علمائے حق ، دین بے زار لبرلز اور سائنس
محمد ابوبکر صدیق
June 6, 2019
……………………………
کیا واقعی علما سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ہیں یا اس اچھوتے علم کو نہیں جانتے ؟
یہ مفروضہ لبرلز اور دین بیزار طبقے نے از خود گھڑا ہوا ہے تاکہ وہ علما پر زبان درازی کر سکیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
سائنس اور ٹیکنالوجی ایک ایسا علم ہے جو بتدریج ترقی کرتا ہے ہر لمحے اس میں بدلاو ہے اور یہی بدلاو اس سے متعلق شرعی احکام میں بدلاو کا سبب ہے۔ اور یہ ایک عقلی بات ہے جو آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔
لبرل اور دین بیزار کہتے ہیں مولوی پہلے اسپیکر کی مخالفت کرتے تھے لیکن بعد میں مان گئے ۔ اور اس بات کو لیکر ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے تفصیل آگے آئے گی۔ تاہم سردست اس سوال کو دیکھتے ہین کہ اسپیکر کی ایجاد اتنی دیر سے کیوں ہوئی حالانکہ سائنس تو پہلے بھی موجود تھی ؟ جیسے یہ سوال انتہائی فضول اور جاہلانہ لگتا ہے بالکل ایسا ہی لبرل کا وہ اعتراض فضول اور جاہلانہ ہے۔ ۔۔۔۔ اس بحث سے اصول یہ نکلتا ہے کہ علم میں تدریج ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امور کی حقیقت کھلتی ہے۔(جبکہ لبرل و دین بیزار طبقہ اس اصول سے جاہل ہے)۔
سائنس و ٹیکنالوجی نے عبادات، جنایات اور معاملات الغرض انسانی زندگی کے ہر باب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سب میں اہم اور نزاکت پر مبنی احکام عبادات اور جنایات کے ہیں۔ علمائے حق ان دو معاملات میں سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں عبادات کے رد و قبول کا معاملہ ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کی ساری عبادات ضائع جاتی رہیں اور قیامت کے دن نامہ اعمال غارت ملے۔ اس لیے اس میں احتیاط برتی جاتی ہے۔(لبرل یا دین بیزار چونکہ عبادات کو اہم نہیں سمجھتے اس لیے انہیں احتیاط سے بھی کوئی لگاو نہیں ۔ انہیں صرف دنیا کی دولت اور سفلی خواہشات کی نزاکت کا احساس ہے بس۔)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب سائنس و ٹیکنالوجی کا معاملہ واضح ہوتا جاتا ہے تو اس حساب سے علما سائنس و ٹیکنالوجی کے کردار کو رد و قبول کرتے آئے ہیں۔ مثلا سپیکر ۔۔۔۔ جب لاوڈاسپیکر ایجاد ہوا تو علما نے اسپیکر کی مطلق مخالفت نہیں کی تھی بلکہ علما اس وقت بھی اپنی تقاریر میں اسپیکر کا استعمال کرتے تھے۔ علما نے صرف دو امور آذان اور نماز میں تلاوت اور تکبیرات میں اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ شرعی اصول یہ تھا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو انسان کی حقیقی آواز میں ہی درست قرار پاتی ہے۔ مصنوعی آواز میں عبادت کا کوئی تصور نہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اسپیکر سے پیدا ہونے والی آواز کی اصلیت کیا ہے ؟
اس سوال کو لے کر علمائے حق نے علمی بحث کے وہ دروازے کھولے جو خود سائنس کے محققین کے لیے نئے باب تھے۔ علمائے حق نے “آواز اور گلے” سے متعلق جن درج ذیل پہلووں پر بحث کی اُس پر اُس وقت کے سائنس دان خود سکوت میں تھے۔
What is definition of Voice?
What is difference in the pitches of human real voice and voice generated in loud-Speaker?
Human voice travels in Ordinary waves while loud-speaker voice travels in electric waves. Will both voices be considered same voice?
What are the differences in pitch and vibration of both voices?
Echo and its reality, Analysis of Human Voice
اس بارے میں اس وقت کے درویش صفت علمائے حق نے تو سائنس کے اصولوں پر ٹھیک ٹھاک بحث کی جس سے شاید یہ لبرلز اور دین بیزار آگاہ بھی نہیں ہونگے۔ آواز سے متعلق یہ وہ جہات تھیں جن سے اس وقت کے سائنس دان خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب معاملہ واضح ہوا کہ لاوڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز اور انسان کی آواز میں صرف پِچ اور وائبریشن کا فرق ہے۔ اس کے ساتھ دیگر پائے جانے والے فروق عبادات کو متاثر نہیں کرتے لہذا عبادات میں بھی اسپیکر کا ستعمال جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کچھ علما نے علمی بنیاد پر یہ اجازت نہیں دی ۔ کیونکہ جن اختلافات کو انہوں نے بنیاد بنایا سائنس دان خود بھی انہی اختلافات میں تقسیم تھے۔
لبرلز اور دین بیزار طبقے کی علما کے خلاف ہرزہی سرائی کی یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے یہاں مختصر انداز میں قلم بند کیا ہے۔
علمائے حق نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے آلات کو صرف اسی خاص تناظر میں جانچا ہے۔ جتنی علمی اور باریک بینی سے علما نے بحث کی ہے یہ لبرلز تو شاید اس میں استعمال کی اصطلاحات کو بھی نہ پڑھ سکیں ۔۔زیادہ دور نہ جائیں تو اس صدی کے مجدد اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب زمین ساکن ہےکا مطالعہ کر کے اپنا شوق پورا کرلیں کہ جو شاید ان کم عقلوں سے پڑھی ہی نہ جائے۔ لیکن اعلی حضرت عظیم البرکت نے اس میں سائنسی دلائل کا انبار لگا دیا کہ زمین ساکن ہے اور آپ کے بعد کے کئی مغربی ماہرین فلکیات نے بھی یہی موقف اپنایا کہ زمین ورج کے گرد نہین گھومتی۔ یہ کتاب اپنے دور کی معرکۃ الآراء تصنیف تھی کہ جب سائنسی آلات ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے لیکن نظام شمسی پر اس قدر دلائل پیش کیے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔ لیکن ان کی ہٹ دھرمی یہی ہے کہ علما سائنس کے مخالف ہیں۔
قمری کیلینڈر کے معاملے کو لے کر حسب معمول جاہل/کم علم وزرا کا کہنا ہے ” ہمیں علما کو سمجھانا ہوگا کہ ٹیکنالوجی اسلام کے خلاف نہیں ” ……. جن بے وقوف لوگوں کو ابھی تک وجہ نزاع ہی سمجھ نہیں آئی وہ بے وقوف کیا سمجھیں گے اور کیا سمجھائیں گے۔ علمائے حق سائنس و ٹیکنالوجی کا کافی فہم رکھتے ہیں ۔ مسئلہ سائنس کی مخالفت کا ہے ہی نہیں۔
اصل مسئلہ کیا ہے ؟
حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ کیا چاند کو دیکھ کر یقینی علم حاصل کرنے کے بعد شرعی حکم پر عمل کیا جائے یا حساب لگا کر ظنی علم کی بنیاد پر عمل کیا جائے؟
علمائے حق کے نزدیک اصل دلیل تو نص ہے کہ حدیث میں رویت کا لفظ آیا ہے جو بدیہی اور صریح لفظ ہے۔ اس کے ساتھ معاون دلیل کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رویت سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اور صرف اسی پر ہی شرعی امر کا دارو مدار ہے۔ قمری کیلنڈر چونکہ شمسی کیلینڈر کی طرح یقینی نہیں ہے بلکہ اس میں اندازہ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے۔ اس وجہ سے قمری کیلنڈر کو شرعی احکام کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا قمری کیلینڈر یعنی فلکیات کے حساب کی بنیاد پر گواہوں کی گواہی رد کی جاسکتی ہے؟
اس بارے میں شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی رائے یہ ہے “ فلکیات کا علم بعض امور میں یقینیات میں داخل ہوچکا ہے تو کئی علما کا موقف ہے کہ کم از کم ان امور میں حسابات سے تعارض حقیقی کی صورت میں گواہ کی گواہی مسترد کی جاسکتی ہے۔ البتہ جہاں ابھی تک فلکیات کا علم ظنیات میں شامل ہے وہاں بدستور گواہ کی گواہی کو فوقیت حاصل ہوگی۔ ہمارے نزدیک یہی موقف درست ہے۔
میری رائے میں اس کے ساتھ ساتھ یہ جہت بھی اہم ہے کہ گواہوں کی گواہی کا فلکی حسابات کے ساتھ فرق کا لیول کیا ہے ؟ معمولی یا غیر معمولی ۔ جیسے چند گھنٹے یا ایک دن یا اس سے زائد کا فرق ۔ علم فلکیات مغربی ممالک کی نسبت مجموعی اسلامی دنیا میں ابھی ترقی پذیر ہے۔ تاہم اسلامی دنیا میں پاکستان میں قدرے بہتر ہے۔اس لیے فلکیات کے حسابات کو بطور قرینہ لیا جاسکتا ہے اور مخالفت کی صورت میں گواہیوں کو رد کیا جا سکتا ہے۔ (یہ اس مسئلے کا سلبی پہلو ہے)۔
جہاں تک ایجابی پہلو کی بات ہے کہ کیا صرف فلکی حساب یا قمری کیلینڈر کی بنیاد پر امر شرعی کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟
تو اس بارے میں علما کا یہ فتوی ہے کہ چاند کو انسانی آنکھ سے دیکھنا لازمی ہے اور ضروری ہے تاکہ یقینی علم حاصل ہوجائے۔ صرف قمری کیلینڈر یا فلکی حساب کی بنیاد پر شرعی حکم کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ علم بہر حال ظنی ہے اور ظن کی بنیاد پر شرعی امور کا مدار نہیں ہے۔ ماہرین فلکیات خود بھی یقین سے نہیں کہتے کہ یہ ہوگا اور ایسے ہوگا اور اس وقت ہوگا ۔۔۔ بلکہ وہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ ایسا ہو فلاں وقت ہو ۔۔۔۔۔ تو اس صورت میں شریعت کے معاملات ظن و تخمین پر نہیں چلائے جا سکتے۔
پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں علم فلکیات کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے کہ اس کے حسابات میں ظن غالب ہی رہے گا۔ اور رویت کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہوگی۔ کیونکہ اسلامی اصولِ رویت نصِ حدیث سے ثابت ہے جو دائمی اصول ہے۔
آج مورخہ ۶ جون ۲۰۱۹ کو فواد چودھری کے اگلے دو ماہ کے چاند سے متعلق پیشین گوئی کے اعلان کو کیسے لیا جائے ؟
مسیلمہ کذاب نے بھی صحرا کے سفر میں اپنے قبیلے والوں کو ایک پیشین گوئی کی تھی کہ وہ چلتے رہیں آگے انہیں پانی مل جائے گا۔ اتفاق سے وہ پیشین گوئی پوری ہوگئی اور آگے پانی مل گیا تو اُس کذاب نے اسی کو اپنا معجزہ قرار دے دیا اور جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا تھا۔ بس یہ بھی اسی نوعیت کا معاملہ سمجھیں اور دین بیزار فواد چودھری کے نئے اعلان کو اسی تناظر میں دیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1