Adjustment of debt Receivable as Price of Goods Purchased

Question

What is your Shar’i opinion on the following case whether it is permissible?

It is permitted to sell a monetary debt for a commodity with spot delivery. For example, XYZ Bank extended Murabaha facilities to number of its customers. The aggregate value of Murabaha receivables is BD 300,000/. XYZ Bank wants to exit from the transaction because of delinquency issues. QRS Bank is willing to acquire these facilities for BD 275,000/-. Both the banks understand that sale of debt against cash is not allowed. Hence, QRS Bank will purchase specific commodities worth BD 275,000/-, and then it sells the commodity to XYZ Bank on spot Murabaha basis wherein the Murabaha price will be the Murabaha cost (BD 275,000/-) plus Murabaha profits (BD 25,000/-). XYZ Bank transfers its ownership claim in the underlying debt to QRS Bank and takes possession of the purchased commodity. XYZ Bank liquidates the commodity, as per its wish, and generates liquidity. Since the commodity will be sold, most likely, at the cost price, so XYZ Bank will realize BD 275,000 as sale proceeds. Kindly guide in the case as per Shariah principles.

Questioner: Muhammad Akmal, Lahore (March 15, 2023 / Shaʻban 23, 1444 AH)


Answer:

Yes the asked case is allowed as per shariah principles if the said case is completed in following process flow.

Scinario-1 – Debt Receivable

XYZ Bank (Creditor) and BD 300,000/ is its debt receivable that was resulted from credit Murabaha transaction. The client who purchased the asset on Murabahah is the debtor.

Scinario-2 – Debt adjustment as price

QRS Bank buys an asset worth BD 275,000/-, and then it sells the same asset to XYZ Bank on Murabaha (Purchased price BD 275,000 + Murabaha profits BD 25,000 = BD 300,000/. XYZ Bank takes the possession on asset and adjust its debt receivable BD 300,000/ as a price through transfer (Hawalah). To keep itself on secure side, QRS bank may stipulate the clause of recourse in case of non-payment from the debtor party of Scinario-1. This stipulation will enable QRS Bank to recourse the price BD 300,000/ from XYZ Bank.

Scinario-3 – Tawarruq

After buying the asset from QRS Bank, the XYZ Bank is allowed to sell the asset in market for any price, say, BD 275,000 to third party only which will be anonymous. It is known as tawarruq. If it is sold back to QRS Bank then it will be buy-back arrangement which is prohibited in Shariah.  AAOIFI Shariah Stranded no. 30, article 4/5 stated that “commodity (object of Tawarruq) must be sold to a party other than the one from whom it was purchased on a deferred payment basis (a third party) so as to avoid Inah”

 

Rationale

In Shariah perspective, debt receivable is an asset and is subject to Zakat (see AAOIFI Shariah standard no. 35, clause 5/3/1). Debt can become the price of a commodity. As mentioned in AAOIFI Shariah standards “if a guarantee is not stipulated in the agency contract and the agent voluntarily provides a guarantee to his clients independently of the agency contract, the agent becomes a guarantor in a different capacity from that of agent. In this case, such an agent will remain liable as guarantor even if he is discharged from acting as agent.”” (Shariah Standard no. 5, Clause: 2/2/2)Hence, debt can be adjusted as a price of a goods purchased. Allamah Ibn-e-Abdin Shami (AR) says that:

قَالَ الْحَمَوِيُّ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ نَقْلًا عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ ۔۔۔: إنَّ عَدَمَ جَوَازِ الْأَخْذِ مِنْ خِلَافِ الْجِنْسِ كَانَ فِي زَمَانِهِمْ لِمُطَاوَعَتِهِمْ فِي الْحُقُوقِ، وَالْفَتْوَى الْيَوْمَ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ عِنْدَ الْقُدْرَةِ مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ لَا سِيَّمَا فِي دِيَارِنَا لِمُدَاوَمَتِهِمْ الْعُقُوقَ

It was impermissible to receive anything else in repayment of debt during the time of the Mashaikhs (ancestor jurists), because they were unanimous in their rights. Nowadays, the fatwa is that when one is able to recover one’s debt, whether it is in any form but belong to debtor’s property, it is permissible to collect it.

[Ibn-e-Abdin Shami, Rad al-Muhthar Ali Al-Dur al-Mukhtar, (Dar al-Fikr, Beirut, 1992), Vol. 6, P: 151]

هذا عندي وماتوفيقي الا بالله

 

Dr. Muhammad Abubakar Siddique

absiddique111@gmail.com

March 15, 2023 / Shaʻban 23, 1444 AH


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام دریں مسئلہ  کہ  زید نے بکر سے اس شرط پر۰۰ ۵۰۰روپے  مانگے کہ میں فصل کٹنے پر  ۲۵۰ کلو گرام گندم  دوں گا اور خالدنے بکر سے ۵۰۰۰۰ روپے اس شرط پر مانگے کہ بازار میں جو گندم کا نرخ ہوگا اس حساب سے ۵۰۰۰۰ روپے کی   جتنے کلوگرام  گندم  بنتی ہوگی دونگا۔بکر نے کہا : اِس وقت تو میرے پاس  رقم  نہیں ہے البتہ  تم دونوں آج کے نرخ (۲۰۰ روپے فی کلو) کے حساب سے دونوں شخص پچاس پچاس ہزار روپے کی گندم لے جاؤ ۔دونوں شخص رضامندی سے اپنی اپنی  طے کردہ شرائط بالا  پر گندم لے گئے اور مارکیٹ میں  فروخت کرکے پچاس پچاس ہزار روپے حاصل کئے اور اپنے مصرف میں لے آئے۔ ایک ماہ بعد زید نے  حسبِ وعدہ فصل کی کٹائی پر ۲۵۰ کلو گرام گندم  اور خالد نے حسبِ وعدہ  نئے مارکیٹ کے نرخ (۱۸۰ روپے فی کلو )  کے حساب  سے تقریبا  ۲۷۷ کلو گرام واپس کی ۔ کیا یہ معاملہ شرع کے اصولوں کے مطابق ہوا؟  نیز یہ بھی بتائیے کہ اگر بکر زید اور خالد دونوں کو انہی کی شرائط کے مطابق گندم کی بجائے رقم دیتا تو کیا ایسا کرنا جائز ہوتا یا نہیں؟


جواب

یہ صورت مسئلہ بنیادی طور پر ۳ نکات پر مشتمل  ہے ۔

۱۔ زید نے بکر سے اس شرط پر۰۰ ۵۰۰روپے  مانگے کہ میں فصل کٹنے پر  ۲۵۰ کلو گرام گندم  دوں گا۔

۲۔ اور خالدنے بکر سے ۵۰۰۰۰ روپے اس شرط پر مانگے کہ بازار میں جو گندم کا نرخ ہوگا اس حساب سے ۵۰۰۰۰ روپے کی   جتنے کلوگرام  گندم  بنتی ہوگی دونگا۔

۳۔  ایک ماہ بعد زید نے  حسبِ وعدہ فصل کی کٹائی پر ۲۵۰ کلو گرام گندم  اور خالد نے حسبِ وعدہ  نئے مارکیٹ کے نرخ (۱۸۰ روپے فی کلو ) کے حساب سے ۲۷۷ کلو گرام واپس کی۔

 

یعنی صورت مسئلہ میں بکر دائن ہے جبکہ زید اور خالد مدین یعنی مقروض ہیں ۔زید اور خالد  نے بکر سے اُس وقت کے بیان کردہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق پچاس ہزار روپے  کے بدلے  گندم وصول کی جو کہ ۲۵۰ کلوگرام بنتی ہے۔ لہذا زید اور خالد پر ۲۵۰ کلوگرام کا دَین واجب الاداء ہوتا ہے۔

 زید نے جب کہا کہ وہ فصل کی کٹائی پر ۲۵۰ کلو گرام گندم  دے گا اور اس بات کو بکر نے قبول کیا ۔ تو یہ  سمجھا جائے گا کہ گویا دونوں  نے باہم رضامندی سے  ۲۵۰ کلو گرام گندم    کی قیمت پچاس ہزار روپے مقرر کر لی ۔ لہذا شرعاً زید پر مبلغ پچاس ہزار روپے یا ۲۵۰ کلو گرام گندم کا دین واجب ہوگیا۔ چونکہ زید نے حسب ِوعدہ ۲۵۰ کلو گرام گندم    واپس  کی ہے اس لئے اس کا معاملہ جائز ہے۔ کیونکہ جتنی مقدار گندم دین لی تھی اتنی مقدار ہی واپس کی ہے۔ لہذا یہ معاملہ سود سے پاک ہے۔

 جبکہ اس کے برعکس خالد نے ۲۵۰ کلوگرام گندم بطور دَین لی تھی اور واپسی  کے لئے جو شرط مقرر کی تھی کہ مستقبل میں جو ریٹ ہوگا اُس کے مطابق پچاس ہزار روپے کی گندم دے گا۔ اس شرط کی بدولت دو برائیاں در آئیں اول غرر کیونکہ مستقبل میں گندم کا کیا ریٹ ہوگا یہ مخفی ہے۔ دوسری  برائی سود ہے کہ اگر مستقبل میں مارکیٹ ریٹ کم ہوجاتا ہے  تو وصول شدہ  گندم (۲۵۰ کلوگرام)کی نسبت  زیادہ مقدار (۲۷۷ کلوگرام)میں گندم ادا کرنا ہوگی  جیسا کہ خالد نے کی۔ اس لئے بکر کا  ۲۷ کلوگرام اضافی گندم کی مقدار لینا سود ہونے کی بدولت  حرام و ناجائز ہے ۔ اور اگر اس کے برعکس گندم کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا تو گندم کی مقدار وصول شدہ سے کم ادا کرنا پڑتی اور یہ صورت بھی ربا بنتی کیونکہ قرض /دین  کا اصول یہ ہے :

:حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا. (اشرفی کے بدلے میں اشرفی دو تو اضافہ مت کرو اور روپے کے بدلے میں روپے دو تو اضافہ مت کرو)۔

[مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1212، رقم: 1588، بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي]

قرض کے اس اصول پر امام کاسانی ؒ لکھتے ہیں:

فَهُوَ أَنْ لَا يَكُونَ فِيهِ جَرُّ مَنْفَعَةٍ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يَجُزْ، نَحْوُ مَا إذَا أَقْرَضَهُ دَرَاهِمَ غَلَّةٍ، عَلَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ صِحَاحًا، أَوْ أَقْرَضَهُ وَشَرَطَ شَرْطًا لَهُ فِيهِ مَنْفَعَةٌ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ «نَهَى عَنْ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا» ؛ وَلِأَنَّ الزِّيَادَةَ الْمَشْرُوطَةَ تُشْبِهُ الرِّبَا؛ لِأَنَّهَا فَضْلٌ لَا يُقَابِلُهُ عِوَضٌ

قرض میں بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں  (مشروط ) منافع کیا حصول نہ ہو ۔اور اگر (یہ شرط موجود ہوئی ) توپھر ایسا قرض جائز نہیں ہے ۔مثال کے طور پر  جب کوئی شخص کسی کو کھوٹے  دراہم  اس شرط پر بطور قرض دے کہ مقروض اُن کی واپسی صحیح دراہم کی صورت میں کرے گا، یا اُسے کسی منفعت کی شرط پر قرض دے تو ایسا قرض ناجائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے “نفع بخش قرض کو حرام قرار دیا”؛ اور چونکہ مشروط اضافہ سود کی طرح ہے۔ کیونکہ یہ ایک  ایسا اضافہ ہے جو بلاعوض ہے۔

[الکاسانیؒ ، امام علاؤالدین ابوبکر بن مسعود (۵۸۷ھ)، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ( بیروت،دار الكتب العلمیہ، ۱۹۹۶)،۷: ۳۹۵]

اس معاملے کی ایک ممکنہ صورت

اس  معاملے کی  ایک یہ صورت  بھی ممکن تھی کہ بکر دونوں کو نقد رقم ادا کرتا اور واپسی کے لئے گندم  میں ادائیگی کی شرط لگاتا ، تو اس صورت میں یہ شرط باطل ہوتی اور زید اور خالد پر وصول شدہ رقم ہی کی ادائیگی لازم آتی۔کیونکہ جو مال  قرض یا ادھار کی شکل میں واجب الاداء ہوتا ہے ، اُس کی واپسی اُسی  جنس اور اسی مقدار میں ادا کرنا پڑتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث مبارکہ اور امام کاسانی کی عبارت سے مترشح ہے۔ ورنہ قرض کی مقدار میں برابری کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا  جیسے یہ شرط رکھنا کہ  پچاس ہزار روپے کے قرض  کی واپسی ۲۵۰ کلو گرام گندم  کی صورت میں ہوگی ۔ تو مختلف الجنس ہونے کی بدولت برابری کا قیام ممکن  ہی نہیں۔علامہ ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں: فَإِنَّ الدُّيُونَ تُقْضَى بِأَمْثَالِهَا فَيَثْبُتُ لِلْمَدْيُونِ بِذِمَّةِ الدَّائِنِ مِثْلُ مَا لِلدَّائِنِ بِذِمَّتِهِ فَيَلْتَقِيَانِ قِصَاصًا(کیونکہ دیون (قرض)  کو برابری کی بنیاد پر چکتا کیا جاتا ہے ۔پس مقروض کا  قرض خواہ پر اُتنا ہی ذمہ ثابت ہوتا ہے جتنا کہ  قرض دہندہ کا  مقروض پر۔ اس سبب دونوں پر برابری لازم آتی ہے )۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۴: ۳۲۰]

 اس لئے قرض میں یہ شرط رکھی ہی نہیں جاسکتی کہ نقد لے کر کسی دوسری  جنس میں واپسی ہو۔ لہذا ایسی شرط خود باطل متصور ہوگی۔  اما م ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں: الْقَرْضُ لَا يَتَعَلَّقُ بِالْجَائِزِ مِنْ الشُّرُوطِ فَالْفَاسِدُ مِنْهَا لَا يُبْطِلُهُ وَلَكِنَّهُ يَلْغُو شَرْطُ رَدِّ شَيْءٍ آخَرَ ( قرض کسی بھی جائز شرط کے ساتھ معلق نہیں ہوتا  تو شرط فاسد بھی  قرض کی صحت کو باطل نہیں کرسکتی ۔قرض کے بدلے دوسری چیز کی شرط بذات خود لغو ہوجاتی ہے)۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۵: ۱۶۵]

ہاں یہ ممکن ہے کہ قرض دیتے وقت ایسی شرط نہ رکھی جائے  لیکن وصول کرتے وقت مقروض کے پاس رقم نہ ہونے کی صورت میں قرض خواہ وصولی  کے دن والی قیمت کے مطابق اپنے قرض کی رقم کے بدلے کوئی چیز یا  جنس لے لے ۔

قَالَ الْحَمَوِيُّ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ نَقْلًا عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ ۔۔۔: إنَّ عَدَمَ جَوَازِ الْأَخْذِ مِنْ خِلَافِ الْجِنْسِ كَانَ فِي زَمَانِهِمْ لِمُطَاوَعَتِهِمْ فِي الْحُقُوقِ، وَالْفَتْوَى الْيَوْمَ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ عِنْدَ الْقُدْرَةِ مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ لَا سِيَّمَا فِي دِيَارِنَا لِمُدَاوَمَتِهِمْ الْعُقُوقَ

علامہ حموی نے شرح کنز میں  بحوالہ امام علامہ علی مقدسی  نقل کیا  ہے۔۔۔: (قرض میں )خلاف جنس وصول کرنے کا عدم جواز مشائخ کے زمانہ میں تھا کیونکہ وہ لوگ حقوق میں باہم متفق تھے۔ آج کل فتوی اس پر ہے کہ جب اپنے قرض  کی وصولی پر قادر ہو چاہے کسی بھی مال سے ہو تو وصول کر لینا جائز ہے۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۶: ۱۵۱]

اس معاملے کی  دوسری  ممکنہ صورت

اور اگر بکر دونوں کو رقم دے کر اُن سے گندم  کی خریداری کرتا تو یہ گندم کی ایڈوانس مکمل قیمت کی ادائیگی ہونے کی وجہ سے  بیع سلم ہوتی اور اُس صورت میں بیع سلم کی دیگر شرائط  کو دیکھا جاتا ۔ اگر وہ شرائط پوری ہوتیں تو بیع سلم جائز ہوتی ۔

 

هذا عندي وما توفيقي الا بالله العلي العظيم

 

ڈاکٹر محمد ابوبکر صدیق

 شعبان المعظم ۲۶، ۱۴۴ھ بمطابق مارچ ۱۹، ۲۰۲۳

absiddique111@gmail.com

http://islamicfina.com/


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام دریں مسئلہ  کہ  نقدی رقم بطور قرض  دے  کر کسی دوسری چیز یا جنس میں اُس کی وصولی کر سکتا ہے؟


جواب

اگر تو قرض  دینے والا اس بات کی شرط ابتداء سے لگائے گا تو یہ شرط بذات خود باطل ہوجائے گی کیونکہ قرض کے باب میں ایسی شرائط لغو متصور ہوتی ہیں اور قرض کو باطل نہیں کرتیں۔علامہ  ابن عابدین شامی ؒ لکھتے ہیں: الْقَرْضُ لَا يَتَعَلَّقُ بِالْجَائِزِ مِنْ الشُّرُوطِ فَالْفَاسِدُ مِنْهَا لَا يُبْطِلُهُ وَلَكِنَّهُ يَلْغُو شَرْطُ رَدِّ شَيْءٍ آخَرَ ( قرض کسی بھی جائز شرط کے ساتھ معلق نہیں ہوتا  تو شرط فاسد بھی  قرض کی صحت کو باطل نہیں کرسکتی ۔قرض کے بدلے دوسری چیز کی شرط بذات خود لغو ہوجاتی ہے)۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۵: ۱۶۵]

تاہم شرع میں اس بات کی اجازت ہے کہ  قرض دیتے وقت ایسی شرط نہ رکھی جائے   کہ قرض کی واپسی کسی دوسری جنس یا چیز میں ہوگی، لیکن وصول کرتے وقت مقروض کے پاس رقم نہ ہونے کی صورت میں دائن  اپنے قرض کی رقم کے بدلے کوئی چیز یا  جنس لے لے البتہ جو چیز یا جنس وصول کی جائے گی اس کی قیمت قرض  وصولی  کے دن والی مقرر ہوگی  اور وہ اپنے قرض کی رقم کے برابر کی قیمت کا حساب پورا کرے گا ورنہ اضافہ ربا/سود شمار ہوگا۔ 

قَالَ الْحَمَوِيُّ فِي شَرْحِ الْكَنْزِ نَقْلًا عَنْ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ ۔۔۔: إنَّ عَدَمَ جَوَازِ الْأَخْذِ مِنْ خِلَافِ الْجِنْسِ كَانَ فِي زَمَانِهِمْ لِمُطَاوَعَتِهِمْ فِي الْحُقُوقِ، وَالْفَتْوَى الْيَوْمَ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ عِنْدَ الْقُدْرَةِ مِنْ أَيِّ مَالٍ كَانَ لَا سِيَّمَا فِي دِيَارِنَا لِمُدَاوَمَتِهِمْ الْعُقُوقَ

علامہ حموی نے شرح کنز میں  بحوالہ امام علامہ علی مقدسی  نقل کیا  ہے۔۔۔: (قرض میں )خلاف جنس وصول کرنے کا عدم جواز مشائخ کے زمانہ میں تھا کیونکہ وہ لوگ حقوق میں باہم متفق تھے۔ آج کل فتوی اس پر ہے کہ جب اپنے قرض  کی وصولی پر قادر ہو چاہے کسی بھی مال سے ہو تو وصول کر لینا جائز ہے۔

[ابن عابدینؒ، رد المحتار على الدر المختار، ( دار الفكر، بيروت، ۱۹۹۲ )،۶: ۱۵۱]

هذا عندي وما توفيقي الا بالله العلي العظيم

 

ڈاکٹر محمد ابوبکر صدیق

 شعبان المعظم ۲۷، ۱۴۴ھ بمطابق مارچ ۱۹، ۲۰۲۳

absiddique111@gmail.com

http://islamicfina.com/