صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ کی اہمیت وعظمت
محمد ابوبکر صدیق
August 30, 2020 – Muharram ul Haram 10, 1442H
………………………………………………………
خاتم الانبیا و المرسلین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کو گزشتہ انبیاء کی تبلیغ سے کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی ۔۔۔ کیونکہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج، اس کا دائرہ کار، سب کچھ یکتا ہے ۔۔۔۔صرف آپ کو ہی الیوم اکملت لکم دینکم کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔۔۔ اور صحابہ وہ ہیں جنہیں تحصیل تکمیل دین کی سند عطا کی گئی اور انہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن نبوت کی تکمیل کی گواہی لی ۔اور ان میں سے کسی بھی ایک کی اقتداء کامل کو ہدایت قرار دیا۔ یہ عظمتیں تاریخ انسانی میں نبوت کے بعد کسی بھی بشر کو نہیں ملیں۔ اللہ تعالی نے خودیہ فرما کر انہیں عزتوں سے نواز دیا
أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22) ۔المجادلة
(یہ وہ (اصحابِ رسولﷺ) ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے (پتھر پر لکیر کی طرح) ایمان لکھ دیا ہے اور نصرتِ غیبی سے ان کی تائید فرمائی اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وہ اللہ کا لشکر ہیں اور سن لو اللہ کا لشکر ہی کامران ہونے والا ہے۔)
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۔الفتح ۲۹
(’’محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا،وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔‘‘ )
هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (62) وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (63) ۔الانفال
(ووہی ہے جس نے آپ کو (براہ راست) اپنی مدد کے ذریعے اور اہل ایمان کے ذریعے طاقت بخشی (جو آپ کی پیروی کرتے ہیں)اور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے۔
(صحابہ کرام کی خطاوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی معاف کردیا گیا بلکہ غزوہ میں خطا ہوئی تو بعد میں بارگاہ لایزال سے معافی کی نوید بھی جبریل امین لائے۔ غزوہ بدر کے قیدیوں سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل کیا اگرچہ بعد میں واضح ہوا کہ اللہ جل مجدہ کی رضا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشورے کے موافق تھی لیکن اس کے باوجود رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کی نوید سعید انہیں ہی سنائی گئی۔ یہ سارے معاملات آنے والی امت کے لیے سبق تھے کہ دیکھ لو تم نے جن مبارک ہستیوں کی تقلید کرنی ہے وہ نگاہ ناز صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ ہیں جنہیں کامیابی کی سند لامکاں سے عطا ہوئی ہے۔ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی کلاس اور صف اول کے شاگرد صحابہ کرام ہی ہیں جن سے متعلق گمراہی یا دنیا کی رغبت کا صرف وہم و گمان ہی گمراہ کن ہے۔ رحلت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر استغفر اللہ العظیم باقی صحابہ پر گمراہی کا داغ لگاتے ہیں تو پھراستغفر اللہ العظیم کسی اور کے راہ راست پر رہنے کی کیا دلیل رہ جاتی ہے۔ جس طرح زبان نبوت سے فضائل حضرت علی شیرا خدا رضی اللہ تعالی عنہ کے ثبوت ہیں اسی طرح اسی مبارک زبان حق ترجمان سے دیگر اصحاب کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں انفرادی اور اجتماعی فضائل بھی موجود ہیں۔ اگر صف اول کے صحابہ پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے تو یہ درحقیقت خود شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہے۔ حالانکہ یہی وہ صحابہ ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر اپنے مبارک مشن کی تکمیل کی شھادت لی تھی اور اپنے کریم رب سے مخاطب ہو کر عرض کی تھی کہ مالک تو گواہ رہنا ۔ جن کی شھادت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کریم رب کو گواہ بنایا گیا اگر وہ ہی گمراہ ہوگئے تھے تو پھر جناب اسلام 1400 سال پہلے ہی ختم ہوچکا تھا معاذ اللہ۔
صحابہ و اہل بیت میں باہم محبت و مودت
تاریخ یعقوبی میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،سبط ِ رسولؐ سیدنا حسن بن علی ؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ان سے خوش طبعی کرتے اور فرماتے۔
بأبِيْ، شَبِیْه بِالنَّبِيِّ، غَیْرُ شَبِیْه بِعَلِيٍّ‘‘ (ج۲ ؍ص۱۱۷)۔
(میرا باپ فدا ہو، یہ تو حضرت نبی کریمﷺ کے مشابہ ہے، حضرت علی کے مشابہ نہیں ہیں
امیر المومنین حضرت عمرؓ نے تقسیم کا حکم دیااور بذاتِ خود حضرت حُسینؓ کو ایک ہزار درہم پیش کئے جبکہ اپنے فرزند عبداللہؓ کو فقط پانچ سو درہم دئے جانے کا حکم دیا۔ عبداللہ ؓ نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین’’میں ایک مضبوط آدمی ہوں۔اُس وقت بھی تلوار سے لڑتا تھا جب سرکار دوعالمؐ حیات تھے اور حُسین ؓ ایک بچہ تھا۔پھر یہ امتیاز کیوں۔‘‘ امیرالمومنین ؓ حضرت عمر ؓ نے فرمایا، ’’حُسین ؓ کی برابری کرنی ہے تو جاو پہلے حُسینؓ کے نانا جیسا نانا لاو، ان کی نانی جیسی نانی لاو، ان کے باپ جیسا باپ لاو، ان کی ماں جیسی ماں لاو، ان کے چچا جیسا چچا لاو، ان کی پوپھی جیسی پوپھی لاو، ان کی خالہ جیسی خالہ اور ان کے ماموں جیسے ماموں لاو۔
‘‘حضرت عمرؓ کے دور ِ خلافت میں جب ایران فتح ہواتو وہاں گرفتار کی گئی ایران کے بادشاہ نوشیروان عادل کی پوتی بی بی شہر بانو کی قسمت کا ستارہ بھی چمک اٹھا۔مال غنیمت کے ساتھ شہر بانو بھی امیر المومنین ؓ کے سامنے پیش کی گئیں۔ بی بی شہر بانو نے ہزار ہا روپے کی مالیت سے بنا ہیرے جواہرات کا لباس زیب تن کیا تھا۔ سب منتظر تھے کہ امیرالمومنین ؓ کے حکم سے یہ حور کس کو ملتی ہے۔ یہاں بھی حضرت عمرؓ نے حُسینؓ کی عظمت کا خیال کیا اور فرمایا، ’’آج تک یہ دنیا کے بادشاہ کی پوتی تھی ، اب میں اس کو دین کی شہزادی بناتا ہوں۔اس طرح حضرت عمر ؓ نے شہر بانو کو حضرت حُسین ؓ کی خدمت میں پیش کیا۔
امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھا: أیھا الناس أخبروني من أشجع الناس؟ ”لوگو! مجھے بتاؤ کہ سب سے بڑھ کر شجاع اور دلیر کون ہے؟” اُنہوں نے جواب دیا: اے امیرالمومنین!آپ ہی شجاع ترین انسان ہیں۔ آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا معاملہ ہے اس میں اتنی حقیقت ہے کہ ) میرا جس کسی دشمن سے مقابلہ ہوا میں نے حساب برابر کردیا لیکن تم مجھے أشجع الناس کے متعلق بتاؤ کہ وہ کون ہے؟ حاضرین نے کہا : پھر ہم نہیں جانتے، لہٰذا آپ ہی بتائیں کہ وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے بعد آپ نے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی گرفت سے چھڑانے کی پاداش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے المناک انجام اور آپ کے صبر و استقلال کا واقعہ سنایا اور پھر اتنا روئے کہ آپ کی چادر تر ہونے لگی۔ پھر آپ نے کوفی سامعین سے کہا: ”میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مجھے بتاؤ : ” مؤمن ِآلِ فرعون بہتر تھا یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟” حاضرین کوئی جواب نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا: ”تم جواب کیوں نہیں دیتے، اللہ کی قسم! حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی وہ گھڑی جس میں اُنہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارِ قریش سے چھڑانے کی پاداش میں خوفناک مار کھائی تھی آلِ فرعون کے مؤمن سے بہتر ہے،کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپائے پھرتا تھااور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کا اعلان کررہا تھا۔” الکنز: رقم۳۵۶۹۰
خلاصہ: زبان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر اہل بیت اطہار کو سمندر میں کشتی کی مانند قرار دیا گیا کہ اسی پر سوار ہوگے تو بچو گے تو اسی مبارک زبان حق ترجمان سے صحابہ کو ستارے بھی کہا گیا کہ جنہیں دیکھ کر کشتی سمندر میں منزل کا تعین کرتی ہے اور منزل پر پہنچتی ہے۔ اس لیے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام میں سے کسی ایک کو چھوڑ دینا گمراہی کا سبب ہے۔ حق صرف یہی ہے کہ دونوں کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1