رِبا / سود

محمد ابوبکر صدیق

لیکچرر، انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد

February 9, 2021 

………………………………………………

ربا سے کیا مراد ہے؟ سود کیا چیز ہے؟ یہ دو الگ سوال نہیں ہیں بلکہ ایک ہی تصور  سے متعلق دو مختلف زبانوں کا ایک ہی سوال ہے۔  رِبا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں ترجمہ سود کیا جاتا ہے۔ انگلش میں اسے انٹرسٹ کہا جاتا ہے۔ اس طرح جتنی زبانیں اتنے نام والی صورت حال بنتی ہے۔ سودی نظام معیشت کے یار لوگوں نے اسے باقاعدہ ایک بحث بنا لیا کہ قرآن مجید میں تو ربا کو حرام کہا گیا ہے سود کو تو نہیں، اس لئے سود حرام نہیں ہے۔یا سود وہ ربا نہیں ہے جسے قرآن نے حرام کیا وغیرہ ۔ اسی سے ملتی جلتی ایک کہانی یہ بھی گھڑی جاتی ہے کہ قرآن مجید نے جس ربا کو منع کیا تھا وہ مہاجنی قرضوں پر لیا جانے والا سود تھا یعنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جو قرض اٹھایا جائے اس پر سود حرام ہے۔ لیکن تجارتی مقاصد کے لئے اٹھائے گئے قرض پر منافع وصول کرنا سود یا ربا نہیں ہے اس لئے یہ جائز ہے۔حتی کہ کچھ لوگ تو اس حد تک بھی آگے چلے گئے کہ یہ کہہ ڈالا کہ ایک ربا وہ ہے جسے قرآن نے  حرام کیا اور ایک وہ ہے جسے حضور نبی اکرم ﷺ نے حرام قرار دیا۔ اس طرح انہوں نے ربا کی دو قسمیں متعارف کرادیں: ربا القرآن (ربا الجاہلیہ، ربا القرض، ربا النساء) اور  رباالفضل ( ربا الحدیث ، ربا السنہ ، ربا البیوع )۔ربا سے متعلق یہ سب نظریات غلط ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے اجمالی انداز میں ربا کو حرام قرار دیا اور اس اجمال کی تفصیل کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ  نے صحابہ کرام کے  سامنے تفصیل بیان کی ۔تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے کہ ربا خواہ مہاجنی قرض پر ہو یا تجارتی قرض پر، اس کانام سود رکھیں یا قرض پر منفعت ، ربا القرآن ہو یا ربا الفضل سب کے سب قرآن مجید کی آیات کی رو سے ہی حرام ہیں۔ لہذا سود کا ایسا کوئی تصور  نہیں  جس کی حرمت کا اعلان  حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہو اور قرآن مجید نے اسے چھوڑ دیا ہو۔ ربا الفضل سے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب کی سب قران مجید کے ربا کی تفصیل کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید نے ربا کی تعریف نہیں کی اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی تفصیل بتائی بلکہ صرف اتنا کہا ’’ ربا حرام ہے، اے ایمان والو! ربا نہ کھاؤ ‘‘۔ صحابہ کرام کو چونکہ اس بارے میں مزید رہنمائی درکار تھی اس لئے حضور ﷺ نے اس کی تفصیل کے طور پر مختلف مقامات پر مختلف صحابہ کو مختلف الفاظ کے ساتھ ربا کی تفصیل سمجھائی جسے بعد کے دور میں ربا الفضل کی روایات کانام دیا جانے لگا۔لہذا ربا الفضل درحقیقت قرآن مجید کی آیات کی رو سے ہی حرام قرار پاتا ہے۔ اس لئے ربا کو ربا القرآن اور ربا الحدیث یا مہاجنی سود اور تجارتی سود جیسی اقسام میں تقسیم کرنا سراسر غلط ہے۔

انہی غلط نظریات پر یہ عمارت کھڑی کی گئی کہ’’ جناب !جب  خود فقہائے کرام ربا کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں تو ہم کیسےاسے  ملکی سطح پر ممنوع  قرار دے دیں‘‘۔اس طرح علمائے کرام کو یہ کہہ کر معاملے کو  ٹال دیا جاتا ہے کہ آپ پہلے ربا کی متفقہ تعریف لے آئیں۔ جب بنیادی اعتراض ہی غلط ہے اور معذرت کے ساتھ ہمارے علمائے کرام بھی اس طرف توجہ دئے بغیر تعریف پر دلائل دینے لگ جاتے ہیں، تو پھر معاملہ  کیسے سلجھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکام بالا اور اعلی عدلیہ کی خدمت میں یہ عرض کی جائے کہ جناب والا! ربا کی تعریف اور حرمت  کے معاملے میں فقہائے کرام میں کوئی اختلاف رائے نہیں سب کے نزدیک ربا حرام ہے۔ ہاں اختلاف ربا کے اطلاق پر وارد ہوا ہے کہ ربا اطلاق کس معاملے پر ہوگا اور کس معاملے پر نہیں۔ جب پوری امت ربا کی حرمت پر متفق ہے تو آپ اس اتفاق کو بنیاد بنا کر قانون کیوں نہیں بناتے کہ مملکت خداد پاکستان میں سود حرام ہے۔ رہی بات اطلاق کی تو اس پر علمائے کرام آپ کی رہنمائی کردیں گے کہ کن کن معاملات پر ربا کا اطلاق ہوتا ہے اور کن پر نہیں۔ لیکن یہاں تو ساری گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے ۔ فقہائے کرام کے سر وہ بات منڈھ دی جو انہوں نے کی ہی نہیں۔ اگر آپ کو واقعی فقہائے کرام کے متفقہ موقف کی مخلصانہ تلاش ہے تو وہ یہی ہے کہ سب کے نزدیک ربا حرام ہے اس لئے آپ قدم بڑھائے اور اس اتفاق پر فیصلہ دی جئے۔ 

 ربا سے متعلق اہم مقالات

 

 محققین اور طلبا کی آسانی کے لئے تاکہ وہ ربا سے متعلق شریعت کا درست فہم حاصل کرسکیں، میں یہاں دو لنک شیئر کر رہاہوں جن کا مطالعہ ربا کی درست تفہیم  میں معاون ہوگا۔ لنک نمبر ۱ ۔۔۔۔لنک نمبر۲

ساتھ ہی یہاں  کچھ اہم مقالات بھی  پیش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے وہ مقالات ہیں جن میں ربا سے متعلق غلط تصورات کو پیش کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیا  گیا ہے۔ان مقالات کو اگر اسی ترتیب سے پڑھا جائے تو  ربا کی تفہیم میں یہ بہت مفید ہوگا۔

۔1۔بیسویں صدی کی  اہم تعبیرات ِ ربا کا جائزہ (ڈاکٹر محمد طاہر منصوری)۔ سب سے پہلے اگر اس مقالے کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو ربا سے متعلق غلط تصورات کی تاریخ سے آگاہی ملے گی۔اس مقالے کا مطالعہ اس انداز میں کیا جائے ۔۔کلک کریں

۔2۔سود کے جواز پرجدید معیشت کی عقلی توجیہات اور جدید نظریات  (محمد ابوبکر صدیق)۔ اس مقالے میں جدید اکنامکس کے ان دلائل پر بات کی گئی جن کے تحت سود کو معقول بنانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ 

۔3۔فقہائے اسلام کے طریق ہائے کار پر ربا  کے تصور کی آسان تفہیم  (ڈاکٹر محمد زاہد صدیق اورڈاکٹر محمد مشتاق  )۔  ربا کی تفہیم سے متعلق یہ ایک  بہترین مقالہ ہے۔جگہ جگہ سوال قائم کیا گیا پھر اس پر بحث کی گئی اور یہ کمال ترتیب کے ساتھ کام کیا گیا جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اگرچہ یہ مقالہ انگلش زبان میں ہے لیکن انگلش بھی آسان فہم ہے۔ اردو      زبان میں یہ مقالہ جلد شائع ہوکر آجائے گا۔اس مقالے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ہر بحث میں جو اصول اخذ ہوتا ہے اسے ساتھ ساتھ لکھ دیا جاتا ہے۔

[UrduEnglish] یہ مقالہ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے

۔4۔پاکستان میں سود کے خاتمے کے لیے دستوری اداروں کی کوششوں کاتجزیاتی مطالعہ(ڈاکٹر حبیب الرحمن اور ڈاکٹر محمد اصغر شہزاد)۔ اس مقالے میں ربا کے خاتمے سے متعلق دستوری اداروں کی جانب سے کی گئی کاوشوں کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے۔

۔5۔تین دہائیوں سے زیر التوا  ربا  کا  کیس  اور وفاقی شرعی عدالت (ڈاکٹر محمد ایوب)۔ اس مقالے میں ربا کے خاتمے سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل دارآمد نہ ہونے کی وجوہات کا ذکر کیا گیا ، نیز یہ بھی بتایا گیا کہ کون سے ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔ ساتھ ہی وفاقی شرعی عدالت کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اگر چاہے تو اس  زیر التوا مقدمے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ 

 

          پارٹ -۱: سود کیا ہے؟