عالمی استعمار، عالم اسلام اور فری ٹریڈ
Global colonialism, the Islamic world and Free Trade
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
…………………………………….
سرمایہ داریت اور مغرب کے بڑھتے اثرو رسوخ کے تناظر میں یہ تحریر درحقیقت کچھ مقالات سے ماخوذ ہے۔ اس حوالے سے ’’ تھامس رائٹ کا آرٹیکل : دی نیو ورلڈ ڈوائیڈ‘‘ بھی اہم ہے۔
گلوبلائزیشن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا کو تین طبقات میں تقسیم کیا جائے۔
۔1۔ اے کلاس جس میں امریکہ اور یورپی اقوام ہوں۔ جن کے ہاتھ میں تمام دنیا کی طاقت ہو۔
۔2۔ بی کلاس جس میں چین اور روس اور اے کلاس کے ہمنوا غیر مسلم ممالک
۔3۔ سی کلاس میں عالم اسلام رہے۔
سی کلاس لیبر کلاس ہو جو اپنے اخراجات پر مختلف فنون پر اعلی افراد تیار کرے جن میں سے کچھ بعد میں اپنا ملک چھوڑ کر اے کلاس اور بی کلاس خدمات دینے پہنچ جائے۔ اور سی کلاس پھر سے افراد سازی میں لگ جائے۔ اور جو افراد تیار ہو کر اپنے ملک میں ہی رہیں ان سے کام لینے کے لیے انڈسٹری وہیں منتقل کرلیں۔ ان کی سستی لیبر انہی کا خام مال اونے پونے لے کر ویلیو ایڈ کریں اور کئی گنا دام کے ساتھ انہی کو فروخت کرکے سرمایہ اے کلاس و بی کلاس کو پہنچائیں۔
بی کلاس ممالک درمیانے درجے کی انڈسٹری لگائے گی اور سی کلاس سے خام مال اور سستی لیبر لے گی۔
اےکلاس اعلی درجے کی انڈسٹری پر قابض رہے گی اور بی کلاس اور سی کلاس اے کلاس کے مرہون منت ہونگیں۔ (اس ساری گیم کو فری ٹریڈ کے لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔ فری ٹریڈ میں ہمیشہ معاشی طاقتوروں کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ کمزور معیشت والے صرف اس پر ہی خوش ہوتے ہیں کہ چیز تو انہوں نے بنائی تھی)۔
فی زمانہ بی کلاس ابھی تک اے کلاس سے بظاہر برسرپیکار ہے۔ تاہم امریکہ کی مسلسل کوشش انہیں رام کرنے میں ہے۔ لیکن عالم اسلام کے بارے میں گلوبلائزیشن کا ایجنڈا کسی حد تک کامیاب ہوچکا ہے۔
باہر سے سرمایہ آرہا ہے ‘‘ درحقیقت ایک بھیانک ایجنڈے کی تکمیل کا دلربا سلوگن ہے۔ اور ہماری عوام سے لے کر حکمران اسے اپنی ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں ۔ باہر سے سرمایہ تمہارے پاس ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آرہا بلکہ تمہارے خام مال اور وسائل کو استعمال کرکے پیداوار کریں گے پھر تمہیں ہی مہنگے داموں فروخت کرکے اپنا سرمایہ کئی گنا بڑھا کر واپس لے جائیں گے ۔ سرمایہ سرمائے کو کھینچتا ہے کی کہاوت تو سنی ہوگی آپ نے۔ ہمارے حکمران ہمیں بیماری کے اسباب کو علاج کے نسخے پر دوائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور ہم بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ہماری اشرافیہ بیماری کے اسباب کو علاج کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور ہم بغلیں بجانے لگتے ہیں۔
گویا فری ٹریڈ کا مطلب ہے ’’ طاقتور ملک کمزور ملک کے وسائل کیسے لوٹے اور اسے اپنا دست نگر بنائے کی پلاننگ کرنا‘‘۔
حضرت اقبال علیہ الرحمہ نے تصویر درد میں کہا تھا۔ آخری شعر میں تبدیلی پر معذرت کے ساتھ۔
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک؟ لذّتِ فریاد پیدا کر
زمیں پر تُو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے اسلام والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
اس سب کے باوجود جو امید کی شمع ہے وہ اس امت کے افراد کی گنبد خضراء سے وابستگی ہے۔ یہی شرر ان شاء اللہ آگ بھڑکائے گا۔ اور مسلمان کو مسلمان کرے گا۔ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں اس لیے ناامید نہیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1