! اسلامی بینک کا کریڈٹ کارڈ
محمد ابوبکر صدیق
17 -02- 2021
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بھی اسلامی بینک کے حامی ہیں لیکن ایسے نہیں کہ زہر ہلاہل کو قند کہنے لگیں۔ہم بھی خواہاں ہیں کہ اسلامی بینکاری شریعت کی روح کے ساتھ پرورش پائے اور اس وکالت میں ہم نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم غلط کو غلط نہ کہیں۔ کرنسی سلم ہو یا رننگ مشارکہ۔۔۔ اس کے بعد یہ ” تاریک کارڈ ” اللہ کی پناہ۔
ایک اسلامی بینک نے حال ہی میں کریڈٹ کارڈ ایشو کیا ہے۔ اور ایک اور اسلامی بینک کا کارڈ اسی طریق پر تیاری کے مراحل میں اس کے لانچنگ پیڈ پر ہے۔ایک دوست نے اس کی تفصیل سے آگاہ کیا اور اس کا پروڈکٹ سٹرکچر بھیجا اور اس پر میری رائے دریافت کی۔ ان سے جو بات ہوئی سو ہوئی۔ میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اس بینک کے شریعہ ایڈوائزرز کو کیا ہوگیا ہے ۔ معاشرے کے لوگ تو یہاں تک کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ’’ ان اسلامی بینک کے مولویوں کو شاید نہ آخرت کا خوف ہے اور نہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جوابدہی کا احساس ۔۔۔۔ یعنی پرکشش تنخواہوں اور مراعات نے اس قدر انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے کہ اب بنی اسرائیل کی طرح حرام کو حلال کرنے کے حیلے تراشتے و تلاشتے ہیں‘‘۔اسٹیٹ بینک پر لازم ہے کہ شریعہ ایڈوائزری پر ایک ہی ذہن کے لوگوں کی اجارہ داری ختم کرے اور ایک ہی شریعہ بورڈ میں مختلف مکاتب فکر کے علما کو نمائندگی دی جائے تاکہ شرعی اصولوں پر سمجھوتے کا امکان کم سے کم ہو۔
اس بینک کے شریعہ ایڈوائزر کی ویڈیو دیکھی تو جناب فرما رہے تھے: ’’ دین کا مزاج ، شریعت کا مزاج پروسس اورینٹڈ ہے رزلٹ اورینٹڈنہیں ۔ شریعت طریق کار کو فالو کرتی ہے، نتائج کو نہیں۔شریعت میں نتائج کی بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاتے بلکہ طریق کار کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں‘‘۔ اور اسی کو بنیاد بنا کر وہ اس کریڈٹ کارڈ کے جواز پر تبلیغ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے ان مفتی صاحب سے یہ شرعی قاعدہ کیسے مخفی رہ گیا جسے امام بزدویؒ(۷۳۰ھ) نے اپنی کشف الاسرار میں بیان کیا : ’’ وَإِنَّمَا الْأُمُورُ بِعَوَاقِبِهَا أَيْ الْمُعْتَبَرُ عَوَاقِبُ الْأُمُورِ‘‘ یعنی امور کی حلت و حرمت میں ان کے نتائج کا اعتبار کیا جاتا ہے‘‘ ۔ جہاں شریعت امور کے طریق کار پر نظر رکھتی ہے وہیں ان کے نتائج کو بھی سامنے رکھتی ہے۔
اس کے بعد مفتی صاحب فرماتے ہیں: شریعت کسی بھی معاملے کا متبادل دینے میں وسعت رکھتی ہے۔ حضرت! بالکل رکھتی ہے ہمیں تسلیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر حرام اور سودی امر کا متبادل خواہ ممکن ہو یا نہ ہو دیا جائے۔
اس میں واضح طور پر شرعی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ جس پر تفصیلی تجزیاتی مقالہ لکھوں گا۔لیکن ابھی جو تکلیف ہوئی وہ بیان سے باہر ہے کہ ان جیسےشریعہ اپروولز نے اسلامی بینکاری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ مشہور اسلامک اکانومسٹ اور عرب عالم دین منذر کہف نے پولیٹکس آف اسلامک فنانس میں ٹھیک لکھا تھا ’’کل تک جو پھٹے ٹاٹ پر بیٹھے قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھاتے تھے اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے تھے جب سے انہیں مہنگی گاڑیاں ، پروٹوکول، ہوائی جہاز کے ٹکٹ، مہنگی ہوٹلوں میں قیام اور دیگر الاونسز سمیت لاکھوں کی تنخواہ میسر آئی ہے ان کے فتووں میں تو بلا کی لچک پیدا ہوگئی ہے۔‘‘۔اللہ ہدایت دے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1