Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231 absiddique111 – Page 13 – Islamic Finance
Global colonialism, the Islamic world and Free Trade
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
…………………………………….
سرمایہ داریت اور مغرب کے بڑھتے اثرو رسوخ کے تناظر میں یہ تحریر درحقیقت کچھ مقالات سے ماخوذ ہے۔ اس حوالے سے ’’ تھامس رائٹ کا آرٹیکل : دی نیو ورلڈ ڈوائیڈ‘‘ بھی اہم ہے۔
گلوبلائزیشن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا کو تین طبقات میں تقسیم کیا جائے۔
۔1۔ اے کلاس جس میں امریکہ اور یورپی اقوام ہوں۔ جن کے ہاتھ میں تمام دنیا کی طاقت ہو۔
۔2۔ بی کلاس جس میں چین اور روس اور اے کلاس کے ہمنوا غیر مسلم ممالک
۔3۔ سی کلاس میں عالم اسلام رہے۔
سی کلاس لیبر کلاس ہو جو اپنے اخراجات پر مختلف فنون پر اعلی افراد تیار کرے جن میں سے کچھ بعد میں اپنا ملک چھوڑ کر اے کلاس اور بی کلاس خدمات دینے پہنچ جائے۔ اور سی کلاس پھر سے افراد سازی میں لگ جائے۔ اور جو افراد تیار ہو کر اپنے ملک میں ہی رہیں ان سے کام لینے کے لیے انڈسٹری وہیں منتقل کرلیں۔ ان کی سستی لیبر انہی کا خام مال اونے پونے لے کر ویلیو ایڈ کریں اور کئی گنا دام کے ساتھ انہی کو فروخت کرکے سرمایہ اے کلاس و بی کلاس کو پہنچائیں۔
بی کلاس ممالک درمیانے درجے کی انڈسٹری لگائے گی اور سی کلاس سے خام مال اور سستی لیبر لے گی۔
اےکلاس اعلی درجے کی انڈسٹری پر قابض رہے گی اور بی کلاس اور سی کلاس اے کلاس کے مرہون منت ہونگیں۔ (اس ساری گیم کو فری ٹریڈ کے لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔ فری ٹریڈ میں ہمیشہ معاشی طاقتوروں کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ کمزور معیشت والے صرف اس پر ہی خوش ہوتے ہیں کہ چیز تو انہوں نے بنائی تھی)۔
فی زمانہ بی کلاس ابھی تک اے کلاس سے بظاہر برسرپیکار ہے۔ تاہم امریکہ کی مسلسل کوشش انہیں رام کرنے میں ہے۔ لیکن عالم اسلام کے بارے میں گلوبلائزیشن کا ایجنڈا کسی حد تک کامیاب ہوچکا ہے۔
باہر سے سرمایہ آرہا ہے ‘‘ درحقیقت ایک بھیانک ایجنڈے کی تکمیل کا دلربا سلوگن ہے۔ اور ہماری عوام سے لے کر حکمران اسے اپنی ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں ۔ باہر سے سرمایہ تمہارے پاس ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آرہا بلکہ تمہارے خام مال اور وسائل کو استعمال کرکے پیداوار کریں گے پھر تمہیں ہی مہنگے داموں فروخت کرکے اپنا سرمایہ کئی گنا بڑھا کر واپس لے جائیں گے ۔ سرمایہ سرمائے کو کھینچتا ہے کی کہاوت تو سنی ہوگی آپ نے۔ ہمارے حکمران ہمیں بیماری کے اسباب کو علاج کے نسخے پر دوائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور ہم بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ہماری اشرافیہ بیماری کے اسباب کو علاج کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور ہم بغلیں بجانے لگتے ہیں۔
گویا فری ٹریڈ کا مطلب ہے ’’ طاقتور ملک کمزور ملک کے وسائل کیسے لوٹے اور اسے اپنا دست نگر بنائے کی پلاننگ کرنا‘‘۔
حضرت اقبال علیہ الرحمہ نے تصویر درد میں کہا تھا۔ آخری شعر میں تبدیلی پر معذرت کے ساتھ۔
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک؟ لذّتِ فریاد پیدا کر
زمیں پر تُو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے اسلام والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
اس سب کے باوجود جو امید کی شمع ہے وہ اس امت کے افراد کی گنبد خضراء سے وابستگی ہے۔ یہی شرر ان شاء اللہ آگ بھڑکائے گا۔ اور مسلمان کو مسلمان کرے گا۔ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں اس لیے ناامید نہیں ہیں
خودی کیا ہے؟ خود پسندی، انا پرستی، خودپرستی کیا انہیں خودی کہتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ خود پسندی، انا پرستی، خودپرستی انسان کو غرور اور تکبر میں مبتلا کرتی ہے ۔ جبکہ خودی انسان کو رب سے روشناس کرواتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا یہ فطرت سراپا خیر ہے۔آدمی اس فطرت کو پہچانے ، اس کی قدر کرے اور اسے بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرے ۔لیکن اگر آدمی خود غرض اور بڑھتی ہوئی خواہشات کے دھارے میں بہہ نکلے تو یہ انسان میں غرور اور تکبر پیدا کردیتی ہے ، جس سے خودی کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ فطرت مسخ ہونے لگتی ہے اور زندگی شیطان کے پھیلائے ہوئے وسوسوں سے بھر جاتی ہے۔خودی کی بہترین عملی تعریف تو سیدنا حضرت علی المرتضی ؓ نے واضح کی۔ جب جنگ کے دوران ایک کافر نے آپ کے چہرہ انور کی جانب تھوکا تو آپ نے اُسے چھوڑ دیا۔ کافر محو حیرت ہوا، بول پڑا کہ ’ میرے پاس اپنی نفرت کے اظہار کا کوئی اور راستہ نہیں تھا تو میں نے تھوک دیا۔ آپ ؓ کو تو اور بھی زیادہ غصہ آنا چاھئے تھا ۔ لیکن آپ ؓ نے مجھے چھوڑ دیا۔ کیوں؟ ‘ اس پر حضرت علی المرتضی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ کسی ذاتی مقصد کے پیش نظر نبرد آزما نہیں تھا۔ بلکہ اللہ کی رضا کے لئے حق کے غلبے کے لئے لڑ رہا تھا۔ لیکن تم نے جس وقت میرے چہرے کی جانب تھوکا تو مجھے غصہ آگیا اور اس میں میری ذات کا مقصد شامل ہوگیا۔ مجھے ڈر لگ گیا کہ اگر آج تمہیں قتل کردیتا ہوں تو قیامت کے دن میرا رب یہ نہ فرما دے کہ ’ علی ؓ تم نے اسے اپنے غصے کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ ‘ یہ ہے تصور خودی ۔ یعنی خودی کا منبع و مرکز انسان کی ذات میں چھپی ہوئی غیرت ہے ۔ اگر اس غیرت کا سبب اپنی ذات ہے تو یہ خود پسندی اور انا پرستی ہے۔ اگر اس کا سبب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہو تو یہ خودی ہے۔
قرآن مجید اور صاحب قرآن حضور نبی رحمت ﷺ کے انداز تربیت پر بڑی گہری نظر رکھتے ہوئے حضرت اقبال ؒ نے کہا کہ فلاح کے آسمانی تصور کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ بندے کی خودی تین کمالات سے متصف ہو یعنی وہ خودنگر، خود گر ا ور خود گیر ہو ۔جب تک خودی ان کمالات سے متصف نہیں ہوگی بندہ راہ کی گرد میں گم ہوجائے گا لیکن مقصود ِحیات کبھی نہیں پاسکے گا۔ ایک نبی، رسول علیہ السلام کا بنیادی کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلےاپنے امتی کی عقل و نگاہ پر پڑے پردوں کو ہٹا کر اُس کی حقیقت اُس کے سامنے آشکار کرتا ہے۔
قرآن مجید نے بڑے جامع انداز میں بیان کیا کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی امت کی تربیت کن مراحل میں کی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود نگری کے مقام پر لوگوں پر کیسے واضح کیا کہ وہ کون ہیں ؟ ان کا رب کون ہے ؟ قرآن مجید سورہ الانعام میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے :۔
پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا) ۔اسی طرح آگے فرمایا:۔
( پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھرجب وہ (بھی) غائب ہوگیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتا)۔
بات یہیں نہیں رکی ۔ قرآن مجید نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا:۔
(پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک
گردانتے ہو)۔
پہلے رات کی تاریکی میں چمکتے تارے اور دمکتے ہوئے چاند کو دیکھ کر خود ہی کہنا ’کیا یہ میرا رب ‘ اور جب وہ ڈوب جائیں تو لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ فرما کر ڈوب جانے والوں سے اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے اُن کی ربوبیت کا انکار کرنا ۔پھر آخر میں سورج کو دیکھنا اور اس کی بڑائی اور چندھیا دینے والی روشنی کے رعب کو لوگوں میں ذہنوں میں بٹھانا کہ اس سے بڑھ کر تو اور کسی طاقتور وقت کا تصور بھی انسانی ذہن میں نہیں آسکتا لہذا کیا یہ رب ہوسکتا ہے ؟ پھر جب وہ بھی ڈوب جائے تو ان کی ربوبیت کا انکار کرنا یعنی ایک ایک کر کے بلند و بالا اور اوج ثریا کی پنہائیوں میں چمکنے دمکنے والی مخلوق کے رب ہونے کے امکان کو لوگوں کے سامنے انہی کی عقلوں کے ذریعے رد کروایا ۔ تو یہی وہ وقت تھا کہ ’لوہا گرم ہے اب ہتھوڑا ماراجائے‘۔ چنانچہقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّاتُشْرِكُونَ(ابراہیم بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک گردانتے ہو)۔ پھر ان کے سامنے یہ واضح کرنا کہ تم انہیں رب مانو تو مانو میں اپنے عظیم رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرونگا۔ یہی الفاظ اس پر واضح دلیل ہیں کہ رب کی توحید پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمان پہلے سے تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھرقَالَ هَذَا رَبِّيیہ سب کیا تھا ؟
یہ سب کچھ تو لوگوں کو خود نگری کے کمال سے متصف کرنے کا ایک انداز تھا جو نہایت مؤثر تھا۔ کسی جملے کے سوالیہ ہونے کے لئے لازمی نہیں کہ اس میں حروف استفہام کا استعمال ہو۔ بلکہ کبھی کبھی سادہ جملے’ سوالیہ انداز تخاطب ‘ کی بدولت سوال بن جاتے ہیں۔ ’یہ میرا رب ہے‘ کو سوالیہ انداز میں بولا جائے تو یہ سوال بن جاتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ معاذ اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود رب کو پہچاننے کے مراحل میں تھے اور یہ آیات اس کا بیان ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ۔ اور یہ امکان قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ سے رد ہوجاتا ہے۔ شرک کا تصور کا مطلب ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمان توحید باری تعالی پر پہلے سے تھا۔ ورنہ جو ابھی ذات یکتا کو پہچان ہی نہ پایا ہو اُسے کیا خبر کہ شرک کیا ہوتا ہے۔
یہ درحقیقت اُن لوگوں کے ذہنوں میں، اُن کی سوچوں میں ایک زلزلہ بپا کرنا تھا جو کبھی ستاروں کو تو کبھی چاند کو اپنا خدا سمجھتے تھے اور کبھی اپنے ہاتھوں سے بنائے بتوں کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکاتے تھے۔ ان کی عقل پر پڑے پردوں کو ہٹانے کے لیے یہ انداز اپنانا ضروری تھا ۔ تاکہ اُن کی عقل خود یہ سوال کر دے کہ جو خود ڈوب جائے وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔یہ زلزلہ بپا کرنے کی دیر تھی کہ غلط عقائد کی بنیادوں پر تعمیر شدہ ان کی ساری عمارتیں منہدم ہو کر ریت کا ڈھیر ثابت ہوئیں۔ لیکن حکمت کا تقاضا یہ بھی تھا کہ اگر اُن سے غلط خداؤں کا تصور چھینا جا رہا ہے تو پھر حقیقی خدا کا تصور بھی پیش کیا جائے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً فرمایا :إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ(بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں)۔
یہ وہ کمال کابراہیمی انداز تھا کہ خوش بخت روحیں اپنے خالق حقیقی سے روشناس ہوگئیں اور رب ابراہیم پر ایمان لے آئیں۔ لیکن جو ابھی بھی حق کے انکاری ، کج بحثی کے عادی تھے نہ مانے۔ اُن سے بحث بھی ہوئی اور انہیں دلائل بھی دئے لیکن انہوں نے پھر بھی یہ کہا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کیسے پھر جائیں۔ تب حق کی پہچان کے لئے ایک اور کمال انداز اپنایا اور انہیں چیلنج کرتے ہوئے کہا جس کا بیان قرآن مجید نے یوں کیا :۔
(اور اللہ کی قسم! میں تمہارے بتوں کے ساتھ ضرور ایک تدبیر عمل میں لاؤں گا اس کے بعد کہ جب تم پیٹھ پھیر کر پلٹ جاؤ گے۔پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے (بُت) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔. وہ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ بیشک وہ ضرور ظالموں میں سے ہے۔(کچھ) لوگ بولے: ہم نے ایک نوجوان کا سنا ہے جو ان کا ذکر (انکار و تنقید سے) کرتا ہے اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔وہ بولے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ (اسے) دیکھ لیں۔(جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو) وہ کہنے لگے: کیا تم نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حال کیا ہے اے ابراہیم۔آپ نے فرمایا: بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا تو ان (بتوں) سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں۔
بتوں کی ناک کاٹ کر اور ان کے بازو توڑ کر پھر ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کردینا کہ یہ کام اس نے کیا ہوگا ؟ اس سے پوچھو اگر یہ بول سکتا ہے ؟ واقعی یہ ایک کمال کا انداز تھا کہ ایک ایسا کام کیا جائے جس سے وہ بھڑک اٹھیں اور جذبات میں آ جائیں اور اسی دوران اُن کے سامنے ایسے سوال رکھ دئے جائیں کہ جس کے سامنے وہ خود لاجواب ہوجائیں اور اُن کی عقل خود ہی ان کی لوح ِدل پر یہ لکھ دے جو خود بول نہیں سکتے ، خود کی حفاظت نہیں کرسکتے تمہاری حفاظت کے کیا خاک ضامن ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ الفاظ خوش بخت اروح کے لئے حق کے پیغام کو قبول کرنے لئے بہت اہم ثابت ہوئے۔ چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم یہ بت بھلا کیسے بول سکتے ہیں کہ جواب دیں ۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:۔
ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔تف ہے تم پر (بھی) اور ان (بتوں) پر (بھی) جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیاتم عقل نہیں رکھتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب نے کئی لوگوں کی عقلوں پر پڑے پردے وا کر دئے اور انہیں راہ حق سے روشناس کرا دیا ۔ تاہم اکثریت نے اپنی شقاوت قلبی کی بدولت حق کو نہ پہچانا اور الٹا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشق ستم بنایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان پر بدعا نہیں کی اور نہ ہی ان پر عذاب کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ بلکہ صبر وتحمل سے کام لیا ۔ یہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذات بابرکات سے خود گری کے مرحلے کا بیان ہے ۔ کہ مصائب و آلام میں صبر و تحمل ہی وہ وہ بنیادی او صاف ہیں جن سے بندے کی خودی کی تعمیر یعنی تعمیر ِذات ہوتی ہے۔کفار بولے کہ انہیں آگ میں جلا دو ،جس کا بیان قرآن مجید نے یوں کیا:۔
وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو)۔
کفار آگ جلا چکے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آ گ کی جانب پھینک بھی چکے ۔ یہاں پھر قدرت خداوندی نے آگے بڑھ کر دکھایا کہ صاحب ِ خودی کی حفاظت وہ کیسے کرتا ہے ! وہ کیسے خود گیری کے مقام پر انہیں سرفراز کرتا ہے۔ ابھی وہ فضا میں ہی تھے کہ حکم الہی آیا:۔
ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔اور انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ بری چال کا ارادہ کیا تھا مگر ہم نے انہیں بری طرح ناکام کر دیا۔
رب کریم نے اپنے خلیل علیہ السلام کا ساتھ دیا کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔یہی وہ صبر تھا جس کا پھل آگ کے گل وگلزار ہونے کی صورت میں مل گیا۔ بس آگ کا گل وگلزار ہونا تھا کہ کچھ لوگوں کی عقل پر پڑے پردے ہٹ گئے۔انہوں نے خود کو پہچان لیا کہ وہ کون ہیں !اور ان کا حقیقی رب کون ہے ۔ اور اہل شقاوت انگشت بدنداں تھے کہ وہ کیا توقع کر رہے تھے اورکیا ہوگیا! یہ آگ گلزار کیسے ہوگئی ؟ اسی کی جانب حضرت اقبالؒ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
جب بندہ یہ تین مرحلے طے کر لیتا ہے تو پھر بندہ مولا صفات بن جاتا ہے ۔ جس کی جانب اقبال اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
خاکی و نوری نہاد، بندہِ مولا صفات
ہر دوجہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہِ آفاق میں، گرمیِ محفل ہے وہ
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر بندہ وہ عظمتیں حاصل کر لیتا ہے جس کا بیان حدیث قدسی میں یوں ہوتا ہے:۔
( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارِ کشا و کارساز
اس مقام ِ علو کے انعام کی جانب حضرت اقبال اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
بندہ جب یہ سارے مراحل طے کر تے ہوئے اپنی خودی کو ان کمالات سے متصف کرلیتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچتا ہے کہ اس کے لئے موت حیات ِ جاوداں کا حسین پیغام بن جاتی ہے۔ جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقبال کہتے ہیں:۔
خطیب ہو یا نعت خوان فی زمانہ زبانیں غیر محتاط ہوچکی ہیں۔ ایسی کہ الامان و الحفیظ۔ ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ ’’ معراج شریف کی کسی محفل میں کسی خطیب نے خطاب میں کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تشریف لے گئے‘‘۔ تو وہاں اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ بھی موجود تھے تو آپ سے رہا نہ گیا اور فورا ٹوکتے ہوئے فرمایا ’’ خطیب صاحب رب کی بارگاہ میں اس کا بندہ حاضر ہوا کرتا ہے۔‘‘ یعنی فضائل کے تذکروں میں الفاظ کے چناو میں مراتب کا لحاظ لازمی ہوتا ہے۔
خالق کائنات کی ایسی تعریف کرنا کہ ’’ جس سے اس کے انبیاء کی شان میں تنقیص ہوتی ہو ‘‘ نامناسب ہے۔ جیسے یہ کہنا ’’ اللہ کو کسی نبی یا و لی کی ضرورت نہیں۔‘‘ نامناسب ہے۔ کیا اللہ تعالینے کہیں پر بھی اپنی تعریف ایسے الفاظ میں بیان کی ؟؟؟ اگرچہ وہ غنی ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن اس کی غنی کو ایسے انداز میں بیان کرنا کہ جس سےرب کے پیارے انبیاء و اولیاء کی شان میں تنقیص آتی ہو نامناسب ہے۔ اس کی غنی کا بیان کئی اور مناسب طریقوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح خالق کا مخلوق سے تقابل کرنا یا اس کا شائبہ تک ذہن میں لانا حرام و ناجائز ہے۔ قطرے کا سمندر سے موازنہ و تقابل کیا جاسکتا ہے کیونکہ قطرے کو سمندر سے کوئی نہ کوئی نسبت ضرور ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ لیکن اہل سنت تو خالق کی جانب مخلوق کی یہ نسبت بھی نہیں مانتے کیونکہ مخلوق کا کوئی فرد بھی خالق کا جز نہیں ہے وہ لم یلد ولم یولد ہے۔ وہ ایسے تمام تصورات سے سبحان ہے۔
اگر کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کررہا ہو تو اس فضیلت کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام فضیلتیں دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں ہیں۔ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان ہورہے ہوں اور کسی شخص کو یہ شائبہ لاحق ہو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا سے ملانے کا شبہ ہے۔ تو ایسے شخص کو اپنے ذہن اور نفاق سے بھرے دل کا علاج کروانا چاھئے۔ کیونکہ جب اللہ و رسول کے تقابل کا شائبہ تک گناہ ہے تو اس کا ذہن تقابل کی جانب گیا ہی کیوں!
اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تعریف کرنا کہ جس سے دیگر انبیائے کرام کی تنقیص ہوتی ہو تو ایسی تعریف قلب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ یہی اصول اولیائے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء کے فضائل پر بھی ہے۔ اسی طرح آج کسی مسلمان کا یہ کہنا کہ ’’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عبد القادر جیلانیؒ کی کیا اوقات ہے ‘‘ انتہائی نامناسب اور نازیبا حرکت ہے۔ کیونکہ یہ تقابل ایسا قول کرنے والا کے قلب و ذہن کے فساد کی پیداوار ہے، ورنہ کوئی امتی بھی ایسا تقابل نہیں کرتا۔
یہ ’’ اوقات‘‘ کا لفظ ایک منفی تاثر کا لفظ ہے جو اونچی شانوں والے اسلاف کی شان کے خلاف ہے۔ تقابل کا یہ فساد و فتور تو تمہارے اپنے دماغ کا پیدا کردہ ہے اور اس کا سارا الزام تم اسلاف پر دھر دیتے ہو۔ تم سے بڑھ کر بھی کوئی بے وقوف ہوگا بھلا! ایسے الفاظ تم اونچی شان والوں کے لئے استعمال کرو یہ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اہل سنت میں حفظ مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور یہ اہل سنت کا شعار ہے۔ الفاظ کا چناو حد درجہ محتاط ہونا چاھئے۔
لوگ کہتے ہیں فلاں بندہ ایسی نئی بات کرتا ہے جو پہلے کسی مولوی نے نہیں بتائی۔ یہ مولوی جھوٹے ہیں سچا تو وہ بندہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’دین میں نئی بات لانا ہی جھوٹ کی واضح علامت ہے‘‘۔ دین کے امور کے اپنی دکان چمکانے والا دریوزہ گر نئی بات کیوں کرتا ہے ؟ اس کے پیچھے ایک وجہ ہے اور وہ ہے شہرت کی ہوس۔ اگر وہ بندہ بھی کہے روزہ مغرب کے وقت افطار کرو تو اسے کون سنے گا۔ کیونکہ یہ بات ہر مولوی کرتا ہے۔ اس میں کچھ نیا نہیں۔ اور یہ زمانہ تو ویسے بھی کچھ نیا کر گزرنے کی جستجو کا ہے بھلے وہ دین کے ساتھ کھلواڑ ہی کیوں نہ ہو۔
عقل مند مسلمان یہ سوچتا ہے کہ لاکھوں علما نے اگر یہ بات نہیں کی آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ لاکھوں کے لاکھوں اور سارے زمانے کے علما ہی جھوٹے ہوں اور اس زمانے کا لفنگا اٹھے اور اوٹ پٹانگ دعوے کر ے اور گاما سچیار قرار پائے۔
اسی طرح اگر گزشتہ کسی زمانے میں کسی امام نے کوئی رائے دی ہو جسے امت کے جمہور علما نے قبول نہ کیا ہو اور وہ قول شاذ قرار پایا ہو۔ اور لوگ اسے بھول چکے ہوں اور صدیوں بعد کسی زمانے میں کوئی بندہ اٹھ کر وہی شاذ قول پکڑ کر امت کے جمہور کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو وہاں بھی نئی بات والا ایلیمنٹ ہوتا ہے۔ عقل مند وہاں بھی سوچتا ہے کہ اگر یہ قول مناسب ہوتا تو مجھ سے زیادہ علم و عمل رکھنے والے علما اسے یوں نہ رد کرتے۔ آخر کوئی ایسی وجہ ہوگی کہ علمائے امت نے اسے دھتکار دیا جو آج میرے علم میں نہیں۔
حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے ۔۔۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں نیا یہ ہے کہ وہ نہیں آئیں گے۔ انکار کر دیں۔
امام مہدی تشریف لائیں گے ۔۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں نیا یہ ہے کہ وہ نہیں آئیں گے ۔
نامحرم مرد و عورت کا ایک ساتھ گھومنا پھرنا مصافحہ کرنا، بوس و کنار کرنا حرام ہے ۔۔۔۔مولوی روز کہتے ہیں ۔۔۔۔ کچھ نیا نہیں نئی اور بریکنگ نیوز یہ ہے کہ کلچر کے نام پر یہ سب جائز ہے۔
نمازیں اور اس کی رکعتیں ۔۔۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں۔۔روز سنتے نئی بات یہ ہے کہ نمازیں تو صرف فرض رکعت ہیں باقی سنتیں، وتر، نفل فضول ہیں۔
اس طرح کئی امور ہیں جن میں شعبدہ بازوں نے جمہور امت کے خلاف نئے موقف اختیار کئے تاکہ لوگوں کو کچھ نیا ملے اور انہیں شہرت ملے۔ اور دیکھ لیں آپ کا معاشرہ سب سے زیادہ انہی کو دیکھتا ہے۔
ایک جگہ مجمع لگا ہو جس کی ایک جانب کوئی عالم دین کھڑا ہوکر کہے ’’ کتا حرام ہے‘‘، اسی مجمع میں دوسری جانب اگر کوئی آواز دے کہ ’’ نہیں ۔ کتا حلال ہے‘‘ اور وہ کوئی عالم بھی نہ ہو لیکن رعب ڈالنے کے لئے 10 کتابیں ہاتھ میں اٹھا رکھی ہوں۔۔ تو مجمع حلال والے کے ہی دلائل سنے گا اور اسی کی طرف منہ کرے گا۔ حرام کی رٹ لگانے والے کو بھلا کس نے سننا ہے کہ اس کے پاس کچھ نیا نہیں۔ میں نوجوانوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ بات چلی آرہی ہے کہ بلندی سے بغیر پیراشوٹ وغیرہ چھلانگ لگائیں تو بندہ مر جاتا ہے۔ لیکن ایک بندہ آکر کہتا ہے پہلے کے لوگ جاہل تھے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ بلندی سے چیونٹی گرا دیں تو وہ نہیں مرتی۔ تو کیا آپ چھلانگ لگا دیں گے کہ نئی بات ہے اسے قبول کر کے دیکھتے ہیں۔ تو پیارے آپ اگر اس گڑھے میں گر بھی گئے تو بھی اتنا نقصان نہیں کہ جتنا کسی شعبدہ باز کے دھوکے میں آکر دین و ایمان کے حقائق کو چھوڑ کر گمراہی کے گڑھے میں چھلانگ لگانے کا نقصان ہے۔ دین میں اٹھنے والے ان نئے فتنوں سے اپنے ایمان محفوظ رکھئے۔ ایک فتنہ ایسا ہے جو شستہ لہجہ، آلو ورگا داڑھی منڈا چہرہ ہے اور اتمام حجت کا بے اصلا اصول رکھتا ہے۔ دوسرا پگڑی باندھے منہ زور، بدزبان اور بدتمیز لہجہ رکھتا ہے۔
اسلام اور مغرب ‘‘ کے مابین تقابل کی گفتگو میں خاص کر جب بات مغربی استعمار کی چل رہی ہو کہ امریکہ، اسرائیل ، برطانیہ اور دیگر اتحادی مسلم ممالک پر چڑھ دوڑے ہیں ظلم کر رہے ہیں تو عموما دیکھا گیا ہے کہ خود کو مفکر و مدبر قرار دینے والے لبرلز سیکولر اور کچھ بھولے کم مطالعہ والے نوجوانوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ فورا بول پڑتے ہیں ’’جی اہل مغرب بھی تو یہی کہتے ہیں جب تم مسلمان طاقت ور تھے تو تم بھی تو یہی کرتے تھے، کبھی کس ملک پر چڑھ دوڑے تو کبھی کس ملک پر، افغانستان سے کبھی غزنوی نے حملے کئے تو کبھی خلجی نے تخت و تاراج کیا تو کبھی احمد شاہ ابدالی نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ لہذا امریکہ کے پاس بھی جواز ہے کی وہ جہاں چاہے حملہ کرے، انڈیا کے پاس جواز ہے کہ وہ کشمیر پر قابض ہو، اسرائیل کے پاس حق محفوظ ہے کہ فلسطین پر قابض رہیں کیونکہ وہ طاقت میں ہیں جیسے ماضی میں تم مسلمان طاقت میں تھے‘‘ گویا وہ دیسی لبرلز خود کو ’’نیوٹرل‘‘ شمار کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے مغربی آقاوں کے ظالمانہ اقدامات کی شیطانی وکالت میں دلیل دے رہے ہوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک قوی دلیل لگتی ہے۔ اور بعض اوقات کچھ جذباتی احباب کو اس الزامی جواب پر پس و پیش ہوتے بھی دیکھا۔
حالانکہ دیکھا جائے تو یہ دلیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے اور وہ ایسے کہ جواباً آپ ایسے احباب سے یہ کہئے کہ بھائی ’’ پہلے آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ خود کس جانب ہیں؟ ‘‘ باقی بحث اس کے بعد کریں گے۔ آپ کے اس سوال کے بعد اس کے پاس تین آپشن رہ جاتے ہیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو اپنا جواب بنائے۔
۔1۔ وہ بھی مغرب کی جانب ہے یعنی اسلامی نظریے کے خلاف ہے۔ یاد رہے مغرب سے مراد جغرافیائی مغرب نہیں بلکہ یہود و نصاری کی تہذیبی و تمدنی فکر مراد ہے۔لیکن وہ کبھی بھی اس جواب کو اختیار نہیں کرے گا کیونکہ کوئی بھی مسلمان کم سے کم واضح طور پر خود کو اس حد تک نہیں گراتا کہ وہ اغیار کی فکر کا نمائندہ بن جائے۔
۔2۔ وہ اسلام کی جانب ہے۔اس صورت میں ہم اُس سے کہیں گے کہ بھائی جب تم اسلام کی جانب ہو تو پھر ہمیں اس سے کیا غرض کہ مغرب کیا کہتا یا سوچتا ہے۔ ہماری نظر میں مغرب کا اقدام ظلم ہے۔ جبکہ ہمارے اسلاف کے اقدام جہاد فی سبیل اللہ عدل و انصاف کے لئے تھا ۔ اس لئے ہمارے اسلاف ٹھیک تھے اور اس بارے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہے اور نہ تمہیں کوئی شک ہونا چاھیے کیونکہ تم بھی اسلام کی جانب ہو۔
۔3۔ جی ’’میں نہ اِدھر ہوں نہ اُدھر‘‘ میں تو غیر جانب دار جج ہوں ۔ تو اس صورت میں ہم اُس سے کہیں گے کہ بھائی تمہیں جج بنایا کس نے ہے ؟ نہ تو ہم تمہیں جج مانتے ہیں اور نہ ہی اہل مغرب۔ ایسی کنفیوزڈ کیفیت میں مبتلا شخص کو اسلامی نظریے میں منافق کہا جاتا ہے جس کی حالت کے بارے میں قرآن مجید واضح طور پر کہتا ہے
‘‘اس (کفر اور ایمان کے) معاملے میں متذبذب ہیں نہ پورے اِس طرف ہیں اور نہ پورے اُس طرف، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تو ہرگز کہیں راہ نہ پائے گا۔’’
منافقین کی ایسی حالت بیان کرنے کے بعد مومنین کو کہا گیا کہ وہ اپنے لئے واضح پوزیشن اختیار کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
‘‘بے شک منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے، اور تو ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا۔’’
ہمارے اسلاف کے جہاد کی تاریخ کوئی پوشیدہ نہیں ہے۔ غیر مسلم قومیں دعائیں کرتی تھیں کہ ان کے ہم مذہب حکومتوں کے خلاف مسلمان فتح یاب ہوں کہ مسلمان عدل و انصاف دیتے ہیں ظلم نہیں کرتے۔ آپ ذرا تاریخ کے صفحات کھولنے کی زحمت تو کریں۔ضرت عمر ہی کے زمانے میں جب اسلامی فوجیں حمص (شام) سے ہٹ آئیں تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں کو بلاکر کئی لاکھ رقم جزیہ کی یہ کہہ کر واپس کردی کہ اب تمہاری حفاظت نہیں کرسکتے، اس لیے جزیے کی رقم بھی نہیں رکھ سکتے۔ تو وہاں کی عیسائی و یہودی آبادی دعائیں کرتے تھے کہ خدا کرے عیسائی افواج کے خلاف تمہیں فتح نصیب ہو کہ تم عدل و انصاف کرتے ہو۔ ان حقائق کے تناظر میں آپ پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ خود کس جانب کھڑے ہیں باقی بحث اس کے بعد کر لیں گے۔
کورونا کی وجہ سے جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھی۔ تو دیسی لبرلز نے از راہ تمسخر کہنا شروع کردیا تھا کہ ’’طواف کعبہ کی بحالی اور مساجد میں نماز کی دوبارہ ابتداء اب اُس ویکسین پر منحصر ہے جو یہودی تیار کریں گے‘‘۔ اس قول سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ دیسی لبرلز کس قدر مغربی فکر کے قیدی ہیں اور حقائق کو وہ صرف انہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اسلام سے وہ صرف برائے نام جڑے ہوئے ہیں کہ وہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے۔ ورنہ ان کا سارا طرز حیات و معاشرت سب کا سب مغربی تہذیب کے الحادی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔یہ جملہ سن کر ایسے لگتا ہے جیسےیہ بات کرنے والے یا تو خود کو یہودی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو یہ تیر مار لیا۔یا پھر ایسا کہنے والے لوگ ’’شودے‘‘ ہوتےہیں۔
ان دیسی لبرلز کو شودا کیوں کہا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا جملہ یا نشتر ایک ایسے نوجوان کے ذہن سے نکلتا ہے جس نے اگرچہ اسلامی فضا و ماحول میں تو آنکھ کھولی ہو لیکن وہ اسلامی نصوص کا خاطر خواہ گہرا مطالعہ نہ کرسکنے کی بدولت ان کی تعبیرات کی روح سے آشنا نہ ہوسکا ہو۔ اس لئے میرے نزدیک وہ بے چارا قابل رحم ’’شودا‘‘ ہے۔ اس تیکھے جملے کا مقصد صرف اہل مذہب یا مولوی پر وار کرنا ہے۔ حالانکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد اسلامی نظام کے پس پشت چلے جانے کی بدولت اور آزادی کے بعد مغربی آقاوں کے نظام پر چلنے والے ملک میں ’’مولوی یا مدرسے‘‘ کا کبھی بھی ’’ سائنسی علوم اور ایجادات‘‘ کا سرے سے دعوی ہی نہیں رہا ۔ صاف ظاہر ہے وہ یہ دعوی کرتے بھی تو کیسے۔ اس کے لئے کافی وسائل درکار تھے۔ اربوں کھربوں کا فنڈ درکا تھا ۔ جبکہ مدارس تو صرف خیرات و صدقات پر ہی اپنا بجٹ پورا کرتے ہیں۔ طالب علم سے فیس تک نہیں لیتے ۔ رہائش اور خوراک کا انتظام بھی مدرسے کے ذمے ہوتا ہے۔ مینجمنٹ کی ڈگری نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے نظام کو وہ ویل مینیج کرتے ہیں۔ معاشرے کے نادارطبقے سے افراد لیتے ہیں اور کسی کو مفتی مفسر محدث اسکالر ، حافظ اور قاری بناتے ہیں وہ بھی بغیر فیس کے۔ یوں وہ نہ صرف معاشرے کے مفید افراد بنتے ہیں بلکہ افراد سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف جدید علوم کی جامعات ہیں۔ ان کے لئے اربوں کھربوں کے فنڈ الگ سے ۔ طلبا کی رہائش کی فیسیں الگ۔ کھانے کے پیسے الگ وصول کئے جاتے ہیں ۔ فنانس کا پورا ڈیپارٹمنٹ بھاری بھرکم تنخواہیں لیتا ہے لیکن اس کے باوجود یونیورسٹیاں خسارے میں ۔ تحقیق کا حال تو یہ ہے کہ بس نہ پوچھیں ۔ انہی جامعات سے فارغ التحصیل ہوکر نوجوان گلے پھاڑ پھاڑ کر مولوی پر چینختا ہے کہ ترقی کیوں نہیں ہورہی۔ ایجادات کیوں نہیں ہورہی وغیرہ۔ ” چور بھی کہے چور چور” والی کہاوت تو سنی ہوگی۔ شاید وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ الٹا کوئی ان سے نہ پوچھ لے بھیا تم بتاو “قوم کا کروڑوں ڈکار کے تم نے کون سا بلب ایجاد کیا ہے”۔
ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے بالکل بجا کہا ہے کہ ’’کورونا وائرس اہل مذہب کے لئے نہیں بلکہ الٹا لبرلز اور مذہب بیزار طبقے کے لئے چیلنج لایا ہے‘‘ وہ بتائیں کہ دنیا کی اتنی آبادی کیوں مری ۔ بلکہ میرا تو خیال ہے ان لبرلز کو الٹا لٹکا دیں کہ کرپٹ ہیں صرف قومی دولت لوٹی ہے اور بس ۔ جامعات میں تعلیم کے نام پر تعلیم سے زیادہ فحاشی اور الحادی فکر دی ہے۔ ہمارے معاشرے کے نوجوان کو فکری طور پر مفلس کردیا ہے۔ وہ اپنی اصل میراث سے زومبیز کی طرح کٹ چکا ہے۔ نہ تو وہ ہمارا ہے اور نہ ہی وہ اہل مغرب کے کسی کام کا۔ جامعات کا حال تو یہ ہے اردو وہ جانتے نہیں اور انگلش انہیں آتی نہیں۔
مولوی نے کمال کر دیا ہے کہ ان حالات میں وہ عوام الناس کو اللہ کی جانب آنے کی فکر دے رہے۔ لوگوں کو صبر و تحمل کا درس دے رہے ہیں ۔ وہ اگر یہ نہ کرتے تو کیا یاس و قنوط میں ڈوبے لوگ جس طرح پینک ہورہے تھے ان لال بجھکڑوں سے سنبھلنے تھے ۔ الٹا ینگ ڈاکٹرز احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ علاج نہیں کریں گے۔ ہڑتال کی دھمکیاں دے رہے۔ یہ ہیں جناب آپ کی سائنسی جامعات سے پڑھ کر تیار ہونے والے اعلی ذہن جنہیں شاید بنیادی اخلاق کا بھی علم نہیں کہ نوکری کی آفر قبول کرنے کے بعد ان کے پاس یہ حق اخلاقی طور پر بھی نہیں ہے کہ وہ علاج سے انکار کریں۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مولوی / ملا پر بہتان نہ لگائیں ۔ اپنے گریبان میں جھانکیں کہ تم نے کیا کیا ہے۔
یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ کورونا ویکسین کی دریافت ایک مسلمان سائنس دان جوڑے نے کی جن کا تعلق ترکی سے ہے۔ ہمیں تو خوشی ہوئی تاہم یہ خبر دیسی لبرلز کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں بے چارے منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہے۔ ویسے انہیں اگر کورونا ہوجائے تو مر جانا چاھئے ویکسین نہیں خریدنی چاھئے۔ ہاں اگر یہ ویکسین یہود و نصاری دریافت کرتے تو ہم مسلمان خرید لیتے کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں حکم دیتا ہے۔
فتنے یکے بعد دیگرے اتنی تیزی سے نکل رہے ہیں جیسے ٹوٹی تسبیح کے دانے یکے بعد دیگرے بکھرتے ہیں۔اللہ اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل ہمارے ایمان کا تحفظ فرمائے۔ ایمان کا تحفظ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں ہے۔ اور اس مقدس محبت کی علامت اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ فی زمانہ فکری و نظریاتی فتنوں اور دھوکوں سے بچنے کے لئے درج ذیل نکات پر عمل کی جئے۔
۔1۔ سب سے پہلے اپنی طبیعت اور رویوں میں وہ عاجزی اور انکساری پیدا کی جئے جو بندہ مومن سے مطلوب ہے۔ خود کو ذاتی انا، تکبر اور ’’ میں ‘‘ کی قید سے آزاد کی جئے۔ اس کے لئے مجرب نسخہ لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین لاحول ولا قوةالا بالله العلی العظیم کا ورد ہے۔ ۔2۔ اگر آپ عالم دین نہیں ہیں۔ اور عامی ہیں بھلے پی ایچ ڈی ہیں۔ ایک بات اپنے ذہن میں ڈال لیں کہ شریعت کے امور میں آپ ایک عام مسلمان ہیں جسے شریعت کے احکام و دیگر امور کے سلسلے میں کسی جید عالم دین کی رہنمائی کی بالکل اسی طرح ضرورت ہے جیسے دوسری فیلڈ کے لوگوں کو آپ کے فن میں آپ کی رہنمائی کی حاجت ہوتی ہے۔
اس کے بعد سوال آتا ہے کہ فتنوں اور شیطان کے دھوکے کی پہچان کیسے ہو؟
نئے فتنوں کے اور شیطانی فریب کے عموما طریقہ واردات یہ ہوتے ہیں:۔
۔1۔ ہم کسی فرقے کی بات نہیں کرتے۔ ۔2۔ ہم صرف قرآن کی بات کرتے ہیں۔ ۔3۔ ہم صرف علمی کتابی باتیں کرتے ہیں۔ ۔4۔ ہم جو بات جہاں سے اچھی ملے لے لیتے ہیں ۔ ۔5۔ ہم خود قرآن سمجھو تحریک چلاتے ہیں۔
یہ ہیں وہ سلوگن جن کے ذریعے ہر نیا فتنہ ایک نیا فرقہ بن کر اٹھتا ہے۔ اور نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچنے کے لئے پہلے سے موجود امت کے اجماعی امور سے الگ اچھوتی و انوکھی رائے پیش کرتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ خود کو حق پر ثابت کرنے کے لئے کفار و مشرکین اور منافقین کے بارے میں نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پر اپلائی کرتے ہیں۔
معاشرتی سیاسی حالات سے نفسیاتی دباو میں الجھا نوجوان فورا نئی تعبیرات قبول کرتا ہے اور سمجھتا پہلے کے علما گمراہ تھے یہ والا بندہ کوئی مجتہد آیا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جس طرح کا تعلیمی نظام مروج ہے وہاں نئی بات بھلے دینی امور میں ہی کیوں نہ ہو ، خواہ کیسی ہی گمراہ کن کیوں نہ ہو بھلی لگتی ہے۔پرویزی فکر ہو ، غامدیت ہو یا مرزا انجینئر یا دیگر چند افرادی جماعتیں آپ سب کو ان میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی کہ یہ سب وہی سلوگن لے کر اٹھے ہیں جو باطل فتنوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔آج دیکھ لیں یہ سب خود ایک نیافرقہ بلکہ فتنہ بن چکے ہیں۔
امت کے اجماعی امور میں مجتہدین، محدثین ، فقہا کے خلاف اپنی رائے کو حرف آخر قرار دیتے ہیں۔ اسلاف پر زبان درازی میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں۔ امت مسلمہ کی اکثریت کی راہ سے الگ راہ اختیار کرتے ہیں ۔قران مجید نے واضح بتادیا :۔
( اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo)
حق کی پہچان کیسے ہو ؟
حق کے پیغام سے اللہ کے محبوب خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ کی محبت آپ کے دل میں بھرنا شروع ہوجائے گی۔ دل بار بار دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش میں تڑپنے لگے گا۔ اللہ کے بندوں سے آپ کا دل اخلاص و محبت سے بھر جائے گا۔ میں سے میرا بھائی زیادہ عزیز لگنے لگے گا۔ اس کی صورت کو دیکھ کر اللہ کی یاد آئے گی۔جبکہ فتنوں کے پیغام ایسے مبارک اثرات سے خالی ہوتے ہیں ۔ ان کی گفتگو کے بعد عموما یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے پہلے سب علما غلط تھے۔ بلکہ زبان علما کی بجائے تضحیک سے ’’ مولوی ‘‘ بولنے لگتی ہے۔ سب مولوی جاہل ہیں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں باقی سب حقیر ہونے لگتے ہیں اور اس کی اپنی ذات پیاری اور حق پر دکھائی دینے لگتی ہے۔
آپ شاپنگ کرنے جائیں اور کوئی جاننے والا بتائے کہ فلاں دکان پر اگرچہ اصلی مال بھی ہوتا ہے لیکن وہاں دو نمبر مال بھی ملتا ہے۔ وہاں نقلی اشیاء بالکل اصلی کی مانند لگتی ہیں لیکن دو نمبر ہوتی ہیں۔ تو آپ وہاں اس لئے نہیں جاتے تاکہ دھوکہ نہ کھائیں اگرچہ وہاں اصلی مال بھی ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی نئے فتنے چرب زبانی سے اور ملمع سازی سے اپنا پیغام اس انداز میں دیتے ہیں کہ عام بندہ فورا ان کے دام میں پھنس جاتا ہے۔ اس لئے آپ ایسے فتنوں کے قریب ہی نہ جائیں ، انہیں سننے کے لئے وقت ہی برباد نہ کریں کیونکہ یہ آپ کا ایمان برباد کردیں گے۔ ایمان بچانا ہر مسلمان پر فرض یے۔ جیسے آپ شاپنگ میں اپنے مال کی حفاظت میں فراڈ سے بچنے کے لئے ہر جتن کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایمان بچانے کے لئے بھی جتن کی جئے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
اے اللہ! عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، مسیح دجال اور زندگی اور موت کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہوں اورقرض سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو قران مجید کی سورہ المتحنہ میں مذکور ہے وہ مانگنی چاھئے۔
اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ الممتحنہ ۴۔۵)۔
فی زمانہ ہر آن نت نئے فتنے نئی نئی شکلوں اور الگ الگ سلوگن سے نکل رہے۔ ہر کوئی سوشل میڈیا یو ٹیوب پر گھنٹے گھنٹے لیکچر دے رہا ہے۔ نوجوانوں کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نوجوان پریشان ہیں کریں تو کیا۔ ایمانیات کے اعتبار سے انٹرنیٹ جہاں بہتری کا سبب ہے وہیں اس سے کہیں زیادہ ایسے لوگوں کے لئے نقصان کا سبب بھی ہے جن کی دینی بنیاد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دین سے متعلق سننے کے لئے ہر قسم کے بندے کا مواد ایک کلک پر موجود ہے۔ چرب زبان اس قدر ماہر ہیں کہ سادہ لوح کے ایمان متزلزل ہوجاتے ہیں کہ حق کسے کہے اور دھوکہ کسے قرار دے۔ میرے کچھ شاگردوں نے رہنمائی چاھی تو انہیں فردا کچھ تجاویز دیں۔ تاہم مناسب سمجھا کہ یہاں سب نوجوانوں کے لئے شیئر کر دوں۔
اللہ تعالی نے قلب ایک ایسا آلہ دیا ہے جو شک کی باتوں پر کبھی بھی قرار نہیں پاتا اور حق بات ہو تو قلب مطمئنہ کی مانند سکون ہوجاتا ہے۔حق و باطل کی پہچان میں اس دل سے کام لی جئے ۔ لیکن چند باتوں کا خیال بھی رکھیں۔ کسی بھی نئے فتنہ پرور بندے کے حق و باطل پر ہونے کے لئے مندرجہ ذیل امور کی طرف دھیان دیں۔
۔1۔ قران و سنت کو سمجھنے میں اسلاف (صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین) کا منہج ہی حق ہے۔ کیونکہ اسلام 1400 سال قبل مکمل ہوچکا۔ جو منہج اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کو، ان سے تابعین ، ان سے تبع تابعین کو ملا وہی بر حق ہے۔ باطل کی پہچان یہ ہے کہ جب آپ اسلاف کے منہج پر رہنے کی بات کریں گے تو وہ فورا کہیں گے ’’ کفار بھی حضرت محمد ﷺ سے یہی کہتے تھے ہم اپنے آباء کو کیوں چھوڑیں ‘‘ ۔ کم علم کم مطالعہ کا نوجوان لاجواب ہوجاتا ہے۔ حالانکہ آسان جواب یہ ہے کہ ۔۔۔۔ آپ ان سے کہیں ۔۔۔ حضور ﷺ تو اس وقت1400 سال قبل نیا دین برحق لائے تھے جس پر کفار اپنے باطل آباء کے دین پر بضد رہنے کا کہتے تھے۔ اور ہم تو الحمد للہ اسی نبی کریم ﷺ کے دین بر حق پر پہلے سے قائم ہیں جو ہمارے اسلاف کے واسطے سے ہمیں ملا۔ تم چونکہ نئے باطل دین کی دعوت لائے ہو اس لئے ہم اسے قبول کیوں کریں؟ کیونکہ اب کوئی نیا دین نہیں آئے گا ۔ تم چونکہ حق کے طریقے سے گمراہ ہو اس لئے تمہارا راستہ ابلیس کا راستہ ہے۔
۔2۔ اس بندے کی گفتگو اگر دل میں شکوک و شبہات پیدا کرے۔ احکام شریعت سے متعلق نت نئے تصور دے تو سمجھ جائیں یہ ابلیس ہے جو تمہیں قرآن سمجھانے آیا ہے۔ اب ابلیس کیا سمجھائے گا اہل عقل خوب جانتے ہیں۔
۔3۔ اگر ہر بندے کا عربی علوم کے بغیر قران مجید خود سے سمجھنا ممکن ہوتا تو اللہ کتاب نازل کردیتا ۔۔۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نہ بھیجتا ۔ قرآن مجید کہتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا تمہیں قرآن مجید کی تعلیم دے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے جو تعلیم دی جو حکم سمجھایا اور جیسے سمجھایا اسے سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا گیا۔ سنت کے انکار کا مطلب قرآن مجید کی نبوی تعلیم کا انکار ہے۔ جو بذات خود قرآن کا انکار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جھوٹ کا شکار ہوگئی اور بدل دی گئی تو پھر معاذ اللہ یہ اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہے کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا کہ جاکر لوگوں کو قرآن کے احکام سکھائے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سکھا چکا تو ان کے بعد اللہ تعالی نے دین کو یتیم کر کے چھوڑ دیا اور اس کی حفاظت ہی نہیں کی۔
عام آدمی کے لئے قرآن خود سمجھو کا جملہ خود جہالت پر مبنی ہے۔ سوچیں جب صحابہ کرام کو قران سمجھنے کے لئے ایک معلم (نبیﷺ ) کی ضرورت پڑی تو آج کون ہے جو کہے کہ وہ معلم کےبغیر سمجھ سکتا ہے۔
۔4۔ بندے کی گفتگو کے موضوع پر دھیان دیں۔ اگر تو وہ ایسے موضوع چھیڑتا ہے جس کا تعلق عملی زندگی کی بھلائی سے نہیں، تعمیر کردار سے نہیں ۔ فکر آخرت سے نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے حصول سے نہیں۔ اللہ کے بندوں کو رشتہ اخوت کی لڑی میں پرانے سے نہیں ۔ بس امت کے حساس موضوعات کو اس انداز سے چھیڑتا ہے کہ لوگوں میں فساد پیدا ہوجائے۔ ایسی انوکھی باتیں کرتا ہے جو اسلاف کی تعلیمات سے دور ہے۔ بولے تو زبان درازی کرے۔ اسلاف کو یکسر غلط قرار دے اور کہے میری تعبیر ہی درست ہے۔ گفتگو کا مقصد محض الفاظ کی جگالی ہو کہ لوگوں پر اس کا رعب و دبدبہ قائم ہوجائے۔ تو سمجھ جائیں یہ ابلیس کے لشکر سے آیا ہے۔ کیوں کہ اہل حق کا ایک سادہ سا جملہ بھی زندگیوں میں انقلاب بپا کردیتا ہے۔ نگاہ اٹھائیں دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی محفل سے نکلیں تو ہر آدم خود سے بہتر محسوس ہوتاہے۔ وہ اللہ کے بندوں کو توڑنے کے نہیں جوڑنے کے کام کرتے ہیں۔
۔5۔ گفتگو کے نتائج پر دھیان دیں ۔ اگر تو اس کی گفتگو آپ کا اپنے رب سے ٹوٹا تعلق جوڑ دیتی ہے یا پہلے سے قائم تعلق باللہ کو اور زیادہ مضبوط کرتی ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو بڑھا دیتی ہے اور دل کو نرم کرتی ہے۔ اور اللہ کے بندوں سے متعلق تمہیں نرم خو کرتی ہے، پاکیزہ کردار کے مبارک اسلاف سے محبت پیدا یونے لگتی ہے۔ تو سمجھیں وہ حق پر ہے۔ اگر اس کی گفتگو سے آپ کے دل میں صرف اس کی اپنی شخصیت کا اثر بنتا ہے کہ بڑا بولنے والا ہے قابل ہے وغیرہ۔ لیکن رب سے تعلق نہیں جڑتا یا پہلے سے قائم تعلق باللہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دل سختی مائل ہونے لگتا ہے۔ زبان بے ادبی کی جانب چلنے لگتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ ناز سےمتعلق الفاظ کا چناو غیر محتاط ہونے لگتا ہے۔ فکر آخرت کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا ۔ اور طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے ڈیپریشن بڑھنے لگتا ۔ ایمان کی دنیا کنفیوز ہوجاتی ہے۔ تو سمجھ لیں یہ ابلیس کی دنیا کا بندہ ہے۔ جو قرآن کے نام پر ، دین سمجھا نے کے نام پر تم سے تمہارا ایمان لینے آیا ہے۔ اہل حق کو سنا جائے تو دل کی لوح پر اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ثبت ہوجاتا ہے کہ پھر دنیا کوئی طاقت بھی اسے کھرچ نہیں سکتی۔
یہ ہیں وہ چند مور جن کی طرف توجہ رہے اور ساتھ ہی دل میں حضور نبی رحمت ﷺ سے محبت اس طرح اجاگر ہو کہ دل ک یقین حاصل ہو کہ اس پاکیزہ محبت کے سوا باقی سب کچھی فضول ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ حضور نبی رحمت ﷺ کے دامن سے وابستہ رہنے سے ہی ہے۔
وہ طبقہ جو مرزا انجینئر جیسوں کو ’’ عالم ‘‘ سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مرزا اس لئے ٹھیک ہے کہ وہ کہتا ہے ’’ سب کو سنو اور فیصلہ کرو کہ جس فرقے سے جو اچھی بات ملے قبول کرو‘‘۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں ایک خارجی (یعنی اسلام سے باہر دیگر مذاہب کے مقابلے میں) اور ایک اندرونی ( اسلام کے اندر دیگر مسالک کے مقابلے میں )۔
خارجی پہلو
آئیے ذرا اس سوچ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کیا یہ سوچ پہلی بار مرزا نے دی ہے ؟ نہیں بالکل نہیں۔ اسلام کا تو پہلے دن سے ہی اصول یہ رہا ہے کہ پچھلے ادیان سے اچھی چیزوں کو قبول کیا اور رہنے دیا لیکن ان معاملات کو اسلامی اصولوں پر ڈھال دیا تاکہ شرعی اصولوں سے تصادم ختم ہوجائے۔ اور اسلاف فقہائے اسلام نے یہی روش رکھی اور آج تک یہ روش جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں چیز فلاں مذہب میں اچھی ہے ؟ کیا علوم شریعت سے نابلد عام مسلمان کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عقل پر یہ فیصلہ کرے۔ نہیں بالکل نہیں۔
کیوں ؟ اسے یوں سمجھئے کہ جب بندہ کسی شدید مہلک مرض میں مبتلا ہو تو کیا میڈیکل سے نابلد مریض کو طبیب سے مشورہ کئے بغیر دوائیوں کا انتخاب خود کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اتنی ساری میڈیسن ہیں وہ خود منتخب کر لے جو اچھی لگے؟ جواب ہے نہیں کیونکہ جان کا معاملہ ہے ممکن ہے وہ غلط میڈیسن یا غیر متعلقہ میڈیسن کا انتخاب کر لے تو جان ہلاکت میں پڑ جائے گی۔ تو جناب یہ ایمان کا معاملہ ہے اگر اس میں غیر عالم مسلمان کو اس کی ذاتی پسند و ناپسند کی خواہشات پر چھوڑ دیا جائے تو غلط انتخاب کی صورت میں ایمان تو گیا پھر۔ ممکن ہے اُسے عیسائیت و یہودیت اور اسلام میں سے یہودیت پسند آجائے تو پھر کیا وہ یہودی بن جائے اور اُسے حق مذہب قرار دے۔ اگر آپ کہیں کہ نہیں حق و باطل کا یہ اختیار صرف مسلم فرقوں سے متعلق ہیں۔ تو اُس پر ہم کہیں گے جناب ذرا وہ دلیل تو بتائیے جس کی وجہ سےآپ اس فیصلے کا اختیار مختلف ادیان کے معاملے میں نہیں مانتے اور مسلم فرقوں کے لئے تسلیم کرتے ہیں؟ تو ان کی جانب سے لمبا سکوت طاری ہوجاتا ہے گویا ان کی سیٹی گم ہوگئی ہو۔ اگر حق و باطل کا فیصلہ ہر بندے کی اپنی عقل پر چھوڑنا ہی منشائے الہی ہوتا تو پھر نبی ﷺ مبعوث کرنے اور قرآن مجید نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔پھر توحضور نبی اکرم ﷺ کو معلم اخلاق بنا کر بھجنے میں کوئی حکمت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ ہر بندے نے اچھے اخلاق کا فیصلہ اپنی عقل کی بنیاد پر کرنا تھا۔ لیکن آپ ﷺ کو بھیج کر قدرت نے واضح کردیا کہ وحی الہی کی ہدایت کے بغیر حق و باطل کا فیصلہ ممکن ہی نہیں اور اس کے لئے کسی نہ کسی معلم کی رہنمائی لازم ہے۔
دوسرا امر یہ بھی ہے کہ ’’ فیصلہ خود کرو‘‘ کی رٹ لگانے والے خود ساختہ مفکرین پھر کس لئے تقاریر کرتے پھرتے ہیں۔مقالہ جات لکھتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ وہ خود فیصلہ کر لیں۔ گھنٹوں یوٹیوب پر لگا کر ریکارڈنگ کرنے والے یہ لوگ کمائی کے لئے کوئی اور کام ڈھونڈیں۔ اس پر وہ کہیں گے ’’ جناب ہم تو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں کہ خود فیصلہ کیسے کریں‘‘۔ اس پر ہماری بھی یہی گزارش ہے کہ علمائے حق کے لئے بھی یہ حق تسلیم کرلیں کہ وہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ ’’ آپ جیسے فتنہ پرور لوگوں کی تقلید کی بجائے حق کی تقلید کریں اور یہ فیصلہ کرنے میں وہ ان کی رہنمائی کریں۔
خلاصہ یہ کہ بندے کو اس کی عقل و خواہشات پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر بندے کو اس کی خواہشات پر چھوڑ دیں تو پھر وہ شریعت کا مطیع نہیں رہے گا بلکہ اپنی خواہشات کا بندہ بن جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اہم ہیں۔
۔1۔ نوجوان جو علوم شریعہ سے نابلد ہے وہ کس بنیاد پر یہ فیصلہ کرے گا؟
۔2۔’’کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بری‘‘۔ انسانی عقل میں یہ طاقت نہیں کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کرے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ ممکن ہے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے وحی الہی اسے برا کہے اور اس کے الٹ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی عقل جسے اچھا یا برا کہے وحی الہی بھی اسے اچھا یا برا کہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کسی بھی معاملے کے اچھا یا برا ہونے کا حتمی فیصلہ عقل نہیں کرسکتی۔ عقل شک میں مبتلا رہتی ہے اور ایمان کی بنیاد شک پر رکھی نہیں جاتی۔ اس لئے یقین کامل کا ہونا لازمی ہے۔ یقین تک پہنچنے کے لئے وحی الہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وحی الہی نبوت کے واسطے سے بندوں تک یقین کا علم پہنچاتی ہے۔ نبی اپنی امت تک یہ ’’یقین‘‘ علم و حکمت کے ذریعے پہنچاتا ہے۔ اور علما ہی اس علم نبوت کے وارث ہوتے ہیں جو نبی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد نسل در نسل علم کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں حتی کہ اگلا نبی مبعوث ہوجائے۔ اب چونکہ سلسلہ نبوت و رسالت سید الانبیاء و الرسل حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم کردیا گیا اور آپ کے بعد کسی نبی و رسول نے نہیں آنا۔ اس لئے آپ ﷺ نے ’’علم نبوت‘‘ کے لئے اپنی امت کے علما کو اپنا وارث قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج بھی اور قیامت تک کسی بھی معاملے کے ’’حسن و قبح‘‘ کا حتمی تعین وحی الہی سے علم نبوت کی روشنی میں ہی کیا جائے گا اور اس کے لئے علم شریعت کی ضرورت ہوگی جو کہ علمائے اسلام ہیں۔ لہذا اس معاملے کو عام مسلمانوں کی عقل پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کریں کہ دیگر مذاہب سے انہیں جو اچھا لگے وہ اسے قبول کرلیں ۔
انسانی عقل کو بنیاد بنانے والے اہل مغرب نے انسانی عقل کو بنیاد قرا دیا اور سارے فیصلے اسی کی روشنی میں کئے۔ تو ہوا یہ کہ انہوں نے ’’جوا خانے ، قحبہ خانے ، پورن انڈسٹری، ہم جنس پرستی وغیرہ‘‘ کو اچھا قرار دے کر اپنے اپنے ممالک میں قانونی طور پر لیگل و جائز قرار دے دیا۔ جب کہ وحی ان سب کو برائی سے تعبیر کرتی ہے۔ اس لئے انسانی عقل اس بارے میں ناقص ہے۔ مختصر یہ کہ وحی الہی سے کسی امر کے’’حسن و قبح ‘‘ کا تعین کرنے کے لئے عام انسانی عقل نہیں بلکہ قران و سنت کے جید عالم کا علم چاھئے۔ جب جید علما نے واضح کردیا ہے تو پھر اس انتخاب کا معاملہ عام آدمی پر کیوں چھوڑا جائے کہ وہ خود فیصلہ کر لے۔ یہ تو پھر اس کے ساتھ ظلم ہوگا کہ اگر وہ آگ میں کودنا پسند کرے تو اسے کرنے دیا جائے۔ اگر آپ بضد ہیں کہ نہیں جی عام مسلمان کو یہ اجازت ہونی چاھیے تو پھر کل اگر کوئی یہ راگ الاپنا شروع کردے کہ’’ مسلمان کو اجازت ہونی چاھیے کو وہ اپنی پسند کے مطابق اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب اختیار کرے جو اسے اچھا لگے‘‘ تو آپ اسے کس بنیاد پر روکیں گے کہ وہ ایسا نہ کرے؟۔؟ نیز یہ اختیار پھر صرف مذہب کے معاملے میں ہی کیوں ؟ پھر ہر انسانی فرد زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کرنے کے لئے خود مختار ہونا چاھئے۔ بچہ سگریٹ پسند کرے تو اجازت ہو۔ بیٹا یا بیٹی پورن انڈسٹری جوائن کرے تو اجازت ہو۔ اسی طرح دیگر امور میں ہر فرد کو یہ فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاھئے۔
اندرونی پہلو
آئیے ذرا اب مسئلے کے اندرونی ( اسلام کے اندر دیگر مسالک کے مقابلے میں ) پہلو کو بھی دیکھ لیں۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری یہ سب سنی مکاتب فکر ہیں۔ فقہ جعفری یہ شیعہ مکتب فکر ہے جس کہ اندر پھر مزید تقسیم ہے۔ چند لوگ کہتے ہیں ’’ جی سب کو دیکھیں جس کی جو چیز اچھی لگے اس پر عمل کرلو قبول کر لو‘‘ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا بذات خود کوئی قابل ستائش عمل ہے ؟ کیا شریعت کا مقصود بھی یہی ہے ؟ اگر تو واقعی یہ ایک حسین کام ہے جیسا کہ بظاہر جملے سے لگتا ہے تو پھر واقعی کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو ایسا نہیں کرے گا یا ایسا کرنے کی مخالفت کرے گا۔ لیکن پہلے ذرا اس نظریے کی چند صورتیں بنا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ پھر اس کا نتیجہ نکالیں گے کہ یہ کام اچھا ہے یا کسی بڑے فتنے کا سبب بنتا ہے۔
۔1۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ وہ حنفی مسلمان ہے لیکن فقہ شافعی سے اسے کیکڑے اور کچھوے کھانے کا عمل پسند ہے اس لئے وہ کھانے سے متعلق فقہ شافعی کو پسند کرتا ہے اور یوں وہ کچھوے کھانا شروع کردیتا ہے۔ اس آدمی سے پہلے فقہ حنفی اور شافعی والے اپنے اپنے مسلک پر سکون سے عمل پیرا تھے۔ لیکن اس تیسرے بندے نے جو کام شروع کیا ہے یہ فساد پیدا کردے گا۔ کیونکہ اگر وہ خود کو حنفی کہے گا تو احناف غصے ہونگے کہ کیکڑا و کچھوا حرام ہے لہذا تو حرام خور ہوگیا ہے ہم تمہیں حنفی مانتے ہی نہیں۔ دفع ہوجا۔ وہ شوافع کے پاس جائے گا تو فقہ شافعی والے غصے ہوجائیں گے کہ باقی امور میں تو حنفی ہے ہم تجھے کیسے قبول کرلیں۔
۔2۔ ایک آدمی کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اس نے وضو کی حالت میں بیوی کو مس کیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے کسی وجہ سے منہ بھر قے آگئی۔ لیکن اس نے کہا بیوی کو چھونے سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا لہذا میں یہاں حنفی رائے پسند کرتا ہوں اور قے آنے سے چونکہ امام شافعی کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا لہذا یہاں میں شافعی رائے پسند کرتا ہوں۔ اس لئے میرا وضو تو باقی لہذا وہ نماز پڑھ لیتا ہے ۔ اس کی نماز باطل ہوگی نہ فقہ شافعی میں نماز ہوئی اور نہ فقہ حنفی کی رو سے۔ اس نے حقیقت میں دین کی نہیں اپنی ذاتی خواہش کی پیروی کی ہے۔ جو شریعت میں منع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (اور خواہشات نفس کی پیروی مت کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی)۔ اس لئے لازم ہے کہ مجتہد آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے جو قرآن و سنت سے احکام اخذ کرتا ہے اور اس کے اصول وضع کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أنابَ إليَّ ( اس شخص کی اتباع کر جس کا رجوع میری جانب ہو) ۔ اس لئے اب جو شخص دین حق پر عمل پیرا ہونا چاھتا ہے وہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی میں سے مکمل طور پر کسی ایک حلقے کا انتخاب کرے گا۔ اگر وہ اپنی ضد پر آکر خواہشات نفس کی پیروی میں ملغوبہ طرز اپنائے گا تو وہ ایک فتنے کی بنیاد رکھے گا۔کیا نیا فرقہ پیدا کرنا اچھی بات ہے؟ اگر اچھی بات ہے تو پھر پہلے والے فرقے کی بات پر عمل کرنا برا کیوں ہوا۔ اور اگر نیا فرقہ بنانا فتنہ پھیلانا ہے تو پھر بہتر ہے کہ پہلے والے کسی ایک مسلک کو ہی اپنا لیا جائے تاکہ معاشرہ کسی نئے فتنے سے بچ جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں نیا فرقہ ایسی نوعیت کا ہوگا جو آئے روز معاشرے میں کوئی نہ کوئی فساد کھڑا کرے گا۔
ان دو مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے۔ کہ ’’ جہاں سے جو اچھا لگے وہی کرو ‘‘ جیسا بظاہر پرکشش سلوگن حقیقت میں کتنے بڑے فساد اور فتنے کو پیدا کرتا ہے۔ آپ ذرا تحقیق کر لی جئے کہ مرزا انجینئر کے نمودار ہونے کے بعد نوجوانوں میں باہم مذہبی نفرت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔ اللہ کرے گا معاملہ واضح ہوجائے گا۔ اب ذرا ملاحظہ کر لی جئے کہ مرزے کی اڑان تمام مکاتب فکر کے مخالف ہے یا موافق ہے۔ کہیں یہ نیا فتنہ تو نہیں بننے جارہا ۔۔( فتنہ مرزائیت ) ’’ نہ میں فلاں نہ میں ڈھمکاں میں تو علمی و کتابی‘‘ کی وضاحت اسی سلوگن میں ہے کہ میری اڑان ایک اور فرقے کی بنیاد رکھنے کی جانب ہے۔ بے وقوف بنانے کے لئے کہتا کیا ہے ’’ او جی ہم کسی فرقہ واریت میں نہیں پڑتے‘‘ ۔ یا تو وہ خود بے وقوف ہے یا پھر کچھ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ بھیا ذرا سنبھل کے۔
ایک اور زاویہ نظر
آئیے ذرا اب مسئلے کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
۔1۔ ایک آدمی اہل حدیث مسلک کی مسجد میں جا کر آذان دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے آذان سے پہلے صلواة و سلام پڑھنے میں مسلک اہل سنت کی رائے پسند ہے۔ لہذا وہ آذان سے قبل شروع ہوجاتا ہے الصلواة والسلام علیک يا رسول الله ۔ تو سوچئے کیا ہوگا ؟
۔2۔ ایک اہل حدیث آدمی فقہ جعفریہ والوں کی کسی محفل میں چلا جاتا ہے اور وہاں اس کا دل کرتا ہے کہ یزید کو شہزادہ کہے اور رضی اللہ عنہ کہے۔ فقہ جعفری والے کا دل کرتا ہے کہ وہ اہل حدیث کی رائے قبول کرے۔ تو سوچئے دونوں کے ساتھ اہل حدیث و فقہ جعفریہ کیا سلوک کریں گے! اور وہ دونوں کتنے بڑے فساد کا سبب بنیں گے۔
۔3۔ ایک دیوبندی کا دل کرتا ہے کہ وہ اپنی مسجد میں سیدنا غوث اعظم کہے اور ان کی گیارہویں منائے تو سوچیں کیا فتنہ کھڑا جائے گا۔ یہ اور اس جیسے دیگر فتنے جو پیدا ہوسکتے ہیں سب کی بنیاد ہے ’’ مجھے جس مسلک کی جو چیز اچھی لگے قبول کرلوں‘‘ ۔
خود فیصلہ کر ہو یہ درحقیقت ایک ’’ شر‘‘ ہے جس کے دامن میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ کہ یہ نظریہ ایک اور فرقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ اور ایسا فرقہ جو ہر وقت ہر کسی سے فساد میں مبتلا ہوگا۔ نہ میں وہابی، نہ میں دیوبندی نہ میں بریلوی نہ میں شیعہ میں تو بس علمی و کتابی یہ ایک نئے فرقے کا لانچنگ سلوگن یے۔ ابھی تک جو ہوا ہے اور ہو رہا ہے یہ سب اس نئے فرقے کی’’ ان آگریشن سرمنی‘‘ ہے۔ ابھی اس اسٹیج تک ملک کے نوجوانوں میں مذہبی عناد اتنا بڑھ گیا ہے تو سوچیں آگے کیا ہوگا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار اللہ کریم ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو قران مجید کی سورہ المتحنہ میں مذکور ہے وہ مانگنی چاھئے۔
اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ الممتحنہ ۴۔۵)
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
اے اللہ! عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، مسیح دجال اور زندگی اور موت کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہوں اورقرض سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں
حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کی شخصیت جن کے قلم سے تفسیر ضیاء القرآن ، سیرت النبی پر ضیاء النبی ﷺ ، دفاع ِ سنت پر سنت خیر الانام ﷺ جیسی معرکۃ الآراء تصانیف نکلی ہوں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ ایک عظیم مجاہد ختم نبوت بھی تھے۔ تحریک ختم نبوت میں آپ نے سرگودھا جیل کی اسیری بھی برداشت کی۔لیکن ناموس رسالت مآب ﷺ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور علمائے امت کے ساتھ سینہ سپر کھڑے رہے۔ حتی کہ قادیانیوں کو کافر قرار دلوا کر ہی دم لیا۔
قادیانی خود پر سے اس ذلت کے داغ کو مٹانے کے لئے ہر دروازے پر گئے مگر مزید ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہوئی۔1988 میں قادیانیوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کی طرف رجوع کیا اور درخواست دی کہ پاکستان میں ان کو کافر قرار دیا گیا ہے، حالانکہ وہ حضرت محمد ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔لہذا انہیں مسلمان کہا جائے اور پاکستانی حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ آئینی طور پر انہیں کافر قرار دے کر انکے انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں لہذا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں۔جنیوا کمیشن نے حکومت پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کے لئے نوٹس بھیجا۔
اس وقت کے صدر پاکستان جناب صدر ضیاء الحق مرحوم نے اس کام کے لئے علمائے کرام سے مشورہ کیا جس کے بعد جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کو منتخب کیا گیا کیونکہ آپ جید عالم دین ہونے کی وجہ سے اسلامی قانون کے ساتھ ساتھ انگلش زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ لہذا جینوا میں پاکستانی موقف بیان کرنے کے لیے قبلہ پیر صاحبؒ کو بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ پیر صاحبؒ کو صبح کے وقت صدر پاکستان کا پیغام ملا کہ شام کو آپ نے جنیوا روانہ ہونا ہے۔ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے کہا جناب والا قادیانیوں کے اعتراضات کیا ہیں جو کمیشن میں اٹھائے گئے۔ تو صدر پاکستان نے کہا وہ آپ کو جنیوا میں پتہ چل جائے گا۔ پیر صاحب فرماتے ہیں اس عظیم ذمہ داری کے لئے میں روانہ ہوگیا۔ جنیوا پہنچا تو کیس کی تفصیل کا پتہ چلا ۔قبلہ پیر صاحب نے پاکستانی ایمبیسی کے تعاون سے مختلف ممالک کے ان سرکردہ افراد سے فرداً فرداً ملاقات کی جنہوں نے اس کمیشن کے اجلاس میں پیش ہونا تھا۔ قبلہ پیر صاحب نے ملاقات میں ان سب کے سامنے فرداً فرداً یہ بات تفصیل سے یہ بات رکھی :ہم حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں لیکن ہم عیسی علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتا ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے سچے نبی تھے۔ چونکہ ہم حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے ہمیں عیسائی تسلیم کیا جائے ۔ پیر صاحب فرماتے ہیں وہ لوگ بولے کہ ہم آپ کو عیسائی تسلیم نہیں کر سکتے کیونکہ جس نبی پر آپ بنیادی ایمان رکھتے ہیں وہ حضرت محمد ﷺ ہے اس لئے آپ کو مسلمان کہا جائے گا۔ پیر صاحب فرماتے ہیں میں نے کہا : جناب والا اسی وجہ سے ہم قادیانیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ جس شخص کے نبی ہونے پر بنیادی ایمان رکھتے ہیں وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے اگرچہ وہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا ہم نے انہیں غیر مسلم قرار دیا ہے۔ اب آپ بتائیں ہم انہیں کیسے مسلمان تسلیم کریں۔ اس کے علاوہ قانون،آئین اور بین الاقوامی قوانیں کی روشنی میں قادیانیوں کے دیگر الزامات کا جواب بھی دیا۔پیر صاحب فرماتےانہوں نے میرے دلائل پر اطمئنان کا اظہار کیا۔ پھر جب کمیشن میں اس کیس پر بحث ہوئی تو وہاں انہی افراد نے حضور ضیاء الامت کے دلائل پیش کئے جس کی وجہ سے پاکستان کا کیس مضبوط ہوگیا اوراس قانونی جنگ کا نتیجہ 30اگست1988کو سامنے آیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشن نے قادیانیوں کی درخواست کومسترد کر دیا۔ تقریبا ۱۷ ججز میں سے ۱۵ ججز نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور قادیانیوں کو ذلیل و رسوا کردیا۔ البتہ اس نتیجے سے قبل ہی صدر پاکستان ضیاء الحق شہید ہوچکے تھے۔