Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
absiddique111 – Page 14 – Islamic Finance

 نجمِ ہدایت سیدنا حضرت ابوھریرہؓ کا دفاع 

 سیدنا حضرت ابوھریرہؓ کا دفاع 

محمد ابوبکر صدیق

19 – 11 – 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 نجوم محمدی ﷺ کے ایک عظیم نجم حضرت ابوہریرہ ؓکے بارے میں زبان طعن دراز ہوتی دیکھی تو ایمانی غیرت سے رہا نہ گیا اس لیے میں اس جگہ اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم نجم ہدایت کی وکالت کی سعادت حاصل کرہا ہوں۔ یقینا میری زندگی کا یہی ایک عمل ایسا ہوگا جو میری بخشش کا سبب بنے گا۔ المستدرک للحاکم میں ہے 

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: «فَحِرْصُهُ عَلَى الْعِلْمِ يَبْعَثُهُ عَلَى سَمَاعِ خَبَرٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ، وَإِنَّمَا يَتَكَلَّمُ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ لِدَفْعِ أَخْبَارِهِ مَنْ قَدْ أَعْمَى اللَّهُ قُلُوبَهُمْ فَلَا يَفْهَمُونَ مَعَانِيَ الْأَخْبَارِ، إِمَّا مُعَطِّلٌ جَهْمِيٌّ يَسْمَعُ أَخْبَارَهُ الَّتِي يَرَوْنَهَا خِلَافَ مَذْهَبِهِمُ الَّذِي هُوَ كَفْرٌ، فَيَشْتُمونَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَيَرْمُونَهُ بِمَا اللَّهُ تَعَالَى قَدْ نَزَّهَهُ عَنْهُ تَمْوِيهًا عَلَى الرِّعَاءِ وَالسَّفِلِ، أَنَّ أَخْبَارَهُ لَا تَثْبُتُ بِهَا الْحُجَّةُ، وَإِمَّا خَارِجِيٌّ يَرَى السَّيْفَ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَرَى طَاعَةَ خَلِيفَةٍ، وَلَا إِمَامٍ إِذَا سَمِعَ أَخْبَارَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِلَافَ مَذْهَبِهِمُ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ، لَمْ يَجِدْ حِيلَةً فِي دَفْعِ أَخْبَارِهِ بِحُجَّةٍ وَبُرْهَانٍ كَانَ مَفْزَعُهُ الْوَقِيعَةَ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ قَدَرِيٌّ اعْتَزَلَ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ وَكَفَّرَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الْأَقْدَارَ الْمَاضِيَةَ الَّتِي قَدَّرَهَا اللَّهُ تَعَالَى، وَقَضَاهَا قَبْلَ كَسْبِ الْعِبَادِ لَهَا إِذَا نَظَرَ إِلَى أَخْبَارِ أَبِي هُرَيْرَةَ الَّتِي قَدْ رَوَاهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِثْبَاتِ الْقَدَرِ لَمْ يَجِدْ بِحُجَّةٍ يُرِيدُ صِحَّةَ مَقَالَتِهِ الَّتِي هِيَ كُفْرٌ وَشِرْكٌ، كَانَتْ حُجَّتُهُ عِنْدَ نَفْسِهِ أَنَّ أَخْبَارَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِهَا، أَوْ جَاهِلٌ يَتَعَاطَى الْفِقْهَ وَيَطْلُبُهُ مِنْ غَيْرِ مَظَانِّهِ إِذَا سَمِعَ أَخْبَارَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا يُخَالِفُ مَذْهَبَ مَنْ قَدِ اجْتَبَى مَذْهَبَهُ، وَأَخْبَارَهُ تَقْلِيدًا بِلَا حُجَّةٍ وَلَا بُرْهَانٍ كَلَّمَ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ، وَدَفَعَ أَخْبَارَهُ الَّتِي تُخَالِفُ مَذْهَبَهُ، وَيَحْتَجُّ بِأَخْبَارِهِ عَلَى مُخَالَفَتِهِ إِذَا كَانَتْ أَخْبَارُهُ مُوَافِقَةً لِمَذْهَبِهِ، وَقَدْ أَنْكَرَ بَعْضُ هَذِهِ الْفَرَقِ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَخْبَارًا لَمْ يَفْهَمُوا مَعْنَاهَا أَنَا ذَاكِرٌ بَعْضُهَا بِمَشِيئَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»

ترجمہ اور مفہوم ’’ امام ابوبکرمحمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چار طرح کے لوگ بدزبانی اور تنقید کرتے ہیں اول : جہمیہ : جو اللہ تعالٰی کی صفات کے منکر ہے ، جب اپنے کفریہ مذہب کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات سنتا ہے تو عامتہ الناس اور کم عقل لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر سب و شتم اور بہتان طرازی کرنے لگتا ہے ـ یہ باور کرانے کے لیے کہ ان کی احادیث قابل اعتماد نہیں ـ دوم: خارجیہ : جو کسی امام اور خلیفہ کی اطاعت کرنا درست نہیں سمجھتا اور امت مسلمہ میں جنگ و جدال بپا کرنے کی فکر میں رہتا ہے ، ایسا شخص جب اپنے گمراہ مذہب کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث نبویہ سنتا ہے ، تو اس کے پاس حیلہ باقی رہتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کی جائے ـ سوم : قدریہ جو اسلام اور مسلمانوں سے جدا ہو جاتا ہے اور مسلمان جو قضا و قدر پر ایمان رکھتے ہیں ، ان کو کافر قرار دیتا ہے ، ایسا شخص جب اثبات قدر کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث سنتا ہے ، تو اپنے کفریہ اور شرکیہ نظریے کی تائید و نصرت کے لیے اسے یہی دلیل نظر آتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث کے ساتھ دلیل پکڑنا جائز اور درست نہیں ۔ چہارم: جاہل فقیہ یعنی جاہل مولوی : جب اپنے بغیر دلیل و برہان اختیار کردہ تقلیدی مذہب اور امام کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ذکر کردہ احادیث سنتا ہے ، تو ان میں طعن کرتا ہے اور اپنے مذہب کے مخالف ان کی بیان کردہ احادیث کو رد کر دیتا ہے حالانکہ ان کی اس طرح کی مخالفت کرنے کے باوجود اپنے مذہب کی تائید میں ان کی احادیث کو دلیل بنا لیتا ہے ! ان کچھ فرقوں نے حضرت ابوھریرہ ؓ کی ایسی روایات کی نکیر کی جن کی مراد انہوں نے سمجھی ہی نہیں ۔ اور اللہ جل مجدہ کی مشیت کے مطابق میں ان میں سے کچھ کی نشاندہی کروں گا۔‘‘۔

 

قاری حنیف ڈار نے المستدرک للحاکم کی ایک روایت ذکر کی:حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضرت ابوھریرہؓ بلوا یا اور فرمایا کہ آپ جو حدیثیں بیان کرتے ہیں وہ ہم نے تو نہیں سنیں ۔ جس پر انہوں نے عرض کی کہ “امی جان ! آپ تو شیشہ کنگھی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بناو سنگھار میں مصروف رہتی تھیں جبکہ کسی چیز نے بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری توجہ نہیں ہٹائی۔ ” [ المستدرک للحاکم ، حدیث نمبر 6160] قاری حنیف ڈار نے اس روایت کو انتہائی غلط انداز میں پرویزیت کے طریقے پر پیش کیا جو اس کی علمی بد دیانتی پر دال ہے ۔ نیز اس حدیث کے ترجمے میں انتہائی بے ادبانہ تخاطب کے صیغے استعمال کیے گئے۔ جیسے ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے “تو” کا لفظ استعمال کیا ۔ حالانکہ ہر زبان کے اپنے انداز ہوتے ہیں اہل عرب میں” آپ اور تو “کے لیے الگ الفاظ نہیں ہیں جبکہ اردو میں یہ فرق کیا جاتا ہے ۔ اس جگہ دلالت حال بھی یہی بتلا رہی ہے کہ یہاں تخاطب کا ترجمہ “تو” کی بجائے “آپ” کیا جائے۔ کیونکہ حضرت ابوھریرہ ؓنے کلام کاآغاز ” يَا أُمَّاهُ” اے امی جان کہہ کر کیا ۔ ایک بیٹا اپنی ماں کے لیے “تو” کی بجائے آپ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں اپنی ماں کو “تو” کہہ کر مخاطب کرنے والے کو انتہائی غیر مہذب کہا جاتا ہے ۔ قاری حنیف ڈار نے اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے لیے حضرت ابوھریرہ ؓ کے الفاظ کو ” طعن تشنیع ” کے انداز میں پیش کرنے کی مذموم کوشش کی ۔ ان الفاظ کو اگر ایک تناظر میں دیکھا جائے تو یہ طعن نہیں بنتے ۔ ایک وفا شعار زوجہ اپنے خاوند کے لیے بناو سنگھار کرتے رہنے کو اپنے لیے فرض اور اعزاز سمجھتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورتیں اگر ایک دوسرے کو طعنا بھی یہ کہیں کہ ” تم تو ہر وقت اپنے شوہر کے لیے شیشے سے ہٹتی ہی نہیں ہو ” تو وہ اسے طعنہ نہیں سمجھتی بلکہ فخر کرتی ہے کہ ہاں اپنے شوہر کے لیے ایسا کرنا میرا فرض ہے ۔ تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جیس پاکیزہ طیبہ طاہرہ وفا شعار زوجہ کے لیے حضور نبی کریم ﷺ جیسے بے مثل و بے مثال عظیم شوہر کے مبارک قلب و نظر کی تسکین کے لیے سجنے ، شیشے اور سرمہ کی بات طعنہ کیسے ہو سکتی ہے ۔ بلکہ یہ تو ان کے لیے اعزاز ہے ۔ اور اس بات کا ام المومنین نے برا بھی نہیں منایا ۔ لہذا یہ کسی کی بد باطنی ہو سکتی ہے کہ وہ اس گفتگو کو ایک غلط پیرائے میں پیش کرے ۔ دوسرے تناظر میں ان الفاظ سے مراد یہ بھی ہے کہ آپ ہر وقت اپنے مبارک کاشانہ نبوت میں تشریف فرما رہتی ہیں جبکہ میں آپ کی بنسبت حضور نبی کریم ﷺ کی مبارک صحبت زیادہ میں رہتا ہوں۔ اور اس بات کی گواہی بخاری شریف کی یہ روایت ہے

كُنْتُ أَلْزَمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشِبَعِ بَطْنِي، حِينَ لاَ آكُلُ الخَمِيرَ وَلاَ أَلْبَسُ الحَرِيرَ، وَلاَ يَخْدُمُنِي فُلاَنٌ وَلاَ فُلاَنَةُ، وَأُلْصِقُ بَطْنِي بِالحَصْبَاءِ

(میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذیذ کھانے مجھے نصیب تھے نہ عمدہ کپڑا،نہ میرا کوئی خادم اور نوکر تھا،جب بھوک ستاتی تو میں پیٹ کے بل کنکریوں پر الٹا لیٹ جایا کرتا تھا)۔ [الصحیح البخاری، حدیث 5432]۔

 

یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہنے کو ہی ترجیح دیتے تھے جو ان کے کثرت علم حدیث پر دال جس کی بدولت انہوں نے کثرت سے روایت کیا۔

اصحاب ، آئمہ محدثین کی آراء

 حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں حضرت ابوھریرہ ؓ مجھے سے بہتر ہیں اور میں ان کی روایت سے سیکھتا ہوں۔ [تاریخ دمشق، ابن عساکر، دارالفکر بیروت۱۹۹۸، ۶۷: ۳۵۰]۔

 امام شافعی ؒ فرماتے ہیں حضرت ابوھریرہؓ اپنے زمانے کے معاصرین میں سب سے زیادہ حدیث کو یاد کرنے والے تھے۔ [تذکرۃ الحفاظ، علامہ الذھبی، دارالکتب العلمیہ ، بیروت، ۱۳۱۷ھ، ۱: ۳۶]۔

 امام ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے حضرت ابوھریرہؓ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ حدیث کو یاد کرنے والے تھے۔[الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، ابن حجرؒ،دارالنہضہ ، مصر، ۱۹۷۰، ۷: ۴۳۸ ]۔

 

 ان کے علاوہ سینکڑوں قد آور اور محترم آئمہ و محدثین نے حضرت ابوھریرہؓ پر زبان طعن دراز کرنے والوں پر ملامت کی ہے۔

حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ فرماتے ہیں: لا اشک ان اباہریرۃ سمع من رسول اللہ مالم نسمع مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابوہریرہ نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ احادیث سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں۔[الاصابۃ ، ۴: ۲۳۹۱]

 علامہ ابن القیم جوزی ؒ نے مفتی صحابہ کا ذکر کرتے ہوتے کہتے ہیں : ان میں زیادہ فتوی دینے والے بھی تھے اور کم فتوی دینے والے بھی۔بعض صحابہ فتوی دینے میں متوسط درجہ کے تھے ،حضرت ابو ہریرہ کو انہوں نے متوسط فتوی دینے والوں اور حضرت ابو بکر و عثمان و ابو سعید خدری وام سلمہ وابوموسی اشعری ومعاذ بن جبل وسعد بن ابی وقاص وجابر رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں شامل کیا ہے جو شخص کہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھےوہ خود فقہ سے عاری ہے۔[اعلام الموقعین ج۱ص۹]۔

کیا ان اصحاب علم و دانش نے اس روایت کو حضرت عائشہ صدیقہ پر طعنہ قرار دیا ! کیا کسی نے بھی اسی بنا پر آپ کے بارے میں کچھ کہا! قطعا نہیں ۔ بلکہ سب نے ان کی تصدیق کی ہے۔

امام حاکمؒ فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل اکابر صحابہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ زید بن ثابت،ابو ایوب انصاری، ابن عباس،ابن عمر،عبداللہ بن زبیر،ابی بن کعب،جابر ،عائشہ،مسور بن مخرمہ،عقبہ بن حارث،ابو موسٰی اشعری ،انس بن مالک،سائب بن زید،ابو رافع مولیٰ رسول اللہ ﷺ،ابو عمامہ بن سہل ،ابو طفیل ،ابو نضرہ غفاری ،ابو رہم غفاری ،شداد بن الہاد،ابو حدرد،عبداللہ بن حدرد اسلمی ،ابو رز ین عقیلی،واثلہ بن اسقع،قبیصہ بن ذویب،عمر وبن الحمق ،حجاج اسلمی ،عبداللہ بن عقیل،الاغرالجہنی،شرید بن سوید رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ ہیں وہ جلیل القدر صحابہ جنہوں نے حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت کیا ۔ [ المستدرک للحاکم ، حدیث نمبر 6160] حضرت عمرفاروق ؓ اور حضرت ابوھریرہؓ حضرت عمرفاروق ؓ نے غلط فہمی کی بنا پر حضرت ابوھریرہؓ کے بارے میں فرمایا تھا ( اے دشمن خدا) تو یہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر تھا جس کے بعد ان کی دیانت داری پر یقین کرتے ہوئے انہیں گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ [الإصابة في معرفة الصحابة ،۲: ۳۳]

حضرت ابوھریرہ ؓ کے حافظے کا امتحان : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کثرت روایت کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مروان نے امتحان کی غرض سے آپ کو بلوایا۔مروان نے اپنے کاتب أبو الزعيزعة کو اپنے تخت کے پیچھے بیٹھا دیا۔ أبو الزعيزعة کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں بیان کرتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ مروان نے پھر سال کے شروع میں حضرت ابو ہریرہ کو دوبارہ بلوایا اور مجھے پردہ کے پیچھے بیٹھا یا آپ رضی اللہ عنہ سے انہیں حدیثوں کے دوبارہ سنانے کی فرمائش کی ۔آپ رضی اللہ عنہ نے اسی ترتیب سے سنائیں ، کمی کی نہ زیادتی، مقدم کو موخر کیا نہ موخر کو مقدم۔تو میں نے حافظہ کی تصدیق کردی۔[سیر اعلام النبلاء ج3ص522]۔

اس مختصر تجزیے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابوھریرہؓ کی ذات بابرکت ان تمام لزامات سے کہیں بلند و بالا ہے اور کیوں نہ کہ وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ

پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ

 

محمد ابوبکر صدیق

August 30, 2020 – Muharram ul Haram 10, 1442H

………………………………………………………

یہ وہ نعرہ تھا جو تحریک آزادی کی روح تھا۔ ہمارے نظریاتی بزرگوں نے اسے ہماری نسل تک پہنچایا ۔ 80 کی دہائی میں مجھے اپنے بچپن میں 14 اگست کے جشن کے وقت یہ نعرہ یاد ہے۔ یہ نعرہ اپنے اندر پاکستان کے نظریاتی مقاصد کی جھلک رکھتا ہے۔ لبرلز و سیکولرز نے آہستہ آہستہ اس نعرے کو ختم کیا تاکہ اگلی نسلوں تک پاکستان کا اسلامی نظریاتی پیغام نہ پہنچ پائے۔

پاکستان اس لئے نہیں بنا تھا کہ ابلیسی فکر کاشت کی جائے گی۔ شیوخ الحدیث، جید علما و مشائخ، اہل نظر صاحب کردار اسلاف جو انگریزی اور انگریز کی چاکری کے بھی مخالف تھے۔ وہ سوٹ، بوٹ، اور ہیٹ جیسی انگریزی نشانیوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ محدث اعظم نعیم الدین مراد آبادیؒ، پیر سیال ، پیر آف ماننی شریفؒ اور پیر سید جماعت علی شاہ ؒ جن کی دست بوسی کو لاکھوں لوگ جمع رہتے تھے۔ انہوں نے برطانیہ پلٹ سوٹڈ بوٹڈ قائد اعظم محمد علی جناح کو ایویں ای اپنا لیڈر مان لیا تھا کہ چلو سیکولر ملک بنائیں جس میں “ابلیسی سیکولر نسلیں” اگائی جائیں گیں۔ نہیں نہیں بلکہ وہ اس لئے آ کھڑے تھے کہ انہیں مسٹر جناح میں للہیت و اخلاص اور امت کا درد نظر آگیا تھا۔ انہیں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم آگیا تھا کہ محمد علی جناح میرا سپاہی ہے۔

پاکستان کی کہانی 1857 کی جنگ آزادی سے شروع ہوتی ہے۔ اس جنگ آزادی کے روح رواں برصغیر کے علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ سمیت دیگر ہزاروں جید علما تھے۔ جو علم و عمل دونوں میدانوں کے عظیم رجال کار تھے۔ آزادی کی شمع لے کر اٹھے اور جام شہادت نوش کیا۔ حتی کہ ان مجاہدین کی لاشوں کا ایک درخت بنایا گیا۔ تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو اور پھر کوئی علم حریت لے کر نہ اٹھے۔بیشتر مجاہدین علما کو توپوں کے دہانے پر باندھ کر گولوں کے ساتھ شہید کیا گیا۔ لاکھوں فرزندان اسلام نے پاکستان کے پودے کی زمین کو ہموار کرنے کے لئے اپنا لہو چھڑکا ہے۔ جب فرزندان توحید اپنے لہو سے آزاد وطن کی کہانی لکھ رہے تھے تو ان موجودہ سیکولرز و لبرلز کے “نظریاتی بزرچمہر بڑے” اس وقت دین و ایمان بیچ کر انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے۔ مجاہدین کہاں چھپے ہیں؟ کیا کرنے والے ہیں؟ کون کون ہیں ؟؟ کی خبریں اپنے انگریز آقاوں کو دے کر جاگیریں بنا رہے تھے۔ جتنا بڑا غدار ملت ہوتا تھا انگریز اس کہتے جاو فلاں سے فلاں وقت تک گھوڑا دوڑاو جتنی زمین تک گھوڑا دوڑے زمین تمہاری۔ یہ ہیں مادہ پرست سیکولرز کے مفاد پرست ملت فروش بڑوں کی حقیقت۔اس حوالے سے میں آپ کو تجویز کروں گا کہ آپ علامہ عبد الحکیم خان اختر شاہجہانپوری مظہری کی کتاب “ ۱۸۵۷برطانوی مظالم کی کہانی” کا مطالعہ کریں، اس حوالے سے وہ ایک معتبر تاریخی کتاب ہے۔

چودہ اگست 1947 کو پاکستان کی نعمت ملی لیکن اس نعمت کا صدقہ بھی لاکھوں ماوں، بہنوں، اور بیٹیوں نے اپنی عزتوں کی قربانی کی صورت دیا ہے۔ فرزندان توحید کے مبارک لاشے اس پر وارے گئے۔ کیا صرف اس لئے کہ ایسا وطن ملے جہاں ابلیسی نظام کا نفاذ ہو اور لچرپن کے حامل سیاہ رو، سیاہ کردار کھل کر مادر پدر آزاد نظام لاسکیں۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔ وہ جاں نثار اسلاف، مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اس لئے قربان ہوئے کہ خدا کی بستی بسائی جاسکے۔

اپنے عظیم محسنوں کی قربانیوں کو یاد کی جئے۔ اپنے بچوں کو ان مبارک اسلاف کی قربانیوں کی کہانی سنائیے تاکہ ان میں اپنی اگلی نسلوں کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ محسنوں کو بھلا دو گے تو قوم مزید محسن پیدا کرنے سے بانجھ ہوجائے گی۔ اپنے بچوں کی گھٹی میں شامل کی جئے کہ اپنے اسلاف کے مبارک کردار پر نہ خود کیچڑ اچھالیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دیں۔ انہیں نصیحت کی جئے کہ ایسی ہر تحقیق کو دیوار پر دے مارنا جو تمہارے اسلاف کو تمہاری نظر میں ” بونا ” کرنے کی ناپاک جسارت کرے۔ موجودہ دشمن کا یہ اہم ہتھیار ہے کہ وہ گھڑنتو تاریخ کے ذریعے شیطانی وساوس کی بنیاد پر اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں محسنان اسلام و پاکستان کے کردار کو داغ دار کرنے کے لئے پیش پیش رہتا ہے۔ ابلیس نے انہیں یہ اصول دے دیا ہے کہ جتنا بڑا سلف ہو اس پر اتنی بڑی تہمت لگاو اور اسے اتنی بار دہراو کہ بڑا جھوٹ بڑا سچ بن جائے۔ کیوراسٹی کے مارے نوجوان ہر نئی انوکھی بات کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ فورا اسے اچھال دیتے ہیں خواہ اس سے ان کا اپنا پیٹ ہی ننگا کیوں نہ ہو۔ اپنے اسلاف کی عظمتوں کی داستانوں کو اپنی نئی نسل میں منتقل کی جئے تاکہ وہ بھی اگلی نسلوں کے لئے خود کو صاحب کردار سلف بناسکیں۔

نئی نسل کو بتائیے پاکستان مفت میں نہیں ملا تھا۔ ان کے اسلاف میں جس نظریے نے قربانیاں دینے کا جذبہ بھرا تھا وہ نظریہ تھا: “”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ””۔

گلستاں کو جب بھی خوں کی ضرورت پڑی تو گردن ہماری کٹی

پھر بھی کہتے ہیں یہ زاغ و زغن چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں

(شاعر سے معذرت کے ساتھ) 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ کی اہمیت وعظمت

 صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ کی اہمیت وعظمت

 

محمد ابوبکر صدیق

August 30, 2020 – Muharram ul Haram 10, 1442H

………………………………………………………

خاتم الانبیا و المرسلین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کو گزشتہ انبیاء کی تبلیغ سے کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی ۔۔۔ کیونکہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج، اس کا دائرہ کار، سب کچھ یکتا ہے ۔۔۔۔صرف آپ کو ہی الیوم اکملت لکم دینکم کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔۔۔ اور صحابہ وہ ہیں جنہیں تحصیل تکمیل دین کی سند عطا کی گئی اور انہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن نبوت کی تکمیل کی گواہی لی ۔اور ان میں سے کسی بھی ایک کی اقتداء کامل کو ہدایت قرار دیا۔ یہ عظمتیں تاریخ انسانی میں نبوت کے بعد کسی بھی بشر کو نہیں ملیں۔ اللہ تعالی نے خودیہ فرما کر انہیں عزتوں سے نواز دیا  

 أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22) ۔المجادلة

  (یہ وہ (اصحابِ رسولﷺ) ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے (پتھر پر لکیر کی طرح) ایمان لکھ دیا ہے اور نصرتِ غیبی سے ان کی تائید فرمائی اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وہ اللہ کا لشکر ہیں اور سن لو اللہ کا لشکر ہی کامران ہونے والا ہے۔)

 

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۔الفتح ۲۹

  (’’محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا،وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔‘‘ )

 

هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (62) وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (63) ۔الانفال

  (ووہی ہے جس نے آپ کو (براہ راست) اپنی مدد کے ذریعے اور اہل ایمان کے ذریعے طاقت بخشی (جو آپ کی پیروی کرتے ہیں)اور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے۔

  (صحابہ کرام کی خطاوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی معاف کردیا گیا بلکہ غزوہ میں خطا ہوئی تو بعد میں بارگاہ لایزال سے معافی کی نوید بھی جبریل امین لائے۔ غزوہ بدر کے قیدیوں سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل کیا اگرچہ بعد میں واضح ہوا کہ اللہ جل مجدہ کی رضا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشورے کے موافق تھی لیکن اس کے باوجود رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کی نوید سعید انہیں ہی سنائی گئی۔ یہ سارے معاملات آنے والی امت کے لیے سبق تھے کہ دیکھ لو تم نے جن مبارک ہستیوں کی تقلید کرنی ہے وہ نگاہ ناز صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ ہیں جنہیں کامیابی کی سند لامکاں سے عطا ہوئی ہے۔ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی کلاس اور صف اول کے شاگرد صحابہ کرام ہی ہیں جن سے متعلق گمراہی یا دنیا کی رغبت کا صرف وہم و گمان ہی گمراہ کن ہے۔ رحلت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر استغفر اللہ العظیم باقی صحابہ پر گمراہی کا داغ لگاتے ہیں تو پھراستغفر اللہ العظیم کسی اور کے راہ راست پر رہنے کی کیا دلیل رہ جاتی ہے۔ جس طرح زبان نبوت سے فضائل حضرت علی شیرا خدا رضی اللہ تعالی عنہ کے ثبوت ہیں اسی طرح اسی مبارک زبان حق ترجمان سے دیگر اصحاب کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں انفرادی اور اجتماعی فضائل بھی موجود ہیں۔ اگر صف اول کے صحابہ پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو یہ درحقیقت خود شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہے۔ حالانکہ یہی وہ صحابہ ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر اپنے مبارک مشن کی تکمیل کی شھادت لی تھی اور اپنے کریم رب سے مخاطب ہو کر عرض کی تھی کہ مالک تو گواہ رہنا ۔ جن کی شھادت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کریم رب کو گواہ بنایا گیا اگر وہ ہی گمراہ ہوگئے تھے تو پھر جناب اسلام 1400 سال پہلے ہی ختم ہوچکا تھا معاذ اللہ۔

صحابہ و اہل بیت میں باہم محبت و مودت

تاریخ یعقوبی میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،سبط ِ رسولؐ سیدنا حسن بن علی ؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ان سے خوش طبعی کرتے اور فرماتے۔

بأبِيْ، شَبِیْه بِالنَّبِيِّ، غَیْرُ شَبِیْه بِعَلِيٍّ‘‘ (ج۲ ؍ص۱۱۷)۔

  (میرا باپ فدا ہو، یہ تو حضرت نبی کریمﷺ کے مشابہ ہے، حضرت علی کے مشابہ نہیں ہیں

امیر المومنین حضرت عمرؓ نے تقسیم کا حکم دیااور بذاتِ خود حضرت حُسینؓ کو ایک ہزار درہم پیش کئے جبکہ اپنے فرزند عبداللہؓ کو فقط پانچ سو درہم دئے جانے کا حکم دیا۔ عبداللہ ؓ نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین’’میں ایک مضبوط آدمی ہوں۔اُس وقت بھی تلوار سے لڑتا تھا جب سرکار دوعالمؐ حیات تھے اور حُسین ؓ ایک بچہ تھا۔پھر یہ امتیاز کیوں۔‘‘ امیرالمومنین ؓ حضرت عمر ؓ نے فرمایا، ’’حُسین ؓ کی برابری کرنی ہے تو جاو پہلے حُسینؓ کے نانا جیسا نانا لاو، ان کی نانی جیسی نانی لاو، ان کے باپ جیسا باپ لاو، ان کی ماں جیسی ماں لاو، ان کے چچا جیسا چچا لاو، ان کی پوپھی جیسی پوپھی لاو، ان کی خالہ جیسی خالہ اور ان کے ماموں جیسے ماموں لاو۔

‘‘حضرت عمرؓ کے دور ِ خلافت میں جب ایران فتح ہواتو وہاں گرفتار کی گئی ایران کے بادشاہ نوشیروان عادل کی پوتی بی بی شہر بانو کی قسمت کا ستارہ بھی چمک اٹھا۔مال غنیمت کے ساتھ شہر بانو بھی امیر المومنین ؓ کے سامنے پیش کی گئیں۔ بی بی شہر بانو نے ہزار ہا روپے کی مالیت سے بنا ہیرے جواہرات کا لباس زیب تن کیا تھا۔ سب منتظر تھے کہ امیرالمومنین ؓ کے حکم سے یہ حور کس کو ملتی ہے۔ یہاں بھی حضرت عمرؓ نے حُسینؓ کی عظمت کا خیال کیا اور فرمایا، ’’آج تک یہ دنیا کے بادشاہ کی پوتی تھی ، اب میں اس کو دین کی شہزادی بناتا ہوں۔اس طرح حضرت عمر ؓ نے شہر بانو کو حضرت حُسین ؓ کی خدمت میں پیش کیا۔

امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھا: أیھا الناس أخبروني من أشجع الناس؟ ”لوگو! مجھے بتاؤ کہ سب سے بڑھ کر شجاع اور دلیر کون ہے؟” اُنہوں نے جواب دیا: اے امیرالمومنین!آپ ہی شجاع ترین انسان ہیں۔ آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا معاملہ ہے اس میں اتنی حقیقت ہے کہ ) میرا جس کسی دشمن سے مقابلہ ہوا میں نے حساب برابر کردیا لیکن تم مجھے أشجع الناس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کون ہے؟ حاضرین نے کہا : پھر ہم نہیں جانتے، لہٰذا آپ ہی بتائیں کہ وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے بعد آپ نے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی گرفت سے چھڑانے کی پاداش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے المناک انجام اور آپ کے صبر و استقلال کا واقعہ سنایا اور پھر اتنا روئے کہ آپ کی چادر تر ہونے لگی۔ پھر آپ نے کوفی سامعین سے کہا: ”میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتاؤ : ” مؤمن ِآلِ فرعون بہتر تھا  یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟” حاضرین کوئی جواب نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا: ”تم جواب کیوں نہیں دیتے، اللہ کی قسم! حضرت ابوبکرصدیق ؓ  کی وہ گھڑی جس میں اُنہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش سے چھڑانے کی پاداش میں خوفناک مار کھائی تھی آلِ فرعون کے مؤمن سے بہتر ہے،کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپائے پھرتا تھااور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کا اعلان کررہا تھا۔” الکنز: رقم۳۵۶۹۰

خلاصہ: زبان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر اہل بیت اطہار کو سمندر میں کشتی کی مانند قرار دیا گیا کہ اسی پر سوار ہوگے تو بچو گے تو اسی مبارک زبان حق ترجمان سے صحابہ کو ستارے بھی کہا گیا کہ جنہیں دیکھ کر کشتی سمندر میں منزل کا تعین کرتی ہے اور منزل پر پہنچتی ہے۔ اس لیے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام میں سے کسی ایک کو چھوڑ دینا گمراہی کا سبب ہے۔ حق صرف یہی ہے کہ دونوں کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

کتب میں تحریف

فقہاء و صوفیاء اسلاف کی کتب میں تحریف

September 01, 2020

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

……………………………………

پرانے زمانے میں جب ابھی پرنٹنگ پریس کا تصور نہیں تھا کسی کتاب کے دیگر نسخے ہاتھوں سے قلم و دوات کے ساتھ لکھنے پڑتے تھے۔ دولت کی ہوس میں مبتلا یا کسی عالم سے بغض و حسد رکھنے والے لوگ جید علما کی کتب تحریر کرتے لیکن اس کی قیمت بڑھانے کے لئے یا انہیں بدنام کرنے کے لئے اپنی جانب سے چند باتیں خود سے اضافی لکھ دیتے تھے جو صاحب کتاب نے نہیں لکھی ہوتی تھیں۔ لیکن وہ باتیں بڑے اہم معاملات پر ہوتی تھیں۔ چنانچہ دوسرے شہروں میں جاکر وہ شہرہ یہ کرتے کہ فلاں امام نے فلاں بات لکھی ہے۔ لوگ حیران ہوجاتے کہ امام صاحب ایسی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ لوگ کتاب خریدتے۔ اس طرح اس تحریف شدہ کتب کے مزید قلمی نسخے تیار ہوتے۔ تاہم یہ تحریف بس چند اضافی جملوں کی حد تک ہوتی تھی۔ بعد میں جب پرنٹنگ کا زمانہ آیا تو مارکیٹ میں وہی تحریف شدہ نسخے کثرت سے موجود ہونے کی وجہ پرنٹ ہو کر مارکیٹ میں پھیل گئے۔ شیخ ابن عربی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں۔ خلاصہ “” امام شعرانی علیہ الرحمہ کے حاسدین نے ان کی کتب میں کفریہ کلمات کا اضافہ کرکے ان پر افتراء باندھا۔ اس وقت کے علما امام شعرانی کے پاس جمع ہوئے اور اصلی نسخے کے ساتھ چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ کفریہ کلمات امام شعرانی کے اپنے نسخے میں نہیں تھے۔

امام سیوطی کہتے ہیں کہ اصحاب تصوف جو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں وہ فقہاء کرام کی اصطلاحات سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ فقہا کچھ سمجھتے ہیں اوراہل تصوف کچھ اور مراد لیتے ہیں۔ زیادہ تفصیل کے لئے الشيخ الأكبر كے دفاع میں دو کتب: 1۔ الرد المتین علی منتقص العارف محی الدین لسیدی عبد الغنی النابلسی۔ 2۔ تنبيه الغبي بتبرئة ابن العربي للحافظ السيوطي. ملاحظہ کی جئے۔ 

الدرالمختار مع ردالمحتار، 238,239/4, دارالفکر- بيروت

یہ ہے شیخ ابن عربی پر امام ابن عابدین کا تبصرہ ۔ اہل تصوف اس بارے میں زیادہ مظلوم ہوئے ہیں۔ ان کی کتب میں بعض کلمات جو شریعت کے متباین ہیں یا تو بعض یہودیوں نے وہ کلمات ان کی کتب میں داخل کر دیئے یا پھر جاہل و زندیق صوفیاء نے۔ تاکہ اپنا غلط موقف درست ثابت کیا جاسکے یا مخالفین کو چپ کرایا جاسکے۔ چنانچہ یہی ظلم خواجہ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے ملفوظات کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ کسی نے فوائد الفواد جو کہ آپ کے ملفوظات پر مبنی کتاب ہے، میں “” چشتی رسول اللہ “” والا واقعہ شامل کردیا ۔ حالانکہ ان ملفوظات کے راوی حضرت نصیرالدین چراغ دھلی ہیں جو شرعی امور میں حد درجہ احتیاط کے عادی تھے حتی کہ اس ان معاملات میں کوئ ان کے شیخ کا حوالہ بھی دیتا تو بلاتکلف فرماتے (اس میں ) قول شیخ حجت نہیں ھے قرآن اور حدیث سے دلیل لاؤ اور ان کے شیخ حضرت نظام الدین اولیاء رح ان کی اس بات پر مسرت اور تصدیق بھی فرماتے یہ کیسے ممکن ھے کہ اتنا محتاط انسان اس ملفوظ کے مضمرات کی طرف متوجہ نہ ھو۔ نیز یہ واقعہ تو اس لئے بھی جھوٹا ہے کہ حضرت معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ کی حیات میں “” چشتی سلسلہ کی اصطلاح ابھی معروف ہی نہیں ہوئی تھی” تو آپ کے سامنے کوئی یہ کلمہ کیسے کہہ سکتا ہے ۔ یہ بعد میں کسی بد بخت نے شامل کیا۔ جہاں تک تعلق ھے ملفوظات کی کتابوں کا ان پر تو جامعات کی سطع پر تحقیقات ھو چکی ھیں ۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ڈاکٹر حبیب احمد ڈاکٹر خلیق نظامی پروفیسر محمد اسلم اور دیگر کئ ایک محقق ” فواد الفواد” کے علاوہ باقی سب ملفوظات کو جعلی سمجھتے ھیں۔ اس پر مزید تحقیق کے لئے یہ لنک ملاحظہ کریں۔

 خلاصہ یہ کہ جن فقہا نے شیخ اکبر کے خلاف فتوے دئے ان کی بنا فقہی اصطلاحی معانی مراد تھے جو کہ شیخ اکبر کی مراد نہ تھے جیسے امام سیوطی نے لکھا ہے۔ دوسرا کام ان بدباطنوں کا ہے جنہوں نے حسد یا دولت کی لالچ میں کفریہ کلمات کا اضافہ کیا ہے۔ آپ خود سوچیں جو بات ہم جیسے نالائقوں کو ہضم نہیں ہوتی وہ بات اتنا بڑا صاحب نظر عالم کیسے کہہ سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہم پر رحم فرمائے۔شیخ اکبر علیہ الرحمہ کو سمجھنے کے لئے ضروری کہ محقق پہلے شیخ اکبر کے  خاص پیراڈائیم کو سمجھے۔ ورنہ وہ ان سے متعلق غلط نتائج پر پہنچے گا۔ ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب نے نہایت عمدہ انداز میں شیخ اکبر کے تناظر پر بحث کی ہے۔ اس مضمون کے لئے یہاں کلک کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

علمائے حق ،لبرلز اور سائنس

علمائے حق ، دین بے زار لبرلز اور سائنس

 

محمد ابوبکر صدیق

June 6, 2019

……………………………

 

کیا واقعی علما سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ہیں یا اس اچھوتے علم کو نہیں جانتے ؟ 

یہ مفروضہ لبرلز اور دین بیزار طبقے نے از خود گھڑا ہوا ہے تاکہ وہ علما پر زبان درازی کر سکیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

حقیقت کیا ہے؟

سائنس اور ٹیکنالوجی ایک ایسا علم ہے جو بتدریج ترقی کرتا ہے ہر لمحے اس میں بدلاو ہے اور یہی بدلاو اس سے متعلق شرعی احکام میں بدلاو کا سبب ہے۔ اور یہ ایک عقلی بات ہے جو آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔

لبرل اور دین بیزار کہتے ہیں مولوی پہلے اسپیکر کی مخالفت کرتے تھے لیکن بعد میں مان گئے ۔ اور اس بات کو لیکر ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے تفصیل آگے آئے گی۔ تاہم سردست اس سوال کو دیکھتے ہین کہ اسپیکر کی ایجاد اتنی دیر سے کیوں ہوئی حالانکہ سائنس تو پہلے بھی موجود تھی ؟ جیسے یہ سوال انتہائی فضول اور جاہلانہ لگتا ہے بالکل ایسا ہی لبرل کا وہ اعتراض فضول اور جاہلانہ ہے۔ ۔۔۔۔ اس بحث سے اصول یہ نکلتا ہے کہ علم میں تدریج ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امور کی حقیقت کھلتی ہے۔(جبکہ لبرل و دین بیزار طبقہ اس اصول سے جاہل ہے)۔

سائنس و ٹیکنالوجی نے عبادات، جنایات اور معاملات الغرض انسانی زندگی کے ہر باب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سب میں اہم اور نزاکت پر مبنی احکام عبادات اور جنایات کے ہیں۔ علمائے حق ان دو معاملات میں سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں عبادات کے رد و قبول کا معاملہ ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کی ساری عبادات ضائع جاتی رہیں اور قیامت کے دن نامہ اعمال غارت ملے۔ اس لیے اس میں احتیاط برتی جاتی ہے۔(لبرل یا دین بیزار چونکہ عبادات کو اہم نہیں سمجھتے اس لیے انہیں احتیاط سے بھی کوئی لگاو نہیں ۔ انہیں صرف دنیا کی دولت اور سفلی خواہشات کی نزاکت کا احساس ہے بس۔)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب سائنس و ٹیکنالوجی کا معاملہ واضح ہوتا جاتا ہے تو اس حساب سے علما سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار کو رد و قبول کرتے آئے ہیں۔ مثلا سپیکر ۔۔۔۔ جب لاوڈاسپیکر ایجاد ہوا تو علما نے اسپیکر کی مطلق مخالفت نہیں کی تھی بلکہ علما اس وقت بھی اپنی تقاریر میں اسپیکر کا استعمال کرتے تھے۔ علما نے صرف دو امور آذان اور نماز میں تلاوت اور تکبیرات میں اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ شرعی اصول یہ تھا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو انسان کی حقیقی آواز میں ہی درست قرار پاتی ہے۔ مصنوعی آواز میں عبادت کا کوئی تصور نہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اسپیکر سے پیدا ہونے والی آواز کی اصلیت کیا ہے ؟
اس سوال کو لے کر علمائے حق نے علمی بحث کے وہ دروازے کھولے جو خود سائنس کے محققین کے لیے نئے باب تھے۔ علمائے حق نے “آواز اور گلے” سے متعلق جن درج ذیل  پہلووں پر بحث کی اُس پر اُس وقت کے سائنس دان خود سکوت میں تھے۔

What is definition of Voice?
What is difference in the pitches of human real voice and voice generated in loud-Speaker?

Human voice travels in Ordinary waves while loud-speaker voice travels in electric waves. Will both voices be considered same voice?

What are the differences in pitch and vibration of both voices?

Echo and its reality, Analysis of Human Voice

اس بارے میں اس وقت کے درویش صفت علمائے حق نے تو سائنس کے اصولوں پر ٹھیک ٹھاک بحث کی جس سے شاید یہ لبرلز اور دین بیزار آگاہ بھی نہیں ہونگے۔ آواز سے متعلق یہ وہ جہات تھیں  جن سے اس وقت کے سائنس دان خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ تاہم  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب معاملہ واضح ہوا کہ لاوڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز اور انسان کی آواز میں صرف پِچ اور وائبریشن   کا فرق ہے۔ اس کے ساتھ دیگر پائے جانے والے فروق عبادات کو متاثر نہیں کرتے لہذا عبادات میں بھی اسپیکر کا ستعمال جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کچھ علما نے علمی بنیاد پر یہ اجازت نہیں دی ۔ کیونکہ جن اختلافات کو انہوں نے بنیاد بنایا سائنس دان خود بھی انہی اختلافات میں تقسیم تھے۔

 لبرلز اور دین بیزار طبقے کی علما کے خلاف ہرزہی سرائی کی یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے یہاں مختصر انداز میں قلم بند کیا ہے۔

علمائے حق نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے آلات کو صرف اسی خاص تناظر میں جانچا ہے۔ جتنی علمی اور باریک بینی سے علما نے بحث کی ہے یہ لبرلز تو شاید اس میں استعمال کی اصطلاحات کو بھی نہ پڑھ سکیں ۔۔زیادہ دور نہ جائیں تو اس صدی کے مجدد اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب زمین ساکن ہےکا مطالعہ کر کے اپنا شوق پورا کرلیں کہ جو شاید ان کم عقلوں سے پڑھی ہی نہ جائے۔ لیکن اعلی حضرت عظیم البرکت نے اس میں سائنسی دلائل کا انبار لگا دیا کہ زمین ساکن ہے اور آپ کے بعد کے کئی مغربی ماہرین فلکیات نے بھی یہی موقف اپنایا کہ زمین ورج کے گرد نہین گھومتی۔ یہ کتاب اپنے دور کی معرکۃ الآراء تصنیف تھی کہ جب سائنسی آلات ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے لیکن نظام شمسی پر اس قدر دلائل پیش کیے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔ لیکن ان کی ہٹ دھرمی یہی ہے کہ  علما سائنس کے مخالف ہیں۔

قمری کیلینڈر کے معاملے کو لے کر حسب معمول جاہل/کم علم وزرا کا کہنا ہے ” ہمیں علما کو سمجھانا ہوگا کہ ٹیکنالوجی اسلام کے خلاف نہیں ” ……. جن بے وقوف لوگوں کو ابھی تک وجہ نزاع ہی سمجھ نہیں آئی وہ بے وقوف کیا سمجھیں گے اور کیا سمجھائیں گے۔ علمائے حق سائنس و ٹیکنالوجی کا کافی فہم رکھتے ہیں ۔ مسئلہ سائنس کی مخالفت کا ہے ہی نہیں۔

اصل مسئلہ کیا ہے ؟

حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ کیا چاند کو دیکھ کر یقینی علم حاصل کرنے کے بعد شرعی حکم پر عمل کیا جائے یا حساب لگا کر ظنی علم کی بنیاد پر عمل کیا جائے؟

علمائے حق کے نزدیک اصل دلیل تو نص ہے کہ حدیث میں رویت کا لفظ آیا ہے جو بدیہی اور صریح لفظ ہے۔ اس کے ساتھ معاون دلیل کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رویت سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اور صرف اسی پر ہی شرعی امر کا دارو مدار ہے۔ قمری کیلنڈر چونکہ شمسی کیلینڈر کی طرح یقینی نہیں ہے بلکہ اس میں اندازہ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے۔ اس وجہ سے قمری کیلنڈر کو شرعی احکام کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا قمری کیلینڈر یعنی فلکیات کے حساب کی بنیاد پر گواہوں کی گواہی رد کی جاسکتی ہے؟

اس بارے میں شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی رائے یہ ہے “ فلکیات کا علم بعض امور میں یقینیات میں داخل ہوچکا ہے تو کئی علما کا موقف ہے کہ کم از کم ان امور میں حسابات سے تعارض حقیقی کی صورت میں گواہ کی گواہی مسترد کی جاسکتی ہے۔ البتہ جہاں ابھی تک فلکیات کا علم ظنیات میں شامل ہے وہاں بدستور گواہ کی گواہی کو فوقیت حاصل ہوگی۔ ہمارے نزدیک یہی موقف درست ہے۔

میری رائے میں اس کے ساتھ ساتھ یہ جہت بھی اہم ہے کہ گواہوں کی گواہی کا فلکی حسابات کے ساتھ فرق کا لیول کیا ہے ؟ معمولی یا غیر معمولی ۔ جیسے چند گھنٹے یا ایک دن یا اس سے زائد کا فرق ۔ علم فلکیات مغربی ممالک کی نسبت مجموعی اسلامی دنیا میں ابھی ترقی پذیر ہے۔ تاہم اسلامی دنیا میں پاکستان میں قدرے بہتر ہے۔اس لیے فلکیات کے حسابات کو بطور قرینہ لیا جاسکتا ہے اور مخالفت کی صورت میں گواہیوں کو رد کیا جا سکتا ہے۔ (یہ اس مسئلے کا سلبی پہلو ہے)۔

جہاں تک ایجابی پہلو کی بات ہے کہ کیا صرف فلکی حساب یا قمری کیلینڈر کی بنیاد پر امر شرعی کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟

تو اس بارے میں علما کا یہ فتوی ہے کہ چاند کو انسانی آنکھ سے دیکھنا لازمی ہے اور ضروری ہے تاکہ یقینی علم حاصل ہوجائے۔ صرف قمری کیلینڈر یا فلکی حساب کی بنیاد پر شرعی حکم کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ علم بہر حال ظنی ہے اور ظن کی بنیاد پر شرعی امور کا مدار نہیں ہے۔ ماہرین فلکیات خود بھی یقین سے نہیں کہتے کہ یہ ہوگا اور ایسے ہوگا اور اس وقت ہوگا ۔۔۔ بلکہ وہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ ایسا ہو فلاں وقت ہو ۔۔۔۔۔ تو اس صورت میں شریعت کے معاملات ظن و تخمین پر نہیں چلائے جا سکتے۔

پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں علم فلکیات کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے کہ اس کے حسابات میں ظن غالب ہی رہے گا۔ اور رویت کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہوگی۔ کیونکہ اسلامی اصولِ رویت نصِ حدیث سے ثابت ہے جو دائمی اصول ہے۔

آج مورخہ ۶ جون ۲۰۱۹ کو فواد چودھری کے اگلے دو ماہ کے چاند سے متعلق پیشین گوئی کے اعلان کو کیسے لیا جائے ؟

مسیلمہ کذاب نے بھی صحرا کے سفر میں اپنے قبیلے  والوں کو ایک پیشین گوئی کی تھی کہ وہ چلتے رہیں  آگے انہیں پانی مل جائے گا۔ اتفاق سے وہ پیشین گوئی پوری ہوگئی اور آگے پانی مل گیا تو اُس کذاب نے اسی کو اپنا معجزہ قرار دے دیا  اور جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا تھا۔ بس یہ بھی اسی نوعیت کا معاملہ سمجھیں اور دین بیزار فواد چودھری کے نئے اعلان کو اسی تناظر میں دیکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

اسلام میں جانوروں کی اہمیت اور ان کے حقوق

اسلام میں جانوروں کی اہمیت اور ان کے حقوق

 

محمد ابوبکر صدیق

…………………………..

اسلام کےمعتدل مذہب ہونے کی بنیادی وجہ اُس کا آفاقی مذہب ہوناہے جیسے اللہ جل مجدہ فرماتا ہے؛

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا[السجدة : ۴ ]

  (اللہ جل مجدہ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے (سب) پیدا کیا)

یہ آفاقی اعلان اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیتا ہے کہ حقیقی خالق کون ہے!یہ ایک فطری امر ہے کہ جس نے کوئی چیز خود بنائی ہو تو اسے اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح اللہ جل مجدہ کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہےجیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشادفرمایا؛

الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللَّهِ مَنْ أَحْسَنَ إِلَى عِيَالِهِ (1)

ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا گھرانا ہے۔ پس مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سےپیارا وہ ہے، جو اس کے گھرانے سے اچھا سلوک کرے۔

اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہےجس میں زندگی گزارنے کے آداب سے لے کر مختلف سطحوں تک کے حقوق سے متعلق بڑی باریک بینی سے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔اسلام جہاں انسان کو انسانی حقوق سے آگاہی فراہم کرتا ہے تو وہیں اُسے دوسری مخلوق کے حقوق کی تفصیل بھی دیتا ہے تاکہ روئے زمین پر انسانی قیام کوپر امن رکھا جاسکے۔دیگر مخلوقات کی طرح اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔ شریعت محمدیہ نے چو پایوں، مویشیوں، پرندوں غرض ہر قسم کے جانوروں کے حقوق بیان کیے ہیں۔
نزول قرآن سے قبل اہل عرب کی شقاوت قلبی کی ان گنت داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں ، جن میں سے بعض کاتعلق حیوانات سے ہے۔عرب میں ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ جانورکوکسی چیزسے باندھ کراس پرنشانہ لگاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جانوروں کے گوشت کوناجائزقرادیااورعام حکم دیاکہ کسی ذی روح چیزکواس طرح نشانہ نہ بنایا جائے۔(2) وہ زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ لیتے اور پھر اسے بھون کر کھاجاتے تھے۔ ’’حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) وہاں کے لوگ زندہ اُونٹوں کی کوہان اور زندہ دُنبوں کی چکیاں کاٹتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: زندہ جانور سے جو حصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے۔(3) اس روایت سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام سے قبل اہل عرب کس قدر سنگ دل ہوا کرتے تھے۔
اہل عرب جانوروں کو اندھا دھند قتل کرنے کو عار نہیں سمجھتے تھے۔دو لوگ شرط لگاتے کہ وہ باری باری اپنا اونٹ ذبح کریں گے جو اونٹ ذبح کرنے سے رک جائے گا وہ شرط ہار جائے گا اور پھر وہی مذبوحہ اونٹ دعوتوں میں اڑادیے جاتے اور ایسے واقعات کا ذکر اہل عرب کی زمانہ جہالت کی شاعری میں کثرت سے ملتا ہے۔المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام(11:133) میں ہے  کہ ایک دستوریہ بھی تھاکہ جب کوئی مرجاتاتواس کی سواری کے جانورکواس کی قبرپرباندھتے تھے اوراس کودانہ، گھاس اورپانی نہیں دیتے تھے، اوروہ اسی حالت میں سوکھ کرمرجاتا، ایسے جانورکوبلیہ کہتے تھے۔ جس اسلامی دستورکےنزول کی ابتدا غار حرا پر ہوئی تھی اسی دستور کے ذریعے ایسی سنگ دلی کو مٹادیا گیا اور امن، محبت ، اور رحم دلی کے جذبات کوعملاً فروغ دیا گیا۔

قرآن مجید میں جانوروں سے متعلق اہم معلومات

قرآن مجید کی کم و بیش دو سو آیات مبارکہ میں جانوروں کے حقوق اور فوائد اور ان سے متعلق حلال و حرام کے شرعی احکام کا تذکرہ ملتا ہے۔ کہیں جانوروں کے نام ذکر کیےگئے ہیں تو کہیں مطلق جنس کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا پنتیس (۳۵) جانوروں کا ناموں کا ذکر ملتا ہےجن میں پرند، چرند، حشرات اور جنگلی و پالتو جانور شامل ہیں ۔ پرندوں میں سلوی : بٹیر ، ھدھد : ہد ہد ، غراب : کوا، اور ابابیل ۔آبی مخلوق میں نون و حوت : مچھلی، وہیل، ضفادع : مینڈک ۔جن حشرات کا نام قراان مجید میں آیا ہے ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔

آیت سورۃ اردو نام قرآنی نام شمار
6 البقرہ مچھر بعوض 1
73 الحج مکھی ذباب 2
68 نحل شہد کی مکھی نحل 3
41 عنکبوت مکڑی عنکبوت 4
133 اعراف ٹڈی جراد 5
18 نمل چیونٹی نمل 6
4 قارعہ تتلی فراش 7
133 اعراف جوں قمل 8
107 اعراف اژدہا ثعبان 9

اسی طرح جن پالتو جانوروں کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔

حلت و حرمت آیت سورۃ اردو نام قرآنی نام شمار
حرام 8 نحل خچر بغال 1
حلال 143، 146 انعام بکرا و بھیٹر غنم، نعجہ، ضان و معز 2
حلال 65، 40 یوسف، اعراف اونٹ بعیر، جمل 3
حلال 70 بقرہ گائے بقرہ 4
حلال 29 ہود گوسالہ۔ بچھڑا عجل 5
حرام 259، 8 بقرہ، نحل گدھا حمار، حمیر 6
حرام 176 اعراف کتا کلب

7

اسی طرح وہ جنگلی جانور جن کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔

حلت و حرمت آیت سورۃ اردو نام قرآنی نام شمار
حرام 51 مدثر شیر قسورہ 1
نجس العین 173 بقرہ سور خنزیر 2
حرام 1 فیل ہاتھی فیل 3
حرام 65 بقرہ بندر قردہ 4

قرآن مجید کی بعض سورتوں کے نام بھی جانوروں کے نام پر ہیں جیسے سورہ بقرہ : گائے, سورہ فیل : ہاتھی سورہ, نحل : شہد کی مکھی, سورہ عنکبوت : مکڑی اور سورہ نمل : چیونٹی۔

جانوروں کے حقوق

قیامت کے روز اللہ جل مجدہ انصاف فرمائے گا حتیٰ کہ جانوروں کو بھی ان کا حق ادا کیا جائے گا ۔ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حقوق وصول کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ امام احمد کی روایت میں ہے: ’’جس نے اُسے سینگ مارا تھا۔ (4)‘‘
جانوروں کے ساتھ حسن سلو ک کا حکم
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا؛

 (5)«مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ

جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھا ئے گا تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔

یعنی انسان جو فصل کاشت کرتا ہے اور اس سے جو جاندار بھی مستفید ہوتا ہے حتی کہ فصل کا مالک اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ کتنے اور کون کون سے جاندار اس کی کھیتی سے مستفید ہوئے لیکن اسے اس عمل پر صدقے کا اجر ملتاہے۔ تو جو انسان جانوروں کو پالتا ہے اور ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے تو اس کا اجر کتنا ہوگا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کریم نے بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت بے کراں سے مالا مال فرمایا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر اجر وثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔حضرت سراقہ بن جعشم ؓ کہتے ہیں؛

سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ تَغْشَى حِيَاضِي، قَدْ لُطْتُهَا لِإِبِلِي، فَهَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ إِنْ سَقَيْتُهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ  (6)

میں نے حضور نبی رحمت ﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ ﷺ میں نے بطور خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے۔ اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آ جاتے ہیں۔ اگر میں انہیں بھی سیراب کر دوں تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآ وسلم نے فرمایا : ”(ہاں ) ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے۔
اسی طرح مسلم شریف میں ہے؛

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا، فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ مَاءً، ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ حَتَّى رَقِيَ فَسَقَى الْكَلْبَ فَشَكَرَ اللهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنَّ لَنَا فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا؟ فَقَالَ: «فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ (7)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گذر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے ، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا،اور اس کی بخشش کر دی گئی۔ٍصحابہ کرامؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ کیا ان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک میں بھی اجر و ثواب ہے ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک میں اجر ہے۔

امام طبرانیؒ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛

مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِرَجُلٍ يَحْلَبُ شَاةً، فَقَالَ: أَي فُـلَانُ، إِذَا حَلَبْتَ فَأَبْقِ لِوَلِدِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ أَبَرِّ الدَّوَابِ (8)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دھو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لئے بھی چھوڑ دو یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔

فی زمانہ معاشرے میں یہ رویہ بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ دودھ فروخت کرنے والے زیادہ پیسوں کی لالچ میں گائے بھینس کے ساتھ بہت ہی ظالمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ دودھ نکالنے سے پہلے اس کا بھچڑا صرف اس کی نظروں کے سامنے اس کے قریب لاتے ہیں یا ایک منٹ تک ساتھ چھوڑتے ہیں تاکہ وہ وہ اپنا دودھ چھوڑے اور پھر اس بچھڑے کو زبردستی الگ کر لیتے ہیں اور اسے اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گائے بھینس کو ہارمونز کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں تاکہ اس کی کھیری میں دودھ کا ایک قطرہ تک باقی نہ رہے ۔ اس انجیکشن سے اس بے زبان جانور کو جس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ان شقی القلب دولت کے پجاریوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ پھر اسی انجیکشن کے مضر اثرات عوام الناس تک پہنچتے ہیں ۔ خاص طور پر حاملہ خواتین میں حمل کی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ بچہ جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا اسے بھی اس دنیا کے درندوں کے ظلم کے اثرات پہنچ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ اس دنیا میں آنے سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ جاتا ہے یا پھر اس دنیا میں کسی مرض میں مبتلا ہو کر داخل ہوتا ہے۔ خبر نہیں انسان کی یہ لالچ اور کیا کیا دن دکھائے گی! حضور نبی رحمت ﷺ کے مندرجہ بالا فرمان کی نظر میں اس رویے کو دیکھا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ انسان لالچ میں درندگی کی سطح کس قدر گرجاتا ہے۔
جانور حضور نبی رحمت ﷺ کو پہچانتے تھے کہ یہی ان کے درد کا درماں ہے یہی وہ پیکر لطف و عنایت ہے جو ان کے لیے امان بن کر تشریف لایا ہےچنانچہ سنن ابو داود شریف میں حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے مروی ہے؛

فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ. فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَقَالَ: أَفَـلَا تَتَّقِي اﷲَ فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اﷲُ إِيَهَا، فَإِنَّه شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ(9)

.
’’حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔

جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور ایذا رسانی کی ممانعت

اسلام نے جانوروں کو بھی چین سے جینے کا حق دیا ہےاور انہیں اذیت دینے سے منع کیا ہے ۔ حضرت ہشام بن زیاد کا بیان ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے چند لڑکوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اُس پر تیر چلا رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (10)کیونکہ ایک جاندار کو باندھ کر صرف نشانہ بازی کی غرض سے اسے مارنا کوئی انصاف نہیں ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی جاندار کو (تیر اندازی کے لئے) ہدف مت بناؤ۔(11) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا کہ آپ کا گزر چند لڑکوں یا آدمیوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے دریافت فرمایا: یہ کام کس نے کیا ہے؟ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس پر لعنت فرمائی ہے جو ایسا کام کرے۔(12) امام سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا قریش کے چند جوانوں پر گذر ہوا جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے اور اُنہوں نے پرندے والے سے یہ طے کر لیا تھا کہ جس کا تیر نشانہ پر نہیں لگے گا وہ اُس کو کچھ دے گا، جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو اِدھر اُدھر ہو گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: یہ کام کس نے کیا جو شخص اِس طرح کرے اُس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے، جو شخص کسی جاندار کو ہدف بنائے بلاشبہ اُس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لعنت کی ہے۔(13)

جانوروں کو زندہ جلانے کی ممانعت

حضور نبی اکرم ﷺ نے جانوروں کو جلا کر عذاب دینے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ سنن ابوداود شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں؛

كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِى سَفَرٍفَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرُشُ فَجَاءَ النَّبِىُّ ﷺ فَقَالَ مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ قُلْنَا نَحْنُ. قَالَ إِنَّهُ لاَ يَنْبَغِى أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ(14)

ایک سفرمیں ہم رسول اللہﷺکے ساتھ تھے۔ آپﷺ اپنی حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے دوبچے بھی تھے۔ ہم نے ان بچوں کوپکڑ لیا، تو وہ فرط غم سے ان کے گرد منڈلانے لگا۔ اتنے میں نبی کریمﷺ تشریف لائے توآپ نے فرمایا :اس پرندے سے اس کے بچوں کو چھین کر کس نے اسے رنج پہنچایا ؟ اس کے بچوں کو لوٹادو،اس کے بچوں کو لوٹادو۔اور وہیں آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا جھنڈ دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔آپ ﷺ نے پوچھا اسے کس نے جلایا تو ہم نے عرض کی کہ ہم نے جلایا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: آگ کے مالک (رب) کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آگ کا عذاب دے۔

چیونٹیوں کے بل کو جلانے سے متعلق امام بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک متفق علیہ روایت نقل کی ہے؛

قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ، فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ(15)

” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ( اللہ کے جو ) انبیاء ( پہلے گزر چکے ہیں) ان میں سے کسی نبی ( کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا )، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے ، چنانچہ بل کو جلا دیا گیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح کرتی ہے۔

امام قرطبی ؒ اس واقعے کا پس منظر یوں بیان کرتے ہیں؛

قال علماؤنا : يقال إن هذا النبي هو موسى عليه السلام ، وإنه قال : يا رب تعذب أهل قرية بمعاصيهم وفيهم الطائع. فكأنه أحب أن يريه ذلك من عنده ، فسلط عليه الحر حتى التجأ إلى شجرة مستروحا إلى ظلها ، وعندها قرية النمل ، فغلبه النوم ، فلما وجد لذة النوم لدغته النملة فأضجرته ، فدلكهن بقدمه فأهلكهن ، وأحرق تلك الشجرة التي عندها مساكنهم ، فأراه الله العبرة في ذلك آية : لما لدغتك نملة فكيف أصبت الباقين بعقوبتها! يريد أن ينبهه أن العقوبة من الله تعالى تعم فتصير رحمة على المطيع وطهارة وبركة ، وشرا ونقمة على العاصي (16)

ہمارے علما کہتے ہیں کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نبی حضرت موسی علیہ السلام تھے(تاہم یہ بات یقینی نہیں ہے ممکن ہے کہ وہ کوئی اور نبی ہوں )۔ایک دفعہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ ( پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہو جاتی ہے ، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ ان تعلیم کے لیے کوئی مثال قائم کرے ۔ چنانچہ اللہ جل مجدہ نے(ایک سفر کے دوران)اُن پر سخت ترین گرمی مسلط کر دی ۔یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے ، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹا اور انہیں جگا دیا۔اور اس درخت کو جلوادیا جس کے نیچے چینوٹیوں کا بل تھا۔اس واقعے میں اللہ تعالی نے انہیں حقیقت دکھلادی کہ جب انہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تو پھر سزا باقیوں کو دی ! اس سے انہیں یہ بات سمجھ آگئی کہ اللہ تعالی کی جانب سے سزا و عذاب عمومی نوعیت کا آتا ہے جو مطیع و فرمانبردار کے لیے پاکیزگی و بخشش کا سبب بنتا ہے اور نافرمانوں کے لیے سزاشمارہوتا ہے۔

عقیدے کی اصلاح : فتنہ انکار سنت اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایک نبی سے چیونٹیوں کو جلانے جیسے ظالمانہ فعل کی نسبت عقل کے خلاف ہے لہذا اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ حدیثیں درست نہیں ہیں۔اس اعتراض کاجواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔ پہلا اس طرح کہ اللہ تعالی نے اس واقعے کی نسبت اپنے نبی علیہ السلام کی جانب نہیں بلکہ اپنی طرف کی ہے کہ اس واقعے سے اُس نبی علیہ السلام کی تعلیم کے لیے ایک مثال قائم کرنا مقصود تھا۔ اصول یہ ہے کہ اللہ تعالی جس کام کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے وہ عین حق ہوتا ہےاور مبنی بر عدل ہوتا ہے خواہ وہ ہماری عقل کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا یہاں بظاہر جلانے کا فعل ایک نبی علیہ السلام کی طرف ہے لیکن حقیقت میں یہ کام من جانب اللہ ان سے سرزد کروایا گیا۔لہذا یہ عقیدہ قائم رہتا ہے کہ انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں۔

دوسرا جواب امام قرطبی ؒ کی اس عبارت میں موجود ہے؛

إن هذا النبي كانت العقوبة للحيوان بالتحريق جائزة في شرعه ؛ فلذلك إنما عاتبه الله تعالى في إحراق الكثير من النمل لا في أصل الإحراق(17)

حیوانات کو جلانے کی سزا دینا اُس نبی علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے انہیں جلانے کے فعل پر عتاب نہیں کیا بلکہ زیادہ چیونٹیوں کو جلانے پر عتاب فرمایا۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیائے علیھم السلام معصوم ہوتے ہیں اور وہ شریعت کی جائز امور سے سرِمو انحراف نہیں کرتے۔

امام قرطبی ؒ کہتے ہیں جو جانور اذیت دے اسے مارنا جائز ہے۔ بلکہ موذی جانور کو اس خوف سے کہ کہیں وہ اذیت نہ پہنچائے مارڈالنا جائز ہے (جیسے بچھو ، سانپ وغیرہ) ۔ (18)شریعت محمدیہ ﷺ میں جانداروں کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ جانداروں کو اذیت دینے پر وعیدیں بھی سنائی ہیں بلکہ حضور نبی کریم ﷺ نے بعض ظالمانہ افعال کرنے والوں پر لعنت بھی فرمائی ہے۔ امام بخاری ؒ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛

لَعَنَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ(19)

حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جانوروں کا مثلہ کرے (یعنی اُن کے ناک کان وغیرہ کاٹے)‘‘۔

امام احمد بن حنبل ؒ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی ذی روح کا مثلہ کیا اور پھر اِس گناہ سے توبہ نہ کی(اور اسی حال میں مرگیا) تو اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس کا مثلہ کرے گا۔(20) حضرت شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی چڑیا کو بلا وجہ مار ڈالا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور عرض کرے گی : اے اللہ! فلاںشخص نے مجھے بلا وجہ بغیر کسی فائدہ کے قتل کیا۔(21) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنھما راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے چڑیا یا اُس سے بھی چھوٹا جانور ناحق قتل کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اُس کے متعلق بھی پوچھے گا (تو نے یہ جان ناحق کیوں لی)۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ وہ اُسے ذبح کرے اور کھائے اور (بلا ضرورت صرف شوقِ شکار میں) اُس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔‘‘(22)

حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛

دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ(23)

رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔

اما م نسائی ؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

رأيت فيها امرأة من حميرتعذب في هرة ربطتها فلم تدعها تأكل من خشاش الأرض فلا هي اطعمتها ولا هي أسقتها حتى ماتت ولقد رأيتها تنهشها إذا أقبلت وإذا ولت تنهش(24)

میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی او رجب وہ پشت کرتی تھی تو وہ بلی اس کی پشت کو نوچتی تھی۔

حضرت عبدالرحمن بن عثمان ؓ سے مروی ہے؛

ذَكَرَ طَبِيبٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَوَاءً يُجْعَلُ فِيهِ الضِّفْدَعُ، «فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الضِّفْدَعِ(25)

ایک طبیب نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دوا کا ذکر کیا جس کی تیاری میں مینڈک (کی چربی) استعمال ہوتی ہے، تو حضور نبی کریم ﷺ نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حرام چیزوں سے علاج کرنا جائز ہے؟ اس بات پر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ حرام اشیا سے علاج کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم احناف فقہا کہتے ہیں کہ اگر تحقیق سے یہ بات یقینی ہوجائے کہ علاج اسی حرام کردہ چیز میں ہے تو پھر جائز ہے۔ اس ساری بحث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر وہ فعل جو جانوروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو ناجائز ہے۔حلال جانوروں کے ذبح کرنے میں بھی تکلیف کو کم سے کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

چنانچہ حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں؛

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَه فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَه(26).

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دو باتیں یاد رکھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، سو جب تم کسی شے کا شکار کرو تو اُسے احسن طریقہ سے شکار کرو اور جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔‘‘

امام طبرانی ؒ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛

مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی رَجُلٍ وَاضِعٍ رِجْلَه عَلٰی صَفْحَةِ شَاةٍ، وَهُوَ يَحُدُّ شَفْرَتَه، وَهِيَ تَلْحَظُ إِلَيْهِ بِبَصَرِهَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : أَفَـلَا قَبْلَ هٰذَا؟ أَوْ تُرِيْدُ أَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَتَيْنِ (27)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی ٹانگ بھیڑ کی گردن پر رکھے چھری تیز کر رہا تھا، وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ کام پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ (یعنی چھری اس سے پہلے تیز کر لینی چاہئے تھی)، کیا تم اُسے دو موتیں مارنا چاہتے ہو۔

اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے ذبح کرنے سے قبل چھریوں کو تیز کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چھریوں کو تیز کرنے اور جانور سے اُنہیں چھپانے کا حکم دیا ہے اور مزید فرمایا: جب تم میں سے کوئی (جانور) ذبح کرے تو تیزی سے ذبح کرے۔(28) جانوروں پر یہ رحم انسان کو اللہ کے رحم کا مستحق کردیتا ہے۔ چنانچہ حضرت قرہ بن ایاس ؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے۔ آپ ﷺفرمایا: اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا۔(29) امام طبرانی نے حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے (کسی چیز پر) رحم کیا خواہ چڑیا کے ذبیحہ پر ہی کیوں نہ ہو اﷲ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر رحم کرے گا۔(30)

جانوروں کو چہرے پر داغنے کی ممانعت

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں؛

نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الضَّرْبِ فِي الْوَجْهِ، وَعَنِ الْوَسْمِ فِي الْوَجْهِ(31)

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔
ایک روایت میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے؛

أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ عَلَيْهِ حِمَارٌ قَدْ وُسِمَ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ: «لَعَنَ اللهُ الَّذِي وَسَمَهُ (32)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا ، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ ﷺنے اس کو دیکھ کر فرمایا :اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔

مسلم شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے؛

رَأَی رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ حِمَارًا مَوْسُوْمَ الْوَجْهِ، فَأَنْکَرَ ذَالِکَ، قَالَ: فَوَاﷲِ، لَا أَسِمُه إِلَّا فِي أَقْصٰی شَيئٍ مِنَ الْوَجْهِ، فَأَمَرَ بِحِمَارٍ لَه فَکُوِيَ فِي جَاعِرَتَيْهِ فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ کَوَی الْجَاعِرَتَيْنِ (33)

حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اِس عمل کو ناپسند فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں (جانور کے) صرف اُس عضو کو داغتا ہوں جو چہرے سے بہت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے گدھے کو داغنے کا حکم دیا، سو اُس کی سرین کو داغا گیا، اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہی (جانور کی) سرین کو داغا تھا۔

جانوروں پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادیں

جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیاد ہ بوجھ لادنا جائز نہیں،اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے: صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات کا علم تھا کہ جو شخص جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیادہ بوجھ لادے گا تو اس کو روز ِ قیامت حساب کتاب دینا ہوگا ، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے اونٹ سے کہا : اے اونٹ تم اپنے رب کے یہاں میرے سلسلہ میں مخاصمہ نہ کرنا ، میں نے تم پر تمہاری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں لادا ۔(34) ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پرسکون ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو“۔(35)

حضرت سہل ابن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں؛

مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ًﷺ بِبَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ فَقَالَ : « اتَّقُوا اللَّهَ فِى هَذِهِ الْبَهَائِمِ الْمُعْجَمَةِ فَارْكَبُوهَا وَكُلُوهَا صَالِحَةً(36)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور اور جب یہ تندرست نہ رہیں تو اِنہیں کھا لیا کرو۔

ابنِ ابی شیبہؒ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے تین لوگوں کو خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا : تم میں سے ایک شخص اتر جائے؛کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔(37) یہ اُس صورت میں ہے؛ جب کہ وہ جانور تین آدمیوں کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اگر استطاعت رکھتا ہوتو جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لیے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ)جانی مشقت ومحنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے؛ لہٰذا ان کو ایذا پہنچانا رَوا نہیں ہے۔جس جانور کی خلقت سواری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے وغیرہ تو ان کی سواری کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات

  1. البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين، شعب الإيمان، (دار الكتب العلمية – بيروت1410)، 9: 523
  2. الترمذي، أبو عيسى، سنن الترمذي، (مطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر)، باب ما جاء في كراهية أكل المصبورة، 5: 411
  3.  حواله سابق ، کتاب الصيد، باب ما قطع من الحي فهو ميت، 4: 74
  4. النيسابوري، مسلم بن الحجاج ، صحیح مسلم، (دار إحياء التراث العربي – بيروت)، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم،4: 1997
  5.  البخاري، محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، (دار طوق النجاة الطبعة: الأولى، 1422هـ)، باب فضل الزرع والغرس إذا أكل منه، 3: 103
  6.  ابن ماجة ،محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، (دار إحياء الكتب العربية)، باب فضل صدقة الماء، 2: 1215
  7. النيسابوري، صحیح مسلم، باب فضل ساقی البهائم، 4: 1761
  8.  الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الاوسط،( دار الحرمين – القاهرة)، 1: 271
  9. أبو داود، سنن أبي داود ،کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علي الدواب والبهائم، 3 /23
  10. البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
  11. النيسابوري، ، صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3: 1549
  12. البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
  13. النيسابوري، ، صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3: 1550
  14. أبو داود، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، (دار الكتاب العربي ـ بيروت)، باب فى كراهية حرق العدو بالنار، 3: 8
  15. البخاري، صحيح البخاري، إذا حرق المشرك المسلم هل يحرق ، 4: 62
  16. القرطبي، محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن، (دار عالم الكتب، الرياض، المملكة العربية السعودية، 2000)، 13: 174
  17. حواله سابق
  18. حواله سابق
  19. البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
  20. أحمد بن حنبل ،  المسند، (مؤسسة الرسالة،2001 م)، 9: 474
  21. ا لنسائي، أحمد بن شعيب،  سنن نسائی، (مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب، 1986)، کتاب الضحايا، باب من قتل عصفورا بغير حقها، 7: 239
  22. حوالہ سابق، 7: 206
  23. البخاري، صحيح البخاري، باب خمس من الدواب فواسق يقتلن في الحرم، 4: 130
  24. النسائي، أحمد بن شعيب، السنن الكبرى، (مؤسسة الرسالة)، 1: 574
  25. ابوبكر بن أبي شيبة، مصنف ابن أبي شيبة، (دار الوطن،الرياض،1997م)، 5: 62
  26. الترمذي، سنن الترمذي، کتاب الديات، باب ما جاء في النهي عن المثلة، 4 /23
  27. الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الکبير،( مكتبة ابن تيمية – القاهرة)، 11: 332
  28. ابن ماجة ، سنن ابن ماجه، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 /1059
  29. أحمد بن حنبل ،  المسند، 33: 472
  30. الطبراني، المعجم الکبير، 8 /234
  31. النيسابوري، صحیح مسلم، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه ووسمه فيه، 3: 1673
  32. حواله سابق
  33. حواله سابق
  34. امام غزالی ، احیاء علوم الدین، الباب الثالث فی الآداب، 1: 264
  35.   أبو داود، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم ، 2: 27
  36. حواله سابق
  37. ابن ابی شبی، مصنف ابن ابی شبیة، من کرہ رکوب ثلالة عل الدابة، حدیث:26380

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

Cosmopolitan Fiqh-فقہ العولمی کیا ہے؟

Cosmopolitan Fiqh-فقہ العولمی کیا ہے؟

 

محمد ابوبکر صدیق

April 4, 2020

…………………………………….

آج عقل ِانسانی جس مقام پرپہنچی ہے اور جس سرعت رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ، ابتدائے آفرینش تا ماضی بعید اس کی مثال نہیں ملتی ۔ عقل کا یہ ارتقاء علم کی مرہونِ منت ہے ۔ عقل نے کائنات کے جن سربستہ اسرار کو طشت ازبام کیا ہے وہ ماضی قریب میں عقدہ لاینحل رہ چکے ہیں۔ فی زمانہ علم اورعقل نے وہ پیچیدہ معاملات تک سلجھا دیے ہیں کہ ماضی بعید کے باشندوں کوجن کی بھنک تک نہیں پڑی ہوگی ۔ گزشتہ ایک صدی سے زمانے کی صراحی سے مئے حوادث قطرہ قطرہ اتنی تیزی سے ٹپک رہے ہیں کہ جنہیں صرف زمانے کی تسبیح روز وشب پر ہی شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایجادات کا ایک سیلِ رواں ہےکہ جسے اگرگزشتہ صدی کا انسان دیکھ لے تو ورطہ حیرت میں پڑ جائے کہ ستاروں پر کمند انسان کے لیے کیونکر ممکن ہوا؟ سینکڑوں لائبریریاں ایک چھوٹی سے فیتے یا انگلیوں کے پوروں پر پڑی مائیکرو چپ میں کیسے سما گئیں ؟ مہینوں مسافت کا سفر چند ساعتوں میں کیسے طے ہورہا ہے ؟ شیشے کی اسکرین پر افراد کے اجسام کی تھرتھراہٹ اور دوسری دنیاؤں کے نظارے کیسے ممکن ہوئے؟ تمدن کی اسی ترقی کی بدولت فقہائے اسلام کے لیے بھی عبادات سے لےکر معاملات تک نت نئے چلینجز سامنے آتے گئے ۔لیکن جب صنعتی انقلاب آیا جو بعد میں معیشت و تجارت میں انقلاب کا سبب بناتو بہت سے ایسے مسائل نے جنم لیا جن کا حل اجتہادی آراء پر منحصر تھا ۔

کا مغربی تصور-‘(Globalization)’-عولمیت 

گزشتہ صدی کی استعماری قوتیں اب نئے انداز میں اپنے تصورِ عولمیت کو دنیا پر نافذ کر کے اُن کا استحصال کرنےکی کوشش میں ہیں۔ فی زمانہ یہ کوشش اقتصادیات اور ثقافت کے میدان میں کی جارہی ہےجیسے سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تحت مالیاتی اور بینکنگ اداروں کا قیام ، فلم انڈسٹری اور میٖڈیا ہاؤسز کا قیام وغیرہ ۔نیز اپنے حملے کو مہلک بنانے کے لیے مغرب نے اپنا طرزِحیات اس انداز میں مرتب کیا کہ جس میں انسانی ہوس پرستی کے کوئی اصول مقرر نہیں کیے گئے خواہ اس کا تعلق جنسی تسکین سے ہو یا معاشی تسکین سے۔ انسان کو ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد کردیا گیا ، اس لیےمغرب نے جنسی تسکین کے لیے کسی قانونی بندھن اور معاشرتی تقاضوں کو خاطر میں لائے بغیر کھلی آزادی دے دی صرف ایک قانونی پابندی عائد کردی کہ یہ سب کچھ باہم رضامندی سےہونا چاہیے اور بس۔اس کے علاوہ دیگر پابندیاں تو مذہب نے لگانی تھیں اس لیے مغرب نے مذہب پر ہی پابندی لگادی کہ یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اس طرح مذہب کو ثانوی حیثیت دے کر زندگی کی ترویج میں اُس کا کردار غیر مؤثر کردیا۔اس طرح مغرب نے ایک انسان کو ہوائے نفس کا قیدی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔گویا انسان جنسی تسکین کے لیے بھی آزاد کہ جنسی تفریق کے بغیرجس کے ساتھ، جیسے بھی ، جب بھی اور جہاں بھی جی چاہے وہ تعلقات استوار کرلے۔ اسی طرح معاشی تسکین کے لیے بھی آزاد کہ حلال وحرام کی تفریق کیے بغیر سود، جوا، میسر، عصمت فروشی، جیسے جی چاہے اپنے لیے دولت کمائے ۔ لہذا یہ ہے وہ یکسانیت جو مغربی نظام اپنی گلوبلائزیشن کے ذریعے پیدا کرنا چاہتا ہے۔

کے اثرات-‘(Globalization)’- اسلامی تہذیب پر عَوْلَمه

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر تہذیب کسی نہ کسی حد تک حوداثاتِ زمانہ سے ضرورمتاثر ہوتی ہے، البتہ اُس کے متاثر ہونےکا انداز اُس کی اپنی تہذیبی قوت اور پختگی پر منحصر ہوتا ہے۔چشمِ فلک نے کئی تہذیبوں کو کئی تہذیبیں نگلتے دیکھا ہے اور کچھ ایسی بھی تھیں کہ جنہوں نے حملہ آور تہذیب کو ہی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔اس اعتبار سے اسلامی تہذیب انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ طاقتورترین تہذیب ثابت ہوئی کہ جس پر کئی تہذیبوں نے حملے کیے لیکن یہ نہ صرف محفوظ رہی بلکہ حملہ آور تہذیب کے باشندوں کو بھی اپنی طرف مائل کر لیا،اور کعبے کے لیےصنم خانے سے ہی پاسبان چن لیے۔ اسلامی تہذیب اس اعتبار سے بھی دائمی اوصاف سے متصف ہے کہ یہ اپنے باشندوں کی تربیت توحیدو رسالت، احتساب، جزا وسزا، انسانی تکریم‘ مساوات‘ تقویٰ‘ عفت اور پاکبازی جیسے مضبوط نصاب کے ذریعے کمال منہج پر کرتی ہےجواُن میں ہر زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت، ہمت اور قابلیت پیدا کردیتی ہے۔ مستثنیات اپنی جگہ ہیں اور ان کے اسباب بھی کچھ اور ہیں جو یہاں موضوع بحث نہیں۔ چناں چہ اسلامی تہذیب کا ہی یہ کمال ہے کہ اِس کے علما نے معاصر ترقی کی بدولت نوپیدا مسائل کا حل پیش کرنے کے لیے اپنے اسلاف کے اجتہادات سے استفادہ کر تے ہوئے اجتہادکے میدان میں اجتماعی اجتہاد کی روش کو اپنایا اور امت مسلمہ کی رہنمائی میں اپنا کرداراداکیا اور کر رہے ہیں۔

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ فی زمانہ علم کی دنیا میں فرد کی سطح پر کوئی ایسا فقیہ نہ رہا جسے شرائط ِاجتہاد کا جامع کہا جاسکتا اور جس سے اجتہادکا مطالبہ کیا جاتا۔ مجتہد تو دور کی بات فی زمانہ کوئی بھی فقیہ اصحاب ِتمییز کے منصب پر بھی نہیں کہ جس سے اُمت کی رہنمائی ممکن ہوتی۔لیکن نو پیدا مسائل میں امت کی رہنمائی بھی فقہائے وقت کا فرض منصبی تھا کہ وہ ان مسائل کی نوعیت کو سمجھیں اور کتب فقہ میں منصوص مسائل کی روشنی میں ان کے احکام دریافت کریں۔اسی ضرورت کے پیش ِنظر قومی اور بین الاقوامی سطح پر فقہی تحقیقاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا تاکہ امت مسلمہ کے اجتماعی نوعیت کے نَوپیدا مسائل اجتماعی اجتہاد کے ذریعے حل کیے جائیں۔اس سے فقہ اسلامی کا ایک نیا انداز سامنے آیا کیونکہ ان اداروں نے مسائل کے حل کوپوری امت کے لیے قابل ِعمل بنانے کی کوشش کی ہے ، جس سے ایک نئی فقہ کا وجود عمل میں آیا جسے فقہ العولمی کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

ربیع الاول شریف اور فتوے

ربیع الاول شریف اور فتوے

محمد ابوبکر صدیق

April 4, 2020

……………………………………………

 محرم ہو یا ربیع الاول یا رجب المرجب جیسے ہی یہ مہینے شروع ہوتے ہیں تو چند پس ماندہ ذہنیت کے حامل لوگ ہر بار اِن مہینوں میں ہونے والے امور کے عدم جواز پر نئے عزم کے ساتھ پرانے فتوے انٹرنیٹ سے تلاش تلاش کر کاپی پیسٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں آج آپ احباب کو ایک سوچ دیتا چلوں کہ ذرا غور کی جئے کہ فتوی فتوی کھیلتے ہم کتنا دور نکل آئے ہیں؟؟؟ فتوی لینا پہلے مشکل کام ہوتا تھا لیکن موجودہ سافٹ ورلڈ میں اب فتوے ڈھونڈنا مشکل نہیں رہا۔ “”مفتی اعظم گوگل”” کے پاس ہر طرح کا فتوی موجود ہے۔ بس کاپی اور پیسٹ کرنے کی زحمت کرنی پڑتی ہے اور اس تلاش میں آپ کا عالم ہونا بھی کوئی لازمی نہیں رہا۔ بس انگلیاں چلائیں فتوی تیار ملے گا۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ایک دوسرے کی نکیر میں بات کو شرک و کفر تک پہنچانے کا یہ رویہ، کیا مناسب رویہ ہے؟؟؟ اگر تو فتوی فتوی کا کھیل امت کے بکھرے شیرازے کو یکجا کرسکتا ہے اور امت کی ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کو ایک لڑی میں پھر سے پرو سکتا ہے تو پھر یہ کھیل ضرور کھیلئے۔ ایک امر جو اپنی ذات میں نہ واجب و فرض ہے اور نہ ہی حرام۔ بلکہ وہ اباحت و استحباب کے درجے پر ہے۔تو ایسے امر پر فتوی فتوی کا کھیل سوائے باہمی تنافر و عداوت کے کوئی کار خیر سرانجام نہیں دے رہا اور ماضی کا منافرانہ ماحول اس کا ثبوت ہے۔ تو پھر ہم ایسے امور کو انتہائوں تک لے جانے پر بضد ہوکر کیوں باہم دست و گریباں ہوں۔ خاص کر اس وقت کہ جب دشمن اپنی صفوں کو متحد کرچکا ہے اور ففتھ جنریشن وار شروع کرچکا ہے۔ باہمی اختلافی امور پر ہمارے اسلاف کے رویے کیا رہے؟؟؟ کبھی ان کی پاکیزہ زندگیوں کا بھی مطالعہ کی جئے ۔ یقین جانیے باہمی اختلافی امور پر ہمارے بردبار رویے ہمارے معاشرے کو نیاگان کہن کے اخلاص عمل کی دولت سے مالا مال کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ہمیں جہاد کرنا پڑے گا اپنی انا سے، اپنی میں سے۔ جب ہم اپنی انا کے بت توڑ کر ایک دوسرے کو خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھیں گے تو شاید ہم اپنے لئے سب سے بہترین امت ہونے کے اعزاز کو دوبارہ سے بحال کر سکیں گے۔ فرقہ کب بنتا ہے ؟؟؟ انسان کی نظر جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے ہٹ کر کسی دوسری شخصیت پر جم جائے تو پھر فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن نگاہ اگر خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پر رہے تو امت کی وحدت کا تصور زندہ ہوتا ہے۔ اپنی نگاہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر جمائیے اور ایک دوسرے کے اختلاف رائے کو برداشت کی جئے۔ اللہ کریم ہمیں ہمارے نفس کی محبت کے فریب سے محفوظ فرمائے اور ایک امت بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

آن لائن جماعت کے لئے  لاؤڈ سپیکر سے استدلال

 آن لائن جماعت کے لئے  لاؤڈ سپیکر سے استدلال

 

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

…………………………………….

آن لائن جماعت کا مسئلہ اپنی نوعیت میں بذات خود ایک ایسا مضحکہ خیز امر ہے کہ کوئی بھی صاحب بصیرت ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر اس معاملے کے جو “لتے” لئے گئے ہیں اسی سے اندازہ لگا لیں ۔ لیکن مجھے یہ پوسٹ لکھنی پڑ رہی ہے کہ غامدی احباب ماضی بعید میں سپیکر کے جواز کے معاملے میں جھوٹ بول بول کر اسلاف علمائے کرام پر کیچڑ اچھالنے ، ان پر الزام لگانے اور انہیں جہالت کی سند دینے میں مصروف ہیں۔اس لئے میں نے اہم سمجھا کہ اپنے قیمتی نوجوانوں کے سامنے کچھ حقائق رکھ کر غامدی صاحب کے فریب کا پردہ چاک کروں ۔ اسلاف علما پر جو سخت زبان غامدی احباب کھولتے ہیں۔ غامدی صاحب پر ہمارے الفاظ تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب بذات خود قیام جماعت کے قائل ہی نہیں وہ صرف اس کی فضیلت کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک جماعت کا اہتمام صرف حضور نبی اکرم ﷺ کے وقت خاص تھا۔ آپ کے بعد زید بکر کی امامت کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔ ہاں اگر کروانی بھی ہے تو ریاست کا سربراہ امامت کروائے۔ یہ ہے غامدی صاحب کا موقف ۔۔۔۔۔ جس پر بڑے سوالات اٹھ سکتے ہیں کہ ایک طرف غامدی صاحب کہتے ہیں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف کہتے ہیں ریاست کا سربراہ مذہبی فریضہ امامت سر انجام دے۔ غامدی صاحب خود ہی ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اپنے ہی اصول کی درگت بناتے ہیں۔

سپیکر کی اجازت ” کو لے کر آن لائن جماعت کا ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ کہ ابتداء سپیکر کی مخالفت ہوئی پھر وہی ” مولوی” بعد میں مان گئے۔ اس لئیے آن لائن جماعت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔پہلے تو یہ یقین کر لیں ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔ کیوں ؟ اس کیوں کا جواب میں آگے چل کر دونگا ۔لاؤڈ سپیکر کے معاملے میں غامدی احباب سنی سنائی کے قائل ہیں۔ بے چارے سوشل میڈیا سے باہر تاریخی کتب کا مطالعہ کر تے ہی نہیں ۔ کسی نے جو کچھ بھی کہہ دیا سچ مان لیا صرف شرط یہ ہوتی ہے کہ بس بات علماء کے خلاف ہونی چاھیے ۔

کسی بھی نئے معاملے کے شرعی جواز کے لئے علمائے کرام کا طریقہ کار کیا ہے؟

علمائے کرام اس بارے میں بالکل وہی طریقہ اپناتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ کہ وہ ہر نئے در پیش معالے پر قرآن و سنت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرتے تھے۔ پھر اجماع کی جانب ۔ پھر قیاس ۔۔۔ بالآخر اجتہاد کی جانب ۔ لیکن ہر اصل کی اپنی اپنی شرائط پوری کی جاتی تھیں۔ علمائے کرام بھی بالکل وہی طریقہ اپناتے ہیں۔ کیونکہ فتوی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ ایک شرعی امر پر اللہ کے رسول ﷺ کی نیابت جیسا اہم امر ہے۔ اس میں وقت بھی لگتا ہے اور محنت بھی۔ (البتہ غامدی صاحب کو ہر امر میں مجتہد بننے کی خواہش ہوتی ہے اس لئے وہ کسی بھی شرط کو خاطر میں نہیں لاتے)۔

ماضی بعید میں جب لاؤڈ سپیکر متعارف ہوا تھا تو اس وقت علمائے کرام نے کس معاملے میں سپیکر کی مخالفت کی تھی؟

علمائے کرام نے سپیکر کی مطلق طور پر مخالفت نہیں کی تھی۔ چنانچہ مذہبی اجتماعات میں تقریروں، نعت جیسے امور میں علما ئے کرام خود اس کا استعمال کرتے تھے ۔ علما نے صرف تین امور آذان اور نماز میں تلاوت اور تکبیرات میں اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ شرعی اصول یہ تھا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو انسان کی حقیقی آواز میں ہی درست قرار پاتی ہے۔ مصنوعی آواز میں عبادت کا کوئی تصور نہیں ہے۔


کیونکہ سپیکر کے جواز کے معاملے میں انسانی آواز کے حقیقی یا مصنوعی ہونے کا اخفا تھا جس سے یہ شبہ تھا کہ کہیں اگر یہ مصنوعی آواز ہوئی تو شرعی اصولوں سے انحراف کی بدولت کہیں عبادت کی ادائیگی ہی شک میں نہ پڑ جائے۔ اس لئے علمائے کرام نے عبادات کے معاملے کو شک میں ڈالنا پسند نہیں کیا کیونکہ عبادت کی ادائیگی یقین کی حالت میں کی جاتی ہے۔


چنانچہ علمائے کرام نے فزکس کی دنیا میں آواز سے متعلق نت نئے پہلو اجاگر کر دئے جس سے ان علمائے کرام کی علمی شان کا اظہار ہوتا ہے جسے غامدی احباب سمیت دیگر لبرلز “مولوی کی جہالت” سے تعبیر کرتے ہیں۔

اب سوال یہ تھا کہ اسپیکر سے پیدا ہونے والی آواز کی اصلیت کیا ہے ؟

اس سوال کو لے کر علمائے حق نے علمی بحث کے وہ دروازے کھولے جو خود سائنس کے محققین کے لیے نئے باب تھے۔علمائے حق نے “آواز اور گلے” سے متعلق جن درج ذیل پہلووں پر بحث کی اُس پر اُس وقت کے سائنس دان خود سکوت میں تھے۔

What is definition of Voice?

What is difference in the pitches of human real voice and voice generated in loud-Speaker?

Human voice travels in Ordinary waves while loud-speaker voice travels in electric waves. Will both voices be considered same voice?

What are the differences in pitch and vibration of both voices?

Echo and its reality, Analysis of Human Voice

 

اس بارے میں اس وقت کے درویش صفت علمائے حق نے تو آواز کے سائنسی کے اصولوں پر ٹھیک ٹھاک بحث کی جن کی تفصیل اسلاف علما کی کتب فتاوی میں دیکھی جا سکتی ہیں جس سے شاید یہ لبرلز اور دین بیزار آگاہ بھی نہیں ہونگے۔ آواز سے متعلق یہ وہ جہات تھیں جن سے اس وقت کے سائنس دان خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب سائنسی تحقیقات سامنے آئیں معاملہ واضح ہوا کہ لاوڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز اور انسان کی آواز میں صرف پِچ اور وائبریشن کا فرق ہے۔ اس کے ساتھ دیگر پائے جانے والے فروق عبادات کو متاثر نہیں کرتے ۔ تب جا کر علمائے کرام نے عبادات میں بھی اسپیکر کے استعمال کو جائز قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ علما نے علمی بنیاد پر یہ اجازت نہیں دی ۔ کیونکہ مندرجہ بالا سوالات جن کو انہوں نے بنیاد بنایا تھا سائنس دان خود بھی ان کے جوابات میں اختلافات رکھنے کی بدولت تقسیم تھے۔لبرلز اور دین بیزار طبقے کی علما کے خلاف ہرزہی سرائی کی یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے یہاں مختصر انداز میں قلم بند کیا ہے۔
اب میں یہ اپنے نوجوان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اپنے اسلاف علما کو علم کے علم بردار مانتے ہیں یا پھر وہ لبرلز والی روش پر جانا چاھتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بحث کی جانب جس پر لبرلز اور دین بیزار احباب نے شور بپا کر رکھا ہے کہ جیسے گزرتے وقت کے ساتھ مولویوں نے لاؤڈ سپیکر کو جائز تسلیم کرلیا بالکل ایسے مستقبل میں یہ مولوی آن لائن جماعت کا جواز بھی تسلیم کر لیں گے۔

کیا آن لائن جماعت کا جواز مستقبل کے علما تسلیم کر لیں جیسے سپیکر کے معاملے میں ہوا ؟

بالکل بھی نہیں ۔۔۔ کیوں ؟ جواب سے پہلے یہ اصول ذہن میں رکھیں کہ “ہر معاملے کے لئے یہ لازمی نہیں ہوتا کہ اُس کے متعلق نتیجہ وہی نکلے جو ماضی میں کسی اور مسئلے کا نکلا ہو”۔نیز یہ کہ ععلما کی نظر اس اجازت کے مضمرات پر ہوتی ہے جو اس وقت لوگوں کے  سامنے نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر  اعضا کی منتقلی کی اجازت کے بعد یہ عالمی سطح پر ایک مفید و منافع بخش صنعت و کاروبار بن چکا ہے۔زندہ لوگوں کے اعضا حیلے بہانوں سے نکالے جانے کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔آن لائن نماز کی اجازت سے کیا کیا گُل کھلیں گے اہل بصیرت سے مخفی نہیں۔

اب آئیے سوال کے جواب کی جانب 


جیسا کہ بیان ہوچکا کہ سپیکر کے جواز میں کچھ امور کا اخفا تھا جن کا اظہار شرعی جواز کے فتوے سے پہلے لازمی تھا ۔ تاہم اس میں کسی بھی شرعی اصول سے یقینی انحراف نہیں بلکہ انحراف کا شبہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تحقیق کی بدولت جیسے ہی وہ شبہ دور ہوا اور معاملہ واضح ہوا تو علما نے عبادات میں بھی لاؤڈ سپیکر کے جواز کا فتوی دے دیا۔


آن لائن جماعت کا معاملہ لاؤڈ سپیکر سے بالکل الٹ ہے ۔ آن لائن جماعت کے معاملے میں قیام جماعت کے بہت سارےشرعی اصولوں سے یقینی انحراف مو جود ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاملہ قیامت تک جائز قرار نہیں پائے گا۔ جیسے بہت سارے ماضی کے امور ۱۴۰۰ صدیاں قبل بھی ناجائز تھے ، آج بھی ناجائز ہیں اور قیامت تک ناجائز رہیں گے۔ کیونکہ وہ شرعی اصولوں سے متصادم ہیں۔

آن لائن جماعت میں کیا مسائل ہیں ؟

۔1۔ مقتدی امام سے آگے کھڑا نہ ہو ۔جو مقتدی امام سے ایک قدم بھی آگے کھڑا ہو تووہ امام کی اقتداء سے نکل جائے گا ۔ اس مسئلے پر تمام فقہا متفق ہیں۔ آن لائن جماعت میں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ امام آگے ہے یا مقتدی ؟
۔۲۔ جماعت کے قیام کے لئے بنیادی مسئلہ امام و مقتدی کے مابین فاصلے کا ہے۔ حتی کہ اگر ایک شخص اسی مسجد میں جگہ ہونے کے باوجود باہر صحن میں کھڑا ہوجائے تو وہ امام کی اقتداء میں شمار نہیں ہوتا ۔
۔۳۔ دو لوگ جماعت کریں تو امام اور مقتدی اس طرح برابر کھڑے ہوتے ہیں کہ مقتدی کا پاوں امام کے پاوں کی ایڑھی برابر ہو۔ آن لائن جماعت میں امام ایوان صدر میں ہے اور اکیلا ہے ایک مقتدی آن لائن ہے تو وہ کیسے کھڑے ہوں گے ؟
۔۴۔ دو لوگوں کی جماعت ہو رہی ہو اور تیسرا بندہ آجائے تو امام ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے اور مقتدی ایک قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔ آن لائن جماعت میں یہ کیسے ہوگا؟
۔۵۔ صفوں کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ مرد پہلی صف پر ۔ بچے دوسری صف پر ، خنثی یعنی خسرے تیسری صف پر اور عورتیں چوتھی صف میں ۔ آن لائن جماعت یہ کیسے ہوگا ؟
۔۶۔ دوران نماز اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ پیچھے کھڑے شخص کو آگے مصلے پر کھڑا کرتا ہے ۔ آن لائن جماعت میں ایوان صدر کا امام یہ کیسے کرے گا ۔ اگر وہاں امام اکیلا ہو اور باقی سب آن لائن تو پھر امام کسے اور کیسے آگے کھڑا کرے گا؟
۔۷۔ آن لائن جماعت میں انٹرنیٹ کنکشن ہی منقطع ہوگیا پیکج ختم ہوگیا تو وہ کیا کرے گا ؟

یہ سارے وہ مسائل ہیں جو آن لائن جماعت سے پیدا ہوتے ہیں۔ یقین کریں کہ آن لائن جماعت کے یہ مسائل کم اور لطیفے زیادہ ہیں ۔ لبرلز کی جانب سے ان سب کا ایک ہی ممکنہ جوا ب ہو سکتا ہے ۔۔۔اور وہ یہ کہ ۔۔۔ جی آن لائن جماعت سے یہ ساری مشکلیں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں ۔ ۔۔ اور اس جواب کے ایک جاہلانہ جواب ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاھیے۔

آن لائن جماعت سے ایک بنیادی اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گھروں میں بیٹھے بیٹھے جماعت میں شرکت ہوجاتی ہے تو پھر مسجد کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟

اس کا جو ممکنہ جواب ہے وہ یہ ہوسکتا ہے : آن لائن جماعت کا اطلاق عام حالات میں نہیں بلکہ موجودہ وبائی حالات کے پیش نظر شرعی رخصت کے تناظر میں ہوگا۔ اس جواب سے پھر ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی رخصت کی تاثیر کیا نوعیت کیا ہے؟

استثنائی حالات میں رخصت ایک شرعی حکم سے مکمل طور پر استثنا ء دیتی ہے ۔ جزوی استثنا ء نہیں ۔ مثلا مرض میں مبتلا یا تو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے یا پھر گھر میں ادا کرے ۔ درمیان کی کوئی صورت حال نہیں ہے۔ جیسے مسجد کا سپیکر آن کرلیں اور گھر بیٹھا مریض آواز کے ذریعے یا سکرین کے ذریعے گھر بیٹھے اقتدا ء کرتا رہے ۔ ورنہ وہی سولات پھر پیدا ہونگے جس کا ذکر ہم پیچھے کر آئے ہیں۔ مسافر ْیا مریض روزہ رکھے یا نہ رکھے رخصت ہے ۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں کہ جب جب بھوک لگے کھاتا رہے اور روزہ بھی قائم رہے۔ اس لئے جماعت سے رخصت کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یا تو جماعت میں شریک ہوجاو یا پھر شرعی عذر کی بدولت گھروں میں اکیلے پڑھ لو ۔

(موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد ) دیکھ لیں جس میں مختلف اسناد سے مروی احادیث اسی موضوع پر ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت مبارکہ ناساز ہوئی تو امامت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ مبارک مسجد نبوی سے متصل تھا اور دروازہ مسجد نبوی میں بھی کھلتا تھا۔ لیکن آپ نے اس کے باوجود گھر میں رہتے ہوئے بستر پر استراحت فرما ہوتے ہوئے بھی امامت نہیں فرمائی اور نہ ہی حجرہ مبارک میں بیٹھے ہوئے جماعت کی اقتداء کی۔ اگرچہ امام کی آواز بھی حجرہ مبارک میں واضح آتی تھی۔صحت ناساز تھی عذر بھی شرعی تھا۔ شارع بھی خود تھے۔ اس سب کے باوجود گھر میں رک کر جماعت نہ کرانے میں اور نہ ہی مسجد کی جماعت میں شامل ہونے میں اہل عقل کے لئے ۔۔ پھر دہرائے دیتا ہوں۔۔۔۔کہ ۔۔۔ صرف اہل عقل کے لئے واضح اشارے ہیں کہ گھروں میں رہتے ہوئے مسجد کی جماعت کے ساتھ شرکت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل شریعت میں موجود ہے۔

آن لائن جماعت کا قول حقیقت میں شرعی رخصت ہے یا شرعی امور میں جہالت کی بدولت دینی احکام پر غیر مطلوب شدت اختیار کرنا ہے ؟

یہ ہے وہ سب سے اہم نکتہ جس کی جانب احباب کی توجہ دلاتا چلوں ۔ کہ جناب آن لائن جماعت کا تصور در حقیقت دینی احکام میں ایسی جاہلانہ شدت اختیار کرنا ہے جس کی مثال شاید اسلامی تاریخ میں اٹھنے والے باطل فرقوں حتی کہ خوارج کے ہاں بھی نہیں ملے گی۔
اسلام جب وبائی حالات جیسے استثنائی حالات میں جماعت کے ترک کی جانب رخصت دیتا ہےتو غامدی صاحب جماعت کے قیام کا ایسا شدید قول کیوں اختیار کر رہے ہیں کہ جماعت ضرور ہی ہو ۔بھلے اللہ تعالی نے رخصت دی ہے لیکن غامدی صاحب نہیں دینے لگے۔
علما ئے کرام نے بھی یہ فرمایا ہے کہ اکثریت گھروں میں تنہا نماز پڑھے لے بالخصوص بچے ، بوڑھے اور مریض ۔ یا پھر ہر گھر کے افراد اپنے اپنے گھروں میں قیام جماعت کا اہتمام کر لیں ۔ صرف محدود لوگ مسجد کو ویران کرنے سے بچانے کی غرض سے جماعت کا تسلسل جاری رکھیں ۔ اور جماعت کا یہ تسلسل یا جماعت کیوں ضروری ہے اس کی اہمیت پر سنت نبوی ﷺ کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔

ہذا عندی وما توفیقی اللہ باللہ

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

آن لائن جماعت اور شرعی رخصتیں

 آن لائن جماعت اور شرعی رخصتیں

April, 1-2020

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

…………………………………….

پس نوشت

کورونا صورت حال کی ہیجانی صورت حال کے اندر محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے میڈیا کو انٹرویودیتے ہوئے آن لائن جماعت کا تصور پیش کیا۔ اُن کے حلقہ اثر کے احباب نے اُسے غامدی صاحب کا اجتہاد عظیم قرار دینا شروع کردیا اور اس کے لئے سب سے پہلے ’’ لاؤڈ سپیکر ‘‘ کے جواز کو بطور دلیل پیش کرنا شروع کیا۔ جس پر سنجید ہ اہل علم و نظر نے کافی تنقید کی ۔ اس حوالے سے میں نے بھی ’’ آن لائن جماعت اور لاؤڈ سپیکر سے استدلال‘‘ کے نام سے مختصر تجزیہ تحریر کیا۔اس کے بعد ابھی دو دن پہلے جناب غامدی صاحب کی نئی ویڈیو سامنے آئی ہے ۔ جس میں انہوں نے اپنے موقف کی تفصیل اور دلائل ذکر کئے ہیں۔ اس ویڈیو کی ابتداء میں کیمرے کے پیچھے اُن کا کوئی شاگرد اُن سوالات میں سے صرف چند سوالات پیش کرتا ہے جو جناب ڈاکٹر مشتاق صاحب اور میں نے اپنی اپنی گزشتہ تحریر میں اٹھائے تھے۔ پھر حسبِ عادت پوری ویڈیو میں غامدی صاحب نے اُن سوالات میں سے کسی ایک سوال کا بھی جواب دینے کی طرف توجہ نہیں دی ۔ بلکہ نئے کمزور دلائل پر اپنی آن لائن جماعت کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس بار اللہ کا کرم یہ ہوا کہ ’’ لاوڈ سپیکر‘‘ کی جان بخشی ہوئی اور اپنے موقف کے لئے اُسے بطور دلیل پیش نہیں کیا۔


اپنی نئی ویڈیو میں جناب غامدی صاحب نے جن رخصتوں کو بطور دلیل ذکر کیا ہے اور اپنے ناقدین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ” اپنی فقہاہت ” کی روشنی میں اُن پر غور کریں۔اس پر عرض ہے کہ جناب ہم تو پہلے دن سے جانتے تھے کہ آپ انہی نماز و روزہ کی رخصتوں کو بطور دلیل لائیں گے اور جواب بھی اُسی وقت ہمارے پاس موجود تھے بس آپ کی جانب سے ان رخصتوں کو بطور دلیل پیش کرنے کے منتظر تھے۔ پیش بندی کا یہ فقہی فن ہم نے اپنے اسلاف فقہا سے ہی سیکھا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نماز اور روزہ کی رخصتوں پر قیاس کرتے ہوئے آن لائن جماعت کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا۔ ۔۔۔۔۔ کیوں ؟

غامدی صاحب نے  نماز اور روزے کی رخصت پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بالکل اسی طرح آن لائن جماعت کی رخصت بھی کشید ہوتی ہے۔ اگرچہ ہم اسے رخصت کی بجائے شرعی احکام میں غیر مطلوب شدت قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر غامدی صاحب اسے رخصت قرار دینے پر ہی مُصِر ہیں تو اس حوالے سے ہم ان کے قیاس کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ۔

۔1۔قصر نماز کی رخصت پر قیاس

قصر نماز میں صرف نماز کی رکعتیں کم ہوتی ہیں۔ نماز تنہا ہو یا باجماعت اس کی بقیہ ساری متعلقہ شرائط ویسے ہی لازم رہتی ہیں جیسے عام حالات میں اُن کے بغیر نماز ادا نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن آن لائن جماعت کا تصور تو باجماعت نماز کی ساری شرائط کو ہی ختم کردیتا ہے۔

نتیجہ: آن لائن جماعت “باجماعت نماز” کی بنیادی شرائط کی نفی پر مبنی ہے۔ لہذا یہ کیس قصر نماز سے بالکل مختلف بن جاتا ہے۔ دونوں میں کوئی مشابہت نہیں کہ قیاس کی گنجائش نکلے ۔ اس لئے یہ قیاس باطل ہے۔

قصر نماز کی اجازت کب ہوتی ہے ؟ عملا سفر کی حالت میں۔ سفر کی حالت کب شروع ہوتی ہے ؟ جب انسان اپنے شہر کی حدود سے نکلے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے:جب آدمی کو غالب گمان ہو یا دل میں قوی ارداہ بنے کہ وہ کسی دوسرے شہر کا سفر کرے گا لیکن ابھی یقین نہ ہو کہ جائے گا تو کیا وہ شخص نماز قصر کرسکتا ہے ؟ ”
جواب ہے بالکل بھی نہیں۔ یعنی شرعی رخصت صرف اور صرف عملی اور یقینی کیفیت میں حاصل ہوتی ہے نہ کہ صرف وہم و گمان سے ۔ اور غامدی صاحب سے پوچھ لیں ان کا اپنا فہم ( فقاہت نہیں کیونکہ وہ عموما فقہ کے قائل ہی نہیں ) بھی یہی جواب دے گا جو میں نے دے دیا ہے۔
لہذا ۔۔۔ غامدی صاحب آن لائن جماعت کی رخصت جن لوگوں کو دے رہے ہیں کیا وہ یقینی طور پر مسافر کی مانند عملا وائرس میں مبتلا ہیں ؟ جس کا جواب واضح ہے نہیں ۔۔۔کیونکہ غامدی صاحب کا بنیادی موقف ہی ” وائرس پھیلنے کا صرف خدشہ ہے “۔

نتیجہ : اگر صرف غالب گمان کی صورت میں شریعت نماز قصر کی اجازت نہیں دیتی تو صرف وائرس لگنے کے خدشے کی بنیاد پر آن لائن جماعت کا جواز بھی کشید نہیں کیا جاسکتا ۔

۔2۔ مریض کی نماز والی رخصت پر قیاس

مریض کی نماز والی رخصت پر بھی قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے قیاس باطل ہے۔ اس لئے کہ وہ فرد کے لئے حکم ہے۔ اگر اجتماعی حکم ہوتا تو پھر باقاعدہ ” مریضوں کی جماعت ” کا حکم ہونا چاھیے تھا لیکن یہ شرعا غیر مطلوب تھا ۔ آن لائن جماعت فرد کا نہیں اجتماعی حکم ہے۔

نتیجہ: فرد کے حکم اور اجتماع کے حکم کے مابین کوئی قیاس نہیں۔ اس لئے یہ دلیل بھی باطل ہے۔

نیز شریعت اسلامیہ مختلف امراض کے مریضوں کو حقیقی عذر جسے عذر شرعی کہا جاتا ہے کی بنیاد پر رخصت دیتی ہے جیسے رکوع سے عجز، سجدے سے عجز ، اور قیام سے معذوری ۔ یہ سب معذوریاں حقیقی ہوں تو تب جاکر شریعت بندے کو رکوع و سجود اور قیام سے رخصت دیتی ہیں۔ آن لائن جماعت کی رخصت جس عذر سے کشید سے کی جارہی ہے کیا وہ عذر بالفعل حقیقی ہے یا ظنی ہے ؟ یا یہ صرف حقیقی معذوروں کے لئے ہی رخصت ہے ؟ اگرتو ظنی ہے پھر تو یہ قیاس ہی باطل ہے کہ بالفعل یقینی صورت حال پر ظنی صورت کو کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ اور اگر یہ رخصت صرف حقیقی معذوروں کے لئے ہے تو بھی باطل رخصت ہے کیونکہ شریعت نے ان سے معذوری کی بابت جماعت کا سرے سے مطالبہ ہی نہیں کیا۔ تو غامدی صاحب کس حیثیت میں اس رخصت کے ذریعے معذور افراد سے باجماعت نماز کا مطالبہ کرتے ہیں!

نتیجہ: آن لائن جماعت کے جواز کے لئے مریض کی نماز والی رخصت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے باطل ہے ۔ اس لئے آن جماعت باطل ہے۔

نوٹ :کسی غالب خدشے کی بابت جو بندہ مسجد نہیں آسکتا اس پر جماعت کا لزوم ویسے ہی ساقط ہے تو پھر آن لائن جماعت کے تصور کا سرے سے تک ہی نہیں بنتا ۔

۔3۔ نماز میں راکب کو دی گئی شرعی رخصت پر قیاس

راکب کی نماز میں دی جانے والی رخصتوں پر قیاس کرتے ہوئے آن لائن جماعت کی رخصت کشید کرنے کا قیاس بھی باطل قیاس ہے۔۔ کیوں ؟


نوٹ:( اس نکتے پر بات کرتے ہوئے غامدی صاحب طنزا جی طنزا ۔- اخلاقیات والے ویڈیو دیکھ لیں جو کہتے ہیں غامدی صاحب طنز نہیں کرتے ۔ طنزا کہتے ہیں کیا آپ سواری پر کھڑی ہوجائیں گے۔ اور اس مجلس میں جناب کے احباب باقاعدہ ہنستے بھی ہیں۔ ) یہ نوٹ اخلاقیات والوں کے لئے خاص ہے۔اب سوال کے جواب کی طرف آئیے :۔ راکب کی نماز کی دو جہتیں ہیں۔ 1۔ شخصی جہت 2۔ اجتماعی جہت

شخصی جہت کی مثال

راکب ( سوار) جب سواری جیسے بس، گھوڑا ، کار ، کشتی یعنی ایسی سواری پر سوار ہو جس پر بیٹھے ہوئے قیام و سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو اسے قیام و سجدے کی رخصت ہوتی ہے کہ وہ یہ ارکان ادا نہ کرے۔

اجتماعی جہت کی مثال

بحری جہاز پر باجماعت نماز اجتماعی جہت کی مثال ہے۔ (غامدی صاحب نے شخصی والی مثال دے کر تاثر ایسا دیا کہ جیسے اجتماعی والی صورت میں بھی وہی رخصت حاصل ہو)۔
کیا صرف “شخصی جہت ” پر قیاس کرتے ہوئے غامدی صاحب بتائیں گے کہ بڑے بحری جہاز کے مسافر سمندر میں سفر کے دوران جب نماز ادا کریں گے تو وہ بھی قیام و سجدے کے بغیر نماز ادا کریں گے؟ کیونکہ سوار شخص کو سجدہ نہ کرنے کی رخصت ہے اور بحری جہاز کا سوار بھی راکب ہے ؟ اوہو دیکھیں غامدی صاحب سواری پر سوار لوگ کھڑے بھی ہوگئے اور سجدہ بھی کر رہے ہیں۔ آپ کاکہنا نہیں مان رہے۔اب کہاں گیا سواری پر آپ کا مطلق قیاس ؟؟؟؟

نتیجہ:شخصی رخصت کی بنیاد پر آن لائن جماعت کی رخصت جو کہ ایک اجتماعی نوعیت کا امر ہے، کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ ویسے بھی غامدی صاحب کا اپنا اصول بھی یہی ہے کہ شخصی حکم کو اجتماع پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا اس پر قیاس کرتے ہوئے آن لائن جماعت غامدی صاحب کے اپنے اصول کے تحت باطل قرار پاتی ہے۔ اب غامدی صاحب کی مرضی چاھے اصول بدل لیں یا پھر ۔۔۔۔۔

۔4۔ مسافر کے روزے کی شرعی رخصت پر قیاس

غامدی صاحب نے روزے کی رخصت پر بھی آن لائن جماعت کی رخصت کے جواز کے لئے قیاس کیا ۔یہ قیاس بھی باطل قیاس ہے۔ قیاس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک مثال اِدھر سے لی ایک اُدھر سے لی اور قیاس جَڑ دیا۔ اس کی الگ شرائط ہیں کچھ اصول ہیں۔
سفر میں روزے کی رخصت وجوبی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔ نیز اگر کوئی اختیار کرے گا تو روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ نہیں کہ کھاتا پیتا بھی رہے اور روزہ بھی رہے۔ اسے اختیار ہے چاھے روزہ رکھے اور چاھے روزہ ترک کرے۔ نیز یہ رخصت اس مسافر کے لئے ہے جو بالفعل مسافر ہو۔ اس لئے اسے اجازت ہوتی ہے کہ وہ راستے میں افطار کرے۔
نماز کی جماعت میں رخصت کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ نماز یا جماعت ہو یا نہ ہو۔ آن لائن جماعت کا تصور بذات خود شرعی رخصت کے خلاف ہے۔ یعنی شریعت جن حالات میں جن افراد کو ترکِ جماعت کی اجازت دیتی ہے غامدی صاحب انہیں رخصت دینے کی بجائے آن لائن جماعت کا کہتے ہیں۔

نتیجہ:آن لائن جماعت کی صورت اور مسافر کے روزے کی صورت میں کوئی مشابہت نہیں کہ قیاس کیا جاسکے۔ نیز آن لائن جماعت بذات خود شرعی احکام میں ایک شدت ہے جو شرعی رخصت کی حقیقی روح کے ہی خلاف ہے۔ اس لئے آن لائن جماعت کا جواز اس سے کشید نہیں ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

التماس: آن لائن جماعت اور مساجد کو تالا لگانے کا موقف رکھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ شرعی رخصتوں پر قیاس کرنے سے پہلے خدارا قیاس کی اصولی مباحث کا مطالعہ ضرور کر لیں۔

 

روشن خیالی کے شوقین چند اہل علم احباب جو یہ کہتے ہیں کہ اگر یہی آن لائن جماعت والا فتوی روایتی ملاؤں کے اپنے کسی امام نے دیا ہوتا تو وہ اسے عظیم اجتہاد قرار دیتے ، اب چونکہ غامدی صاحب نے یہ فتوی دیا ہے اس لئے ان سے برداشت نہیں ہو رہا !۔

اس پر ہماری مؤدبانہ عرض صرف اتنی ہے کہ ہمارے اسلاف ایسا فضول فتوی دیتے ہی کیوں ؟ آپ کہتے ’’اگر دیتے تو ۔۔۔۔‘‘۔ ہم کہتے ہیں جناب والا ’’ ہمارے اسلاف کی علمی ثقاہت خود اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے بارے میں تو یہ بات’ فرض ‘ بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا کہتے‘‘ کیونکہ ان کے فقہی ذخیرے میں اجتہاد تو بڑی بات ایک ایسا قول بھی نہیں جسے فضول کہا جاسکے جو بنیادی شرعی اصولوں کا بھی خیال نہ رکھے ۔

ہذا عندی وما توفیقی اللہ باللہ

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading