سرمایہ داریت کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیپیٹل ازم ایک ایسا کھیل ہے جس میں فرد کو اس کی خواہشات کے پیچھے دوڑایا جاتا ہے جبکہ اس کی دوڑ کا سارا بڑا ثمر سرمایہ دار لے جاتا ہے اور فرد کے ہاتھ صرف اس قدرآتا ہے کہ جس کو استعمال میں لا کر وہ دوبارہ اس دوڑ میں شامل ہوسکےاور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر کی دولت بڑھتی رہتی ہے اور غریب نسل در نسل غربت کی دلدل میں دھنستا رہتا ہے۔
مائیکرو اکنامکس، میکرو اکنامکس ،مانیٹری وغیرہ یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ سرمایہ داریت کے نظام کے پیچھے پہلے نظریاتی اور فکری اور فلسفیانہ بحث ہے جس میں 5 اہم سوالات ہیں۔ سرمایہ داریت والے ان 5 سوالوں کے جواب دیں۔ ۔۔۔۔ تاہم سرمایہ داریت کی روشنی میں ہم اپنے جوابات دئے دیتے ہیں۔
۔1۔کنزیومر کیا خریدے یعنی ڈیمانڈ کیا ہے؟؟؟ یہ اسے کون بتائے گا؟ یعنی ڈیمانڈ کا تعین کون کرے گا؟
جواب : انسان کی ضرورت
۔2۔ فلاں چیز بندے کی ضرورت ہے ۔ یہ اسے کون بتائے گا ؟؟؟
جواب: اس کی عقل
۔3۔ عقل میں یہ بات کون ڈالے گا کہ فلاں چیز اس کی ضرورت ہے؟؟
جواب: اس کا نفس یعنی خواہش
۔4۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں خواہش جائز ہے یا ناجائز ، حلال ہے یا حرام ؟؟؟؟
اس سوال کا جواب ایک اور اہم سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ
۔5۔ خیر و شر کا تعین کون کرے گا ؟؟؟؟ انسانی عقل (خواہش نفس) یا خدا ؟؟؟
جواب: کیپیٹل ازم میں اس کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسانی عقل خود ہی فیصلہ کرے گی کہ اس کے لئے کیا خیر ہے اور کیا شر ، کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ لہذا انسانی عقل خواہش نفس کی روشنی میں فیصلہ کرے گی کہ فلاں چیز اس کے لئے خیر ہے۔ اس لئے وہ اس کی ڈیمانڈ کرے گا۔ اور وہ اس کے لئے قانونا جائز ہوگی۔ اس بارے میں خدائی مذہب کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
گویا کیپیٹل ازم میں “”انسان اپنی خواہشات کا بندہ ہے””۔ اسلام یہیں سے کیپیٹل ازم سے الگ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسلام کے پیراڈائیم میں خیر و شر کا حتمی تعین اللہ تعالی کرتا ہے۔ انسانی خواہش کے حلال و حرام کا فیصلہ خدا کرتا ہے۔ نیز جائز خواہشات میں بھی اسلام خواہشات نفس کی مخالفت کی ترغیب دیتا ہے۔ جبکہ اسلام میں انسان خدائی احکام کا پابند ہے۔اب آگے کی ساری اکنامکس کی بحث اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔
what to produce ? How much to produce ?
کیپیٹل ازم کے حامی سمجھتے اکنامکس شروع ہی ان سوالوں سے ہوتی ہے بھائی اس سے پہلے والے اوپر کے سوالات جوابات متعین کرتے ہیں کہ معاشیات کیسے چلے گی۔
دنیا کا جو ملک بھی اٹھا لیں خاص طور پر سرمایہ دار ممالک
۔1۔ وہاں انسان کو سیکس سیٹیسفیکشن کے لئے سیکس ٹولز کی خواہش ہوئی تو سیکس ٹولز خیر اور اچھے قرار پائے لہذا ڈیمانڈ پیدا ہوئی۔ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے سپلائی فورس حرکت میں آئی اور سیکس ٹولز کی باقاعدہ انڈسٹری قائم ہوئی جس کو قانونی جواز بھی مل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کیپیٹل ازم
۔2۔ وہاں شراب، پورک کی ڈیمانڈ ہوئی۔ سپلائی فورس نے وائن اور پورک انڈسٹری قائم کردی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے کیپیٹل ازم
۔3۔ ہوموسیکس یعنی لواطت یعنی ہم جنس پرستی کی خواہش لوگوں کو ہوئی تو اسے قانونی جواز دے دیا گیا۔ بلکہ اب تو اقوام متحدہ کا ادارہ تمام ممالک سے اسے جواز دینے کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ انسان کی آزادی اور حق کی بات۔ یہ ہیومنزم کا تصور ہے جو کیپیٹل ازم کی چھتری تلے پروان چڑھا
۔4۔ کیپیٹل ازم ہی ہے جو اخلاقی سطح کی ہر گندی حرکت اور ہر حرام چیز کو پروڈکٹ قرار دیتا ہے پرائس مقرر کرتا ہے اور مارکیٹ تک لاتا ہے۔ کیونکہ اس سب کے پیچھے “”خواہش نفس””” کا حکم کھڑا ہے۔
ہر انسان اپنی خواہش میں آزاد ہے یہ بنیاد ہے اس نظام کی۔
اکنامکس کی کتابوں میں شراب، پورک برگر جیسی مثالیں عام ہیں۔ حالانکہ عیسائیت یہودیت جیسے مذاہب میں بھی یہ سب اشیاء حرام ہیں۔ اس کے باوجود کیپیٹل ازم میں یہ سب ہورہا ہے۔ کیوں ؟؟؟؟
کیونکہ کیپیٹل ازم میں مذہب کو مداخلت کی اجازت ہی نہیں۔ کیپیٹل ازم کہتا ہے مذہب کون ہوتا ہے یہ فیصلہ کرنے والا کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں ۔ یہ فیصلہ فرد خود کرے گا۔ کیپیٹل ازم کی سلطنت کے تین بنیادی ستون ہیں
۔1۔ لبرل ازم یعنی مذہب کا کوئی کردار نہیں۔
۔2۔ ہیومنزم یعنی انسان اپنے اچھے برے کا فیصلہ خود کرسکتا ہے۔ خدائی احکام کی ضرورت نہیں۔
۔3۔ جمہوریت
ان تین ستونوں کے بغیر کوئی بھی قوم کیپیٹل ازم پر چلے گی تو اس کے ثمرات حاصل نہیں کر پائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک اس نظام کو اپنا کر ناکام ہیں کیونکہ یہ نظام اسلامی بنیادی عقائد کے ہی خلاف ہے۔ مسلمان بھی رہوں اور سود بھی کھاوں کیسے ممکن ہے ؟ مسلمان بھی رہوں مگر حکم اپنی خواہش نفس کا مانوں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟؟
اگر کسی کو اختلاف ہے تو بھائی آپ اپنے تصوراتی کیپیٹل ازم کی روشنی میں اوپر کے 5 سوالوں کے جواب اپنے ذہنوں میں سوچیں اور ان پر غور کریں۔ جس نظام کے خواب آپ دیکھ رہے وہ یا تو کیپیٹل ازم ہی نہیں یا پھر آپ کو پتہ ہی نہیں کہ کیپیٹل ازم کیا ہے۔ مائیکرو، میکرو، مانیٹری ، آجانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کیپیٹل ازم سمجھ گئے۔ کیپیٹل ازم کے لئے فادر آف اکنامکس ایڈم سمتھ، ڈیوڈ ریکارڈو اور ان کے روحانی باپ جان لاک کو پڑھئے کہ اس نظام معیشت کے قائم کرنے کے پیچھے کیا عقائد تھے۔ پھر اس کے بعد کیونکہ سرمایہ داریت متعارف کرانے سے پہلے معاشرے کو فکری طور پر تیار کیا گیا۔ اس لئے پہلے اس فکر کو سمجھیں۔ کیپیٹل ازم یہی ہی ہے ۔۔۔ باقی جس میں آپ ہیں وہ دھوکہ ہے۔
…………………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1