موت کیا ہے اور لفظ ’’میت ‘‘ سے کیا مراد ہے؟
محمد ابوبکر صدیق
لیکچرر،انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
19 -02- 2021
……………………………..
موت کیا ہے ؟قرآن مجید میں ہے : کل نفس ذائقة الموت (ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے)۔قرآن مجید نے موت کو ایک ذائقہ قرار دیا ہے یعنی Taste . “ذائقہ” کیا ہے سب آگاہ ہیں اور کتنی دیر تک منہ میں باقی رہتا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں کہ چند لمحوں بعد ذائقہ ختم ہوجاتا ہے۔تو قرآن مجید نے تمثیلاً موت کو ذائقہ کہہ کر سمجھا دیا کہ موت ہمیشگی کی کیفیت کا نام نہیں بلکہ ایک وقتی حالت کا نام ہے جس کی مدت لمحوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
موت کس پر آنی ہے ؟
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہر آخری انسان خاص و عام نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔موت سے متعلق یہ وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام مسالک کا اتفاق ہےاور اس بارے کسی کا بھی اختلاف نہیں رہا۔
قرآن کی آیت انک میت و انهم میتون سے کیا مراد ہے؟
اہل سنت کے نزدیک اس کا معنی ہے :’’ اے حبیب کریم ﷺ آپ نے انتقال فرمانا ہے اور ان (کفار) کو بھی مرنا ہے‘‘۔ آیت کریمہ میں آپ ﷺ اور کفار دونوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’میت‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل یوں سمجھیں۔
ہر زبان اور اس کے الفاظ کا اپنا پس منظر تناظر اور معنویت ہوتی ہے۔قران مجید عربی میں ہے۔ اس کے اردو ترجمے میں اردو لغت کے حساب سے ادب و اداب کے الفاظ کا چناو عربی لغت سے قدرے مختلف ہے۔عربی میں سامنے والے مخاطب کے لیے بلا تخصیص
’تو تم آپ‘ یعنی واحد مخاطب کے لیے ایک ہی صیغہ’ انت‘ استعمال ہوتا ہے۔ وہاں بیٹا باپ کو ’ انت ‘کہتا ہے اور بالکل درست ہوتاہے۔ البتہ وہاں ادب و آداب کا پتہ اندازِ تکلم اور آواز کی پستی اور بلندی سے ہوتاہے۔جبکہ اردو میں بیٹا باپ کو بڑے پیار سے دھیمی آواز میں سینے پر ہاتھ رکھ کر بھی ’’تو یا تم ‘‘ کہے گا تو فورا منہ پر تھپڑ پڑے گا اور دو چار گالیاں الگ سے۔زبانوں اور ان کے الفاظ کے اسی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ذرا آگے پڑھیں۔
عربی میں ’ میت ‘ اسے کہا جاتا ہے جس پر موت آنی ہو اور یہ بر حق ہے۔کیونکہ عربی میں یہ لفظ خاص و عام ہر دو کے لیے بولا جاتا ہے۔جبکہ اردو میں میت کا لفظ’مردہ ‘ کے لیے بولا جاتا ہے۔اردو زبان کے ماحول اور معاشرے میں لفظ’مردہ ‘ ایسا لفظ ہے جو ہر ایک کے لیے نہیں بولا جاتا۔ مبارک شخصیات ہوں تو ان کے لیے کیا جاتا ہے ’’ فلاں انتقال فرما گئے اور ان کے جسم کو غسل دے دیا‘‘۔ عامی ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ’’ فلاں مر گیا اور مردے کو غسل دے دیا‘‘۔ یہ اردو زبان کے معاشرتی عرف کا تقاضا ہے۔چونکہ لفظ مردہ اور مرنا میں بے ادبی کا پہلو بھی ہے۔اس لیے آیت کے ترجمہ میں حد درجہ احتیاط کی جاتی ہے کہ یہاں کسی عام ذات کا نہیں بلکہ سید الانبیا حضرت محمد مصطفی کریم ﷺ کا مبارک ذکر ہے۔
اسی لیے اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ نےاس آیت کے ترجمے میں حضور نبی رحمت ﷺ کے لیے لفظ مرنا کی بجائے ’’ انتقال فرمانا ہے ‘‘ لکھا ہے۔ جو شان رسالت مآبﷺ کے لیے مناسب ترین لفظ ہے۔اور کفار کے لیے ترجمہ کیا وہ بھی مرنے والے ہیں۔
کیا انسانوں پر یہ موت ہمیشہ رہتی ہے؟ اور قبر میں وہ مردہ و بے جان ہوتے ہیں ؟
اہل سنت (حنفیہ مالکیہ شافعیہ اور حنبلیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ عام انسان خواہ مسلمان ہو یا کافر مرنے کے بعد قبر میں اس کے جسم میں روح کو لوٹا کر زندہ کیا جاتا ہے۔اور یہ قبور میں زندہ کیا جانا قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے سے یوں مختلف ہے کہ قیامت کے دن یہی جسم روح کے ساتھ قبروں سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔جبکہ قبر کی زندگی جسم و روح کے مابین صرف ایک تعلق کی بدولت ہوتی ہے۔گویا موت ہمیشگی کی حالت کا نام نہیں ہے۔مرنے کے بعد انسان کا جسم جہاں پہنچے اسے قبر بنادیا جاتا ہے۔ دریا کی تہہ میں ڈوبنے والے کے لیے وہی جگہ قبر ہے۔ درندہ انسان کو کھا جائے تو اس کا پیٹ ہی اس کی قبر ہے۔ اس کا تعلق قدرت باری تعالی سے ہے جو ہر قادر مطلق ہے۔مرنے کے بعد انسان میں روح لوٹائی جاتی ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتا ہے جس کے بعد اسے دوبارہ موت دی جاتی ہے۔ لیکن جسم اورر روح میں اس طرح کا تعلق پیدا کردیا جاتا ہے کہ جس سے اُسے عذاب کی صورت میں تکلیف اور ثواب کی صورت میں خوشی کا احساس ہوتا رہتا ہے اور یہ قیامت تک جاری رہتا ہے۔جملہ مومنین و مومنات اور کفار کی قبر کی زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے۔برزخی زندگی انسان کے اعمال کے اعتبار سے مختلف مراتب کی ہوتی ہے۔مومنین، کفار مشرکین اور منافقین تمام مرنے کے بعد زندہ کیے جاتے ہیں ۔ وہ مردہ نہیں ہوتے۔
کیا اہل قبور سنتے ہیں اور انہیں باہر والوں کے کسی عمل سے تکلیف یا خوشی ملتی ہے؟
قاضی شوکانی کہتے ہیں : مطلق ادراک ، علم اور سننا تمام اہل قبور کے لیے ثابت ہے۔اہل قبور قرات قرآن کو سن کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں راحت ملتی ہے۔ ان کی قبور کے پاس اگر گناہ کیے جائیں تو ان سے انہیں اذیت ہوتی ہے۔ امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب کا یہی عقیدہ ہے۔علامہ ابن قیم احادیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ وہ اہل قبور کو خطاب کرتے ہوئے سلام کہیں السلام علیکم دار قوم مومنین یعنی تم پر سلام ہو اے مومن قوم کے گھر والو۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کسی پتھر کو خطاب کیا جائے یا ایسے شخص کو جو موجود ہی نہ ہو۔علامہ ابن قیم لکھتے ہیں: سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے اور ان سے تواتر کے ساتھ ایسے اقوال مروی ہیں کہ میت کو زیارت کرنے والے کا علم بھی ہوتا ہے اور وہ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں۔
ا حیات الانبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت ( حنفیہ مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ) کا عقیدہ
اہل سنت کے نزدیک انبیا ءعليهم الصلوة والسلام اپنے اپنے وصال مبارک کے بعد اپنی قبور میں اپنے جسم اصلی کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی اس مبارک زندگی کا شعور اہل دنیا کو نہیں ہوتا۔ وہ اللہ تعالی کی اجازت سے اپنے جسم مثالی کے ساتھ جہاں تشریف لے جانا چاہیں جا سکتے ہیں ۔ کسی انسان کو جاگتے میں تو کسی کو خواب میں اپنی زیارت سے مشرف کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے جسم اصلی کے ساتھ بروز محشر اپنے مزارات مقدسہ سے باہر تشریف لائیں گے۔
قران مجید اور سنت کی نصوص سے احکام ، عقائد وغیرہ کو چار طریقوں سے وضع کیا جاتا ہے۔ عبارۃ النص، اشارة النص، دلالة النص اور اقتضاء النص۔حیات الانبیاء کا ثبوت قرآن مجید کی بیشتر آیات میں پایا جاتا ہے۔جن میں سے چند ایک ذیل میں مذکور ہیں۔
1۔ وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ (45) الزخرف
ترجمہ: اور آپ ﷺان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت کے الفاظ(گزشتہ انبیاء سے پوچھ لی جیے ) سے انبیا ءعليهم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ یعنی گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں تو فرمایا جارہا ہے کہ اے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ خود ان سے پوچھ لیں۔ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو کیا اللہ جل مجدہ یوں کلام فرماتا۔
مولانا سید انور شاہ کشمیری ؒ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) ۔ان کے علاوہ امام جلال الدین سیوطیؒ، امام محمد ثناء الله پانی پتیؒ، امام شہاب الدین آلوسیؒ، امام عبد الله بن أحمد بغویؒ نے بھی یہی بات کہی ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام زندہ ہوتے ہیں۔
2۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ (السجدہ: 23) ترجمہ: اور دی ہم نے موسی کو کتاب، پس (اے نبی ﷺ) اُن سے ملاقات سے متعلق میں شک میں نہ ہوں۔حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی ؒ نے اس تفسیر میں فرمایا ہے کہ حضور ﷺمعراج میں اُن سے ملے تھے۔ (موضح القرآن، تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین ص350،تفسیر خازن جلد 3ص479)
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام سے ملے اور ملاقات بغیر حیات ممکن نہیں۔ لہٰذا اقتضاء النص سے حیات الا نبیاءکو ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اصول فقہ کا یہ مسلمہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو حکم اقتضا النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالت انفراد وقوت استدال میں عبارة النص کے مثل ہوتا ہے۔
شہدا کی زندگی سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (154) البقرہ(اور وہ جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ نہ کہو۔ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں )۔
سورہ آل عمران میں مزید وضاحت کی گئی: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ.(آل عمران آیت 169) (اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اپنے رب سے رزق پاتے ہیں)۔ان آیات کریمہ سے استدلال
1۔ شہدا کی یہ کمال عظمت ہے کہ انہیں موت کا ذائقہ چکھنے کے باوجود “مردہ” کہنا تو دور، مردہ گمان کرنے سے بھی منع کردیا گیا۔ اور ان کی حیات جاوداں کا ثبوت دینے کے لیے اللہ نے انہیں رزق کھلانے پلانے کا فرمان جاری کیا تاکہ ان کی حیات میں کسی کو شک و شبہ نہ رہے۔ اللہ جل مجدہ کے قرب میں عبدیت کی عظمتوں اور رفعتوں میں شہدا کا مقام کیا ہے؟ قرآن مجید کی سورہ النساء میں اللہ نے اپنے مقبول بندوں کی ترتیب کچھ یوں بیان فرمائی ہے:مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا (69) پہلے نمبر پر انبیاء کرام علیہم السلام کا درجہ ہے،دوسرے نمبر پر صدیقین کا،تیسرے نمبر پر شہدا کا،چوتھے نمبر پر صالحین کا، گویا اللہ کے جو بندے تیسرے درجے پر ہیں ان کی عظمتوں پر قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ موت کی وادی سے گزرنے کے بعد بھی زندہ ہیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ رزق بھی پاتے ہیں۔تو پھر اقتضاء النص اور اشارة النص سے اہل عقل کے لیے کیا اب بھی واضح نہیں ہوجاتا کہ جو مبارک گروہ بارگاہ لایزال میں مقبولیت کے اولین منصب اور درجے پر فائز ہیں ان کی حیات جاوداں اور رزق پانے کا عالم کیا ہوگا۔ایک امتی جن کے نام پر، جن کے پیغام پر اپنی جاں جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے حیات جاوداں کا تاج اپنے سر پر رکھتا ہے تو سوچیں ان مبارک انبیاء کرام علیہم السلام کا عالم کیا ہوگا۔
اب سوچیں کہ وہ مبارک جو اولین منصب میں بھی اعلی ترین مقام ، مقام ِمحبوبیت پر فائز ہے جو ثم دنی فتدلی کی بلندیوں سے بھی آگے قاب قوسین کی آغوش قربت تک جا پہنچا ۔ بدر کے معرکہ حق و باطل میں عرب کے کڑیل جوان جام شھادت نوش کرنے سے قبل زخموں سے چور چور گھسٹ گھسٹ کر جس کے قدمین شریفین کو بوسہ دے کر ” فزت برب کعبہ” کا نعرہ مستانہ بلند کرنے کو ہی دنیا و آخرت کی کامیابی گردانتے ہوں۔ احد کے معرکے میں عرب کے جری جنگجو بہادر جواں مرد جس نور کے پیکر کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو پھر سے اکٹھے ہو جائیں ۔ گویا حیات ابدی کی سعادتیں جس مبارک کے اشارہ ابرو کی منتظر ہوں اس مبارک کی اپنی حیات جاوداں کا عالم کیا ہوگا ۔ کیا کسی امتی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے!
شہدا سے متعلق آیات کریمہ کے بارے میں محدث کبیر شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (852ھ)نے فرمایا: ہمارے نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات تمام انبیاء کو نماز میں امامت کروائی اور آپ ﷺ نے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز ادا کرتے دیکھا ۔ پھر وہ مسجد اقصی میں بھی حضور ﷺ کے پیچھے نماز میں موجود تھے اور آسمان میں بھی حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ اس سب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیا علیھم السلام زندہ تھے تو یہ سب ہوا ۔ لہذا انبیا ئے کرام وفات کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل بھی کرتے ہیں ۔ فَإِنَّهُ يُقَوِّيهِ مِنْ حَيْثُ النَّظَرِ كَوْنُ الشُّهَدَاءِ أَحْيَاءٌ بِنَصِّ الْقُرْآنِ وَالْأَنْبِيَاءُ أَفْضَلُ مِنَ الشُّهَدَاءِ (مندرجہ بالا آیت سے شہیدوں کی زندگی کا پتہ چلتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ انبیا شھداء سے افضل ہیں) ۔ (فتح الباری جلد 6ص488)۔قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی (م1225ھ) فرماتے ہیں: فذهب جماعة من العلماء إلى ان هذه الحيوة مختص بالشهداء والحق عندى عدم اختصاصها بهم بل حيوة الأنبياء أقوى منهم وأشد ظهورا اثارها في الخارج حتى لا يجوز النكاح بأزواج النبي صلى اللّه عليه وسلم بعد وفاته بخلاف الشهيد. (تفسیر مظہری ج:1ص:152)۔یعنی بعض علماء کے نزدیک اس آیت میں جس حیات کا ذکرہے وہ صرف شھداء کو ملتی ہے۔ لیکن صحیح قول کے مطابق انبیاء کو حیات شھداء سے بھی بڑھکر ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ شھید کی بیوی سے نکاح جائز ہے مگرنبی کی بیوی سے جائز نہیں۔
امام حافظ محمد بن عبد الرحمن سخاوی شافعی (م902ھ)، علامہ جلال الدین سیوطی (م911 ھ)، کے علاوہ دیگر بڑے جید محدثین اور مفسرین کا یہی عقیدہ ہے کہ رزق صرف زندوں کو ملتا ہے مردہ کے لیے رزق کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ اگر شہدا کو رزق ملتا ہے تو کیا انبیا کو نہیں ملتا ہوگا۔
امام ابن ماجہؒ روایت کرتے ہیں :حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؛ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ، تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا» قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: «وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ»۔ترجمہ: ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب ؒ نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ حضرت ابوالدراد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : حضور نبی کریم ﷺ نے ارشادفر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ قال قلت بعد الموت قل و بعد الموت ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اﷲ حی یرزق فرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو اﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے ۔ اس کو رزق ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث 1637) ۔
مسند البزار اور مسند ابو یعلی میں حدیث مبارکہ ہے:عَن أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ يُصَلُّونَ فِي قُبُورِهِمْ.(حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا انبیاء زندہ ہیں اور اپنی قبور میں نماز ادا کرتے ہیں)۔
یہاں صرف عقیدے کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے تاکہ اہل سنت کے عام احباب کو معلوم ہوسکے کہ اس بارے میں اہل سنت کا عقیدہ کیا ہے۔ان عقائد کی بنیاد قرآن وسنت کے قوی واضح اور بین دلائل ہیں جو کتب کے اندر موجود ہیں۔ لیکن یہاں طوالت سے بچنے کے لیے پیش نہیں کیے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1