Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231

Notice: WP_Block_Type_Registry::register was called incorrectly. Block type names must contain a namespace prefix. Example: my-plugin/my-custom-block-type Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 5.0.0.) in /home/islahcyl/public_html/wp-includes/functions.php on line 5231
General Topics – Islamic Finance

 موت کیا ہے ؟

موت کیا ہے اور لفظ ’’میت ‘‘ سے کیا مراد ہے؟

محمد ابوبکر صدیق

لیکچرر،انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس

انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد

19 -02- 2021

……………………………..

موت کیا ہے ؟قرآن مجید میں ہے : کل نفس ذائقة الموت (ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے)۔قرآن مجید نے موت کو ایک ذائقہ قرار دیا ہے یعنی Taste . “ذائقہ” کیا ہے سب آگاہ ہیں اور کتنی دیر تک منہ میں باقی رہتا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں کہ چند لمحوں بعد ذائقہ ختم ہوجاتا ہے۔تو قرآن مجید نے تمثیلاً موت کو ذائقہ کہہ کر سمجھا دیا کہ موت ہمیشگی کی کیفیت کا نام نہیں بلکہ ایک وقتی حالت کا نام ہے جس کی مدت لمحوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
موت کس پر آنی ہے ؟
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہر آخری انسان خاص و عام نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔موت سے متعلق یہ وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام مسالک کا اتفاق ہےاور اس بارے  کسی کا بھی اختلاف نہیں رہا۔
قرآن کی آیت انک میت و انهم میتون  سے کیا مراد ہے؟
اہل سنت کے نزدیک اس کا معنی ہے :’’ اے حبیب کریم ﷺ  آپ نے انتقال فرمانا ہے اور ان (کفار) کو بھی مرنا ہے‘‘۔ آیت کریمہ میں آپ ﷺ اور کفار دونوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’میت‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل یوں سمجھیں۔
ہر زبان اور اس کے الفاظ کا اپنا پس منظر تناظر اور معنویت ہوتی ہے۔قران مجید عربی میں ہے۔ اس کے اردو ترجمے میں اردو لغت کے حساب سے ادب و اداب کے الفاظ کا چناو عربی لغت سے قدرے مختلف ہے۔عربی میں سامنے والے مخاطب کے لیے بلا تخصیص 
تو تم آپ‘  یعنی واحد مخاطب  کے لیے ایک ہی صیغہ’ انت‘ استعمال ہوتا ہے۔ وہاں بیٹا باپ کو ’ انت ‘کہتا ہے اور بالکل درست ہوتاہے۔ البتہ وہاں ادب و آداب کا پتہ اندازِ تکلم اور آواز کی پستی اور بلندی سے ہوتاہے۔جبکہ اردو میں بیٹا باپ کو بڑے پیار سے دھیمی آواز میں سینے پر ہاتھ رکھ کر بھی ’’تو یا تم ‘‘ کہے گا تو فورا منہ پر تھپڑ پڑے گا اور دو چار گالیاں الگ سے۔زبانوں اور ان کے الفاظ کے اسی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ذرا  آگے پڑھیں۔
عربی میں ’ میت ‘ اسے کہا جاتا ہے جس پر موت آنی ہو اور یہ بر حق ہے۔کیونکہ عربی میں یہ لفظ خاص و عام ہر دو کے لیے بولا جاتا ہے۔جبکہ اردو میں میت  کا لفظ’مردہ ‘ کے لیے بولا جاتا ہے۔اردو زبان کے ماحول اور معاشرے میں  لفظ’مردہ ‘ ایسا لفظ ہے جو ہر ایک کے لیے نہیں بولا جاتا۔ مبارک شخصیات ہوں تو ان کے لیے کیا جاتا ہے ’’ فلاں انتقال فرما گئے اور ان کے جسم کو غسل دے دیا‘‘۔ عامی ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ’’ فلاں مر گیا اور مردے کو غسل دے دیا‘‘۔ یہ اردو زبان کے معاشرتی عرف کا تقاضا ہے۔چونکہ لفظ  مردہ اور مرنا  میں بے ادبی کا پہلو بھی ہے۔اس لیے آیت کے ترجمہ میں حد درجہ احتیاط کی جاتی ہے کہ یہاں کسی عام ذات کا نہیں بلکہ سید الانبیا حضرت محمد مصطفی کریم ﷺ کا مبارک  ذکر ہے۔
اسی لیے اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ نےاس آیت کے ترجمے   میں حضور نبی رحمت ﷺ کے لیے لفظ مرنا کی بجائے ’’ انتقال فرمانا ہے ‘‘  لکھا ہے۔ جو شان رسالت مآبﷺ کے لیے مناسب ترین لفظ ہے۔اور کفار کے لیے ترجمہ کیا  وہ بھی مرنے والے ہیں۔
کیا انسانوں پر یہ موت ہمیشہ رہتی ہے؟ اور قبر میں وہ مردہ و بے جان ہوتے ہیں ؟
اہل سنت (حنفیہ مالکیہ شافعیہ اور حنبلیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ عام انسان خواہ مسلمان ہو یا کافر مرنے کے بعد قبر میں اس کے جسم میں روح کو لوٹا کر زندہ کیا جاتا ہے۔اور یہ قبور میں زندہ کیا جانا قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے سے یوں مختلف ہے کہ قیامت کے دن یہی جسم روح کے ساتھ قبروں سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔جبکہ قبر کی زندگی جسم و روح کے مابین صرف ایک تعلق کی بدولت ہوتی ہے۔گویا موت ہمیشگی کی حالت کا نام نہیں ہے۔مرنے کے بعد انسان کا جسم جہاں پہنچے اسے قبر بنادیا جاتا ہے۔ دریا کی تہہ میں ڈوبنے والے کے لیے وہی جگہ قبر ہے۔ درندہ انسان کو کھا جائے تو اس کا پیٹ ہی اس کی قبر ہے۔ اس کا تعلق قدرت باری تعالی سے ہے جو ہر قادر مطلق ہے۔مرنے کے بعد انسان میں روح لوٹائی جاتی ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتا ہے جس کے بعد اسے دوبارہ موت دی جاتی ہے۔ لیکن جسم اورر روح میں اس طرح کا تعلق پیدا کردیا جاتا ہے کہ جس سے اُسے عذاب کی صورت میں تکلیف اور ثواب کی صورت میں خوشی کا احساس ہوتا رہتا ہے اور یہ قیامت تک جاری رہتا ہے۔جملہ مومنین و مومنات اور کفار کی قبر کی زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے۔برزخی زندگی انسان کے اعمال کے اعتبار سے مختلف مراتب کی ہوتی ہے۔مومنین، کفار مشرکین اور منافقین تمام مرنے کے بعد زندہ کیے جاتے ہیں ۔ وہ مردہ نہیں ہوتے۔
کیا اہل قبور سنتے ہیں  اور انہیں باہر والوں کے کسی عمل سے تکلیف یا خوشی ملتی ہے؟
قاضی شوکانی کہتے ہیں : مطلق ادراک ، علم اور سننا تمام اہل قبور کے لیے ثابت ہے۔اہل قبور قرات قرآن کو سن کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں راحت ملتی ہے۔ ان کی قبور کے پاس اگر گناہ کیے جائیں تو ان سے انہیں اذیت ہوتی ہے۔ امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب کا یہی عقیدہ ہے۔علامہ ابن قیم احادیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ وہ اہل قبور کو خطاب کرتے ہوئے سلام کہیں السلام علیکم دار قوم مومنین یعنی تم پر سلام ہو اے مومن قوم کے گھر والو۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کسی پتھر کو خطاب کیا جائے یا ایسے شخص کو جو موجود ہی نہ ہو۔علامہ ابن قیم لکھتے ہیں: سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے اور ان سے تواتر کے ساتھ ایسے اقوال مروی ہیں کہ میت کو زیارت کرنے والے کا علم بھی ہوتا ہے اور وہ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں۔
ا حیات الانبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت ( حنفیہ مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ)  کا عقیدہ
اہل سنت کے نزدیک انبیا ءعليهم الصلوة والسلام اپنے اپنے وصال مبارک کے بعد اپنی قبور میں اپنے جسم اصلی کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی اس مبارک زندگی کا شعور اہل دنیا کو نہیں ہوتا۔ وہ اللہ تعالی کی اجازت سے اپنے جسم مثالی کے ساتھ جہاں تشریف لے جانا چاہیں جا سکتے ہیں ۔ کسی انسان کو جاگتے میں تو کسی کو خواب میں اپنی زیارت سے مشرف کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے جسم اصلی کے ساتھ بروز محشر اپنے مزارات مقدسہ سے باہر تشریف لائیں گے۔
قران مجید اور سنت کی نصوص سے احکام ، عقائد وغیرہ کو چار طریقوں سے وضع کیا جاتا ہے۔ عبارۃ النص، اشارة النص، دلالة النص اور اقتضاء النص۔حیات الانبیاء کا ثبوت قرآن مجید کی بیشتر آیات میں پایا جاتا ہے۔جن میں سے چند ایک ذیل میں مذکور ہیں۔
وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ (45) الزخرف
ترجمہ: اور آپ ﷺان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت کے الفاظ(گزشتہ انبیاء سے پوچھ لی جیے ) سے انبیا ءعليهم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ یعنی گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں تو فرمایا جارہا ہے کہ اے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ خود ان سے پوچھ لیں۔ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو کیا اللہ جل مجدہ یوں کلام فرماتا۔
مولانا سید انور شاہ کشمیری ؒ اسی آیت کی تشریح میں  لکھتے  ہیں: یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) ۔ان کے علاوہ امام جلال الدین سیوطیؒ، امام محمد ثناء الله پانی پتیؒ، امام شہاب الدین آلوسیؒ، امام عبد الله بن أحمد بغویؒ نے بھی یہی بات کہی ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام  زندہ ہوتے ہیں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ (السجدہ: 23) ترجمہ: اور دی ہم نے موسی کو کتاب، پس (اے نبی ﷺ) اُن سے ملاقات سے متعلق میں شک میں نہ ہوں۔حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی ؒ نے اس تفسیر میں فرمایا ہے کہ حضور ﷺمعراج میں اُن سے ملے تھے۔ (موضح القرآن، تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین ص350،تفسیر خازن جلد 3ص479)
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام سے ملے اور ملاقات بغیر حیات ممکن نہیں۔ لہٰذا اقتضاء النص سے حیات الا نبیاءکو ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اصول فقہ کا یہ مسلمہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو حکم اقتضا النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالت انفراد وقوت استدال میں عبارة النص کے مثل ہوتا ہے۔
شہدا کی زندگی سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (154) البقرہ(اور وہ جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ نہ کہو۔ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں )۔
سورہ آل عمران میں مزید وضاحت کی گئی: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ.(آل عمران آیت 169) (اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اپنے رب سے رزق پاتے ہیں)۔ان آیات کریمہ سے استدلال
1۔ شہدا کی یہ کمال عظمت ہے کہ انہیں موت کا ذائقہ چکھنے کے باوجود “مردہ” کہنا تو دور، مردہ گمان کرنے سے بھی منع کردیا گیا۔ اور ان کی حیات جاوداں کا ثبوت دینے کے لیے اللہ نے انہیں رزق کھلانے پلانے کا فرمان جاری کیا تاکہ ان کی حیات میں کسی کو شک و شبہ نہ رہے۔ اللہ جل مجدہ کے قرب میں عبدیت کی عظمتوں اور رفعتوں میں شہدا کا مقام کیا ہے؟ قرآن مجید کی سورہ النساء میں اللہ نے اپنے مقبول بندوں کی ترتیب کچھ یوں بیان فرمائی ہے:مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا (69) پہلے نمبر پر انبیاء کرام علیہم السلام کا درجہ ہے،دوسرے نمبر پر صدیقین کا،تیسرے نمبر پر شہدا کا،چوتھے نمبر پر صالحین کا، گویا اللہ کے جو بندے تیسرے درجے پر ہیں ان کی عظمتوں پر قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ موت کی وادی سے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ رزق بھی پاتے ہیں۔تو پھر اقتضاء النص اور اشارة النص سے اہل عقل کے لیے کیا اب بھی واضح نہیں ہوجاتا کہ جو مبارک گروہ بارگاہ لایزال میں مقبولیت کے اولین منصب اور درجے پر فائز ہیں ان کی حیات جاوداں اور رزق پانے کا عالم کیا ہوگا۔ایک امتی جن کے نام پر، جن کے پیغام پر اپنی جاں جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے حیات جاوداں کا تاج اپنے سر پر رکھتا ہے تو سوچیں ان مبارک انبیاء کرام علیہم السلام کا عالم کیا ہوگا۔
اب سوچیں کہ وہ مبارک جو اولین منصب میں بھی اعلی ترین مقام ، مقام ِمحبوبیت پر فائز ہے جو ثم دنی فتدلی کی بلندیوں سے بھی آگے قاب قوسین کی آغوش قربت تک جا پہنچا ۔ بدر کے معرکہ حق و باطل میں عرب کے کڑیل جوان جام شھادت نوش کرنے سے قبل زخموں سے چور چور گھسٹ گھسٹ کر جس کے قدمین شریفین کو بوسہ دے کر ” فزت برب کعبہ” کا نعرہ مستانہ بلند کرنے کو ہی دنیا و آخرت کی کامیابی گردانتے ہوں۔ احد کے معرکے میں عرب کے جری جنگجو بہادر جواں مرد جس نور کے پیکر کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو پھر سے اکٹھے ہو جائیں ۔ گویا حیات ابدی کی سعادتیں جس مبارک کے اشارہ ابرو کی منتظر ہوں اس مبارک کی اپنی حیات جاوداں کا عالم کیا ہوگا ۔ کیا کسی امتی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے!
شہدا سے متعلق آیات کریمہ کے بارے میں محدث کبیر شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (852ھ)نے فرمایا: ہمارے نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات تمام انبیاء کو نماز میں امامت کروائی اور آپ ﷺ نے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز ادا کرتے دیکھا ۔ پھر وہ مسجد اقصی میں بھی حضور ﷺ کے پیچھے نماز میں موجود تھے اور آسمان میں بھی حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ اس سب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیا علیھم السلام زندہ تھے تو یہ سب ہوا ۔ لہذا انبیا ئے کرام وفات کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل بھی کرتے ہیں ۔ فَإِنَّهُ يُقَوِّيهِ مِنْ حَيْثُ النَّظَرِ كَوْنُ الشُّهَدَاءِ أَحْيَاءٌ بِنَصِّ الْقُرْآنِ وَالْأَنْبِيَاءُ أَفْضَلُ مِنَ الشُّهَدَاءِ (مندرجہ بالا آیت سے شہیدوں کی زندگی کا پتہ چلتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ انبیا شھداء سے افضل ہیں) ۔ (فتح الباری جلد 6ص488)۔قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی (م1225ھ) فرماتے ہیں: فذهب جماعة من العلماء إلى ان هذه الحيوة مختص بالشهداء والحق عندى عدم اختصاصها بهم بل حيوة الأنبياء أقوى منهم وأشد ظهورا اثارها في الخارج حتى لا يجوز النكاح بأزواج النبي صلى اللّه عليه وسلم بعد وفاته بخلاف الشهيد. (تفسیر مظہری ج:1ص:152)۔یعنی بعض علماء کے نزدیک اس آیت میں جس حیات کا ذکرہے وہ صرف شھداء کو ملتی ہے۔ لیکن صحیح قول کے مطابق انبیاء کو حیات شھداء سے بھی بڑھکر ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ شھید کی بیوی سے نکاح جائز ہے مگرنبی کی بیوی سے جائز نہیں۔
امام حافظ محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی (م902ھ)، علامہ جلال الدین سیوطی (م911 ھ)، کے علاوہ دیگر بڑے جید محدثین اور مفسرین کا یہی عقیدہ ہے کہ رزق صرف زندوں کو ملتا ہے مردہ کے لیے رزق کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ اگر شہدا کو رزق ملتا ہے تو کیا انبیا کو نہیں ملتا ہوگا۔
امام ابن ماجہؒ روایت کرتے ہیں :حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؛ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ، تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا» قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: «وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ»۔ترجمہ: ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب ؒ نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ حضرت ابوالدراد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : حضور نبی کریم ﷺ نے ارشادفر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ قال قلت بعد الموت قل و بعد الموت ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اﷲ حی یرزق فرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو اﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے ۔ اس کو رزق ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث 1637) ۔
مسند البزار اور مسند ابو یعلی میں حدیث مبارکہ ہے:عَن أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ يُصَلُّونَ فِي قُبُورِهِمْ.(حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا انبیاء زندہ ہیں اور اپنی قبور میں نماز ادا کرتے ہیں)۔
یہاں صرف عقیدے کا خلاصہ پیش کیا  گیا ہے تاکہ اہل سنت کے عام احباب کو معلوم ہوسکے کہ اس بارے میں اہل سنت کا عقیدہ کیا ہے۔ان عقائد کی بنیاد قرآن وسنت کے قوی واضح اور بین دلائل ہیں جو کتب کے اندر موجود ہیں۔ لیکن یہاں طوالت سے بچنے کے لیے پیش نہیں کیے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

وفا کیش شاگردِ ضیاء الامتؒ

 وفا کیش شاگردِ ضیاء الامتؒ

محمد ابوبکر صدیق

1/1/2021

…………………

حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ کے پہلے شاگردوں میں سے ایک استاذالعلما ء اور شیخ الادب العربي حضور ملک عطاء محمد صاحب زید مجدہ ۔

آپ دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں عربی ادب کے شیخ ہیں۔ آپ نے مختلف علوم صرف نحو بلاغت کے علاوہ دیگر اہم اسباق العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ البتہ اب صرف العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی مقامات الحريرى اور ریاض الصالحین پڑھاتے ہیں۔

آپ بہت ہی نرم خو اور شستہ لہجے کے مالک ہیں۔ بڑی اپنائیت سے گفتگو کرتے ہیں۔ موانست ایسی کہ اجنبی بھی خود کو ان سے پہلے سے آشنا سا محسوس کرتا ہے۔ بڑے ہی مشفق اور خوش گفتار ہیں۔ عربی ادب کی بدولت آپ کی حس مزاح خوب ہے۔

ہمیں آپ سے العبرات ، دیوان حماسہ دیوان متنبی اور مقامات الحريرى کے اسباق میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف ملا۔

تدریس ادب عربی میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ تدریس کے وقت آپ کے سامنے کتب کھلی نہیں رہتیں۔ کیونکہ آپ کو یہ کتب ازبر ہیں۔ العبرات جیسی ادق کتاب کے ہر لفظ پر مترادفات ازبر تھے۔ الفاظ کا صلہ بدلنے سے کیا معنی بنتا ہے تفصیل سے بتاتے ۔ نثر میں الفاظ کے استعمال کے لیے عربی اشعار پیش کرتے ۔ ہم کہا کرتے تھے استاد چلتی پھرتی “” لسان العرب “” ہیں۔

حماسہ متنبی پڑھاتے تو کمال سے مختلف شعرا کے ساتھ کلام کا موازنہ کرتے اور یہاں تک بتاتے کہ یہ ترکیب کس شاعر نے کہاں استعمال کی ہے۔ حتی کہ مختلف شعرا کے اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد کے کلام پر سیر حاصل گفتگو فرماتے۔ مقامات الحريري میں بھی یہی درک رکھتے ہیں۔

ان مخلصین امت کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ 2018 کی گرمیوں میں ایک بار میں راولا کوٹ کشمیر گیا۔ تو وہاں دار العلوم بھیرہ شریف کی برانچ میں حاضر ہوا ۔ تو آپ وہاں تشریف لائے ہوئے تھے اور اسباق پڑھا رہے تھے۔ میں نے عرض کی حضور دارالعلوم بھیرہ شریف میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور آپ آرام کرنے کی بجائے یہاں پڑھانے آگئے۔ تو مسکرا کر فرمایا “”” ہمارا آرام اب ان کتابوں کی تدریس میں ہے۔ تعطیلات کے دوران ادارے کے خالی کمرے کھانے کو آتے ہیں۔ میں جب تک اسباق نہ پڑھاوں سکون نہیں ملتا۔ بس یہاں اس برانچ میں چھٹیاں نہیں ہوتیں تو یہ مجھے یہاں لے آئے۔””

حضور ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ کیونکہ آپ کے اولین شاگردوں میں سب سے چھوٹے تھے جنہیں شفقت کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ آپ فرماتے ہیں میرے پاس صرف ایک بھینس تھی جس کا دودھ میرے گھر کے لئے کافی ہوتا تھا۔ ایک دن وہ مر گئی تو دل رنجیدہ ہوا۔ فرماتے ہیں اس وقت میرا گھر دار العلوم سے تھوڑا فاصلے پر تھا۔ رات کو دیر سے اچانک دروازے دستک ہوئی تو دیکھا حضور ضیاء الامت سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ” میں نے سوچا میرے ملک عطا کی بھینس تو مرگئ ہے پھر ملک عطا دودھ کیسے پئے گا۔ اس لئے میں اپنے ملک عطا کے لئے اپنے باڑے سے ایک بھینس لے آیا ہوں یہ لو اب یہ تمہاری ہے”۔ استاد صاحب فرماتے ہیں اس وقت حضور ضیاء الامت شرعی عدالت کے جسٹس تھے اور اس دن اسلام آباد تھے اور جب رات کو دیر سے واپس بھیرہ شریف گھر تلاش لائے اور انہیں میری بھینس کے مرنے کا پتا چلا تو پھر وہ اپنے باڑے گئے اور خادم سے کہا میرے باڑے میں سب سے بہترین بھینس کون سی ہے۔ خادم نے بتایا تو حضور ضیاء الامت خود بھینس کی رسی اپنے ہاتھ میں لئے بھیرہ کی گلیوں سے گزرتے تشریف لائے ۔ خادم و مرید عرض کرتے رہے حضور رسی ہمیں دے دیں ہم لے چلتے ہیں۔ لیکن آپ نہ مانے اور خود تشریف لے آئے۔ ۔۔۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد استاد محترم کی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا “” میرے کریم مرشد نے مجھ سے اتنی محبت کی کہ مجھے خرید لیا۔ ہے کوئی ایسا پیر جو لینے کی بجائے دیتا ہو۔ہے کوئی ایسا مہتمم جو اتنے بڑے منصب پر ہوکر بھی اپنے ادارے کے اساتذہ سے اس قدر محبت کرتا اور ان کی عزت کرتا ہو۔ یہ اخلاق و محبت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ مخلص بندے کا ہوتا ہے۔ انہی محبتوں سے پیر صاحب نے ہمیں خرید لیا تھا۔””

یہ ہیں وہ با کمال لوگ کہ جنہوں نے دین متین کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اور کر رہے ہیں۔

اللہ پاک استاد محترم کا سایہ ہم پر سلامت رکھے اور امت ان سے فیض یاب ہوتی رہے۔ آمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

ایک جرات مند اور باوقار عالم

ایک جرات مند اور باوقار عالم دین

محمد ابوبکر صدیق

1/1/2021

…………………

اہل حق علما ءمیں سے انتہائی قابل لیکن  بہت ہی کم  علماء ایسےبھی ہوتے ہیں جو اس وجہ سے ایوان اقتدار کے پاس پاس رہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اگردیگر اہل حق کی طرح وہ بھی وہاں سے دوری اختیار کر لیں تو اہل اقتدارابلیسی قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جائیں گے اور مملکت خدادا میں احکامات الہی پامال ہونے لگ جائیں گے۔دینی شعار کے ناقدری معمول بن جائے گی۔اگر وہ کسی عہدے پر فائز ہوں تو وہ خود بخود اس عہدے سے الگ بھی نہیں ہوتے کہ کہیں ان کے بعد اس عہدے پر کوئی ناہنجار براجمان ہو کر احکامات الہی کی من مانی تعبیرات کرتے ہوئے اہل دنیا کی خوشنودی حاصل کرتا رہے۔ علمائے حق کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اہل اقتدار کے قریب رہ کر بھی کبھی اُن کی شان و شوکت سے مرعوب نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے دل میں ایک کی ناراضگی کا خوف ہوتا ہے۔ وہ بلا کسی لومۃ لائم اپنے فیصلے شرعی اصولوں کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ عہدے چھن جانے کے خوف سے وہ احکامات الہی سے ہٹ کر کوئی فیصلے نہیں کرتے ۔ بلکہ جب جب اور جہاں جہاں انہیں دیگر حکومتی ایوانوں میں احکامات الہی کی خلاف ورزی نظر آتی ہے تو وہ آوازہ بلند کرنے کا حق ادا کرتے ہیں۔


حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ شہید ہو گئے لیکن منصب خلافت سے دستبردار نہ ہوئے کیو نکہ انہیں حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ “عثمان اللہ آپ کو ایک قمیص عطا کرے گا اور لوگ کہیں گے وہ قمیص اتار دو تو آپ اسے نہ اتارنا”۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی منصب آپ کو آپ کی طلب کے بغیر ملے اور آپ اس عہدے پر رہتے ہوئے احکامات الہی کے مطابق فیصلے کریں اور لوگ اس بات سے خفاء ہو کر مطالبہ کریں کہ آپ خود اس عہدے سے دستبردار ہوجائیں تو آپ ایسا نہ کریں کیونکہ اہل ہوس و نفس اس عہدے پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں جو اس عہدے پر اہل دنیا کی خوشنودی کے لئے احکام الہی کو پیچھے چھوڑ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔


امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد امام ابو سلیمان داؤد ابن طائی ؒ اپنے ہم مکتب دوست قاضی امام ابویوسف ؒ سے خفا تھے اور ملاقات نہیں کرتے تھے ۔ ایک دن خلیفہ ہارون رشید نے امام ابویوسف ؒ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ داؤد ابن طائی ؒ سے ملاقات کرنا چاھتے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں داؤد ابن طائی ؒ کے گھر گئے ۔ ایک دروازے سے وہ داخل ہوئے تو داؤد ابن طائی ؒ دوسرے دروازے گھر سے نکل گئے۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام ابو یوسفؒ سے پوچھا کہ ان سے ملاقات کی صورت کیسے بن سکتی ہے؟ امام ابویوسف ؒ نے کہا کہ ان کی والدہ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ انہیں ہم سے ملاقات کا حکم دیں تو ہی وہ ہم سے ملیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ملاقات ہوئی تو خلیفہ نے کہا کچھ ضرورت ہو تو حکم کریں ۔ انہوں نے کہا ضرورت ہے لیکن آپ سے نہیں بلکہ اپنے رب کریم سے ہے۔ امام ابویوسف ؒ نے پوچھا کہ مجھ سے کیوں خفاء ہیں؟ تو امام داؤد ابن طائی ؒ نے فرمایا ہمارے استاذ امام اعظم نے تا زیانے کھا کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کرالیا مگر مسندِ قضا (چیف جسٹس کے عہدے) کو قبول نہ کیا اس لیے تمہیں بھی ان کی اتباع کرنی چاہیے تھی اور یہ منصب قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس پر امام ابویوسف ؒ نے جواب دیتے ہو فرمایا: داؤد اگر میں بھی یہ عہدہ قبول نہ کرتا اور اسے کسی اہل دنیا کے لئے خالی چھوڑ دیتا کہ وہ احکامات الہی کے خلاف فیصلے کرتے پھریں تو پھر مجھے بتاؤ میں اپنے رب کے حضور کیا جواب دیتا! اس جواب پر امام داؤد ابن طائی ؒ کو تشفی ہوئی اور وہ راضی ہوئے کہ اگر یہ نیت ہے تو پھر آپ نے درست کیا۔


شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک طاقتور قبیلہ تھا جس نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کر کے چند شرائط کے تحت اسلامی قلمرو میں شامل ہونا منظور کیا اور حضرت عمرؓ نے یہ شرائط منظور کر لیں۔عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور میں کسی سیاسی مصلحت کی خاطر اس معاہدہ کو منسوخ کرنا چاہا۔ ہارون الرشید کا خیال تھا کہ معاہدہ منسوخ کر کے بنو تغلب پر فوج کشی کی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مشورہ کے لیے حضرت امام محمدؒ کو بلایا اور خلوت میں ان کے سامنے اپنا ارادہ بیان کر کے ان سے مشاورت چاہی۔ امام محمدؒ نے فرمایا کہ چونکہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو امان دے رکھی ہے اس لیے ان کے خلاف فوج کشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس شرط پر بنو تغلب کو امان دی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بپتسمہ نہیں دیں گے یعنی انہیں عیسائی بنانے کی رسم ادا نہیں کریں گے جبکہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔ امام محمدؒ نے جواب دیا کہ بچوں کو بپتسمہ دینے کے باوجود حضرت عمرؓ نے اس معاہدہ کو برقرار رکھا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ کو بنو تغلب کے خلاف فوج کشی کا مناسب موقع نہیں ملا تھا اس لیے وہ ایسا نہ کر سکے۔ امام محمدؒ نے جواب میں فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے پاس موقع تھا لیکن انہوں نے معاہدہ کی پاسداری کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو غیر مشروط امان دی تھی اس لیے اس معاہدہ کو توڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امام محمدؒ کے اس جواب پر ہارون الرشید سخت ناراض ہوا اور انہیں اپنے سامنے سے اٹھ جانے کا حکم دیا۔ لیکن اس ناراضگی کے باوجود خلیفہ ہارون الرشید کو بنو تغلب کے ساتھ حضرت عمرؓ کے معاہدہ کو توڑنے اور ان کے خلاف فوج کشی کا حوصلہ نہیں ہوا۔


رؤیت ہلال کمیٹی کے چیرمین کا عہدہ دنیوی مال و دولت کے حوالے سے اگرچہ کوئی خاص عہدہ نہیں ہے۔(اگر کسی نے اس عہدے کی مراعات دیکھنی ہوں تو وہ یہاں کلک کر کے دیکھ سکتا ہے)۔ لیکن اسلامی نظام عبادات کے حوالے سے یہ ایک انتہائی اہم عہدہ ہے۔ جس سے اہل ہوس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ شرعی احکامات کی بجائے ان کی خواہشات کے مطابق چاند برامد کیا جائے ۔ ۱۹ سال تک یہ عہدہ مفتی اعظم پاکستان جناب عزت مآب مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس رہا ۔ اس عرصے میں دیسی لبرلز ، مختلف حکومتوں کے مختلف وزراء اور دیگر چنیدہ حلقے ان کے خلاف نبرد آزماء رہے ، صحافت کی دنیا میں ایک دو نام ان کے خلاف سفلی سطح تک گر کر بھی حملے کرتے رہے ۔لیکن مفتی صاحب پر عزم رہے اور باوقار انداز میں اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہے۔انہوں نے بارہا میڈیا پر آ کر کہا کہ حکومتی ایوانوں میں براجمان وزراء کو میرے عہدے سے متعلق مالی معلومات تک رسائی ہے اگر وہ چاہیں تو انہیں عوام تک لائیں اور دکھائیں کہ انہوں نے اس عہدے سے کیا کیا مالی مفادات حاصل کئے ہیں۔ حکومتی مخالفین ایسا اس لئے نہ کرسکے کہ وہ بھی بخوبی  علم رکھتے تھے کہ مفتی صاحب کا کردار صاف ہے۔مفتی صاحب  کے پیش نظر صرف اور صرف یہ بات تھی کہ اگر وہ یہ عہدہ چھوڑدیں گے تو پھر شاید علمائے حق کے ہاتھ سے یہ ایک واحد عہدہ جو علمائے حق کو ایوان اقتدار سے جوڑے رکھتا ہے اور جس کے ذریعے اہل اقتدار تک احکامات الہی کی صدائیں پہنچائی جاسکتی ہیں ، چھن جائے گا۔ اس لئے مطالبات کے باوجود انہوں نے یہ عہدہ نہ چھوڑا۔ لیکن میں یہاں کہوں گا کہ ہماری سیاست کا کوئی ایسا عہدہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر مخالفین کی جانب سے اسے چھوڑنے کا مطالبہ نہ کیا جاتا ہو۔ وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک بے شمار عہدے ہیں جن کے بارے میں روز یہ سننے کو ملتا ہے کہ استعفی ٰ دے دیں تو کیا وہ استعفیٰ دے دیتے ہیں! اسلام آباد میں مہینوں پر محیط تاریخی دھرنے بھی ہوئے کیا کسی نے استعفی دیا؟ جب لوگ دنیوی دولت اور شہرت کی لالچ میں اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو وہاں ایک صاحب کردار اور باوقار جید عالم دین احکامات الہی ، حدود الہی اور شرعی مقاصد کے تحفظ کے پیش نظر چند مخالفین کے مادی مفادات کو پورا کرنے کے لئے ایک ایسے عہدے کو کیوں چھوڑتا کہ جس سے کوئی مالی مفاد بھی وابستہ نہ تھا ۔


مفتی صاحب کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت ہے۔ میڈیا پر جہاں بڑے بڑے نام نہاد مفکرین ذرا سے اختلاف پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ وہاں مفتی صاحب کا متانت کے ساتھ شستہ لہجے میں باوقار انداز میں مخالف کو جواب دیناصرف انہی کا ہی خاصہ ہے۔ ان ۱۹ سالوں میں وہ حکومتی عہدے پر رہتے ہوئے بھی کئی مواقع پر مختلف حکومتوں کے وزراء سے نبرد آزما رہے اور ان کے خلاف صدائے حق بلند کی ۔جنہیں عہدوں  کے چھن جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہو یا عہدوں کی کوئی لالچ ہو تو وہ   یوں سود و زیاں کے چکر سے آزاد  رویے نہیں رکھتے ۔ مفتی صاحب نے جب جب اور جہاں جہاں مناسب سمجھا شرعی احکام کے تحفظ کے لئے بلا خوف و خطر میدان میں آئے ۔

 

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

 

ملک پاکستان کے عوام مفتی صاحب کی ان خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ہم مفتی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہدے پر رہتے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی خدمت بڑے احسن انداز میں کی اور ہمیں بروقت احکام الہی بجا لانے میں  ہماری رہنمائی فرمائی۔اللہ کریم اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل انہیں دنیا و آخرت میں عزتوں سے سرفراز کرے۔ مفتی صاحب واقعی ایک جرات مند اور باوقار عالم دین ہیں جس نے شرعی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔خلافت راشدہ سنبھالنے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے طرز خلافت کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے ابوبکر آپ نے اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایک امتحان چھوڑا ہے۔بالکل ایسے ہی مفتی صاحب نےبھی اپنے بعد اس عہدے پر آنے والوں کے لئے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ جسے پورا کرنا ان کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا ۔ تاہم ہماری ان کے لئے بھی یہ دعا ہےکہ وہ اس عہدے پر رہتے ہوئے شرعی اصولوں کی پاسداری کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 قرآن مجید اور اقبال کا تصور خودی

قرآن مجید اور اقبال کا تصور خودی

محمد ابوبکر صدیق

…………………

زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی 

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے


ہو اگر خودنگر و خود گر و خود گیر خودی

یہ ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

 

خودی کیا ہے؟ خود پسندی، انا پرستی، خودپرستی کیا انہیں خودی کہتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ خود پسندی، انا پرستی، خودپرستی انسان کو غرور اور تکبر میں مبتلا کرتی ہے ۔ جبکہ خودی انسان کو رب سے روشناس کرواتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا یہ فطرت سراپا خیر ہے۔آدمی اس فطرت کو پہچانے ، اس کی قدر کرے اور اسے بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرے ۔لیکن اگر آدمی خود غرض اور بڑھتی ہوئی خواہشات کے دھارے میں بہہ نکلے تو یہ انسان میں غرور اور تکبر پیدا کردیتی ہے ، جس سے خودی کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ فطرت مسخ ہونے لگتی ہے اور زندگی شیطان کے پھیلائے ہوئے وسوسوں سے بھر جاتی ہے۔خودی کی بہترین عملی تعریف تو سیدنا حضرت علی المرتضی ؓ نے واضح کی۔ جب جنگ کے دوران ایک کافر نے آپ کے چہرہ انور کی جانب تھوکا تو آپ نے اُسے چھوڑ دیا۔ کافر محو حیرت ہوا، بول پڑا کہ ’ میرے پاس اپنی نفرت کے اظہار کا کوئی اور راستہ نہیں تھا تو میں نے تھوک دیا۔ آپ ؓ کو تو اور بھی زیادہ غصہ آنا چاھئے تھا ۔ لیکن آپ ؓ نے مجھے چھوڑ دیا۔ کیوں؟ ‘ اس پر حضرت علی المرتضی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ کسی ذاتی مقصد کے پیش نظر نبرد آزما نہیں تھا۔ بلکہ اللہ کی رضا کے لئے حق کے غلبے کے لئے لڑ رہا تھا۔ لیکن تم نے جس وقت میرے چہرے کی جانب تھوکا تو مجھے غصہ آگیا اور اس میں میری ذات کا مقصد شامل ہوگیا۔ مجھے ڈر لگ گیا کہ اگر آج تمہیں قتل کردیتا ہوں تو قیامت کے دن میرا رب یہ نہ فرما دے کہ ’ علی ؓ تم نے اسے اپنے غصے کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ ‘ یہ ہے تصور خودی ۔ یعنی خودی کا منبع و مرکز انسان کی ذات میں چھپی ہوئی غیرت ہے ۔ اگر اس غیرت کا سبب اپنی ذات ہے تو یہ خود پسندی اور انا پرستی ہے۔ اگر اس کا سبب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہو تو یہ خودی ہے۔

قرآن مجید اور صاحب قرآن حضور نبی رحمت ﷺ کے انداز تربیت پر بڑی گہری نظر رکھتے ہوئے حضرت اقبال ؒ نے کہا کہ فلاح کے آسمانی تصور کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ بندے کی خودی تین کمالات سے متصف ہو یعنی وہ خودنگر، خود گر ا ور خود گیر ہو ۔جب تک خودی ان کمالات سے متصف نہیں ہوگی بندہ راہ کی گرد میں گم ہوجائے گا لیکن مقصود ِحیات کبھی نہیں پاسکے گا۔ ایک نبی، رسول علیہ السلام کا بنیادی کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلےاپنے امتی کی عقل و نگاہ پر پڑے پردوں کو ہٹا کر اُس کی حقیقت اُس کے سامنے آشکار کرتا ہے۔

قرآن مجید نے بڑے جامع انداز میں بیان کیا کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی امت کی تربیت کن مراحل میں کی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود نگری کے مقام پر لوگوں پر کیسے واضح کیا کہ وہ کون ہیں ؟ ان کا رب کون ہے ؟ قرآن مجید سورہ الانعام میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے :۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ

پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا) ۔اسی طرح آگے فرمایا:۔

فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ

( پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھرجب وہ (بھی) غائب ہوگیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتا)۔

بات یہیں نہیں رکی ۔ قرآن مجید نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا:۔

لَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ

(پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک

گردانتے ہو)۔

پہلے رات کی تاریکی میں چمکتے تارے اور دمکتے ہوئے چاند کو دیکھ کر خود ہی کہنا ’کیا یہ میرا رب ‘ اور جب وہ ڈوب جائیں تو لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ فرما کر ڈوب جانے والوں سے اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے اُن کی ربوبیت کا انکار کرنا ۔پھر آخر میں سورج کو دیکھنا اور اس کی بڑائی اور چندھیا دینے والی روشنی کے رعب کو لوگوں میں ذہنوں میں بٹھانا کہ اس سے بڑھ کر تو اور کسی طاقتور وقت کا تصور بھی انسانی ذہن میں نہیں آسکتا لہذا کیا یہ رب ہوسکتا ہے ؟ پھر جب وہ بھی ڈوب جائے تو ان کی ربوبیت کا انکار کرنا یعنی ایک ایک کر کے بلند و بالا اور اوج ثریا کی پنہائیوں میں چمکنے دمکنے والی مخلوق کے رب ہونے کے امکان کو لوگوں کے سامنے انہی کی عقلوں کے ذریعے رد کروایا ۔ تو یہی وہ وقت تھا کہ ’لوہا گرم ہے اب ہتھوڑا ماراجائے‘۔ چنانچہقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ(ابراہیم بول اٹھے: اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک گردانتے ہو)۔ پھر ان کے سامنے یہ واضح کرنا کہ تم انہیں رب مانو تو مانو میں اپنے عظیم رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرونگا۔ یہی الفاظ اس پر واضح دلیل ہیں کہ رب کی توحید پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمان پہلے سے تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھرقَالَ هَذَا رَبِّيیہ سب کیا تھا ؟

یہ سب کچھ تو لوگوں کو خود نگری کے کمال سے متصف کرنے کا ایک انداز تھا جو نہایت مؤثر تھا۔ کسی جملے کے سوالیہ ہونے کے لئے لازمی نہیں کہ اس میں حروف استفہام کا استعمال ہو۔ بلکہ کبھی کبھی سادہ جملے’ سوالیہ انداز تخاطب ‘ کی بدولت سوال بن جاتے ہیں۔ ’یہ میرا رب ہے‘ کو سوالیہ انداز میں بولا جائے تو یہ سوال بن جاتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ معاذ اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود رب کو پہچاننے کے مراحل میں تھے اور یہ آیات اس کا بیان ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ۔ اور یہ امکان قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ سے رد ہوجاتا ہے۔ شرک کا تصور کا مطلب ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایمان توحید باری تعالی پر پہلے سے تھا۔ ورنہ جو ابھی ذات یکتا کو پہچان ہی نہ پایا ہو اُسے کیا خبر کہ شرک کیا ہوتا ہے۔

یہ درحقیقت اُن لوگوں کے ذہنوں میں، اُن کی سوچوں میں ایک زلزلہ بپا کرنا تھا جو کبھی ستاروں کو تو کبھی چاند کو اپنا خدا سمجھتے تھے اور کبھی اپنے ہاتھوں سے بنائے بتوں کے سامنے اپنی جبین نیاز کو جھکاتے تھے۔ ان کی عقل پر پڑے پردوں کو ہٹانے کے لیے یہ انداز اپنانا ضروری تھا ۔ تاکہ اُن کی عقل خود یہ سوال کر دے کہ جو خود ڈوب جائے وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔یہ زلزلہ بپا کرنے کی دیر تھی کہ غلط عقائد کی بنیادوں پر تعمیر شدہ ان کی ساری عمارتیں منہدم ہو کر ریت کا ڈھیر ثابت ہوئیں۔ لیکن حکمت کا تقاضا یہ بھی  تھا کہ اگر اُن سے غلط خداؤں کا تصور چھینا جا رہا ہے تو پھر حقیقی خدا کا تصور بھی پیش کیا جائے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً فرمایا :إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ(بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں)۔

یہ وہ کمال کابراہیمی انداز  تھا کہ خوش بخت روحیں اپنے خالق حقیقی سے روشناس ہوگئیں اور رب ابراہیم پر ایمان لے آئیں۔ لیکن جو ابھی بھی حق کے انکاری ، کج بحثی کے عادی تھے نہ مانے۔ اُن سے بحث بھی ہوئی اور انہیں دلائل بھی دئے لیکن انہوں نے پھر بھی یہ کہا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کیسے پھر جائیں۔ تب حق کی پہچان کے لئے ایک اور کمال انداز اپنایا اور انہیں چیلنج کرتے ہوئے کہا جس کا بیان قرآن مجید نے یوں کیا :۔

 

وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (75)فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) قَالُوا مَن فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (59) قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (60) قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ (61) قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ (63)

(اور اللہ کی قسم! میں تمہارے بتوں کے ساتھ ضرور ایک تدبیر عمل میں لاؤں گا اس کے بعد کہ جب تم پیٹھ پھیر کر پلٹ جاؤ گے۔پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے (بُت) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔. وہ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ بیشک وہ ضرور ظالموں میں سے ہے۔(کچھ) لوگ بولے: ہم نے ایک نوجوان کا سنا ہے جو ان کا ذکر (انکار و تنقید سے) کرتا ہے اسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔وہ بولے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ (اسے) دیکھ لیں۔(جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو) وہ کہنے لگے: کیا تم نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حال کیا ہے اے ابراہیم۔آپ نے فرمایا: بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا تو ان (بتوں) سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں۔

بتوں کی ناک کاٹ کر اور ان کے بازو توڑ کر پھر ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کردینا کہ یہ کام اس نے کیا ہوگا ؟ اس سے پوچھو اگر یہ بول سکتا ہے ؟ واقعی یہ ایک کمال کا انداز تھا کہ ایک ایسا کام کیا جائے جس سے وہ بھڑک اٹھیں اور جذبات میں آ جائیں اور اسی دوران اُن کے سامنے ایسے سوال رکھ دئے جائیں کہ جس کے سامنے وہ خود لاجواب ہوجائیں اور اُن کی عقل خود ہی ان کی لوح ِدل پر یہ لکھ دے جو خود بول نہیں سکتے ، خود کی حفاظت نہیں کرسکتے تمہاری حفاظت کے کیا خاک ضامن ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ الفاظ خوش بخت اروح کے لئے حق کے پیغام کو قبول کرنے لئے بہت اہم ثابت ہوئے۔ چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم یہ بت بھلا کیسے بول سکتے ہیں کہ جواب دیں ۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:۔

قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (66) أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔تف ہے تم پر (بھی) اور ان (بتوں) پر (بھی) جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب نے کئی لوگوں کی عقلوں پر پڑے پردے وا کر دئے اور انہیں راہ حق سے روشناس کرا دیا ۔ تاہم اکثریت نے اپنی شقاوت قلبی کی بدولت حق کو نہ پہچانا اور الٹا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشق ستم بنایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان پر بدعا نہیں کی اور نہ ہی  ان پر عذاب کے لیے ہاتھ  اٹھائے ۔ بلکہ صبر وتحمل سے کام لیا ۔ یہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذات بابرکات سے خود گری کے مرحلے کا بیان ہے ۔ کہ مصائب و آلام میں صبر و تحمل ہی وہ وہ بنیادی او صاف ہیں جن سے بندے کی خودی کی تعمیر یعنی تعمیر ِذات ہوتی ہے۔کفار بولے کہ انہیں آگ میں جلا دو ،جس کا بیان قرآن مجید نے یوں کیا:۔

قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ

وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو)۔

کفار آگ جلا چکے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آ گ کی جانب پھینک بھی چکے ۔ یہاں پھر قدرت خداوندی نے آگے بڑھ کر دکھایا کہ صاحب ِ خودی کی حفاظت وہ کیسے کرتا ہے ! وہ کیسے خود گیری کے مقام پر انہیں سرفراز کرتا ہے۔ ابھی وہ فضا میں ہی تھے کہ حکم الہی آیا:۔

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ (69) وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (70)

ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔اور انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ بری چال کا ارادہ کیا تھا مگر ہم نے انہیں بری طرح ناکام کر دیا۔

رب کریم نے اپنے خلیل علیہ السلام کا ساتھ دیا کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔یہی وہ صبر تھا جس کا پھل آگ کے گل وگلزار ہونے کی صورت میں مل گیا۔ بس آگ کا گل وگلزار ہونا تھا کہ کچھ لوگوں کی عقل پر پڑے پردے ہٹ گئے۔انہوں نے خود کو پہچان لیا کہ وہ کون ہیں !اور ان کا حقیقی رب کون ہے ۔ اور اہل شقاوت انگشت بدنداں تھے کہ وہ کیا توقع کر رہے تھے اورکیا ہوگیا! یہ آگ گلزار کیسے ہوگئی ؟ اسی کی جانب حضرت اقبالؒ اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔


بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

 

جب بندہ یہ تین مرحلے طے کر لیتا ہے تو پھر بندہ مولا صفات بن جاتا ہے ۔ جس کی جانب اقبال اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

خاکی و نوری نہاد، بندہِ مولا صفات
ہر دوجہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز


نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز


عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہِ آفاق میں، گرمیِ محفل ہے وہ


عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے

 

یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر بندہ وہ عظمتیں حاصل کر لیتا ہے جس کا بیان حدیث قدسی میں یوں ہوتا ہے:۔

 ( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )۔

ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارِ کشا و کارساز


اس مقام ِ علو کے انعام کی جانب حضرت اقبال اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔


خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

 

بندہ جب یہ سارے مراحل طے کر تے ہوئے اپنی خودی کو ان کمالات سے متصف کرلیتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچتا ہے کہ اس کے لئے موت حیات ِ جاوداں کا حسین پیغام بن جاتی ہے۔ جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت اقبال کہتے ہیں:۔


ہو اگر خودنگر و خود گر و خود گیر خودی 

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 فضائل کے بیان میں اہل سنت کے اسلاف کا شعار

فضائل کے بیان میں اہل سنت کے اسلاف کا شعار

محمد ابوبکر صدیق

19 -11- 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطیب ہو یا نعت خوان فی زمانہ زبانیں غیر محتاط ہوچکی ہیں۔ ایسی کہ الامان و الحفیظ۔ ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ ’’ معراج شریف کی کسی محفل میں کسی خطیب نے خطاب میں کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے اللہ تعالی کی بارگاہ میں تشریف لے گئے‘‘۔ تو وہاں اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ بھی موجود تھے تو آپ سے رہا نہ گیا اور فورا ٹوکتے ہوئے  فرمایا ’’ خطیب صاحب رب کی بارگاہ میں اس کا بندہ حاضر ہوا کرتا ہے۔‘‘ یعنی فضائل کے تذکروں میں الفاظ کے چناو میں مراتب کا لحاظ لازمی ہوتا ہے۔

 

خالق کائنات کی ایسی تعریف کرنا  کہ ’’ جس سے اس کے انبیاء کی شان میں تنقیص ہوتی ہو ‘‘ نامناسب ہے۔ جیسے یہ کہنا ’’ اللہ کو کسی نبی یا و لی کی ضرورت نہیں۔‘‘ نامناسب ہے۔ کیا اللہ تعالی نے کہیں پر بھی  اپنی تعریف ایسے الفاظ میں بیان کی ؟؟؟ اگرچہ وہ غنی ہے ، کسی کا محتاج نہیں  ہے۔ لیکن اس کی غنی کو ایسے انداز میں بیان کرنا کہ جس سےرب کے پیارے انبیاء و اولیاء کی شان میں تنقیص آتی ہو نامناسب ہے۔ اس کی غنی کا بیان کئی اور مناسب طریقوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

 

اسی طرح خالق کا مخلوق سے تقابل کرنا یا اس کا شائبہ تک ذہن میں لانا حرام و ناجائز ہے۔ قطرے کا سمندر سے موازنہ و تقابل کیا جاسکتا ہے کیونکہ قطرے کو سمندر سے کوئی نہ کوئی نسبت ضرور ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ لیکن اہل سنت تو خالق کی جانب مخلوق کی یہ نسبت بھی نہیں مانتے کیونکہ مخلوق کا کوئی فرد بھی خالق کا جز نہیں ہے وہ لم یلد ولم یولد ہے۔ وہ ایسے تمام تصورات سے سبحان ہے۔

 

اگر کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کررہا ہو تو اس فضیلت کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام فضیلتیں دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں ہیں۔ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان ہورہے ہوں اور کسی شخص کو یہ شائبہ لاحق ہو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا سے ملانے کا شبہ ہے۔ تو ایسے شخص کو اپنے ذہن اور نفاق سے بھرے دل کا علاج کروانا چاھئے۔ کیونکہ جب اللہ و رسول کے تقابل کا شائبہ تک گناہ ہے تو اس کا ذہن تقابل کی جانب گیا ہی کیوں!

 

اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تعریف کرنا کہ جس سے دیگر انبیائے کرام کی تنقیص ہوتی ہو تو ایسی تعریف قلب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ یہی اصول اولیائے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء کے فضائل پر بھی ہے۔ اسی طرح آج کسی مسلمان کا یہ کہنا کہ ’’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عبد القادر جیلانیؒ کی کیا اوقات ہے ‘‘ انتہائی نامناسب اور نازیبا حرکت ہے۔ کیونکہ یہ تقابل ایسا قول کرنے والا کے قلب و ذہن کے فساد کی پیداوار  ہے، ورنہ کوئی امتی بھی ایسا تقابل نہیں کرتا۔

یہ ’’ اوقات‘‘ کا لفظ ایک منفی تاثر کا لفظ ہے جو اونچی شانوں والے اسلاف کی شان کے خلاف ہے۔ تقابل کا یہ فساد و فتور تو تمہارے اپنے دماغ کا پیدا کردہ ہے اور اس کا سارا الزام تم اسلاف پر دھر دیتے ہو۔ تم سے بڑھ کر بھی کوئی بے وقوف ہوگا بھلا! ایسے الفاظ تم اونچی شان والوں کے لئے استعمال کرو یہ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اہل سنت میں حفظ مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور یہ اہل سنت کا شعار ہے۔ الفاظ کا چناو حد درجہ محتاط ہونا چاھئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 شہرت کی ہوس اور شعبدہ باز -نئی بات

شہرت کی ہوس اور شعبدہ باز -نئی بات

محمد ابوبکر صدیق

17 -09- 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ کہتے ہیں فلاں بندہ ایسی نئی بات کرتا ہے جو پہلے کسی مولوی نے نہیں بتائی۔ یہ مولوی جھوٹے ہیں سچا تو وہ بندہ ہے۔  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’دین میں نئی بات لانا ہی جھوٹ کی واضح علامت ہے‘‘۔ دین کے امور کے اپنی دکان چمکانے والا دریوزہ گر نئی بات کیوں کرتا ہے ؟ اس  کے پیچھے ایک وجہ ہے اور وہ ہے شہرت کی ہوس۔ اگر وہ بندہ بھی کہے روزہ مغرب کے وقت افطار کرو تو اسے کون سنے گا۔ کیونکہ یہ بات ہر مولوی کرتا ہے۔ اس میں کچھ نیا نہیں۔ اور یہ زمانہ تو ویسے بھی کچھ نیا کر گزرنے کی جستجو کا ہے بھلے وہ دین کے ساتھ کھلواڑ ہی کیوں نہ ہو۔

عقل مند مسلمان یہ سوچتا ہے کہ لاکھوں علما نے اگر یہ بات نہیں کی آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ لاکھوں کے لاکھوں اور سارے زمانے کے علما ہی جھوٹے ہوں اور اس زمانے کا لفنگا اٹھے اور اوٹ پٹانگ دعوے کر ے اور گاما سچیار قرار پائے۔

اسی طرح اگر گزشتہ کسی زمانے میں کسی امام نے کوئی رائے دی ہو جسے امت کے جمہور علما نے قبول نہ کیا ہو اور وہ قول شاذ قرار پایا ہو۔ اور لوگ اسے بھول چکے ہوں اور صدیوں بعد کسی زمانے میں کوئی بندہ اٹھ کر وہی شاذ قول پکڑ کر امت کے جمہور کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو وہاں بھی نئی بات والا ایلیمنٹ ہوتا ہے۔ عقل مند وہاں بھی سوچتا ہے کہ اگر یہ قول مناسب ہوتا تو مجھ سے زیادہ علم و عمل رکھنے والے علما اسے یوں نہ رد کرتے۔ آخر کوئی ایسی وجہ ہوگی کہ علمائے امت نے اسے دھتکار دیا جو آج میرے علم میں نہیں۔

حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے ۔۔۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں نیا یہ ہے کہ وہ نہیں آئیں گے۔ انکار کر دیں۔

امام مہدی تشریف لائیں گے ۔۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں نیا یہ ہے کہ وہ نہیں آئیں گے ۔

نامحرم مرد و عورت کا ایک ساتھ گھومنا پھرنا مصافحہ کرنا، بوس و کنار کرنا حرام ہے ۔۔۔۔مولوی روز کہتے ہیں ۔۔۔۔ کچھ نیا نہیں نئی اور بریکنگ نیوز یہ ہے کہ کلچر کے نام پر یہ سب جائز ہے۔

نمازیں اور اس کی رکعتیں ۔۔۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں۔۔روز سنتے نئی بات یہ ہے کہ نمازیں تو صرف فرض رکعت ہیں باقی سنتیں، وتر، نفل فضول ہیں۔

اس طرح کئی امور ہیں جن میں شعبدہ بازوں نے جمہور امت کے خلاف نئے موقف اختیار کئے تاکہ لوگوں کو کچھ نیا ملے اور انہیں شہرت ملے۔ اور دیکھ لیں آپ کا معاشرہ سب سے زیادہ انہی کو دیکھتا ہے۔

ایک جگہ مجمع لگا ہو جس کی ایک جانب  کوئی  عالم دین کھڑا ہوکر کہے ’’ کتا حرام ہے‘‘، اسی مجمع میں دوسری جانب اگر کوئی آواز دے کہ  ’’ نہیں ۔ کتا حلال ہے‘‘ اور وہ کوئی عالم بھی نہ ہو لیکن رعب ڈالنے کے لئے 10 کتابیں ہاتھ میں اٹھا رکھی ہوں۔۔ تو مجمع حلال والے کے ہی دلائل سنے گا اور اسی کی طرف منہ کرے گا۔ حرام کی رٹ لگانے والے کو بھلا کس نے سننا ہے کہ اس کے پاس کچھ نیا نہیں۔ میں نوجوانوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ بات چلی آرہی ہے کہ بلندی سے بغیر پیراشوٹ وغیرہ چھلانگ لگائیں تو بندہ مر جاتا ہے۔ لیکن ایک بندہ آکر کہتا ہے پہلے کے لوگ جاہل تھے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ بلندی سے چیونٹی گرا دیں تو وہ نہیں مرتی۔ تو کیا آپ چھلانگ لگا دیں گے کہ نئی بات ہے اسے قبول کر کے دیکھتے ہیں۔ تو پیارے آپ اگر اس گڑھے میں گر بھی گئے تو بھی اتنا نقصان نہیں کہ جتنا کسی شعبدہ باز کے دھوکے میں آکر دین و ایمان کے حقائق کو چھوڑ کر گمراہی کے گڑھے میں چھلانگ لگانے کا نقصان ہے۔ دین میں اٹھنے والے ان نئے فتنوں سے اپنے ایمان محفوظ رکھئے۔ ایک فتنہ ایسا ہے جو شستہ لہجہ، آلو ورگا داڑھی منڈا چہرہ ہے اور اتمام حجت کا بے اصلا اصول رکھتا ہے۔ دوسرا پگڑی باندھے منہ زور، بدزبان اور بدتمیز لہجہ رکھتا ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

  آپ خود کس جانب کھڑے ہیں؟

 آپ خود کس جانب کھڑے ہیں؟ 

محمد ابوبکر صدیق

19 -06- 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اسلام اور مغرب ‘‘ کے مابین تقابل کی گفتگو میں خاص کر جب بات مغربی استعمار کی چل رہی ہو کہ امریکہ، اسرائیل ، برطانیہ اور دیگر اتحادی مسلم ممالک پر چڑھ دوڑے ہیں ظلم کر رہے ہیں تو عموما دیکھا گیا ہے کہ خود کو مفکر و مدبر قرار دینے والے لبرلز سیکولر اور کچھ بھولے کم مطالعہ والے نوجوانوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ فورا بول پڑتے ہیں ’’جی اہل مغرب بھی تو یہی کہتے ہیں جب تم مسلمان طاقت ور تھے تو تم بھی تو یہی کرتے تھے، کبھی کس ملک پر چڑھ دوڑے تو کبھی کس ملک پر، افغانستان سے کبھی غزنوی نے حملے کئے تو کبھی خلجی نے تخت و تاراج کیا تو کبھی احمد شاہ ابدالی نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ لہذا امریکہ کے پاس بھی جواز ہے کی وہ جہاں چاہے حملہ کرے، انڈیا کے پاس جواز ہے کہ وہ کشمیر پر قابض ہو، اسرائیل کے پاس حق محفوظ ہے کہ فلسطین پر قابض رہیں کیونکہ وہ طاقت میں ہیں جیسے ماضی میں تم مسلمان طاقت میں تھے‘‘ گویا وہ دیسی لبرلز خود کو ’’نیوٹرل‘‘ شمار کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے مغربی آقاوں کے ظالمانہ اقدامات کی شیطانی وکالت میں دلیل دے رہے ہوتے ہیں۔  بظاہر تو یہ ایک قوی دلیل لگتی ہے۔ اور بعض اوقات کچھ جذباتی احباب کو اس الزامی جواب پر پس و پیش ہوتے بھی دیکھا۔

 حالانکہ دیکھا جائے تو یہ دلیل  مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے اور وہ ایسے کہ جواباً آپ ایسے احباب سے یہ  کہئے کہ بھائی ’’ پہلے آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ خود کس جانب ہیں؟ ‘‘ باقی بحث اس کے بعد کریں گے۔ آپ کے اس سوال کے بعد  اس کے پاس تین آپشن رہ جاتے ہیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو اپنا جواب بنائے۔

۔1۔ وہ بھی مغرب کی جانب ہے یعنی اسلامی نظریے کے خلاف ہے۔ یاد رہے مغرب سے مراد جغرافیائی مغرب نہیں بلکہ یہود و نصاری کی تہذیبی و تمدنی فکر مراد ہے۔لیکن وہ کبھی بھی اس جواب کو اختیار نہیں کرے گا کیونکہ کوئی بھی مسلمان کم سے کم واضح طور پر خود کو اس حد تک نہیں گراتا کہ وہ اغیار کی فکر کا نمائندہ بن جائے۔ 

۔2۔ وہ اسلام کی جانب ہے۔اس صورت میں ہم  اُس سے کہیں گے کہ  بھائی جب تم اسلام کی جانب ہو تو پھر ہمیں اس سے کیا غرض کہ مغرب کیا کہتا یا سوچتا ہے۔ ہماری نظر میں مغرب کا اقدام ظلم ہے۔ جبکہ ہمارے اسلاف کے اقدام جہاد فی سبیل اللہ عدل و انصاف کے لئے تھا ۔ اس لئے ہمارے اسلاف ٹھیک تھے اور اس بارے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہے اور نہ تمہیں کوئی شک ہونا چاھیے کیونکہ تم بھی اسلام کی جانب ہو۔

۔3۔ جی ’’میں نہ اِدھر ہوں نہ اُدھر‘‘ میں تو غیر جانب دار جج ہوں ۔ تو اس صورت میں ہم اُس سے کہیں گے کہ بھائی تمہیں جج بنایا کس نے ہے ؟  نہ تو ہم تمہیں جج مانتے ہیں اور نہ ہی اہل مغرب۔ ایسی کنفیوزڈ کیفیت میں مبتلا شخص کو اسلامی نظریے میں منافق کہا جاتا ہے  جس کی حالت کے بارے میں قرآن مجید واضح طور پر کہتا ہے 

 مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا (143) النساء

‘‘اس (کفر اور ایمان کے) معاملے میں متذبذب ہیں نہ پورے اِس طرف ہیں اور نہ پورے اُس طرف، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تو ہرگز کہیں راہ نہ پائے گا۔’’

منافقین کی ایسی حالت بیان کرنے کے بعد مومنین کو کہا گیا کہ وہ اپنے لئے واضح پوزیشن اختیار کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِـرِيْنَ اَوْلِيَـآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّـٰهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِيْنًا (144)۔

‘‘اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ، کیا تم اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لینا چاہتے ہو۔’’

اِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ فِى الـدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِۚ وَلَنْ تَجِدَ لَـهُـمْ نَصِيْـرًا (145)۔

‘‘بے شک منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے، اور تو ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا۔’’

 

ہمارے اسلاف کے جہاد کی تاریخ کوئی پوشیدہ نہیں ہے۔ غیر مسلم قومیں دعائیں کرتی تھیں کہ ان کے ہم مذہب حکومتوں کے خلاف مسلمان فتح یاب ہوں کہ مسلمان عدل و انصاف دیتے ہیں ظلم نہیں کرتے۔ آپ ذرا تاریخ کے صفحات کھولنے کی زحمت تو کریں۔ضرت عمر ہی کے زمانے میں جب اسلامی فوجیں حمص (شام) سے ہٹ آئیں تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں کو بلاکر کئی لاکھ رقم جزیہ کی یہ کہہ کر واپس کردی کہ اب تمہاری حفاظت نہیں کرسکتے، اس لیے جزیے کی رقم بھی نہیں رکھ سکتے۔ تو وہاں کی عیسائی و یہودی آبادی دعائیں کرتے تھے کہ خدا کرے عیسائی افواج کے خلاف تمہیں فتح نصیب ہو کہ تم عدل و انصاف کرتے ہو۔  ان حقائق کے تناظر میں آپ پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ خود کس جانب کھڑے ہیں باقی بحث اس کے بعد کر لیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

   کورونا ویکسین اور دیسی لبرلز 

  کورونا ویکسین اور دیسی لبرلز 

محمد ابوبکر صدیق

24 -11- 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا کی وجہ سے جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھی۔ تو دیسی لبرلز نے از راہ تمسخر کہنا شروع کردیا تھا کہ ’’طواف کعبہ کی بحالی اور مساجد میں نماز کی دوبارہ ابتداء اب  اُس ویکسین پر منحصر ہے جو یہودی تیار کریں گے‘‘۔ اس قول سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ دیسی لبرلز کس قدر مغربی فکر کے قیدی ہیں اور حقائق کو وہ صرف انہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اسلام سے وہ صرف برائے نام جڑے ہوئے ہیں کہ وہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے۔ ورنہ ان کا سارا طرز حیات و معاشرت سب کا سب مغربی تہذیب کے الحادی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔یہ جملہ سن کر ایسے لگتا ہے جیسےیہ بات کرنے والے یا تو خود کو یہودی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو یہ تیر مار لیا۔یا پھر ایسا کہنے والے لوگ ’’شودے‘‘ ہوتےہیں۔

ان دیسی لبرلز کو شودا  کیوں کہا؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا جملہ یا نشتر ایک ایسے نوجوان کے ذہن سے نکلتا ہے جس نے اگرچہ اسلامی فضا و ماحول میں تو آنکھ کھولی ہو لیکن وہ اسلامی نصوص کا خاطر خواہ گہرا مطالعہ نہ کرسکنے کی بدولت ان کی تعبیرات کی روح سے آشنا نہ ہوسکا ہو۔ اس لئے میرے نزدیک وہ بے چارا قابل رحم ’’شودا‘‘ ہے۔ اس تیکھے جملے کا مقصد صرف اہل مذہب یا مولوی پر وار کرنا ہے۔ حالانکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد اسلامی نظام کے پس پشت چلے جانے کی بدولت اور آزادی کے بعد مغربی آقاوں کے نظام پر چلنے والے ملک میں ’’مولوی یا مدرسے‘‘ کا کبھی بھی ’’ سائنسی علوم اور ایجادات‘‘ کا سرے سے دعوی ہی نہیں رہا ۔ صاف ظاہر ہے وہ یہ دعوی کرتے بھی تو کیسے۔ اس کے لئے کافی وسائل درکار تھے۔ اربوں کھربوں کا فنڈ درکا تھا ۔ جبکہ مدارس تو صرف خیرات و صدقات پر ہی اپنا بجٹ پورا کرتے ہیں۔ طالب علم سے فیس تک نہیں لیتے ۔ رہائش اور خوراک کا انتظام بھی مدرسے کے ذمے ہوتا ہے۔ مینجمنٹ کی ڈگری نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے نظام کو وہ ویل مینیج کرتے ہیں۔ معاشرے کے نادارطبقے سے افراد لیتے ہیں اور کسی کو مفتی مفسر محدث اسکالر ، حافظ اور قاری بناتے ہیں وہ بھی بغیر فیس کے۔ یوں وہ نہ صرف معاشرے کے مفید افراد بنتے ہیں بلکہ افراد سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف جدید علوم کی جامعات ہیں۔ ان کے لئے اربوں کھربوں کے فنڈ الگ سے ۔ طلبا کی رہائش کی فیسیں الگ۔ کھانے کے پیسے الگ وصول کئے جاتے ہیں ۔ فنانس کا پورا ڈیپارٹمنٹ بھاری بھرکم تنخواہیں لیتا ہے لیکن اس کے باوجود یونیورسٹیاں خسارے میں ۔ تحقیق کا حال تو یہ ہے کہ بس نہ پوچھیں ۔ انہی جامعات سے فارغ التحصیل ہوکر نوجوان گلے پھاڑ پھاڑ کر مولوی پر چینختا ہے کہ ترقی کیوں نہیں ہورہی۔ ایجادات کیوں نہیں ہورہی وغیرہ۔ ” چور بھی کہے چور چور” والی کہاوت تو سنی ہوگی۔ شاید وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ الٹا کوئی ان سے نہ پوچھ لے بھیا تم بتاو “قوم کا کروڑوں ڈکار کے تم نے کون سا بلب ایجاد کیا ہے”۔

ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے بالکل بجا کہا ہے کہ ’’کورونا وائرس اہل مذہب کے لئے نہیں بلکہ الٹا لبرلز اور مذہب بیزار طبقے کے لئے چیلنج لایا ہے‘‘ وہ بتائیں کہ دنیا کی اتنی آبادی کیوں مری ۔ بلکہ میرا تو خیال ہے ان لبرلز کو الٹا لٹکا دیں کہ کرپٹ ہیں صرف قومی دولت لوٹی ہے اور بس ۔ جامعات میں تعلیم کے نام پر تعلیم سے زیادہ فحاشی اور الحادی فکر دی ہے۔ ہمارے معاشرے کے نوجوان کو فکری طور پر مفلس کردیا ہے۔ وہ اپنی اصل میراث سے زومبیز کی طرح کٹ چکا ہے۔ نہ تو وہ ہمارا ہے اور نہ ہی وہ اہل مغرب کے کسی کام کا۔ جامعات کا حال تو یہ ہے اردو وہ جانتے نہیں اور انگلش انہیں آتی نہیں۔ 

مولوی نے کمال کر دیا ہے کہ ان حالات میں وہ عوام الناس کو اللہ کی جانب آنے کی فکر دے رہے۔ لوگوں کو صبر و تحمل کا درس دے رہے ہیں ۔ وہ اگر یہ نہ کرتے تو کیا یاس و قنوط میں ڈوبے لوگ جس طرح پینک ہورہے تھے ان لال بجھکڑوں سے سنبھلنے تھے ۔ الٹا ینگ ڈاکٹرز احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ علاج نہیں کریں گے۔ ہڑتال کی دھمکیاں دے رہے۔ یہ ہیں جناب آپ کی سائنسی جامعات سے پڑھ کر تیار ہونے والے اعلی ذہن جنہیں شاید بنیادی اخلاق کا بھی علم نہیں کہ نوکری کی آفر قبول کرنے کے بعد ان کے پاس یہ حق اخلاقی طور پر بھی نہیں ہے کہ وہ علاج سے انکار کریں۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مولوی / ملا پر بہتان نہ لگائیں ۔ اپنے گریبان میں جھانکیں کہ تم نے کیا کیا ہے۔

یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ کورونا ویکسین کی دریافت ایک مسلمان سائنس دان جوڑے نے کی جن کا تعلق ترکی سے ہے۔ ہمیں تو خوشی ہوئی تاہم یہ خبر دیسی لبرلز کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں بے چارے منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہے۔ ویسے انہیں اگر کورونا ہوجائے تو مر جانا چاھئے ویکسین نہیں خریدنی چاھئے۔ ہاں اگر یہ ویکسین یہود و نصاری دریافت کرتے تو ہم مسلمان خرید لیتے کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں حکم  دیتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 فتنوں اور شیطان کے دھوکے سے کیسے بچیں؟

فتنوں اور شیطان کے دھوکے سے کیسے بچیں؟

محمد ابوبکر صدیق

07 -05- 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتنے یکے بعد دیگرے اتنی تیزی سے نکل رہے ہیں جیسے ٹوٹی تسبیح کے دانے یکے بعد دیگرے بکھرتے  ہیں۔اللہ اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل ہمارے ایمان کا تحفظ فرمائے۔ ایمان کا تحفظ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں ہے۔ اور اس مقدس محبت کی علامت اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ فی زمانہ فکری و نظریاتی فتنوں اور دھوکوں سے بچنے کے لئے درج ذیل نکات پر عمل کی جئے۔

۔1۔ سب سے پہلے اپنی طبیعت اور رویوں میں وہ عاجزی اور انکساری پیدا کی جئے جو بندہ مومن سے مطلوب ہے۔ خود کو ذاتی انا، تکبر اور ’’ میں ‘‘ کی قید سے آزاد کی جئے۔ اس کے لئے مجرب نسخہ لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین لاحول ولا قوةالا بالله العلی العظیم کا ورد ہے۔
۔2۔ اگر آپ عالم دین نہیں ہیں۔ اور عامی ہیں بھلے پی ایچ ڈی ہیں۔ ایک بات اپنے ذہن میں ڈال لیں کہ شریعت کے امور میں آپ ایک عام مسلمان ہیں جسے شریعت کے احکام و دیگر امور کے سلسلے میں کسی جید عالم دین کی رہنمائی کی بالکل اسی طرح ضرورت ہے جیسے دوسری فیلڈ کے لوگوں کو آپ کے فن میں آپ کی رہنمائی کی حاجت ہوتی ہے۔

اس کے بعد سوال آتا ہے کہ فتنوں اور شیطان کے دھوکے کی پہچان کیسے ہو؟

نئے فتنوں کے اور شیطانی فریب کے عموما طریقہ واردات یہ ہوتے ہیں:۔

۔1۔ ہم کسی فرقے کی بات نہیں کرتے۔
۔2۔ ہم صرف قرآن کی بات کرتے ہیں۔
۔3۔ ہم صرف علمی کتابی باتیں کرتے ہیں۔
۔4۔ ہم جو بات جہاں سے اچھی ملے لے لیتے ہیں ۔
۔5۔ ہم خود قرآن سمجھو تحریک چلاتے ہیں۔

یہ ہیں وہ سلوگن جن کے ذریعے ہر نیا فتنہ ایک نیا فرقہ بن کر اٹھتا ہے۔ اور نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچنے کے لئے پہلے سے موجود امت کے اجماعی امور سے الگ اچھوتی و انوکھی رائے پیش کرتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ خود کو حق پر ثابت کرنے کے لئے کفار و مشرکین اور منافقین کے بارے میں نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پر اپلائی کرتے ہیں۔

معاشرتی سیاسی حالات سے نفسیاتی دباو میں الجھا نوجوان فورا نئی تعبیرات قبول کرتا ہے اور سمجھتا پہلے کے علما گمراہ تھے یہ والا بندہ کوئی مجتہد آیا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جس طرح کا تعلیمی نظام مروج ہے وہاں نئی بات بھلے دینی امور میں ہی کیوں نہ ہو ، خواہ کیسی ہی گمراہ کن کیوں نہ ہو بھلی لگتی ہے۔پرویزی فکر ہو ، غامدیت ہو یا مرزا انجینئر یا دیگر چند افرادی جماعتیں آپ سب کو ان میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی کہ یہ سب وہی سلوگن لے کر اٹھے ہیں جو باطل فتنوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔آج دیکھ لیں یہ سب خود ایک نیافرقہ بلکہ فتنہ بن چکے ہیں۔ 

امت کے اجماعی امور میں مجتہدین، محدثین ، فقہا کے خلاف اپنی رائے کو حرف آخر قرار دیتے ہیں۔ اسلاف پر زبان درازی میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں۔ امت مسلمہ کی اکثریت کی راہ سے الگ راہ اختیار کرتے ہیں ۔قران مجید نے واضح بتادیا

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا۔ سورہ نساء115.

( اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo)

حق کی پہچان کیسے ہو ؟

حق کے پیغام سے اللہ کے محبوب خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ کی محبت آپ کے دل میں بھرنا شروع ہوجائے گی۔ دل بار بار دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش میں تڑپنے لگے گا۔ اللہ کے بندوں سے آپ کا دل اخلاص و محبت سے بھر جائے گا۔ میں سے میرا بھائی زیادہ عزیز لگنے لگے گا۔ اس کی صورت کو دیکھ کر اللہ کی یاد آئے گی۔جبکہ فتنوں کے پیغام ایسے مبارک اثرات سے خالی ہوتے ہیں ۔ ان کی گفتگو کے بعد عموما یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے پہلے سب علما غلط تھے۔ بلکہ زبان علما کی بجائے تضحیک سے ’’ مولوی ‘‘ بولنے لگتی ہے۔ سب مولوی جاہل ہیں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس کی نگاہ میں باقی سب حقیر ہونے لگتے ہیں اور اس کی اپنی ذات پیاری اور حق پر دکھائی دینے لگتی ہے۔

آپ شاپنگ کرنے جائیں اور کوئی جاننے والا بتائے کہ فلاں دکان پر اگرچہ اصلی مال بھی ہوتا ہے لیکن وہاں دو نمبر مال بھی ملتا ہے۔ وہاں نقلی اشیاء بالکل اصلی کی مانند لگتی ہیں لیکن دو نمبر ہوتی ہیں۔ تو آپ وہاں اس لئے نہیں جاتے تاکہ دھوکہ نہ کھائیں اگرچہ وہاں اصلی مال بھی ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی نئے فتنے چرب زبانی سے اور ملمع سازی سے اپنا پیغام اس انداز میں دیتے ہیں کہ عام بندہ فورا ان کے دام میں پھنس جاتا ہے۔ اس لئے آپ ایسے فتنوں کے قریب ہی نہ جائیں ، انہیں سننے کے لئے وقت ہی برباد نہ کریں کیونکہ یہ آپ کا ایمان برباد کردیں گے۔
ایمان بچانا ہر مسلمان پر فرض یے۔ جیسے آپ شاپنگ میں اپنے مال کی حفاظت میں فراڈ سے بچنے کے لئے ہر جتن کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایمان بچانے کے لئے بھی جتن کی جئے۔

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ 

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ »

اے اللہ! عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، مسیح دجال اور زندگی اور موت کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہوں اورقرض سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو قران مجید کی سورہ المتحنہ میں مذکور ہے وہ مانگنی چاھئے۔ 



رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ الممتحنہ ۴۔۵)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading

 حق اور دھوکے کی پہچان: ایمان بچائیں تو کیسے ؟

 حق اور دھوکے کی پہچان: ایمان بچائیں تو کیسے ؟

محمد ابوبکر صدیق

17 -04- 2020

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فی زمانہ ہر آن نت نئے فتنے نئی نئی شکلوں اور الگ الگ سلوگن سے نکل رہے۔ ہر کوئی سوشل میڈیا یو ٹیوب پر گھنٹے گھنٹے لیکچر دے رہا ہے۔ نوجوانوں کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ نوجوان پریشان ہیں کریں تو کیا۔ ایمانیات کے اعتبار سے انٹرنیٹ جہاں بہتری کا سبب ہے وہیں اس سے کہیں زیادہ ایسے لوگوں کے لئے نقصان کا سبب بھی ہے جن کی دینی بنیاد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دین سے متعلق سننے کے لئے ہر قسم کے بندے کا مواد ایک کلک پر موجود ہے۔ چرب زبان اس قدر ماہر ہیں کہ سادہ لوح کے ایمان متزلزل ہوجاتے ہیں کہ حق کسے کہے اور دھوکہ کسے قرار دے۔ میرے کچھ شاگردوں نے رہنمائی چاھی تو انہیں فردا کچھ تجاویز دیں۔ تاہم مناسب سمجھا کہ یہاں سب نوجوانوں کے لئے شیئر کر دوں۔

 

اللہ تعالی نے قلب ایک ایسا آلہ دیا ہے جو شک کی باتوں پر کبھی بھی قرار نہیں پاتا اور حق بات ہو تو قلب مطمئنہ کی مانند سکون ہوجاتا ہے۔حق و باطل کی پہچان میں  اس دل سے کام لی جئے ۔ لیکن چند باتوں کا خیال بھی رکھیں۔ کسی بھی نئے فتنہ پرور بندے کے حق و باطل پر ہونے کے لئے مندرجہ ذیل امور کی طرف دھیان دیں۔

۔1۔ قران و سنت کو سمجھنے میں اسلاف (صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین) کا منہج ہی حق ہے۔ کیونکہ اسلام 1400 سال قبل مکمل ہوچکا۔ جو منہج اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کو، ان سے تابعین ، ان سے تبع تابعین کو ملا وہی بر حق ہے۔ باطل کی پہچان یہ ہے کہ جب آپ اسلاف کے منہج پر رہنے کی بات کریں گے تو وہ فورا کہیں گے ’’ کفار بھی حضرت محمد ﷺ سے یہی کہتے تھے ہم اپنے آباء کو کیوں چھوڑیں ‘‘ ۔ کم علم کم مطالعہ کا نوجوان لاجواب ہوجاتا ہے۔ حالانکہ آسان جواب یہ ہے کہ ۔۔۔۔ آپ ان سے کہیں ۔۔۔ حضور ﷺ تو اس وقت1400 سال قبل نیا دین برحق لائے تھے جس پر کفار اپنے باطل آباء کے دین پر بضد رہنے کا کہتے تھے۔ اور ہم تو الحمد للہ اسی نبی کریم ﷺ کے دین بر حق پر پہلے سے قائم ہیں جو ہمارے اسلاف کے واسطے سے ہمیں ملا۔ تم چونکہ نئے باطل دین کی دعوت لائے ہو اس لئے ہم اسے قبول کیوں کریں؟ کیونکہ اب کوئی نیا دین نہیں آئے گا ۔ تم چونکہ حق کے طریقے سے گمراہ ہو اس لئے تمہارا راستہ ابلیس کا راستہ ہے۔

۔2۔ اس بندے کی گفتگو اگر دل میں شکوک و شبہات پیدا کرے۔ احکام شریعت سے متعلق نت نئے تصور دے تو سمجھ جائیں یہ ابلیس ہے جو تمہیں قرآن سمجھانے آیا ہے۔ اب ابلیس کیا سمجھائے گا اہل عقل خوب جانتے ہیں۔

۔3۔ اگر ہر بندے کا عربی علوم کے بغیر قران مجید خود سے سمجھنا ممکن ہوتا تو اللہ کتاب نازل کردیتا ۔۔۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نہ بھیجتا ۔ قرآن مجید کہتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا تمہیں قرآن مجید کی تعلیم دے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے جو تعلیم دی جو حکم سمجھایا اور جیسے سمجھایا اسے سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا گیا۔ سنت کے انکار کا مطلب قرآن مجید کی نبوی تعلیم کا انکار ہے۔ جو بذات خود قرآن کا انکار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جھوٹ کا شکار ہوگئی اور بدل دی گئی تو پھر معاذ اللہ یہ اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہے کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا کہ جاکر لوگوں کو قرآن کے احکام سکھائے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سکھا چکا تو ان کے بعد اللہ تعالی نے دین کو یتیم کر کے چھوڑ دیا اور اس کی حفاظت ہی نہیں کی۔

عام آدمی کے لئے قرآن خود سمجھو کا جملہ خود جہالت پر مبنی ہے۔ سوچیں جب صحابہ کرام کو قران سمجھنے کے لئے ایک معلم (نبیﷺ ) کی ضرورت پڑی تو آج کون ہے جو کہے کہ وہ معلم کے بغیر سمجھ سکتا ہے۔

۔4۔ بندے کی گفتگو کے موضوع پر دھیان دیں۔ اگر تو وہ ایسے موضوع چھیڑتا ہے جس کا تعلق عملی زندگی کی بھلائی سے نہیں، تعمیر کردار سے نہیں ۔ فکر آخرت سے نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے حصول سے نہیں۔ اللہ کے بندوں کو رشتہ اخوت کی لڑی میں پرانے سے نہیں ۔ بس امت کے حساس موضوعات کو اس انداز سے چھیڑتا ہے کہ لوگوں میں فساد پیدا ہوجائے۔ ایسی انوکھی باتیں کرتا ہے جو اسلاف کی تعلیمات سے دور ہے۔ بولے تو زبان درازی کرے۔ اسلاف کو یکسر غلط قرار دے اور کہے میری تعبیر ہی درست ہے۔ گفتگو کا مقصد محض الفاظ کی جگالی ہو کہ لوگوں پر اس کا رعب و دبدبہ قائم ہوجائے۔ تو سمجھ جائیں یہ ابلیس کے لشکر سے آیا ہے۔ کیوں کہ اہل حق کا ایک سادہ سا جملہ بھی زندگیوں میں انقلاب بپا کردیتا ہے۔ نگاہ اٹھائیں دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی محفل سے نکلیں تو ہر آدم خود سے بہتر محسوس ہوتاہے۔ وہ اللہ کے بندوں کو توڑنے کے نہیں جوڑنے کے کام کرتے ہیں۔

 

۔5۔ گفتگو کے نتائج پر دھیان دیں ۔ اگر تو اس کی گفتگو آپ کا اپنے رب سے ٹوٹا تعلق جوڑ دیتی ہے یا پہلے سے قائم تعلق باللہ کو اور زیادہ مضبوط کرتی ہے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو بڑھا دیتی ہے اور دل کو نرم کرتی ہے۔ اور اللہ کے بندوں سے متعلق تمہیں نرم خو کرتی ہے، پاکیزہ کردار کے مبارک اسلاف سے محبت پیدا یونے لگتی ہے۔ تو سمجھیں وہ حق پر ہے۔ اگر اس کی گفتگو سے آپ کے دل میں صرف اس کی اپنی شخصیت کا اثر بنتا ہے کہ بڑا بولنے والا ہے قابل ہے وغیرہ۔ لیکن رب سے تعلق نہیں جڑتا یا پہلے سے قائم تعلق باللہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دل سختی مائل ہونے لگتا ہے۔ زبان بے ادبی کی جانب چلنے لگتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ ناز سےمتعلق الفاظ کا چناو غیر محتاط ہونے لگتا ہے۔ فکر آخرت کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا ۔ اور طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے ڈیپریشن بڑھنے لگتا ۔ ایمان کی دنیا کنفیوز ہوجاتی ہے۔ تو سمجھ لیں یہ ابلیس کی دنیا کا بندہ ہے۔ جو قرآن کے نام پر ، دین سمجھا نے کے نام پر تم سے تمہارا ایمان لینے آیا ہے۔ اہل حق کو سنا جائے تو دل کی لوح پر اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ثبت ہوجاتا ہے کہ پھر دنیا کوئی طاقت بھی اسے کھرچ نہیں سکتی۔

 

یہ ہیں وہ چند مور جن کی طرف توجہ رہے اور ساتھ ہی  دل میں حضور نبی رحمت ﷺ سے محبت اس طرح اجاگر ہو کہ دل ک یقین حاصل ہو کہ اس پاکیزہ محبت کے سوا باقی سب کچھی فضول ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ حضور نبی رحمت ﷺ کے دامن سے وابستہ رہنے سے ہی ہے۔

 

ہو نہ یہ پھُول تو بُلبل کا ترنُّم بھی نہ ہو

چَمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو

بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے

نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔

اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1

Loading