کیا جنگ ایسے لڑی جاتی ہے ؟  

محمد ابوبکر صدیق

Dec.21, 2020

…………………………………….

بندہ مومن کے لئے سودی نظام معیشت کی حمایت یا اس سے کسی طرح کی مفاہمت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی جنگ میں جھونک رہا ہے جس کا یقینی نتیجہ اس کی دنیا و آخرت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ 60 کی دھائی میں مخلصین امت علمائے کرام نے اسلامی بینکاری کا تصور دیا تھا تاکہ امت ایسی جنگ میں یقینی تباہی سے بچ جائے۔ ان کا مقصود یہی تھا کہ بتدریج یہ نظام روایتی سودی نظام کو کمزور کردے گا اور معاشرے میں اس کے خلاف اپنے قدم مضبوط کرے گا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مخلصین کی کاوشیں رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ جس نظام نے سودی نظام کے خلاف کردار ادا کرنا تھا۔ وہ خود اسی سودی نظام کی اترن پہننے کے در پے ہے۔ “سود کی برداشتی حدیں ” مقرر کرتے ہوئے کہیں 5 فیصد تو کہیں 20 فیصد تو کسی سطح پر 37 فیصد تک سود قابل برداشت قرار دے کر کمپنیوں کو شرعی جواز کی سند دے دی گئی  کہ بتدریج اس نظام کو ختم کیا جائے گا۔ لیکن دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ برداشتی حدیں “زمین جنبد، نہ جنبد گل محمد” کے مصداق وہیں پر موجو د ہیں۔ کیا سودی نظام کے خلاف جنگ ایسے لڑی جائے گی ؟ اس کا گلا بھی دبائیں گے ساتھ ساتھ آکسیجن کی فراہمی بھی کریں گے۔حد تو یہ ہے کہ ضرورت و حاجت کے شرعی اصولوں کے نام پر اسلامی بینکاری کی نہر وں سے اب سودی نظام کی زمین کو سیراب کیا جارہا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تو ان بینکوں کے ساتھ شرعی پروڈکٹس اور موڈز میں معاملات کرتے ہیں۔ حیلے بھی ایسے اپنا رکھے کہ اللہ کی پناہ ۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :۔

عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم أنَّه قال:يأتي على الناسِ زمانٌ يستحلُّونَ الرِّبَا بالبيعِ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں لوگ بیع کے نام پر ربا کو حلال کریں گے۔

کموڈٹی مرابحہ کے نام پر جو ہوا کیا وہ کسی سے مخفی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی خود فریبی ہوسکتی ہے بھلا کہ شراب کشید کرنے والی کمپنی کو آپ بیع موجل کے شرعی قواعد پر انگور کی سپلائی کا معاہدہ کریں اور خود کو تسلی یہ دیں کہ ہم تو شرعی قوانین پر عمل کر رہے ہیں!یا للعجب

سود پر جنم لینے والی موجودہ بحث میں کسی فورم پر ایک درد دل رکھنے والے انتہائی محترم صاحب کے یہ الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں :”سود کے خلاف جنگ کے بہت سے تقاضے ہیں۔ ایک اہم تقاضا میری نگاہ میں یہ ہے ہم سودی نظام کے ساتھ ہر طرح کی مفاہمت و مصالحت ختم کردیں ۔یہ نہیں ہوسکتاکہ دشمن کے خلاف ہم معرکہ آراء ہوں اور اسے راشن اور غذا کی سپلائی بھی جاری رکھیں۔یہ کس طرح کی جنگ ہے کہ اسلامی بنک سودی بنکوں کی ” کیش کی ضروریات ” پورا کرنے کے لئے انہیں اربوں روپے فراہم کر رہے ہیں۔ کیا اس طرح وہ سودی نظام کو تقویت دینے کا باعث نہیں بن رہے؟ کیا 37 فیصد تک سودی قرضے لینے والی کمپنیوں کو شرعی جواز کا سڑٹیفیکیٹ تھماتے ہوئے ان میں سرمایہ کاری کرنا سودی نظام کے ساتھ مفاہمت نہیں ہے؟ اگر آپ واقعی جنگ کر رہے ہیں تو آپ کے عمل سے یہ مترشح ہونا چاھئے کہ آپ نورا کشتی نہیں بلکہ ایک حقیقی جنگ میں مصروف ہیں“۔

اسلامی بینکاری کے موجودہ پیش رو احباب کیسے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ سودی نظام کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ ہیں جب کہ انہوں نے اسی سودی نظام کی سانسیں بحال رکھنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں آکسیجن سپلائی کے سلنڈر بھی اٹھا رکھے ہیں ۔ اگر آپ واقعی اس دعوے میں سچے ہیں تو پھر آپ کا عمل بھی اس پر شاہد ہونا چاھئے ۔ کئی دہائیوں کے بعد بھی اسلامی بینکاری کا نظام معاشرے میں اپنے لئے وہ اعتماد حاصل نہیں کرسکا جس کی توقع تھی اور اس کی بنیادی اور بڑی وجہ سودی نظام کے ساتھ اس کی مفاہمتی پالیسی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اس مفاہمت کو ختم کیا جائے اور “سود کی برداشتی حد ” قران و سنت کے مطابق صفر پر لائی جائے۔ ورنہ خاکم بدہن موجودہ دورُخی پالیسی خود اسلامی بنکاری کے لئے ہی مہلک ثابت ہوگی اور سودی نظام کے خاتمے کا خواب پھر خواب ہی رہے گا۔

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

(Deposits of Islamic Bank) اسلامی بینک میں جمع شُدہ رقوم

محمد ابوبکر صدیق

January 22, 2017

…………………………………….

اسلامی بینکوں میں عام طور پرچار طرح کے اکا ؤنٹس میں رقم جمع کرائی جاتی ہے۔ لیکن مختلف بینکوں نے خود کو دوسرے بینکوں سے ممتاز اور صارف کو متوجّہ کرنے کیلئے الگ الگ قسم کے اکاؤنٹس قائم کر رکھے ہیں۔ لیکن یہاں ہم چار بنیادی اکاؤنٹس کو بیان کریں گے ۔

کرنٹ اکاؤنٹ

روایتی بینک کی طرح اسلامی بینک میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم ایک قرض ہوتی ہے یعنی کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر اور اسلامی بینک کے مابین قرض خواہ اور مقروض کا تعلُّق ہوتا ہے نیزاکاؤنٹ ہولڈر کواپنی رقم کے قرض ہونے کی وجہ سے اُس پر کسی قسم کے نقصان کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پڑتا۔اسلامی بینک یہ رقم عندالطلب ادا کر تا ہے کیونکہ قرض کی رقم کسی بھی وقت طلب کی جاسکتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ کرنٹ اکاؤنٹ کی بنیاد امانت بتاتے ہیں جو کسی بھی طور درست نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ امانت کی رقم پر گارنٹی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بینکوں میں اپنی رقم جمع نہیں کراتے ۔ نیزاگر کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم کو ” امانت ” مان بھی لیا جائے تو پھر یہ معاملہ فقہا کے نزدیک شرکتِ ملک میں بدل جاتا ہے، کیونکہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم کو اپنی دیگر رقوم کے ساتھ ملا دیتا ۔ اس بارے میں علّامہ ابن عابدین شامی کتاب الشرکۃ میں ؒ فرماتے ہیں کہ اگردو لوگوں کے مال کا اختلاط کسی بھی سبب سے ہو تو وہ مخلوط مال دونوں صاحبوں کے مابین مشترک ہو جاتا ہے جو کہ شرکتِ ملک کے تحت آتا ہے۔ اور یہ فقہ اسلامی کا ایک مسلمہ اصول ہے ان الشریک امین فی المال ایک شریک کا مال دوسرے شریک کے پاس امانت کے طور پر ہوتا ہے اگر وہ مال بلا تعدی ضائع ہو جائے تو دوسرے شریک پر اُس کی ادائیگی لازم نہیں آتی ۔

لہذا اسلامی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقوم امانت نہیں ہیں بلکہ قرض ہیں ۔صرف اِیک ہی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنی رقوم پر گارنٹی مل سکتی ہے اور وہ قرض کی صورت ہے۔ ۱س لئے اسلامی بینک اس اکاؤنٹ کی رقم پر کوئی نفع نہیں دیتا کیونکہ اسلام میں قرض پر نفع کمانا سود ہے ۔ لیکن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ انشورنس (۲۰۰۰) کے مطابق کچھ مالیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر منافع دینے کی پالیسی کوکچھ شرائط کے ساتھ اسلامی بینکوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ۔ جیسا کہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کو کوئی بھی اضافی رقم بطور تحفہ دیں بایں طورکہ یہ اکاؤنٹ ہولڈر کا کوئی استحقاق نہیں ہو گانیز اسلامی بینک یہ ادائیگی باقاعدگی سے نہیں کرے گا۔ تاکہ وقت گزرنے کسے ساتھ یہ ایک روایت بن کر سود کی شکل اختیار نہ کر جائے ۔  لیکن راقم کی نظر میں کرنٹ اکاؤنٹ میں تحفۃََ رقم کی یہ رائے درست نہیں کیونکہ شرع میں جس طرح کچھ چیزیں سدِّذرائع کے طور پر منع کر دی جاتی ہیں بعینہ یہ معاملہ بھی ممنوع ہونا چاہیے۔ تاکہ سُود کی طرف جانے کا کوئی سبب بھی باقی  نہ رہے۔

بچت اکاؤنٹ اور سرمایہ کاری اکاؤنٹ

ان تینوں ڈیپازٹس میں رقوم مضاربہ کی بنیا د پررکھی جاتی ہیں یعنی اکاؤنٹ ہولڈر رب المال جبکہ اسلامی بینک مُضارب ہوتا ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈر اور اسلامی بینک کے مابین مضاربہ کا یہ عقد مضاربہ مطلقہ ہوتا ہے جس میں اکاؤنٹ ہولڈر اسلامی بینک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اسلامی بینک اِس رقم کوکسی ایسے کاروبار میں لگا سکتا ہے جو حلال ہو یا کسی ایسی کاروباری کمپنی کے ساتھ مشارکت یا مُضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری میں شامل کر سکتا ہے، جس کا کاروبار جائز ہو ۔ ان تینوں اکاؤنٹس میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اصل سرمائے پر نقصان کا امکانی خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔نقصان ہو نے کی صورت میں صارف رب المال ہونے کی حیثیت سے نقصان کی ذمہ داری لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بینکوں کو تو نقصان ہی نہیں ہوتا تو پھر صارف کو نقصان کیسے ہوگا؟۔ اس کا جو اب یہ ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے جس کے تحت یہ کہا جائے کہ مضاربہ اُس وقت تک جائز نہیں ہو گا جب تک کہ اُس میں نقصان نہ ہو۔ شریعت مطہرہ صرف اس بات کی شرط عائد کرتی ہے کہ رب المال کے لئے نقصان کا صرف خطرہ مول لینا ضروری ہے۔ اب یہ قسمت یابہترین کاروباری فیصلے پر منحصر ہے کہ نقصان ہو یا نہ ہو۔

اسلامی بینک اس مالِ مضاربت میں اکاؤنٹ ہولڈرز کی اجازت سے اپنی رقم بھی ملا لیتا ہے اور کاروبار میں لگادیتا ہے۔ اِس صورت میں نفع و نقصان کی تقسیم شرکت ومضاربت کے شرعی اصولوں پرہوتی ہے ۔ یہ شرکت و مضاربت کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک مضارب مالِ مضاربت میں اپنا سرمایہ بھی شامل کر دیتا ہے اور فقہاء کے نزدیک یہ جائز ہے۔ حضرت امام سرخسیؒ فرماتے ہیں   لو خلط اٗلف المضاربۃ باٗلف من مالہ قبل الشراء جاز اگر مضارب ، مضاربت کے ایک ہزار روپے کے ساتھ اپنے مال سے ایک ہزار روپے( مضاربت کے سامان کی) خریداری سے پہلے ملا دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔

(Karachi Meezan Index) کراچی میزان انڈیکس

 کسی کمپنی میں اسلامی بینک کی سرمایہ کاری سے متعلق سوال یہ ہے کہ یہ پتہ کیسے چلے گا کہ کس کمپنی کا کاروبار جائز اور حلال ہے ؟ اسلامی بینک کِس کمپنی کے سٹاک میں پیسہ لگائے گی ؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ کراچی اسٹاک مارکیٹ اور میزان اسلامک بینک نے۲۰۰۹ ء میں کراچی میزان انڈیکس کے نام سے ایک مشترکہ انڈیکس متعارف کرایا ہے جسے دونوں اداروں کے جدید مالیاتی امور کے ماہرین اور شرعی ایڈوائزر (مفتیانِ عظام) کی نگرانی میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس میں مختلف کمپنیوں کے کاروبار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جس کمپنی کا کاروبار مکمّل طور پرجائز ہو یا کاروبار کا زیادہ حصہ جائز ہو توای سیتیس (۳۰) کمپنیوں کو انڈیکس میں ترتیب سے شامل کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں۔ (KMI-30) اس لئے اسے

جو افراد یا ادارے صرف اُن کمپنیوں کے سٹاک؍شیئر خریدنا چاہتے ہوں جن کے کاروبار شرعاً جائز ہوں تو وہ اس انڈیکس میں شامل کمپنیوں کے سٹاک ؍شیئر خریدتے ہیں۔ یہ انڈیکس ہر چھ ماہ بعد ’اپ ڈیٹ‘ کیا جاتا ہے۔اگر اسلامی بینک نے سٹاک ما رکیٹ میں پیسہ لگانا ہو تو اُسے انڈیکس کی کمپنیوں میں ہی انوسٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 

 

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

اسلامی بینکاری :  چندگزارشات 

محمد ابوبکر صدیق

April 4, 2020

…………………………………….

تاریخ گواہ ہے کہ ابوجہل کے گھر سے اسلام کا عظیم علم بردار نکلا ،اور ہلاکو خان کی پشت سے فاتح اسلام کا تولد ہوا ۔ قدرت کے کام نرالے ہی ہوتے ہیں ۔حضرت اقبال ؒ نے اسی طرف اشارہ کیا تھا “پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے”۔سودی نظام معیشت کی گود سے اسلامی بینکاری نظام کا ظہور بھی کچھ ایسے ہی ہے ۔ تاہم اس نظام کو اپنی آبیاری کے لیے قحط الرجال کا سامنا ہے ۔ جب تک ایسے افراد پیدا نہیں ہوتے جو شرعی علوم کے ساتھ ساتھ جدید معاشی و مالیاتی اعلی ٰ تعلیم ہوں ، اس نظام میں کمیاں رہیں گیں تاہم اس میں جمود طاری نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری پر جہاں تخریبی تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں وہیں ، تعمیری تنقید کے ذریعے اس نظام کی خامیوں کو بتدریج دور کر نے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ کام چشم زدن میں ہونے کا نہیں ۔ سودی نظام معیشت کو اپنے پنجے گاڑنے میں جہاں تین سے زائد صدیاں لگ گئیں ، وہاں اس کے متبادل نظام کو اپنی جگہ بنانے کے لیے بھی تو وقت درکار ہوگا ۔

آج دنیا کا شاید ہی کوئی تعلیمی ادارہ ہو جہاں سودی نطام معیشت کی افراد سازی نہ ہورہی ہو اور افراد سازی کا یہ کام صدیوں سے جاری ہے لیکن اسلامی بینکاری نظام کو اپنی پیدائش کے دن سے تاحال مخالفت کا سامنا ہے ۔ کچھ احباب کو یہ تو گوارہ ہے کہ سودی نظام چلتا ہے تو چلتا رہے ، اسلامی بینکاری نظام کسی طرح ختم ہوجائے اور بس۔ ان کے قلم کبھی سودی نظام معیشت کے خلاف نہیں اٹھے لیکن اسلامی بینکاری نظام کا گریبان چاک کرنے میں انہوں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ پس پردہ سازش کیا ہے اللہ ہی معلوم ۔سودی بینکوں نے بھی اس بارے کافی پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے اور بہا رہے ہیں کہ کسی طرح یہ معلومات عام کردی جائیں کہ اسلامی بینکاری در حقیقت سودی بینکاری ہی ہے ، تاکہ لوگ سودی بینکوں سے اپنا پیسہ نکلوانا شروع نہ کردیں ۔ اس کے لیے ٹی وی شوز پر پروگرام بھی کیے گئے اور عوام میں غلط معلومات پھیلائی گئیں ۔

کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ اسپیشلائزیشن کے زمانے میں جہاں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود ایک فزیشن سرجری کے لیے مریض کو کسی سرجن کے پاس بھیجتا ہے خود اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا ۔ فزکس کے ٹیچر بائیولوجی ، اور بائیولوجی کے ٹیچر ریاضی کے میدان میں گھوڑے نہیں دوڑاتے ۔ وہاں ایک عام آدمی جس کا نہ تو شریعت سے لینا دینا اور نہ ہی جدید معاشی اعلی تعلیم سے کوئی تعلق ، وہ اسلامی بینکاری پر اپنا فتوی دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ اسلامی نہیں ہے ۔

ایک بات سمجھنا ہوگی کہ فی زمانہ اسلامی بینکاری دو ذہنوں کی تخلیق ہے ، ایک شرعی علوم سے بہرہ ور ذہن اور دوسرا جدید معاشی ومالیاتی علوم سے بہرہ ور۔ تب جا کر اسلامی بینکاری نظام وجود میں آیا ۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نکال دیں تو یہ نظام نہیں چل سکے گا ۔ تاہم جب ایک ہی ذہن میں یہ دونوں علوم جاگزیں ہوں گے اس نظام میں بہتری تب آئے گی۔ افراد سازی کا یہ کام وقت ضرور لے گا لیکن نا امید نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کی کوکھ بانجھ نہیں ہے۔ اب یہ شمع جلی ہے تو اجالا توہوگا اور چار دانگ عالم میں اس کی مقبولیت ازخود مخالفین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔باقی رہی نظام میں کمزوریوں کی بات تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوں گیں ۔ کیونکہ سودی نظام آج جتنا مضبوط ہے یہ پہلے دن سے نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ آج اس مقام تک پہنچا ہے ۔ جب اس نظام کو وقت دیا جا سکتا ہے تو اسلامی بینکاری کو کیوں نہیں ؟

کہا جاتا ہے اسلام مکمل ہوچکا اب کس بات کو وقت چاہیے تو اس پر عرض ہے جناب !۔

اسلام تو مکمل ہوچکااس میں تو کوئی شک نہیں ، مگر افسوس وقت گزرنےکے ساتھ مسلمان نامکمل ہوتا گیا ۔ وقت کے دھارے گزرتے رہے مگر مسلمان آغوش غفلت میں سو گئے اسلاف کی علمی میراث تک کو بھلا دیا ۔ علم کے مراکزکوفہ ، بصرہ،سمرقند، بخارا، کابل، بغداد وغیرھم سے مغرب اور یورپ کی جانب ٹرانسفر ہوتے رہے اور انہیں اس بات کا احساس تک نہ ہوا ، ایجادات پر جہاں اُ ن کے اسلاف کی چھاپ تھی وہاں مسلمان اس سے کوسوں دور ہوتے چلے گئے کہ دنیا انہیں سوئی بھی درآمد کرنے کے طعنے دینے لگی۔ فرقہ وارانہ غیر اہم مباحث میں کتابیں کالی کردیں لیکن اپنی نئی نسل کو سوائے باہمی نفرت و عناد کے کچھ نہ دے سکے ۔ یہ ہے وہ تصویر جو چینخ چینخ کر بول رہی ہے کہ تم دنیا سے کتنا پیچھے رہ گئے ۔ اسلام تو مکمل ہے لیکن مسلماں ابھی نامکمل ہے۔

اس لیے علمی اعتبار سے مغرب کی دنیا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں افراد بھی چاہییں اور وقت بھی ۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کا کردار بھی اہم ہے ۔ اس وقت صرف گنتی کے چند ادارے ہیں جو اسلامی بینکاری میں ڈگری لیول کی تعلیم دے رہے ہیں جن میں سرفہرست بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ہے ۔اس عظیم یونیورسٹی کے ادارے ’انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس ‘ نے اسلامی معاشیات اور اسلامی بنکاری میں جو خدمات سرانجام دی ہیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں ۔ اسی ادارے کے فارغ التحصیل اسکالرز اس وقت ملکی و غیر ملکی جامعات میں تدریس و تحقیق کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ ادارہ بی ایس سے لے اکر پی ایچ ڈی اسلامک بنکاری کی ڈگری لیول کی تعلیم دے رہا ہے۔ پاکستان کی پی ایچ ڈی اسلامک بینکنگ کی باقاعدہ پہلی ڈگری اسی جامعہ نے دی ہے۔

اس کے علاوہ منہاج یونیورسٹی لاہور بھی اہم ہے کیونکہ ان کے پاس بھی شرعی نظام تعلیم کے قابل علما موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اکنامکس اور فنانس کے شعبے بھی ہیں ۔ڈاکٹر حسین محی الدین کی سرپرستی میں یہ ادارہ بھی اسلامی معاشیات اور اسلامی بنکاری کے حوالے کافی تحقیقی کام کر رہا ہے۔ یونیورسٹی آف مینیجمنٹ ایند ٹیکنالوجی لاہور ، انسٹی ٹیوٹ آف مینیجمنٹ سائنسز پشاور میں بھی اب اسلامی بینکنگ کی تعلیم دی جانے لگی ہے ۔ اگرچہ یہ ادارے ابھی نئے ہیں لیکن ابتدا تو ہوئی ۔ تاہم ان سب اداروں میں صرف بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا شعبہ اکنامکس ہی سرفہرست کہ کیونکہ اسلامک اکنامکس اینڈ فنانس کے میدان میں اس کے افراد پوری دنیا کے نامور اداروں تک پہنچے ہیں اور خدمات سرانجام دی ہیں ۔

اسلامی بینکاری کی ایم ایس اور پی ایچ ڈی ڈگری کی تعلیم اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے علاوہ دیگر جامعات بھی اب اپنے ہاں یہ اسلامی بینکاری کا شعبہ بنا رہی ہیں اور انہیں اس کے لیے اساتذہ ضرورت ہوں گے جن کے 18 سالہ متعلقہ تعلیم لازمی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ شعبہ نوکری کے مواقع میں بھی اہم ہے۔ اسلامی بینکاری ترویج کے لیے لازمی ہے کہ اسلامی بینک ان طلبا کو ترجیح دیں جو اسلامی بینک کی ڈگری کے حامل ہوں تاکہ ان کے معاملات میں بہتری آئے ۔ اسلامی بینکاری نظام پر گفتگو یا لکھتے وقت اس پہلو کو سامنے رکھا جا ئے تو امید ہے نتیجہ بہتر ہوگا۔

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

اسلامی بینکاری اورجناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی آراء

محمد ابوبکر صدیق

January 22, 2017

…………………………………….

پس منظر

فقہ، اصول فقہ اور اسلامی قانون میں محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی قابلیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔اسلامی بینکاری کے حوالے سے اُن کا ایک خاص نقطہ نظر ہے ۔ لیکن اِس وقت یہاں اسلامی بینکاری سے متعلق اُ ن کی درج ذیل ایک مختصر تحریرزیر بحث ہے۔

The Islamic Banking Industry and its Dubious Claims

اس تحریر میں انہوں نے اسلامی بینکاری سے متعلق ایک نجی ٹی وی کے اشتہار کو موضوع بنایا ہے جس میں ایک جید اور نامور عالمِ دین قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب اسلامی بینکاری کا اسلامی ہونا بیان کرتے ہیں۔محترم نیازی صاحب نے مفتی صاحب کے بیان پرمختلف پہلووں سے تنقید کی۔ شخصیات کا احترام اپنی جگہ لیکن علمی اختلاف کی گنجائش بہر طور رہتی ہے۔راقم خود محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی شان کا معترف ہے اور اصول فقہ کی تدریس میں ان کی کتب سے اکتساب ِ فیض بھی کیا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ تاہم راقم اسلامی بینکاری سے متعلق قبلہ نیازی صاحب کی آراء سے جزوی اختلاف بھی رکھتا ہے ۔اس تحریر کا بنیادی مقصد محترم نیازی صاحب کی مذکورہ بالا مختصر تحریر کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔ تاکہ اسلامی بینکاری کے مبتدی کے سامنے وہ پہلو بھی سامنے رہیں جو عموما پس پردہ رہتے ہیں۔

محترم نیازی صاحب کی تحریر بنیادی طور پر انگلش زبان میں ہے۔ قاری کی تسہیل کے لیے راقم یہاں ان کا موقف اردو زبان میں پیش کرے گا ۔ ترجمے میں خاص خیال رکھا گیا ہے کہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کا موقف درست طور پر پیش ہوجائے۔ تاہم اگرمجھ سے اُن کے موقف کے ترجمے میں کچھ غلطی سرزد ہوجائے تو اسے راقم کی غیر منوی لغزش سمجھا جائے۔ارباب علم اگر نشاندہی کریں تو راقم اُن کا مشکور ہوگا ۔

۔۱۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

سودی بینکوں کے لیے ایک قانون ہے جو عامۃ الناس کی دسترس میں ہے ۔لیکن اسلامی بینکاری کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اور جو ہے وہ عامۃ الناس کی دسترس میں نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلامی بینکاری کی پروڈکٹس سے متعلق معلومات عوام کی دسترس میں ہیں کہ وہ معاملات کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فیصلہ کرسکیں ۔ (پیراگراف نمبر3)۔

تجزیہ

سودی نظام بینکاری کا قانون بنے اور دنیا میں عام ہوئے صدیاں لگی ہے ۔ اس میدان میں لوگوں نے تعلیم بھی حاصل کی ہے ۔ اس نظام کی ترویج میں ریاستی وسائل بھی استعمال ہوئے ۔ اس لیے سودی نظام بینکاری کے متعلق ڈیٹا کی پہنچ بہت آسان ہوچکی ہے ۔ کیا سودی نظام بینکاری کے ڈیٹا تک یہ آسان رسائی اول دن سے ہے ؟ تو جواب نہیں میں ہے ۔ یہ نظام چار صدیوں سے جاری ہے ۔ جبکہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے متعارف ہونے سے پہلے عوام تو کیا خواص کو بھی اس کے ڈیٹا اور معلومات تک رسائی نہیں ہوتی تھی۔تو گزارش ہے کہ سودی نظام جہاں آج پہنچا ہے اس کے پیچھے مختلف میدانوں میں انسانی کاوشوں کاایک انسائیکلوپیڈیا موجود ہے۔نیز اس نظام سے متعلق قانون وضع کرنے سے لیکر اشاعت تک معاملات اس لیے بھی آسان تھے اس نظام کے مقابلے میں کوئی نظام نہیں تھا۔ اگر یہ نظام پہلے سے موجود کسی نظام کے متبادل کے طور پر متعارف ہوا ہوتا تو صورت حال موجودہ تناظر سے قدرے مختلف ہوتی ۔ اسی طرح یہ ایک ایسا نظام تھا جس کے نفاذ کے لیے مذہب سے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی ۔اور نہ ہی اس کے قوانین وضع کرنے میں کسی مذہبی جواز کی جھنجٹ میں پڑنا گوارا کیا گیا۔

اس کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کو متعارف ہوئے چالیس سال گزرے ہیں۔ اس میں بھی پہلے بیس سال صرف بنیادی تصور پیش کرنے اور پائلٹ پروجیکٹس کے ہیں ۔ اس کے بعد اس نظام مقبولیت حاصل ہوئی ۔ گویا پوری دنیا میں موجودی اسلامی بینکاری کی عملی عمر صرف 20 سال ہے ۔جس میں اس کا عملی بچپن 10 سال کا ہے ۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز ۲۰۰۴ سے ہوا ۔اس نظام کے وضع ہونے اور عملاًمیدان میں آنے کے بعد دو طرح کے سوال پیدا ہونا شروع ہوئے جن کا تعلق مذہب اور قانون سے تھا۔ کیونکہ سودی نظام بینکاری کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کواپنے جواز کے لیے مذہب سے مہر ِتصدیق ثبت کرانا بھی ایک لازمی امر تھا۔

دوسری طرف مذہبی حلقوں میں ایک مسئلہ جدید اقتصادی علوم سے دوری اور نا آشنائی تھا ۔جس کی بدولت بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مذہبی شخصیات کو پہلے صورت مسئلہ سمجھائی جائے پھر ان سے رائے لی جائے ۔تواسلامی بینکاری کے ابتدائی ایام میں ڈاکٹر منذر کہف، شیخ مصطفی زرقا ؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، شیخ یوسف قرضاوی، علمائے الازہر شریف ، وغیر ھم جیسے فقہا نے جدید علوم کے ماہرین کی مدد سے سودی نظام کو سمجھا اور اسلامی بینکاری نظام کی مبادیات کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضع کیا ۔ ۱۹۶۰ کی دہائی سے لے کر ۱۹۸۰ تک کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں تھا جو اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون وضع کرتا کیونکہ یہ ایسا نظام تھا جس کے لیے مذہب اور جدید اقتصاد کے حامل افراد مل کر ہی قانون بنا سکتے تھے ۔ اکیلے طور پر یہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے ان بیس سالوں میں فرد کی سطح پر کچھ اصول وضع کیے گئے لیکن اسلامی بینکاری کو انہی عمومی طور پر انہی قوانین پر چلا یا گیا جن پر سودی نظام چلایا جارہا تھا۔

۱۹۸۱ میں فقہائے امت نے جدید مسائل میں امت کی رہنمائی کے لیے مجمع الفقہ الاسلامی کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی کام جدید سائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کرنا تھا۔اس ادارے نے اسلامی بینکاری نظام کے لیے اپنی قراردادوں کی صورت شرع کی روشنی میں اصول وضع کیے جسے انفرادی اور اختیاری طور پر مختلف ممالک نے اپنے ہاں نافذ کرنا شروع کیا۔

اس کے بعد پھر ۱۹۹۰ کو اسلامی سلطنت بحرین میں هيئة المحاسبة و المراجعة للمؤسسات المالية الاسلامية کی بنیاد رکھی گئی۔ انگلش میں اسے

Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions“- AAOIFI

جسے مختصراً ’’ ایوفی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔اس ادارے میں مذاہبِ اربعہ (حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی) کے۲۰۰ علماء ا ور سکالر ز ممبر ہیں جو جدیدتعلیم اور تحقیق کے جدید طرق سے بہرہ و ر ہیں۔ اس ادارے کے اجلاس سہ ماہی ، شش ماہی اور سالانہ بنیا دوں پرمنعقد ہوتے ہیں، جن میں عصرِحاضر کے جدید معاشی و حسابی مسائل کے اسلامی حل کے لئے غور و فکر کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ہر دو سطح پر اسلامی بینکوں اور دیگر اسلامی مالیاتی اداروں کے لیے قانون وضع کرتا ہے ۔ پروڈکٹس اور سروسز سے متعلق شریعہ اسٹینڈرڈ کے نام سے قانون شائع کرتا ہے ۔ حساب و کتاب یعنی اکاونتنگ ، آڈٹنگ اور گورننس کے لیے بھی اسٹینڈرڈ وضع کرتا ہے۔اس ادارے کے وضع کردہ قوانین اسلامی بینکوں میں گزرتے وقت کے ساتھ نافذ کیے جارہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے اور اس کے تحقیقی کام میں بہتری بھی آرہی ہے۔

یہ قوانین ایسے ہیں جن تک دسترس اب مشکل نہیں رہی ۔ لیکن اگر عوام و خواص بھی ان قوانین تک پہنچ جائیں تو یہ قوانین ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ انہیں سمجھنے کے لیے جہاں شرعی تعلیم لازمی ہے وہاں جدید اقتصادی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ قوانین نئے ہیں اس کی تعلیم ابھی یونیورسٹیوں میں دی جارہی ہے ۔ ان کے عام فہم ہونے میں کافی وقت درکار ہے ۔ نیز یہ عام آدمی کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ اس نظام کے جواز اور عدم جواز پر اپنی رائے دے سکے ۔ عوام پر اہل علم کی اقتدا لازمی ہوتی ہے ۔


اسلامی بینکاری ایک متبادل نظام کے طور پر متعارف ہوئی ہے جسے صرف ایک میدان میں نہیں بلکہ پروڈکٹس، سروسز،اسلامی بینکنگ کی تعلیم سے آشنا افرادی قوت ،تعلیمی اداروں میں اس کی تعلیم و تحقیق جیسے سارے میدانوں میں ایک ایسے مقابل نظام کا سامنا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ مقابلہ آسان نہیں ہے۔ جہاں ان میدانوں میں محنت درکار ہے وہیں وقت بھی درکار ہے ۔


اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب کی جانب سے یہ اعتراض شاید اسلامی بینکاری سے متعلق سارے مندرجہ بالا لوازمات اور حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون بھی ہے اور دسترس میں بھی ہے ۔ البتہ عام فہم نہیں اور اس کی بنیادی وجہ ذکر کر دی گئی ہے۔

۔۲۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

اسلامی بینکاری کے معاملات کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور شریعہ بورڈ کے افراد کی اجازت پر چھوڑنے کی بجائے  پارلیمنٹ یا عدالتی نظام کے ذریعے قانونی قرار دیا جانا چاہیے ۔ بالفاظ دیگر اس بارے میں لازمی طور پر واضح قانون سازی کی جانی چاہیے ۔کیونکہ شریعہ بورڈ ز کی حیثیت  ایک مفتی کی سی ہے جس کے فتوے کو صرف ذاتی مفاد میں قبول کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کا مفاد وابستہ نہ ہو۔ نیز یہ فتوے افراد پر لازم بھی نہیں ہوتے کہ وہ اسے اپنے اوپرنافذکریں ۔ (پیرا گراف نمبر 4)۔

تجزیہ

اس حد تک تو اسلامی بینکاری کے حاملین بھی قائل ہیں کہ اسلامی بینکاری  نظام کو ریاستی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے ۔ موجودہ حکومت نے اسلامی بینکاری کی جانب توجہ دی ہے امید ہے اس بارے میں مستقبل قریب میں کوئی نہ کوئی پیش رفت ہوگی۔جہاں تک اس اعتراض  کا دوسرا حصہ ہے ، اس کے لیے اس پہلو پر غور کرنا ضروری ہے ۔ کہ اسلامی بینکاری کے معاملات کسی افرادی نہیں بلکہ  اجتماعی نوعیت کے ہیں۔ماضی بعید میں معاملات فرد کی سطح پر دیکھے جاتے تھے ۔ فقہ کی کتب میں ایک دو یا چند افراد کے معاملات سے متعلق مسائل کا حل ملتا ہے ۔ لیکن فی زمانہ اقتصادی معاملات افراد کی سطح سے نکل کر اداراتی سطح تک آپہنچے ہیں ۔ توجید  فقہا نے اجتماعی اجتہاد کے ذریعے شریعت کے بنیادی اصولوں کی روشنی  میں نئے اصول و ضوابط متعارف کرائے تاکہ معاشرے کے اجتماعی سطح کے اقتصادی امور میں یکسانیت بھی پیدا ہو اور افراد کی سطح تک سہولت بھی پہنچے ۔ شریعہ بورڈ کے ممبر علما عمومی طور پر اپنے اسلامی بینکوں کو  ان اصولوں پر چلاتے ہیں جو مسلمانوں کے جید علما نے اجتماعی اجتھاد کے ذریعے مقرر کیے  ہیں۔ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ اور  ایوفی جیسے اداروں میں اجتماعی اجتھاد کے کام کو بطریق احسن سرانجام دیا جارہاہے ۔

عوام میں اسلامی بینکاری سے متعلق  پائے جانے والے تذبذب کی بنیاد علما کے فتاوی نہیں ہیں بلکہ اسلامی بینکاری نظام کی معلومات کا عوامی سطح تک نہ پایا جانا ہے ۔لیکن کسی حد تک لوگوں میں علما کے فتاوی کی ساکھ پر تشویش پائی جاتی ہے جس کی وجہ بھی لاعلمیت ہے ۔عوامی تشویش کسی نظام کے عدم جواز کی دلیل نہیں ہوتا ۔ ورنہ تو شاید ہی کوئی نظام ہوگا جس پر عوام تشویش کا شکار نہ ہو۔عوام کا کام ہے اہل علم کے پاس جائے اور اپنے لیے تشفی قلب  کا سامان کرے۔

یہ اعتراض  کہ فتوے افرادپرلازم نہیں ہوتے ۔ تو اس پر عرض ہے کہ عوام کو جب اس بات کا علم ہوجائے کہ اسلامی بینک کس طرح اپنے شریعہ بورڈ کے ممبر علما کے فتووں کا پابند ہوتا ہے تو ان کے لیے بھی یہ بات کسی حد تک تسلی کا باعث ہوتی ہےکہ وہ اس پر اعتماد کریں ۔ نیز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین اور سپر ویژن میں اسلامی بینکوں کا کام کرنا افراد کی انویسٹمنٹ کے محفوظ ہونے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ  اسلامی بینکوں  کے ڈیپازٹس  پردرج ذیل ایکٹ موجود ہے ۔

The Deposit Protection Corporation Act, 2016

 اس بارے میں قانون سازی کا عمل تدریجا جاری ہے ۔  رہی بات کہ اسلامی بینکوں پر نافذ فتوے کسی فرد پر لازم نہیں ہوتے ، تو جناب  ایسے تو  حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی بھی کسی فرد پر نافذ نہیں ہوتی ۔اگر اس نے اعتبار نہیں کرنا تو وہ حکومت کا بھی نہیں کرےگا۔عوامی اعتبار کے بنیادی اسباب کچھ اور ہوا کرتے ہیں تاہم حکومتی سرپرستی اس باب میں  ایک سبب ضرور ہے لیکن صرف  یہی ایک ہی سبب نہیں ہے۔لہذا پارلیمنٹ یا عدالتی قانون سازی کا نہ ہونا اسلامی بینکاری کے عدم جواز کی دلیل نہیں بنتا ۔

۔۳۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

اسلامی بینکوں کے سارے معاملات : اکاؤنٹ اوپننگ ،قرضہ جات کے اجرا ، دستاویزات کی  ڈسکاؤنٹنگ  یا دیگر طرق ، گارنٹی ، ایل سی جاری کرنا ، رہن ، مورٹگیج  وغیرہ جیسے سب معاملات  پر پارلیمنٹ کی  قانون سازی ہونی چاہیے ، ورنہ اسلامی بینکاری غیر قانونی متصور ہوگی ۔اس طرح اسلامی بینکاری ایک ایسا  ماڈل وجود میں آئے گا  جو قانونی ہونے کے ساتھ اسلامی بھی  ہوگا۔یعنی پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے ہر ایک پروڈکٹ کا اسلامی ڈھانچہ  مقرر ہوجائے گا  تو پھر ہر اسلامی بینک پر لازم ہوجائے گا کہ وہ اپنی اپنی ویب سائیٹس   پر اپنے کنٹریکٹ کی کاپیاں ، گارنٹی ، اور دیگر ڈاکومنٹس  کو ڈال دیں جس تک ہر کسی کی رسائی ہو۔ اس طرح قانون سازی اسلامی بینکاری کو قانونی جواز بھی ملے گا اور اسلامی ہونے کا اعتماد بھی ۔اس کے بغیر اسلامی بینکاری غیر قانونی ہے۔اگر اسلامی بینکاری  موجود ہ طرز پر اسی طرح چلنے دی جاتی ہے تو پھراسی پر قیاس کرتے ہوئے  عوام الناس کو آفر کرنے والی دوسری  پرائیویٹ اسکیموں کو بھی اجازت دے دی جائے ۔ (پیرا گراف نمبر 5)

تجزیہ

اسلامی بینکاری پر قانون سازی سے متعلق تو اسلامی بینکاری کے حاملین بھی قائل ہیں جیسا کہ گزشتہ قسط میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔

اس اعتراض میں دو معلومات غلط ہیں ۔ اول یہ کہ اسلامی بینک  قرضہ جات کا اجرا بالکل نہیں کرتے ۔دوسرا اسلامی بینکوں کو دستاویزات کی ڈسکاؤنٹنگ کی بھی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ اس لیے ایوفی شریعہ اسٹینڈرڈ بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ لیکن کچھ احباب اس پر مُصِر ہوتے ہیں کہ اسلامی بینک سودی بینکوں کی طرح قرضہ جات میں ہی ڈیل کرتا ہے۔اسلامی بینک کا مرابحہ ، مضاربہ، سلم وغیرہ کچھ بھی ہو ، اُن کے نزدیک  وہ سب کچھ حقیقت میں قرض ہی ہے جس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں ۔حالانکہ اسلامی بنکاری میں یہ تمام عقود کے اپنی اپنی  شرائط کے ساتھ مکمل ہوتے ہیں۔

قانون سازی کے بعد اسلامی بینکاری کی ہر پروڈکٹ  کی اسلامی صورت متعین ہوجائے گی  والی بات بھی  قابل غور ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک صورت تمام فقہی مکاتب فکر کے لیے یکساں قابل عمل ہوگی ؟ کیونکہ محترم عمران احسن خان نیازی صاحب اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اسلامی بینکاری نظریہ تلفیق پر چل رہا ہے تو کیا یہاں تلفیق  قابل  قبول ہو گی  ؟

اسلامی بینکاری کی جن دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ساری کی ساری مہیا ہوجاتی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ کلائنٹ کی سائن شدہ کاپی تو نہیں دی جاتی اور وہ تو کوئی بھی نہیں دیتا ۔پروڈکٹس سے متعلق  جنرل ڈاکومنٹس تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائیٹ پر درج ذیل لنک پرموجود ہیں اور تمام اسلامی بینک انہی سے استفادہ کرتے ہیں۔

Essentials of Islamic Modes of Financing

اسی طرح دیگر اسلامی بینکوں کی دستاویزات بھی ان کی ویب سائیٹس پر مل جاتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان  بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے لیے ریگولٹری اور سپر ویژن  اتھارٹی ہے جو ایک حکومتی ادارہ ہے ،جس  نے بینکنگ کمپنی آرڈیننس میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ترمیم کے ذریعے اسلامی بینکنگ کو قانونی جواز فراہم کیا ہے اور لائسنس جاری کیا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر قانون سازی کی اہمیت کو واضح کرنا راقم کے دائرہ کار سے باہر ہے۔  لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ قانون سازی نہ ہو تو نظام بھی اسلامی نہیں رہتا ۔ اور اس پر قیاس کرتے ہوئے  دیگر پرائیویٹ اداروں کو بھی اجازت دے دی جانی چاہیے والی بات بھی قیاس مع الفارق کی صورت ہے ۔ جب حکومت پاکستان کے ایک ادارے نے جازت دے دی ہے اور اسے ریگولیٹ اور سپروائز کر رہا ہے تو کیا قانونی جوازکے لیے یہ کافی نہیں ہے ! نیز مقننہ  کی  قانون سازی  کا تعلق کسی چیز کے شرعی جواز اور عدم جواز سے نہیں ہے۔ شرعی جواز وعدم جواز کا تعلق فقہ اور فقہا کے مرہون منت ہے۔ ورنہ کئی ایسے قانون ہیں جو مقننہ نے بنائے ہیں لیکن شریعت سے متصادم ہیں  اور خود محترم نیازی صاحب اس پر بارہا لکھ بھی چکے ہیں۔

۔۴۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

اسلامی  بینکنگ کے ایک ٹی وی اشتہار میں ایک عالم دین  (جناب مفتی منیب الرحمن صاحب ) اسلامی بینک کے ڈیپازٹس کے اسلامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ اس بارے کوئی واضح دلائل نہیں دیتے، تفصیل ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ علما کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ اسلامی بینکوں کو فنڈ دینے کے لیے اتنی سی بات کہہ دینا ناکافی ہے۔(پیراگراف نمبر 7)۔

تجزیہ

ٹی وی اشتہار کا مقصد کسٹمر کو متوجہ کرنا ہوتا ہے ۔ جتنی تفصیل کا مطالبہ اعتراض میں کیا گیا ہے اس کے لیے فارمیٹ اشتہارکا نہیں ہوتا بلکہ پروگرام کا ہوتا ہے۔ باقی تفصیل تو مہیا ہے کتابوں میں بھی موجود ہے اور مختلف آرٹیکلز میں مل جاتی ہے ۔

۔۵۔محترم عمران احسن خان نیازی صاحب

جناب مفتی منیب الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ اسلامی بینک میں اکاؤنٹ مضاربہ کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔ جبکہ جدید بینکاری کے بارے میں یہ واضح ہے کہ بینکوں کے ڈیپازٹس قرض کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں ۔ امریکی عدالتوں نے یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ بینکوں کے ڈیپازٹس صرف اور صرف قرض ہی شمار ہوں گے جن کی واپسی کی ضمانت ہوگی ۔

تجزیہ

اسلامی بینکاری نظام امریکہ یا کوئی اور ملک یا سودی نظام سے الگ ایک مستقل نظام ہے جس کے اپنے اصول ہیں و ضوابط ہیں۔ امریکی عدالتوں کے حکم کا نفاذ سودی بینکوں پر تو ہو سکتا ہے لیکن اسلامی بینکوں پر قطعا نہیں ہوتا ۔ اسلامی بینک کے ڈیپازٹس کی تعریف کیا ہوگی اس کا تعین اسلامی بینک سے متعلقہ ریگلولیٹری ادارے ہی کریں گے ۔ اور یہ تعین کیا جا چکا ہے کہ اسلامی بینکوں کے انوسٹمنٹ اور سیونگ ڈیپازٹس مضاربہ بنیادوں پر ہی کھولے جائیں گے اور ان پر شرعی مضاربہ کے اصولوں کا اطلاق ہوگا۔ لہذا اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس پر سودی بینکاری نظام کی تعریف کو چسپاں کرنا اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ایک طرف شکو ہ کیا جات ہےکہ اس کے لیے الگ سے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی تو دوسری طرف اگر اس کا اپنا تشخص قائم کر کے اصطلاحات کی اپنی تعریفات مقرر کی جائیں تو اس کا انکار کر دیا جاتا ہے جو ہر لحاظ سے نامناسب ہے ۔ اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹس سے وہی مراد ہے جو اسلامی بینکوں نے دی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تعریف قابل قبول نہیں ۔ذیل میں ڈپازٹس کے حوالے سے تفصیل اس لنک پر مذکور ہے۔

Deposits of Islamic Bank

………………………………………

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1