Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231 General Topics – Page 2 – Islamic Finance
وہ طبقہ جو مرزا انجینئر جیسوں کو ’’ عالم ‘‘ سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مرزا اس لئے ٹھیک ہے کہ وہ کہتا ہے ’’ سب کو سنو اور فیصلہ کرو کہ جس فرقے سے جو اچھی بات ملے قبول کرو‘‘۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں ایک خارجی (یعنی اسلام سے باہر دیگر مذاہب کے مقابلے میں) اور ایک اندرونی ( اسلام کے اندر دیگر مسالک کے مقابلے میں )۔
خارجی پہلو
آئیے ذرا اس سوچ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کیا یہ سوچ پہلی بار مرزا نے دی ہے ؟ نہیں بالکل نہیں۔ اسلام کا تو پہلے دن سے ہی اصول یہ رہا ہے کہ پچھلے ادیان سے اچھی چیزوں کو قبول کیا اور رہنے دیا لیکن ان معاملات کو اسلامی اصولوں پر ڈھال دیا تاکہ شرعی اصولوں سے تصادم ختم ہوجائے۔ اور اسلاف فقہائے اسلام نے یہی روش رکھی اور آج تک یہ روش جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں چیز فلاں مذہب میں اچھی ہے ؟ کیا علوم شریعت سے نابلد عام مسلمان کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عقل پر یہ فیصلہ کرے۔ نہیں بالکل نہیں۔
کیوں ؟ اسے یوں سمجھئے کہ جب بندہ کسی شدید مہلک مرض میں مبتلا ہو تو کیا میڈیکل سے نابلد مریض کو طبیب سے مشورہ کئے بغیر دوائیوں کا انتخاب خود کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اتنی ساری میڈیسن ہیں وہ خود منتخب کر لے جو اچھی لگے؟ جواب ہے نہیں کیونکہ جان کا معاملہ ہے ممکن ہے وہ غلط میڈیسن یا غیر متعلقہ میڈیسن کا انتخاب کر لے تو جان ہلاکت میں پڑ جائے گی۔ تو جناب یہ ایمان کا معاملہ ہے اگر اس میں غیر عالم مسلمان کو اس کی ذاتی پسند و ناپسند کی خواہشات پر چھوڑ دیا جائے تو غلط انتخاب کی صورت میں ایمان تو گیا پھر۔ ممکن ہے اُسے عیسائیت و یہودیت اور اسلام میں سے یہودیت پسند آجائے تو پھر کیا وہ یہودی بن جائے اور اُسے حق مذہب قرار دے۔ اگر آپ کہیں کہ نہیں حق و باطل کا یہ اختیار صرف مسلم فرقوں سے متعلق ہیں۔ تو اُس پر ہم کہیں گے جناب ذرا وہ دلیل تو بتائیے جس کی وجہ سےآپ اس فیصلے کا اختیار مختلف ادیان کے معاملے میں نہیں مانتے اور مسلم فرقوں کے لئے تسلیم کرتے ہیں؟ تو ان کی جانب سے لمبا سکوت طاری ہوجاتا ہے گویا ان کی سیٹی گم ہوگئی ہو۔ اگر حق و باطل کا فیصلہ ہر بندے کی اپنی عقل پر چھوڑنا ہی منشائے الہی ہوتا تو پھر نبی ﷺ مبعوث کرنے اور قرآن مجید نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔پھر توحضور نبی اکرم ﷺ کو معلم اخلاق بنا کر بھجنے میں کوئی حکمت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ ہر بندے نے اچھے اخلاق کا فیصلہ اپنی عقل کی بنیاد پر کرنا تھا۔ لیکن آپ ﷺ کو بھیج کر قدرت نے واضح کردیا کہ وحی الہی کی ہدایت کے بغیر حق و باطل کا فیصلہ ممکن ہی نہیں اور اس کے لئے کسی نہ کسی معلم کی رہنمائی لازم ہے۔
دوسرا امر یہ بھی ہے کہ ’’ فیصلہ خود کرو‘‘ کی رٹ لگانے والے خود ساختہ مفکرین پھر کس لئے تقاریر کرتے پھرتے ہیں۔مقالہ جات لکھتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ وہ خود فیصلہ کر لیں۔ گھنٹوں یوٹیوب پر لگا کر ریکارڈنگ کرنے والے یہ لوگ کمائی کے لئے کوئی اور کام ڈھونڈیں۔ اس پر وہ کہیں گے ’’ جناب ہم تو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں کہ خود فیصلہ کیسے کریں‘‘۔ اس پر ہماری بھی یہی گزارش ہے کہ علمائے حق کے لئے بھی یہ حق تسلیم کرلیں کہ وہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ ’’ آپ جیسے فتنہ پرور لوگوں کی تقلید کی بجائے حق کی تقلید کریں اور یہ فیصلہ کرنے میں وہ ان کی رہنمائی کریں۔
خلاصہ یہ کہ بندے کو اس کی عقل و خواہشات پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر بندے کو اس کی خواہشات پر چھوڑ دیں تو پھر وہ شریعت کا مطیع نہیں رہے گا بلکہ اپنی خواہشات کا بندہ بن جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اہم ہیں۔
۔1۔ نوجوان جو علوم شریعہ سے نابلد ہے وہ کس بنیاد پر یہ فیصلہ کرے گا؟
۔2۔’’کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بری‘‘۔ انسانی عقل میں یہ طاقت نہیں کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کرے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ ممکن ہے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے وحی الہی اسے برا کہے اور اس کے الٹ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی عقل جسے اچھا یا برا کہے وحی الہی بھی اسے اچھا یا برا کہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کسی بھی معاملے کے اچھا یا برا ہونے کا حتمی فیصلہ عقل نہیں کرسکتی۔ عقل شک میں مبتلا رہتی ہے اور ایمان کی بنیاد شک پر رکھی نہیں جاتی۔ اس لئے یقین کامل کا ہونا لازمی ہے۔ یقین تک پہنچنے کے لئے وحی الہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وحی الہی نبوت کے واسطے سے بندوں تک یقین کا علم پہنچاتی ہے۔ نبی اپنی امت تک یہ ’’یقین‘‘ علم و حکمت کے ذریعے پہنچاتا ہے۔ اور علما ہی اس علم نبوت کے وارث ہوتے ہیں جو نبی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد نسل در نسل علم کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں حتی کہ اگلا نبی مبعوث ہوجائے۔ اب چونکہ سلسلہ نبوت و رسالت سید الانبیاء و الرسل حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم کردیا گیا اور آپ کے بعد کسی نبی و رسول نے نہیں آنا۔ اس لئے آپ ﷺ نے ’’علم نبوت‘‘ کے لئے اپنی امت کے علما کو اپنا وارث قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج بھی اور قیامت تک کسی بھی معاملے کے ’’حسن و قبح‘‘ کا حتمی تعین وحی الہی سے علم نبوت کی روشنی میں ہی کیا جائے گا اور اس کے لئے علم شریعت کی ضرورت ہوگی جو کہ علمائے اسلام ہیں۔ لہذا اس معاملے کو عام مسلمانوں کی عقل پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کریں کہ دیگر مذاہب سے انہیں جو اچھا لگے وہ اسے قبول کرلیں ۔
انسانی عقل کو بنیاد بنانے والے اہل مغرب نے انسانی عقل کو بنیاد قرا دیا اور سارے فیصلے اسی کی روشنی میں کئے۔ تو ہوا یہ کہ انہوں نے ’’جوا خانے ، قحبہ خانے ، پورن انڈسٹری، ہم جنس پرستی وغیرہ‘‘ کو اچھا قرار دے کر اپنے اپنے ممالک میں قانونی طور پر لیگل و جائز قرار دے دیا۔ جب کہ وحی ان سب کو برائی سے تعبیر کرتی ہے۔ اس لئے انسانی عقل اس بارے میں ناقص ہے۔ مختصر یہ کہ وحی الہی سے کسی امر کے’’حسن و قبح ‘‘ کا تعین کرنے کے لئے عام انسانی عقل نہیں بلکہ قران و سنت کے جید عالم کا علم چاھئے۔ جب جید علما نے واضح کردیا ہے تو پھر اس انتخاب کا معاملہ عام آدمی پر کیوں چھوڑا جائے کہ وہ خود فیصلہ کر لے۔ یہ تو پھر اس کے ساتھ ظلم ہوگا کہ اگر وہ آگ میں کودنا پسند کرے تو اسے کرنے دیا جائے۔ اگر آپ بضد ہیں کہ نہیں جی عام مسلمان کو یہ اجازت ہونی چاھیے تو پھر کل اگر کوئی یہ راگ الاپنا شروع کردے کہ’’ مسلمان کو اجازت ہونی چاھیے کو وہ اپنی پسند کے مطابق اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب اختیار کرے جو اسے اچھا لگے‘‘ تو آپ اسے کس بنیاد پر روکیں گے کہ وہ ایسا نہ کرے؟۔؟ نیز یہ اختیار پھر صرف مذہب کے معاملے میں ہی کیوں ؟ پھر ہر انسانی فرد زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کرنے کے لئے خود مختار ہونا چاھئے۔ بچہ سگریٹ پسند کرے تو اجازت ہو۔ بیٹا یا بیٹی پورن انڈسٹری جوائن کرے تو اجازت ہو۔ اسی طرح دیگر امور میں ہر فرد کو یہ فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاھئے۔
اندرونی پہلو
آئیے ذرا اب مسئلے کے اندرونی ( اسلام کے اندر دیگر مسالک کے مقابلے میں ) پہلو کو بھی دیکھ لیں۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری یہ سب سنی مکاتب فکر ہیں۔ فقہ جعفری یہ شیعہ مکتب فکر ہے جس کہ اندر پھر مزید تقسیم ہے۔ چند لوگ کہتے ہیں ’’ جی سب کو دیکھیں جس کی جو چیز اچھی لگے اس پر عمل کرلو قبول کر لو‘‘ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا بذات خود کوئی قابل ستائش عمل ہے ؟ کیا شریعت کا مقصود بھی یہی ہے ؟ اگر تو واقعی یہ ایک حسین کام ہے جیسا کہ بظاہر جملے سے لگتا ہے تو پھر واقعی کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو ایسا نہیں کرے گا یا ایسا کرنے کی مخالفت کرے گا۔ لیکن پہلے ذرا اس نظریے کی چند صورتیں بنا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ پھر اس کا نتیجہ نکالیں گے کہ یہ کام اچھا ہے یا کسی بڑے فتنے کا سبب بنتا ہے۔
۔1۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ وہ حنفی مسلمان ہے لیکن فقہ شافعی سے اسے کیکڑے اور کچھوے کھانے کا عمل پسند ہے اس لئے وہ کھانے سے متعلق فقہ شافعی کو پسند کرتا ہے اور یوں وہ کچھوے کھانا شروع کردیتا ہے۔ اس آدمی سے پہلے فقہ حنفی اور شافعی والے اپنے اپنے مسلک پر سکون سے عمل پیرا تھے۔ لیکن اس تیسرے بندے نے جو کام شروع کیا ہے یہ فساد پیدا کردے گا۔ کیونکہ اگر وہ خود کو حنفی کہے گا تو احناف غصے ہونگے کہ کیکڑا و کچھوا حرام ہے لہذا تو حرام خور ہوگیا ہے ہم تمہیں حنفی مانتے ہی نہیں۔ دفع ہوجا۔ وہ شوافع کے پاس جائے گا تو فقہ شافعی والے غصے ہوجائیں گے کہ باقی امور میں تو حنفی ہے ہم تجھے کیسے قبول کرلیں۔
۔2۔ ایک آدمی کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اس نے وضو کی حالت میں بیوی کو مس کیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے کسی وجہ سے منہ بھر قے آگئی۔ لیکن اس نے کہا بیوی کو چھونے سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا لہذا میں یہاں حنفی رائے پسند کرتا ہوں اور قے آنے سے چونکہ امام شافعی کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا لہذا یہاں میں شافعی رائے پسند کرتا ہوں۔ اس لئے میرا وضو تو باقی لہذا وہ نماز پڑھ لیتا ہے ۔ اس کی نماز باطل ہوگی نہ فقہ شافعی میں نماز ہوئی اور نہ فقہ حنفی کی رو سے۔ اس نے حقیقت میں دین کی نہیں اپنی ذاتی خواہش کی پیروی کی ہے۔ جو شریعت میں منع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (اور خواہشات نفس کی پیروی مت کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی)۔ اس لئے لازم ہے کہ مجتہد آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے جو قرآن و سنت سے احکام اخذ کرتا ہے اور اس کے اصول وضع کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أنابَ إليَّ ( اس شخص کی اتباع کر جس کا رجوع میری جانب ہو) ۔ اس لئے اب جو شخص دین حق پر عمل پیرا ہونا چاھتا ہے وہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی میں سے مکمل طور پر کسی ایک حلقے کا انتخاب کرے گا۔ اگر وہ اپنی ضد پر آکر خواہشات نفس کی پیروی میں ملغوبہ طرز اپنائے گا تو وہ ایک فتنے کی بنیاد رکھے گا۔کیا نیا فرقہ پیدا کرنا اچھی بات ہے؟ اگر اچھی بات ہے تو پھر پہلے والے فرقے کی بات پر عمل کرنا برا کیوں ہوا۔ اور اگر نیا فرقہ بنانا فتنہ پھیلانا ہے تو پھر بہتر ہے کہ پہلے والے کسی ایک مسلک کو ہی اپنا لیا جائے تاکہ معاشرہ کسی نئے فتنے سے بچ جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں نیا فرقہ ایسی نوعیت کا ہوگا جو آئے روز معاشرے میں کوئی نہ کوئی فساد کھڑا کرے گا۔
ان دو مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے۔ کہ ’’ جہاں سے جو اچھا لگے وہی کرو ‘‘ جیسا بظاہر پرکشش سلوگن حقیقت میں کتنے بڑے فساد اور فتنے کو پیدا کرتا ہے۔ آپ ذرا تحقیق کر لی جئے کہ مرزا انجینئر کے نمودار ہونے کے بعد نوجوانوں میں باہم مذہبی نفرت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔ اللہ کرے گا معاملہ واضح ہوجائے گا۔ اب ذرا ملاحظہ کر لی جئے کہ مرزے کی اڑان تمام مکاتب فکر کے مخالف ہے یا موافق ہے۔ کہیں یہ نیا فتنہ تو نہیں بننے جارہا ۔۔( فتنہ مرزائیت ) ’’ نہ میں فلاں نہ میں ڈھمکاں میں تو علمی و کتابی‘‘ کی وضاحت اسی سلوگن میں ہے کہ میری اڑان ایک اور فرقے کی بنیاد رکھنے کی جانب ہے۔ بے وقوف بنانے کے لئے کہتا کیا ہے ’’ او جی ہم کسی فرقہ واریت میں نہیں پڑتے‘‘ ۔ یا تو وہ خود بے وقوف ہے یا پھر کچھ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ بھیا ذرا سنبھل کے۔
ایک اور زاویہ نظر
آئیے ذرا اب مسئلے کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
۔1۔ ایک آدمی اہل حدیث مسلک کی مسجد میں جا کر آذان دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے آذان سے پہلے صلواة و سلام پڑھنے میں مسلک اہل سنت کی رائے پسند ہے۔ لہذا وہ آذان سے قبل شروع ہوجاتا ہے الصلواة والسلام علیک يا رسول الله ۔ تو سوچئے کیا ہوگا ؟
۔2۔ ایک اہل حدیث آدمی فقہ جعفریہ والوں کی کسی محفل میں چلا جاتا ہے اور وہاں اس کا دل کرتا ہے کہ یزید کو شہزادہ کہے اور رضی اللہ عنہ کہے۔ فقہ جعفری والے کا دل کرتا ہے کہ وہ اہل حدیث کی رائے قبول کرے۔ تو سوچئے دونوں کے ساتھ اہل حدیث و فقہ جعفریہ کیا سلوک کریں گے! اور وہ دونوں کتنے بڑے فساد کا سبب بنیں گے۔
۔3۔ ایک دیوبندی کا دل کرتا ہے کہ وہ اپنی مسجد میں سیدنا غوث اعظم کہے اور ان کی گیارہویں منائے تو سوچیں کیا فتنہ کھڑا جائے گا۔ یہ اور اس جیسے دیگر فتنے جو پیدا ہوسکتے ہیں سب کی بنیاد ہے ’’ مجھے جس مسلک کی جو چیز اچھی لگے قبول کرلوں‘‘ ۔
خود فیصلہ کر ہو یہ درحقیقت ایک ’’ شر‘‘ ہے جس کے دامن میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ کہ یہ نظریہ ایک اور فرقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ اور ایسا فرقہ جو ہر وقت ہر کسی سے فساد میں مبتلا ہوگا۔ نہ میں وہابی، نہ میں دیوبندی نہ میں بریلوی نہ میں شیعہ میں تو بس علمی و کتابی یہ ایک نئے فرقے کا لانچنگ سلوگن یے۔ ابھی تک جو ہوا ہے اور ہو رہا ہے یہ سب اس نئے فرقے کی’’ ان آگریشن سرمنی‘‘ ہے۔ ابھی اس اسٹیج تک ملک کے نوجوانوں میں مذہبی عناد اتنا بڑھ گیا ہے تو سوچیں آگے کیا ہوگا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار اللہ کریم ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو قران مجید کی سورہ المتحنہ میں مذکور ہے وہ مانگنی چاھئے۔
اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ الممتحنہ ۴۔۵)
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
اے اللہ! عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، مسیح دجال اور زندگی اور موت کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہوں اورقرض سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں
حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کی شخصیت جن کے قلم سے تفسیر ضیاء القرآن ، سیرت النبی پر ضیاء النبی ﷺ ، دفاع ِ سنت پر سنت خیر الانام ﷺ جیسی معرکۃ الآراء تصانیف نکلی ہوں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ ایک عظیم مجاہد ختم نبوت بھی تھے۔ تحریک ختم نبوت میں آپ نے سرگودھا جیل کی اسیری بھی برداشت کی۔لیکن ناموس رسالت مآب ﷺ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور علمائے امت کے ساتھ سینہ سپر کھڑے رہے۔ حتی کہ قادیانیوں کو کافر قرار دلوا کر ہی دم لیا۔
قادیانی خود پر سے اس ذلت کے داغ کو مٹانے کے لئے ہر دروازے پر گئے مگر مزید ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہوئی۔1988 میں قادیانیوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کی طرف رجوع کیا اور درخواست دی کہ پاکستان میں ان کو کافر قرار دیا گیا ہے، حالانکہ وہ حضرت محمد ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔لہذا انہیں مسلمان کہا جائے اور پاکستانی حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ آئینی طور پر انہیں کافر قرار دے کر انکے انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں لہذا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں۔جنیوا کمیشن نے حکومت پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کے لئے نوٹس بھیجا۔
اس وقت کے صدر پاکستان جناب صدر ضیاء الحق مرحوم نے اس کام کے لئے علمائے کرام سے مشورہ کیا جس کے بعد جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کو منتخب کیا گیا کیونکہ آپ جید عالم دین ہونے کی وجہ سے اسلامی قانون کے ساتھ ساتھ انگلش زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ لہذا جینوا میں پاکستانی موقف بیان کرنے کے لیے قبلہ پیر صاحبؒ کو بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ پیر صاحبؒ کو صبح کے وقت صدر پاکستان کا پیغام ملا کہ شام کو آپ نے جنیوا روانہ ہونا ہے۔ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے کہا جناب والا قادیانیوں کے اعتراضات کیا ہیں جو کمیشن میں اٹھائے گئے۔ تو صدر پاکستان نے کہا وہ آپ کو جنیوا میں پتہ چل جائے گا۔ پیر صاحب فرماتے ہیں اس عظیم ذمہ داری کے لئے میں روانہ ہوگیا۔ جنیوا پہنچا تو کیس کی تفصیل کا پتہ چلا ۔قبلہ پیر صاحب نے پاکستانی ایمبیسی کے تعاون سے مختلف ممالک کے ان سرکردہ افراد سے فرداً فرداً ملاقات کی جنہوں نے اس کمیشن کے اجلاس میں پیش ہونا تھا۔ قبلہ پیر صاحب نے ملاقات میں ان سب کے سامنے فرداً فرداً یہ بات تفصیل سے یہ بات رکھی :ہم حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں لیکن ہم عیسی علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتا ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے سچے نبی تھے۔ چونکہ ہم حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے ہمیں عیسائی تسلیم کیا جائے ۔ پیر صاحب فرماتے ہیں وہ لوگ بولے کہ ہم آپ کو عیسائی تسلیم نہیں کر سکتے کیونکہ جس نبی پر آپ بنیادی ایمان رکھتے ہیں وہ حضرت محمد ﷺ ہے اس لئے آپ کو مسلمان کہا جائے گا۔ پیر صاحب فرماتے ہیں میں نے کہا : جناب والا اسی وجہ سے ہم قادیانیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ جس شخص کے نبی ہونے پر بنیادی ایمان رکھتے ہیں وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے اگرچہ وہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا ہم نے انہیں غیر مسلم قرار دیا ہے۔ اب آپ بتائیں ہم انہیں کیسے مسلمان تسلیم کریں۔ اس کے علاوہ قانون،آئین اور بین الاقوامی قوانیں کی روشنی میں قادیانیوں کے دیگر الزامات کا جواب بھی دیا۔پیر صاحب فرماتےانہوں نے میرے دلائل پر اطمئنان کا اظہار کیا۔ پھر جب کمیشن میں اس کیس پر بحث ہوئی تو وہاں انہی افراد نے حضور ضیاء الامت کے دلائل پیش کئے جس کی وجہ سے پاکستان کا کیس مضبوط ہوگیا اوراس قانونی جنگ کا نتیجہ 30اگست1988کو سامنے آیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشن نے قادیانیوں کی درخواست کومسترد کر دیا۔ تقریبا ۱۷ ججز میں سے ۱۵ ججز نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور قادیانیوں کو ذلیل و رسوا کردیا۔ البتہ اس نتیجے سے قبل ہی صدر پاکستان ضیاء الحق شہید ہوچکے تھے۔
نجوم محمدی ﷺ کے ایک عظیم نجم حضرت ابوہریرہ ؓکے بارے میں زبان طعن دراز ہوتی دیکھی تو ایمانی غیرت سے رہا نہ گیا اس لیے میں اس جگہ اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم نجم ہدایت کی وکالت کی سعادت حاصل کرہا ہوں۔ یقینا میری زندگی کا یہی ایک عمل ایسا ہوگا جو میری بخشش کا سبب بنے گا۔ المستدرک للحاکم میں ہے:۔
ترجمہ اور مفہوم’’ امام ابوبکرمحمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چار طرح کے لوگ بدزبانی اور تنقید کرتے ہیں اول : جہمیہ : جو اللہ تعالٰی کی صفات کے منکر ہے ، جب اپنے کفریہ مذہب کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات سنتا ہے تو عامتہ الناس اور کم عقل لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر سب و شتم اور بہتان طرازی کرنے لگتا ہے ـ یہ باور کرانے کے لیے کہ ان کی احادیث قابل اعتماد نہیں ـ دوم: خارجیہ : جو کسی امام اور خلیفہ کی اطاعت کرنا درست نہیں سمجھتا اور امت مسلمہ میں جنگ و جدال بپا کرنے کی فکر میں رہتا ہے ، ایسا شخص جب اپنے گمراہ مذہب کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث نبویہ سنتا ہے ، تو اس کے پاس حیلہ باقی رہتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کی جائے ـ سوم : قدریہ جو اسلام اور مسلمانوں سے جدا ہو جاتا ہے اور مسلمان جو قضا و قدر پر ایمان رکھتے ہیں ، ان کو کافر قرار دیتا ہے ، ایسا شخص جب اثبات قدر کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث سنتا ہے ، تو اپنے کفریہ اور شرکیہ نظریے کی تائید و نصرت کے لیے اسے یہی دلیل نظر آتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث کے ساتھ دلیل پکڑنا جائز اور درست نہیں ۔ چہارم: جاہل فقیہ یعنی جاہل مولوی : جب اپنے بغیر دلیل و برہان اختیار کردہ تقلیدی مذہب اور امام کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ذکر کردہ احادیث سنتا ہے ، تو ان میں طعن کرتا ہے اور اپنے مذہب کے مخالف ان کی بیان کردہ احادیث کو رد کر دیتا ہے حالانکہ ان کی اس طرح کی مخالفت کرنے کے باوجود اپنے مذہب کی تائید میں ان کی احادیث کو دلیل بنا لیتا ہے ! ان کچھ فرقوں نے حضرت ابوھریرہ ؓ کی ایسی روایات کی نکیر کی جن کی مراد انہوں نے سمجھی ہی نہیں ۔ اور اللہ جل مجدہ کی مشیت کے مطابق میں ان میں سے کچھ کی نشاندہی کروں گا۔‘‘۔
قاری حنیف ڈار نے المستدرک للحاکم کی ایک روایت ذکر کی:حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضرت ابوھریرہؓ بلوا یا اور فرمایا کہ آپ جو حدیثیں بیان کرتے ہیں وہ ہم نے تو نہیں سنیں ۔ جس پر انہوں نے عرض کی کہ “امی جان ! آپ تو شیشہ کنگھی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بناو سنگھار میں مصروف رہتی تھیں جبکہ کسی چیز نے بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری توجہ نہیں ہٹائی۔ ” [ المستدرک للحاکم ، حدیث نمبر 6160] قاری حنیف ڈار نے اس روایت کو انتہائی غلط انداز میں پرویزیت کے طریقے پر پیش کیا جو اس کی علمی بد دیانتی پر دال ہے ۔ نیز اس حدیث کے ترجمے میں انتہائی بے ادبانہ تخاطب کے صیغے استعمال کیے گئے۔ جیسے ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے “تو” کا لفظ استعمال کیا ۔ حالانکہ ہر زبان کے اپنے انداز ہوتے ہیں اہل عرب میں” آپ اور تو “کے لیے الگ الفاظ نہیں ہیں جبکہ اردو میں یہ فرق کیا جاتا ہے ۔ اس جگہ دلالت حال بھی یہی بتلا رہی ہے کہ یہاں تخاطب کا ترجمہ “تو” کی بجائے “آپ” کیا جائے۔ کیونکہ حضرت ابوھریرہ ؓنے کلام کاآغاز ” يَا أُمَّاهُ” اے امی جان کہہ کر کیا ۔ ایک بیٹا اپنی ماں کے لیے “تو” کی بجائے آپ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں اپنی ماں کو “تو” کہہ کر مخاطب کرنے والے کو انتہائی غیر مہذب کہا جاتا ہے ۔ قاری حنیف ڈار نے اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے لیے حضرت ابوھریرہ ؓ کے الفاظ کو ” طعن تشنیع ” کے انداز میں پیش کرنے کی مذموم کوشش کی ۔ ان الفاظ کو اگر ایک تناظر میں دیکھا جائے تو یہ طعن نہیں بنتے ۔ ایک وفا شعار زوجہ اپنے خاوند کے لیے بناو سنگھار کرتے رہنے کو اپنے لیے فرض اور اعزاز سمجھتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورتیں اگر ایک دوسرے کو طعنا بھی یہ کہیں کہ ” تم تو ہر وقت اپنے شوہر کے لیے شیشے سے ہٹتی ہی نہیں ہو ” تو وہ اسے طعنہ نہیں سمجھتی بلکہ فخر کرتی ہے کہ ہاں اپنے شوہر کے لیے ایسا کرنا میرا فرض ہے ۔ تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جیس پاکیزہ طیبہ طاہرہ وفا شعار زوجہ کے لیے حضور نبی کریم ﷺ جیسے بے مثل و بے مثال عظیم شوہر کے مبارک قلب و نظر کی تسکین کے لیے سجنے ، شیشے اور سرمہ کی بات طعنہ کیسے ہو سکتی ہے ۔ بلکہ یہ تو ان کے لیے اعزاز ہے ۔ اور اس بات کا ام المومنین نے برا بھی نہیں منایا ۔ لہذا یہ کسی کی بد باطنی ہو سکتی ہے کہ وہ اس گفتگو کو ایک غلط پیرائے میں پیش کرے ۔ دوسرے تناظر میں ان الفاظ سے مراد یہ بھی ہے کہ آپ ہر وقت اپنے مبارک کاشانہ نبوت میں تشریف فرما رہتی ہیں جبکہ میں آپ کی بنسبت حضور نبی کریم ﷺ کی مبارک صحبت زیادہ میں رہتا ہوں۔ اور اس بات کی گواہی بخاری شریف کی یہ روایت ہے
(میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذیذ کھانے مجھے نصیب تھے نہ عمدہ کپڑا،نہ میرا کوئی خادم اور نوکر تھا،جب بھوک ستاتی تو میں پیٹ کے بل کنکریوں پر الٹا لیٹ جایا کرتا تھا)۔ [الصحیح البخاری، حدیث 5432]۔
یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہنے کو ہی ترجیح دیتے تھے جو ان کے کثرت علم حدیث پر دال جس کی بدولت انہوں نے کثرت سے روایت کیا۔
اصحاب ، آئمہ محدثین کی آراء
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں حضرت ابوھریرہ ؓ مجھے سے بہتر ہیں اور میں ان کی روایت سے سیکھتا ہوں۔ [تاریخ دمشق، ابن عساکر، دارالفکر بیروت۱۹۹۸، ۶۷: ۳۵۰]۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں حضرت ابوھریرہؓ اپنے زمانے کے معاصرین میں سب سے زیادہ حدیث کو یاد کرنے والے تھے۔ [تذکرۃ الحفاظ، علامہ الذھبی، دارالکتب العلمیہ ، بیروت، ۱۳۱۷ھ، ۱: ۳۶]۔
امام ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے حضرت ابوھریرہؓ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ حدیث کو یاد کرنے والے تھے۔[الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، ابن حجرؒ،دارالنہضہ ، مصر، ۱۹۷۰، ۷: ۴۳۸ ]۔
ان کے علاوہ سینکڑوں قد آور اور محترم آئمہ و محدثین نے حضرت ابوھریرہؓ پر زبان طعن دراز کرنے والوں پر ملامت کی ہے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ فرماتے ہیں: لا اشک ان اباہریرۃ سمع من رسول اللہ مالم نسمع مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابوہریرہ نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ احادیث سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں۔[الاصابۃ ، ۴: ۲۳۹۱]
علامہ ابن القیم جوزی ؒ نے مفتی صحابہ کا ذکر کرتے ہوتے کہتے ہیں : ان میں زیادہ فتوی دینے والے بھی تھے اور کم فتوی دینے والے بھی۔بعض صحابہ فتوی دینے میں متوسط درجہ کے تھے ،حضرت ابو ہریرہ کو انہوں نے متوسط فتوی دینے والوں اور حضرت ابو بکر و عثمان و ابو سعید خدری وام سلمہ وابوموسی اشعری ومعاذ بن جبل وسعد بن ابی وقاص وجابر رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں شامل کیا ہے جو شخص کہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھےوہ خود فقہ سے عاری ہے۔[اعلام الموقعین ج۱ص۹]۔
کیا ان اصحاب علم و دانش نے اس روایت کو حضرت عائشہ صدیقہ پر طعنہ قرار دیا ! کیا کسی نے بھی اسی بنا پر آپ کے بارے میں کچھ کہا! قطعا نہیں ۔ بلکہ سب نے ان کی تصدیق کی ہے۔
امام حاکمؒ فرماتے ہیںکہ مندرجہ ذیل اکابر صحابہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ زید بن ثابت،ابو ایوب انصاری، ابن عباس،ابن عمر،عبداللہ بن زبیر،ابی بن کعب،جابر ،عائشہ،مسور بن مخرمہ،عقبہ بن حارث،ابو موسٰی اشعری ،انس بن مالک،سائب بن زید،ابو رافع مولیٰ رسول اللہ ﷺ،ابو عمامہ بن سہل ،ابو طفیل ،ابو نضرہ غفاری ،ابو رہم غفاری ،شداد بن الہاد،ابو حدرد،عبداللہ بن حدرد اسلمی ،ابو رز ین عقیلی،واثلہ بن اسقع،قبیصہ بن ذویب،عمر وبن الحمق ،حجاج اسلمی ،عبداللہ بن عقیل،الاغرالجہنی،شرید بن سوید رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ ہیں وہ جلیل القدر صحابہ جنہوں نے حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت کیا ۔ [ المستدرک للحاکم ، حدیث نمبر 6160] حضرت عمرفاروق ؓ اور حضرت ابوھریرہؓ حضرت عمرفاروق ؓ نے غلط فہمی کی بنا پر حضرت ابوھریرہؓ کے بارے میں فرمایا تھا ( اے دشمن خدا) تو یہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر تھا جس کے بعد ان کی دیانت داری پر یقین کرتے ہوئے انہیں گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ [الإصابة في معرفة الصحابة ،۲: ۳۳]
حضرت ابوھریرہ ؓ کے حافظے کا امتحان : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کثرت روایت کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مروان نے امتحان کی غرض سے آپ کو بلوایا۔مروان نے اپنے کاتب أبو الزعيزعة کو اپنے تخت کے پیچھے بیٹھا دیا۔ أبو الزعيزعة کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں بیان کرتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ مروان نے پھر سال کے شروع میں حضرت ابو ہریرہ کو دوبارہ بلوایا اور مجھے پردہ کے پیچھے بیٹھا یا آپ رضی اللہ عنہ سے انہیں حدیثوں کے دوبارہ سنانے کی فرمائش کی ۔آپ رضی اللہ عنہ نے اسی ترتیب سے سنائیں ، کمی کی نہ زیادتی، مقدم کو موخر کیا نہ موخر کو مقدم۔تو میں نے حافظہ کی تصدیق کردی۔[سیر اعلام النبلاء ج3ص522]۔
اس مختصر تجزیے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابوھریرہؓ کی ذات بابرکت ان تمام لزامات سے کہیں بلند و بالا ہے اور کیوں نہ کہ وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں ۔
یہ وہ نعرہ تھا جو تحریک آزادی کی روح تھا۔ ہمارے نظریاتی بزرگوں نے اسے ہماری نسل تک پہنچایا ۔ 80 کی دہائی میں مجھے اپنے بچپن میں 14 اگست کے جشن کے وقت یہ نعرہ یاد ہے۔ یہ نعرہ اپنے اندر پاکستان کے نظریاتی مقاصد کی جھلک رکھتا ہے۔ لبرلز و سیکولرز نے آہستہ آہستہ اس نعرے کو ختم کیا تاکہ اگلی نسلوں تک پاکستان کا اسلامی نظریاتی پیغام نہ پہنچ پائے۔
پاکستان اس لئے نہیں بنا تھا کہ ابلیسی فکر کاشت کی جائے گی۔ شیوخ الحدیث، جید علما و مشائخ، اہل نظر صاحب کردار اسلاف جو انگریزی اور انگریز کی چاکری کے بھی مخالف تھے۔ وہ سوٹ، بوٹ، اور ہیٹ جیسی انگریزی نشانیوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ محدث اعظم نعیم الدین مراد آبادیؒ، پیر سیال ، پیر آف ماننی شریفؒ اور پیر سید جماعت علی شاہ ؒ جن کی دست بوسی کو لاکھوں لوگ جمع رہتے تھے۔ انہوں نے برطانیہ پلٹ سوٹڈ بوٹڈ قائد اعظم محمد علی جناح کو ایویں ای اپنا لیڈر مان لیا تھا کہ چلو سیکولر ملک بنائیں جس میں “ابلیسی سیکولر نسلیں” اگائی جائیں گیں۔ نہیں نہیں بلکہ وہ اس لئے آ کھڑے تھے کہ انہیں مسٹر جناح میں للہیت و اخلاص اور امت کا درد نظر آگیا تھا۔ انہیں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم آگیا تھا کہ محمد علی جناح میرا سپاہی ہے۔
پاکستان کی کہانی 1857 کی جنگ آزادی سے شروع ہوتی ہے۔ اس جنگ آزادی کے روح رواں برصغیر کے علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ سمیت دیگر ہزاروں جید علما تھے۔ جو علم و عمل دونوں میدانوں کے عظیم رجال کار تھے۔ آزادی کی شمع لے کر اٹھے اور جام شہادت نوش کیا۔ حتی کہ ان مجاہدین کی لاشوں کا ایک درخت بنایا گیا۔ تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو اور پھر کوئی علم حریت لے کر نہ اٹھے۔بیشتر مجاہدین علما کو توپوں کے دہانے پر باندھ کر گولوں کے ساتھ شہید کیا گیا۔ لاکھوں فرزندان اسلام نے پاکستان کے پودے کی زمین کو ہموار کرنے کے لئے اپنا لہو چھڑکا ہے۔ جب فرزندان توحید اپنے لہو سے آزاد وطن کی کہانی لکھ رہے تھے تو ان موجودہ سیکولرز و لبرلز کے “نظریاتی بزرچمہر بڑے” اس وقت دین و ایمان بیچ کر انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے۔ مجاہدین کہاں چھپے ہیں؟ کیا کرنے والے ہیں؟ کون کون ہیں ؟؟ کی خبریں اپنے انگریز آقاوں کو دے کر جاگیریں بنا رہے تھے۔ جتنا بڑا غدار ملت ہوتا تھا انگریز اس کہتے جاو فلاں سے فلاں وقت تک گھوڑا دوڑاو جتنی زمین تک گھوڑا دوڑے زمین تمہاری۔ یہ ہیں مادہ پرست سیکولرز کے مفاد پرست ملت فروش بڑوں کی حقیقت۔اس حوالے سے میں آپ کو تجویز کروں گا کہ آپ علامہ عبد الحکیم خان اختر شاہجہانپوری مظہری کی کتاب “ ۱۸۵۷برطانوی مظالم کی کہانی” کا مطالعہ کریں، اس حوالے سے وہ ایک معتبر تاریخی کتاب ہے۔
چودہ اگست 1947 کو پاکستان کی نعمت ملی لیکن اس نعمت کا صدقہ بھی لاکھوں ماوں، بہنوں، اور بیٹیوں نے اپنی عزتوں کی قربانی کی صورت دیا ہے۔ فرزندان توحید کے مبارک لاشے اس پر وارے گئے۔ کیا صرف اس لئے کہ ایسا وطن ملے جہاں ابلیسی نظام کا نفاذ ہو اور لچرپن کے حامل سیاہ رو، سیاہ کردار کھل کر مادر پدر آزاد نظام لاسکیں۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔ وہ جاں نثار اسلاف، مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اس لئے قربان ہوئے کہ خدا کی بستی بسائی جاسکے۔
اپنے عظیم محسنوں کی قربانیوں کو یاد کی جئے۔ اپنے بچوں کو ان مبارک اسلاف کی قربانیوں کی کہانی سنائیے تاکہ ان میں اپنی اگلی نسلوں کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ محسنوں کو بھلا دو گے تو قوم مزید محسن پیدا کرنے سے بانجھ ہوجائے گی۔ اپنے بچوں کی گھٹی میں شامل کی جئے کہ اپنے اسلاف کے مبارک کردار پر نہ خود کیچڑ اچھالیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دیں۔ انہیں نصیحت کی جئے کہ ایسی ہر تحقیق کو دیوار پر دے مارنا جو تمہارے اسلاف کو تمہاری نظر میں ” بونا ” کرنے کی ناپاک جسارت کرے۔ موجودہ دشمن کا یہ اہم ہتھیار ہے کہ وہ گھڑنتو تاریخ کے ذریعے شیطانی وساوس کی بنیاد پر اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں محسنان اسلام و پاکستان کے کردار کو داغ دار کرنے کے لئے پیش پیش رہتا ہے۔ ابلیس نے انہیں یہ اصول دے دیا ہے کہ جتنا بڑا سلف ہو اس پر اتنی بڑی تہمت لگاو اور اسے اتنی بار دہراو کہ بڑا جھوٹ بڑا سچ بن جائے۔ کیوراسٹی کے مارے نوجوان ہر نئی انوکھی بات کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ فورا اسے اچھال دیتے ہیں خواہ اس سے ان کا اپنا پیٹ ہی ننگا کیوں نہ ہو۔ اپنے اسلاف کی عظمتوں کی داستانوں کو اپنی نئی نسل میں منتقل کی جئے تاکہ وہ بھی اگلی نسلوں کے لئے خود کو صاحب کردار سلف بناسکیں۔
نئی نسل کو بتائیے پاکستان مفت میں نہیں ملا تھا۔ ان کے اسلاف میں جس نظریے نے قربانیاں دینے کا جذبہ بھرا تھا وہ نظریہ تھا: “”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ””۔
گلستاں کو جب بھی خوں کی ضرورت پڑی تو گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں یہ زاغ و زغن چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں
خاتم الانبیا و المرسلین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کو گزشتہ انبیاء کی تبلیغ سے کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی ۔۔۔ کیونکہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج، اس کا دائرہ کار، سب کچھ یکتا ہے ۔۔۔۔صرف آپ کو ہی الیوم اکملت لکم دینکم کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔۔۔ اور صحابہ وہ ہیں جنہیں تحصیل تکمیل دین کی سند عطا کی گئی اور انہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن نبوت کی تکمیل کی گواہی لی ۔اور ان میں سے کسی بھی ایک کی اقتداء کامل کو ہدایت قرار دیا۔ یہ عظمتیں تاریخ انسانی میں نبوت کے بعد کسی بھی بشر کو نہیں ملیں۔ اللہ تعالی نے خودیہ فرما کر انہیں عزتوں سے نواز دیا
(یہ وہ (اصحابِ رسولﷺ) ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے (پتھر پر لکیر کی طرح) ایمان لکھ دیا ہے اور نصرتِ غیبی سے ان کی تائید فرمائی اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وہ اللہ کا لشکر ہیں اور سن لو اللہ کا لشکر ہی کامران ہونے والا ہے۔)
(’’محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا،وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔‘‘ )
(ووہی ہے جس نے آپ کو (براہ راست) اپنی مدد کے ذریعے اور اہل ایمان کے ذریعے طاقت بخشی (جو آپ کی پیروی کرتے ہیں)اور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے۔
(صحابہ کرام کی خطاوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی معاف کردیا گیا بلکہ غزوہ میں خطا ہوئی تو بعد میں بارگاہ لایزال سے معافی کی نوید بھی جبریل امین لائے۔ غزوہ بدر کے قیدیوں سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل کیا اگرچہ بعد میں واضح ہوا کہ اللہ جل مجدہ کی رضا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشورے کے موافق تھی لیکن اس کے باوجود رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کی نوید سعید انہیں ہی سنائی گئی۔ یہ سارے معاملات آنے والی امت کے لیے سبق تھے کہ دیکھ لو تم نے جن مبارک ہستیوں کی تقلید کرنی ہے وہ نگاہ ناز صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ ہیں جنہیں کامیابی کی سند لامکاں سے عطا ہوئی ہے۔ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی کلاس اور صف اول کے شاگرد صحابہ کرام ہی ہیں جن سے متعلق گمراہی یا دنیا کی رغبت کا صرف وہم و گمان ہی گمراہ کن ہے۔ رحلت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر استغفر اللہ العظیم باقی صحابہ پر گمراہی کا داغ لگاتے ہیں تو پھراستغفر اللہ العظیم کسی اور کے راہ راست پر رہنے کی کیا دلیل رہ جاتی ہے۔ جس طرح زبان نبوت سے فضائل حضرت علی شیرا خدا رضی اللہ تعالی عنہ کے ثبوت ہیں اسی طرح اسی مبارک زبان حق ترجمان سے دیگر اصحاب کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں انفرادی اور اجتماعی فضائل بھی موجود ہیں۔ اگر صف اول کے صحابہ پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو یہ درحقیقت خود شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہے۔ حالانکہ یہی وہ صحابہ ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر اپنے مبارک مشن کی تکمیل کی شھادت لی تھی اور اپنے کریم رب سے مخاطب ہو کر عرض کی تھی کہ مالک تو گواہ رہنا ۔ جن کی شھادت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کریم رب کو گواہ بنایا گیا اگر وہ ہی گمراہ ہوگئے تھے تو پھر جناب اسلام 1400 سال پہلے ہی ختم ہوچکا تھا معاذ اللہ۔
صحابہ و اہل بیت میں باہم محبت و مودت
تاریخ یعقوبی میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،سبط ِ رسولؐ سیدنا حسن بن علی ؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ان سے خوش طبعی کرتے اور فرماتے۔
(میرا باپ فدا ہو، یہ تو حضرت نبی کریمﷺ کے مشابہ ہے، حضرت علی کے مشابہ نہیں ہیں
امیر المومنین حضرت عمرؓ نے تقسیم کا حکم دیااور بذاتِ خود حضرت حُسینؓ کو ایک ہزار درہم پیش کئے جبکہ اپنے فرزند عبداللہؓ کو فقط پانچ سو درہم دئے جانے کا حکم دیا۔ عبداللہ ؓ نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین’’میں ایک مضبوط آدمی ہوں۔اُس وقت بھی تلوار سے لڑتا تھا جب سرکار دوعالمؐ حیات تھے اور حُسین ؓ ایک بچہ تھا۔پھر یہ امتیاز کیوں۔‘‘ امیرالمومنین ؓ حضرت عمر ؓ نے فرمایا، ’’حُسین ؓ کی برابری کرنی ہے تو جاو پہلے حُسینؓ کے نانا جیسا نانا لاو، ان کی نانی جیسی نانی لاو، ان کے باپ جیسا باپ لاو، ان کی ماں جیسی ماں لاو، ان کے چچا جیسا چچا لاو، ان کی پوپھی جیسی پوپھی لاو، ان کی خالہ جیسی خالہ اور ان کے ماموں جیسے ماموں لاو۔
‘‘حضرت عمرؓ کے دور ِ خلافت میں جب ایران فتح ہواتو وہاں گرفتار کی گئی ایران کے بادشاہ نوشیروان عادل کی پوتی بی بی شہر بانو کی قسمت کا ستارہ بھی چمک اٹھا۔مال غنیمت کے ساتھ شہر بانو بھی امیر المومنین ؓ کے سامنے پیش کی گئیں۔ بی بی شہر بانو نے ہزار ہا روپے کی مالیت سے بنا ہیرے جواہرات کا لباس زیب تن کیا تھا۔ سب منتظر تھے کہ امیرالمومنین ؓ کے حکم سے یہ حور کس کو ملتی ہے۔ یہاں بھی حضرت عمرؓ نے حُسینؓ کی عظمت کا خیال کیا اور فرمایا، ’’آج تک یہ دنیا کے بادشاہ کی پوتی تھی ، اب میں اس کو دین کی شہزادی بناتا ہوں۔اس طرح حضرت عمر ؓ نے شہر بانو کو حضرت حُسین ؓ کی خدمت میں پیش کیا۔
امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھا: أیھا الناس أخبروني من أشجع الناس؟ ”لوگو! مجھے بتاؤ کہ سب سے بڑھ کر شجاع اور دلیر کون ہے؟” اُنہوں نے جواب دیا: اے امیرالمومنین!آپ ہی شجاع ترین انسان ہیں۔ آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا معاملہ ہے اس میں اتنی حقیقت ہے کہ ) میرا جس کسی دشمن سے مقابلہ ہوا میں نے حساب برابر کردیا لیکن تم مجھے أشجع الناس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کون ہے؟ حاضرین نے کہا : پھر ہم نہیں جانتے، لہٰذا آپ ہی بتائیں کہ وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے بعد آپ نے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی گرفت سے چھڑانے کی پاداش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے المناک انجام اور آپ کے صبر و استقلال کا واقعہ سنایا اور پھر اتنا روئے کہ آپ کی چادر تر ہونے لگی۔ پھر آپ نے کوفی سامعین سے کہا: ”میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتاؤ : ” مؤمن ِآلِ فرعون بہتر تھا یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟” حاضرین کوئی جواب نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا: ”تم جواب کیوں نہیں دیتے، اللہ کی قسم! حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی وہ گھڑی جس میں اُنہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش سے چھڑانے کی پاداش میں خوفناک مار کھائی تھی آلِ فرعون کے مؤمن سے بہتر ہے،کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپائے پھرتا تھااور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کا اعلان کررہا تھا۔” الکنز: رقم۳۵۶۹۰
خلاصہ: زبان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر اہل بیت اطہار کو سمندر میں کشتی کی مانند قرار دیا گیا کہ اسی پر سوار ہوگے تو بچو گے تو اسی مبارک زبان حق ترجمان سے صحابہ کو ستارے بھی کہا گیا کہ جنہیں دیکھ کر کشتی سمندر میں منزل کا تعین کرتی ہے اور منزل پر پہنچتی ہے۔ اس لیے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام میں سے کسی ایک کو چھوڑ دینا گمراہی کا سبب ہے۔ حق صرف یہی ہے کہ دونوں کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھو۔
پرانے زمانے میں جب ابھی پرنٹنگ پریس کا تصور نہیں تھا کسی کتاب کے دیگر نسخے ہاتھوں سے قلم و دوات کے ساتھ لکھنے پڑتے تھے۔ دولت کی ہوس میں مبتلا یا کسی عالم سے بغض و حسد رکھنے والے لوگ جید علما کی کتب تحریر کرتے لیکن اس کی قیمت بڑھانے کے لئے یا انہیں بدنام کرنے کے لئے اپنی جانب سے چند باتیں خود سے اضافی لکھ دیتے تھے جو صاحب کتاب نے نہیں لکھی ہوتی تھیں۔ لیکن وہ باتیں بڑے اہم معاملات پر ہوتی تھیں۔ چنانچہ دوسرے شہروں میں جاکر وہ شہرہ یہ کرتے کہ فلاں امام نے فلاں بات لکھی ہے۔ لوگ حیران ہوجاتے کہ امام صاحب ایسی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ لوگ کتاب خریدتے۔ اس طرح اس تحریف شدہ کتب کے مزید قلمی نسخے تیار ہوتے۔ تاہم یہ تحریف بس چند اضافی جملوں کی حد تک ہوتی تھی۔ بعد میں جب پرنٹنگ کا زمانہ آیا تو مارکیٹ میں وہی تحریف شدہ نسخے کثرت سے موجود ہونے کی وجہ پرنٹ ہو کر مارکیٹ میں پھیل گئے۔ شیخ ابن عربی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں۔ خلاصہ “” امام شعرانی علیہ الرحمہ کے حاسدین نے ان کی کتب میں کفریہ کلمات کا اضافہ کرکے ان پر افتراء باندھا۔ اس وقت کے علما امام شعرانی کے پاس جمع ہوئے اور اصلی نسخے کے ساتھ چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ کفریہ کلمات امام شعرانی کے اپنے نسخے میں نہیں تھے۔
امام سیوطی کہتے ہیں کہ اصحاب تصوف جو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں وہ فقہاء کرام کی اصطلاحات سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ فقہا کچھ سمجھتے ہیں اوراہل تصوف کچھ اور مراد لیتے ہیں۔ زیادہ تفصیل کے لئے الشيخ الأكبر كے دفاع میں دو کتب: 1۔ الرد المتین علی منتقص العارف محی الدین لسیدی عبد الغنی النابلسی۔ 2۔ تنبيه الغبي بتبرئة ابن العربي للحافظ السيوطي. ملاحظہ کی جئے۔
الدرالمختار مع ردالمحتار، 238,239/4, دارالفکر- بيروت
یہ ہے شیخ ابن عربی پر امام ابن عابدین کا تبصرہ ۔ اہل تصوف اس بارے میں زیادہ مظلوم ہوئے ہیں۔ ان کی کتب میں بعض کلمات جو شریعت کے متباین ہیں یا تو بعض یہودیوں نے وہ کلمات ان کی کتب میں داخل کر دیئے یا پھر جاہل و زندیق صوفیاء نے۔ تاکہ اپنا غلط موقف درست ثابت کیا جاسکے یا مخالفین کو چپ کرایا جاسکے۔ چنانچہ یہی ظلم خواجہ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے ملفوظات کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ کسی نے فوائد الفواد جو کہ آپ کے ملفوظات پر مبنی کتاب ہے، میں “” چشتی رسول اللہ “” والا واقعہ شامل کردیا ۔ حالانکہ ان ملفوظات کے راوی حضرت نصیرالدین چراغ دھلی ہیں جو شرعی امور میں حد درجہ احتیاط کے عادی تھے حتی کہ اس ان معاملات میں کوئ ان کے شیخ کا حوالہ بھی دیتا تو بلاتکلف فرماتے (اس میں ) قول شیخ حجت نہیں ھے قرآن اور حدیث سے دلیل لاؤ اور ان کے شیخ حضرت نظام الدین اولیاء رح ان کی اس بات پر مسرت اور تصدیق بھی فرماتے یہ کیسے ممکن ھے کہ اتنا محتاط انسان اس ملفوظ کے مضمرات کی طرف متوجہ نہ ھو۔ نیز یہ واقعہ تو اس لئے بھی جھوٹا ہے کہ حضرت معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ کی حیات میں “” چشتی سلسلہ کی اصطلاح ابھی معروف ہی نہیں ہوئی تھی” تو آپ کے سامنے کوئی یہ کلمہ کیسے کہہ سکتا ہے ۔ یہ بعد میں کسی بد بخت نے شامل کیا۔ جہاں تک تعلق ھے ملفوظات کی کتابوں کا ان پر تو جامعات کی سطع پر تحقیقات ھو چکی ھیں ۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ڈاکٹر حبیب احمد ڈاکٹر خلیق نظامی پروفیسر محمد اسلم اور دیگر کئ ایک محقق ” فواد الفواد” کے علاوہ باقی سب ملفوظات کو جعلی سمجھتے ھیں۔ اس پر مزید تحقیق کے لئے یہ لنک ملاحظہ کریں۔
خلاصہ یہ کہ جن فقہا نے شیخ اکبر کے خلاف فتوے دئے ان کی بنا فقہی اصطلاحی معانی مراد تھے جو کہ شیخ اکبر کی مراد نہ تھے جیسے امام سیوطی نے لکھا ہے۔ دوسرا کام ان بدباطنوں کا ہے جنہوں نے حسد یا دولت کی لالچ میں کفریہ کلمات کا اضافہ کیا ہے۔ آپ خود سوچیں جو بات ہم جیسے نالائقوں کو ہضم نہیں ہوتی وہ بات اتنا بڑا صاحب نظر عالم کیسے کہہ سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہم پر رحم فرمائے۔شیخ اکبر علیہ الرحمہ کو سمجھنے کے لئے ضروری کہ محقق پہلے شیخ اکبر کے خاص پیراڈائیم کو سمجھے۔ ورنہ وہ ان سے متعلق غلط نتائج پر پہنچے گا۔ ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب نے نہایت عمدہ انداز میں شیخ اکبر کے تناظر پر بحث کی ہے۔اس مضمون کے لئے یہاں کلک کریں۔
کیا واقعی علما سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ہیں یا اس اچھوتے علم کو نہیں جانتے ؟
یہ مفروضہ لبرلز اور دین بیزار طبقے نے از خود گھڑا ہوا ہے تاکہ وہ علما پر زبان درازی کر سکیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
سائنس اور ٹیکنالوجی ایک ایسا علم ہے جو بتدریج ترقی کرتا ہے ہر لمحے اس میں بدلاو ہے اور یہی بدلاو اس سے متعلق شرعی احکام میں بدلاو کا سبب ہے۔ اور یہ ایک عقلی بات ہے جو آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔
لبرل اور دین بیزار کہتے ہیں مولوی پہلے اسپیکر کی مخالفت کرتے تھے لیکن بعد میں مان گئے ۔ اور اس بات کو لیکر ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے تفصیل آگے آئے گی۔ تاہم سردست اس سوال کو دیکھتے ہین کہ اسپیکر کی ایجاد اتنی دیر سے کیوں ہوئی حالانکہ سائنس تو پہلے بھی موجود تھی ؟ جیسے یہ سوال انتہائی فضول اور جاہلانہ لگتا ہے بالکل ایسا ہی لبرل کا وہ اعتراض فضول اور جاہلانہ ہے۔ ۔۔۔۔ اس بحث سے اصول یہ نکلتا ہے کہ علم میں تدریج ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امور کی حقیقت کھلتی ہے۔(جبکہ لبرل و دین بیزار طبقہ اس اصول سے جاہل ہے)۔
سائنس و ٹیکنالوجی نے عبادات، جنایات اور معاملات الغرض انسانی زندگی کے ہر باب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سب میں اہم اور نزاکت پر مبنی احکام عبادات اور جنایات کے ہیں۔ علمائے حق ان دو معاملات میں سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں عبادات کے رد و قبول کا معاملہ ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کی ساری عبادات ضائع جاتی رہیں اور قیامت کے دن نامہ اعمال غارت ملے۔ اس لیے اس میں احتیاط برتی جاتی ہے۔(لبرل یا دین بیزار چونکہ عبادات کو اہم نہیں سمجھتے اس لیے انہیں احتیاط سے بھی کوئی لگاو نہیں ۔ انہیں صرف دنیا کی دولت اور سفلی خواہشات کی نزاکت کا احساس ہے بس۔)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب سائنس و ٹیکنالوجی کا معاملہ واضح ہوتا جاتا ہے تو اس حساب سے علما سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار کو رد و قبول کرتے آئے ہیں۔ مثلا سپیکر ۔۔۔۔ جب لاوڈاسپیکر ایجاد ہوا تو علما نے اسپیکر کی مطلق مخالفت نہیں کی تھی بلکہ علما اس وقت بھی اپنی تقاریر میں اسپیکر کا استعمال کرتے تھے۔ علما نے صرف دو امور آذان اور نماز میں تلاوت اور تکبیرات میں اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ شرعی اصول یہ تھا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو انسان کی حقیقی آواز میں ہی درست قرار پاتی ہے۔ مصنوعی آواز میں عبادت کا کوئی تصور نہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اسپیکر سے پیدا ہونے والی آواز کی اصلیت کیا ہے ؟ اس سوال کو لے کر علمائے حق نے علمی بحث کے وہ دروازے کھولے جو خود سائنس کے محققین کے لیے نئے باب تھے۔ علمائے حق نے “آواز اور گلے” سے متعلق جن درج ذیل پہلووں پر بحث کی اُس پر اُس وقت کے سائنس دان خود سکوت میں تھے۔
What is definition of Voice? What is difference in the pitches of human real voice and voice generated in loud-Speaker?
Human voice travels in Ordinary waves while loud-speaker voice travels in electric waves. Will both voices be considered same voice?
What are the differences in pitch and vibration of both voices?
Echo and its reality, Analysis of Human Voice
اس بارے میں اس وقت کے درویش صفت علمائے حق نے تو سائنس کے اصولوں پر ٹھیک ٹھاک بحث کی جس سے شاید یہ لبرلز اور دین بیزار آگاہ بھی نہیں ہونگے۔ آواز سے متعلق یہ وہ جہات تھیں جن سے اس وقت کے سائنس دان خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب معاملہ واضح ہوا کہ لاوڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز اور انسان کی آواز میں صرف پِچ اور وائبریشن کا فرق ہے۔ اس کے ساتھ دیگر پائے جانے والے فروق عبادات کو متاثر نہیں کرتے لہذا عبادات میں بھی اسپیکر کا ستعمال جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کچھ علما نے علمی بنیاد پر یہ اجازت نہیں دی ۔ کیونکہ جن اختلافات کو انہوں نے بنیاد بنایا سائنس دان خود بھی انہی اختلافات میں تقسیم تھے۔
لبرلز اور دین بیزار طبقے کی علما کے خلاف ہرزہی سرائی کی یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے یہاں مختصر انداز میں قلم بند کیا ہے۔
علمائے حق نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے آلات کو صرف اسی خاص تناظر میں جانچا ہے۔ جتنی علمی اور باریک بینی سے علما نے بحث کی ہے یہ لبرلز تو شاید اس میں استعمال کی اصطلاحات کو بھی نہ پڑھ سکیں ۔۔زیادہ دور نہ جائیں تو اس صدی کے مجدد اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب زمین ساکن ہےکا مطالعہ کر کے اپنا شوق پورا کرلیں کہ جو شاید ان کم عقلوں سے پڑھی ہی نہ جائے۔ لیکن اعلی حضرت عظیم البرکت نے اس میں سائنسی دلائل کا انبار لگا دیا کہ زمین ساکن ہے اور آپ کے بعد کے کئی مغربی ماہرین فلکیات نے بھی یہی موقف اپنایا کہ زمین ورج کے گرد نہین گھومتی۔ یہ کتاب اپنے دور کی معرکۃ الآراء تصنیف تھی کہ جب سائنسی آلات ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے لیکن نظام شمسی پر اس قدر دلائل پیش کیے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔ لیکن ان کی ہٹ دھرمی یہی ہے کہ علما سائنس کے مخالف ہیں۔
قمری کیلینڈر کے معاملے کو لے کر حسب معمول جاہل/کم علم وزرا کا کہنا ہے ” ہمیں علما کو سمجھانا ہوگا کہ ٹیکنالوجی اسلام کے خلاف نہیں ” ……. جن بے وقوف لوگوں کو ابھی تک وجہ نزاع ہی سمجھ نہیں آئی وہ بے وقوف کیا سمجھیں گے اور کیا سمجھائیں گے۔ علمائے حق سائنس و ٹیکنالوجی کا کافی فہم رکھتے ہیں ۔ مسئلہ سائنس کی مخالفت کا ہے ہی نہیں۔
اصل مسئلہ کیا ہے ؟
حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ کیا چاند کو دیکھ کر یقینی علم حاصل کرنے کے بعد شرعی حکم پر عمل کیا جائے یا حساب لگا کر ظنی علم کی بنیاد پر عمل کیا جائے؟
علمائے حق کے نزدیک اصل دلیل تو نص ہے کہ حدیث میں رویت کا لفظ آیا ہے جو بدیہی اور صریح لفظ ہے۔ اس کے ساتھ معاون دلیل کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رویت سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اور صرف اسی پر ہی شرعی امر کا دارو مدار ہے۔ قمری کیلنڈر چونکہ شمسی کیلینڈر کی طرح یقینی نہیں ہے بلکہ اس میں اندازہ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے۔ اس وجہ سے قمری کیلنڈر کو شرعی احکام کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا قمری کیلینڈر یعنی فلکیات کے حساب کی بنیاد پر گواہوں کی گواہی رد کی جاسکتی ہے؟
اس بارے میں شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی رائے یہ ہے “ فلکیات کا علم بعض امور میں یقینیات میں داخل ہوچکا ہے تو کئی علما کا موقف ہے کہ کم از کم ان امور میں حسابات سے تعارض حقیقی کی صورت میں گواہ کی گواہی مسترد کی جاسکتی ہے۔ البتہ جہاں ابھی تک فلکیات کا علم ظنیات میں شامل ہے وہاں بدستور گواہ کی گواہی کو فوقیت حاصل ہوگی۔ ہمارے نزدیک یہی موقف درست ہے۔
میری رائے میں اس کے ساتھ ساتھ یہ جہت بھی اہم ہے کہ گواہوں کی گواہی کا فلکی حسابات کے ساتھ فرق کا لیول کیا ہے ؟ معمولی یا غیر معمولی ۔ جیسے چند گھنٹے یا ایک دن یا اس سے زائد کا فرق ۔ علم فلکیات مغربی ممالک کی نسبت مجموعی اسلامی دنیا میں ابھی ترقی پذیر ہے۔ تاہم اسلامی دنیا میں پاکستان میں قدرے بہتر ہے۔اس لیے فلکیات کے حسابات کو بطور قرینہ لیا جاسکتا ہے اور مخالفت کی صورت میں گواہیوں کو رد کیا جا سکتا ہے۔ (یہ اس مسئلے کا سلبی پہلو ہے)۔
جہاں تک ایجابی پہلو کی بات ہے کہ کیا صرف فلکی حساب یا قمری کیلینڈر کی بنیاد پر امر شرعی کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟
تو اس بارے میں علما کا یہ فتوی ہے کہ چاند کو انسانی آنکھ سے دیکھنا لازمی ہے اور ضروری ہے تاکہ یقینی علم حاصل ہوجائے۔ صرف قمری کیلینڈر یا فلکی حساب کی بنیاد پر شرعی حکم کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ علم بہر حال ظنی ہے اور ظن کی بنیاد پر شرعی امور کا مدار نہیں ہے۔ ماہرین فلکیات خود بھی یقین سے نہیں کہتے کہ یہ ہوگا اور ایسے ہوگا اور اس وقت ہوگا ۔۔۔ بلکہ وہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ ایسا ہو فلاں وقت ہو ۔۔۔۔۔ تو اس صورت میں شریعت کے معاملات ظن و تخمین پر نہیں چلائے جا سکتے۔
پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں علم فلکیات کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے کہ اس کے حسابات میں ظن غالب ہی رہے گا۔ اور رویت کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہوگی۔ کیونکہ اسلامی اصولِ رویت نصِ حدیث سے ثابت ہے جو دائمی اصول ہے۔
آج مورخہ ۶ جون ۲۰۱۹ کو فواد چودھری کے اگلے دو ماہ کے چاند سے متعلق پیشین گوئی کے اعلان کو کیسے لیا جائے ؟
مسیلمہ کذاب نے بھی صحرا کے سفر میں اپنے قبیلے والوں کو ایک پیشین گوئی کی تھی کہ وہ چلتے رہیں آگے انہیں پانی مل جائے گا۔ اتفاق سے وہ پیشین گوئی پوری ہوگئی اور آگے پانی مل گیا تو اُس کذاب نے اسی کو اپنا معجزہ قرار دے دیا اور جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا تھا۔ بس یہ بھی اسی نوعیت کا معاملہ سمجھیں اور دین بیزار فواد چودھری کے نئے اعلان کو اسی تناظر میں دیکھیں۔
اسلام کےمعتدل مذہب ہونے کی بنیادی وجہ اُس کا آفاقی مذہب ہوناہے جیسے اللہ جل مجدہ فرماتا ہے؛
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا[السجدة : ۴ ]
(اللہ جل مجدہ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے (سب) پیدا کیا)
یہ آفاقی اعلان اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیتا ہے کہ حقیقی خالق کون ہے!یہ ایک فطری امر ہے کہ جس نے کوئی چیز خود بنائی ہو تو اسے اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح اللہ جل مجدہ کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہےجیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشادفرمایا؛
ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا گھرانا ہے۔ پس مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سےپیارا وہ ہے، جو اس کے گھرانے سے اچھا سلوک کرے۔
اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہےجس میں زندگی گزارنے کے آداب سے لے کر مختلف سطحوں تک کے حقوق سے متعلق بڑی باریک بینی سے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔اسلام جہاں انسان کو انسانی حقوق سے آگاہی فراہم کرتا ہے تو وہیں اُسے دوسری مخلوق کے حقوق کی تفصیل بھی دیتا ہے تاکہ روئے زمین پر انسانی قیام کوپر امن رکھا جاسکے۔دیگر مخلوقات کی طرح اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔ شریعت محمدیہ نے چو پایوں، مویشیوں، پرندوں غرض ہر قسم کے جانوروں کے حقوق بیان کیے ہیں۔ نزول قرآن سے قبل اہل عرب کی شقاوت قلبی کی ان گنت داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں ، جن میں سے بعض کاتعلق حیوانات سے ہے۔عرب میں ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ جانورکوکسی چیزسے باندھ کراس پرنشانہ لگاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے جانوروں کے گوشت کوناجائزقرادیااورعام حکم دیاکہ کسی ذی روح چیزکواس طرح نشانہ نہ بنایا جائے۔(2) وہ زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ لیتے اور پھر اسے بھون کر کھاجاتے تھے۔ ’’حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) وہاں کے لوگ زندہ اُونٹوں کی کوہان اور زندہ دُنبوں کی چکیاں کاٹتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: زندہ جانور سے جو حصہ کاٹا جائے وہ مردار ہے۔(3) اس روایت سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام سے قبل اہل عرب کس قدر سنگ دل ہوا کرتے تھے۔ اہل عرب جانوروں کو اندھا دھند قتل کرنے کو عار نہیں سمجھتے تھے۔دو لوگ شرط لگاتے کہ وہ باری باری اپنا اونٹ ذبح کریں گے جو اونٹ ذبح کرنے سے رک جائے گا وہ شرط ہار جائے گا اور پھر وہی مذبوحہ اونٹ دعوتوں میں اڑادیے جاتے اور ایسے واقعات کا ذکر اہل عرب کی زمانہ جہالت کی شاعری میں کثرت سے ملتا ہے۔المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام(11:133) میں ہے کہ ایک دستوریہ بھی تھاکہ جب کوئی مرجاتاتواس کی سواری کے جانورکواس کی قبرپرباندھتے تھے اوراس کودانہ، گھاس اورپانی نہیں دیتے تھے، اوروہ اسی حالت میں سوکھ کرمرجاتا، ایسے جانورکوبلیہ کہتے تھے۔ جس اسلامی دستورکےنزول کی ابتدا غار حرا پر ہوئی تھی اسی دستور کے ذریعے ایسی سنگ دلی کو مٹادیا گیا اور امن، محبت ، اور رحم دلی کے جذبات کوعملاً فروغ دیا گیا۔
قرآن مجید میں جانوروں سے متعلق اہم معلومات
قرآن مجید کی کم و بیش دو سو آیات مبارکہ میں جانوروں کے حقوق اور فوائد اور ان سے متعلق حلال و حرام کے شرعی احکام کا تذکرہ ملتا ہے۔ کہیں جانوروں کے نام ذکر کیےگئے ہیں تو کہیں مطلق جنس کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا پنتیس (۳۵) جانوروں کا ناموں کا ذکر ملتا ہےجن میں پرند، چرند، حشرات اور جنگلی و پالتو جانور شامل ہیں ۔ پرندوں میں سلوی : بٹیر ، ھدھد : ہد ہد ، غراب : کوا، اور ابابیل ۔آبی مخلوق میں نون و حوت : مچھلی، وہیل، ضفادع : مینڈک ۔جن حشرات کا نام قراان مجید میں آیا ہے ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔
آیت
سورۃ
اردو نام
قرآنی نام
شمار
6
البقرہ
مچھر
بعوض
1
73
الحج
مکھی
ذباب
2
68
نحل
شہد کی مکھی
نحل
3
41
عنکبوت
مکڑی
عنکبوت
4
133
اعراف
ٹڈی
جراد
5
18
نمل
چیونٹی
نمل
6
4
قارعہ
تتلی
فراش
7
133
اعراف
جوں
قمل
8
107
اعراف
اژدہا
ثعبان
9
اسی طرح جن پالتو جانوروں کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔
حلت و حرمت
آیت
سورۃ
اردو نام
قرآنی نام
شمار
حرام
8
نحل
خچر
بغال
1
حلال
143، 146
انعام
بکرا و بھیٹر
غنم، نعجہ، ضان و معز
2
حلال
65، 40
یوسف، اعراف
اونٹ
بعیر، جمل
3
حلال
70
بقرہ
گائے
بقرہ
4
حلال
29
ہود
گوسالہ۔ بچھڑا
عجل
5
حرام
259، 8
بقرہ، نحل
گدھا
حمار، حمیر
6
حرام
176
اعراف
کتا
کلب
7
اسی طرح وہ جنگلی جانور جن کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں ان کی تفصیل نیچے ٹیبل میں ملاحظہ کریں۔
حلت و حرمت
آیت
سورۃ
اردو نام
قرآنی نام
شمار
حرام
51
مدثر
شیر
قسورہ
1
نجس العین
173
بقرہ
سور
خنزیر
2
حرام
1
فیل
ہاتھی
فیل
3
حرام
65
بقرہ
بندر
قردہ
4
قرآن مجید کی بعض سورتوں کے نام بھی جانوروں کے نام پر ہیں جیسے سورہ بقرہ : گائے, سورہ فیل : ہاتھی سورہ, نحل : شہد کی مکھی, سورہ عنکبوت : مکڑی اور سورہ نمل : چیونٹی۔
جانوروں کے حقوق
قیامت کے روز اللہ جل مجدہ انصاف فرمائے گا حتیٰ کہ جانوروں کو بھی ان کا حق ادا کیا جائے گا ۔ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حقوق وصول کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ امام احمد کی روایت میں ہے: ’’جس نے اُسے سینگ مارا تھا۔ (4)‘‘ جانوروں کے ساتھ حسن سلو ک کا حکم حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھا ئے گا تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔
یعنی انسان جو فصل کاشت کرتا ہے اور اس سے جو جاندار بھی مستفید ہوتا ہے حتی کہ فصل کا مالک اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ کتنے اور کون کون سے جاندار اس کی کھیتی سے مستفید ہوئے لیکن اسے اس عمل پر صدقے کا اجر ملتاہے۔ تو جو انسان جانوروں کو پالتا ہے اور ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے تو اس کا اجر کتنا ہوگا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کریم نے بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت بے کراں سے مالا مال فرمایا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر اجر وثواب کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔حضرت سراقہ بن جعشم ؓ کہتے ہیں؛
میں نے حضور نبی رحمت ﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ ﷺ میں نے بطور خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے۔ اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آ جاتے ہیں۔ اگر میں انہیں بھی سیراب کر دوں تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآ وسلم نے فرمایا : ”(ہاں ) ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح مسلم شریف میں ہے؛
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گذر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے ، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا،اور اس کی بخشش کر دی گئی۔ٍصحابہ کرامؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ کیا ان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک میں بھی اجر و ثواب ہے ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک میں اجر ہے۔
امام طبرانیؒ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛
مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِرَجُلٍ يَحْلَبُ شَاةً، فَقَالَ: أَي فُـلَانُ، إِذَا حَلَبْتَ فَأَبْقِ لِوَلِدِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ أَبَرِّ الدَّوَابِ (8)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دھو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لئے بھی چھوڑ دو یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔
فی زمانہ معاشرے میں یہ رویہ بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ دودھ فروخت کرنے والے زیادہ پیسوں کی لالچ میں گائے بھینس کے ساتھ بہت ہی ظالمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ دودھ نکالنے سے پہلے اس کا بھچڑا صرف اس کی نظروں کے سامنے اس کے قریب لاتے ہیں یا ایک منٹ تک ساتھ چھوڑتے ہیں تاکہ وہ وہ اپنا دودھ چھوڑے اور پھر اس بچھڑے کو زبردستی الگ کر لیتے ہیں اور اسے اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گائے بھینس کو ہارمونز کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں تاکہ اس کی کھیری میں دودھ کا ایک قطرہ تک باقی نہ رہے ۔ اس انجیکشن سے اس بے زبان جانور کو جس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ان شقی القلب دولت کے پجاریوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ پھر اسی انجیکشن کے مضر اثرات عوام الناس تک پہنچتے ہیں ۔ خاص طور پر حاملہ خواتین میں حمل کی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ بچہ جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا اسے بھی اس دنیا کے درندوں کے ظلم کے اثرات پہنچ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ اس دنیا میں آنے سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ جاتا ہے یا پھر اس دنیا میں کسی مرض میں مبتلا ہو کر داخل ہوتا ہے۔ خبر نہیں انسان کی یہ لالچ اور کیا کیا دن دکھائے گی! حضور نبی رحمت ﷺ کے مندرجہ بالا فرمان کی نظر میں اس رویے کو دیکھا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ انسان لالچ میں درندگی کی سطح کس قدر گرجاتا ہے۔ جانور حضور نبی رحمت ﷺ کو پہچانتے تھے کہ یہی ان کے درد کا درماں ہے یہی وہ پیکر لطف و عنایت ہے جو ان کے لیے امان بن کر تشریف لایا ہےچنانچہ سنن ابو داود شریف میں حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے مروی ہے؛
. ’’حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔
جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور ایذا رسانی کی ممانعت
اسلام نے جانوروں کو بھی چین سے جینے کا حق دیا ہےاور انہیں اذیت دینے سے منع کیا ہے ۔ حضرت ہشام بن زیاد کا بیان ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے چند لڑکوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اُس پر تیر چلا رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (10)کیونکہ ایک جاندار کو باندھ کر صرف نشانہ بازی کی غرض سے اسے مارنا کوئی انصاف نہیں ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی جاندار کو (تیر اندازی کے لئے) ہدف مت بناؤ۔(11) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا کہ آپ کا گزر چند لڑکوں یا آدمیوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے دریافت فرمایا: یہ کام کس نے کیا ہے؟ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس پر لعنت فرمائی ہے جو ایسا کام کرے۔(12) امام سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا قریش کے چند جوانوں پر گذر ہوا جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے اور اُنہوں نے پرندے والے سے یہ طے کر لیا تھا کہ جس کا تیر نشانہ پر نہیں لگے گا وہ اُس کو کچھ دے گا، جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو اِدھر اُدھر ہو گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: یہ کام کس نے کیا جو شخص اِس طرح کرے اُس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے، جو شخص کسی جاندار کو ہدف بنائے بلاشبہ اُس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لعنت کی ہے۔(13)
جانوروں کو زندہ جلانے کی ممانعت
حضور نبی اکرم ﷺ نے جانوروں کو جلا کر عذاب دینے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ سنن ابوداود شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں؛
ایک سفرمیں ہم رسول اللہﷺکے ساتھ تھے۔ آپﷺ اپنی حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ ہم نے ایک سرخ پرندہ دیکھا جس کے ساتھ اس کے دوبچے بھی تھے۔ ہم نے ان بچوں کوپکڑ لیا، تو وہ فرط غم سے ان کے گرد منڈلانے لگا۔ اتنے میں نبی کریمﷺ تشریف لائے توآپ نے فرمایا :اس پرندے سے اس کے بچوں کو چھین کر کس نے اسے رنج پہنچایا ؟ اس کے بچوں کو لوٹادو،اس کے بچوں کو لوٹادو۔اور وہیں آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا جھنڈ دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔آپ ﷺ نے پوچھا اسے کس نے جلایا تو ہم نے عرض کی کہ ہم نے جلایا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: آگ کے مالک (رب) کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ آگ کا عذاب دے۔
چیونٹیوں کے بل کو جلانے سے متعلق امام بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک متفق علیہ روایت نقل کی ہے؛
” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ( اللہ کے جو ) انبیاء ( پہلے گزر چکے ہیں) ان میں سے کسی نبی ( کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا )، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے ، چنانچہ بل کو جلا دیا گیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح کرتی ہے۔
امام قرطبی ؒ اس واقعے کا پس منظر یوں بیان کرتے ہیں؛
قال علماؤنا : يقال إن هذا النبي هو موسى عليه السلام ، وإنه قال : يا رب تعذب أهل قرية بمعاصيهم وفيهم الطائع. فكأنه أحب أن يريه ذلك من عنده ، فسلط عليه الحر حتى التجأ إلى شجرة مستروحا إلى ظلها ، وعندها قرية النمل ، فغلبه النوم ، فلما وجد لذة النوم لدغته النملة فأضجرته ، فدلكهن بقدمه فأهلكهن ، وأحرق تلك الشجرة التي عندها مساكنهم ، فأراه الله العبرة في ذلك آية : لما لدغتك نملة فكيف أصبت الباقين بعقوبتها! يريد أن ينبهه أن العقوبة من الله تعالى تعم فتصير رحمة على المطيع وطهارة وبركة ، وشرا ونقمة على العاصي (16)
ہمارے علما کہتے ہیں کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نبی حضرت موسی علیہ السلام تھے(تاہم یہ بات یقینی نہیں ہے ممکن ہے کہ وہ کوئی اور نبی ہوں )۔ایک دفعہ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ ( پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہو جاتی ہے ، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ ان تعلیم کے لیے کوئی مثال قائم کرے ۔ چنانچہ اللہ جل مجدہ نے(ایک سفر کے دوران)اُن پر سخت ترین گرمی مسلط کر دی ۔یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے ، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹا اور انہیں جگا دیا۔اور اس درخت کو جلوادیا جس کے نیچے چینوٹیوں کا بل تھا۔اس واقعے میں اللہ تعالی نے انہیں حقیقت دکھلادی کہ جب انہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تو پھر سزا باقیوں کو دی ! اس سے انہیں یہ بات سمجھ آگئی کہ اللہ تعالی کی جانب سے سزا و عذاب عمومی نوعیت کا آتا ہے جو مطیع و فرمانبردار کے لیے پاکیزگی و بخشش کا سبب بنتا ہے اور نافرمانوں کے لیے سزاشمارہوتا ہے۔
عقیدے کی اصلاح : فتنہ انکار سنت اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایک نبی سے چیونٹیوں کو جلانے جیسے ظالمانہ فعل کی نسبت عقل کے خلاف ہے لہذا اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ حدیثیں درست نہیں ہیں۔اس اعتراض کاجواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔ پہلا اس طرح کہ اللہ تعالی نے اس واقعے کی نسبت اپنے نبی علیہ السلام کی جانب نہیں بلکہ اپنی طرف کی ہے کہ اس واقعے سے اُس نبی علیہ السلام کی تعلیم کے لیے ایک مثال قائم کرنا مقصود تھا۔ اصول یہ ہے کہ اللہ تعالی جس کام کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے وہ عین حق ہوتا ہےاور مبنی بر عدل ہوتا ہے خواہ وہ ہماری عقل کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا یہاں بظاہر جلانے کا فعل ایک نبی علیہ السلام کی طرف ہے لیکن حقیقت میں یہ کام من جانب اللہ ان سے سرزد کروایا گیا۔لہذا یہ عقیدہ قائم رہتا ہے کہ انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں۔
دوسرا جواب امام قرطبی ؒ کی اس عبارت میں موجود ہے؛
إن هذا النبي كانت العقوبة للحيوان بالتحريق جائزة في شرعه ؛ فلذلك إنما عاتبه الله تعالى في إحراق الكثير من النمل لا في أصل الإحراق(17)
حیوانات کو جلانے کی سزا دینا اُس نبی علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے انہیں جلانے کے فعل پر عتاب نہیں کیا بلکہ زیادہ چیونٹیوں کو جلانے پر عتاب فرمایا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیائے علیھم السلام معصوم ہوتے ہیں اور وہ شریعت کی جائز امور سے سرِمو انحراف نہیں کرتے۔
امام قرطبی ؒ کہتے ہیں جو جانور اذیت دے اسے مارنا جائز ہے۔ بلکہ موذی جانور کو اس خوف سے کہ کہیں وہ اذیت نہ پہنچائے مارڈالنا جائز ہے (جیسے بچھو ، سانپ وغیرہ) ۔ (18)شریعت محمدیہ ﷺ میں جانداروں کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ جانداروں کو اذیت دینے پر وعیدیں بھی سنائی ہیں بلکہ حضور نبی کریم ﷺ نے بعض ظالمانہ افعال کرنے والوں پر لعنت بھی فرمائی ہے۔ امام بخاری ؒ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛
حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جانوروں کا مثلہ کرے (یعنی اُن کے ناک کان وغیرہ کاٹے)‘‘۔
امام احمد بن حنبل ؒ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی ذی روح کا مثلہ کیا اور پھر اِس گناہ سے توبہ نہ کی(اور اسی حال میں مرگیا) تو اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس کا مثلہ کرے گا۔(20) حضرت شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی چڑیا کو بلا وجہ مار ڈالا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور عرض کرے گی : اے اللہ! فلاںشخص نے مجھے بلا وجہ بغیر کسی فائدہ کے قتل کیا۔(21) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنھما راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے چڑیا یا اُس سے بھی چھوٹا جانور ناحق قتل کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اُس کے متعلق بھی پوچھے گا (تو نے یہ جان ناحق کیوں لی)۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ وہ اُسے ذبح کرے اور کھائے اور (بلا ضرورت صرف شوقِ شکار میں) اُس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔‘‘(22)
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔
اما م نسائی ؒ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
رأيت فيها امرأة من حميرتعذب في هرة ربطتها فلم تدعها تأكل من خشاش الأرض فلا هي اطعمتها ولا هي أسقتها حتى ماتت ولقد رأيتها تنهشها إذا أقبلت وإذا ولت تنهش(24)
میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی او رجب وہ پشت کرتی تھی تو وہ بلی اس کی پشت کو نوچتی تھی۔
ایک طبیب نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دوا کا ذکر کیا جس کی تیاری میں مینڈک (کی چربی) استعمال ہوتی ہے، تو حضور نبی کریم ﷺ نے مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حرام چیزوں سے علاج کرنا جائز ہے؟ اس بات پر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ حرام اشیا سے علاج کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم احناف فقہا کہتے ہیں کہ اگر تحقیق سے یہ بات یقینی ہوجائے کہ علاج اسی حرام کردہ چیز میں ہے تو پھر جائز ہے۔ اس ساری بحث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر وہ فعل جو جانوروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو ناجائز ہے۔حلال جانوروں کے ذبح کرنے میں بھی تکلیف کو کم سے کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
چنانچہ حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں؛
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ: ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَه فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَه(26).
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دو باتیں یاد رکھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، سو جب تم کسی شے کا شکار کرو تو اُسے احسن طریقہ سے شکار کرو اور جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ چھری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔‘‘
امام طبرانی ؒ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں؛
مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی رَجُلٍ وَاضِعٍ رِجْلَه عَلٰی صَفْحَةِ شَاةٍ، وَهُوَ يَحُدُّ شَفْرَتَه، وَهِيَ تَلْحَظُ إِلَيْهِ بِبَصَرِهَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : أَفَـلَا قَبْلَ هٰذَا؟ أَوْ تُرِيْدُ أَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَتَيْنِ (27)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی ٹانگ بھیڑ کی گردن پر رکھے چھری تیز کر رہا تھا، وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ کام پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟ (یعنی چھری اس سے پہلے تیز کر لینی چاہئے تھی)، کیا تم اُسے دو موتیں مارنا چاہتے ہو۔
اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے ذبح کرنے سے قبل چھریوں کو تیز کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چھریوں کو تیز کرنے اور جانور سے اُنہیں چھپانے کا حکم دیا ہے اور مزید فرمایا: جب تم میں سے کوئی (جانور) ذبح کرے تو تیزی سے ذبح کرے۔(28) جانوروں پر یہ رحم انسان کو اللہ کے رحم کا مستحق کردیتا ہے۔ چنانچہ حضرت قرہ بن ایاس ؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے۔ آپ ﷺفرمایا: اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا۔(29) امام طبرانی نے حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے (کسی چیز پر) رحم کیا خواہ چڑیا کے ذبیحہ پر ہی کیوں نہ ہو اﷲ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر رحم کرے گا۔(30)
حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اِس عمل کو ناپسند فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں (جانور کے) صرف اُس عضو کو داغتا ہوں جو چہرے سے بہت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے گدھے کو داغنے کا حکم دیا، سو اُس کی سرین کو داغا گیا، اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہی (جانور کی) سرین کو داغا تھا۔
جانوروں پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادیں
جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیاد ہ بوجھ لادنا جائز نہیں،اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے: صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات کا علم تھا کہ جو شخص جانور پر اس کی طاقت اور قوت سے زیادہ بوجھ لادے گا تو اس کو روز ِ قیامت حساب کتاب دینا ہوگا ، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنے اونٹ سے کہا : اے اونٹ تم اپنے رب کے یہاں میرے سلسلہ میں مخاصمہ نہ کرنا ، میں نے تم پر تمہاری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں لادا ۔(34) ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پرسکون ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو“۔(35)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اور اور جب یہ تندرست نہ رہیں تو اِنہیں کھا لیا کرو۔
ابنِ ابی شیبہؒ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے تین لوگوں کو خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا : تم میں سے ایک شخص اتر جائے؛کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔(37) یہ اُس صورت میں ہے؛ جب کہ وہ جانور تین آدمیوں کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اگر استطاعت رکھتا ہوتو جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لیے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ)جانی مشقت ومحنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے؛ لہٰذا ان کو ایذا پہنچانا رَوا نہیں ہے۔جس جانور کی خلقت سواری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے وغیرہ تو ان کی سواری کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين، شعب الإيمان، (دار الكتب العلمية – بيروت1410)، 9: 523
الترمذي، أبو عيسى، سنن الترمذي، (مطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر)، باب ما جاء في كراهية أكل المصبورة، 5: 411
حواله سابق ، کتاب الصيد، باب ما قطع من الحي فهو ميت، 4: 74
النيسابوري، مسلم بن الحجاج ، صحیح مسلم، (دار إحياء التراث العربي – بيروت)، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم،4: 1997
البخاري، محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، (دار طوق النجاة الطبعة: الأولى، 1422هـ)، باب فضل الزرع والغرس إذا أكل منه، 3: 103
ابن ماجة ،محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه، (دار إحياء الكتب العربية)، باب فضل صدقة الماء، 2: 1215
النيسابوري، صحیح مسلم، باب فضل ساقی البهائم، 4: 1761
الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الاوسط،( دار الحرمين – القاهرة)، 1: 271
أبو داود، سنن أبي داود ،کتاب الجهاد، باب ما يومر به من القيام علي الدواب والبهائم، 3 /23
البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
النيسابوري، ، صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3: 1549
البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
النيسابوري، ، صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح، باب النهي عن صبر البهائم، 3: 1550
أبو داود، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، (دار الكتاب العربي ـ بيروت)، باب فى كراهية حرق العدو بالنار، 3: 8
البخاري، صحيح البخاري، إذا حرق المشرك المسلم هل يحرق ، 4: 62
القرطبي، محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن، (دار عالم الكتب، الرياض، المملكة العربية السعودية، 2000)، 13: 174
حواله سابق
حواله سابق
البخاري، الصحيح البخاری،کتاب الذبائح والصيد، باب ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 7: 94
أحمد بن حنبل ، المسند، (مؤسسة الرسالة،2001 م)، 9: 474
ا لنسائي، أحمد بن شعيب، سنن نسائی، (مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب، 1986)، کتاب الضحايا، باب من قتل عصفورا بغير حقها، 7: 239
حوالہ سابق، 7: 206
البخاري، صحيح البخاري، باب خمس من الدواب فواسق يقتلن في الحرم، 4: 130
النسائي، أحمد بن شعيب، السنن الكبرى، (مؤسسة الرسالة)، 1: 574
ابوبكر بن أبي شيبة، مصنف ابن أبي شيبة، (دار الوطن،الرياض،1997م)، 5: 62
الترمذي، سنن الترمذي، کتاب الديات، باب ما جاء في النهي عن المثلة، 4 /23
الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الکبير،( مكتبة ابن تيمية – القاهرة)، 11: 332
ابن ماجة ، سنن ابن ماجه، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 /1059
أحمد بن حنبل ، المسند، 33: 472
الطبراني، المعجم الکبير، 8 /234
النيسابوري، صحیح مسلم، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه ووسمه فيه، 3: 1673
حواله سابق
حواله سابق
امام غزالی ، احیاء علوم الدین، الباب الثالث فی الآداب، 1: 264
أبو داود، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم ، 2: 27
حواله سابق
ابن ابی شبی، مصنف ابن ابی شبیة، من کرہ رکوب ثلالة عل الدابة، حدیث:26380
آج عقل ِانسانی جس مقام پرپہنچی ہے اور جس سرعت رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ، ابتدائے آفرینش تا ماضی بعید اس کی مثال نہیں ملتی ۔ عقل کا یہ ارتقاء علم کی مرہونِ منت ہے ۔ عقل نے کائنات کے جن سربستہ اسرار کو طشت ازبام کیا ہے وہ ماضی قریب میں عقدہ لاینحل رہ چکے ہیں۔ فی زمانہ علم اورعقل نے وہ پیچیدہ معاملات تک سلجھا دیے ہیں کہ ماضی بعید کے باشندوں کوجن کی بھنک تک نہیں پڑی ہوگی ۔ گزشتہ ایک صدی سے زمانے کی صراحی سے مئے حوادث قطرہ قطرہ اتنی تیزی سے ٹپک رہے ہیں کہ جنہیں صرف زمانے کی تسبیح روز وشب پر ہی شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایجادات کا ایک سیلِ رواں ہےکہ جسے اگرگزشتہ صدی کا انسان دیکھ لے تو ورطہ حیرت میں پڑ جائے کہ ستاروں پر کمند انسان کے لیے کیونکر ممکن ہوا؟ سینکڑوں لائبریریاں ایک چھوٹی سے فیتے یا انگلیوں کے پوروں پر پڑی مائیکرو چپ میں کیسے سما گئیں ؟ مہینوں مسافت کا سفر چند ساعتوں میں کیسے طے ہورہا ہے ؟ شیشے کی اسکرین پر افراد کے اجسام کی تھرتھراہٹ اور دوسری دنیاؤں کے نظارے کیسے ممکن ہوئے؟ تمدن کی اسی ترقی کی بدولت فقہائے اسلام کے لیے بھی عبادات سے لےکر معاملات تک نت نئے چلینجز سامنے آتے گئے ۔لیکن جب صنعتی انقلاب آیا جو بعد میں معیشت و تجارت میں انقلاب کا سبب بناتو بہت سے ایسے مسائل نے جنم لیا جن کا حل اجتہادی آراء پر منحصر تھا ۔
کا مغربی تصور-‘(Globalization)’-عولمیت
گزشتہ صدی کی استعماری قوتیں اب نئے انداز میں اپنے تصورِ عولمیت کو دنیا پر نافذ کر کے اُن کا استحصال کرنےکی کوشش میں ہیں۔ فی زمانہ یہ کوشش اقتصادیات اور ثقافت کے میدان میں کی جارہی ہےجیسے سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تحت مالیاتی اور بینکنگ اداروں کا قیام ، فلم انڈسٹری اور میٖڈیا ہاؤسز کا قیام وغیرہ ۔نیز اپنے حملے کو مہلک بنانے کے لیے مغرب نے اپنا طرزِحیات اس انداز میں مرتب کیا کہ جس میں انسانی ہوس پرستی کے کوئی اصول مقرر نہیں کیے گئے خواہ اس کا تعلق جنسی تسکین سے ہو یا معاشی تسکین سے۔ انسان کو ہر قسم کی حدود و قیود سے آزاد کردیا گیا ، اس لیےمغرب نے جنسی تسکین کے لیے کسی قانونی بندھن اور معاشرتی تقاضوں کو خاطر میں لائے بغیر کھلی آزادی دے دی صرف ایک قانونی پابندی عائد کردی کہ یہ سب کچھ باہم رضامندی سےہونا چاہیے اور بس۔اس کے علاوہ دیگر پابندیاں تو مذہب نے لگانی تھیں اس لیے مغرب نے مذہب پر ہی پابندی لگادی کہ یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اس طرح مذہب کو ثانوی حیثیت دے کر زندگی کی ترویج میں اُس کا کردار غیر مؤثر کردیا۔اس طرح مغرب نے ایک انسان کو ہوائے نفس کا قیدی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔گویا انسان جنسی تسکین کے لیے بھی آزاد کہ جنسی تفریق کے بغیرجس کے ساتھ، جیسے بھی ، جب بھی اور جہاں بھی جی چاہے وہ تعلقات استوار کرلے۔ اسی طرح معاشی تسکین کے لیے بھی آزاد کہ حلال وحرام کی تفریق کیے بغیر سود، جوا، میسر، عصمت فروشی، جیسے جی چاہے اپنے لیے دولت کمائے ۔ لہذا یہ ہے وہ یکسانیت جو مغربی نظام اپنی گلوبلائزیشن کے ذریعے پیدا کرنا چاہتا ہے۔
کے اثرات-‘(Globalization)’- اسلامی تہذیب پر عَوْلَمه
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر تہذیب کسی نہ کسی حد تک حوداثاتِ زمانہ سے ضرورمتاثر ہوتی ہے، البتہ اُس کے متاثر ہونےکا انداز اُس کی اپنی تہذیبی قوت اور پختگی پر منحصر ہوتا ہے۔چشمِ فلک نے کئی تہذیبوں کو کئی تہذیبیں نگلتے دیکھا ہے اور کچھ ایسی بھی تھیں کہ جنہوں نے حملہ آور تہذیب کو ہی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔اس اعتبار سے اسلامی تہذیب انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ طاقتورترین تہذیب ثابت ہوئی کہ جس پر کئی تہذیبوں نے حملے کیے لیکن یہ نہ صرف محفوظ رہی بلکہ حملہ آور تہذیب کے باشندوں کو بھی اپنی طرف مائل کر لیا،اور کعبے کے لیےصنم خانے سے ہی پاسبان چن لیے۔ اسلامی تہذیب اس اعتبار سے بھی دائمی اوصاف سے متصف ہے کہ یہ اپنے باشندوں کی تربیت توحیدو رسالت، احتساب، جزا وسزا، انسانی تکریم‘ مساوات‘ تقویٰ‘ عفت اور پاکبازی جیسے مضبوط نصاب کے ذریعے کمال منہج پر کرتی ہےجواُن میں ہر زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت، ہمت اور قابلیت پیدا کردیتی ہے۔ مستثنیات اپنی جگہ ہیں اور ان کے اسباب بھی کچھ اور ہیں جو یہاں موضوع بحث نہیں۔ چناں چہ اسلامی تہذیب کا ہی یہ کمال ہے کہ اِس کے علما نے معاصر ترقی کی بدولت نوپیدا مسائل کا حل پیش کرنے کے لیے اپنے اسلاف کے اجتہادات سے استفادہ کر تے ہوئے اجتہادکے میدان میں اجتماعی اجتہاد کی روش کو اپنایا اور امت مسلمہ کی رہنمائی میں اپنا کرداراداکیا اور کر رہے ہیں۔
اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ فی زمانہ علم کی دنیا میں فرد کی سطح پر کوئی ایسا فقیہ نہ رہا جسے شرائط ِاجتہاد کا جامع کہا جاسکتا اور جس سے اجتہادکا مطالبہ کیا جاتا۔ مجتہد تو دور کی بات فی زمانہ کوئی بھی فقیہ اصحاب ِتمییز کے منصب پر بھی نہیں کہ جس سے اُمت کی رہنمائی ممکن ہوتی۔لیکن نو پیدا مسائل میں امت کی رہنمائی بھی فقہائے وقت کا فرض منصبی تھا کہ وہ ان مسائل کی نوعیت کو سمجھیں اور کتب فقہ میں منصوص مسائل کی روشنی میں ان کے احکام دریافت کریں۔اسی ضرورت کے پیش ِنظر قومی اور بین الاقوامی سطح پر فقہی تحقیقاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا تاکہ امت مسلمہ کے اجتماعی نوعیت کے نَوپیدا مسائل اجتماعی اجتہاد کے ذریعے حل کیے جائیں۔اس سے فقہ اسلامی کا ایک نیا انداز سامنے آیا کیونکہ ان اداروں نے مسائل کے حل کوپوری امت کے لیے قابل ِعمل بنانے کی کوشش کی ہے ،جس سے ایک نئی فقہ کا وجود عمل میں آیا جسے فقہ العولمی کہا جاتا ہے۔
محرم ہو یا ربیع الاول یا رجب المرجب جیسے ہی یہ مہینے شروع ہوتے ہیں تو چند پس ماندہ ذہنیت کے حامل لوگ ہر بار اِن مہینوں میں ہونے والے امور کے عدم جواز پر نئے عزم کے ساتھ پرانے فتوے انٹرنیٹ سے تلاش تلاش کر کاپی پیسٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں آج آپ احباب کو ایک سوچ دیتا چلوں کہ ذرا غور کی جئے کہ فتوی فتوی کھیلتے ہم کتنا دور نکل آئے ہیں؟؟؟ فتوی لینا پہلے مشکل کام ہوتا تھا لیکن موجودہ سافٹ ورلڈ میں اب فتوے ڈھونڈنا مشکل نہیں رہا۔ “”مفتی اعظم گوگل”” کے پاس ہر طرح کا فتوی موجود ہے۔ بس کاپی اور پیسٹ کرنے کی زحمت کرنی پڑتی ہے اور اس تلاش میں آپ کا عالم ہونا بھی کوئی لازمی نہیں رہا۔ بس انگلیاں چلائیں فتوی تیار ملے گا۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ایک دوسرے کی نکیر میں بات کو شرک و کفر تک پہنچانے کا یہ رویہ، کیا مناسب رویہ ہے؟؟؟ اگر تو فتوی فتوی کا کھیل امت کے بکھرے شیرازے کو یکجا کرسکتا ہے اور امت کی ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کو ایک لڑی میں پھر سے پرو سکتا ہے تو پھر یہ کھیل ضرور کھیلئے۔ ایک امر جو اپنی ذات میں نہ واجب و فرض ہے اور نہ ہی حرام۔ بلکہ وہ اباحت و استحباب کے درجے پر ہے۔تو ایسے امر پر فتوی فتوی کا کھیل سوائے باہمی تنافر و عداوت کے کوئی کار خیر سرانجام نہیں دے رہا اور ماضی کا منافرانہ ماحول اس کا ثبوت ہے۔ تو پھر ہم ایسے امور کو انتہائوں تک لے جانے پر بضد ہوکر کیوں باہم دست و گریباں ہوں۔ خاص کر اس وقت کہ جب دشمن اپنی صفوں کو متحد کرچکا ہے اور ففتھ جنریشن وار شروع کرچکا ہے۔ باہمی اختلافی امور پر ہمارے اسلاف کے رویے کیا رہے؟؟؟ کبھی ان کی پاکیزہ زندگیوں کا بھی مطالعہ کی جئے ۔ یقین جانیے باہمی اختلافی امور پر ہمارے بردبار رویے ہمارے معاشرے کو نیاگان کہن کے اخلاص عمل کی دولت سے مالا مال کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ہمیں جہاد کرنا پڑے گا اپنی انا سے، اپنی میں سے۔ جب ہم اپنی انا کے بت توڑ کر ایک دوسرے کو خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھیں گے تو شاید ہم اپنے لئے سب سے بہترین امت ہونے کے اعزاز کو دوبارہ سے بحال کر سکیں گے۔ فرقہ کب بنتا ہے ؟؟؟ انسان کی نظر جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے ہٹ کر کسی دوسری شخصیت پر جم جائے تو پھر فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن نگاہ اگر خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پر رہے تو امت کی وحدت کا تصور زندہ ہوتا ہے۔ اپنی نگاہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر جمائیے اور ایک دوسرے کے اختلاف رائے کو برداشت کی جئے۔ اللہ کریم ہمیں ہمارے نفس کی محبت کے فریب سے محفوظ فرمائے اور ایک امت بننے کی توفیق عطا فرمائے۔