اسلامی بینکاری : ایمان و عمل میں عدم مطابقت
محمد ابوبکر صدیق
لیکچرر،انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
17 -09- 2021
……………………………..
فی زمانہ اقلیتیں جہاں بھی ہیں ان کی حالت عموما ناگفتہ بہ ہے۔ ان کا اپنا شعار محدود ہوتا ہے۔ ویسا نہیں ہوتا جیسا اکثریت کا ہوتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا پر کیپیٹل ازم کا غلبہ ہے۔ چند ایک ممالک ہیں جہاں اس کی ناہنجار اولاد اشتراکیت کا قبضہ ہے۔ اولاد اس لئے کہا کہ آخر اس برائی نے بھی تو بالآخر اسی ابلیسی نظام کی گود سے جنم لیا ہے۔ کیپیٹل ازم کے لئے آپ اسے فریکنسٹائن بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہمارے مسلم اسکالرز نے اسے سمجھنے کی بہت کوشش کی اور اس کا متبادل بھی پیش کیا اور کرتے رہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ کہ ہمارے اسکالرز سے کیپیٹل ازم کو سمجھنے میں چوک ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسکالرز مخلص تھے اور امت کو کوئی حل دنیا چاہتے تھے۔ ہمارے اسکالرز کیپیٹل ازم کو صرف معاشی نظام سمجھ کر ہی اس کا حل پیش کرتے رہے۔ حالانکہ یہ صرف معاشی نظام نہیں تھا بلکہ پورا الگ ایک نظام حیات تھا جس کے اپنے نظریات اور عقائد تھے۔ ظاہر ہے جب اسے صرف معاشی نظام کے پیرائے میں سمجھ کر اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کامیابی تو نہیں ہوگی۔ ہاں البتہ عارضی جگاڑ ہوسکا۔
ہمارے مسلم اسکالرز نے اسے سمجھنے کی بہت کوشش کی اور اس کا متبادل بھی پیش کیا اور کرتے رہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ کہ ہمارے اسکالرز سے کیپیٹل ازم کو سمجھنے میں چوک ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسکالرز مخلص تھے اور امت کو کوئی حل دنیا چاہتے تھے۔ ہمارے اسکالرز کیپیٹل ازم کو صرف معاشی نظام سمجھ کر ہی اس کا حل پیش کرتے رہے۔ حالانکہ یہ صرف معاشی نظام نہیں تھا بلکہ پورا الگ ایک نظام حیات تھا جس کے اپنے نظریات اور عقائد تھے۔ ظاہر ہے جب اسے صرف معاشی نظام کے پیرائے میں سمجھ کر اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کامیابی تو نہیں ہوگی۔ ہاں البتہ عارضی جگاڑ ہوسکا۔
کیپیٹل ازم اس وقت ہر مسلم ملک پر نافذ ہے لیکن مکسچر ہے۔ تاہم یہ ایک ایسا اکثریتی نظام ہے کہ جس میں آسمانی مذہب کے قوانین کو مداخلت کی اجازت نہیں۔ اس مذہب میں انسان کو خدائی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اپنی چاھت میں آزاد ہے اور جو چاھے وہ کرے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اس کی خواہشات میں جائز و ناجائز کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ اس کے من میں جو خواہش پیدا ہو اسے پورا کرنا اس کا بنیادی حق ہے اور اسے کوئی بھی طاقت اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔ یہاں خیر و شر کا تعین خواہش کی بنیاد پر ہوتا ہے یعنی سپلائی ڈیمانڈ (طلب و رسد) کی قوتیں فیصلہ کرتی ہیں۔ اس مذہب کا ہر فرد خود غرض ہے اور “سیلف انٹرسٹ ” یعنی ذاتی مفاد کو فوقیت دیتا ہے یعنی ” سب سے پہلے میں اور میرا مفاد”۔ جیسے بھی ہو جس طرح بھی ہو اپنا مفاد منافع زیادہ سے زیادہ کرنا اس کا مقصد حیات ہے۔
ان خد و خال کے ساتھ یہ مذہب تقریبا ہر اسلامی ملک پر نافذ ہے۔ اب مسلم ممالک کیسے ترقی کریں کہ ان کا آسمانی ایمان انہیں ایک خدا کی بندگی کی طرف لاتا ہے جبکہ ملک پر نافذ عملی نظام اسے خواہش نفس کا بندہ بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ آسمانی ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن خیر و شر کا تعین آسمانی کتاب کی روشنی میں کرے۔ جبکہ یہ نظام بندے سے اس کی خواہشات کی روشنی میں یہ فیصلہ کرواتا ہے کہ اس کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا ۔ آسمانی ایمان مومن کو حکم دیتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ کے بندے جبکہ یہ نظام خود غرضی کا سبق ازبر کرواتا ہے۔ آسمانی ایمان مومن سے کہتا ہے آخرت کا منافع زیادہ سے زیادہ کماو، جبکہ یہ نظام صرف اسی دنیا کی زندگی کو ہی زندگی گردانتا ہے اور اسے سنوارنے کے لئے بندے سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی بن پڑے کرے اور زیادہ سے زیادہ دولت کمائے خواہ کسی بھی طریقے سے ہو خواہ جوا ہو یا سود، بدکاری ہو یا کچھ اور۔ بقول اقبال علیہ الرحمہ
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
ایمان و عمل میں عدم مطابقت کے ایسے ماحول میں مسلمان کیسے ترقی کرے کیونکہ اس کے ایمان اور عملی نافذ نظام حیات میں کوئی مطابقت ہی نہیں۔ ترقی تو تب ہو کہ ایمان و عمل میں مطابقت ہو۔ یورپ و مغرب اس لئے ترقی کر گئے کہ وہاں ایمان و عمل میں مطابقت ہے۔ انہوں نے کیپیٹل ازم کی ہر بنیاد کو اپنا ایمان و عقیدہ بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہر بد سے بد تر گناہ کو انسانی حقوق کے نام پر قانونا جائز قرار دیا اور یہی کیپیٹل ازم کا مطالبہ تھا۔ وہاں کا فرد نے ہم جنس پرستی کی خواہش کی تو اسے جائز کردیا۔ روزی کے لئے بدکاری کو قانونا جائز کردیا۔ فرد کی خواہش پورونو گرافی کی تھی تو اسے بھی جائز کردیا۔ یہ اور اس طرح کے دیگر گناہوں کی ڈیمانڈ تھی اس لئے سپلائرز کو بھی اجازت مل گئی۔
خلاصہ یہ کہ مغرب نے تو کیپیٹل ازم کے مذہب کو مکمل قبول کیا اور اس کے احکامات پر ایمان لائے اور اسے اپنے ہاں عملی نافذ کیا۔ وہاں چونکہ ان کے ایمان و عمل میں مطابقت ہے اس لئے وہ ترقی کر گئے۔ اب یہ ترقی کیا واقعی ترقی کہلاتی جاسکتا ہے؟ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ایک مومن کے لئے یہ ترقی سوائے انسانی ذلت کے کچھ نہیں۔ اور یہ ترقی آخرت میں انہیں رسوا کرے گی۔ کیونکہ جو اپنی آخرت کو دنیا کی لذتوں ک بدلے بیچ ڈالتے ہیں وہ یقینا خسارے کا سودا ہی کرتے ہیں۔
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکَم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکَم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!
اس سب کے باوجود جو علمائے کرام اسلامی بینکاری میں بہتری لانے کے لئے جس حیثیت میں بھی کوشاں ہیں وہ قابل ستائش و تحسین ہیں کیونکہ کم سے کم سودی نظام میں رہ کر عوام کو سود سے بچانے کی کچھ نہ کچھ کوشش تو کر رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1