Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
absiddique111 – Page 15 – Islamic Finance

سود کے خلاف جنگ: کیا جنگ ایسے لڑی جاتی ہے ؟  

سود کے خلاف جنگ: کیا جنگ ایسے لڑی جاتی ہے ؟  

محمد ابوبکر صدیق

Dec.21, 2020

…………………………………….

بندہ مومن کے لئے سودی نظام معیشت کی حمایت یا اس سے کسی طرح کی مفاہمت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی جنگ میں جھونک رہا ہے جس کا یقینی نتیجہ اس کی دنیا و آخرت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ 60 کی دھائی میں مخلصین امت علمائے کرام نے اسلامی بینکاری کا تصور دیا تھا تاکہ امت ایسی جنگ میں یقینی تباہی سے بچ جائے۔ ان کا مقصود یہی تھا کہ بتدریج یہ نظام روایتی سودی نظام کو کمزور کردے گا اور معاشرے میں اس کے خلاف اپنے قدم مضبوط کرے گا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مخلصین کی کاوشیں رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ جس نظام نے سودی نظام کے خلاف کردار ادا کرنا تھا۔ وہ خود اسی سودی نظام کی اترن پہننے کے در پے ہے۔ “سود کی برداشتی حدیں ” مقرر کرتے ہوئے کہیں 5 فیصد تو کہیں 20 فیصد تو کسی سطح پر 37 فیصد تک سود قابل برداشت قرار دے کر کمپنیوں کو شرعی جواز کی سند دے دی گئی  کہ بتدریج اس نظام کو ختم کیا جائے گا۔ لیکن دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ برداشتی حدیں “زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد” کے مصداق وہیں پر موجو د ہیں۔ کیا سودی نظام کے خلاف جنگ ایسے لڑی جائے گی ؟ اس کا گلا بھی دبائیں گے ساتھ ساتھ آکسیجن کی فراہمی بھی کریں گے۔حد تو یہ ہے کہ ضرورت و حاجت کے شرعی اصولوں کے نام پر اسلامی بینکاری کی نہر وں سے اب سودی نظام کی زمین کو سیراب کیا جارہا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تو ان بینکوں کے ساتھ شرعی پروڈکٹس اور موڈز میں معاملات کرتے ہیں۔ حیلے بھی ایسے اپنا رکھے کہ اللہ کی پناہ ۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :۔

عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم أنَّه قال:يأتي على الناسِ زمانٌ يستحلُّونَ الرِّبَا بالبيعِ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں لوگ بیع کے نام پر ربا کو حلال کریں گے۔

کموڈٹی مرابحہ کے نام پر جو ہوا کیا وہ کسی سے مخفی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی خود فریبی ہوسکتی ہے بھلا کہ شراب کشید کرنے والی کمپنی کو آپ بیع موجل کے شرعی قواعد پر انگور کی سپلائی کا معاہدہ کریں اور خود کو تسلی یہ دیں کہ ہم تو شرعی قوانین پر عمل کر رہے ہیں!یا للعجب

سود پر جنم لینے والی موجودہ بحث میں کسی فورم پر ایک درد دل رکھنے والے انتہائی محترم صاحب کے یہ الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں :”سود کے خلاف جنگ کے بہت سے تقاضے ہیں۔ ایک اہم تقاضا میری نگاہ میں یہ ہے ہم سودی نظام کے ساتھ ہر طرح کی مفاہمت و مصالحت ختم کردیں ۔یہ نہیں ہوسکتاکہ دشمن کے خلاف ہم معرکہ آراء ہوں اور اسے راشن اور غذا کی سپلائی بھی جاری رکھیں۔یہ کس طرح کی جنگ ہے کہ اسلامی بنک سودی بنکوں کی ” کیش کی ضروریات ” پورا کرنے کے لئے انہیں اربوں روپے فراہم کر رہے ہیں۔ کیا اس طرح وہ سودی نظام کو تقویت دینے کا باعث نہیں بن رہے؟ کیا 37 فیصد تک سودی قرضے لینے والی کمپنیوں کو شرعی جواز کا سڑٹیفیکیٹ تھماتے ہوئے ان میں سرمایہ کاری کرنا سودی نظام کے ساتھ مفاہمت نہیں ہے؟ اگر آپ واقعی جنگ کر رہے ہیں تو آپ کے عمل سے یہ مترشح ہونا چاھئے کہ آپ نورا کشتی نہیں بلکہ ایک حقیقی جنگ میں مصروف ہیں“۔

اسلامی بینکاری کے موجودہ پیش رو احباب کیسے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ سودی نظام کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ ہیں جب کہ انہوں نے اسی سودی نظام کی سانسیں بحال رکھنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں آکسیجن سپلائی کے سلنڈر بھی اٹھا رکھے ہیں ۔ اگر آپ واقعی اس دعوے میں سچے ہیں تو پھر آپ کا عمل بھی اس پر شاہد ہونا چاھئے ۔ کئی دہائیوں کے بعد بھی اسلامی بینکاری کا نظام معاشرے میں اپنے لئے وہ اعتماد حاصل نہیں کرسکا جس کی توقع تھی اور اس کی بنیادی اور بڑی وجہ سودی نظام کے ساتھ اس کی مفاہمتی پالیسی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اس مفاہمت کو ختم کیا جائے اور “سود کی برداشتی حد ” قران و سنت کے مطابق صفر پر لائی جائے۔ ورنہ خاکم بدہن موجودہ دورُخی پالیسی خود اسلامی بنکاری کے لئے ہی مہلک ثابت ہوگی اور سودی نظام کے خاتمے کا خواب پھر خواب ہی رہے گا۔سود پر مندرجہ ذیل مقالہ ایک مفید تحریر ہے جس میں سود سے متعلق جدید معاشی نظریات کا عقلی دلائل کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے [۱]۔

 

[۱] Siddique, M. A. (2015). Islamic Banking in an Interest Based Economic System: A Reality or Deception? Al-Azwa, University of Punjab Lahore, 30(44), 153-170.

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

اسلامی بینک کے ڈپازٹس 

(Deposits of Islamic Bank) اسلامی بینک کے ڈپازٹس 

محمد ابوبکر صدیق

January 22, 2017

…………………………………….

اسلامی بینکوں میں عام طور پرچار طرح کے اکا ؤنٹس میں رقم جمع کرائی جاتی ہے۔ لیکن مختلف بینکوں نے خود کو دوسرے بینکوں سے ممتاز اور صارف کو متوجّہ کرنے کیلئے الگ الگ قسم کے اکاؤنٹس قائم کر رکھے ہیں۔ لیکن یہاں ہم چار بنیادی اکاؤنٹس کو بیان کریں گے ۔

کرنٹ اکاؤنٹ

روایتی بینک کی طرح اسلامی بینک میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم ایک قرض ہوتی ہے یعنی کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر اور اسلامی بینک کے مابین قرض خواہ اور مقروض کا تعلُّق ہوتا ہے نیزاکاؤنٹ ہولڈر کواپنی رقم کے قرض ہونے کی وجہ سے اُس پر کسی قسم کے نقصان کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پڑتا۔اسلامی بینک یہ رقم عندالطلب ادا کر تا ہے کیونکہ قرض کی رقم کسی بھی وقت طلب کی جاسکتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ کرنٹ اکاؤنٹ کی بنیاد امانت بتاتے ہیں جو کسی بھی طور درست نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ امانت کی رقم پر گارنٹی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بینکوں میں اپنی رقم جمع نہیں کراتے ۔ نیزاگر کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم کو ” امانت ” مان بھی لیا جائے تو پھر یہ معاملہ فقہا کے نزدیک شرکتِ ملک میں بدل جاتا ہے، کیونکہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم کو اپنی دیگر رقوم کے ساتھ ملا دیتا ۔ اس بارے میں علّامہ ابن عابدین شامی کتاب الشرکۃ میں ؒ فرماتے ہیں کہ اگردو لوگوں کے مال کا اختلاط کسی بھی سبب سے ہو تو وہ مخلوط مال دونوں صاحبوں کے مابین مشترک ہو جاتا ہے جو کہ شرکتِ ملک کے تحت آتا ہے۔ اور یہ فقہ اسلامی کا ایک مسلمہ اصول ہے ان الشریک امین فی المال ایک شریک کا مال دوسرے شریک کے پاس امانت کے طور پر ہوتا ہے اگر وہ مال بلا تعدی ضائع ہو جائے تو دوسرے شریک پر اُس کی ادائیگی لازم نہیں آتی ۔

لہذا اسلامی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقوم امانت نہیں ہیں بلکہ قرض ہیں ۔صرف اِیک ہی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنی رقوم پر گارنٹی مل سکتی ہے اور وہ قرض کی صورت ہے۔ ۱س لئے اسلامی بینک اس اکاؤنٹ کی رقم پر کوئی نفع نہیں دیتا کیونکہ اسلام میں قرض پر نفع کمانا سود ہے ۔ لیکن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ انشورنس (۲۰۰۰) کے مطابق کچھ مالیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر منافع دینے کی پالیسی کوکچھ شرائط کے ساتھ اسلامی بینکوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ۔ جیسا کہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کو کوئی بھی اضافی رقم بطور تحفہ دیں بایں طورکہ یہ اکاؤنٹ ہولڈر کا کوئی استحقاق نہیں ہو گانیز اسلامی بینک یہ ادائیگی باقاعدگی سے نہیں کرے گا۔ تاکہ وقت گزرنے کسے ساتھ یہ ایک روایت بن کر سود کی شکل اختیار نہ کر جائے ۔  لیکن راقم کی نظر میں کرنٹ اکاؤنٹ میں تحفۃََ رقم کی یہ رائے درست نہیں کیونکہ شرع میں جس طرح کچھ چیزیں سدِّذرائع کے طور پر منع کر دی جاتی ہیں بعینہ یہ معاملہ بھی ممنوع ہونا چاہیے۔ تاکہ سُود کی طرف جانے کا کوئی سبب بھی باقی  نہ رہے۔

بچت اکاؤنٹ اور سرمایہ کاری اکاؤنٹ

ان تینوں ڈیپازٹس میں رقوم مضاربہ کی بنیا د پررکھی جاتی ہیں یعنی اکاؤنٹ ہولڈر رب المال جبکہ اسلامی بینک مُضارب ہوتا ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈر اور اسلامی بینک کے مابین مضاربہ کا یہ عقد مضاربہ مطلقہ ہوتا ہے جس میں اکاؤنٹ ہولڈر اسلامی بینک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسلامی بینک اِس رقم کوکسی ایسے کاروبار میں لگا سکتا ہے جو حلال ہو یا کسی ایسی کاروباری کمپنی کے ساتھ مشارکت یا مُضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری میں شامل کر سکتا ہے، جس کا کاروبار جائز ہو ۔ ان تینوں اکاؤنٹس میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اصل سرمائے پر نقصان کا امکانی خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔نقصان ہو نے کی صورت میں صارف رب المال ہونے کی حیثیت سے نقصان کی ذمہ داری لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بینکوں کو تو نقصان ہی نہیں ہوتا تو پھر صارف کو نقصان کیسے ہوگا؟۔ اس کا جو اب یہ ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے جس کے تحت یہ کہا جائے کہ مضاربہ اُس وقت تک جائز نہیں ہو گا جب تک کہ اُس میں نقصان نہ ہو۔ شریعت مطہرہ صرف اس بات کی شرط عائد کرتی ہے کہ رب المال کے لئے نقصان کا صرف خطرہ مول لینا ضروری ہے۔ اب یہ قسمت یابہترین کاروباری فیصلے پر منحصر ہے کہ نقصان ہو یا نہ ہو۔

اسلامی بینک اس مالِ مضاربت میں اکاؤنٹ ہولڈرز کی اجازت سے اپنی رقم بھی ملا لیتا ہے اور کاروبار میں لگادیتا ہے۔ اِس صورت میں نفع و نقصان کی تقسیم شرکت ومضاربت کے شرعی اصولوں پرہوتی ہے ۔ یہ شرکت و مضاربت کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک مضارب مالِ مضاربت میں اپنا سرمایہ بھی شامل کر دیتا ہے اور فقہاء کے نزدیک یہ جائز ہے۔ حضرت امام سرخسیؒ فرماتے ہیں   لو خلط اٗلف المضاربۃ باٗلف من مالہ قبل الشراء جاز اگر مضارب ، مضاربت کے ایک ہزار روپے کے ساتھ اپنے مال سے ایک ہزار روپے( مضاربت کے سامان کی) خریداری سے پہلے ملا دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔

(Karachi Meezan Index) کراچی میزان انڈیکس

 کسی کمپنی میں اسلامی بینک کی سرمایہ کاری سے متعلق سوال یہ ہے کہ یہ پتہ کیسے چلے گا کہ کس کمپنی کا کاروبار جائز اور حلال ہے ؟ اسلامی بینک کِس کمپنی کے سٹاک میں پیسہ لگائے گی ؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ کراچی اسٹاک مارکیٹ اور میزان اسلامک بینک نے۲۰۰۹ ء میں کراچی میزان انڈیکس کے نام سے ایک مشترکہ انڈیکس متعارف کرایا ہے جسے دونوں اداروں کے جدید مالیاتی امور کے ماہرین اور شرعی ایڈوائزر (مفتیانِ عظام) کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس میں مختلف کمپنیوں کے کاروبار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جس کمپنی کا کاروبار مکمّل طور پرجائز ہو یا کاروبار کا زیادہ حصہ جائز ہو توای سیتیس (۳۰) کمپنیوں کو انڈیکس میں ترتیب سے شامل کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں۔ (KMI-30) اس لئے اسے

جو افراد یا ادارے صرف اُن کمپنیوں کے سٹاک؍شیئر خریدنا چاہتے ہوں جن کے کاروبار شرعاً جائز ہوں تو وہ اس انڈیکس میں شامل کمپنیوں کے سٹاک ؍شیئر خریدتے ہیں۔ یہ انڈیکس ہر چھ ماہ بعد ’اپ ڈیٹ‘ کیا جاتا ہے۔اگر اسلامی بینک نے سٹاک ما رکیٹ میں پیسہ لگانا ہو تو اُسے انڈیکس کی کمپنیوں میں ہی انوسٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 

 

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

اسلامی بینکاری :  چندگزارشات 

اسلامی بینکاری :  چندگزارشات 

محمد ابوبکر صدیق

April 4, 2020

…………………………………….

تاریخ گواہ ہے کہ ابوجہل کے گھر سے اسلام کا عظیم علم بردار نکلا ،اور ہلاکو خان کی پشت سے فاتح اسلام کا تولد ہوا ۔ قدرت کے کام نرالے ہی ہوتے ہیں ۔حضرت اقبال ؒ نے اسی طرف اشارہ کیا تھا “پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے”۔سودی نظام معیشت کی گود سے اسلامی بینکاری نظام کا ظہور بھی کچھ ایسے ہی ہے ۔ تاہم اس نظام کو اپنی آبیاری کے لیے قحط الرجال کا سامنا ہے ۔ جب تک ایسے افراد پیدا نہیں ہوتے جو شرعی علوم کے ساتھ ساتھ جدید معاشی و مالیاتی اعلی ٰ تعلیم ہوں ، اس نظام میں کمیاں رہیں گیں تاہم اس میں جمود طاری نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری پر جہاں تخریبی تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں وہیں ، تعمیری تنقید کے ذریعے اس نظام کی خامیوں کو بتدریج دور کر نے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ کام چشم زدن میں ہونے کا نہیں ۔ سودی نظام معیشت کو اپنے پنجے گاڑنے میں جہاں تین سے زائد صدیاں لگ گئیں ، وہاں اس کے متبادل نظام کو اپنی جگہ بنانے کے لیے بھی تو وقت درکار ہوگا ۔

آج دنیا کا شاید ہی کوئی تعلیمی ادارہ ہو جہاں سودی نطام معیشت کی افراد سازی نہ ہورہی ہو اور افراد سازی کا یہ کام صدیوں سے جاری ہے لیکن اسلامی بینکاری نظام کو اپنی پیدائش کے دن سے تاحال مخالفت کا سامنا ہے ۔ کچھ احباب کو یہ تو گوارہ ہے کہ سودی نظام چلتا ہے تو چلتا رہے ، اسلامی بینکاری نظام کسی طرح ختم ہوجائے اور بس۔ ان کے قلم کبھی سودی نظام معیشت کے خلاف نہیں اٹھے لیکن اسلامی بینکاری نظام کا گریبان چاک کرنے میں انہوں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ پس پردہ سازش کیا ہے اللہ ہی معلوم ۔سودی بینکوں نے بھی اس بارے کافی پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے اور بہا رہے ہیں کہ کسی طرح یہ معلومات عام کردی جائیں کہ اسلامی بینکاری در حقیقت سودی بینکاری ہی ہے ، تاکہ لوگ سودی بینکوں سے اپنا پیسہ نکلوانا شروع نہ کردیں ۔ اس کے لیے ٹی وی شوز پر پروگرام بھی کیے گئے اور عوام میں غلط معلومات پھیلائی گئیں ۔

کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ اسپیشلائزیشن کے زمانے میں جہاں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود ایک فزیشن سرجری کے لیے مریض کو کسی سرجن کے پاس بھیجتا ہے خود اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا ۔ فزکس کے ٹیچر بائیولوجی ، اور بائیولوجی کے ٹیچر ریاضی کے میدان میں گھوڑے نہیں دوڑاتے ۔ وہاں ایک عام آدمی جس کا نہ تو شریعت سے لینا دینا اور نہ ہی جدید معاشی اعلی تعلیم سے کوئی تعلق ، وہ اسلامی بینکاری پر اپنا فتوی دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ اسلامی نہیں ہے ۔

ایک بات سمجھنا ہوگی کہ فی زمانہ اسلامی بینکاری دو ذہنوں کی تخلیق ہے ، ایک شرعی علوم سے بہرہ ور ذہن اور دوسرا جدید معاشی ومالیاتی علوم سے بہرہ ور۔ تب جا کر اسلامی بینکاری نظام وجود میں آیا ۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نکال دیں تو یہ نظام نہیں چل سکے گا ۔ تاہم جب ایک ہی ذہن میں یہ دونوں علوم جاگزیں ہوں گے اس نظام میں بہتری تب آئے گی۔ افراد سازی کا یہ کام وقت ضرور لے گا لیکن نا امید نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کی کوکھ بانجھ نہیں ہے۔ اب یہ شمع جلی ہے تو اجالا توہوگا اور چار دانگ عالم میں اس کی مقبولیت ازخود مخالفین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔باقی رہی نظام میں کمزوریوں کی بات تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوں گیں ۔ کیونکہ سودی نظام آج جتنا مضبوط ہے یہ پہلے دن سے نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ آج اس مقام تک پہنچا ہے ۔ جب اس نظام کو وقت دیا جا سکتا ہے تو اسلامی بینکاری کو کیوں نہیں ؟

کہا جاتا ہے اسلام مکمل ہوچکا اب کس بات کو وقت چاہیے تو اس پر عرض ہے جناب !۔

اسلام تو مکمل ہوچکااس میں تو کوئی شک نہیں ، مگر افسوس وقت گزرنےکے ساتھ مسلمان نامکمل ہوتا گیا ۔ وقت کے دھارے گزرتے رہے مگر مسلمان آغوش غفلت میں سو گئے اسلاف کی علمی میراث تک کو بھلا دیا ۔ علم کے مراکزکوفہ ، بصرہ،سمرقند، بخارا، کابل، بغداد وغیرھم سے مغرب اور یورپ کی جانب ٹرانسفر ہوتے رہے اور انہیں اس بات کا احساس تک نہ ہوا ، ایجادات پر جہاں اُ ن کے اسلاف کی چھاپ تھی وہاں مسلمان اس سے کوسوں دور ہوتے چلے گئے کہ دنیا انہیں سوئی بھی درآمد کرنے کے طعنے دینے لگی۔ فرقہ وارانہ غیر اہم مباحث میں کتابیں کالی کردیں لیکن اپنی نئی نسل کو سوائے باہمی نفرت و عناد کے کچھ نہ دے سکے ۔ یہ ہے وہ تصویر جو چینخ چینخ کر بول رہی ہے کہ تم دنیا سے کتنا پیچھے رہ گئے ۔ اسلام تو مکمل ہے لیکن مسلماں ابھی نامکمل ہے۔

اس لیے علمی اعتبار سے مغرب کی دنیا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں افراد بھی چاہییں اور وقت بھی ۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کا کردار بھی اہم ہے ۔ اس وقت صرف گنتی کے چند ادارے ہیں جو اسلامی بینکاری میں ڈگری لیول کی تعلیم دے رہے ہیں جن میں سرفہرست بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ہے ۔اس عظیم یونیورسٹی کے ادارے ’انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس ‘ نے اسلامی معاشیات اور اسلامی بنکاری میں جو خدمات سرانجام دی ہیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں ۔ اسی ادارے کے فارغ التحصیل اسکالرز اس وقت ملکی و غیر ملکی جامعات میں تدریس و تحقیق کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ ادارہ بی ایس سے لے اکر پی ایچ ڈی اسلامک بنکاری کی ڈگری لیول کی تعلیم دے رہا ہے۔ پاکستان کی پی ایچ ڈی اسلامک بینکنگ کی باقاعدہ پہلی ڈگری اسی جامعہ نے دی ہے۔

اس کے علاوہ منہاج یونیورسٹی لاہور بھی اہم ہے کیونکہ ان کے پاس بھی شرعی نظام تعلیم کے قابل علما موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اکنامکس اور فنانس کے شعبے بھی ہیں ۔ڈاکٹر حسین محی الدین کی سرپرستی میں یہ ادارہ بھی اسلامی معاشیات اور اسلامی بنکاری کے حوالے کافی تحقیقی کام کر رہا ہے۔ یونیورسٹی آف مینیجمنٹ ایند ٹیکنالوجی لاہور ، انسٹی ٹیوٹ آف مینیجمنٹ سائنسز پشاور میں بھی اب اسلامی بینکنگ کی تعلیم دی جانے لگی ہے ۔ اگرچہ یہ ادارے ابھی نئے ہیں لیکن ابتدا تو ہوئی ۔ تاہم ان سب اداروں میں صرف بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا شعبہ اکنامکس ہی سرفہرست کہ کیونکہ اسلامک اکنامکس اینڈ فنانس کے میدان میں اس کے افراد پوری دنیا کے نامور اداروں تک پہنچے ہیں اور خدمات سرانجام دی ہیں ۔

اسلامی بینکاری کی ایم ایس اور پی ایچ ڈی ڈگری کی تعلیم اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے علاوہ دیگر جامعات بھی اب اپنے ہاں یہ اسلامی بینکاری کا شعبہ بنا رہی ہیں اور انہیں اس کے لیے اساتذہ ضرورت ہوں گے جن کے 18 سالہ متعلقہ تعلیم لازمی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ شعبہ نوکری کے مواقع میں بھی اہم ہے۔ اسلامی بینکاری ترویج کے لیے لازمی ہے کہ اسلامی بینک ان طلبا کو ترجیح دیں جو اسلامی بینک کی ڈگری کے حامل ہوں تاکہ ان کے معاملات میں بہتری آئے ۔ اسلامی بینکاری نظام پر گفتگو یا لکھتے وقت اس پہلو کو سامنے رکھا جا ئے تو امید ہے نتیجہ بہتر ہوگا۔

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

اسلامی بینکاری اور جناب نیازی صاحب

اسلامی بینکاری اورجناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی آراء

محمد ابوبکر صدیق

January 22, 2017

…………………………………….

پس منظر

فقہ، اصول فقہ اور اسلامی قانون میں محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی قابلیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔اسلامی بینکاری کے حوالے سے اُن کا ایک خاص نقطہ نظر ہے ۔ لیکن اِس وقت یہاں اسلامی بینکاری سے متعلق اُ ن کی درج ذیل ایک مختصر تحریرزیر بحث ہے۔

The Islamic Banking Industry and its Dubious Claims

اس تحریر میں انہوں نے اسلامی بینکاری سے متعلق ایک نجی ٹی وی کے اشتہار کو موضوع بنایا ہے جس میں ایک جید اور نامور عالمِ دین قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب اسلامی بینکاری کا اسلامی ہونا بیان کرتے ہیں۔محترم نیازی صاحب نے مفتی صاحب کے بیان پرمختلف پہلووں سے تنقید کی۔ شخصیات کا احترام اپنی جگہ لیکن علمی اختلاف کی گنجائش بہر طور رہتی ہے۔راقم خود محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی شان کا معترف ہے اور اصول فقہ کی تدریس میں ان کی کتب سے اکتساب ِ فیض بھی کیا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ تاہم راقم اسلامی بینکاری سے متعلق قبلہ نیازی صاحب کی آراء سے جزوی اختلاف بھی رکھتا ہے ۔اس تحریر کا بنیادی مقصد محترم نیازی صاحب کی مذکورہ بالا مختصر تحریر کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔ تاکہ اسلامی بینکاری کے مبتدی کے سامنے وہ پہلو بھی سامنے رہیں جو عموما پس پردہ رہتے ہیں۔

محترم نیازی صاحب کی تحریر بنیادی طور پر انگلش زبان میں ہے۔ قاری کی تسہیل کے لیے راقم یہاں ان کا موقف اردو زبان میں پیش کرے گا ۔ ترجمے میں خاص خیال رکھا گیا ہے کہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کا موقف درست طور پر پیش ہوجائے۔ تاہم اگرمجھ سے اُن کے موقف کے ترجمے میں کچھ غلطی سرزد ہوجائے تو اسے راقم کی غیر منوی لغزش سمجھا جائے۔ارباب علم اگر نشاندہی کریں تو راقم اُن کا مشکور ہوگا ۔

۔۱۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

سودی بینکوں کے لیے ایک قانون ہے جو عامۃ الناس کی دسترس میں ہے ۔لیکن اسلامی بینکاری کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اور جو ہے وہ عامۃ الناس کی دسترس میں نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلامی بینکاری کی پروڈکٹس سے متعلق معلومات عوام کی دسترس میں ہیں کہ وہ معاملات کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فیصلہ کرسکیں ۔ (پیراگراف نمبر3)۔

تجزیہ

سودی نظام بینکاری کا قانون بنے اور دنیا میں عام ہوئے صدیاں لگی ہے ۔ اس میدان میں لوگوں نے تعلیم بھی حاصل کی ہے ۔ اس نظام کی ترویج میں ریاستی وسائل بھی استعمال ہوئے ۔ اس لیے سودی نظام بینکاری کے متعلق ڈیٹا کی پہنچ بہت آسان ہوچکی ہے ۔ کیا سودی نظام بینکاری کے ڈیٹا تک یہ آسان رسائی اول دن سے ہے ؟ تو جواب نہیں میں ہے ۔ یہ نظام چار صدیوں سے جاری ہے ۔ جبکہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے متعارف ہونے سے پہلے عوام تو کیا خواص کو بھی اس کے ڈیٹا اور معلومات تک رسائی نہیں ہوتی تھی۔تو گزارش ہے کہ سودی نظام جہاں آج پہنچا ہے اس کے پیچھے مختلف میدانوں میں انسانی کاوشوں کاایک انسائیکلوپیڈیا موجود ہے۔نیز اس نظام سے متعلق قانون وضع کرنے سے لیکر اشاعت تک معاملات اس لیے بھی آسان تھے اس نظام کے مقابلے میں کوئی نظام نہیں تھا۔ اگر یہ نظام پہلے سے موجود کسی نظام کے متبادل کے طور پر متعارف ہوا ہوتا تو صورت حال موجودہ تناظر سے قدرے مختلف ہوتی ۔ اسی طرح یہ ایک ایسا نظام تھا جس کے نفاذ کے لیے مذہب سے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی ۔اور نہ ہی اس کے قوانین وضع کرنے میں کسی مذہبی جواز کی جھنجٹ میں پڑنا گوارا کیا گیا۔

اس کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کو متعارف ہوئے چالیس سال گزرے ہیں۔ اس میں بھی پہلے بیس سال صرف بنیادی تصور پیش کرنے اور پائلٹ پروجیکٹس کے ہیں ۔ اس کے بعد اس نظام مقبولیت حاصل ہوئی ۔ گویا پوری دنیا میں موجودی اسلامی بینکاری کی عملی عمر صرف 20 سال ہے ۔جس میں اس کا عملی بچپن 10 سال کا ہے ۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز ۲۰۰۴ سے ہوا ۔اس نظام کے وضع ہونے اور عملاًمیدان میں آنے کے بعد دو طرح کے سوال پیدا ہونا شروع ہوئے جن کا تعلق مذہب اور قانون سے تھا۔ کیونکہ سودی نظام بینکاری کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کواپنے جواز کے لیے مذہب سے مہر ِتصدیق ثبت کرانا بھی ایک لازمی امر تھا۔

دوسری طرف مذہبی حلقوں میں ایک مسئلہ جدید اقتصادی علوم سے دوری اور نا آشنائی تھا ۔جس کی بدولت بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مذہبی شخصیات کو پہلے صورت مسئلہ سمجھائی جائے پھر ان سے رائے لی جائے ۔تواسلامی بینکاری کے ابتدائی ایام میں ڈاکٹر منذر کہف، شیخ مصطفی زرقا ؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، شیخ یوسف قرضاوی، علمائے الازہر شریف ، وغیر ھم جیسے فقہا نے جدید علوم کے ماہرین کی مدد سے سودی نظام کو سمجھا اور اسلامی بینکاری نظام کی مبادیات کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضع کیا ۔ ۱۹۶۰ کی دہائی سے لے کر ۱۹۸۰ تک کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں تھا جو اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون وضع کرتا کیونکہ یہ ایسا نظام تھا جس کے لیے مذہب اور جدید اقتصاد کے حامل افراد مل کر ہی قانون بنا سکتے تھے ۔ اکیلے طور پر یہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے ان بیس سالوں میں فرد کی سطح پر کچھ اصول وضع کیے گئے لیکن اسلامی بینکاری کو انہی عمومی طور پر انہی قوانین پر چلا یا گیا جن پر سودی نظام چلایا جارہا تھا۔

۱۹۸۱ میں فقہائے امت نے جدید مسائل میں امت کی رہنمائی کے لیے مجمع الفقہ الاسلامی کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی کام جدید سائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کرنا تھا۔اس ادارے نے اسلامی بینکاری نظام کے لیے اپنی قراردادوں کی صورت شرع کی روشنی میں اصول وضع کیے جسے انفرادی اور اختیاری طور پر مختلف ممالک نے اپنے ہاں نافذ کرنا شروع کیا۔

اس کے بعد پھر ۱۹۹۰ کو اسلامی سلطنت بحرین میں هيئة المحاسبة و المراجعة للمؤسسات المالية الاسلامية کی بنیاد رکھی گئی۔ انگلش میں اسے

Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions“- AAOIFI

جسے مختصراً ’’ ایوفی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔اس ادارے میں مذاہبِ اربعہ (حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی) کے۲۰۰ علماء ا ور سکالر ز ممبر ہیں جو جدیدتعلیم اور تحقیق کے جدید طرق سے بہرہ و ر ہیں۔ اس ادارے کے اجلاس سہ ماہی ، شش ماہی اور سالانہ بنیا دوں پرمنعقد ہوتے ہیں، جن میں عصرِحاضر کے جدید معاشی و حسابی مسائل کے اسلامی حل کے لئے غور و فکر کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ہر دو سطح پر اسلامی بینکوں اور دیگر اسلامی مالیاتی اداروں کے لیے قانون وضع کرتا ہے ۔ پروڈکٹس اور سروسز سے متعلق شریعہ اسٹینڈرڈ کے نام سے قانون شائع کرتا ہے ۔ حساب و کتاب یعنی اکاونتنگ ، آڈٹنگ اور گورننس کے لیے بھی اسٹینڈرڈ وضع کرتا ہے۔اس ادارے کے وضع کردہ قوانین اسلامی بینکوں میں گزرتے وقت کے ساتھ نافذ کیے جارہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے اور اس کے تحقیقی کام میں بہتری بھی آرہی ہے۔

یہ قوانین ایسے ہیں جن تک دسترس اب مشکل نہیں رہی ۔ لیکن اگر عوام و خواص بھی ان قوانین تک پہنچ جائیں تو یہ قوانین ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ انہیں سمجھنے کے لیے جہاں شرعی تعلیم لازمی ہے وہاں جدید اقتصادی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ قوانین نئے ہیں اس کی تعلیم ابھی یونیورسٹیوں میں دی جارہی ہے ۔ ان کے عام فہم ہونے میں کافی وقت درکار ہے ۔ نیز یہ عام آدمی کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ اس نظام کے جواز اور عدم جواز پر اپنی رائے دے سکے ۔ عوام پر اہل علم کی اقتدا لازمی ہوتی ہے ۔


اسلامی بینکاری ایک متبادل نظام کے طور پر متعارف ہوئی ہے جسے صرف ایک میدان میں نہیں بلکہ پروڈکٹس، سروسز،اسلامی بینکنگ کی تعلیم سے آشنا افرادی قوت ،تعلیمی اداروں میں اس کی تعلیم و تحقیق جیسے سارے میدانوں میں ایک ایسے مقابل نظام کا سامنا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ مقابلہ آسان نہیں ہے۔ جہاں ان میدانوں میں محنت درکار ہے وہیں وقت بھی درکار ہے ۔


اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی جانب سے یہ اعتراض شاید اسلامی بینکاری سے متعلق سارے مندرجہ بالا لوازمات اور حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون بھی ہے اور دسترس میں بھی ہے ۔ البتہ عام فہم نہیں اور اس کی بنیادی وجہ ذکر کر دی گئی ہے۔

۔۲۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

اسلامی بینکاری کے معاملات کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور شریعہ بورڈ کے افراد کی اجازت پر چھوڑنے کی بجائے  پارلیمنٹ یا عدالتی نظام کے ذریعے قانونی قرار دیا جانا چاہیے ۔ بالفاظ دیگر اس بارے میں لازمی طور پر واضح قانون سازی کی جانی چاہیے ۔کیونکہ شریعہ بورڈ ز کی حیثیت  ایک مفتی کی سی ہے جس کے فتوے کو صرف ذاتی مفاد میں قبول کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کا مفاد وابستہ نہ ہو۔ نیز یہ فتوے افراد پر لازم بھی نہیں ہوتے کہ وہ اسے اپنے اوپرنافذکریں ۔ (پیرا گراف نمبر 4)۔

تجزیہ

اس حد تک تو اسلامی بینکاری کے حاملین بھی قائل ہیں کہ اسلامی بینکاری  نظام کو ریاستی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے ۔ موجودہ حکومت نے اسلامی بینکاری کی جانب توجہ دی ہے امید ہے اس بارے میں مستقبل قریب میں کوئی نہ کوئی پیش رفت ہوگی۔جہاں تک اس اعتراض  کا دوسرا حصہ ہے ، اس کے لیے اس پہلو پر غور کرنا ضروری ہے ۔ کہ اسلامی بینکاری کے معاملات کسی افرادی نہیں بلکہ  اجتماعی نوعیت کے ہیں۔ماضی بعید میں معاملات فرد کی سطح پر دیکھے جاتے تھے ۔ فقہ کی کتب میں ایک دو یا چند افراد کے معاملات سے متعلق مسائل کا حل ملتا ہے ۔ لیکن فی زمانہ اقتصادی معاملات افراد کی سطح سے نکل کر اداراتی سطح تک آپہنچے ہیں ۔ توجید  فقہا نے اجتماعی اجتہاد کے ذریعے شریعت کے بنیادی اصولوں کی روشنی  میں نئے اصول و ضوابط متعارف کرائے تاکہ معاشرے کے اجتماعی سطح کے اقتصادی امور میں یکسانیت بھی پیدا ہو اور افراد کی سطح تک سہولت بھی پہنچے ۔ شریعہ بورڈ کے ممبر علما عمومی طور پر اپنے اسلامی بینکوں کو  ان اصولوں پر چلاتے ہیں جو مسلمانوں کے جید علما نے اجتماعی اجتھاد کے ذریعے مقرر کیے  ہیں۔ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ اور  ایوفی جیسے اداروں میں اجتماعی اجتھاد کے کام کو بطریق احسن سرانجام دیا جارہاہے ۔

عوام میں اسلامی بینکاری سے متعلق  پائے جانے والے تذبذب کی بنیاد علما کے فتاوی نہیں ہیں بلکہ اسلامی بینکاری نظام کی معلومات کا عوامی سطح تک نہ پایا جانا ہے ۔لیکن کسی حد تک لوگوں میں علما کے فتاوی کی ساکھ پر تشویش پائی جاتی ہے جس کی وجہ بھی لاعلمیت ہے ۔عوامی تشویش کسی نظام کے عدم جواز کی دلیل نہیں ہوتا ۔ ورنہ تو شاید ہی کوئی نظام ہوگا جس پر عوام تشویش کا شکار نہ ہو۔عوام کا کام ہے اہل علم کے پاس جائے اور اپنے لیے تشفی قلب  کا سامان کرے۔

یہ اعتراض  کہ فتوے افرادپرلازم نہیں ہوتے ۔ تو اس پر عرض ہے کہ عوام کو جب اس بات کا علم ہوجائے کہ اسلامی بینک کس طرح اپنے شریعہ بورڈ کے ممبر علما کے فتووں کا پابند ہوتا ہے تو ان کے لیے بھی یہ بات کسی حد تک تسلی کا باعث ہوتی ہےکہ وہ اس پر اعتماد کریں ۔ نیز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین اور سپر ویژن میں اسلامی بینکوں کا کام کرنا افراد کی انویسٹمنٹ کے محفوظ ہونے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ  اسلامی بینکوں  کے ڈیپازٹس  پردرج ذیل ایکٹ موجود ہے ۔

The Deposit Protection Corporation Act, 2016

 اس بارے میں قانون سازی کا عمل تدریجا جاری ہے ۔  رہی بات کہ اسلامی بینکوں پر نافذ فتوے کسی فرد پر لازم نہیں ہوتے ، تو جناب  ایسے تو  حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی بھی کسی فرد پر نافذ نہیں ہوتی ۔اگر اس نے اعتبار نہیں کرنا تو وہ حکومت کا بھی نہیں کرےگا۔عوامی اعتبار کے بنیادی اسباب کچھ اور ہوا کرتے ہیں تاہم حکومتی سرپرستی اس باب میں  ایک سبب ضرور ہے لیکن صرف  یہی ایک ہی سبب نہیں ہے۔لہذا پارلیمنٹ یا عدالتی قانون سازی کا نہ ہونا اسلامی بینکاری کے عدم جواز کی دلیل نہیں بنتا ۔

۔۳۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

اسلامی بینکوں کے سارے معاملات : اکاؤنٹ اوپننگ ،قرضہ جات کے اجرا ، دستاویزات کی  ڈسکاؤنٹنگ  یا دیگر طرق ، گارنٹی ، ایل سی جاری کرنا ، رہن ، مورٹگیج  وغیرہ جیسے سب معاملات  پر پارلیمنٹ کی  قانون سازی ہونی چاہیے ، ورنہ اسلامی بینکاری غیر قانونی متصور ہوگی ۔اس طرح اسلامی بینکاری ایک ایسا  ماڈل وجود میں آئے گا  جو قانونی ہونے کے ساتھ اسلامی بھی  ہوگا۔یعنی پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے ہر ایک پروڈکٹ کا اسلامی ڈھانچہ  مقرر ہوجائے گا  تو پھر ہر اسلامی بینک پر لازم ہوجائے گا کہ وہ اپنی اپنی ویب سائیٹس   پر اپنے کنٹریکٹ کی کاپیاں ، گارنٹی ، اور دیگر ڈاکومنٹس  کو ڈال دیں جس تک ہر کسی کی رسائی ہو۔ اس طرح قانون سازی اسلامی بینکاری کو قانونی جواز بھی ملے گا اور اسلامی ہونے کا اعتماد بھی ۔اس کے بغیر اسلامی بینکاری غیر قانونی ہے۔اگر اسلامی بینکاری  موجود ہ طرز پر اسی طرح چلنے دی جاتی ہے تو پھراسی پر قیاس کرتے ہوئے  عوام الناس کو آفر کرنے والی دوسری  پرائیویٹ اسکیموں کو بھی اجازت دے دی جائے ۔ (پیرا گراف نمبر 5)

تجزیہ

اسلامی بینکاری پر قانون سازی سے متعلق تو اسلامی بینکاری کے حاملین بھی قائل ہیں جیسا کہ گزشتہ قسط میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔

اس اعتراض میں دو معلومات غلط ہیں ۔ اول یہ کہ اسلامی بینک  قرضہ جات کا اجرا بالکل نہیں کرتے ۔دوسرا اسلامی بینکوں کو دستاویزات کی ڈسکاؤنٹنگ کی بھی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ اس لیے ایوفی شریعہ اسٹینڈرڈ بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ لیکن کچھ احباب اس پر مُصِر ہوتے ہیں کہ اسلامی بینک سودی بینکوں کی طرح قرضہ جات میں ہی ڈیل کرتا ہے۔اسلامی بینک کا مرابحہ ، مضاربہ، سلم وغیرہ کچھ بھی ہو ، اُن کے نزدیک  وہ سب کچھ حقیقت میں قرض ہی ہے جس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں ۔حالانکہ اسلامی بنکاری میں یہ تمام عقود کے اپنی اپنی  شرائط کے ساتھ مکمل ہوتے ہیں۔

قانون سازی کے بعد اسلامی بینکاری کی ہر پروڈکٹ  کی اسلامی صورت متعین ہوجائے گی  والی بات بھی  قابل غور ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک صورت تمام فقہی مکاتب فکر کے لیے یکساں قابل عمل ہوگی ؟ کیونکہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اسلامی بینکاری نظریہ تلفیق پر چل رہا ہے تو کیا یہاں تلفیق  قابل  قبول ہو گی  ؟

اسلامی بینکاری کی جن دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ساری کی ساری مہیا ہوجاتی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کلائنٹ کی سائن شدہ کاپی تو نہیں دی جاتی اور وہ تو کوئی بھی نہیں دیتا ۔پروڈکٹس سے متعلق  جنرل ڈاکومنٹس تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائیٹ پر درج ذیل لنک پرموجود ہیں اور تمام اسلامی بینک انہی سے استفادہ کرتے ہیں۔

Essentials of Islamic Modes of Financing

اسی طرح دیگر اسلامی بینکوں کی دستاویزات بھی ان کی ویب سائیٹس پر مل جاتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان  بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے لیے ریگولٹری اور سپر ویژن  اتھارٹی ہے جو ایک حکومتی ادارہ ہے ،جس  نے بینکنگ کمپنی آرڈیننس میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ترمیم کے ذریعے اسلامی بینکنگ کو قانونی جواز فراہم کیا ہے اور لائسنس جاری کیا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر قانون سازی کی اہمیت کو واضح کرنا راقم کے دائرہ کار سے باہر ہے۔  لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ قانون سازی نہ ہو تو نظام بھی اسلامی نہیں رہتا ۔ اور اس پر قیاس کرتے ہوئے  دیگر پرائیویٹ اداروں کو بھی اجازت دے دی جانی چاہیے والی بات بھی قیاس مع الفارق کی صورت ہے ۔ جب حکومت پاکستان کے ایک ادارے نے جازت دے دی ہے اور اسے ریگولیٹ اور سپروائز کر رہا ہے تو کیا قانونی جوازکے لیے یہ کافی نہیں ہے ! نیز مقننہ  کی  قانون سازی  کا تعلق کسی چیز کے شرعی جواز اور عدم جواز سے نہیں ہے۔ شرعی جواز وعدم جواز کا تعلق فقہ اور فقہا کے مرہون منت ہے۔ ورنہ کئی ایسے قانون ہیں جو مقننہ نے بنائے ہیں لیکن شریعت سے متصادم ہیں  اور خود محترم نیازی صاحب اس پر بارہا لکھ بھی چکے ہیں۔

۔۴۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

اسلامی  بینکنگ کے ایک ٹی وی اشتہار میں ایک عالم دین  (جناب مفتی منیب الرحمن صاحب ) اسلامی بینک کے ڈیپازٹس کے اسلامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ اس بارے کوئی واضح دلائل نہیں دیتے، تفصیل ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ علما کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ اسلامی بینکوں کو فنڈ دینے کے لیے اتنی سی بات کہہ دینا ناکافی ہے۔(پیراگراف نمبر 7)۔

تجزیہ

ٹی وی اشتہار کا مقصد کسٹمر کو متوجہ کرنا ہوتا ہے ۔ جتنی تفصیل کا مطالبہ اعتراض میں کیا گیا ہے اس کے لیے فارمیٹ اشتہارکا نہیں ہوتا بلکہ پروگرام کا ہوتا ہے۔ باقی تفصیل تو مہیا ہے کتابوں میں بھی موجود ہے اور مختلف آرٹیکلز میں مل جاتی ہے ۔

۔۵۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ اسلامی بینک میں اکاؤنٹ مضاربہ کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔ جبکہ جدید بینکاری کے بارے میں یہ واضح ہے کہ بینکوں کے ڈیپازٹس قرض کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔ امریکی عدالتوں نے یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ بینکوں کے ڈیپازٹس صرف اور صرف قرض ہی شمار ہوں گے جن کی واپسی کی ضمانت ہوگی ۔

تجزیہ

اسلامی بینکاری نظام امریکہ یا کوئی اور ملک یا سودی نظام سے الگ ایک مستقل نظام ہے جس کے اپنے اصول ہیں و ضوابط ہیں۔ امریکی عدالتوں کے حکم کا نفاذ سودی بینکوں پر تو ہو سکتا ہے لیکن اسلامی بینکوں پر قطعا نہیں ہوتا ۔ اسلامی بینک کے ڈیپازٹس کی تعریف کیا ہوگی اس کا تعین اسلامی بینک سے متعلقہ ریگلولیٹری ادارے ہی کریں گے ۔ اور یہ تعین کیا جا چکا ہے کہ اسلامی بینکوں کے انوسٹمنٹ اور سیونگ ڈیپازٹس مضاربہ بنیادوں پر ہی کھولے جائیں گے اور ان پر شرعی مضاربہ کے اصولوں کا اطلاق ہوگا۔ لہذا اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس پر سودی بینکاری نظام کی تعریف کو چسپاں کرنا اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ایک طرف شکو ہ کیا جات ہےکہ اس کے لیے الگ سے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی تو دوسری طرف اگر اس کا اپنا تشخص قائم کر کے اصطلاحات کی اپنی تعریفات مقرر کی جائیں تو اس کا انکار کر دیا جاتا ہے جو ہر لحاظ سے نامناسب ہے ۔ اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس سے وہی مراد ہے جو اسلامی بینکوں نے دی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تعریف قابل قبول نہیں ۔ذیل میں ڈپازٹس کے حوالے سے تفصیل اس لنک پر مذکور ہے۔

Deposits of Islamic Bank

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

مغربی  تہذیب   سے کیا مراد ہے؟

 

مغربی  تہذیب   سے کیا مراد ہے؟

 

محمد ابوبکر صدیق

…………………………….

“چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر”

مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر صدیوں کے دوران یورپ میں نموردار ہوئی۔کیونکہ اس سے قبل تو پورا مغرب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا جسے وہ  ( ڈارک ایجز)  کے نام سے یاد کرتے ہیں۔مغربی تہذیب کا تولّد سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت  ہوا جب مشرقی یورپ  عثمانی خلافت اسلامیہ کے زیر تسلط آیا ۔ لاطینی اور یونانی علوم کے حامل بہت سے افراد وہاں سے  مغربی یورپ کی جانب چلے گئے۔ہسپانیہ (موجودہ سپین ) پر عیسائیت کے قبضے کا بھی یہی زمانہ تھا۔مسلمانوں نے تقریبا آٹھ سو سال تک اسپین میں حکومت کی ۔مسلمانوں نے اسپین کو جہالت کی تاریکوں سے نکال کر علم و فن کا ایک شاہکار بنادیاتھا۔ لیکن جب مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کیاگیا تو وہ تمام علمی و فنی ورثہ عیسائیت کے قبضے میں آگیا۔یہی وہ علمی ورثہ تھا کہ جس سے یونانی اور لاطینی مفکرین نے استفادہ کیا اور جدید  یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں اُن کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی اور جہالت کا علاج ہو گیا۔ بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیاءاور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان، فرانس، پرُ تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سے اسی گرفت میں لینا شروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیاءاور افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا اس رواج کی ابتداءیونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے ہوئی۔ جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہاں کے عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے۔ ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، عراق، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی (۱)۔ اور وہ اپنی اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ان کی اس کامیابی کے پیچھے بہت بڑا اجتماعی ذہن کارفرما ہےجس کی تفصیل علامہ اقبال ؒ کی نظم  اِبلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام میں کچھ یوں ملتی ہے

لا کر بَرہمنوں کو سیاست کے پیچ میں                زُناّریوں کو دَیرِ کُہن سے نکال دو

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا             رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات                اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج            مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھِین لو               آہُو کو مرغزارِ خُتن سے نکال دو 

تاریخ بتاتی ہے کہ مغلوب اور غلام قوموں کا ایک بنیادی المیہ یہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ غالب قوتوں کی تہذیبی چکا چوندکے سامنے ٹک نہیں پائے۔ لیکن جو تہذیب پختہ بنیادوں پر استوار ہوئی ہو وہ کبھی بھی مٹ نہیں سکتی البتہ حالات و واقعات کے تناظر میں کبھی اس کا مغلوب ہوجانا ناممکن نہیں۔ اسلامی تہذیب چونکہ قرآن و سنت کے دائمی اور پختہ اصولوں پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ تاتاریوں کے طوفان بلاخیز کے گزرجانے کے باوجود بھی اسلامی تہذیب کا چراغ گُل نہیں ہوا۔فی زمانہ بھی اسلامی تہذیب پر مغرب و  یورپ کی جانب سے میڈیا، جدید تعلیمی اداروں اور جمہوریت کے ذریعے حملے کیے جارہے ہیں۔مطلق آزادی، مطلق مساوات ، انسانی حقوق اور مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے جیسے دل فریب نعرے بلند کیے جارہے ہیں اور میر جعفر و میر صادق نما غدار ملت ان نعروں کی نمائش میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن اسلامی تہذیب کا چراغ پھر بھی منور ہے اور ان شاء اللہ یہ منور رہے گا کیونکہ حق کا نور بجھنے کے لیے تھوڑی ہوتا ہے۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

مغرب نے کے ابلیسی نظام نے کیسے حملہ کیا اور پھر ابلیسی قوتوں کو خدشہ کس بات کا ہے ؟ کس سے خوف ہے ؟ اس سب کا جامع بیان حضرت علامہ اقبال ؒ کی نظم ابلیس کی مجلس شوری میں موجود ہے۔

ابلیس کی مجلس شوریٰ
1936

ابلیس

یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں!

ساکنانِ عرش اعظم کی تمناوں کا خوں!

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز

جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں

میں دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب

میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں

میں ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا

میں نے معنم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں!

کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد

جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں

جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند

کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں!

پہلا مشیر

اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام

پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام

ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود

ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام

آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یارہتی ہے خام!

یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج

صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام!

طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی

ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا

کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام!

کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید

ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پرحرام

دوسرا مشیر

خبر ہے سلطانیء جمہور کا غوغا کہ شر؟

تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر!

پہلا مشیر

ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے

جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر!

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجود میر و سلطاں، پر نہیں ہے منحصر

مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر!

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟

چہرہ روشن ،اندروں چنگیز سے تاریک تر!

تیسرا مشیر

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب

ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟

وہ کلیم بے تجلی ! وہ مسیح بے صلیب!

نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب!

کیا بتاوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز

مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد

توڑ دی بندوں نے آقاوں کے خیموں کی طناب!

چوتھا مشیر

توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ

آل سیزر کو دکھایا ہم نےپھر سیزر کا خواب

کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا

گاہ بالدچوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب

تیسرا مشیر

میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں

جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب!

پانچواں مشیر

(ابلیس کو مخاطب کرکے)

اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار

تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار

آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز

ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار

تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں

سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار

کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف

تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار

گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام

اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار

وہ یہودی فتنہ گر، وہ روحِ مزدک کابروز

ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار

زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہیں و چرغ

کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روز گار

چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر

جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار

فتنہء فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج

کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار

میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے

جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پرمدار

ابلیس

(اپنے مشیروں سے)

ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو

کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسماںِ تو بتو

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق

میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو

کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو!

کار گاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے

توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو

دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک

مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہو

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحر آگاہی سے جو ظالم وضو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے

مزدکیت فتنہء فردا نہیں، اسلام ہے

(2)

جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندہء مومن کا دیں

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں

الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر

حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں

موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے

نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف

منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اس سے بڑھ کر اورکیا فکر و عمل کا انقلاب!

بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں

چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں!

ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے

یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں‌الجھا رہے

(3)

توڑ ڈالیں جس کی تکبریں طلسمِ شش جہات

ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات!

ابنِ مریم مر گیا یا زندہء جاوید ہے؟

ہیں صفاتِ ذاتِ حق سے جدا یا عین ذات؟

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے

یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟

ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم

امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں

یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟

تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے

تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر

جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات!

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات!

مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔( 1) ۔ وکی پیڈیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

زومبی جنریشن – شاخِ بریدہ

زومبی جنریشن – شاخِ بریدہ

…………………………………….

محمد ابوبکر صدیق

یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور پڑھانے سے ایک بات تو سمجھ میں آگئی ہے کہ نئی نسل اسلامی تہذیب بالعموم اور پاکستانی کلچر بالخصوص پر تو تیار نہیں ہورہی۔ اردو زبان سے  عدمِ واقفیت اور انگریزی زبان  ایسی کہ جسے انگریز لطیفے سے کم نہ گردانیں والی کیفیت ہو چکی ہے۔یہ تجزیہ اس نئے نظام کے احباب کے لیے نہ صرف قابل قبول نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ناگواری کا باعث بھی ہوگا۔ لیکن ہم نے “اقبال کا ترانہ بانگ درا ہوگیا ” کے مصداق صدائے حق بلند کرنی ہے اور یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ میں لشکر یزید میں مثلِ حُر رہتا ہوں۔ 

یہ نئی نسل جو نہ تو ” کوے ” رہے اور نہ ہی کبھی ” ہنس ” بن پائیں گے۔ایسے لگتا ہے کہ چند دہائیوں بعد یہ قوم شاید اردو پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتی ہوگی۔ جسمانی طور پر تو یہ نسل ہماری ہے لیکن ذہنی طور پر یہ کسی اور کی نسل تیار کی جارہی ہے۔ اور اس میں بنیادی کردار اور اہم کردار جدید تعلیمی ادارے اور بے لگام میڈیا ہاوسز کا ہے۔

آگے چلنے سے پہلے قاری صرف اتنا ذہن میں رکھے کہ جو معاشرتی فساد , الحاد، فحاشی  اور بے حیائی آج ہمارے زمانے میں ہے کیا یہ ہمارے بچپن یا باپ دادا کے زمانے میں تھی ؟ اگر جواب نہیں میں آئے تو پھرسوچیں  آخر وہ کیا وجوہات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ اسی موضوع پر آگے گفتگو کی گئی ہے ۔

فی زمانہ چنداں کمیوں کے باوجود دینی مدارس کا وجود کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں  جو اس گئے گزرے دور میں بھی  ایسے اسکالر پیدا کر رہے ہیں جو قرآن و سنت، عربی ، اردو حتی کہ فارسی زبان پر بھی کافی حد تک عبور رکھتے ہیں۔فارسی زبان وہ زبان ہے کہ جس میں علم کا ایک سمندر سمیٹا پڑا ہے مگر آج ان کتابوں پر دھول اٹی پڑی ہے کہ جسے کسی نے کھول کر بھی نہیں دیکھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جومعاشرے  کی لاکھ بے اعتنائیوں اور طعنہ زنیوں کے باوجود 1400 سال سے قرآن و سنت کا ورثہ آج ہم تک سنبھال کر لائے ہیں۔ اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ یہ وہ با کمال لوگ ہیں کہ جنہیں نہ تو ریاستی وسائل مہیا ہیں اور نہ ہی بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات۔لیکن پھر بھی زبان پر اللہ کا شکر جاری رہتا ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی معاشرے کے ایسے نوجوان کو ایک با کمال انسان بناتے ہیں جسے اس کے اپنے ماں باپ بالعموم اس لیے مدرسے چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ اسے جدید تعلیم حاصل کر کے جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کمانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ یہی مدارس اسی نوجوان میں وہ دل ،وہ جگر پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ علوم قدیمہ کے ساتھ علوم جدیدہ میں بھی جدید تعلیمی اداروں کے طلبہ کے برابر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو مختلف اضلاع کے سکینڈری اور انٹرمیڈیٹ کے بورڈز کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں توپتہ چلے گا کہ دینی مدارس کا رزلٹ ۹۵ سے ۱۰۰ فیصد کامیابی کا ہوتا ہے۔ 

وہ نوجوان جسے اپنے والدین نے کسی کام کا نہیں سمجھا  ہوتا وہی نوجوان اپنے والدین کے قدموں کا دھوون پینے کو اپنی سعادت گردانتا ہے۔ ان کے سامنے اپنی آواز اونچی نہیں کرتا۔ دیگر رشتوں میں تقدس کا خیال  اور معاشرے کے بڑوں کا احترام کرتا ہے۔ یہ آداب فرزندی مکتب کی کرامت کے ساتھ ساتھ صاحبِ کردار اساتذہ کی مبارک نگاہ کےطفیل نصیب ہوتے ہیں۔

جدید تعلیمی اداروں سے پیدا ہونے والی نئی جنریشن  کی کیا تربیت ہے ؟ تربیت کس منہج پر ہے ؟ کیا آداب زندگی ہیں ؟ یہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا اشارہ دیتا چلوں کہ جیسے جیسے مغرب کی ابلیسی تعلیم اور ابلیسی کلچر کو اپنے تعلیمی اداروں اور زندگیوں میں لے کر آئے ہیں ویسے ویسے ہمارے معاشرے کی اقدار پامال ہوئی ہیں ۔ اولڈ ہاوسز جیسی لعنت میں اضافہ ہوا ہے۔ فحاشی و عریانی بڑھی ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ وہ قابل برداشت بھی ہوئی ہے۔مخلوط تعلیمی اداروں میں جو بڑھتی ہوئی اخلاقی اور سماجی تباہی ہے اس کے حقائق مخفی لیکن چشم کشا ہیں ۔ ایک ایسا ماحوال پیدا کرنے کی کوشش  کی جارہی  ہے کہ کسی طرح اس اسلامی معاشرے میں کنواری مائیں اور کنوارے باپ پیدا ہوجائیں۔ والدین کی دولت اڑا کر اولاد جوں جوں اعلی تعلیم یافتہ ہوتی جاتی ہے والدین کے لئے درد سر بنتی جاتی ہے۔ بالآخر وہی بیٹا کام آتا ہے جسے وہ مدرسے چھوڑ آئے تھے۔ اور اگر خوش قسمتی سے اس جدید نظام سے کوئی اچھا آدمی نکل بھی آئے تو اس میں کردار پھر اسلامی تعلیم کا ہی ہوتا جو اسے یا تو بچپن میں ملی  ہوتی ہے یا پھر کبھی کبھار علما کی آواز کانوں پڑنے کے سبب حاصل ہوئی تھی یا پھر گھرانہ ہی مذہبی تھا۔

پرائمری، او لیول اے لیول کے انگلش میڈیم برینڈڈ تعلیمی ادارے جہاں انگلش بہتر کرنے کی آڑ میں کم سن اور کچے ذہن کے طالب علموں کو مغرب کے مصنفین کے وہ ناول پڑھائے جاتے ہیں جس میں ابلیسی نظام سے محبت اور مذہب سے دوری کا بیج بویا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کا بچہ کلیسا کی جانب بہت ہی نرم لیکن مسجد کا مولوی اسے وحشی دکھائی دیتا ہے۔ اپنے معاشرے کی حقیقی اقدار بھی اسے دقیانوسی اور مغرب کی عریانیت اسے آزادی لگنے لگتی ہے۔ ایسے تعلیمی ادارے سے نکلنے والے ریوڑ کی نظر میں شیکسپیئر ، نپولین، ڈیکارٹ اور اس جیسے لوگوں کی تاریخ کافی حد تک پڑھی ہوتی ہے۔ امریکہ کیسے آباد ہوا؟ یورپ میں انقلاب کی روشن داستاں کیا ہے؟ الغرض اسلام کے علاوہ ہر فضول باب انہوں نے ازبر کیا ہوا ہوتا ہے۔  اسلامی تاریخ میں اگر انہیں کچھ یاد ہوتا ہے تو وہ یہ کہ  سلطان محمود غزنوی ، محمد بن قاسم  لٹیرے تھے۔ انہیں بائبل اور دیگر ملحد دانش وروں کے انگلش اقوال یاد ہوتے ہیں لیکن ایک آیت یا حدیث کا پوچھ لیں تو ان کی جیسے سیٹی گم ہوجاتی ہے۔ ان کی اکثریت کو تو اسلامی تاریخ کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ نسل جو اپنے عظیم ماضی سے شاخِ برید کی مانند کٹ چکی ہو، اور زومبیز کی طرح بے شعوری میں چلے جارہی ہو یہ سوچے سمجھے بغیر کہ “وہ کیا گردوں تھا جس کا میں ہوں اک ٹوٹا ہوا تارا ” ، کیا خاک اگلی نسلوں کی قیادت کے اہل ہوگی۔ بقول اقبال

نئی بجلیاں کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہو جن کی آستین خالی

 لبرل  طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود کو مسلمان بھی کہلوانا چاہتا ہے لیکن مغربی روشن خیالی کا لبادہ بھی اوڑھے رکھنا چاھتا ہے۔ اس لیے انہیں قرآن و سنت کی صرف وہ تعبیر و تاویل ہی پسند آتی ہے جس میں انہیں یہ اجازت مل جائے کہ ایک ہاتھ میں قرآن تو دوسرے میں جامِ شراب رہے۔مسجد میں بھی اُن کے سجدے  ہوتے رہیں اور کلیسا میں بھی حاضری لگتی رہے۔ شرعی احکام کی ایسی نادر تعبیر پیش کرنے والے لوگ ہی ان کے نزدیک حقیقی اسکالر اور روشن خیال عالم کہلاتے ہیں اور ان کے علاوہ باقی سب علمائے شریعت کو وہ دقیانوسی مولوی کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ ان کی دانش کی مثال یہ ہے کہ بھلے انہوں نے بھولے سے بھی کبھی قرآن نہ پڑھا ہو لیکن شرعی معاملے پر اصولوں کے خلاف وہ یوں زبان درازی کریں گے جیسے ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں اور اپنی ہر اول فول کو ایک دلیل قرار دیں گے اور “علمائے شرعیت سے کہیں گے کہ وہ اُن سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان سے زیادہ شریعت جانتے ہیں”۔ ایک طرف ان خودساختہ روشن خیال لبرلز کا یہ رویہ ہے دوسری جانب ان کا یہی رویہ یک سر الٹ جاتا ہے جب علما ئے حق علم اور درک رکھنے کے باوجود دنیوی امور میں اگر اپنی رائے پیش کریں تو انہی لبرلز کی زبانیں آگ اگلنے لگ جاتی ہیں اور آنکھوں خون اتر آتا ہے کہ جیسے علمائے حق نے اُن کی دُم پر پاؤں رکھ دیا ہو۔ یہ نام نہاد روشن خیال لبرل طبقہ ایسے دوغلے رویوں کا سراپا ہے۔اور علماء ایسوں سے ” قالوا سلاما ” کہتے ہوئے کنارہ کر جاتے ہیں۔ 

لبرل طبقے کو اسلاف علمائے حق اور مدارس سے اصل تکلیف ہی یہی ہے کہ ان مردان حق نے نئی نسلوں میں اسلام کی چنگاری سلگائے رکھی اور یہ سلسلہ ہر زمانے میں جاری رہا ہے ۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ انگریزوں نے کیسے اس قوم میں میر صادق و میر جعفر  پیدا کیے۔ کیسے اپنے لئے ذہن سازی کرنے والے دماغ اور قلم خریدے ۔ کیسے  علماء کا قتل عام کرایا ، مدارس ختم کروا دیے۔  لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ  حق کی تعلیم سینہ بسینہ چلتی رہی اور یہی چنگاری پھر سے شعلہ بن کر ابھری۔ آج پھر انہی درویش صفت علما کو چیلنج کا سامنا ہے ۔ اُسی عیار کی سازشوں کے تانے بانے بننے والے نئے میر جعفر و میر صادق شاید نہیں جانتے  کہ یہ درویش صفت علما آج بھی مدارس میں سخت کوشی اور سخت جانی کی جو تربیت پاتے ہیں جس کی شاید ہوا بھی ممی ڈیڈی تعلیم والوں کو نہیں لگی ہوتی ۔ یہ مضبوط اعصاب کے لوگ اسلامی تہذیب کے ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے ہزار راستے جانتے ہیں۔

بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے

یہی تو فرق ہے مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

کسی صاحب درد کے الفاظ ہیں جو یہاں نقل کر رہا ہوں آج کے دور کی بصیرت نے میری بصارت اندھی کر چھوڑی ہے۔ میرا ہرآنے والا دن پہلے سے زیادہ ڈروانا اور بھیانک ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوچکا۔ بیٹی حقوق کی جنگ میں اپنے ہی باپ کو عدالت کے کٹہر ے میں کھینچ لائی۔چادر زینب کے تقدس کی امین نے سارے پردوں کو چاک کر کے مرد کے شانہ بشانہہو نے کو اپنی عظمت گردان لیا۔ اپنی روایت اور مذہبی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر وہ اپنے لباس میں بے لباس گھومتی ہے۔ اسے نمائش کی وہ چاٹ لگ گئی کہ چند اخباری تصویروں کے لئے وہ کسی بھی سیاسی میراتھن میں دوڑ سکتی ہے اورحقوق انسانی کی ڈفلی پر کوئی اسے بہکاکر کسی بھی طرح نچوا سکتی ہے۔ اسکا دوپٹہ اس کے سر سے اتر کر گلے کا پھندا بن چکا ہے۔ حیا کی لالی میڈوراکے غاروں تلے جا چھپی ہےا دوپٹہ اس کے سر سے اتر کر گلے کا پھندا بن چکا ہے۔  ہمیں نہیں چاہیے وہ نظام جو عورت کو کاروبار کا اشتہار بنا کررکھ دے ۔ ہمیں نہیں چاہئے وہ ترقی جو ترقی کے نام پر حیا کی چادر کو تار تار کرتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ انصاف جو مختارائیں پیدا کرے۔   ہمیں نہیں چاہیے وہ نصاب جو ہمیں اپنے مذہب سے بے گانہ کر دے۔ نہیں چاہیے وہ کتاب جس پر الکتاب کا سایہ نہ ہو۔نہیں چاہیے وہ قلم جو چندپیسوں کے عوض امیرِ شہر کے قصیدے لکھتا ہے۔ نہیں چاہیے وہ معاشرہ جس میں عدل پیسوںکا محتاج ہے۔ نہیں چاہئے وہ طریقہ امتحان کہ امتحان سے پہلے ہی جس کےسوالنامے ردی میں بک جاتے ہیں۔ نہیں چاہیے وہ شہرت جو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہ کر سکے۔ نہیں چاہیے وہ حمیت جو المسلم اخوالمسلم کے نعرے سن کر بھی بیدار نہیں ہوتی ۔ نہیں چاہیے وہ نصیحت جو عمل سے خالی ہے۔ نہیں چاہیے وہ علم جس کاداعی خود اندھا ہے۔ آنے والے وقت کے سرابوں میں الجھا کر ہماری گزشتہ منزل بھی ہمچھین لی گئی۔ ہم کس معاشرتی ترقی کی بات کر تے ہیں ؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھاکہ جس میں باپ کی طرف محبت کی نگاہ کر نے والوں کو حج کے ثواب کا عندیہ ملے یا پھر یہ معاشرہ اچھا ہے جس میں باپ کو کچرے کا تھیلا سمجھ کر گلی کےنکڑ کے تھڑے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں ماں کےقدموں تلے جنت کی بشارت رکھی گئی تھی۔ یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے جس میں بوڑھی ماں کو اولڈ پیپلز ہوم کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ہم کس عدل و انصاف کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں جرم کی سزا بلا امتیازِ حسب و نسب دی جاتی ہے یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے جس میں اقربا ء کی کو تاہیوں کومصلحتوں کی غلاف اوڑھے جاتے ہیں۔ ہم کس اخلاقیات کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں خریدار کو بیچنے سے پہلے مال کے نقائص بیا ن کئےجاتے تھے یا پھر یہ زمانہ اچھا کہ خراب مال پر بہت اچھا کی مہریں لگا لگاکر گاہکوں کو لوٹ لیا جا تا ہے۔ ہم کس جنگ کی بات کرتے ہیں ! کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں شہر کے شہر بغیر کسی قطرہ خون بہائے فتح کر لئے جاتے ہیں یاپھر یہ زمانہ اچھا ہے کہ  جہاں لاکھوں کی آبادی کولقمہ اجل بنا دیا جائے۔

علاج کیا ہے؟

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں 

حضرت علامہ اقبال ؒ نے بیماری کی تشخیص اور علاج دونوں کی جانب کچھ یوں اشارہ کیا تھا

وہی دیرینہ بیماری ،  وہی نامحکمی دل کی

علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی

چودہ صدیاں  قدیمی قرآن و سنت کا نظام ہی تمہاری جدید بیماری کا علاج ہے۔اپنی زبان کو اپنائیے ، اپنی اسلامی تہذیب کو اپنائیے ،اپنی معاشرتی اقدار کو اپنائے۔مغرب کی جدید تعلیم پر قرآن و سنت کی چھاننی لگائیے ۔ اچھا حصہ اپنا لیں اور اس کی غلاظت و گندگی باہر پھینکیں۔

دوڑ پیچھے کی طرف اے گرد شِ ایام تو کہ آج پھر میری اذان کو روح بلالی کی تلاش ہے۔آج پھر میری اکھیوں میں پیا ملن کی آس ہے۔ میری پلکیں اسی راہ کی گرد چننا چاہتی ہیں جس راہ کی مٹی نے میرے محسن ﷺکے قدم چومے تھے۔

لوٹ جا عہد نبوی ﷺ کی سمت اے رفتار جہاں
پھر  میری  پسماندگی  کو ارتقا ء  درکار ہے

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

جمہوریت کی گود میں ریاستِ مدینہ کا خواب

جمہوریت کی گود میں ریاستِ مدینہ کا خواب

…………………………………….

محمد ابوبکر صدیق

 ہمارا وزیر اعظم کب سایئکل پر پارلیمنٹ جائے گا؟

 یہ وہ سوال ہے جوعموما ً فکری ناپختگی کا شکار نوجوان اٹھاتے ہیں۔ میرا اُن سے سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم  کے سایئکل پر پارلیمنٹ جانے سے ملک میں خوش حالی آجائے گی ؟ اس پر عرض ہے کہ جن ممالک میں وزیر اعظم  ایک بارسائیکل پر پارلیمنٹ  گیا تھا وہاں دہشت گردی کا جن ایسے کھلے عام نہیں تھا جیسے ہمارے ہاں ہے۔اور اس سوال پر بھی غور کی جئے گا اس دہشت گردی کے پیچھے کہیں انہی  ممالک کی ہی فنڈنگ تو نہیں ؟ نیز ذرا یہ بھی دیکھ لی جیے گا کہ اس کے سائیکل پر جانے سےاُس دن وزیر اعظم کی سیکیورٹی کی مد میں   اُن کے ملکی خزانے  پر کتنا بوجھ پڑا تھا؟

جب دشمن زیادہ ہوں تو شریعت  حکمران کے لئے حفاظتی اقدامات کی اجازت دیتی ہے ۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں اگرچہ جاسوسی نظام وہ نہیں تھا جو آج ہے  اور نہ ہی موجودہ دور  کے جدید ہتھیار جیسے کوئی ہتھیار   تھے۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات بھی موجودہ زمانے کی مانند دگرگوں نہیں تھے۔ لیکن  اُس کے باوجود ہمارے تین عظیم خلفائے راشدین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی شہادت قاتلانہ حملوں میں ہوئی جس کی ایک وجہ سیکیورٹی کا نہ ہونا بھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان دل اندوہ نقصانات کی بدولت فقہائے کرام نے مسلم حکمران کی حفاظت کے لئے انتظام کو شریعت کا حکم قرار دیا۔

جہاں تک حکومتی اللوں تللوں یعنی فضول خرچی کی بات ہے تو اس پر واقعی اقدامات لازمی ہیں۔ اب کیا کریں پارلیمنٹ میں پہنچنے والے آسمان سے تو اترے نہیں۔ بلکہ ہم میں سے ہی نکل کر وہاں پہنچے ہیں۔ ہم ٹھیک ہونگے تو وہ بھی ٹھیک ہونگے۔ ہم ٹھیک کیوں نہیں ہو پا رہے؟اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مذہباً مسلمان ہیں لیکن  ہمارا اپنایا ہوا نظام ِ حیات مغربی ہے۔ ’’کانچ کا پیوند لگاو گے تو شاخوں پر کرچیاں ہی اگیں گیں‘‘۔ ایسے منافقانہ معاشرے میں ایسے ہی افرادکی کھیپ ہی تیار ہوتی ہے جیسی پارلیمنٹ میں پہنچی ہوئی ہے۔ووٹ دیتے وقت ہماری ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔

۔1۔ میرا تعلق دار جیتے بھلے کیسا ہی خبیث کیوں نہ ہو۔
۔2۔ میں یا میرا کوئی بھی رشتے دار کسی جرم میں پکڑا جائے تو میں جسے ووٹ دوں وہ مجھے چھڑائے۔
۔3۔ جسے میں ووٹ دوں وہ ہر حالت میں میرے مخالف پر ظلم کے پہاڑ توڑ دے خواہ وہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔

ہم ایسی ترجیحات کے ساتھ ووٹ دے کر سیاستدان منتخب کرتے ہیں اور سوچیں وہ سیاستدان کیسا ہو گا جو ہماری ان ترجیحات پرپورا بھی اترتا ہو۔ پھر خود فریبی میں مبتلا لوگ  دعا یہ کرتے ہیں کہ اُن  کے ووٹ سے اُ ن کا ملک مدینہ کی ریاست بن جائے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو پس پشت ڈالیں اور اخلاق باختہ، ظالم ، کرپٹ لوگ پارلیمنٹ بھیجیں اور پھر ان سے امید کریں کہ وہ صدیقی و فاروقی، عثمانی و حیدری کردار ادا کریں۔ پیشاب سے پھل دار درخت سیراب کرو گے تو ذائقہ بھی وہی  ملے گاپیارے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم  خود فریبی میں مبتلا ہواور یہ ہمارے معاشرے کی ایک کڑوی سچائی ہے۔

مغربی جمہوریت کی گود سے مغربی اقوام تو فوائد لے رہی ہیں پھر ہم کیوں نہیں لے پا رہے؟

اس سوال کا درست جواب ایک اور سوال میں مضمر ہے کہ کیا واقعی مغربی معاشرہ اپنی جمہوریت سے خواطر خواہ فوائد لے رہا ہے ؟ یا یہ صرف میڈیا کا ڈرامہ اور پراپگنڈہ  ہے ؟ یہ محض ایک دھوکہ ہے اور کچھ نہیں۔اس پر غور کرنے سے قبل پہلے یہ طے کر لیں کہ جن ’’فوائد ‘‘ کی بات کی جارہی ہے اُن کی تعریف کیا ہے ؟ فائدہ ، کامیابی ، خوش حالی اور امن کہتے کسے ہیں ؟ آپ اگر مغربی فکر سے آگاہ ہیں تو جواب ملے گا ’’ انسانی خواہشات کی تکمیل‘‘ ہی وہ تصور ہے جو خوش حالی اور امن کی علامت ہے۔ اگر امن اسی تصور کا نام ہے تو پھر یہ تسلیم کرلیں واقعی مغرب کی دنیا کسی حد تک فوائد لے رہی ہے اور وہ اپنے خدا (خواہشات) کو راضی کر رہے ہیں۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ زیادہ بھیانک ہے کہ مغربی معاشرے میں  مذہب سے دوری نے  روحانی تسکین کا بیڑا غرق کردیا ہے۔جرائم کے اعدادوشمار بہت زیادہ ہیں۔ اگر فوائد کی تعریف وہ ہے جو مذہب فراہم کرتا ہے تو پھر مغرب سراسر گھاٹے میں ہے۔

مغرب کے گال کی سرخی کے پیچھے دیگر اقوام کے خون کی لالی  شامل ہے۔بقول حضرت اقبال ؒ   ’’ شفَق نہیں مغربی اُفق پر یہ جُوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے!‘‘۔

مغربی جمہوریت میں جسمانی تسکین کے فوائد کی قیمت  مذہب سے آزادی ہے اور مغربی جمہوریت کی یہ اولین شرط ہے۔ وہاں اقتدار اعلی کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے۔  جبکہ اسلام میں مقتدر اعلی اللہ جل مجدہ کی ذات ہے۔انسان اُس کا نائب ہے۔مغرب انسان کو خدا سمجھ کر چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مطلق آزادی کے نام پر ہیومن رائٹس جیسے تصور سامنے آئے۔ ’’ میں جیسے چاہوں اور جو چاہوں کرسکوں ‘‘ کی خواہش انسان کا حق قرار پاتی ہےاور مغربی جمہوریت اُسے یہ حق دینے کا سارا زور لگاتی ہے۔ جبکہ اسلام کے نظام میں انسان اپنی خواہشات میں آزاد نہیں ہے، بلکہ یہاں تو خواہشات کو جائز و ناجائز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور پھر جائز خواہشات میں بھی خواہشات کی قربانی کا سبق ازبر کرایا جاتا ہے۔

ایسے میں کیا ایک مسلمان جسمانی تسکین کے حصول میں مغربی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو اپنا سکتا ہے؟
نہیں کبھی بھی نہیں کیونکہ اس کے لئے اُسے اپنے  ایمان کی قربانی دینی پڑے گی۔اس لئے مسلمان مغربی جمہوریت سے کبھی بھی وہ فوائد حاصل نہیں کر سکتے جو  مغرب لے رہا ہے۔اس لئے ہمیں فلاح (دنیا و آخرت کی کامیابی )کے لئے اپنے مذہب حق اسلام کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ وہ نظام جسے ہمارے اسلاف نے اپنا کر دنیا کی تاریخ میں اپنے زمانے کو ’’ گولڈن ایج‘‘ کے نام سے امر کر گئے۔اس لئے  ہمیں بھی اپنے اسلامی نظام حیات کی طرف دیکھنا ہوگا جس میں فلاح کی امید نہیں بلکہ یقین دہانی ہے۔زندگی کے حقیقی مقصد کی پہچان کا سبق اپنی نسلوں کو دیں پھر دیکھیں عزتوں کے سارے رستے تمہارے قدموں میں ہونگے۔

لوٹ جا عہدِ نبیﷺ کی سمت رفتارِ جہاں

پھر میری پسماندگی کو اِرتقاء درکار ہے

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا 

اسلام کچھ اور ہے اور جمہوریت کچھ اور ہے ۔ اس لیے خدارا اسلامی جمہوریت کا دھوکہ کبھی نہ کھائیے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

مغرب اور احساس کمتری میں مبتلا لوگ

مغرب اور احساس کمتری میں مبتلا لوگ

…………………………………….

محمد ابوبکر صدیق

مغرب کے نظریہ حیات  میں زندگی کے عملی میدان سے مذہب کا کردارہی ختم کردیا گیا۔مغرب نے مذہب کی بنیادں کو کمزور کرنے کے لیے جس فکر کو بنیادی ہتھیار بنایا وہ معاشی فکر تھی۔ چنانچہ انہوں نے معاشی نظریہ حیات اس انداز میں متعارف کرایا کہ  یہ ایک الگ مذہب بھی نہ لگے تاکہ اہل مذہب کی جانب سے ممکنہ مزاحمت سے بچا جا سکے  لیکن آہستہ آہستہ یہ  ان کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھے دے اور بالآخرخود ایک غیر اعلانیہ مذہب قرار پائے۔اس لیے مغربی معیشت جو کہ مغرب کا نظریہ حیات ہی ہے، میں مذہب کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے خدا کی بجائے خواہشاتِ نفس کو معاملات کا حکم بنادیا گیا۔

جب ایک فردسے خدائے لم یزل کا خوف اور  یوم حساب کا تصور چھین کر اُسے خواہشات کے بھیڑیے کے سامنے ڈال دیں گے توپھروہ ایک دمڑی کے لیے کسی کی جان لینے سے گریز کیوں کرے؟ اپنی حیوانی خواہش کو پوراکرنے کے لیے عصمت دری کیوں نہ کرے؟ دولت جمع کرنے کی ہوس میں وہ تجارتی منڈیوں میں اجارہ داریاں قائم کیوں نہ کرے؟ ناجائز منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی سے کیوں رکے؟ جب ایک انسان سے اُس کا وہ خوف چھین لیں گے جو اُسے انسان بنائے رکھنے کے لیے ضروروی تھا تو پھر وہ دیگر حیوانوں کی طرح کام نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔اور یہی مغرب میں ہورہا ہے جو صرف اور صرف ان کے اِسی باطل نظریے کی دَین ہے۔

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام

چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

مغرب کے نام نہاد فلسفیوں اور دانش وروں نے اپنی تہذیب کی بنیادجن نعروں پر رکھی وہ بظاہر تو خوش نما اور دلفریب نعروں تھے لیکن ان میں عملی فلاح کا تصور دوردور تک بھی نہیں تھا۔ کیونکہ ہر دانش ور کسی خاص طبقے سے نکل کر آیا تھا تو اُس نے اُسی طبقے کے مفادات کے پیش نظر سلوگن متعارف کیے کسی نے فرد کے حق میں تو کسی نے اجتماع کے حق ، کسی نے مزدور کی دادرسی کا نعرہ لگایا تو کسی نے سرمایہ دار کو طاقت وربنانے کی صدا لگائی۔لیکن یہ سب نعرے دل آویز جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگینوں کی ر یزہ کاری ہے

مغربی دانش وروں نے مطلق آزادی اورمطلق مساوات کے دل فریب نعروں کے جھانسے میں مبتلا رکھ کرپورے مغربی معاشرے کو ایک ایسی ڈگر پر چھوڑ دیا کہ جس پر چلتے ہوئے وہ بتدریج اپنا خاندانی نظام ، معاشرتی نظام حتی کہ اپنی نسلوں سے تعلق تک گنوا بیٹھے۔ظلم تو یہ ہے کہ صدیوں کے اس تباہ کن سفر پر سب کچھ گنوا دینے کے بعد جن کے پاس کھونے کو اب کچھ بچا ہی نہیں ، انہیں ترقی کی علامت قرار دےکر دوسری تہذیبوں کے احساس کمتری میں مبتلا لوگ اپنی اقوام کو انہی کے راستے پر چلنے کے لیے کمر کسنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔مغربی تہذیب کو بہت قریب سے جانچ پرکھ کر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا؛

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرےگی

جو   شاخ    نازک   پہ آشیانہ   بنے  گا ناپائیدار  ہو گا

اسلامی تہذیب کےعناصر میں اخوت،مساوات،جمہوریت،آزادی،انصاف پسندی،علم دوستی،احترام انسانی،شائستگی،روحانی بلندی اوراخلاقی پاکیزگی شامل ہیں اورانکی بنیادپریقیناایک صحت منداورمتوازن معاشرہ کاخواب دیکھاجاسکتاہے۔ جبکہ مغربی تہذیب ان تمام خوبیوں سے یک سر محروم ہے۔

حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا

رقابت خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

مغرب پلٹ بزر چمہر اور ہمارا سادہ دل نوجوان

مغرب پلٹ بزر چمہر اور ہمارا سادہ دل نوجوان

تحریر : محمد ابوبکر صدیق

September 01, 2020

…………………………………….

پس نوشت

ہمارے نوجوان جو دیار مغرب میں اعلی تعلیم کے لئے جاتے ہیں اور جب پلٹتے ہیں تو اپنی دم پہ مور پنکھ چپکا لاتے ہیں۔ اس میں وہ احباب بھی شامل ہیں جن کے لئے مولانا و عالم کی اصطلاح باعث عار ہوتی ہے۔ اس لئے وہ خود کو اسکالر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ نظریات میں یہ بدلاو کیوں آتا ہے؟

تاریخ شاہد ہے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جس قوم کا سیاسی غلبہ ہو وہ فکری سطح پر بھی موثر ہوتی ہے۔ ان کا کلچر مغلوب اقوام کے لئے معیار ٹھہرتا ہے۔ یہ ایک عمومی رویہ ہے۔
البتہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو تہذیبی یلغار میں بھی اپنے افراد کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے کچھ مفروضے ہیں جو تاریخی شواہد کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں۔ اور یہ میری رائے ہے جس سے اصحاب علم و دانش کو اختلاف ہوسکتا ہے۔

۔1۔ نظریاتی و فکری سطح پر بندے کی اسلام کے ساتھ وابستگی غیر معمولی حد تک مضبوط ہو یعنی کمپرومائزڈ نہ ہو۔

۔2۔ بندہ خود اعلی و پاکیزہ کردار کا حامل ہو۔

۔3۔ بندے کی روحانی تربیت کے پیچھے اعلی کردار کا حامل کوئی صاحب نظر شخصیت ہو۔ یا پھر خاندانی نسبت ہی کمال ہو۔

۔4۔ قرآن و سنت اور اسلاف کے اصولی و فروعی علمی ورثے کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہو۔

یہ چار شرطیں جس بندہ مومن میں پائی جاتی ہوں  مغرب اکیلا تو کیا اپنے جیسی لاکھ ابلیسی تہذیب کی چکا چوند لے آئے وہ ایسے بندہ مومن کی مست نگاہ کو خیرہ نہیں کرسکتیں۔
فی زمانہ دیار مغرب میں جانے والے مسلمان نوجوان دو طرح کے ہیں ایک وہ جو کالج و یونیورسٹی کی کھیپ ہے۔ بدقسمتی سے ان میں تو شاید ہی کوئی ہو جس میں مندرجہ بالا کوئی ایک بھی خوبی پائی جاتی ہو۔ چھوئی موئی صفت زومبی جنریشن جو پہلے ہی اپنی اصل سے کٹی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ وہ کمزور سپاہی ہیں جو مغرب کی دھرتی پر قدم رکھتے ہی ’’چاروں شانے چت‘‘ ہوجاتے ہیں اور وہاں ’’ہنس کی چال چلنا‘‘ شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم استثنائی مستحسن کردار اپنی جگہ موجود ہیں اور قابل تعریف ہیں۔

مدارس کے فارغ التحصیل طلبا جن میں چار میں سے کوئی چند شرطیں ہوں بھی تو وہ بہت ناقص ہوتی ہے جیسا کہ اس وقت ہمارا موجودہ معاشرہ ہے۔ آخر وہ بھی اسی کا حصہ ہیں۔ مطالعے کا حال تو پوچھئے ہی مت خواہ جناب “اسکالر ” ہی کیوں نہ ہو۔ سطحی نظر کو جناب گہرا مطالعہ سمجھتے ہیں۔
اگر یہ شرائط نہ ہوں یا ہوں لیکن ناقص ہوں تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟
ایسے نوجوان جب مغرب میں پہنچتے ہیں تو وہاں کی تہذیبی و فکری یلغار کے سامنے مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ وہ اسلامی احکام اور عقائد کی اس تشریح کو آسانی سے قبول کرلیتے ہیں جو مغربی مفکرین نے کی ہوتی ہیں۔ یا پھر فکری و روحانی نا پختگی کی وجہ سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہ ایسی تاویل و تفسیر یا عقلی تعبیر پیش کرتے ہیں جو اہل مغرب کے لئے قابل قبول ہو تاکہ انہیں اہل مغرب کی جانب سے کسی ایسے تلخ اور تند تیز اعتراض کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کے سامنے وہ لاجواب ہوجائیں، لہذا اس کا سادہ سا حل انہیں یہ سوجھتا ہے اسلاف کے فہم دین سے ہی دستبردار ہوا جائے تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر انہیں ہر خوبی مغرب میں اور ہر خامی اسلام میں دکھائی دیتی ہے۔ مغرب بڑی ہی چالاکی سے ایسے مرعوب ذہن میں کامیابی سے یہ زہر بھرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ اسلام اور اسلامی علوم عصر حاضر میں ناکارہ ہوچکے ہیں۔ دنیا میں ترقی کرنی ہے تو پھر ہمیں اپنی ساری یہ اکثر علمی وراثت کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنا ہوگا۔ اور نئے سرے سے مغربی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ اور جب ان سے ترقی کی حقیقت یا تعریف دریافت کی جائے تو فورا ایک ایک کر کے مادیت زدہ ترقی کی مثالیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثلا چاند اور مریخ تک پہنچنا، کمپیوٹر کی ایجاد، وغیرہ وغیرہ۔
ایسے احباب کی سیٹی تب گم ہوجاتی ہے جب کوئی کٹر مسلمان ان سے صرف یہ سادہ سا سوال پوچھ لے کہ بھائی یہ بتاو کہ اتنی ساری ترقی کرنے کے بعد کہ ہواوں اور فضاوں کو مسخر کرلیا مریخ تک جاپہنچے ذرا یہ بتائیے اس ساری ترقی کی بدولت کیا وہ خالق کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ پائے ؟؟؟؟ مریخ کی رنگیلی مٹی لانے والوں کو کیا اس میں رب کا رنگ بھی نظر آیا ؟؟؟؟
یہ احباب “کھسیانی بلی کھمبا نوچے ” کی مثل آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں “” جناب یہ دوسری باتیں ہیں دیکھیں نا انہوں نے ترقی تو کی ہے “” ۔ اب مجھے بتائیے جسے مسلمان ہوکر یہ بنیادی بات ہی پتہ نہیں کہ جو اللہ تک نہ پہنچائے یا اللہ سے حجاب پیدا کردے اسے ترقی نہیں بلکہ “”ترکنا”” کہتے ہیں۔(پنجابی لفظ)۔ کیا ایسے غافل “مغرب پلٹ بزرچمہر ” کے کہنے پر یہ مان لیا جائے کہ اسلام اور مسلمان دقیانوسی ہیں اور مغرب ایک اعلی اقدار کی تہذیب ہے!
آج کل ایسے “”اسکالر”” کثرت سے میسر ہیں۔ جنہیں پڑھنے کے بعد مسلم نوجوان شرمندہ شرمندہ ہوا پھرتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کو نصیحت ہے اپنی روحانی و ذہنی تسکین کے لئے ایسوں سے دور رہا کریں کہ جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کے اسلاف آپ کی نظر میں بونے دکھائی دینے لگیں۔ مسئلہ آپ کی نگاہ کے ساتھ نہیں عینک کے ساتھ اس لئے عینک بدلئے۔
“””سیانے کہتے ہیں گھر سے باہر بھیجنے سے پہلے منڈا تگڑا کر لو۔ بھولا تو سب لٹا کے ہی آتا ہے بلکہ کبھی کبھار اپنا آپ بھی لٹا آتا ہے۔”””” جسے خود کا نہیں پتہ وہ بھلا خودی کیا سنبھالے گا۔ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ جو اپنے نظریات نہیں سنبھال سکا وہ تمہارے کیا سنبھالے گا۔
مغرب سے اسلامی نظریات و افکار سلامت لانے کے لئے قلندر لاہوری والا بندہ چاھیے ۔ جس کا اسلام سے تعلق بھی پختہ تھا، جس کا کردار بھی اعلی تھا، اور جو روحانی طور پر کاملین کی نگاہ کا فیض یافتہ تھا۔ تبھی تو وہ بول اٹھا

زمِستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحَرخیزی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف

آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں

ڈھُونڈ چُکا میں موج موج، دیکھ چُکا صدف صدف

عشقِ بُتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا

نقش و نگارِ دَیر میں خُونِ جگر نہ کر تلَف

کھول کے کیا بیاں کروں سِرِّ مقامِ مرگ و عشق

عشق ہے مرگِ با شرف، مرگ حیاتِ بے شرف

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش

لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سربکف

مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی

اب بھی درختِ طُور سے آتی ہے بانگِ’ لاَ تَخَفْ‘

خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ

سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

مغرب سے امپورٹ بھی کیا تو کیا؟

مغرب سے امپورٹ بھی کیا تو کیا؟ 

 

 

 محمد ابوبکر صدیق

لیکچرر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد

21 – 11 -2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مغرب سے مراد جغرافیائی مغرب نہیں بلکہ اس سے مراد اسلام کے مقابل یہود و نصاری کی تہذیبی و تمدنی فکر مراد ہے۔  ہمارے ہاں سیکولر، لبرلز، الحادی فکر اور دین بیزار احباب شور بپا کئے رکھتے ہیں کہ مغرب کی دنیا سائنس میں ترقی کر گئی اور ہم پیچھے رہ گئے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ’’دینی مدارس‘‘ ہیں۔ آئیے ذرا اس امر کا تجزیہ تو کریں ۔ سب سے پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈھیں کہ: پاکستان کے بننے سے اب تک کتنے مدراس کے کتنے لوگ حکمران رہے ؟ پالیسی ساز ادارے کے سربراہ یا ممبر رہے؟ جواب ہے ایک بھی نہیں۔ جمہوری حکمران ہوں یا فوجی آمر سب جدید یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے تھے۔ بلکہ اکثر خود اور ان کی اولادیں مغرب کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے۔ پالیسی ساز کمیٹی کا ممبر ہونے کی سب سے بڑی اہلیت ہی یہ ہے کہ بندہ مذہب بیزار و لبرل ہو۔

مولوی بے چارا نہ تو پالیسی ساز رہا اور نہ کبھی حکمران اور وہ ہو بھی کیسے سکتا ہے  جبکہ صرف مولوی ہونا ہی بڑے مناصب کے لئے نااہلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ایک  مسلمان صرف اس لئے ہائی کورٹ کا جج بننے سے ناہل قرارپایا  کہ وہ ’’ حافظ قران ہے‘‘۔لیکن اس سے بھی بڑے  عدالتی منصب کے لئے رانا  بھگوان داس ایک ہندو  اہل قرار پاتا ہے اور وہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن جاتا ہے۔جہاں صرف حافظ قران  بندہ چیف جسٹس نہیں بن سکتا وہاں مولوی کے لئے حکمران  ہونا تو دور کی بات ہے۔ اس سب کے باوجود ساری بے اعتدالیوں کا ذمہ دار وہ مولوی ہی ہے! یا للعجب۔چلیں فرض کی جئے مان لیا کہ ہماری پستی کا سبب مولوی ہے۔ لیکن آئیے ذرا اس طرف بھی سوچیں کہ  جن کے ہاتھ زمامِ اقتدار رہی انہوں نے ترقی لانے کے لئے کیا کردار ادا کیا؟ جواب ہے کہ انہوں نے اپنی پسندیدہ اور محبوب تہذیب مغرب  کے سامنے کاسہ لیسی کی ۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے  مغرب سے کیا امپورٹ کیا؟ لبرلز کی جانب سے اس کا عمومی جواب یوں دیا جاتا ہے کہ ’’ مولوی ‘‘ کے ڈر سے امپورٹ ہی نہیں کیا جا سکا ۔ پھر سوال یہ بنتا ہے کیا واقعی ایسا ہے ؟ اس کا جواب ایک اور سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ: مولوی کو مغرب سے کس چیز کی امپورٹ پر اعتراض ہے؟ مولوی کو مغرب سے درامد کی جانے والی بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے دینی و الحادی فکر پر اعتراض ہے۔ مولوی نے تو سائنس کی درامد پر کبھی اختلاف و احتجاج کیا ہی نہیں۔ ارباب اقتدار ( لبرلز سیکولر ملحد دین بیزار) نے مغرب سے صرف امپورٹ ہی وہ کیا جس پر مولوی کو تحفظات تھے اور سارا زور ہی اسی تہذیب و تمدن کے فروغ پر لگایا ۔ بظاہر یہی طبقہ جو سائنسی علوم و ایجادات کی رٹ لگاتا تھا جس پر مولوی معترض ہی نہیں تھا اس کو تو بھولے سے بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور تجربہ گاہوں تک آنے ہی نہیں دیا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوجاتا تو امت مسلمہ طاقت ور بنتی ، ترقی کرتی۔اور یہ ان کے مغربی آقاوں کو کب گوارا تھا۔ اس لئے بڑے پلان کے منصوبہ سازوں نے طریقہ کار ہی یہ اپنایا کہ ’’راگ سائنس و ایجاد کا الاپو لیکن مہیا عریانی فحاشی بد کاری اور بے دینی کا سامان کرو‘‘۔ اور جب مولوی اس کی مخالفت کرے تو فورا رونا پیٹنا شروع کردو کہ دیکھیں مولوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

مغرب کی یہودی و عیسائی دنیا کن مراحل سے گزر کر ترقی کی منزل پر آج پہنچی ہے وہ یہ ہیں۔

۔1۔ الحاد ، لادینیت اور مذہب بیزاری

۔2۔ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار

۔3۔ مطلق آزادی کا صرف تصور ( جو عملا کبھی بھی نہیں دی گئی)۔

۔4۔ عریانی، فحاشی بے حیائی کا فروغ

۔5۔غیر مغربی اقوام کی تحقیر و تذلیل

نوٹ: یہ سب مرحلے طے کرنے کے باجود مغرب کا قانون یہودی و عیسائی عقائد و اخلاق پر مبنی ہے۔ مثلا امریکہ کا صدر غیر عیسائی نہیں ہوسکتا۔ سیکولر اور انسانیت کو مذہب ماننے والے دریوزہ گروں کے اپنے لیے قوانین یہ ہیں۔ اور ان کے ذہنی غلام ہم سے کہتے پھرتے ہیں کہ پاکستان کا صدر یا وزیر اعظم صرف مسلمان ہی کیوں ؟  غیرمسلم کو بھی یہ منصب ملنا چاھئے  ۔وہ رات دن اسی نظریاتی بے راہ روی کا پرچار کرنے میں مگن رہتے ہیں۔   اور اسے پاکستان کی ترقی کی ضمانت گردانتے ہیں۔  ’’ مولوی ‘‘ کو اسی سے تکلیف و اذیت ہوتی ہے اور وہ اسے برداشت نہیں کرتا۔ تو لبرل طبقہ فورا فورا سائنسی ترقی کو بنیاد بنا کر شور کرنا شروع کر دیتا ہے: ’’دیکھو مغرب سائنس میں ترقی کر گیا جبکہ ہمارا مولوی ترقی کے خلاف ہے۔‘‘ حالانکہ مولوی بے چارا سائنس کی ترقی کے خلاف نہیں بلکہ سائنس کے نام پر درامد کی جانے والی ’’ تہذیبی و تمدنی اور اخلاقی بیماریوں ‘‘ کے خلاف ہے۔ نشانی کے طور ہمارے اعلی مخلوط تعلیمی اداروں اور تعلیمی نصاب کو ملاحظہ کر لی جیے پھر میڈیا کے ذریعے معاشرے میں پھیلتے بے حیائی عریانی و فحاشی کو بھی دیکھ لیں کہ مولوی کے تحفظات کس حد تک درست ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading