیم کئے رکھا اور یہ ایسے مہلک کارڈ ہیں کہ جس سے قوم قوم نہیں رہتی۔ بلکہ اس نے قوم کو لسانی اور قومی عصبیت میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔ اور ی
ہی وہ ابلیسی رگ تھی جسے اسلام نے سب سے پہلے کاٹا تھا۔۔۔۔کسی عربی کو عجمی پر (حدیث) ۔۔۔۔۔۔ جب سے سیاست لادین ہوئی ہے ہم تباہی کی اتھاہ گہرائی میں مسلسل گرتے جارہے ہیں۔
“صاحب کردار اور صادق و امین ” کہاں سے لائیں ۔۔ اس لئے آو اور آئین کی یہ شق ہی نکال دو ۔۔۔ گویا “خود نہیں بدلتے قرآن بدل دیتے ہیں” ۔۔۔ روئے زمین کی اس سے بھی بڑی کوئی بدتر مخلوق ہوگی بھلا ! ۔قوم یعنی عوام کی ترجیحات بھی ان سے مختلف نہیں۔ ذہنی غلامی اور پست فکری سے یہ نکل نہیں سکے اور نکلتے بھی تو کیسے کہ جن رہنماوں نے انہیں بلند خیالی دکھانی تھی ان میں سے کوئی “ لندن کی مستیوں میں مگن رہا، تو کوئی آسٹریلیا کے جزیرے آباد کر رہا تھا، کسی کو یورپ میں بزنس ایمپائر کھڑی کرنے کا شوق دامن گیر تھا” ۔۔۔ جن کی اپنی آنکھیں ابلیسی حسن پر فریفتہ تھیں، وہ دوسروں کو پاک دامنی اور حسن کردار کا سبق کیسے پڑھا سکتے تھے۔ اس لئے عوام کو بھی انہوں نے اسی چڑیل کا دیا ہوا “ گولڈن سیب” ہی کھلا دیا تاکہ ان پر بھی سحر طاری رہے اور یہ بھی چڑیل کی ہر غلاظت کو ” حسن کے پیرائے ” میں دیکھتے رہیں۔
رہنما کا لازم فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے شعور و اخلاق کو اجاگر اور بلند کرنے کے لئے باقاعدہ پالیسی بنائے ۔۔ افسوس آج تک ایسا کوئی رہنما میسر ہی نہیں آیا جس کی ترجیحات میں ایسا خیال بھی آیا ہو، انہیں فکر رہی تو بس یہ میرے بعد میری اولاد کیسے قوم پر مسلط ہوگی ۔۔۔ بس ۔۔۔ بے وقوف عوام بھی اس کے لئے پہلے سے ہی تیار بیٹھی ہوتی ہے۔کیونکہ یہ اقتدار خدمت کے لئے نہیں بلکہ کمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ آخر انہوں نے بھی کھانا ہے۔ آج لاکھوں خرچ کریں ، ووٹ خریدیں ، رشوت دیں اور کل جب اقتدار میں آئیں تو کروڑوں میں کھائیں۔ سیاست کے گدھ اسے ” انوسٹمنٹ ” کہتے ہیں۔ اور یہ دنیا کی واحد انوسٹمنٹ ہے جو 100 فیصد نفع آور ہے ، مالی خسارے کا شائبہ تک نہیں۔ کیونکہ آپ اپوزیشن میں بھی ہونگے تو کمیٹی ڈلی ہوئی ہے اگلی بار سود سمیت نکلے گی۔اقتدار پر قابض رہے تو سب جدید تعلیم رکھنے والے جامعات کے پڑھے لکھے ۔۔۔ لیکن قوم کو ابھرنے مولوی نے نہیں دیا۔ یہ ہے ان کا کمال کا جملہ جسے آپ تلبیس ابلیس بھی کہہ سکتے ہیں۔
میں ہُوں نومِید تیرے ساقیانِ سامری فن سے
کہ بزمِ خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی!
نظام تعلیم ہے تو ابلیسی جو نصف صدی کے مستقل اطلاق کے بعد اب اپنی کوکھ سے ” الحاد کے فرزند ” پیدا کر رہا ہے۔ اس تعلیم نے سوائے حرص ، لالچ ، ہوس خواہ سیکس کی ہو، اقتدار کی ہو یا دولت کی ، خود غرضی، انانیت جیسے قبیح اوصاف پیدا کرنے کے کچھ اور نہیں کیا۔ یہ نئی تعلیم کے اثرات ہیں جو موجودہ نسل کو الحاد کی جانب دھکیل رہے ہین۔ بچپن سے لے کر کالج تک انہوں نے میڈیا و سوشل میڈیا اور تعلیم میں سوائے حرص ، دولت، پرتعیش مستقبل، بڑی نوکری، اچھا بزنس ، سیکس فری ماحول کا مغربی خواب ہی تو دیکھا ہے۔۔۔۔ اس طرز حیات کے بعد مولوی اسے زہر نہ لگے تو اور کیا لگے۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نُما
لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ
کسی سطح پر بھی اس ساری بے ترتیب اور غیر مہذب قوم کو سنبھالنے کے لئے کوئی پالیسی نہین۔ اور اس پر طرفہ “” میڈیا اور سوشل میڈیا ” کے ذریعے نئی نسل میں پیدا کی جانے والی ہوس پرستی، سیکس پروموشن ، سوشل میڈیا پر ” نامعلوم پیجز کی جانب سے فرقہ وارانہ مباحث ” ، نان سینس فتنے جیسے انجیبئر مرزا،۔ ایسے میں قوم جو پہلے ہی کئی ہجوموں کی شکل اختیار کر چکی ہے ، قوم بنے تو کیسے!۔ایسی قوم کہ جس کو ابھی اپنے اسلاف کے سبق سے روشناس تک نہیں کروایا گیا اسے کھلے بندوں مگرمغرب کے ابلیسی نظام کے آگے ڈال دیا جاتا ہے۔ جدید تعلیم کے ہم بھی قائل ہیں لیکن اس کے لئے پہلے اپنا سبق تو ازبر کروا دو۔
غارت گر ديں ہے يہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
جوہر ميں ہو ‘لاالہ’ تو کيا خوف
تعليم ہو گو فرنگيانہ
تعلیم کے نام پر فرنگ کی ساری تہذیبی گندگی اٹھا کر لے آئے ۔جس تعلیم نے ان کی نسلوں سے کردار کی پاکیزگی چھین لی اور جنہیں ان کے مذہب سے دور کردیا ۔ اس الحادی فکر کو امپورٹ کر کے ترقی کا کون سا تیر چلا لیا۔ اپنے ہاتھوں اپنی نسلیں برباد کر بیٹھے ۔ اپنی نئی نسل سے مستقبل کے مقاصد کا پوچھیں تو حرام ہے جو کسی کے مقصد میں اللہ ، رسول؛ ﷺ، آخرت کا تصور چھو کر بھی گزرتا ہو ۔ صرف اور صرف دولت کمانا، پرتعیش زندگی کا سامان کرنا یا شہرت کی ہوس جیسے عزائم ہی شمار کریں گے۔ اس تعلیم نے یہ کام کیا کہ آپ کی نسل سے بلند خیالی ، صائب فکری چھین لی ۔
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگینوں کی ر یزہ کاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ارباب علم و دانش! ایسے میں آپ کا فریضہ بڑھ جاتا ہے کہ آپ کی زبان ، آپ کی تحریر ، آپ کی نگاہ سب قوم کو قوم بنانے پر مرکوز رہے۔ خدا را اس بے ہوش اور مدہوش ہجوم کو سنبھالا دیں۔ دشمن نت نئے طرق واردات کے ساتھ ان پر حملہ آور ہے۔ اس بار اس کا ہتھیار ’’ عوام کا رویہ‘‘ ہے۔ جسے وہ آگ میں بدل کر آپ کا امن جلانا چاھتے ہیں۔ اپنی ملت اور اپنے ملک پاکستان کے مفاد میں قرآن کے حکم ’’ غصے کو پی جاتے ہیں‘‘ کے رویے کو اپنائیے۔ برداشت کو فروغ دی جئے۔ ” جتھا بندی ” کے کلچر کو اب الوداع کہئے۔ آپ پر امن نکلتے ہیں لیکن ’’مخفی ابلیسی ہاتھ‘‘ اپنا کام کر جاتے ہیں اور آپ پر’’ پُرتشدد ‘‘کا لیبل لگا جاتے ہیں ۔ خدا را اس پالسی کو ترک کی جئے اور’’ذہن سازی اور کردار سازی‘‘ کی جانب آئیے ۔ اپنے وسائل کو ایسے غلط طریقوں پر ضائع مت کی جئے ۔ اس میں ملک و ملت دونوں کا نقصان ہے۔ اگر اوپر کی سطح پر دین کے خلاف سازش ہوتی ہے تو اس کے سد باب کے لئے کوئی اور لائحہ عمل ترتیب دی جئے۔ اور ارباب اقتدار بھی ہوش کے ناخن لیں کہ ایسی زبان اور ایسے کرتوت نہ کریں کہ جس لوگوں میں عدم برداشت کا رحجان بڑھے۔
یوں سمجھئے کہ وصال نبویﷺ کے بعد سا سماں ہے اور فتنے پھوٹ پڑے ہیں اور ایسے میں ’’صدیقی قیادت‘‘ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ہم پر کرم فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم الامین
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1