فضائل کے بیان میں اہل سنت کے اسلاف کا شعار
محمد ابوبکر صدیق
19 -11- 2020
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطیب ہو یا نعت خوان فی زمانہ زبانیں غیر محتاط ہوچکی ہیں۔ ایسی کہ الامان و الحفیظ۔ ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ ’’ معراج شریف کی کسی محفل میں کسی خطیب نے خطاب میں کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تشریف لے گئے‘‘۔ تو وہاں اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ بھی موجود تھے تو آپ سے رہا نہ گیا اور فورا ٹوکتے ہوئے فرمایا ’’ خطیب صاحب رب کی بارگاہ میں اس کا بندہ حاضر ہوا کرتا ہے۔‘‘ یعنی فضائل کے تذکروں میں الفاظ کے چناو میں مراتب کا لحاظ لازمی ہوتا ہے۔
خالق کائنات کی ایسی تعریف کرنا کہ ’’ جس سے اس کے انبیاء کی شان میں تنقیص ہوتی ہو ‘‘ نامناسب ہے۔ جیسے یہ کہنا ’’ اللہ کو کسی نبی یا و لی کی ضرورت نہیں۔‘‘ نامناسب ہے۔ کیا اللہ تعالی نے کہیں پر بھی اپنی تعریف ایسے الفاظ میں بیان کی ؟؟؟ اگرچہ وہ غنی ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن اس کی غنی کو ایسے انداز میں بیان کرنا کہ جس سےرب کے پیارے انبیاء و اولیاء کی شان میں تنقیص آتی ہو نامناسب ہے۔ اس کی غنی کا بیان کئی اور مناسب طریقوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح خالق کا مخلوق سے تقابل کرنا یا اس کا شائبہ تک ذہن میں لانا حرام و ناجائز ہے۔ قطرے کا سمندر سے موازنہ و تقابل کیا جاسکتا ہے کیونکہ قطرے کو سمندر سے کوئی نہ کوئی نسبت ضرور ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ لیکن اہل سنت تو خالق کی جانب مخلوق کی یہ نسبت بھی نہیں مانتے کیونکہ مخلوق کا کوئی فرد بھی خالق کا جز نہیں ہے وہ لم یلد ولم یولد ہے۔ وہ ایسے تمام تصورات سے سبحان ہے۔
اگر کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کررہا ہو تو اس فضیلت کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام فضیلتیں دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں ہیں۔ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان ہورہے ہوں اور کسی شخص کو یہ شائبہ لاحق ہو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا سے ملانے کا شبہ ہے۔ تو ایسے شخص کو اپنے ذہن اور نفاق سے بھرے دل کا علاج کروانا چاھئے۔ کیونکہ جب اللہ و رسول کے تقابل کا شائبہ تک گناہ ہے تو اس کا ذہن تقابل کی جانب گیا ہی کیوں!
اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تعریف کرنا کہ جس سے دیگر انبیائے کرام کی تنقیص ہوتی ہو تو ایسی تعریف قلب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ یہی اصول اولیائے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء کے فضائل پر بھی ہے۔ اسی طرح آج کسی مسلمان کا یہ کہنا کہ ’’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عبد القادر جیلانیؒ کی کیا اوقات ہے ‘‘ انتہائی نامناسب اور نازیبا حرکت ہے۔ کیونکہ یہ تقابل ایسا قول کرنے والا کے قلب و ذہن کے فساد کی پیداوار ہے، ورنہ کوئی امتی بھی ایسا تقابل نہیں کرتا۔
یہ ’’ اوقات‘‘ کا لفظ ایک منفی تاثر کا لفظ ہے جو اونچی شانوں والے اسلاف کی شان کے خلاف ہے۔ تقابل کا یہ فساد و فتور تو تمہارے اپنے دماغ کا پیدا کردہ ہے اور اس کا سارا الزام تم اسلاف پر دھر دیتے ہو۔ تم سے بڑھ کر بھی کوئی بے وقوف ہوگا بھلا! ایسے الفاظ تم اونچی شان والوں کے لئے استعمال کرو یہ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اہل سنت میں حفظ مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور یہ اہل سنت کا شعار ہے۔ الفاظ کا چناو حد درجہ محتاط ہونا چاھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1