آن لائن جماعت اور شرعی رخصتیں
April, 1-2020
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
…………………………………….
پس نوشت
کورونا صورت حال کی ہیجانی صورت حال کے اندر محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے میڈیا کو انٹرویودیتے ہوئے آن لائن جماعت کا تصور پیش کیا۔ اُن کے حلقہ اثر کے احباب نے اُسے غامدی صاحب کا اجتہاد عظیم قرار دینا شروع کردیا اور اس کے لئے سب سے پہلے ’’ لاؤڈ سپیکر ‘‘ کے جواز کو بطور دلیل پیش کرنا شروع کیا۔ جس پر سنجید ہ اہل علم و نظر نے کافی تنقید کی ۔ اس حوالے سے میں نے بھی ’’ آن لائن جماعت اور لاؤڈ سپیکر سے استدلال‘‘ کے نام سے مختصر تجزیہ تحریر کیا۔اس کے بعد ابھی دو دن پہلے جناب غامدی صاحب کی نئی ویڈیو سامنے آئی ہے ۔ جس میں انہوں نے اپنے موقف کی تفصیل اور دلائل ذکر کئے ہیں۔ اس ویڈیو کی ابتداء میں کیمرے کے پیچھے اُن کا کوئی شاگرد اُن سوالات میں سے صرف چند سوالات پیش کرتا ہے جو جناب ڈاکٹر مشتاق صاحب اور میں نے اپنی اپنی گزشتہ تحریر میں اٹھائے تھے۔ پھر حسبِ عادت پوری ویڈیو میں غامدی صاحب نے اُن سوالات میں سے کسی ایک سوال کا بھی جواب دینے کی طرف توجہ نہیں دی ۔ بلکہ نئے کمزور دلائل پر اپنی آن لائن جماعت کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس بار اللہ کا کرم یہ ہوا کہ ’’ لاوڈ سپیکر‘‘ کی جان بخشی ہوئی اور اپنے موقف کے لئے اُسے بطور دلیل پیش نہیں کیا۔
اپنی نئی ویڈیو میں جناب غامدی صاحب نے جن رخصتوں کو بطور دلیل ذکر کیا ہے اور اپنے ناقدین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ” اپنی فقہاہت ” کی روشنی میں اُن پر غور کریں۔اس پر عرض ہے کہ جناب ہم تو پہلے دن سے جانتے تھے کہ آپ انہی نماز و روزہ کی رخصتوں کو بطور دلیل لائیں گے اور جواب بھی اُسی وقت ہمارے پاس موجود تھے بس آپ کی جانب سے ان رخصتوں کو بطور دلیل پیش کرنے کے منتظر تھے۔ پیش بندی کا یہ فقہی فن ہم نے اپنے اسلاف فقہا سے ہی سیکھا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز اور روزہ کی رخصتوں پر قیاس کرتے ہوئے آن لائن جماعت کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا۔ ۔۔۔۔۔ کیوں ؟
“غامدی صاحب نے نماز اور روزے کی رخصت پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بالکل اسی طرح آن لائن جماعت کی رخصت بھی کشید ہوتی ہے۔ اگرچہ ہم اسے رخصت کی بجائے شرعی احکام میں غیر مطلوب شدت قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر غامدی صاحب اسے رخصت قرار دینے پر ہی مُصِر ہیں تو اس حوالے سے ہم ان کے قیاس کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ۔
۔1۔قصر نماز کی رخصت پر قیاس
قصر نماز میں صرف نماز کی رکعتیں کم ہوتی ہیں۔ نماز تنہا ہو یا باجماعت اس کی بقیہ ساری متعلقہ شرائط ویسے ہی لازم رہتی ہیں جیسے عام حالات میں اُن کے بغیر نماز ادا نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن آن لائن جماعت کا تصور تو باجماعت نماز کی ساری شرائط کو ہی ختم کردیتا ہے۔
نتیجہ: آن لائن جماعت “باجماعت نماز” کی بنیادی شرائط کی نفی پر مبنی ہے۔ لہذا یہ کیس قصر نماز سے بالکل مختلف بن جاتا ہے۔ دونوں میں کوئی مشابہت نہیں کہ قیاس کی گنجائش نکلے ۔ اس لئے یہ قیاس باطل ہے۔
قصر نماز کی اجازت کب ہوتی ہے ؟ عملا سفر کی حالت میں۔ سفر کی حالت کب شروع ہوتی ہے ؟ جب انسان اپنے شہر کی حدود سے نکلے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے:“جب آدمی کو غالب گمان ہو یا دل میں قوی ارداہ بنے کہ وہ کسی دوسرے شہر کا سفر کرے گا لیکن ابھی یقین نہ ہو کہ جائے گا تو کیا وہ شخص نماز قصر کرسکتا ہے ؟ ”
جواب ہے بالکل بھی نہیں۔ یعنی شرعی رخصت صرف اور صرف عملی اور یقینی کیفیت میں حاصل ہوتی ہے نہ کہ صرف وہم و گمان سے ۔ اور غامدی صاحب سے پوچھ لیں ان کا اپنا فہم ( فقاہت نہیں کیونکہ وہ عموما فقہ کے قائل ہی نہیں ) بھی یہی جواب دے گا جو میں نے دے دیا ہے۔
لہذا ۔۔۔ غامدی صاحب آن لائن جماعت کی رخصت جن لوگوں کو دے رہے ہیں کیا وہ یقینی طور پر مسافر کی مانند عملا وائرس میں مبتلا ہیں ؟ جس کا جواب واضح ہے نہیں ۔۔۔کیونکہ غامدی صاحب کا بنیادی موقف ہی ” وائرس پھیلنے کا صرف خدشہ ہے “۔
نتیجہ : اگر صرف غالب گمان کی صورت میں شریعت نماز قصر کی اجازت نہیں دیتی تو صرف وائرس لگنے کے خدشے کی بنیاد پر آن لائن جماعت کا جواز بھی کشید نہیں کیا جاسکتا ۔
۔2۔ مریض کی نماز والی رخصت پر قیاس
مریض کی نماز والی رخصت پر بھی قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے قیاس باطل ہے۔ اس لئے کہ وہ فرد کے لئے حکم ہے۔ اگر اجتماعی حکم ہوتا تو پھر باقاعدہ ” مریضوں کی جماعت ” کا حکم ہونا چاھیے تھا لیکن یہ شرعا غیر مطلوب تھا ۔ آن لائن جماعت فرد کا نہیں اجتماعی حکم ہے۔
نتیجہ: فرد کے حکم اور اجتماع کے حکم کے مابین کوئی قیاس نہیں۔ اس لئے یہ دلیل بھی باطل ہے۔
نیز شریعت اسلامیہ مختلف امراض کے مریضوں کو حقیقی عذر جسے عذر شرعی کہا جاتا ہے کی بنیاد پر رخصت دیتی ہے جیسے رکوع سے عجز، سجدے سے عجز ، اور قیام سے معذوری ۔ یہ سب معذوریاں حقیقی ہوں تو تب جاکر شریعت بندے کو رکوع و سجود اور قیام سے رخصت دیتی ہیں۔ آن لائن جماعت کی رخصت جس عذر سے کشید سے کی جارہی ہے کیا وہ عذر بالفعل حقیقی ہے یا ظنی ہے ؟ یا یہ صرف حقیقی معذوروں کے لئے ہی رخصت ہے ؟ اگرتو ظنی ہے پھر تو یہ قیاس ہی باطل ہے کہ بالفعل یقینی صورت حال پر ظنی صورت کو کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ اور اگر یہ رخصت صرف حقیقی معذوروں کے لئے ہے تو بھی باطل رخصت ہے کیونکہ شریعت نے ان سے معذوری کی بابت جماعت کا سرے سے مطالبہ ہی نہیں کیا۔ تو غامدی صاحب کس حیثیت میں اس رخصت کے ذریعے معذور افراد سے باجماعت نماز کا مطالبہ کرتے ہیں!
نتیجہ: آن لائن جماعت کے جواز کے لئے مریض کی نماز والی رخصت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے باطل ہے ۔ اس لئے آن جماعت باطل ہے۔
نوٹ :کسی غالب خدشے کی بابت جو بندہ مسجد نہیں آسکتا اس پر جماعت کا لزوم ویسے ہی ساقط ہے تو پھر آن لائن جماعت کے تصور کا سرے سے تک ہی نہیں بنتا ۔
۔3۔ نماز میں راکب کو دی گئی شرعی رخصت پر قیاس
راکب کی نماز میں دی جانے والی رخصتوں پر قیاس کرتے ہوئے آن لائن جماعت کی رخصت کشید کرنے کا قیاس بھی باطل قیاس ہے۔۔ کیوں ؟
نوٹ:( اس نکتے پر بات کرتے ہوئے غامدی صاحب طنزا جی طنزا ۔- اخلاقیات والے ویڈیو دیکھ لیں جو کہتے ہیں غامدی صاحب طنز نہیں کرتے ۔ طنزا کہتے ہیں کیا آپ سواری پر کھڑی ہوجائیں گے۔ اور اس مجلس میں جناب کے احباب باقاعدہ ہنستے بھی ہیں۔ ) یہ نوٹ اخلاقیات والوں کے لئے خاص ہے۔اب سوال کے جواب کی طرف آئیے :۔ راکب کی نماز کی دو جہتیں ہیں۔ 1۔ شخصی جہت 2۔ اجتماعی جہت
شخصی جہت کی مثال
راکب ( سوار) جب سواری جیسے بس، گھوڑا ، کار ، کشتی یعنی ایسی سواری پر سوار ہو جس پر بیٹھے ہوئے قیام و سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو اسے قیام و سجدے کی رخصت ہوتی ہے کہ وہ یہ ارکان ادا نہ کرے۔
اجتماعی جہت کی مثال
بحری جہاز پر باجماعت نماز اجتماعی جہت کی مثال ہے۔ (غامدی صاحب نے شخصی والی مثال دے کر تاثر ایسا دیا کہ جیسے اجتماعی والی صورت میں بھی وہی رخصت حاصل ہو)۔
کیا صرف “شخصی جہت ” پر قیاس کرتے ہوئے غامدی صاحب بتائیں گے کہ بڑے بحری جہاز کے مسافر سمندر میں سفر کے دوران جب نماز ادا کریں گے تو وہ بھی قیام و سجدے کے بغیر نماز ادا کریں گے؟ کیونکہ سوار شخص کو سجدہ نہ کرنے کی رخصت ہے اور بحری جہاز کا سوار بھی راکب ہے ؟ اوہو دیکھیں غامدی صاحب سواری پر سوار لوگ کھڑے بھی ہوگئے اور سجدہ بھی کر رہے ہیں۔ آپ کاکہنا نہیں مان رہے۔اب کہاں گیا سواری پر آپ کا مطلق قیاس ؟؟؟؟
نتیجہ:شخصی رخصت کی بنیاد پر آن لائن جماعت کی رخصت جو کہ ایک اجتماعی نوعیت کا امر ہے، کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ ویسے بھی غامدی صاحب کا اپنا اصول بھی یہی ہے کہ شخصی حکم کو اجتماع پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا اس پر قیاس کرتے ہوئے آن لائن جماعت غامدی صاحب کے اپنے اصول کے تحت باطل قرار پاتی ہے۔ اب غامدی صاحب کی مرضی چاھے اصول بدل لیں یا پھر ۔۔۔۔۔
۔4۔ مسافر کے روزے کی شرعی رخصت پر قیاس
غامدی صاحب نے روزے کی رخصت پر بھی آن لائن جماعت کی رخصت کے جواز کے لئے قیاس کیا ۔یہ قیاس بھی باطل قیاس ہے۔ قیاس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک مثال اِدھر سے لی ایک اُدھر سے لی اور قیاس جَڑ دیا۔ اس کی الگ شرائط ہیں کچھ اصول ہیں۔
سفر میں روزے کی رخصت وجوبی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔ نیز اگر کوئی اختیار کرے گا تو روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ نہیں کہ کھاتا پیتا بھی رہے اور روزہ بھی رہے۔ اسے اختیار ہے چاھے روزہ رکھے اور چاھے روزہ ترک کرے۔ نیز یہ رخصت اس مسافر کے لئے ہے جو بالفعل مسافر ہو۔ اس لئے اسے اجازت ہوتی ہے کہ وہ راستے میں افطار کرے۔
نماز کی جماعت میں رخصت کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ نماز یا جماعت ہو یا نہ ہو۔ آن لائن جماعت کا تصور بذات خود شرعی رخصت کے خلاف ہے۔ یعنی شریعت جن حالات میں جن افراد کو ترکِ جماعت کی اجازت دیتی ہے غامدی صاحب انہیں رخصت دینے کی بجائے آن لائن جماعت کا کہتے ہیں۔
نتیجہ:آن لائن جماعت کی صورت اور مسافر کے روزے کی صورت میں کوئی مشابہت نہیں کہ قیاس کیا جاسکے۔ نیز آن لائن جماعت بذات خود شرعی احکام میں ایک شدت ہے جو شرعی رخصت کی حقیقی روح کے ہی خلاف ہے۔ اس لئے آن لائن جماعت کا جواز اس سے کشید نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
التماس: آن لائن جماعت اور مساجد کو تالا لگانے کا موقف رکھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ شرعی رخصتوں پر قیاس کرنے سے پہلے خدارا قیاس کی اصولی مباحث کا مطالعہ ضرور کر لیں۔
روشن خیالی کے شوقین چند اہل علم احباب جو یہ کہتے ہیں کہ اگر یہی آن لائن جماعت والا فتوی روایتی ملاؤں کے اپنے کسی امام نے دیا ہوتا تو وہ اسے عظیم اجتہاد قرار دیتے ، اب چونکہ غامدی صاحب نے یہ فتوی دیا ہے اس لئے ان سے برداشت نہیں ہو رہا !۔
اس پر ہماری مؤدبانہ عرض صرف اتنی ہے کہ ہمارے اسلاف ایسا فضول فتوی دیتے ہی کیوں ؟ آپ کہتے ’’اگر دیتے تو ۔۔۔۔‘‘۔ ہم کہتے ہیں جناب والا ’’ ہمارے اسلاف کی علمی ثقاہت خود اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے بارے میں تو یہ بات’ فرض ‘ بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا کہتے‘‘ کیونکہ ان کے فقہی ذخیرے میں اجتہاد تو بڑی بات ایک ایسا قول بھی نہیں جسے فضول کہا جاسکے جو بنیادی شرعی اصولوں کا بھی خیال نہ رکھے ۔
ہذا عندی وما توفیقی اللہ باللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1