حق اور دھوکے کی پہچان: ایمان بچائیں تو کیسے ؟
محمد ابوبکر صدیق
17 -04- 2020
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی زمانہ ہر آن نت نئے فتنے نئی نئی شکلوں اور الگ الگ سلوگن سے نکل رہے۔ ہر کوئی سوشل میڈیا یو ٹیوب پر گھنٹے گھنٹے لیکچر دے رہا ہے۔ نوجوانوں کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نوجوان پریشان ہیں کریں تو کیا۔ ایمانیات کے اعتبار سے انٹرنیٹ جہاں بہتری کا سبب ہے وہیں اس سے کہیں زیادہ ایسے لوگوں کے لئے نقصان کا سبب بھی ہے جن کی دینی بنیاد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دین سے متعلق سننے کے لئے ہر قسم کے بندے کا مواد ایک کلک پر موجود ہے۔ چرب زبان اس قدر ماہر ہیں کہ سادہ لوح کے ایمان متزلزل ہوجاتے ہیں کہ حق کسے کہے اور دھوکہ کسے قرار دے۔ میرے کچھ شاگردوں نے رہنمائی چاھی تو انہیں فردا کچھ تجاویز دیں۔ تاہم مناسب سمجھا کہ یہاں سب نوجوانوں کے لئے شیئر کر دوں۔
اللہ تعالی نے قلب ایک ایسا آلہ دیا ہے جو شک کی باتوں پر کبھی بھی قرار نہیں پاتا اور حق بات ہو تو قلب مطمئنہ کی مانند سکون ہوجاتا ہے۔حق و باطل کی پہچان میں اس دل سے کام لی جئے ۔ لیکن چند باتوں کا خیال بھی رکھیں۔ کسی بھی نئے فتنہ پرور بندے کے حق و باطل پر ہونے کے لئے مندرجہ ذیل امور کی طرف دھیان دیں۔
۔1۔ قران و سنت کو سمجھنے میں اسلاف (صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین) کا منہج ہی حق ہے۔ کیونکہ اسلام 1400 سال قبل مکمل ہوچکا۔ جو منہج اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کو، ان سے تابعین ، ان سے تبع تابعین کو ملا وہی بر حق ہے۔ باطل کی پہچان یہ ہے کہ جب آپ اسلاف کے منہج پر رہنے کی بات کریں گے تو وہ فورا کہیں گے ’’ کفار بھی حضرت محمد ﷺ سے یہی کہتے تھے ہم اپنے آباء کو کیوں چھوڑیں ‘‘ ۔ کم علم کم مطالعہ کا نوجوان لاجواب ہوجاتا ہے۔ حالانکہ آسان جواب یہ ہے کہ ۔۔۔۔ آپ ان سے کہیں ۔۔۔ حضور ﷺ تو اس وقت1400 سال قبل نیا دین برحق لائے تھے جس پر کفار اپنے باطل آباء کے دین پر بضد رہنے کا کہتے تھے۔ اور ہم تو الحمد للہ اسی نبی کریم ﷺ کے دین بر حق پر پہلے سے قائم ہیں جو ہمارے اسلاف کے واسطے سے ہمیں ملا۔ تم چونکہ نئے باطل دین کی دعوت لائے ہو اس لئے ہم اسے قبول کیوں کریں؟ کیونکہ اب کوئی نیا دین نہیں آئے گا ۔ تم چونکہ حق کے طریقے سے گمراہ ہو اس لئے تمہارا راستہ ابلیس کا راستہ ہے۔
۔2۔ اس بندے کی گفتگو اگر دل میں شکوک و شبہات پیدا کرے۔ احکام شریعت سے متعلق نت نئے تصور دے تو سمجھ جائیں یہ ابلیس ہے جو تمہیں قرآن سمجھانے آیا ہے۔ اب ابلیس کیا سمجھائے گا اہل عقل خوب جانتے ہیں۔
۔3۔ اگر ہر بندے کا عربی علوم کے بغیر قران مجید خود سے سمجھنا ممکن ہوتا تو اللہ کتاب نازل کردیتا ۔۔۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نہ بھیجتا ۔ قرآن مجید کہتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا تمہیں قرآن مجید کی تعلیم دے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے جو تعلیم دی جو حکم سمجھایا اور جیسے سمجھایا اسے سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا گیا۔ سنت کے انکار کا مطلب قرآن مجید کی نبوی تعلیم کا انکار ہے۔ جو بذات خود قرآن کا انکار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جھوٹ کا شکار ہوگئی اور بدل دی گئی تو پھر معاذ اللہ یہ اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہے کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا کہ جاکر لوگوں کو قرآن کے احکام سکھائے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سکھا چکا تو ان کے بعد اللہ تعالی نے دین کو یتیم کر کے چھوڑ دیا اور اس کی حفاظت ہی نہیں کی۔
عام آدمی کے لئے قرآن خود سمجھو کا جملہ خود جہالت پر مبنی ہے۔ سوچیں جب صحابہ کرام کو قران سمجھنے کے لئے ایک معلم (نبیﷺ ) کی ضرورت پڑی تو آج کون ہے جو کہے کہ وہ معلم کے بغیر سمجھ سکتا ہے۔
۔4۔ بندے کی گفتگو کے موضوع پر دھیان دیں۔ اگر تو وہ ایسے موضوع چھیڑتا ہے جس کا تعلق عملی زندگی کی بھلائی سے نہیں، تعمیر کردار سے نہیں ۔ فکر آخرت سے نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے حصول سے نہیں۔ اللہ کے بندوں کو رشتہ اخوت کی لڑی میں پرانے سے نہیں ۔ بس امت کے حساس موضوعات کو اس انداز سے چھیڑتا ہے کہ لوگوں میں فساد پیدا ہوجائے۔ ایسی انوکھی باتیں کرتا ہے جو اسلاف کی تعلیمات سے دور ہے۔ بولے تو زبان درازی کرے۔ اسلاف کو یکسر غلط قرار دے اور کہے میری تعبیر ہی درست ہے۔ گفتگو کا مقصد محض الفاظ کی جگالی ہو کہ لوگوں پر اس کا رعب و دبدبہ قائم ہوجائے۔ تو سمجھ جائیں یہ ابلیس کے لشکر سے آیا ہے۔ کیوں کہ اہل حق کا ایک سادہ سا جملہ بھی زندگیوں میں انقلاب بپا کردیتا ہے۔ نگاہ اٹھائیں دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی محفل سے نکلیں تو ہر آدم خود سے بہتر محسوس ہوتاہے۔ وہ اللہ کے بندوں کو توڑنے کے نہیں جوڑنے کے کام کرتے ہیں۔
۔5۔ گفتگو کے نتائج پر دھیان دیں ۔ اگر تو اس کی گفتگو آپ کا اپنے رب سے ٹوٹا تعلق جوڑ دیتی ہے یا پہلے سے قائم تعلق باللہ کو اور زیادہ مضبوط کرتی ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو بڑھا دیتی ہے اور دل کو نرم کرتی ہے۔ اور اللہ کے بندوں سے متعلق تمہیں نرم خو کرتی ہے، پاکیزہ کردار کے مبارک اسلاف سے محبت پیدا یونے لگتی ہے۔ تو سمجھیں وہ حق پر ہے۔ اگر اس کی گفتگو سے آپ کے دل میں صرف اس کی اپنی شخصیت کا اثر بنتا ہے کہ بڑا بولنے والا ہے قابل ہے وغیرہ۔ لیکن رب سے تعلق نہیں جڑتا یا پہلے سے قائم تعلق باللہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دل سختی مائل ہونے لگتا ہے۔ زبان بے ادبی کی جانب چلنے لگتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ ناز سےمتعلق الفاظ کا چناو غیر محتاط ہونے لگتا ہے۔ فکر آخرت کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا ۔ اور طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے ڈیپریشن بڑھنے لگتا ۔ ایمان کی دنیا کنفیوز ہوجاتی ہے۔ تو سمجھ لیں یہ ابلیس کی دنیا کا بندہ ہے۔ جو قرآن کے نام پر ، دین سمجھا نے کے نام پر تم سے تمہارا ایمان لینے آیا ہے۔ اہل حق کو سنا جائے تو دل کی لوح پر اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ثبت ہوجاتا ہے کہ پھر دنیا کوئی طاقت بھی اسے کھرچ نہیں سکتی۔
یہ ہیں وہ چند مور جن کی طرف توجہ رہے اور ساتھ ہی دل میں حضور نبی رحمت ﷺ سے محبت اس طرح اجاگر ہو کہ دل ک یقین حاصل ہو کہ اس پاکیزہ محبت کے سوا باقی سب کچھی فضول ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ حضور نبی رحمت ﷺ کے دامن سے وابستہ رہنے سے ہی ہے۔
ہو نہ یہ پھُول تو بُلبل کا ترنُّم بھی نہ ہو
چَمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1