بیوی کی کمائی میں شوہر کا حق؟
December 9, 2021
4,Jamadi-ul-Awwal, 1443AH
…………………………………….
محمد ابوبکر صدیق
……………………….
فیمینزم کا زمانہ ہے اور ہمارے کچھ مولانا حضرات بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ عورتوں سے واہ واہ وصول کرنے کے چکر میں حقائق اور عرف عام کی بہت سی اہم جہات کو ایک طرف رکھ کر کچھ روشن خیال مولانا حضرات کہتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں کہ بیوی کی کمائی پر شوہر کوئی حق نہیں، اور بیوی کی مرضی کہ وہ اپنی کمائی شوہر کو دے یا نہ دے اور شوہر کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ اس انکار پر وہ اپنی بیوی سے خفا ہو۔ پتہ نہیں یہ روشن خیال احباب کیا کیا گل کھلائیں گے۔
شریعت اسلامیہ میں ’’شوہر اور بیوی‘‘ دونوں پر گھر چلانے کے امور میں کچھ اخلاقی فرائض بھی مقرر کئے گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بیوی صاحبہ کی سرے سے کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ وہ تو سارا دن ویلی اور فارغ رہتی ہے اور ہر وقت سجی دھجی بیٹھی رہتی ہے۔ جو کرنا ہے شوہر نے ہی کرنا ہے۔ اس لئے فارغ رہنے سے بہتر ہے کہ وہ کوئی نوکری کر کے کمائی کر لے جیسے مغربی تصور حیات نے بیڑا غرق کیا ہے۔ایسا قطعی نہیں ہے۔ اسلام نے جہاں شوہر کو اس کی حیثیت کے مطابق گھر کے اخراجات ، بیوی کے اخراجات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وہیں بیوی پر بھی لازم کیا ہے کہ اپنے گھر کو جنت بنانا اس کی بھی ذمہ داری ہے۔ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے گھر، مال، اور عزت کی حفاظت، سب سے زیادہ اہم اولاد کی تربیت کی ذمہ داری یہ سب بیوی کی
ذمہ داریاں ہیں۔
وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً”. رواه الطبراني”. الترغيب والترهيب للمنذري (3/ 37)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بتائیے کہ ایک بیوی پر شوہر کا کیا حق ہے؟ اس لیے کہ میں بے نکاحی عورت ہوں، اگر میں استطاعت رکھوں گی تو نکاح کروں گی، ورنہ میں بن بیاہی رہوں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شوہر کا بیوی پر حق ہے کہ اگر وہ عورت کو اپنی خواہش کے لیے بلائے تو اگرچہ وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی خود کو نہ روکے، اور بیوی پر شوہر کے حق میں سے ہے کہ وہ نفلی روزہ شوہر کی اجازت کے بغیر نہ رکھے، اگر کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے تو ویسے ہی بھوکی پیاسی رہی اور یہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور بیوی پر شوہر کا حق ہے کہ وہ گھر سے نہ نکلے مگر شوہر کی اجازت سے، اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے تو آسمان کے فرشتے، رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہاں تک وہ شوہر کے پاس لوٹ آئے۔ اس عورت نے عرض کیا: پھر تو میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔
نوٹ : فیمینزم نظریات رکھنے والی عورتوں کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ شادی ہی نہ کریں اور مجرد زندگی گزاریں ۔
مرد اپنی بیویوں کو مندرجہ ذیل صورتوں میں نوکری کی اجازت دیتے ہیں
۔۱) شوہر مال دار ہے اور گھر میں خادمائیں کام کرتی ہیں ۔ بیوی کو کمانے کا شوق ہے تو اس کے شوق کی خاطر شوہر اسے اجازت دے دیتا ہے۔ چونکہ شوہر مال دار ہے اسے بیوی کی آمدن کی ضرورت ہی نہیں۔ لہذا بیوی پر بھی کوئی اخلاقی پابندی نہیں کہ وہ شوہر کے ساتھ آمدنی شیئر کرے۔ لیکن شوہر کے دل میں اپنی محبت اور مقام پیدا کرنے کے لئے اگر اپنی کمائی سے متعلق اس سے پوچھ لے کہ آپ کو چاھئے تو یہ حاضر ہے ۔ صاف ظاہر ہے شوہر مسکرا دے گا اور کہے گا ’’ جانِ دل میرے لئے تو آپ کی یہ مسکان ہی کافی ہے‘‘۔۔۔۔ بیوی کے اس ایک اخلاقی اقدام سے دونوں میں محبت بڑھتی ہے۔ (یی بھی ایک الگ بحث ہے کہ ایسے گھر میں اولاد کی تربیت پر کیا اثر پڑتا ہے جو صرف خادماوں کے ہاتھ سے تربیت پاتے ہیں)۔
۔۲) شوہر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن باروزگار ہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے گھر کے نارمل اخراجات برداشت نہیں ہورہے ہوتے۔ تو وہ سوچتا ہے کہ بیوی بھی جاب کرے تاکہ مل کر گھر چلا سکیں۔ لیکن اس کے لئے وہ مختلف جہات میں سوچتا ہے۔ کہ بیوی کی جاب کے دوران گھر کے خانہ داری امور، بچوں کی نگہداشت وغیرہ میں حرج واقع ہوگا۔ وہ بیوی سے جاب کروانے کی ’’کاسٹ‘‘ پر سمجھوتا کرتا ہے۔ ۔۔۔ ایسے میں بیوی صاحبہ سے دو رویے ممکن ہیں۔ اول یہ کہ کمائے اور گھر کے اخراجات میں شوہر کا ہاتھ بٹائے اور اپنا گھر جنت بنائے اور شوہر کی نگاہ میں عزت پائے، بلکہ ایسی عورتیں معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ دوسرا رویہ یہ ممکن ہے کہ ’’بیوی شور مچائے کہ یہ میری کمائی ہے اس پر صرف میرا حق ہے میں اس کی مالک ہوں ‘‘۔ تو ایسی عورتیں شوہر سے محبت اور عزت نہیں لے پاتیں اور عموما اپنا گھر ہی توڑ بیٹھتی ہیں اور طلاق لے جاتی ہیں۔ میرے پاس اکثر اوقات طلاق کے مسائل سے متعلق فون آتے ہیں لیکن اکثر واقعات میں طلاق واقع ہوچکی ہوتی ہے۔ اور ان میں زیادہ تر وجوہات بیوی کا گھر کے اخراجات میں اپنی کمائی دینے سے انکار ہوتا ہے۔
یہ خرابی میڈیا اور فیمینزم کی حالیہ لہر نے زیادہ پیدا کی ہے۔ معاشرے کو مال دار امیر گھرانوں کے لائف اسٹائل دکھا دکھا کر مڈل کلاس عورتوں کے دماغ میں زہر بھردیا ہے۔ وہ یہ سوچتی ہی نہیں کہ ’’فلموں ڈراموں اور حقیقی دنیا میں جن عورتوں کے شوہر ان کی کمائی نہیں لیتے ان کے شوہر مال دار ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ اُن کا شوہر مڈل کلاس اور اس کے باہم تعاون کا محتاج ہے۔
۔۳) شوہر بے روزگار ہے اور بیوی کو کمانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں؛اول : بیوی انکار کردے کہ وہ اپنی کمائی کیوں دے۔ اس کا نتیجہ سب جانتے ہیں کہ کیا نکلتا ہے۔
دوم: بیوی اپنی کمائی گھر کے اخراجات میں صرف کرے۔ یہ صورت حال نہایت اہم ہے۔ بے روزگار شوہر کچھ ہی عرصے بعد احساس کمتری کا شکار ہونے لگتا ہے، بات بات پر عورت اپنی کمائے کھانے کا طعنہ دیتی ہے۔ بات طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ ایسی صورت کو خوش اسلوبی سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ کہ مرد اپنی بیوی کی دل جوئی کرے کہ وہ اس کے سخت حالات میں اس کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا رہی ہے، اس لئے وہ اس کی دل جوئی اور زیادہ سے محبت اور حسن سلوک کی حق دار ہے۔ وہ بے روزگار ہے گھر میں رہتا ہے تو اسے سمجھوتا کرنا پڑے گا اور گھر کے خانہ داری کے امور میں کچھ ذمہ داریاں اپنے سر لینا ہونگیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ جناب ’’ کاٹن کا سوٹ پہنے 24 گھنٹے صاحب بنا بیٹھا رہے‘‘ اور انتظار کرے کہ 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کر کے آنی والی بیوی گھر میں جھاڑو، پوچا لگائے گی ، کپڑے دھوئے گی، کھانا تیار کرے گی اور نوالے توڑ توڑ کر اس کے منہ میں ڈالے گی۔ اسلام ایسے استحصال کو بھی قطعی گوارا نہیں کرتا۔
یہ جملہ کہ ” بیوی کی آمدنی پر صرف اسی کا حق ہے” یہ اسلامی اصولوں کے ہی خلاف ہے۔ کیونکہ ’’کسی بھی انسان کا اس کی آمدنی پر صرف اسی کے حق کا کوئی تصور ہی نہیں‘‘۔ اسلام اخلاقی بنیادوں پر مرد و عورت کو باہمی محبت کے رشتے میں جوڑتا ہے جیسے ہی دونوں میں کسی طرف سے خود غرضی کی بو آتی ہے دوسرا فریق عموما اس سے دلی طور پر جدا ہوجاتا ہے جو طلاق کی نوبت بنتی ہے۔ کیا فائدہ کہ عورت آمدنی بچانے کے چکر میں اپنا گھر ہی برباد کر ڈالے۔ پھر کچھ عرصے بعد تنہائی کی زندگی سے تنگ آکر وہی طلاق یافتہ عورتیں بے روزگار مرد کا رشتہ بھی قبول کر لیتی ہیں اور گھر کے اخراجات اٹھاتی ہیں اور ایسی کئی خواتین کو میں جانتا ہوں۔ ۔۔۔۔ کیا فائدہ ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔ جب آپ نے بالآخر ہی ہی آکر کرنا تھا تو پھر پہلا گھر ہی کیوں برباد کیا!۔
رہی بات ملکیت کی تو بالکل درست ۔۔ عورت اپنی کمائی کی مالک ہے بھلے وہ دینے سے انکار کردے۔۔۔ مگر بات یہیں پہ نہ روکیں نا۔۔۔ پھر جواب میں شوہر بھی مجاز ہے کہ اپنی ” دی ہوئی اجازت جس کا وہ اکیلا مالک ہے” بیوی سے واپس لے لے اور اسے نوکری چھوڑ کر گھر میں رہنے کا حکم دے۔ میڈم پہلے اور آخری مہینے کی تنخواہ پھر جی بھر کر اپنی مرضی کے مطابق خرچ رے اور شوہر کو ” ایک ٹکا بھی نہ دے ” اور شوہر کا حق ہے کہ آئندہ نوکری کرنے کی اجازت کے معاملے میں بیوی کو ” ٹکا سا جواب دے دے۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بیوی اپنی آمدنی کی مالک ہے لیکن اسلام اسے چند اخلاقی ذمہ داریوں کا پابند بھی بناتا ہے۔ اگر وہ ان ذمہ داریوں سے الگ ہوجائے تو پھر اسے اس انکار کے کچھ تلخ نتائج بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
………………………………………
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1