فتنوں اور شیطان کے دھوکے سے کیسے بچیں؟
محمد ابوبکر صدیق
07 -05- 2020
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتنے یکے بعد دیگرے اتنی تیزی سے نکل رہے ہیں جیسے ٹوٹی تسبیح کے دانے یکے بعد دیگرے بکھرتے ہیں۔اللہ اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل ہمارے ایمان کا تحفظ فرمائے۔ ایمان کا تحفظ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں ہے۔ اور اس مقدس محبت کی علامت اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ فی زمانہ فکری و نظریاتی فتنوں اور دھوکوں سے بچنے کے لئے درج ذیل نکات پر عمل کی جئے۔
۔1۔ سب سے پہلے اپنی طبیعت اور رویوں میں وہ عاجزی اور انکساری پیدا کی جئے جو بندہ مومن سے مطلوب ہے۔ خود کو ذاتی انا، تکبر اور ’’ میں ‘‘ کی قید سے آزاد کی جئے۔ اس کے لئے مجرب نسخہ لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین لاحول ولا قوةالا بالله العلی العظیم کا ورد ہے۔
۔2۔ اگر آپ عالم دین نہیں ہیں۔ اور عامی ہیں بھلے پی ایچ ڈی ہیں۔ ایک بات اپنے ذہن میں ڈال لیں کہ شریعت کے امور میں آپ ایک عام مسلمان ہیں جسے شریعت کے احکام و دیگر امور کے سلسلے میں کسی جید عالم دین کی رہنمائی کی بالکل اسی طرح ضرورت ہے جیسے دوسری فیلڈ کے لوگوں کو آپ کے فن میں آپ کی رہنمائی کی حاجت ہوتی ہے۔
اس کے بعد سوال آتا ہے کہ فتنوں اور شیطان کے دھوکے کی پہچان کیسے ہو؟
نئے فتنوں کے اور شیطانی فریب کے عموما طریقہ واردات یہ ہوتے ہیں:۔
۔1۔ ہم کسی فرقے کی بات نہیں کرتے۔
۔2۔ ہم صرف قرآن کی بات کرتے ہیں۔
۔3۔ ہم صرف علمی کتابی باتیں کرتے ہیں۔
۔4۔ ہم جو بات جہاں سے اچھی ملے لے لیتے ہیں ۔
۔5۔ ہم خود قرآن سمجھو تحریک چلاتے ہیں۔
یہ ہیں وہ سلوگن جن کے ذریعے ہر نیا فتنہ ایک نیا فرقہ بن کر اٹھتا ہے۔ اور نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچنے کے لئے پہلے سے موجود امت کے اجماعی امور سے الگ اچھوتی و انوکھی رائے پیش کرتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ خود کو حق پر ثابت کرنے کے لئے کفار و مشرکین اور منافقین کے بارے میں نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پر اپلائی کرتے ہیں۔
معاشرتی سیاسی حالات سے نفسیاتی دباو میں الجھا نوجوان فورا نئی تعبیرات قبول کرتا ہے اور سمجھتا پہلے کے علما گمراہ تھے یہ والا بندہ کوئی مجتہد آیا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جس طرح کا تعلیمی نظام مروج ہے وہاں نئی بات بھلے دینی امور میں ہی کیوں نہ ہو ، خواہ کیسی ہی گمراہ کن کیوں نہ ہو بھلی لگتی ہے۔پرویزی فکر ہو ، غامدیت ہو یا مرزا انجینئر یا دیگر چند افرادی جماعتیں آپ سب کو ان میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی کہ یہ سب وہی سلوگن لے کر اٹھے ہیں جو باطل فتنوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔آج دیکھ لیں یہ سب خود ایک نیافرقہ بلکہ فتنہ بن چکے ہیں۔
امت کے اجماعی امور میں مجتہدین، محدثین ، فقہا کے خلاف اپنی رائے کو حرف آخر قرار دیتے ہیں۔ اسلاف پر زبان درازی میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں۔ امت مسلمہ کی اکثریت کی راہ سے الگ راہ اختیار کرتے ہیں ۔قران مجید نے واضح بتادیا :۔
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا۔ سورہ نساء115.
( اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo)
حق کی پہچان کیسے ہو ؟
حق کے پیغام سے اللہ کے محبوب خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ کی محبت آپ کے دل میں بھرنا شروع ہوجائے گی۔ دل بار بار دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش میں تڑپنے لگے گا۔ اللہ کے بندوں سے آپ کا دل اخلاص و محبت سے بھر جائے گا۔ میں سے میرا بھائی زیادہ عزیز لگنے لگے گا۔ اس کی صورت کو دیکھ کر اللہ کی یاد آئے گی۔جبکہ فتنوں کے پیغام ایسے مبارک اثرات سے خالی ہوتے ہیں ۔ ان کی گفتگو کے بعد عموما یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے پہلے سب علما غلط تھے۔ بلکہ زبان علما کی بجائے تضحیک سے ’’ مولوی ‘‘ بولنے لگتی ہے۔ سب مولوی جاہل ہیں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں باقی سب حقیر ہونے لگتے ہیں اور اس کی اپنی ذات پیاری اور حق پر دکھائی دینے لگتی ہے۔
آپ شاپنگ کرنے جائیں اور کوئی جاننے والا بتائے کہ فلاں دکان پر اگرچہ اصلی مال بھی ہوتا ہے لیکن وہاں دو نمبر مال بھی ملتا ہے۔ وہاں نقلی اشیاء بالکل اصلی کی مانند لگتی ہیں لیکن دو نمبر ہوتی ہیں۔ تو آپ وہاں اس لئے نہیں جاتے تاکہ دھوکہ نہ کھائیں اگرچہ وہاں اصلی مال بھی ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی نئے فتنے چرب زبانی سے اور ملمع سازی سے اپنا پیغام اس انداز میں دیتے ہیں کہ عام بندہ فورا ان کے دام میں پھنس جاتا ہے۔ اس لئے آپ ایسے فتنوں کے قریب ہی نہ جائیں ، انہیں سننے کے لئے وقت ہی برباد نہ کریں کیونکہ یہ آپ کا ایمان برباد کردیں گے۔
ایمان بچانا ہر مسلمان پر فرض یے۔ جیسے آپ شاپنگ میں اپنے مال کی حفاظت میں فراڈ سے بچنے کے لئے ہر جتن کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایمان بچانے کے لئے بھی جتن کی جئے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ »
اے اللہ! عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، مسیح دجال اور زندگی اور موت کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہوں اورقرض سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو قران مجید کی سورہ المتحنہ میں مذکور ہے وہ مانگنی چاھئے۔
رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ الممتحنہ ۴۔۵)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1