اسلام میں جانوروں کی اہمیت اور ان کے حقوق
محمد ابوبکر صدیق
…………………………..
اسلام کےمعتدل مذہب ہونے کی بنیادی وجہ اُس کا آفاقی مذہب ہوناہے جیسے اللہ جل مجدہ فرماتا ہے؛
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا[السجدة : ۴ ]
(اللہ جل مجدہ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے (سب) پیدا کیا)
یہ آفاقی اعلان اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیتا ہے کہ حقیقی خالق کون ہے!یہ ایک فطری امر ہے کہ جس نے کوئی چیز خود بنائی ہو تو اسے اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح اللہ جل مجدہ کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہےجیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشادفرمایا؛
الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللَّهِ مَنْ أَحْسَنَ إِلَى عِيَالِهِ (1)
ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا گھرانا ہے۔ پس مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سےپیارا وہ ہے، جو اس کے گھرانے سے اچھا سلوک کرے۔
اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہےجس میں زندگی گزارنے کے آداب سے لے کر مختلف سطحوں تک کے حقوق سے متعلق بڑی باریک بینی سے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔اسلام جہاں انسان کو انسانی حقوق سے آگاہی فراہم کرتا ہے تو وہیں اُسے دوسری مخلوق کے حقوق کی تفصیل بھی دیتا ہے تاکہ روئے زمین پر انسانی قیام کوپر امن رکھا جاسکے۔دیگر مخلوقات کی طرح اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔ شریعت محمدیہ نے چو پایوں، مویشیوں، پرندوں غرض ہر قسم کے جانوروں کے حقوق بیان کیے ہیں۔
نزول قرآن سے قبل اہل عرب کی شقاوت قلبی کی ان گنت داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں ، جن میں سے بعض کاتعلق حیوانات سے ہے۔عرب میں ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ جانورکوکسی چیزسے باندھ کراس پرنشانہ لگاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جانوروں کے گوشت کوناجائزقرادیااورعام حکم دیاکہ کسی ذی روح چیزکواس طرح نشانہ نہ بنایا جائے۔(2) وہ زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ لیتے اور پھر اسے بھون کر کھاجاتے تھے۔ ’’حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) وہاں کے لوگ زندہ اُونٹوں کی کوہان اور زندہ دُنبوں کی چکیاں کاٹتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: زندہ جانور سے جو حصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے۔(3) اس روایت سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام سے قبل اہل عرب کس قدر سنگ دل ہوا کرتے تھے۔
اہل عرب جانوروں کو اندھا دھند قتل کرنے کو عار نہیں سمجھتے تھے۔دو لوگ شرط لگاتے کہ وہ باری باری اپنا اونٹ ذبح کریں گے جو اونٹ ذبح کرنے سے رک جائے گا وہ شرط ہار جائے گا اور پھر وہی مذبوحہ اونٹ دعوتوں میں اڑادیے جاتے اور ایسے واقعات کا ذکر اہل عرب کی زمانہ جہالت کی شاعری میں کثرت سے ملتا ہے۔المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام(11:133) میں ہے کہ ایک دستوریہ بھی تھاکہ جب کوئی مرجاتاتواس کی سواری کے جانورکواس کی قبرپرباندھتے تھے اوراس کودانہ، گھاس اورپانی نہیں دیتے تھے، اوروہ اسی حالت میں سوکھ کرمرجاتا، ایسے جانورکوبلیہ کہتے تھے۔ جس اسلامی دستورکےنزول کی ابتدا غار حرا پر ہوئی تھی اسی دستور کے ذریعے ایسی سنگ دلی کو مٹادیا گیا اور امن، محبت ، اور رحم دلی کے جذبات کوعملاً فروغ دیا گیا۔
قرآن مجید میں جانوروں سے متعلق اہم معلومات
قرآن مجید کی کم و بیش دو سو آیات مبارکہ میں جانوروں کے حقوق اور فوائد اور ان سے متعلق حلال و حرام کے شرعی احکام کا تذکرہ ملتا ہے۔ کہیں جانوروں کے نام ذکر کیےگئے ہیں تو کہیں مطلق جنس کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا پنتیس (۳۵) جانوروں کا ناموں کا ذکر ملتا ہےجن میں پرند، چرند، حشرات اور جنگلی و پالتو جانور شامل ہیں ۔ پرندوں میں سلوی : بٹیر ، ھدھد : ہد ہد ، غراب : کوا، اور ابابیل ۔آبی مخلوق میں نون و حوت : مچھلی، وہیل، ضفادع : مینڈک ۔جن حشرات کا نام قراان مجید میں آیا ہے ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔
آیت | سورۃ | اردو نام | قرآنی نام | شمار |
6 | البقرہ | مچھر | بعوض | 1 |
73 | الحج | مکھی | ذباب | 2 |
68 | نحل | شہد کی مکھی | نحل | 3 |
41 | عنکبوت | مکڑی | عنکبوت | 4 |
133 | اعراف | ٹڈی | جراد | 5 |
18 | نمل | چیونٹی | نمل | 6 |
4 | قارعہ | تتلی | فراش | 7 |
133 | اعراف | جوں | قمل | 8 |
107 | اعراف | اژدہا | ثعبان | 9 |
اسی طرح جن پالتو جانوروں کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔
حلت و حرمت | آیت | سورۃ | اردو نام | قرآنی نام | شمار |
حرام | 8 | نحل | خچر | بغال | 1 |
حلال | 143، 146 | انعام | بکرا و بھیٹر | غنم، نعجہ، ضان و معز | 2 |
حلال | 65، 40 | یوسف، اعراف | اونٹ | بعیر، جمل | 3 |
حلال | 70 | بقرہ | گائے | بقرہ | 4 |
حلال | 29 | ہود | گوسالہ۔ بچھڑا | عجل | 5 |
حرام | 259، 8 | بقرہ، نحل | گدھا | حمار، حمیر | 6 |
حرام | 176 | اعراف | کتا | کلب |
7 |
اسی طرح وہ جنگلی جانور جن کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔
حلت و حرمت | آیت | سورۃ | اردو نام | قرآنی نام | شمار |
حرام | 51 | مدثر | شیر | قسورہ | 1 |
نجس العین | 173 | بقرہ | سور | خنزیر | 2 |
حرام | 1 | فیل | ہاتھی | فیل | 3 |
حرام | 65 | بقرہ | بندر | قردہ | 4 |
قرآن مجید کی بعض سورتوں کے نام بھی جانوروں کے نام پر ہیں جیسے سورہ بقرہ : گائے, سورہ فیل : ہاتھی سورہ, نحل : شہد کی مکھی, سورہ عنکبوت : مکڑی اور سورہ نمل : چیونٹی۔
جانوروں کے حقوق
قیامت کے روز اللہ جل مجدہ انصاف فرمائے گا حتیٰ کہ جانوروں کو بھی ان کا حق ادا کیا جائے گا ۔ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حقوق وصول کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ امام احمد کی روایت میں ہے: ’’جس نے اُسے سینگ مارا تھا۔ (4)‘‘
جانوروں کے ساتھ حسن سلو ک کا حکم
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
(5)«مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ
جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھا ئے گا تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔
یعنی انسان جو فصل کاشت کرتا ہے اور اس سے جو جاندار بھی مستفید ہوتا ہے حتی کہ فصل کا مالک اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ کتنے اور کون کون سے جاندار اس کی کھیتی سے مستفید ہوئے لیکن اسے اس عمل پر صدقے کا اجر ملتاہے۔ تو جو انسان جانوروں کو پالتا ہے اور ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے تو اس کا اجر کتنا ہوگا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کریم نے بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت بے کراں سے مالا مال فرمایا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر اجر وثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔حضرت سراقہ بن جعشم ؓ کہتے ہیں؛
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ تَغْشَى حِيَاضِي، قَدْ لُطْتُهَا لِإِبِلِي، فَهَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ إِنْ سَقَيْتُهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ (6)
میں نے حضور نبی رحمت ﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ ﷺ میں نے بطور خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے۔ اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آ جاتے ہیں۔ اگر میں انہیں بھی سیراب کر دوں تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآ وسلم نے فرمایا : ”(ہاں ) ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے۔
اسی طرح مسلم شریف میں ہے؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا، فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ مَاءً، ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ حَتَّى رَقِيَ فَسَقَى الْكَلْبَ فَشَكَرَ اللهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنَّ لَنَا فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا؟ فَقَالَ: «فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ (7)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گذر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے ، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا،اور اس کی بخشش کر دی گئی۔ٍصحابہ کرامؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ کیا ان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک میں بھی اجر و ثواب ہے ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک میں اجر ہے۔
امام طبرانیؒ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛
مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِرَجُلٍ يَحْلَبُ شَاةً، فَقَالَ: أَي فُـلَانُ، إِذَا حَلَبْتَ فَأَبْقِ لِوَلِدِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ أَبَرِّ الدَّوَابِ (8)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دھو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لئے بھی چھوڑ دو یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔
فی زمانہ معاشرے میں یہ رویہ بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ دودھ فروخت کرنے والے زیادہ پیسوں کی لالچ میں گائے بھینس کے ساتھ بہت ہی ظالمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ دودھ نکالنے سے پہلے اس کا بھچڑا صرف اس کی نظروں کے سامنے اس کے قریب لاتے ہیں یا ایک منٹ تک ساتھ چھوڑتے ہیں تاکہ وہ وہ اپنا دودھ چھوڑے اور پھر اس بچھڑے کو زبردستی الگ کر لیتے ہیں اور اسے اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گائے بھینس کو ہارمونز کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں تاکہ اس کی کھیری میں دودھ کا ایک قطرہ تک باقی نہ رہے ۔ اس انجیکشن سے اس بے زبان جانور کو جس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ان شقی القلب دولت کے پجاریوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ پھر اسی انجیکشن کے مضر اثرات عوام الناس تک پہنچتے ہیں ۔ خاص طور پر حاملہ خواتین میں حمل کی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ بچہ جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا اسے بھی اس دنیا کے درندوں کے ظلم کے اثرات پہنچ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ اس دنیا میں آنے سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ جاتا ہے یا پھر اس دنیا میں کسی مرض میں مبتلا ہو کر داخل ہوتا ہے۔ خبر نہیں انسان کی یہ لالچ اور کیا کیا دن دکھائے گی! حضور نبی رحمت ﷺ کے مندرجہ بالا فرمان کی نظر میں اس رویے کو دیکھا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ انسان لالچ میں درندگی کی سطح کس قدر گرجاتا ہے۔
جانور حضور نبی رحمت ﷺ کو پہچانتے تھے کہ یہی ان کے درد کا درماں ہے یہی وہ پیکر لطف و عنایت ہے جو ان کے لیے امان بن کر تشریف لایا ہےچنانچہ سنن ابو داود شریف میں حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے مروی ہے؛
فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اﷲَ فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اﷲُ إِيَهَا، فَإِنَّه شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ(9)
.
’’حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔
جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور ایذا رسانی کی ممانعت
اسلام نے جانوروں کو بھی چین سے جینے کا حق دیا ہےاور انہیں اذیت دینے سے منع کیا ہے ۔ حضرت ہشام بن زیاد کا بیان ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے چند لڑکوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اُس پر تیر چلا رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (10)کیونکہ ایک جاندار کو باندھ کر صرف نشانہ بازی کی غرض سے اسے مارنا کوئی انصاف نہیں ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی جاندار کو (تیر اندازی کے لئے) ہدف مت بناؤ۔(11) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا کہ آپ کا گزر چند لڑکوں یا آدمیوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے دریافت فرمایا: یہ کام کس نے کیا ہے؟ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس پر لعنت فرمائی ہے جو ایسا کام کرے۔(12) امام سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا قریش کے چند جوانوں پر گذر ہوا جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے اور اُنہوں نے پرندے والے سے یہ طے کر لیا تھا کہ جس کا تیر نشانہ پر نہیں لگے گا وہ اُس کو کچھ دے گا، جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو اِدھر اُدھر ہو گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: یہ کام کس نے کیا جو شخص اِس طرح کرے اُس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے، جو شخص کسی جاندار کو ہدف بنائے بلاشبہ اُس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لعنت کی ہے۔(13)
جانوروں کو زندہ جلانے کی ممانعت
حضور نبی اکرم ﷺ نے جانوروں کو جلا کر عذاب دینے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ سنن ابوداود شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں؛
كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِى سَفَرٍفَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرُشُ فَجَاءَ النَّبِىُّ ﷺ فَقَالَ مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ قُلْنَا نَحْنُ. قَالَ إِنَّهُ لاَ يَنْبَغِى أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ(14)
ایک سفرمیں ہم رسول اللہﷺکے ساتھ تھے۔ آپﷺ اپنی حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے دوبچے بھی تھے۔ ہم نے ان بچوں کوپکڑ لیا، تو وہ فرط غم سے ان کے گرد منڈلانے لگا۔ اتنے میں نبی کریمﷺ تشریف لائے توآپ نے فرمایا :اس پرندے سے اس کے بچوں کو چھین کر کس نے اسے رنج پہنچایا ؟ اس کے بچوں کو لوٹادو،اس کے بچوں کو لوٹادو۔اور وہیں آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا جھنڈ دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔آپ ﷺ نے پوچھا اسے کس نے جلایا تو ہم نے عرض کی کہ ہم نے جلایا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: آگ کے مالک (رب) کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آگ کا عذاب دے۔
چیونٹیوں کے بل کو جلانے سے متعلق امام بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک متفق علیہ روایت نقل کی ہے؛
قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ، فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ(15)
” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ( اللہ کے جو ) انبیاء ( پہلے گزر چکے ہیں) ان میں سے کسی نبی ( کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا )، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے ، چنانچہ بل کو جلا دیا گیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح کرتی ہے۔
امام قرطبی ؒ اس واقعے کا پس منظر یوں بیان کرتے ہیں؛
قال علماؤنا : يقال إن هذا النبي هو موسى عليه السلام ، وإنه قال : يا رب تعذب أهل قرية بمعاصيهم وفيهم الطائع. فكأنه أحب أن يريه ذلك من عنده ، فسلط عليه الحر حتى التجأ إلى شجرة مستروحا إلى ظلها ، وعندها قرية النمل ، فغلبه النوم ، فلما وجد لذة النوم لدغته النملة فأضجرته ، فدلكهن بقدمه فأهلكهن ، وأحرق تلك الشجرة التي عندها مساكنهم ، فأراه الله العبرة في ذلك آية : لما لدغتك نملة فكيف أصبت الباقين بعقوبتها! يريد أن ينبهه أن العقوبة من الله تعالى تعم فتصير رحمة على المطيع وطهارة وبركة ، وشرا ونقمة على العاصي (16)
ہمارے علما کہتے ہیں کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نبی حضرت موسی علیہ السلام تھے(تاہم یہ بات یقینی نہیں ہے ممکن ہے کہ وہ کوئی اور نبی ہوں )۔ایک دفعہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ ( پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہو جاتی ہے ، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ ان تعلیم کے لیے کوئی مثال قائم کرے ۔ چنانچہ اللہ جل مجدہ نے(ایک سفر کے دوران)اُن پر سخت ترین گرمی مسلط کر دی ۔یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے ، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹا اور انہیں جگا دیا۔اور اس درخت کو جلوادیا جس کے نیچے چینوٹیوں کا بل تھا۔اس واقعے میں اللہ تعالی نے انہیں حقیقت دکھلادی کہ جب انہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تو پھر سزا باقیوں کو دی ! اس سے انہیں یہ بات سمجھ آگئی کہ اللہ تعالی کی جانب سے سزا و عذاب عمومی نوعیت کا آتا ہے جو مطیع و فرمانبردار کے لیے پاکیزگی و بخشش کا سبب بنتا ہے اور نافرمانوں کے لیے سزاشمارہوتا ہے۔
عقیدے کی اصلاح : فتنہ انکار سنت اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایک نبی سے چیونٹیوں کو جلانے جیسے ظالمانہ فعل کی نسبت عقل کے خلاف ہے لہذا اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ حدیثیں درست نہیں ہیں۔اس اعتراض کاجواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔ پہلا اس طرح کہ اللہ تعالی نے اس واقعے کی نسبت اپنے نبی علیہ السلام کی جانب نہیں بلکہ اپنی طرف کی ہے کہ اس واقعے سے اُس نبی علیہ السلام کی تعلیم کے لیے ایک مثال قائم کرنا مقصود تھا۔ اصول یہ ہے کہ اللہ تعالی جس کام کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے وہ عین حق ہوتا ہےاور مبنی بر عدل ہوتا ہے خواہ وہ ہماری عقل کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا یہاں بظاہر جلانے کا فعل ایک نبی علیہ السلام کی طرف ہے لیکن حقیقت میں یہ کام من جانب اللہ ان سے سرزد کروایا گیا۔لہذا یہ عقیدہ قائم رہتا ہے کہ انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں۔
دوسرا جواب امام قرطبی ؒ کی اس عبارت میں موجود ہے؛
إن هذا النبي كانت العقوبة للحيوان بالتحريق جائزة في شرعه ؛ فلذلك إنما عاتبه الله تعالى في إحراق الكثير من النمل لا في أصل الإحراق(17)
حیوانات کو جلانے کی سزا دینا اُس نبی علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے انہیں جلانے کے فعل پر عتاب نہیں کیا بلکہ زیادہ چیونٹیوں کو جلانے پر عتاب فرمایا۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیائے علیھم السلام معصوم ہوتے ہیں اور وہ شریعت کی جائز امور سے سرِمو انحراف نہیں کرتے۔
امام قرطبی ؒ کہتے ہیں جو جانور اذیت دے اسے مارنا جائز ہے۔ بلکہ موذی جانور کو اس خوف سے کہ کہیں وہ اذیت نہ پہنچائے مارڈالنا جائز ہے (جیسے بچھو ، سانپ وغیرہ) ۔ (18)شریعت محمدیہ ﷺ میں جانداروں کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ جانداروں کو اذیت دینے پر وعیدیں بھی سنائی ہیں بلکہ حضور نبی کریم ﷺ نے بعض ظالمانہ افعال کرنے والوں پر لعنت بھی فرمائی ہے۔ امام بخاری ؒ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛
لَعَنَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ(19)
حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جانوروں کا مثلہ کرے (یعنی اُن کے ناک کان وغیرہ کاٹے)‘‘۔
امام احمد بن حنبل ؒ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی ذی روح کا مثلہ کیا اور پھر اِس گناہ سے توبہ نہ کی(اور اسی حال میں مرگیا) تو اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس کا مثلہ کرے گا۔(20) حضرت شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی چڑیا کو بلا وجہ مار ڈالا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور عرض کرے گی : اے اللہ! فلاںشخص نے مجھے بلا وجہ بغیر کسی فائدہ کے قتل کیا۔(21) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنھما راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے چڑیا یا اُس سے بھی چھوٹا جانور ناحق قتل کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اُس کے متعلق بھی پوچھے گا (تو نے یہ جان ناحق کیوں لی)۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ وہ اُسے ذبح کرے اور کھائے اور (بلا ضرورت صرف شوقِ شکار میں) اُس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔‘‘(22)
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ(23)
رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔
اما م نسائی ؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
رأيت فيها امرأة من حميرتعذب في هرة ربطتها فلم تدعها تأكل من خشاش الأرض فلا هي اطعمتها ولا هي أسقتها حتى ماتت ولقد رأيتها تنهشها إذا أقبلت وإذا ولت تنهش(24)
میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی او رجب وہ پشت کرتی تھی تو وہ بلی اس کی پشت کو نوچتی تھی۔
حضرت عبدالرحمن بن عثمان ؓ سے مروی ہے؛
ذَكَرَ طَبِيبٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَوَاءً يُجْعَلُ فِيهِ الضِّفْدَعُ، «فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الضِّفْدَعِ(25)
ایک طبیب نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دوا کا ذکر کیا جس کی تیاری میں مینڈک (کی چربی) استعمال ہوتی ہے، تو حضور نبی کریم ﷺ نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حرام چیزوں سے علاج کرنا جائز ہے؟ اس بات پر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ حرام اشیا سے علاج کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم احناف فقہا کہتے ہیں کہ اگر تحقیق سے یہ بات یقینی ہوجائے کہ علاج اسی حرام کردہ چیز میں ہے تو پھر جائز ہے۔ اس ساری بحث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر وہ فعل جو جانوروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو ناجائز ہے۔حلال جانوروں کے ذبح کرنے میں بھی تکلیف کو کم سے کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
چنانچہ حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں؛
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَه فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَه(26).
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دو باتیں یاد رکھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، سو جب تم کسی شے کا شکار کرو تو اُسے احسن طریقہ سے شکار کرو اور جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔‘‘
امام طبرانی ؒ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛
مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی رَجُلٍ وَاضِعٍ رِجْلَه عَلٰی صَفْحَةِ شَاةٍ، وَهُوَ يَحُدُّ شَفْرَتَه، وَهِيَ تَلْحَظُ إِلَيْهِ بِبَصَرِهَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : أَفَـلَا قَبْلَ هٰذَا؟ أَوْ تُرِيْدُ أَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَتَيْنِ (27)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی ٹانگ بھیڑ کی گردن پر رکھے چھری تیز کر رہا تھا، وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ کام پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ (یعنی چھری اس سے پہلے تیز کر لینی چاہئے تھی)، کیا تم اُسے دو موتیں مارنا چاہتے ہو۔
اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے ذبح کرنے سے قبل چھریوں کو تیز کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چھریوں کو تیز کرنے اور جانور سے اُنہیں چھپانے کا حکم دیا ہے اور مزید فرمایا: جب تم میں سے کوئی (جانور) ذبح کرے تو تیزی سے ذبح کرے۔(28) جانوروں پر یہ رحم انسان کو اللہ کے رحم کا مستحق کردیتا ہے۔ چنانچہ حضرت قرہ بن ایاس ؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے۔ آپ ﷺفرمایا: اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا۔(29) امام طبرانی نے حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے (کسی چیز پر) رحم کیا خواہ چڑیا کے ذبیحہ پر ہی کیوں نہ ہو اﷲ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر رحم کرے گا۔(30)
جانوروں کو چہرے پر داغنے کی ممانعت
حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں؛
نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الضَّرْبِ فِي الْوَجْهِ، وَعَنِ الْوَسْمِ فِي الْوَجْهِ(31)
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔
ایک روایت میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے؛
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ عَلَيْهِ حِمَارٌ قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ: «لَعَنَ اللهُ الَّذِي وَسَمَهُ (32)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا ، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ ﷺنے اس کو دیکھ کر فرمایا :اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔
مسلم شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے؛
رَأَی رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ حِمَارًا مَوْسُوْمَ الْوَجْهِ، فَأَنْکَرَ ذَالِکَ، قَالَ: فَوَاﷲِ، لَا أَسِمُه إِلَّا فِي أَقْصٰی شَيئٍ مِنَ الْوَجْهِ، فَأَمَرَ بِحِمَارٍ لَه فَکُوِيَ فِي جَاعِرَتَيْهِ فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ کَوَی الْجَاعِرَتَيْنِ (33)
حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اِس عمل کو ناپسند فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں (جانور کے) صرف اُس عضو کو داغتا ہوں جو چہرے سے بہت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے گدھے کو داغنے کا حکم دیا، سو اُس کی سرین کو داغا گیا، اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہی (جانور کی) سرین کو داغا تھا۔
جانوروں پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادیں
جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیاد ہ بوجھ لادنا جائز نہیں،اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے: صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات کا علم تھا کہ جو شخص جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیادہ بوجھ لادے گا تو اس کو روز ِ قیامت حساب کتاب دینا ہوگا ، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے اونٹ سے کہا : اے اونٹ تم اپنے رب کے یہاں میرے سلسلہ میں مخاصمہ نہ کرنا ، میں نے تم پر تمہاری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں لادا ۔(34) ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پرسکون ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو“۔(35)
حضرت سہل ابن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں؛
مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ًﷺ بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ فَقَالَ : « اتَّقُوا اللَّهَ فِى هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا وَكُلُوهَا صَالِحَةً(36)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور اور جب یہ تندرست نہ رہیں تو اِنہیں کھا لیا کرو۔
ابنِ ابی شیبہؒ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے تین لوگوں کو خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا : تم میں سے ایک شخص اتر جائے؛کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔(37) یہ اُس صورت میں ہے؛ جب کہ وہ جانور تین آدمیوں کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اگر استطاعت رکھتا ہوتو جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لیے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ)جانی مشقت ومحنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے؛ لہٰذا ان کو ایذا پہنچانا رَوا نہیں ہے۔جس جانور کی خلقت سواری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے وغیرہ تو ان کی سواری کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
- البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين، شعب الإيمان، (دار الكتب العلمية – بيروت1410)، 9: 523
- الترمذي، أبو عيسى، سنن الترمذي، (مطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر)، باب ما جاء في كراهية أكل المصبورة، 5: 411
- حواله سابق ، کتاب الصيد، باب ما قطع من الحي فهو ميت، 4: 74
- النيسابوري، مسلم بن الحجاج ، صحیح مسلم، (دار إحياء التراث العربي – بيروت)، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم،4: 1997
- البخاري، محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، (دار طوق النجاة الطبعة: الأولى، 1422هـ)، باب فضل الزرع والغرس إذا أكل منه، 3: 103
- ابن ماجة ،محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، (دار إحياء الكتب العربية)، باب فضل صدقة الماء، 2: 1215
- النيسابوري، صحیح مسلم، باب فضل ساقی البهائم، 4: 1761
- الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الاوسط،( دار الحرمين – القاهرة)، 1: 271
- أبو داود، سنن أبي داود ،کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علي الدواب والبهائم، 3 /23
- البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
- النيسابوري، ، صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3: 1549
- البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
- النيسابوري، ، صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3: 1550
- أبو داود، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، (دار الكتاب العربي ـ بيروت)، باب فى كراهية حرق العدو بالنار، 3: 8
- البخاري، صحيح البخاري، إذا حرق المشرك المسلم هل يحرق ، 4: 62
- القرطبي، محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن، (دار عالم الكتب، الرياض، المملكة العربية السعودية، 2000)، 13: 174
- حواله سابق
- حواله سابق
- البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
- أحمد بن حنبل ، المسند، (مؤسسة الرسالة،2001 م)، 9: 474
- ا لنسائي، أحمد بن شعيب، سنن نسائی، (مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب، 1986)، کتاب الضحايا، باب من قتل عصفورا بغير حقها، 7: 239
- حوالہ سابق، 7: 206
- البخاري، صحيح البخاري، باب خمس من الدواب فواسق يقتلن في الحرم، 4: 130
- النسائي، أحمد بن شعيب، السنن الكبرى، (مؤسسة الرسالة)، 1: 574
- ابوبكر بن أبي شيبة، مصنف ابن أبي شيبة، (دار الوطن،الرياض،1997م)، 5: 62
- الترمذي، سنن الترمذي، کتاب الديات، باب ما جاء في النهي عن المثلة، 4 /23
- الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الکبير،( مكتبة ابن تيمية – القاهرة)، 11: 332
- ابن ماجة ، سنن ابن ماجه، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 /1059
- أحمد بن حنبل ، المسند، 33: 472
- الطبراني، المعجم الکبير، 8 /234
- النيسابوري، صحیح مسلم، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه ووسمه فيه، 3: 1673
- حواله سابق
- حواله سابق
- امام غزالی ، احیاء علوم الدین، الباب الثالث فی الآداب، 1: 264
- أبو داود، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم ، 2: 27
- حواله سابق
- ابن ابی شبی، مصنف ابن ابی شبیة، من کرہ رکوب ثلالة عل الدابة، حدیث:26380
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1