فقہاء و صوفیاء اسلاف کی کتب میں تحریف
September 01, 2020
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
……………………………………
پرانے زمانے میں جب ابھی پرنٹنگ پریس کا تصور نہیں تھا کسی کتاب کے دیگر نسخے ہاتھوں سے قلم و دوات کے ساتھ لکھنے پڑتے تھے۔ دولت کی ہوس میں مبتلا یا کسی عالم سے بغض و حسد رکھنے والے لوگ جید علما کی کتب تحریر کرتے لیکن اس کی قیمت بڑھانے کے لئے یا انہیں بدنام کرنے کے لئے اپنی جانب سے چند باتیں خود سے اضافی لکھ دیتے تھے جو صاحب کتاب نے نہیں لکھی ہوتی تھیں۔ لیکن وہ باتیں بڑے اہم معاملات پر ہوتی تھیں۔ چنانچہ دوسرے شہروں میں جاکر وہ شہرہ یہ کرتے کہ فلاں امام نے فلاں بات لکھی ہے۔ لوگ حیران ہوجاتے کہ امام صاحب ایسی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ لوگ کتاب خریدتے۔ اس طرح اس تحریف شدہ کتب کے مزید قلمی نسخے تیار ہوتے۔ تاہم یہ تحریف بس چند اضافی جملوں کی حد تک ہوتی تھی۔ بعد میں جب پرنٹنگ کا زمانہ آیا تو مارکیٹ میں وہی تحریف شدہ نسخے کثرت سے موجود ہونے کی وجہ پرنٹ ہو کر مارکیٹ میں پھیل گئے۔ شیخ ابن عربی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں۔ خلاصہ “” امام شعرانی علیہ الرحمہ کے حاسدین نے ان کی کتب میں کفریہ کلمات کا اضافہ کرکے ان پر افتراء باندھا۔ اس وقت کے علما امام شعرانی کے پاس جمع ہوئے اور اصلی نسخے کے ساتھ چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ کفریہ کلمات امام شعرانی کے اپنے نسخے میں نہیں تھے۔
امام سیوطی کہتے ہیں کہ اصحاب تصوف جو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں وہ فقہاء کرام کی اصطلاحات سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ فقہا کچھ سمجھتے ہیں اوراہل تصوف کچھ اور مراد لیتے ہیں۔ زیادہ تفصیل کے لئے الشيخ الأكبر كے دفاع میں دو کتب: 1۔ الرد المتین علی منتقص العارف محی الدین لسیدی عبد الغنی النابلسی۔ 2۔ تنبيه الغبي بتبرئة ابن العربي للحافظ السيوطي. ملاحظہ کی جئے۔
الدرالمختار مع ردالمحتار، 238,239/4, دارالفکر- بيروت
یہ ہے شیخ ابن عربی پر امام ابن عابدین کا تبصرہ ۔ اہل تصوف اس بارے میں زیادہ مظلوم ہوئے ہیں۔ ان کی کتب میں بعض کلمات جو شریعت کے متباین ہیں یا تو بعض یہودیوں نے وہ کلمات ان کی کتب میں داخل کر دیئے یا پھر جاہل و زندیق صوفیاء نے۔ تاکہ اپنا غلط موقف درست ثابت کیا جاسکے یا مخالفین کو چپ کرایا جاسکے۔ چنانچہ یہی ظلم خواجہ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے ملفوظات کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ کسی نے فوائد الفواد جو کہ آپ کے ملفوظات پر مبنی کتاب ہے، میں “” چشتی رسول اللہ “” والا واقعہ شامل کردیا ۔ حالانکہ ان ملفوظات کے راوی حضرت نصیرالدین چراغ دھلی ہیں جو شرعی امور میں حد درجہ احتیاط کے عادی تھے حتی کہ اس ان معاملات میں کوئ ان کے شیخ کا حوالہ بھی دیتا تو بلاتکلف فرماتے (اس میں ) قول شیخ حجت نہیں ھے قرآن اور حدیث سے دلیل لاؤ اور ان کے شیخ حضرت نظام الدین اولیاء رح ان کی اس بات پر مسرت اور تصدیق بھی فرماتے یہ کیسے ممکن ھے کہ اتنا محتاط انسان اس ملفوظ کے مضمرات کی طرف متوجہ نہ ھو۔ نیز یہ واقعہ تو اس لئے بھی جھوٹا ہے کہ حضرت معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ کی حیات میں “” چشتی سلسلہ کی اصطلاح ابھی معروف ہی نہیں ہوئی تھی” تو آپ کے سامنے کوئی یہ کلمہ کیسے کہہ سکتا ہے ۔ یہ بعد میں کسی بد بخت نے شامل کیا۔ جہاں تک تعلق ھے ملفوظات کی کتابوں کا ان پر تو جامعات کی سطع پر تحقیقات ھو چکی ھیں ۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ڈاکٹر حبیب احمد ڈاکٹر خلیق نظامی پروفیسر محمد اسلم اور دیگر کئ ایک محقق ” فواد الفواد” کے علاوہ باقی سب ملفوظات کو جعلی سمجھتے ھیں۔ اس پر مزید تحقیق کے لئے یہ لنک ملاحظہ کریں۔
خلاصہ یہ کہ جن فقہا نے شیخ اکبر کے خلاف فتوے دئے ان کی بنا فقہی اصطلاحی معانی مراد تھے جو کہ شیخ اکبر کی مراد نہ تھے جیسے امام سیوطی نے لکھا ہے۔ دوسرا کام ان بدباطنوں کا ہے جنہوں نے حسد یا دولت کی لالچ میں کفریہ کلمات کا اضافہ کیا ہے۔ آپ خود سوچیں جو بات ہم جیسے نالائقوں کو ہضم نہیں ہوتی وہ بات اتنا بڑا صاحب نظر عالم کیسے کہہ سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہم پر رحم فرمائے۔شیخ اکبر علیہ الرحمہ کو سمجھنے کے لئے ضروری کہ محقق پہلے شیخ اکبر کے خاص پیراڈائیم کو سمجھے۔ ورنہ وہ ان سے متعلق غلط نتائج پر پہنچے گا۔ ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب نے نہایت عمدہ انداز میں شیخ اکبر کے تناظر پر بحث کی ہے۔ اس مضمون کے لئے یہاں کلک کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1