ایک جرات مند اور باوقار عالم دین
محمد ابوبکر صدیق
1/1/2021
…………………
اہل حق علما ءمیں سے انتہائی قابل لیکن بہت ہی کم علماء ایسےبھی ہوتے ہیں جو اس وجہ سے ایوان اقتدار کے پاس پاس رہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اگردیگر اہل حق کی طرح وہ بھی وہاں سے دوری اختیار کر لیں تو اہل اقتدارابلیسی قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جائیں گے اور مملکت خدادا میں احکامات الہی پامال ہونے لگ جائیں گے۔دینی شعار کے ناقدری معمول بن جائے گی۔اگر وہ کسی عہدے پر فائز ہوں تو وہ خود بخود اس عہدے سے الگ بھی نہیں ہوتے کہ کہیں ان کے بعد اس عہدے پر کوئی ناہنجار براجمان ہو کر احکامات الہی کی من مانی تعبیرات کرتے ہوئے اہل دنیا کی خوشنودی حاصل کرتا رہے۔ علمائے حق کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اہل اقتدار کے قریب رہ کر بھی کبھی اُن کی شان و شوکت سے مرعوب نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے دل میں ایک کی ناراضگی کا خوف ہوتا ہے۔ وہ بلا کسی لومۃ لائم اپنے فیصلے شرعی اصولوں کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ عہدے چھن جانے کے خوف سے وہ احکامات الہی سے ہٹ کر کوئی فیصلے نہیں کرتے ۔ بلکہ جب جب اور جہاں جہاں انہیں دیگر حکومتی ایوانوں میں احکامات الہی کی خلاف ورزی نظر آتی ہے تو وہ آوازہ بلند کرنے کا حق ادا کرتے ہیں۔
حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ شہید ہو گئے لیکن منصب خلافت سے دستبردار نہ ہوئے کیو نکہ انہیں حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ “عثمان اللہ آپ کو ایک قمیص عطا کرے گا اور لوگ کہیں گے وہ قمیص اتار دو تو آپ اسے نہ اتارنا”۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی منصب آپ کو آپ کی طلب کے بغیر ملے اور آپ اس عہدے پر رہتے ہوئے احکامات الہی کے مطابق فیصلے کریں اور لوگ اس بات سے خفاء ہو کر مطالبہ کریں کہ آپ خود اس عہدے سے دستبردار ہوجائیں تو آپ ایسا نہ کریں کیونکہ اہل ہوس و نفس اس عہدے پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں جو اس عہدے پر اہل دنیا کی خوشنودی کے لئے احکام الہی کو پیچھے چھوڑ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد امام ابو سلیمان داؤد ابن طائی ؒ اپنے ہم مکتب دوست قاضی امام ابویوسف ؒ سے خفا تھے اور ملاقات نہیں کرتے تھے ۔ ایک دن خلیفہ ہارون رشید نے امام ابویوسف ؒ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ داؤد ابن طائی ؒ سے ملاقات کرنا چاھتے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں داؤد ابن طائی ؒ کے گھر گئے ۔ ایک دروازے سے وہ داخل ہوئے تو داؤد ابن طائی ؒ دوسرے دروازے گھر سے نکل گئے۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام ابو یوسفؒ سے پوچھا کہ ان سے ملاقات کی صورت کیسے بن سکتی ہے؟ امام ابویوسف ؒ نے کہا کہ ان کی والدہ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ انہیں ہم سے ملاقات کا حکم دیں تو ہی وہ ہم سے ملیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ملاقات ہوئی تو خلیفہ نے کہا کچھ ضرورت ہو تو حکم کریں ۔ انہوں نے کہا ضرورت ہے لیکن آپ سے نہیں بلکہ اپنے رب کریم سے ہے۔ امام ابویوسف ؒ نے پوچھا کہ مجھ سے کیوں خفاء ہیں؟ تو امام داؤد ابن طائی ؒ نے فرمایا ہمارے استاذ امام اعظم نے تا زیانے کھا کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کرالیا مگر مسندِ قضا (چیف جسٹس کے عہدے) کو قبول نہ کیا اس لیے تمہیں بھی ان کی اتباع کرنی چاہیے تھی اور یہ منصب قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس پر امام ابویوسف ؒ نے جواب دیتے ہو فرمایا: داؤد اگر میں بھی یہ عہدہ قبول نہ کرتا اور اسے کسی اہل دنیا کے لئے خالی چھوڑ دیتا کہ وہ احکامات الہی کے خلاف فیصلے کرتے پھریں تو پھر مجھے بتاؤ میں اپنے رب کے حضور کیا جواب دیتا! اس جواب پر امام داؤد ابن طائی ؒ کو تشفی ہوئی اور وہ راضی ہوئے کہ اگر یہ نیت ہے تو پھر آپ نے درست کیا۔
شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک طاقتور قبیلہ تھا جس نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کر کے چند شرائط کے تحت اسلامی قلمرو میں شامل ہونا منظور کیا اور حضرت عمرؓ نے یہ شرائط منظور کر لیں۔عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور میں کسی سیاسی مصلحت کی خاطر اس معاہدہ کو منسوخ کرنا چاہا۔ ہارون الرشید کا خیال تھا کہ معاہدہ منسوخ کر کے بنو تغلب پر فوج کشی کی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مشورہ کے لیے حضرت امام محمدؒ کو بلایا اور خلوت میں ان کے سامنے اپنا ارادہ بیان کر کے ان سے مشاورت چاہی۔ امام محمدؒ نے فرمایا کہ چونکہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو امان دے رکھی ہے اس لیے ان کے خلاف فوج کشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس شرط پر بنو تغلب کو امان دی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بپتسمہ نہیں دیں گے یعنی انہیں عیسائی بنانے کی رسم ادا نہیں کریں گے جبکہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔ امام محمدؒ نے جواب دیا کہ بچوں کو بپتسمہ دینے کے باوجود حضرت عمرؓ نے اس معاہدہ کو برقرار رکھا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ کو بنو تغلب کے خلاف فوج کشی کا مناسب موقع نہیں ملا تھا اس لیے وہ ایسا نہ کر سکے۔ امام محمدؒ نے جواب میں فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے پاس موقع تھا لیکن انہوں نے معاہدہ کی پاسداری کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو غیر مشروط امان دی تھی اس لیے اس معاہدہ کو توڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امام محمدؒ کے اس جواب پر ہارون الرشید سخت ناراض ہوا اور انہیں اپنے سامنے سے اٹھ جانے کا حکم دیا۔ لیکن اس ناراضگی کے باوجود خلیفہ ہارون الرشید کو بنو تغلب کے ساتھ حضرت عمرؓ کے معاہدہ کو توڑنے اور ان کے خلاف فوج کشی کا حوصلہ نہیں ہوا۔
رؤیت ہلال کمیٹی کے چیرمین کا عہدہ دنیوی مال و دولت کے حوالے سے اگرچہ کوئی خاص عہدہ نہیں ہے۔(اگر کسی نے اس عہدے کی مراعات دیکھنی ہوں تو وہ یہاں کلک کر کے دیکھ سکتا ہے)۔ لیکن اسلامی نظام عبادات کے حوالے سے یہ ایک انتہائی اہم عہدہ ہے۔ جس سے اہل ہوس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ شرعی احکامات کی بجائے ان کی خواہشات کے مطابق چاند برامد کیا جائے ۔ ۱۹ سال تک یہ عہدہ مفتی اعظم پاکستان جناب عزت مآب مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس رہا ۔ اس عرصے میں دیسی لبرلز ، مختلف حکومتوں کے مختلف وزراء اور دیگر چنیدہ حلقے ان کے خلاف نبرد آزماء رہے ، صحافت کی دنیا میں ایک دو نام ان کے خلاف سفلی سطح تک گر کر بھی حملے کرتے رہے ۔لیکن مفتی صاحب پر عزم رہے اور باوقار انداز میں اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہے۔انہوں نے بارہا میڈیا پر آ کر کہا کہ حکومتی ایوانوں میں براجمان وزراء کو میرے عہدے سے متعلق مالی معلومات تک رسائی ہے اگر وہ چاہیں تو انہیں عوام تک لائیں اور دکھائیں کہ انہوں نے اس عہدے سے کیا کیا مالی مفادات حاصل کئے ہیں۔ حکومتی مخالفین ایسا اس لئے نہ کرسکے کہ وہ بھی بخوبی علم رکھتے تھے کہ مفتی صاحب کا کردار صاف ہے۔مفتی صاحب کے پیش نظر صرف اور صرف یہ بات تھی کہ اگر وہ یہ عہدہ چھوڑدیں گے تو پھر شاید علمائے حق کے ہاتھ سے یہ ایک واحد عہدہ جو علمائے حق کو ایوان اقتدار سے جوڑے رکھتا ہے اور جس کے ذریعے اہل اقتدار تک احکامات الہی کی صدائیں پہنچائی جاسکتی ہیں ، چھن جائے گا۔ اس لئے مطالبات کے باوجود انہوں نے یہ عہدہ نہ چھوڑا۔ لیکن میں یہاں کہوں گا کہ ہماری سیاست کا کوئی ایسا عہدہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر مخالفین کی جانب سے اسے چھوڑنے کا مطالبہ نہ کیا جاتا ہو۔ وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک بے شمار عہدے ہیں جن کے بارے میں روز یہ سننے کو ملتا ہے کہ استعفی ٰ دے دیں تو کیا وہ استعفیٰ دے دیتے ہیں! اسلام آباد میں مہینوں پر محیط تاریخی دھرنے بھی ہوئے کیا کسی نے استعفی دیا؟ جب لوگ دنیوی دولت اور شہرت کی لالچ میں اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو وہاں ایک صاحب کردار اور باوقار جید عالم دین احکامات الہی ، حدود الہی اور شرعی مقاصد کے تحفظ کے پیش نظر چند مخالفین کے مادی مفادات کو پورا کرنے کے لئے ایک ایسے عہدے کو کیوں چھوڑتا کہ جس سے کوئی مالی مفاد بھی وابستہ نہ تھا ۔
مفتی صاحب کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت ہے۔ میڈیا پر جہاں بڑے بڑے نام نہاد مفکرین ذرا سے اختلاف پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ وہاں مفتی صاحب کا متانت کے ساتھ شستہ لہجے میں باوقار انداز میں مخالف کو جواب دیناصرف انہی کا ہی خاصہ ہے۔ ان ۱۹ سالوں میں وہ حکومتی عہدے پر رہتے ہوئے بھی کئی مواقع پر مختلف حکومتوں کے وزراء سے نبرد آزما رہے اور ان کے خلاف صدائے حق بلند کی ۔جنہیں عہدوں کے چھن جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہو یا عہدوں کی کوئی لالچ ہو تو وہ یوں سود و زیاں کے چکر سے آزاد رویے نہیں رکھتے ۔ مفتی صاحب نے جب جب اور جہاں جہاں مناسب سمجھا شرعی احکام کے تحفظ کے لئے بلا خوف و خطر میدان میں آئے ۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ملک پاکستان کے عوام مفتی صاحب کی ان خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ہم مفتی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہدے پر رہتے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی خدمت بڑے احسن انداز میں کی اور ہمیں بروقت احکام الہی بجا لانے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔اللہ کریم اپنے حبیب کریم ﷺ کے طفیل انہیں دنیا و آخرت میں عزتوں سے سرفراز کرے۔ مفتی صاحب واقعی ایک جرات مند اور باوقار عالم دین ہیں جس نے شرعی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔خلافت راشدہ سنبھالنے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے طرز خلافت کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے ابوبکر آپ نے اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایک امتحان چھوڑا ہے۔بالکل ایسے ہی مفتی صاحب نےبھی اپنے بعد اس عہدے پر آنے والوں کے لئے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ جسے پورا کرنا ان کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا ۔ تاہم ہماری ان کے لئے بھی یہ دعا ہےکہ وہ اس عہدے پر رہتے ہوئے شرعی اصولوں کی پاسداری کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1
MashaaAllah.. A very effective post about qibla Mufti Munib ur rahman,who is our real hero.we all muslims need him as a leader!