Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
absiddique111 – Page 12 – Islamic Finance

سلطان کربلا کو ہمارا سلام

Loading

وبائی امراض، ہمارے اعمال اور سائنس

Loading

وفا کیش شاگردِ ضیاء الامتؒ

 وفا کیش شاگردِ ضیاء الامتؒ

محمد ابوبکر صدیق

1/1/2021

…………………

حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ کے پہلے شاگردوں میں سے ایک استاذالعلما ء اور شیخ الادب العربي حضور ملک عطاء محمد صاحب زید مجدہ ۔

آپ دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں عربی ادب کے شیخ ہیں۔ آپ نے مختلف علوم صرف نحو بلاغت کے علاوہ دیگر اہم اسباق العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ البتہ اب صرف العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی مقامات الحريرى اور ریاض الصالحین پڑھاتے ہیں۔

آپ بہت ہی نرم خو اور شستہ لہجے کے مالک ہیں۔ بڑی اپنائیت سے گفتگو کرتے ہیں۔ موانست ایسی کہ اجنبی بھی خود کو ان سے پہلے سے آشنا سا محسوس کرتا ہے۔ بڑے ہی مشفق اور خوش گفتار ہیں۔ عربی ادب کی بدولت آپ کی حس مزاح خوب ہے۔

ہمیں آپ سے العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی اور مقامات الحريرى کے اسباق میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف ملا۔

تدریس ادب عربی میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ تدریس کے وقت آپ کے سامنے کتب کھلی نہیں رہتیں۔ کیونکہ آپ کو یہ کتب ازبر ہیں۔ العبرات جیسی ادق کتاب کے ہر لفظ پر مترادفات ازبر تھے۔ الفاظ کا صلہ بدلنے سے کیا معنی بنتا ہے تفصیل سے بتاتے ۔ نثر میں الفاظ کے استعمال کے لیے عربی اشعار پیش کرتے ۔ ہم کہا کرتے تھے استاد چلتی پھرتی “” لسان العرب “” ہیں۔

حماسہ متنبی پڑھاتے تو کمال سے مختلف شعرا کے ساتھ کلام کا موازنہ کرتے اور یہاں تک بتاتے کہ یہ ترکیب کس شاعر نے کہاں استعمال کی ہے۔ حتی کہ مختلف شعرا کے اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد کے کلام پر سیر حاصل گفتگو فرماتے۔ مقامات الحريري میں بھی یہی درک رکھتے ہیں۔

ان مخلصین امت کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ 2018 کی گرمیوں میں ایک بار میں راولا کوٹ کشمیر گیا۔ تو وہاں دار العلوم بھیرہ شریف کی برانچ میں حاضر ہوا ۔ تو آپ وہاں تشریف لائے ہوئے تھے اور اسباق پڑھا رہے تھے۔ میں نے عرض کی حضور دارالعلوم بھیرہ شریف میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور آپ آرام کرنے کی بجائے یہاں پڑھانے آگئے۔ تو مسکرا کر فرمایا “”” ہمارا آرام اب ان کتابوں کی تدریس میں ہے۔ تعطیلات کے دوران ادارے کے خالی کمرے کھانے کو آتے ہیں۔ میں جب تک اسباق نہ پڑھاوں سکون نہیں ملتا۔ بس یہاں اس برانچ میں چھٹیاں نہیں ہوتیں تو یہ مجھے یہاں لے آئے۔””

حضور ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ کیونکہ آپ کے اولین شاگردوں میں سب سے چھوٹے تھے جنہیں شفقت کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ آپ فرماتے ہیں میرے پاس صرف ایک بھینس تھی جس کا دودھ میرے گھر کے لئے کافی ہوتا تھا۔ ایک دن وہ مر گئی تو دل رنجیدہ ہوا۔ فرماتے ہیں اس وقت میرا گھر دار العلوم سے تھوڑا فاصلے پر تھا۔ رات کو دیر سے اچانک دروازے دستک ہوئی تو دیکھا حضور ضیاء الامت سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ” میں نے سوچا میرے ملک عطا کی بھینس تو مرگئ ہے پھر ملک عطا دودھ کیسے پئے گا۔ اس لئے میں اپنے ملک عطا کے لئے اپنے باڑے سے ایک بھینس لے آیا ہوں یہ لو اب یہ تمہاری ہے”۔ استاد صاحب فرماتے ہیں اس وقت حضور ضیاء الامت شرعی عدالت کے جسٹس تھے اور اس دن اسلام آباد تھے اور جب رات کو دیر سے واپس بھیرہ شریف گھر تلاش لائے اور انہیں میری بھینس کے مرنے کا پتا چلا تو پھر وہ اپنے باڑے گئے اور خادم سے کہا میرے باڑے میں سب سے بہترین بھینس کون سی ہے۔ خادم نے بتایا تو حضور ضیاء الامت خود بھینس کی رسی اپنے ہاتھ میں لئے بھیرہ کی گلیوں سے گزرتے تشریف لائے ۔ خادم و مرید عرض کرتے رہے حضور رسی ہمیں دے دیں ہم لے چلتے ہیں۔ لیکن آپ نہ مانے اور خود تشریف لے آئے۔ ۔۔۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد استاد محترم کی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا “” میرے کریم مرشد نے مجھ سے اتنی محبت کی کہ مجھے خرید لیا۔ ہے کوئی ایسا پیر جو لینے کی بجائے دیتا ہو۔ہے کوئی ایسا مہتمم جو اتنے بڑے منصب پر ہوکر بھی اپنے ادارے کے اساتذہ سے اس قدر محبت کرتا اور ان کی عزت کرتا ہو۔ یہ اخلاق و محبت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ مخلص بندے کا ہوتا ہے۔ انہی محبتوں سے پیر صاحب نے ہمیں خرید لیا تھا۔””

یہ ہیں وہ با کمال لوگ کہ جنہوں نے دین متین کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اور کر رہے ہیں۔

اللہ پاک استاد محترم کا سایہ ہم پر سلامت رکھے اور امت ان سے فیض یاب ہوتی رہے۔ آمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

ایک جرات مند اور باوقار عالم

ایک جرات مند اور باوقار عالم دین

محمد ابوبکر صدیق

1/1/2021

…………………

اہل حق علما ءمیں سے انتہائی قابل لیکن  بہت ہی کم  علماء ایسےبھی ہوتے ہیں جو اس وجہ سے ایوان اقتدار کے پاس پاس رہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اگردیگر اہل حق کی طرح وہ بھی وہاں سے دوری اختیار کر لیں تو اہل اقتدارابلیسی قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جائیں گے اور مملکت خدادا میں احکامات الہی پامال ہونے لگ جائیں گے۔دینی شعار کے ناقدری معمول بن جائے گی۔اگر وہ کسی عہدے پر فائز ہوں تو وہ خود بخود اس عہدے سے الگ بھی نہیں ہوتے کہ کہیں ان کے بعد اس عہدے پر کوئی ناہنجار براجمان ہو کر احکامات الہی کی من مانی تعبیرات کرتے ہوئے اہل دنیا کی خوشنودی حاصل کرتا رہے۔ علمائے حق کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اہل اقتدار کے قریب رہ کر بھی کبھی اُن کی شان و شوکت سے مرعوب نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے دل میں ایک کی ناراضگی کا خوف ہوتا ہے۔ وہ بلا کسی لومۃ لائم اپنے فیصلے شرعی اصولوں کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ عہدے چھن جانے کے خوف سے وہ احکامات الہی سے ہٹ کر کوئی فیصلے نہیں کرتے ۔ بلکہ جب جب اور جہاں جہاں انہیں دیگر حکومتی ایوانوں میں احکامات الہی کی خلاف ورزی نظر آتی ہے تو وہ آوازہ بلند کرنے کا حق ادا کرتے ہیں۔


حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ شہید ہو گئے لیکن منصب خلافت سے دستبردار نہ ہوئے کیو نکہ انہیں حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ “عثمان اللہ آپ کو ایک قمیص عطا کرے گا اور لوگ کہیں گے وہ قمیص اتار دو تو آپ اسے نہ اتارنا”۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی منصب آپ کو آپ کی طلب کے بغیر ملے اور آپ اس عہدے پر رہتے ہوئے احکامات الہی کے مطابق فیصلے کریں اور لوگ اس بات سے خفاء ہو کر مطالبہ کریں کہ آپ خود اس عہدے سے دستبردار ہوجائیں تو آپ ایسا نہ کریں کیونکہ اہل ہوس و نفس اس عہدے پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں جو اس عہدے پر اہل دنیا کی خوشنودی کے لئے احکام الہی کو پیچھے چھوڑ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔


امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد امام ابو سلیمان داؤد ابن طائی ؒ اپنے ہم مکتب دوست قاضی امام ابویوسف ؒ سے خفا تھے اور ملاقات نہیں کرتے تھے ۔ ایک دن خلیفہ ہارون رشید نے امام ابویوسف ؒ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ داؤد ابن طائی ؒ سے ملاقات کرنا چاھتے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں داؤد ابن طائی ؒ کے گھر گئے ۔ ایک دروازے سے وہ داخل ہوئے تو داؤد ابن طائی ؒ دوسرے دروازے گھر سے نکل گئے۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام ابو یوسفؒ سے پوچھا کہ ان سے ملاقات کی صورت کیسے بن سکتی ہے؟ امام ابویوسف ؒ نے کہا کہ ان کی والدہ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ انہیں ہم سے ملاقات کا حکم دیں تو ہی وہ ہم سے ملیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ملاقات ہوئی تو خلیفہ نے کہا کچھ ضرورت ہو تو حکم کریں ۔ انہوں نے کہا ضرورت ہے لیکن آپ سے نہیں بلکہ اپنے رب کریم سے ہے۔ امام ابویوسف ؒ نے پوچھا کہ مجھ سے کیوں خفاء ہیں؟ تو امام داؤد ابن طائی ؒ نے فرمایا ہمارے استاذ امام اعظم نے تا زیانے کھا کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کرالیا مگر مسندِ قضا (چیف جسٹس کے عہدے) کو قبول نہ کیا اس لیے تمہیں بھی ان کی اتباع کرنی چاہیے تھی اور یہ منصب قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس پر امام ابویوسف ؒ نے جواب دیتے ہو فرمایا: داؤد اگر میں بھی یہ عہدہ قبول نہ کرتا اور اسے کسی اہل دنیا کے لئے خالی چھوڑ دیتا کہ وہ احکامات الہی کے خلاف فیصلے کرتے پھریں تو پھر مجھے بتاؤ میں اپنے رب کے حضور کیا جواب دیتا! اس جواب پر امام داؤد ابن طائی ؒ کو تشفی ہوئی اور وہ راضی ہوئے کہ اگر یہ نیت ہے تو پھر آپ نے درست کیا۔


شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک طاقتور قبیلہ تھا جس نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کر کے چند شرائط کے تحت اسلامی قلمرو میں شامل ہونا منظور کیا اور حضرت عمرؓ نے یہ شرائط منظور کر لیں۔عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور میں کسی سیاسی مصلحت کی خاطر اس معاہدہ کو منسوخ کرنا چاہا۔ ہارون الرشید کا خیال تھا کہ معاہدہ منسوخ کر کے بنو تغلب پر فوج کشی کی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مشورہ کے لیے حضرت امام محمدؒ کو بلایا اور خلوت میں ان کے سامنے اپنا ارادہ بیان کر کے ان سے مشاورت چاہی۔ امام محمدؒ نے فرمایا کہ چونکہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو امان دے رکھی ہے اس لیے ان کے خلاف فوج کشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس شرط پر بنو تغلب کو امان دی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بپتسمہ نہیں دیں گے یعنی انہیں عیسائی بنانے کی رسم ادا نہیں کریں گے جبکہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔ امام محمدؒ نے جواب دیا کہ بچوں کو بپتسمہ دینے کے باوجود حضرت عمرؓ نے اس معاہدہ کو برقرار رکھا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ کو بنو تغلب کے خلاف فوج کشی کا مناسب موقع نہیں ملا تھا اس لیے وہ ایسا نہ کر سکے۔ امام محمدؒ نے جواب میں فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے پاس موقع تھا لیکن انہوں نے معاہدہ کی پاسداری کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو غیر مشروط امان دی تھی اس لیے اس معاہدہ کو توڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امام محمدؒ کے اس جواب پر ہارون الرشید سخت ناراض ہوا اور انہیں اپنے سامنے سے اٹھ جانے کا حکم دیا۔ لیکن اس ناراضگی کے باوجود خلیفہ ہارون الرشید کو بنو تغلب کے ساتھ حضرت عمرؓ کے معاہدہ کو توڑنے اور ان کے خلاف فوج کشی کا حوصلہ نہیں ہوا۔


رؤیت ہلال کمیٹی کے چیرمین کا عہدہ دنیوی مال و دولت کے حوالے سے اگرچہ کوئی خاص عہدہ نہیں ہے۔(اگر کسی نے اس عہدے کی مراعات دیکھنی ہوں تو وہ یہاں کلک کر کے دیکھ سکتا ہے)۔ لیکن اسلامی نظام عبادات کے حوالے سے یہ ایک انتہائی اہم عہدہ ہے۔ جس سے اہل ہوس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ شرعی احکامات کی بجائے ان کی خواہشات کے مطابق چاند برامد کیا جائے ۔ ۱۹ سال تک یہ عہدہ مفتی اعظم پاکستان جناب عزت مآب مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس رہا ۔ اس عرصے میں دیسی لبرلز ، مختلف حکومتوں کے مختلف وزراء اور دیگر چنیدہ حلقے ان کے خلاف نبرد آزماء رہے ، صحافت کی دنیا میں ایک دو نام ان کے خلاف سفلی سطح تک گر کر بھی حملے کرتے رہے ۔لیکن مفتی صاحب پر عزم رہے اور باوقار انداز میں اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہے۔انہوں نے بارہا میڈیا پر آ کر کہا کہ حکومتی ایوانوں میں براجمان وزراء کو میرے عہدے سے متعلق مالی معلومات تک رسائی ہے اگر وہ چاہیں تو انہیں عوام تک لائیں اور دکھائیں کہ انہوں نے اس عہدے سے کیا کیا مالی مفادات حاصل کئے ہیں۔ حکومتی مخالفین ایسا اس لئے نہ کرسکے کہ وہ بھی بخوبی  علم رکھتے تھے کہ مفتی صاحب کا کردار صاف ہے۔مفتی صاحب  کے پیش نظر صرف اور صرف یہ بات تھی کہ اگر وہ یہ عہدہ چھوڑدیں گے تو پھر شاید علمائے حق کے ہاتھ سے یہ ایک واحد عہدہ جو علمائے حق کو ایوان اقتدار سے جوڑے رکھتا ہے اور جس کے ذریعے اہل اقتدار تک احکامات الہی کی صدائیں پہنچائی جاسکتی ہیں ، چھن جائے گا۔ اس لئے مطالبات کے باوجود انہوں نے یہ عہدہ نہ چھوڑا۔ لیکن میں یہاں کہوں گا کہ ہماری سیاست کا کوئی ایسا عہدہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر مخالفین کی جانب سے اسے چھوڑنے کا مطالبہ نہ کیا جاتا ہو۔ وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک بے شمار عہدے ہیں جن کے بارے میں روز یہ سننے کو ملتا ہے کہ استعفی ٰ دے دیں تو کیا وہ استعفیٰ دے دیتے ہیں! اسلام آباد میں مہینوں پر محیط تاریخی دھرنے بھی ہوئے کیا کسی نے استعفی دیا؟ جب لوگ دنیوی دولت اور شہرت کی لالچ میں اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو وہاں ایک صاحب کردار اور باوقار جید عالم دین احکامات الہی ، حدود الہی اور شرعی مقاصد کے تحفظ کے پیش نظر چند مخالفین کے مادی مفادات کو پورا کرنے کے لئے ایک ایسے عہدے کو کیوں چھوڑتا کہ جس سے کوئی مالی مفاد بھی وابستہ نہ تھا ۔


مفتی صاحب کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت ہے۔ میڈیا پر جہاں بڑے بڑے نام نہاد مفکرین ذرا سے اختلاف پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ وہاں مفتی صاحب کا متانت کے ساتھ شستہ لہجے میں باوقار انداز میں مخالف کو جواب دیناصرف انہی کا ہی خاصہ ہے۔ ان ۱۹ سالوں میں وہ حکومتی عہدے پر رہتے ہوئے بھی کئی مواقع پر مختلف حکومتوں کے وزراء سے نبرد آزما رہے اور ان کے خلاف صدائے حق بلند کی ۔جنہیں عہدوں  کے چھن جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہو یا عہدوں کی کوئی لالچ ہو تو وہ   یوں سود و زیاں کے چکر سے آزاد  رویے نہیں رکھتے ۔ مفتی صاحب نے جب جب اور جہاں جہاں مناسب سمجھا شرعی احکام کے تحفظ کے لئے بلا خوف و خطر میدان میں آئے ۔

 

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

 

ملک پاکستان کے عوام مفتی صاحب کی ان خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ہم مفتی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہدے پر رہتے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی خدمت بڑے احسن انداز میں کی اور ہمیں بروقت احکام الہی بجا لانے میں  ہماری رہنمائی فرمائی۔اللہ کریم اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل انہیں دنیا و آخرت میں عزتوں سے سرفراز کرے۔ مفتی صاحب واقعی ایک جرات مند اور باوقار عالم دین ہیں جس نے شرعی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔خلافت راشدہ سنبھالنے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے طرز خلافت کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے ابوبکر آپ نے اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایک امتحان چھوڑا ہے۔بالکل ایسے ہی مفتی صاحب نےبھی اپنے بعد اس عہدے پر آنے والوں کے لئے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ جسے پورا کرنا ان کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا ۔ تاہم ہماری ان کے لئے بھی یہ دعا ہےکہ وہ اس عہدے پر رہتے ہوئے شرعی اصولوں کی پاسداری کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

اشتراکی سُرخوں کی بائبل 

 اشتراکی سُرخوں کی بائبل 

Ten Commandments of Communism

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

…………………………………….

انہیں آپ  اشتراکی کوچہ گردوں کے 10 انقلابی نکات کہئے یا سرخوں کے آبا و اجداد کی بائبل ، ایک ہی بات ہے۔ 

 پس منظر

جرمنی کے شہر ڈسلڈورف میں مئی 1919 میں ،”کمیونسٹ قواعد برائے انقلاب ” کی خفیہ دستاویز دریافت کی گئی تھی۔ ’انھیں پہلی بار اسی سال 1919 میں‘ بارٹلس ویل (اوکلاہوما) کے ایگزیمنر-انٹرپرائز ’میں ریاستہائے متحدہ میں شائع کیا گیا تھا۔ آپ ذرا اس وقت کے سرخوں کے دس نکات ملاحظہ کی جئے اور آج کے لال بجھکڑوں یعنی ” اہل عورت مارچ ” کے انداز و اخلاق بھی دیکھیے کہ کتنی مطابقت پائی جاتی ہے۔ میں یہاں ان نکات کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ البتہ انگلش کے لئے لنک موجود ہے۔

کمیونسٹ قواعد برائے انقلاب

۔1۔ نوجوانوں کے اخلاق تباہ کردو۔ انہیں مذہب سے دور کر دو ، جنسیات کی شہوانی لذت میں مبتلا کردو، اور سطحی باتوں الجھانے کی ترغیب دو۔

۔2۔ نشر و اشاعت کے تمام ذرائع پر بتدریج قبضہ کرو۔

۔3۔ عوامی شعور کو کھیل کود میں محو کردو۔ ان میں جنسی شہوانی رغبت کے لئے فحش لٹریچر عام کرو۔ اور دیگر فضولیات میں مصروف رکھو۔

۔4۔ لوگوں کو فضول اور غیر اہم مباحث میں الجھا کر ان میں باہمی عداوت اور دشمنی پیدا کر کے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کرو اور علاقائی عصبیتوں کو ہوا دو۔

۔5۔ عوام کے حقیقی رہنماوں کو بدنام کردو ۔ ان کی تضحیک و تذلیل کرو ، ان پر الزامات ، بہتان و تنقید کرو تاکہ قومی قیادت پر ان کا اعتماد ختم ہو۔

۔6۔ ہمیشہ جمہوریت کا راگ الاپو لیکن جتنا جلدی ممکن ہو طاقت کے استعمال سے اقتدار حاصل کرو۔

۔7۔ فضول کاموں میں حکومتی اسراف پر حکومت کی حوصلہ افزائی کرتے رہو تاکہ وہ مالی طور پر تباہ ہوجائے۔ عوام میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور افراط زر کا خوف بھر دو ۔

۔8۔ بڑی انڈسٹریز میں نازک وقت میں بڑی بڑی ہڑتالیں کراو، بدامنی اور انتشار کے ایسے حالات پیدا کرو کہ حکومتیں ان کے سامنے بے بس ہو جائیں۔

۔9۔ لایعنی بحثوں کے ذریعے اخلاقیات کو بگاڑ دو، دیانت ، متانت ، ایمانداری اور اعتماد کے ماحول کو مکمل طور پر ختم کردو ۔

۔10۔ جائز اور ناجائز لائسنس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ہتھیار جمع کرنے کی کوشش کرو ۔ کسی نہ کسی بہانے مسلح رضا کار تیار کرو تاکہ کسی بھی وقت طاقت سے اقتدار حاصل کیا جاسکے اور عوام الناس مجبور اور بے بس ہو کر تابع ہوجائیں۔

 

تو یہ ہے جناب آج کل کے ” لال بجھکڑوں ” یعنی سُرخوں کی اساسی دستاویز جسے آپ اشتراکیت کی قرارداد مقاصد کہہ سکتے ہیں۔ ( عوام سے التجا ہے کہ ” سرخ ہوگا ، سرخ ہوگا ” کا نعرہ لگانے والوں کی جوتوں سے مار مار کے “سرخ “ کردیں پھر پوچھ لیں رنگ ٹھیک ہے یا اور شوخ کریں)۔ کیونکہ یہ جب آئیں گے تو روٹی کا نعرہ لگا کر روٹی چھین لیں گے،  کپڑے کا نعرہ لگا کر ننگا کریں گے،  مکان کا نعرہ لگا کر مکان چھین لیں گے۔ یقین نہ ہو تو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت دیکھ لی جئے۔ ان کی مقابل جماعت آتی تو سرمایہ داریت کو فروغ دیتی ۔ اس طرح مملکت خداد پاکستان اشتراکیت اور سرمایہ داریت کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ گیا۔ابلیس نے سرمایہ داریت متعارف کروایا توجہاں جہاں یہ ناکام ہوا تو وہاں اشتراکیت نے سر اٹھایا۔ ابلیس نے اسے بھی اپنا دست نگر بنالیا۔ دونوں نظام اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں  لیکن دونوں نظاموں کا نقطہ وحید سود ہے جس پر ان کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق کیوں نہ ہو کہ دونوں کی لگامیں ابلیس کے ہاتھ  میں جو ہیں۔ دونوں نظام اسلامی نظام کو زیر کرنے کے لئے ہی تو بنائے گئے۔ تھا۔

سرمایہ داریت اور اشتراکیت میں اختلاف کیا ہے؟

ان دونوں نظاموں کے اہداف میں عمومی طور پر کوئی فرق نہیں۔ یہ دونوں نظام ایک مقصد کے حصول کی جد و جہد کرتے ہیں البتہ اس مقصود کے حصول میں طریقہ کار میں فرق ہے۔ وہ مقصد واحد کیا ہے؟؟ انسان کی خواہشات کی تسکین وتکمیل زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ دونوں نظام باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک نظام سرمایہ دار انسان کی خواہشات پر زور دیتا ہے تو دوسرا مزدور کی خواہشات کا علم لے کر اٹھتا ہے۔ لیکن دونوں میں خدائی کا منصب انسانی خواہشات کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سرمایہ داریت کا حامل ہو یا اشتراکیت کا لیکن ان سب ممالک میں ہیومن رائٹس مشترک ہیں ۔ جس کی ایک مثال ہم جنس پرستی کا قانونی جواز ہے۔بقول اقبال ۔۔۔ ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا  تھا

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

 خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

 کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو                                                                                                                                                                                    

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے                                                                                                                                                                    

 مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے! ۔                                                                                                                                                                    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

نظام اور عقیدے کا باہمی تعلق

نظام اور عقیدے کا باہمی تعلق:  اسلام اورسرمایہ داریت

 

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتداء میں یہ دو باتیں ذہن نشین رہیں

۔1۔ اسلام ایک پورا الگ نظام حیات ہے اور کامل و اکمل ہے۔

 ۔ 2۔ کیپیٹل ازم ایک الگ نظام حیات ہے

ہم اس وقت تقریبا ساری دنیا کے مسلمان ایسے نظام پر ہیں جس میں اسلام کم اور کیپیٹل ازم زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے رویوں میں سرمایہ داریت کا رویہ زیادہ اور اسلامی رویہ بہت کم ہے۔ یوں کہئے ہمارے رویوں میں بھی سرمایہ داریت اور اسلام اسی تناسب میں ہیں جس تناسب سے یہ دونوں اس وقت مخلوط نظام میں ہیں۔ یاد رکھیں ۔۔۔ کسی بھی نظام کے دو پہلو ہوتے ہیں اور ان کا آپس میں انتہائی گہرا تعلق اور ایک دوسرے پر گہرا اثر ہوتا ہے

۔1۔عقیدہ : کسی بھی نظام کی یہ پہلی بنیاد ہے۔ اس میں یہ ذہن سازی ہوتی ہے۔ انسان کیا ہے ؟ کیوں یے؟ اسے کس نے پیدا کیا؟ کسی اور نے پیدا کیا یا انسان خود ہی خالق ہے؟ اس زمین و کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ وغیرہ

۔2۔ عمل: کسی بھی نظام کی یہ دوسری بنیاد ہے۔ اس میں قانون اور احکام ہوتے ہیں۔ حیات کیسے گزارنی ہے۔ فلاں کام کا قانون، طریقہ کیا ہوگا۔ فلاں کام کب ، کیسے کیا جائے گا وغیرہ

عقیدہ کیوں ضروری ہے ؟؟؟؟

نظام معاشروں کو منظم کرنے اور منظم رکھنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ تاکہ معاشرہ منظم رہے اور فساد کا شکار نہ ہو۔ انسان کے عقیدے کا اس کے عمل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکی زندگی کے 10 سال تک قرآن کا نزول صرف لوگوں کی عقائد کی درستگی پر اترتا رہا۔ نماز روزہ حج زکواة اور دیگر احکام شریعت وغیرہ کے عملی اقدامات مکی زندگی میں نہیں دئے جب تک کہ ان کے عقائد ٹھیک نہیں کردئے۔ کیونکہ عقیدے کے بغیر احکام پر عمل ممکن ہی نہیں تھا اور حکمت کے خلاف تھا۔ کسی حکم کی حقانیت کا عقیدہ ہی نہ ہو تو انسان وہ کیوں کرے گا اور اگر کرے گا تو کس بے دلی سے کرے گا یہ واضح۔

لہذا ہر نظام کے پیچھے کچھ ایسے بنیادی عقائد ہوتے ہیں جنہیں ان سے الگ کردیا جائے تو وہ نظام اپنی اصل پر باقی نہیں رہ سکتا۔ جیسے تصور توحید یا تصور ختم نبوت کے بغیر اسلام کا کوئی وجود نہیں۔ اسلام وہی ہے جو توحید، رسالت، ملائکہ، آسمانی کتب، حیات بعد الموت، آخرت اور اللہ کی تقدیر جیسے بنیادی کا عقائد کا مجموعہ ہے۔

کیا نظم اور امن کا یہ قیام از خود مقصود حیات ہے؟

اسلامی پیراڈائیم میں تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔ اسلامی تناظر میں یہ نظم اور امن در اصل انسانی تخلیق کے بنیادی مقصد کی تکمیل کا ذریعہ قرار پاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان آزادی اور اختیار سے اپنے کریم رب کی بندگی کرے اور اپنے معاشرے پر اللہ کے احکامات کا نفاذ کرے تاکہ مرنے کے بعد وہ اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوجائے ۔ اگر ناکام ہوا تو آخرت میں جوابدہی کا سامنا ہوگا۔ یہ آخرت میں جوابدہی کا عقیدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ انسانی رویوں اور اعمال پر اس کا بہت ہی گہرا اثر ہے۔
ایک انسان وہ ہے جس کا حیات بعد موت اور آخرت کا سرے سے ایمان ہی نہیں ہے۔ اس کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ بس یہی زندگی ہے جو کرنا ہے کر لو۔ تو سوچئے اس کا عمل کس حد تک اور کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔

ایک انسان وہ ہے جو اخروی زندگی پر یقین تو رکھتا ہے لیکن عقیدہ ہی یہ ہے کہ میرے سارے گناہ عیسی علیہ السلام اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے گئے۔ یا ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں اور جنت ہماری ہے۔ تو وہاں آخرت میں جوابدہی کی اہمیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس لئے اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے اعمال انتہائی مفسدانہ، ظالمانہ اور راہ اعتدال سے ہٹے ہونگے۔ کیونکہ اسے تو آخرت کا خوف ہی نہیں۔

جبکہ اسلامی پیراڈائم میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں جوابدہی کا خوف ہے حتی کہ اس کے ماننے والے عشرہ مبشرہ ہوکر بھی آخرت میں جوابدہی کا خیال آنے پر خوف سے بے ہوش جایا کرتے تھے۔ خلیفہ کو اسی احساس جوابدہی کی وجہ سے رات کو بستر پر سکون نہیں آتا تھا وہ رات کو اٹھ کر شہر میں گشت کرتا اور لوگوں کی حاجات کا پتہ لگاتا تھا۔
۔ جن کے بعد جاکر وہ عملی احکامات دیتا ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات بھی مہیا کرتا ہے۔
یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ عقیدہ کی کیا اہمیت ہے اور انسانی عمل پر اس کا کتنا گہرا اثر ہے۔اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ کیپیٹل ازم میں عقیدہ اور عمل کا کیا تصور ہے؟

کوئی بھی نظام خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے وضع کیا جاتا ہے۔ جیسے اسلام کا نظام اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ بالکل اسی طرح کیپیٹل ازم بھی کسی کا پیدا کردہ نظام ہے۔ یہ کہنا خام خیالی ہے کہ یہ ایک فطری نظام ہے۔ یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
کسی بھی معاشرے پر کسی بھی نظام کو نافذ کرنے سے پہلے اس معاشرے کو تیار کیا جاتا ہے ۔ ذہن سازی کی جاتی ہے۔ وہ ذہن سازی عقیدے کی ترویج کی صورت میں ہوتی ہے ۔ لوگ جب اس نظام کے موافق عقیدے کو قبول کرلیں گے تو نظام بھی نافذ ہوجائے گا۔ ورنہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اسلام میں سب سے پہلے عقائد پر توجہ دی گئی بعد میں نظام دیا گیا۔ کیپیٹل ازم بھی ایک نظام ہے۔ لیکن اس نظام کے نفاذ سے پہلے ذہن سازی ہوئی ہے۔ لوگوں کو فکری بنیادوں پر تیار کیا گیا۔ ان کے عقائد بدلے گئے نئے عقائد قبول کروائے گئے۔ اور یہ کام زبردستی نہین ہوا۔ بلکہ لگاتار تحریکی کوششوں سے ہوا۔

کیپیٹل ازم کی بنیاد کس نے رکھی ؟

کیپیٹل ازم ” مین میڈ سسٹم” ہے۔ جو ایک دن میں نہیں بنا، کسی ایک انسان نے نہیں بنایا، کسی ایک ملک میں نہیں بنا۔ بلکہ مختلف جغرافیے کے ہم خیال انسانوں نے ترتیب دیا وہ انسان جو پہلے کسی عقیدے پر متفق ہوئے اور یہ اتفاق ان کی تحریروں سے جھلکتا ہے۔ لہذا اس نظام کی بنیاد میں مغرب کے فلسفیوں اور مفکروں کی تحریریں اور تبلیغ ہے۔
کیپیٹل ازم کے بنیادی عقائد کی ترویج کے تین زمانے ہیں پہلا زمانہ : پندرہویں اور سولویں صدی۔  دوسرا زمانہ:  سترہویں اور اٹھارویں صدی۔ تیسرا زمانہ : انیسویں صدی

پہلا زمانہ
پندرہویں اور سولہویں صدی کے مغربی مفکرین نے باقاعدہ طور پر مذہب کے خلاف لکھنے، بولنے پر سارا زور لگایا۔ یہ انہی کی فکر کا اثر تھا کہ عیسائیت کی دنیا کے پادری یعنی مذہبی آدمی مارٹن لوتھر (10 نومبر 1483 – 18 فروری 1546)کو مذہب کے خلاف لا کر کھڑا دیا۔ اس نے کیتھولک کو شیطان قرار دیا۔ چونکہ مذہبی بندہ تھا اس لئے مذہب سے انکار تو نہ کیا اور مذہب کے ساتھ برائے نام جڑے رہنے کا تصور دیا اور ایک نئے عیسائی فرقے پروٹسٹنٹ کی بنیاد رکھی۔ مغرب میں تحریک کی سطح پر مذہب کے خلاف یہ پہلی منظم تحریک تھی جو کامیاب ہوئی۔ مغربی معاشرے کا مذہب کے خلاف بغاوت کا یہ پہلا قدم تھا جو مارٹن لوتھر نے اٹھایا اگرچہ دوسرا قدم مذہب میں ہی رکھا لیکن معاشرے کو مذہب کے خلاف اٹھنے کی جستجو دے دی۔ اس بغاوت میں مارٹن لوتھر کے ساتھ سب سے زیادہ نوجوان تھے۔ جن پر مذہب کی گرفت پہلے کی نسبت کم ہوگئی۔ مارٹن لوتھر سمجھ رہا تھا کہ شاید اس نے درست مذہبی فکر کی بنیاد رکھی ہے حالانکہ لاعلمی میں وہ اپنے بعد آنے والے الحادی مفکرین کے لئے راستہ ہموار کرگیا تھا اور لوگوں کے ذہن تیار کر گیا تھا کہ اگر کوئی اور نئی فکر اٹھے تو اسے قبول کرلینا۔

دوسرا زمانہ

 سترہوین صدی میں اہم نام ’ڈیکارٹ (1556-1650)‘ کا آتا ہے۔ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں۔ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ڈیکارٹ کو پیدا کیا۔ ڈیکارٹ کا سب سے بدترین جرم یہ تھا کہ مغرب کی دنیا میں ’روح اور روحانیت‘‘ کی اہمیت کو ہی ختم کردیا۔ اس نے انسان کی نفس کو روح قرار دیا گویا انسان کا جسم روح یعنی نفس کا خادم ہے ‘ کا تصور دیا۔
اس کے بعد نیوٹن (1642-1727) سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ ’’کششِ ثقل کے قانون‘‘ کی دریافت ہے۔ لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے۔ یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل [جزوی] کی مدد سے یہ قوانین دریافت کر لے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح دیگر فلسفی بھی آئے اور مغربی ذہن کو مذہب سے آہستہ آہستہ دور کرتے چلے گئے۔

اٹھارہویں صدی میں جان لاک (1632- 1704ء), روسو (1712ء – 1778ء), ایڈم سمتھ،(1723ء – 1790ء), امانوئل کانٹ (1714ء – 1804ء), اور ڈیوڈ ریکارڈو (1772-1823) یہ وہ مفکر ہیں جنہوں نے مغرب میں انسانی زندگی سے مذہب کا کردار نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وہ صدی ہے جس میں مغرب کا معاشرہ مذہب بیزار اور مذہب آزاد ہوچکا تھا۔ اور یہی وہ صدی ہے جس میں  ہیومنزم کا تصور اپنے جوبن پر ابھر کر نکلا۔ اس نظرئے نے تین عقائد پیش کئے۔

اول: ’’ کانٹ‘‘ نے  کہہ کر یہ تصور دیا کہ ’’ انسان اٹانومس ہے یعنی اپنا خدا خود ہے‘‘ وہ اپنی مرضی میں کسی بھی دوسری طاقت کا پابند نہیں ہے۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔
Absolute Freedomدوم: انسان اپنے معاملات میں ’’مطلق آزاد ہے ‘‘  کا تصور یعنی میں جو چاہوں میں مکمل آزاد ہوں۔
تیسرا:  اچھائی اور برائی یعنی خیر و شر کا فیصلہ ہر انسان خود کرنے میں آزاد ہے۔ اسے جو پسند ہو وہ اس کے لئے خیر ہے اور اسے جو برا لگے اس کے لئے وہ شر ہے۔
(ابھی ہم اس بحث میں نہیں جارہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ کتنے گمراہ کن عقائد ہیں)
معاشرے کے عام افراد تو اس مکمل بااختیاری پر تو بہت خوش ہوئے لیکن انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ اس خوش نما نظریے کو قبول کرنے کے بعد جو ان کے ساتھ ہونے والا ہے وہ کتنا بھیانک اور خطرناک ہے۔
اس کے علاوہ اسی صدی میں مذہب سے آزاد ’’ ریاست ‘‘ کا مغربی تصور ابھرا۔ ہمارے ہاں جس کی تبلیغ غامدی صاحب کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ نیز ریاست ایسی ہوگی جو ہیومن رائٹس کو تحفظ دے گی۔ ہیومن رائٹس کیا ہیں اس کا اجمال اور مختصر بیان اوپر کے تین نکات ہیں۔

انہی صدیوں میں مغربی دنیا میں ہونے والی ایجادات نے بھی مذہب کا کردار ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ابھی انیسویں صدی اس لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ کیپیٹل ازم کے نظام کی ۔ترویج میں یہ بحث بہت ضروری ہے۔ جیسے اسلام کی تکمیل میں مکی دور اہم ہے۔ ( ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب اور ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کی کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے )

اٹھارہویں صدی میں ایڈم سمتھ،(1723ء – 1790ء) نے  ‘دولتِ اقوام’  کے نام سے مشہور کتاب لکھی جو 1776 میں چھپی تھی۔ یہ وہ پہلی کتاب تھی جس نے مغرب میں اکنامکس کو بطور  مضمون  متعارف کرایا۔جب بھی کوئی انسان کتاب لکھتا ہے تو وہ کتاب اس کی فکر و نظریے کی عکاس ہوتی ہے۔ آدم سمتھ چونکہ نظریاتی طور پر جان لاک سے زیادہ متاثر تھا۔ ایڈم سمتھ اگرچہ مذہب سے کچھ نہ کچھ جڑا ہوا تھا لیکن اس نے اکنامکس کے پودے کی آبیاری میں مذہب کے چشمے کو ہی بند کردیا۔ صاف ظاہر ہے جب وہ پودا درخت بنا اس کی شاخیں بنیں اور پھل دئے تو اس میں لادینیت و الحاد کا ذائقہ ہی پیدا ہونا تھا۔ اکنامکس کی پہلی کتاب یعنی بائبل آف اکنامکس جو مذہب بریدہ تھی تو آگے پوری تبلیغ معاشیات میں الحادی فکر پروموٹ ہوئی۔ مغرب کا معاشرہ جو پہلے ہی الحاد کی زد میں تھا۔ اکنامکس کے نئے علمی تصور نے الحادی آگ کو مزید ہوا دی اور یوں کیپیٹل ازم نے مذہب کو متبادل بیانیے کے طور پر ری پلیس کیا۔

مذہب کا کام ہوتا ہے کہ وہ انسان کو مقصد دے اور اس مقصد کے حصول کے طریقے بتائے۔ کیپیٹل ازم نے یہ کام کچھ یوں کیا کہ عقیدے اور معاشی مفروضوں کو اس انداز میں سمو دیا کہ عام ذہن کے لئے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ انہیں معاشی مفروضہ سمجھے یا عقیدہ گردانے۔
۔1۔معاشی فیصلوں میں مذہب کا کوئی کردار نہیں۔( اور یہ کام انہوں عملا کیا۔ یعنی تحریروں میں مذہب یا اس کے کسی بھی اخلاقی اصول کو اہمیت دیتے ہوئے جگہ ہی نہیں دی لیکن بظاہر انکار بھی نہیں کیا تاکہ اہل مذہب کی مخالفت سے بچا جاسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت سے مذہب کا کردار ہی نکل گیا )۔

Self interest is preferred۔2۔ اکنامک ایجنٹ ( پروڈیوسر ، کنزیومر اور حکومت) خود غرض ہیں۔  یعنی سب سے پہلے میں اور صرف میں۔

profit maximization۔3۔ زیادہ سے منافع، مفادات، افادہ (یوٹیلیٹی ) کا حصول مقصد (حیات) ہے۔
لیکن منافع کمانے کا یہ تصور جب پہلے دو مفروضوں کے تناظر میں دیکھیں گے تو بہت ہی بھیانک ہوجاتا ہے۔ یعنی پھر جملہ یوں بن جاتا ہے۔
Profit maximization at any costاردو میں اسکا مطلب ہے “” کوئی جئے یا مرے میرے دو روپے کھرے””۔
یہ ہیں وہ تین بنیادی مفروضے جن پر پوری معاشیات کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔ صاف ظاہر ہے کسی بھی معاشی نظام کو نافذ کرنے کے لئے معاشرے میں قوت و طاقت چاھیے۔ لہذا یہاں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس ابلیسی  نظام کا نفاذ کیسے ہوگا؟

اس کے لئے جمہوریت کا نظام سب سے بہتر موافق نظام تھا۔ کیونکہ جمہوریت کا نظام بھی مذہب بریدہ تھا۔ ایسا نظام تھا جس پر سرمایہ دار افراد کا پہلے ہی راج تھا۔ جدید معاشیات دولت دوگنی چوگنی کرنے کا ذریعہ تھی تو جمہوریت اسی دولت کو حکمرانی کے منصب پر بٹھانے کا نظام تھا۔ گویا “” تو مجھے قبول میں تجھے قبول اس بات کا گواہ سرمایہ دار”” والا کام ہوا۔جمہوریت و معیشت کا یہ ملاپ بتدریج ” من و تو ” سے نکل کر ” من تو شدم، تو من شدی” تک پہنچ گیا۔فرق ہی ختم ہوگیا۔ بات یہاں تک آپہنچی کہ جمہوریت کے بغیر کیپیٹل ازم نہیں چل سکتا اور کیپیٹل ازم کے بغیر جمہوریت ناکام ہے۔ اس بیانیے نے اٹھارویں اور انیسویں صدی تک پورے مغرب و یورپ کے بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہیومن رائٹس اور این جی اوزجیسی دوسری جونکیں بعد میں ایجاد ہوئیں۔

 

تاہم اس سارے ابلیسی بیانیے کے سامنے اگر کوئی طاقت بند باندھے کھڑی تھی تو وہ تھی “ترک عثمانی خلافت” جو آدھی سے زیادہ دنیا پر اسلامی بیانیے کو قائم کئے کھڑی تھی۔ کیونکہ ہندوستان تو پہلے ہی ابلیسی قید میں آچکا تھا۔ غدار کیسے پیدا کئے گئے؟ کن انعامات سے نوازا گیا؟ کن مقاصد کے لئے گورے برطانیہ سے سات سمندر پار یہاں آ دھمکے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ سب مقاصد اوپر بیان ہوچکے۔

ترک خلافت کے خلاف سازشیں اگرچہ پہلے سے تھیں لیکن ایک دم سے کفر کا اتفاق امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس سب خلافت عثمانیہ کے خلاف متحد ہوگئے اور ان سب کی سازشوں کا 30 سال تک جس شخص نے اپنی اعلی ذہانت سے مقابلہ کیا وہ سلطان عبدالحمید ثانی تھا۔ 

بالآخر اندرونی غداروں نے ہی اس عظیم خلافت کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ ان ساری چالوں میں جو چال مغربی ابلیس نے چلی وہ تھی “” جمہوریت کا مطالبہ “”۔ بے وقوف نوجوانوں کو یہ کہہ کر خلافت کے خلاف اٹھایا کہ کیا حکومت صرف ایک ہی خاندان کا حق ہے؟؟؟ عام بندہ کیوں نہیں حکمران بن سکتا؟ یہ جمہوریت ہے جو عام بندے کو بھی یہ موقع اور آزادی دیتی ہے کہ وہ حاکم بنے۔ بظاہر یہ نعرہ تو دلفریب تھا۔ نائی،موچی اور میراثی کا بھی دل للچایا کہ ہاں یہ جمہوریت تو واقعی نعمت ہے۔ بس پھر کیا تھا تحریک زور پکڑ گئی ۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی نے مجبورا پارلیمنٹ بنائی جس میں ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ تک وہ پہنچے جو سرمایہ دار تھے۔ ایک بھی غریب یا عام بندہ نہیں تھا۔ دشمن کو تو صرف پاوں رکھنے کی جگہ چاھئے تھی۔ پھر اسی پارلیمنٹ نے عثمانی خلافت کا خاتمہ کیا اور یوں آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے ترک نادانوں نے ایک اسلامی قومی سلطنت کو 50 قومی مملکتوں میں تقسیم کروادیا۔ حکمرانی کا خواب دیکھ کر خلافت کے خلاف اٹھے بے وقوفوں کو بعد میں پتہ چلا کہ ان کے ہاتھ تو آیا ہی کچھ نہیں ۔ جیسے وہ پہلے محکوم تھے اب بھی محکوم ہیں۔ بلکہ پہلے اسلامی شعائر میں بھی آزاد تھے۔ اب تو کمال اتاترک نے نماز قرآن پر بھی پابندی لگادی۔ مگر اب وقت نکل چکا تھا۔ پچھتاوا کرتا بھی تو کیا۔ ہندوستان میں بیٹھے قلندر نے آہ بھری اور بول اٹھا

قافلے دیکھ اور اُن کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہروِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو اُفُق پر ہم لُٹاتے تھے گُہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ

 

یہ مضمون ابھی جاری ہے

…………………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

سرمایہ داریت کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟

سرمایہ داریت کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیپیٹل ازم ایک ایسا کھیل ہے جس میں فرد کو اس کی خواہشات کے پیچھے دوڑایا جاتا ہے جبکہ اس کی دوڑ کا سارا  بڑا ثمر سرمایہ دار لے جاتا ہے اور فرد کے ہاتھ صرف اس قدرآتا ہے کہ جس کو استعمال میں لا کر وہ دوبارہ اس دوڑ میں شامل ہوسکےاور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر کی دولت بڑھتی رہتی ہے اور غریب نسل در نسل غربت کی دلدل میں دھنستا رہتا ہے۔  

مائیکرو اکنامکس، میکرو اکنامکس ،مانیٹری وغیرہ یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ سرمایہ داریت کے نظام کے پیچھے پہلے نظریاتی اور فکری اور فلسفیانہ بحث ہے جس میں 5 اہم سوالات ہیں۔ سرمایہ داریت والے ان 5 سوالوں کے جواب دیں۔ ۔۔۔۔ تاہم سرمایہ داریت کی روشنی میں ہم اپنے جوابات دئے دیتے ہیں۔

۔1۔کنزیومر کیا خریدے یعنی ڈیمانڈ کیا ہے؟؟؟ یہ اسے کون بتائے گا؟ یعنی ڈیمانڈ کا تعین کون کرے گا؟

جواب : انسان کی ضرورت

۔2۔ فلاں چیز بندے کی ضرورت ہے ۔ یہ اسے کون بتائے گا ؟؟؟

جواب: اس کی عقل

۔3۔ عقل میں یہ بات کون ڈالے گا کہ فلاں چیز اس کی ضرورت ہے؟؟

جواب: اس کا نفس یعنی خواہش

۔4۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں خواہش جائز ہے یا ناجائز ، حلال ہے یا حرام ؟؟؟؟

اس سوال کا جواب ایک اور اہم سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ

۔5۔ خیر و شر کا تعین کون کرے گا ؟؟؟؟ انسانی عقل (خواہش نفس) یا خدا ؟؟؟

جواب: کیپیٹل ازم میں اس کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسانی عقل خود ہی فیصلہ کرے گی کہ اس کے لئے کیا خیر ہے اور کیا شر ، کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ لہذا انسانی عقل خواہش نفس کی روشنی میں فیصلہ کرے گی کہ فلاں چیز اس کے لئے خیر ہے۔ اس لئے وہ اس کی ڈیمانڈ کرے گا۔ اور وہ اس کے لئے قانونا جائز ہوگی۔ اس بارے میں خدائی مذہب کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

گویا کیپیٹل ازم میں “”انسان اپنی خواہشات کا بندہ ہے””۔ اسلام یہیں سے کیپیٹل ازم سے الگ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسلام کے پیراڈائیم میں خیر و شر کا حتمی تعین اللہ تعالی کرتا ہے۔ انسانی خواہش کے حلال و حرام کا فیصلہ خدا کرتا ہے۔ نیز جائز خواہشات میں بھی اسلام خواہشات نفس کی مخالفت کی ترغیب دیتا ہے۔ جبکہ اسلام میں انسان خدائی احکام کا پابند ہے۔اب آگے کی ساری اکنامکس کی بحث اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔

what to produce ? How much to produce ?

کیپیٹل ازم کے حامی سمجھتے اکنامکس شروع ہی ان سوالوں سے ہوتی ہے بھائی اس سے پہلے والے اوپر کے سوالات جوابات متعین کرتے ہیں کہ معاشیات کیسے چلے گی۔

دنیا کا جو ملک بھی اٹھا لیں خاص طور پر سرمایہ دار ممالک

۔1۔ وہاں انسان کو سیکس سیٹیسفیکشن کے لئے سیکس ٹولز کی خواہش ہوئی تو سیکس ٹولز خیر اور اچھے قرار پائے لہذا ڈیمانڈ پیدا ہوئی۔ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے سپلائی فورس حرکت میں آئی اور سیکس ٹولز کی باقاعدہ انڈسٹری قائم ہوئی جس کو قانونی جواز بھی مل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کیپیٹل ازم

۔2۔ وہاں شراب، پورک کی ڈیمانڈ ہوئی۔ سپلائی فورس نے وائن اور پورک انڈسٹری قائم کردی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کیپیٹل ازم

۔3۔ ہوموسیکس یعنی لواطت یعنی ہم جنس پرستی کی خواہش لوگوں کو ہوئی تو اسے قانونی جواز دے دیا گیا۔ بلکہ اب تو اقوام متحدہ کا ادارہ تمام ممالک سے اسے جواز دینے کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ انسان کی آزادی اور حق کی بات۔ یہ ہیومنزم کا تصور ہے جو کیپیٹل ازم کی چھتری تلے پروان چڑھا

۔4۔ کیپیٹل ازم ہی ہے جو اخلاقی سطح کی ہر گندی حرکت اور ہر حرام چیز کو پروڈکٹ قرار دیتا ہے پرائس مقرر کرتا ہے اور مارکیٹ تک لاتا ہے۔ کیونکہ اس سب کے پیچھے “”خواہش نفس””” کا حکم کھڑا ہے۔

ہر انسان اپنی خواہش میں آزاد ہے یہ بنیاد ہے اس نظام کی۔

اکنامکس کی کتابوں میں شراب، پورک برگر جیسی مثالیں عام ہیں۔ حالانکہ عیسائیت یہودیت جیسے مذاہب میں بھی یہ سب اشیاء حرام ہیں۔ اس کے باوجود کیپیٹل ازم میں یہ سب ہورہا ہے۔ کیوں ؟؟؟؟

کیونکہ کیپیٹل ازم میں مذہب کو مداخلت کی اجازت ہی نہیں۔ کیپیٹل ازم کہتا ہے مذہب کون ہوتا ہے یہ فیصلہ کرنے والا کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں ۔ یہ فیصلہ فرد خود کرے گا۔ کیپیٹل ازم کی سلطنت کے تین بنیادی ستون ہیں

۔1۔ لبرل ازم یعنی مذہب کا کوئی کردار نہیں۔

۔2۔ ہیومنزم یعنی انسان اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرسکتا ہے۔ خدائی احکام کی ضرورت نہیں۔

۔3۔ جمہوریت

ان تین ستونوں کے بغیر کوئی بھی قوم کیپیٹل ازم پر چلے گی تو اس کے ثمرات حاصل نہیں کر پائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک اس نظام کو اپنا کر ناکام ہیں کیونکہ یہ نظام اسلامی بنیادی عقائد کے ہی خلاف ہے۔ مسلمان بھی رہوں اور سود بھی کھاوں کیسے ممکن ہے ؟ مسلمان بھی رہوں مگر حکم اپنی خواہش نفس کا مانوں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟؟

اگر کسی کو اختلاف ہے تو بھائی آپ اپنے تصوراتی کیپیٹل ازم کی روشنی میں اوپر کے 5 سوالوں کے جواب اپنے ذہنوں میں سوچیں اور ان پر غور کریں۔ جس نظام کے خواب آپ دیکھ رہے وہ یا تو کیپیٹل ازم ہی نہیں یا پھر آپ کو پتہ ہی نہیں کہ کیپیٹل ازم کیا ہے۔ مائیکرو، میکرو، مانیٹری ، آجانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کیپیٹل ازم سمجھ گئے۔ کیپیٹل ازم کے لئے فادر آف اکنامکس ایڈم سمتھ، ڈیوڈ ریکارڈو اور ان کے روحانی باپ جان لاک کو پڑھئے کہ اس نظام معیشت کے قائم کرنے کے پیچھے کیا عقائد تھے۔ پھر اس کے بعد کیونکہ سرمایہ داریت متعارف کرانے سے پہلے معاشرے کو فکری طور پر تیار کیا گیا۔ اس لئے پہلے اس فکر کو سمجھیں۔ کیپیٹل ازم یہی ہی ہے ۔۔۔ باقی جس میں آپ ہیں وہ دھوکہ ہے۔

 

…………………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

انسانی رویوں پر سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات

 انسانی رویوں پر سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات

Behavioral Impact of Capitalism

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

…………………………………….

پندرھویں اور سولہویں صدی سرمایہ دارانہ نظام کی فکری ترویج کی صدیاں کہلاتی ہیں ۔ اس زمانے میں مغربی مفکرین  کا سارا زور اپنے معاشرے کو مذہب سے آزاد کرنے میں صرف ہوا۔ سترہویں صدی میں مغرب نے مارٹن لوتھر کی قیادت میں چرچ سے آزادی حاصل کی۔ بظاہر تو وہ بھی مذہب کا نمائندہ رہا اور پروٹسٹنٹ عیسائیت کی بنیاد رکھی۔ لیکن مغربی معاشرے کو لادینیت کی طرف دھکیلنے کا بنیادی کردار اسی کا ہے۔ کیونکہ چرچ کے خلاف بغاوت کا پہلا قدم اٹھانے کی ہمت اس نے پیدا کی اور لادینیت کی جانب ایک اور قدم بڑھانے میں اس معاشرے کو کوئی جھجھک نہیں ہوئی۔ رہی سہی کسر دہریت کے علم بردار مفکرین نے پوری کر دی۔ ان دو صدیوں میں جو فکر پروان چڑھی اس میں اہم نکات یہ ہیں۔

۔1۔ مذہب کو ہماری زندگیوں میں مداخلت کی اجازت نہیں۔

۔2۔ اپنے فیصلوں میں انسان مطلق آزاد ہے۔

۔3۔ انسان اپنی خواہش میں آزاد ہے۔ وہ جو چاھنا چاھے اس میں وہ خود مختار ہے۔ اور اس چاہ کو پورا کرنا اس کا حق ہے۔

۔4۔ خیر و شر کے فیصلے کا اختیار انسان کو ہے۔

۔5۔ انسان مطلق آزاد ہے۔

یہ وہ نظریات تھے جنہوں نے مغربی معاشرے کو الحاد کی گہرائی میں دھکیل دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ خدا مرا چکا ہے‘‘ نظریات مقبول ہوئے۔ بالآخر انسان کو ’’ ہیومن بی ئنگ ‘‘ کے منصب پر براجمان کردیا گیا۔ یعنی انسان اپنے ہونے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنا خدا خود ہے۔ وہ تمام امور کے فیصلے خود کرتا ہے۔ وہ جو چاہے کرے یعنی ہر چاہت کے چاھنے کا حق اسی کا ہے۔ بقول ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب ان دونوں نظاموں کا کلمہ ایک ہے : لا الہ الا الانسان۔ یہی وجہ تھی کہ ان نظریات کے اثرات اس معاشرے میں وجود میں آنے والے ہر نظام سیاسی ، معاشی ، معاشرتی سطح پر کافی شدت سے مرتب ہوئے۔ حقوق کی بات آئی تو ہیومن رائٹس کا تصور ابھرا ۔ انسان چونکہ اپنی خواہشات میں آزاد ہے۔ اس لئے جو وہ چاہے اسے ملنا لازمی ہے۔چنانچہ مغربی ممالک نے پارلیمنٹ میں ہیومن رائٹس کی مد میں جو قوانین بنائے ان میں سے 3 یہ ہیں ورنہ فہرست طویل ہے۔

۔ جس انسان کی خواہش ہو کہ وہ ہم جنس کے ساتھ شہوانی خواہش پوری کرے یہ اس کا بنیادی حق ہے۔

۔ انسان اگر اپنی شہوانی خواہش کو شہوانی کھلونوں (سیکس ٹول) سے پورا کرنا چاھتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔

۔ مرد و عورت اپنی شہوانی جذبات کی تسکین کے لئے بغیر نکاح یا شادی کے ایک دوسرے سے تعلق استوار کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

۔ اسقاط حمل ہر عورت کا حق ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے چاہے تو وہ بچہ جنے چاہے تو نہ جنے۔ حتی کہ اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ اپنے پیٹ میں موجود بچے کو کسی بھی سٹیج پر قتل کرنا چاھے تو کردے۔

اٹھارویں صدی میں ایڈم سمتھ آتا ہے اور سرمایہ دارانہ معاشیات کا باقاعدہ تولد ہوتا ہے۔ اکنامکس کی ام الکتاب ” قومی دولت ” ویلتھ آف نیشن تحریر کرتا ہے۔ اس کے بعد علم معاشیات کے مختلف مفکرین آئے۔یہ  سارے معاشی مفکرین کلاسیکل ہوں یا کینیزین یا ان کی گود سے نکلنے ” نیو ” فرقے خواہ سرمایہ داریت ہو یا اشتراکیت سب کے سب چونکہ ایک ہی خاص معاشرتی فکر سے نکل کر آئے تھے اس لئے ان سب نے مل کر جو اکنامکس مرتب کی  اس کا مقصود ایک ہی تھا۔

سرمایہ داریت اور اشتراکیت میں اختلاف  کیا ہے؟

ان دونوں نظاموں کے اہداف میں عمومی طور پر کوئی فرق نہیں۔ یہ دونوں نظام ایک مقصد کے حصول کی جد و جہد کرتے ہیں البتہ اس مقصود کے حصول میں طریقہ کار میں فرق ہے۔

وہ مقصد واحد کیا ہے؟؟

انسان کی خواہشات کی تسکین وتکمیل  زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔

یہ دونوں نظام باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک نظام سرمایہ دار انسان کی خواہشات پر زور دیتا ہے تو دوسرا مزدور کی خواہشات کا علم لے کر اٹھتا ہے۔ لیکن دونوں میں خدائی کا منصب انسانی خواہشات کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سرمایہ داریت کا حامل ہو یا اشتراکیت کا  لیکن ان سب ممالک میں  ہیومن رائٹس  مشترک ہیں ۔ جس کی ایک مثال ہم جنس پرستی کا قانونی جواز ہے۔

معاشی مسئلہ:

یہ دونوں معاشی نظام ایک ہی  معاشی مسئلے کے گرد طواف کرتے ہیں  اور وہ ہے ’’ خواہشات لامحدود ہیں جبکہ وسائل محدود اور کم ہیں‘‘۔ اس مسئلے سے نمٹنا کیسے ہے۔ اس کے لئے ان دونوں معاشی نظاموں کےدرج ذیل  تین بنیادی مفروضے ہیں:

1۔ اکنامکس میں مذہب کا کوئی کردار نہیں۔

2۔ اکنامک ایجنٹ ( پروڈیوسر ، کنزیومر اور حکومت) خود غرض ہیں۔ Self interest

3۔ زیادہ سے منافع، مفادات، افادہ (یوٹیلیٹی )   کا حصول مقصد (حیات) ہے۔

اگر غور کریں تو واضح ہوجائے گا کہ موجودہ اکنامکس کے معاشی مسئلے اور تین مفروضات پر پندرھویں اور سولہویں صدی کے مفکرین کی فکر کتنا گہرا اثر پڑا ہے۔یہ تین مفروضے مجموعی طور پر انسان کے رویوں پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں کسی ذی شعور کے لئے  مشکل نہیں ہے۔ مذہب کا دخل نہیں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آ خرت میں احتساب کا کوئی تصور ہی نہیں تو پھراسے کس بات کا ڈر ہو کہ وہ کوئی گناہ نہ کرے ۔ اکنامک ایجنٹ خود غرض ہے ۔ اُسے صرف اپنی ذات سے غرض ہے اور بس  اور اسے ایک خوش نما اصطلاح دے دی ’’ سیلف انٹرسٹ‘‘ ۔ اس پر طرفہ یہ کہ منافع ، مفادات ، افادہ کے زیادہ سے زیادہ حصول کو  زندگی کا مقصد بنا دیا  ۔  جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اس مقصد کے لئے کسی بھی حد تک گر سکتا ہے اور جا سکتا ہے۔ کیونکہ اخلاقی سطح پرانسان  سے احتساب کا خوف تو چھین لیا پھر وہ کس سے ڈرے ؟ بڑی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ اسے ملکی قانون کا ڈر ہو گا ۔ تو اس پر عرض ہے کہ مغربی ممالک میں جرائم کے اعداد و شمار دیکھ لی جیے  یہ اور بات  کہ بہت سے جرائم تو اب قانونی ہیں ۔

یہ بحث تو  مختلف الجہات ہے اور کافی وسیع ہے۔ اختصار کے طور پر میں یہاں صرف  ’’ہیومن رائٹس اور اکنامکس ‘‘ کے  باہم ملاپ سے وجود میں آنے والی معاشرت و معیشت پر عرض کرونگا۔

مغربی ہیومن رائٹس اور اکنامکس نے ملکر جو معیشت کا تصور دیا ہے وہ کیسا ہو سکتا ہے؟

مندرجہ بالا ہیومن رائٹس اور اس جیسے دیگر رائٹس متعین ہوئے تو  ان کو  پورا کرنے کے لئے  ان  کی سپلائی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ تو یہاں اس معاشرت سے جنم لینے والے معاشی نظام نے قدم بڑھائے اور  سیکس ٹولز انڈسٹری، جوا خانے ، پورن انڈسٹری، قحبہ خانے سمیت سب ابلیسی  اعمال کو باقاعدہ انڈسٹری کی حیثیت دے دی ۔ یہ انڈسٹری سپلائی فراہم کرے گی ۔ جس کی ڈیمانڈ پہلے ہی معاشرے میں موجود تھی۔ یوں یہ بزنس چل نکلا جسے باقاعدہ قانونی سند بھی فراہم کردی گئی۔ (معاشرت میں آسمانی خدا کا دخل نہیں تھا اس لیے وہ بھی جائز ۔ معیشت میں بھی خدا کا کوئی کردار نہیں اس لیے یہاں بھی یہ امور جائز )۔

(یہ ہیں مغربی دنیا کے ہیومن رائٹس اور معیشت کا وہ ’’امتزاج یا کمبی نیشن ‘‘  جس کے اطلاق کا مطالبہ اب اسلامی ممالک میں بھی گنتی کے چند لبرل گروہوں کی  جانب سے ہونے لگا ہے)۔اب تو اقوام متحدہ کے باقاعدہ مقاصد میں شامل ہے کہ ہم جنس پرستی  سمیت ان تمام ابلیسی کاروباروں کو پوری دنیا میں قانونا جائز تسلیم کیا جائے۔گویا مغرب کا کہنا یہ ہے کہ :  اس میں  کسی آسمانی خدا کو کیا اجازت ہے کہ وہ انسان کی خواہشات پر قدغن لگائے۔

انوسٹمنٹ  سے کیا مراد ہے ؟

سرمایہ دار کا کسی بھی کاروبار میں نفع کمانے کی غرض سے پیسہ لگانا انوسٹمنٹ کہلاتا ہے۔ چنانچہ سرمایہ دار نے مندرجہ بالا سب ابلیسی کاموں میں پیسہ لگانے کو بھی  “انوسٹمنٹ” کا نام دیا۔ اور اس پر نفع کمانا جائز ٹھہرا۔ سرمایہ داریت کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ورنہ حقائق تو

ہوش ربا ہیں۔ صاف ظاہر ہے قحبہ خانے چلانے کے لئے عورتیں درکار ہیں (سپلائی )۔ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے سپلائی کہاں سے ہوگی؟ اس کے لئے ہیومن ٹریفکنگ کے اعداد و شمار گوگل کر کے دیکھ لی جیے  سب واضح ہوجائے گا ۔

کوئی بھی  نظام کب کا میاب ہوتا ہے ؟

ہر نظام اپنے کچھ مفروضات اور مقاصد رکھتا ہے جن کے بغیر وہ نظام ایک بانجھ درخت مانند ہوتا ہے۔ سرمایہ داریت و اشتراکیت بھی اپنے اساسی ستونوں کے بغیر ایک بانجھ درخت ہیں بلکہ الٹا نقصان دہ نتائج کا سبب بنتے ہیں۔ سرمایہ داریت و استراکیت کے مشترکہ اساسی ستونوں میں لبرل ازم (مذہب آزاد)، ہیومن رائٹس، جمہوریت، قوم پرستی وغیرھا شامل ہیں۔ لہذا  یہ دونوں نظام ان ستونوں کے بغیر کوئی فائدہ نہیں دے سکتے ۔

مغربی ممالک سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت سے فوائد لے رہے ہیں لیکن مسلم ممالک ان کے ثمرات سے کیوں محروم ہیں؟

اول تو اس وقت کوئی بھی مسلم ملک نہ تو خالصتا ً سرمایہ داریت پر مبنی ہے اور نہ ہی اشتراکیت پر اور نہ ہی مکمل طور پر اسلامی نظام کا حامل ہے۔ تقریباً تمام اسلامی ممالک  میں اس وقت تینوں نظاموں  کے مشترکہ چربے سے وجود میں آنے والے نظام کی  کوئی نہ کوئی صورت مروج ہے البتہ اس میں غالب رنگ سرمایہ داریت کا ہی ہے۔

 کوئی بھی اسلامی ملک اگر کلیتا ً سرمایہ داریت اپنا لے یا اشتراکیت کو گلے لگا لے وہ کبھی بھی اپنے ہاں ترقی و خوشحالی نہیں لاسکتے۔ کیونکہ اسلامی معاشرے  کے افراد کے لئے ان نظاموں کی اساس کو اپنانا ممکن ہی نہیں۔ اس کے لئے انہیں اپنے ایمان کی قربانی دینا پڑے گی اور وہ یہ کرنے سے رہے۔ کیونکہ ان کے اساسی ستون قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔ لبرل ازم ، قوم پرستی،  ہیومن رائٹس جیسی بکواسیات کا اسلام میں کوئی تصور ممکن ہی نہیں)۔

فی الوقت ہوکیا رہا ہے ؟

مسلمان عقائد تو اسلامی رکھنا چاھتے ہیں لیکن معاشی نظام سیاسی نظام دوسرے رکھنا چاھتے ہیں۔تو اس صورت حال میں مسلمان کی وہی صورت سامنے آتی ہے جو اس وقت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ایسے میں دین پر کاربند مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آخر اس نے بھی اسی نظام میں آنکھ کھولی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول سے وہ بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ البتہ ان کے متاثر ہونے کی شرح معاشرے کے دیگر طبقات کی نسبت کم ہے۔  تاہم مجموعی طور پر اسلامی ملک کے معاشرے کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ  ایک طرف آفات کا سامنا ہو اور لوگ مصیبت میں مبتلا ہوں تو اس پر منافع خوری  کی حرص سوار ہو جاتی ہے۔ چند روپے ماسک ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ بعد میں زیادہ منافع پر فروخت کریں ۔ ایکسپائر میڈیسن پر  نئی تاریخ کا لیبل چسپاں کر کے فروخت کردیا جائے تاکہ چند سو روپے بچائے جا سکیں بھلے میڈیسن سے مریض کی جان چلی جائے  ’’ کوئی جئے یا مرے ، میرے دو روپے کھرے‘‘۔ اشیاء میں ملاوٹ کر کے فروخت کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت کما لی جائے ۔ دھوکے فراڈ کی ایسی نئی سے نئی شکلیں اورایسے  طرق ہائے ورادات سامنے آ رہے کہ ابلیس بھی شرما جائے۔ مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی عصمت داری کے بڑھتے واقعات ، بچوں بچیوں سے زیادتی کے بعد قتل کے پے در پے بڑھتے  ہوش ربا اور دل دہلا دینے والے واقعات یہ سب اس بات کی عکاسی کر تے ہیں کہ کلمہ پڑھنے والے معاشرے میں ان ساری ابلیسی حرکات کا محرک آخر کیا ہے ! وہ ہے ملکی سطح پر اسلامی نظریہ حیات سے دوری ۔ ریاست معیشت و معاشرت ، عدالت سب کچھ مغربی فکر پر چلانا چاہ رہی ہے لیکن ملک کے باشندے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے حامل ہیں۔ راستہ ناہموار بناو گے تو گاڑی کیسے سکون سے چلے۔

اس سب کا   عملی نتیجہ یہ نکلا  ہے کہ  مسلم معاشرے کسی بھی نظام  کے ثمرات  نہیں لے پا رہے۔ بلکہ صورت حال مزید بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ مسلم ممالک بین الاقوا می قرضوں تلے دن بدن دبتے چے جارہے ہیں۔ مسلم معاشروں کی مجموعی صورت حال کو دیکھ لیں ۔ خاندانی نظام تقریبا ً تباہ ہوچکا ہے۔  معاشرتی سطح پر تعلقات آلودہ ہو چکے ہیں۔ معاشی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نام کے مسلماں تو ہیں لیکن مساجد اب گرجا گھروں کی مانند صرف مخصوص دن جیسے جمعہ کو ہی بھری نظر آتی ہیں۔ اس صورت حال میں مسلم ممالک نے پایا کم کھویا زیادہ ہے۔ اس صورت حال میں موجودہ معاشرے کا مسلمان نہ تو  اچھا  مسلمان بن پایا اور  نہ ہی سرمایہ دار یا اشتراکی ۔ کامیابی   ملتی بھی تو کیونکر  کہ ذلت کےراستے پر چلنے سے عزتیں کہاں ملا کرتی ہیں۔

 قرآن مجید نے معاشرے کے اپنائے ہوئے موجودہ روش اور رویے کو گمراہی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے۔

مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا (143) النساء                                                   

 (وہ اس (کفر اور ایمان) کے درمیان تذبذب میں ہیں نہ ان (کافروں) کی طرف ہیں اور نہ ان (مؤمنوں) کی طرف ہیں، اورجسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ہرگز اس کے لئے کوئی (ہدایت کی) راہ نہ پائیں گے)۔

یعنی دھوبی کا کتا نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ کیوں نہ پھراسلام کے دامن میں پناہ لی جائے۔

 

  لوٹ جا عہد نبی ﷺ کی سمت اے رفتار جہاں

     پھر میری پسماندگی کو ارتقاء درکار ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 سرمایہ داریت کا طلب و رسد کا مادی نظریہ

 سرمایہ داریت کا طلب و رسد کا مادی نظریہ

Supply and Demand: Materialistic Theory of Capitalism

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

…………………………………….

 کلاسیکی معیشت دان کے بانی آدم سمتھ نے بینتھم کے نظریہ ٔ افادہ سے طلب و رسد کا نظریہ کشید کیا، جس کے مطابق ہر شخص اپنی لذات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا اور ان میں اضافہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کی خواہشات میں وہ مسائل رکاوٹ ہیں جن کی وجہ سے فرد اپنی خواہشات پوری نہیں کرسکتا ہے۔ آپ اچھے سے اچھا گھر’ گاڑی اور پر آسائش اشیاءخریدنا چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس یہ سب خریدنے کی طاقت نہیں ہے، بالفاظ دیگر آمدن اور قیمت وہ دو بنیادی رکاوٹیں ہیں جو آپ کی خواہشات کی تکمیل میں مانع ہیں۔آپ کم قیمت کی صورت میں زیادہ اشیاء اور زیادہ قیمت کی صورت میں کم اشیاءطلب کرسکتے ہیں۔ اس طرح سے اُس نے نظریہ طلب کو ثابت کیا، کہ قیمتوں اور طلب میں منفی رجحان ہے۔یہ نظریہ طلب نظریہ افادہ سے نکلا ہے۔ یہ کوئی آفاقی قانون نہیں ہے۔ نظریہ طلب صرف اُن معاشروں میں کارفرما ہوتا ہے جہاں فرد کا مطمع نظر اور مقصود حیات صرف اور صرف خواہشات اور لذات ِانسانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں فرد کا مقصود اپنے خالق حقیقی کی بندگی ہو تو آپ حرام شے کا کبھی مطالبہ نہیں کریں گےخواہ آپ کو اس کی کتنی ہی خواہش کیوں نہ ہو اور وہ کتنی سستی ہی کیوں نہ ہو۔ایک انسان میں موجودنفس امارہ کسی برائی کی خواہش تو کرسکتا ہے لیکن اپنے رب کی بندگی پرمائل انسان پھر اپنے نفس امارہ کی بجائے اپنے رب کی سنتا ہے اور حرام کی طلب سے منہ موڑلیتا ہے۔لیکن جہاں خواہشات ہی معبود قرار پائیں توپھر وہاں حرام وحلال کاتعین انسانی عقل و نفس کرتاتے ہیں اور اس طرح وہاں صرف طلب ہی طلب کا آوازہ ہوتا ہے۔ ایسے تصور کا بھی ہونا لازمی تھا جو اِس طلب کو پوراکرے۔چنانچہ رسدکاتصور بھی ساتھ ہی پیدا ہوا۔اس طرح جائز و ناجائز کی تفریق کیے بغیر دولت کمانے کی منہ زور خواہش رکھنے والوں کے لئےکمائی کا ایک باب کھل گیا۔حتی کہ دولت کی اس ہوس نے یہ نظریہ تک پیش کردیا کہ ‘‘تم رسد پیدا کرو اس کی طلب خود بخود پید اہوجائے گی’’۔ یعنی جو چیزیں ابھی تک انسان کی خواہش نہیں بنیں تم انہیں بھی انسان کی خواہش بناکرپیش کرو، اس طرح وہ خود بخود طلب بن جائے گی۔گویا خواہشات کو ایجاد کرنے کا نیا فن متعارف ہوگیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading