آن لائن جماعت کے لئے لاؤڈ سپیکر سے استدلال
تحریر : محمد ابوبکر صدیق
آن لائن جماعت کا مسئلہ اپنی نوعیت میں بذات خود ایک ایسا مضحکہ خیز امر ہے کہ کوئی بھی صاحب بصیرت ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر اس معاملے کے جو “لتے” لئے گئے ہیں اسی سے اندازہ لگا لیں ۔ لیکن مجھے یہ پوسٹ لکھنی پڑ رہی ہے کہ غامدی احباب ماضی بعید میں سپیکر کے جواز کے معاملے میں جھوٹ بول بول کر اسلاف علمائے کرام پر کیچڑ اچھالنے ، ان پر الزام لگانے اور انہیں جہالت کی سند دینے میں مصروف ہیں۔اس لئے میں نے اہم سمجھا کہ اپنے قیمتی نوجوانوں کے سامنے کچھ حقائق رکھ کر غامدی صاحب کے فریب کا پردہ چاک کروں ۔ اسلاف علما پر جو سخت زبان غامدی احباب کھولتے ہیں۔ غامدی صاحب پر ہمارے الفاظ تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ غامدی صاحب بذات خود قیام جماعت کے قائل ہی نہیں وہ صرف اس کی فضیلت کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک جماعت کا اہتمام صرف حضور نبی اکرم ﷺ کے وقت خاص تھا۔ آپ کے بعد زید بکر کی امامت کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔ ہاں اگر کروانی بھی ہے تو ریاست کا سربراہ امامت کروائے۔ یہ ہے غامدی صاحب کا موقف ۔۔۔۔۔ جس پر بڑے سوالات اٹھ سکتے ہیں کہ ایک طرف غامدی صاحب کہتے ہیں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف کہتے ہیں ریاست کا سربراہ مذہبی فریضہ امامت سر انجام دے۔ غامدی صاحب خود ہی ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اپنے ہی اصول کی درگت بناتے ہیں۔
“سپیکر کی اجازت ” کو لے کر آن لائن جماعت کا ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ کہ ابتداء سپیکر کی مخالفت ہوئی پھر وہی ” مولوی” بعد میں مان گئے۔ اس لئیے آن لائن جماعت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔پہلے تو یہ یقین کر لیں ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔ کیوں ؟ اس کیوں کا جواب میں آگے چل کر دونگا ۔لاؤڈ سپیکر کے معاملے میں غامدی احباب سنی سنائی کے قائل ہیں۔ بے چارے سوشل میڈیا سے باہر تاریخی کتب کا مطالعہ کر تے ہی نہیں ۔ کسی نے جو کچھ بھی کہہ دیا سچ مان لیا صرف شرط یہ ہوتی ہے کہ بس بات علماء کے خلاف ہونی چاھیے ۔
کسی بھی نئے معاملے کے شرعی جواز کے لئے علمائے کرام کا طریقہ کار کیا ہے؟
علمائے کرام اس بارے میں بالکل وہی طریقہ اپناتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ کہ وہ ہر نئے در پیش معالے پر قرآن و سنت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرتے تھے۔ پھر اجماع کی جانب ۔ پھر قیاس ۔۔۔ بالآخر اجتہاد کی جانب ۔ لیکن ہر اصل کی اپنی اپنی شرائط پوری کی جاتی تھیں۔ علمائے کرام بھی بالکل وہی طریقہ اپناتے ہیں۔ کیونکہ فتوی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ ایک شرعی امر پر اللہ کے رسول ﷺ کی نیابت جیسا اہم امر ہے۔ اس میں وقت بھی لگتا ہے اور محنت بھی۔ (البتہ غامدی صاحب کو ہر امر میں مجتہد بننے کی خواہش ہوتی ہے اس لئے وہ کسی بھی شرط کو خاطر میں نہیں لاتے)۔
ماضی بعید میں جب لاؤڈ سپیکر متعارف ہوا تھا تو اس وقت علمائے کرام نے کس معاملے میں سپیکر کی مخالفت کی تھی؟
علمائے کرام نے سپیکر کی مطلق طور پر مخالفت نہیں کی تھی۔ چنانچہ مذہبی اجتماعات میں تقریروں، نعت جیسے امور میں علما ئے کرام خود اس کا استعمال کرتے تھے ۔ علما نے صرف تین امور آذان اور نماز میں تلاوت اور تکبیرات میں اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ شرعی اصول یہ تھا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو انسان کی حقیقی آواز میں ہی درست قرار پاتی ہے۔ مصنوعی آواز میں عبادت کا کوئی تصور نہیں ہے۔
کیونکہ سپیکر کے جواز کے معاملے میں انسانی آواز کے حقیقی یا مصنوعی ہونے کا اخفا تھا جس سے یہ شبہ تھا کہ کہیں اگر یہ مصنوعی آواز ہوئی تو شرعی اصولوں سے انحراف کی بدولت کہیں عبادت کی ادائیگی ہی شک میں نہ پڑ جائے۔ اس لئے علمائے کرام نے عبادات کے معاملے کو شک میں ڈالنا پسند نہیں کیا کیونکہ عبادت کی ادائیگی یقین کی حالت میں کی جاتی ہے۔
چنانچہ علمائے کرام نے فزکس کی دنیا میں آواز سے متعلق نت نئے پہلو اجاگر کر دئے جس سے ان علمائے کرام کی علمی شان کا اظہار ہوتا ہے جسے غامدی احباب سمیت دیگر لبرلز “مولوی کی جہالت” سے تعبیر کرتے ہیں۔
اب سوال یہ تھا کہ اسپیکر سے پیدا ہونے والی آواز کی اصلیت کیا ہے ؟
اس سوال کو لے کر علمائے حق نے علمی بحث کے وہ دروازے کھولے جو خود سائنس کے محققین کے لیے نئے باب تھے۔علمائے حق نے “آواز اور گلے” سے متعلق جن درج ذیل پہلووں پر بحث کی اُس پر اُس وقت کے سائنس دان خود سکوت میں تھے۔
What is definition of Voice?
What is difference in the pitches of human real voice and voice generated in loud-Speaker?
Human voice travels in Ordinary waves while loud-speaker voice travels in electric waves. Will both voices be considered same voice?
What are the differences in pitch and vibration of both voices?
Echo and its reality, Analysis of Human Voice
اس بارے میں اس وقت کے درویش صفت علمائے حق نے تو آواز کے سائنسی کے اصولوں پر ٹھیک ٹھاک بحث کی جن کی تفصیل اسلاف علما کی کتب فتاوی میں دیکھی جا سکتی ہیں جس سے شاید یہ لبرلز اور دین بیزار آگاہ بھی نہیں ہونگے۔ آواز سے متعلق یہ وہ جہات تھیں جن سے اس وقت کے سائنس دان خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب سائنسی تحقیقات سامنے آئیں معاملہ واضح ہوا کہ لاوڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز اور انسان کی آواز میں صرف پِچ اور وائبریشن کا فرق ہے۔ اس کے ساتھ دیگر پائے جانے والے فروق عبادات کو متاثر نہیں کرتے ۔ تب جا کر علمائے کرام نے عبادات میں بھی اسپیکر کے استعمال کو جائز قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ علما نے علمی بنیاد پر یہ اجازت نہیں دی ۔ کیونکہ مندرجہ بالا سوالات جن کو انہوں نے بنیاد بنایا تھا سائنس دان خود بھی ان کے جوابات میں اختلافات رکھنے کی بدولت تقسیم تھے۔لبرلز اور دین بیزار طبقے کی علما کے خلاف ہرزہی سرائی کی یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے یہاں مختصر انداز میں قلم بند کیا ہے۔
اب میں یہ اپنے نوجوان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اپنے اسلاف علما کو علم کے علم بردار مانتے ہیں یا پھر وہ لبرلز والی روش پر جانا چاھتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بحث کی جانب جس پر لبرلز اور دین بیزار احباب نے شور بپا کر رکھا ہے کہ جیسے گزرتے وقت کے ساتھ مولویوں نے لاؤڈ سپیکر کو جائز تسلیم کرلیا بالکل ایسے مستقبل میں یہ مولوی آن لائن جماعت کا جواز بھی تسلیم کر لیں گے۔
کیا آن لائن جماعت کا جواز مستقبل کے علما تسلیم کر لیں جیسے سپیکر کے معاملے میں ہوا ؟
بالکل بھی نہیں ۔۔۔ کیوں ؟ جواب سے پہلے یہ اصول ذہن میں رکھیں کہ “ہر معاملے کے لئے یہ لازمی نہیں ہوتا کہ اُس کے متعلق نتیجہ وہی نکلے جو ماضی میں کسی اور مسئلے کا نکلا ہو”۔نیز یہ کہ ععلما کی نظر اس اجازت کے مضمرات پر ہوتی ہے جو اس وقت لوگوں کے سامنے نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر اعضا کی منتقلی کی اجازت کے بعد یہ عالمی سطح پر ایک مفید و منافع بخش صنعت و کاروبار بن چکا ہے۔زندہ لوگوں کے اعضا حیلے بہانوں سے نکالے جانے کے واقعات عام ہو چکے ہیں۔آن لائن نماز کی اجازت سے کیا کیا گُل کھلیں گے اہل بصیرت سے مخفی نہیں۔
اب آئیے سوال کے جواب کی جانب
جیسا کہ بیان ہوچکا کہ سپیکر کے جواز میں کچھ امور کا اخفا تھا جن کا اظہار شرعی جواز کے فتوے سے پہلے لازمی تھا ۔ تاہم اس میں کسی بھی شرعی اصول سے یقینی انحراف نہیں بلکہ انحراف کا شبہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تحقیق کی بدولت جیسے ہی وہ شبہ دور ہوا اور معاملہ واضح ہوا تو علما نے عبادات میں بھی لاؤڈ سپیکر کے جواز کا فتوی دے دیا۔
آن لائن جماعت کا معاملہ لاؤڈ سپیکر سے بالکل الٹ ہے ۔ آن لائن جماعت کے معاملے میں قیام جماعت کے بہت سارےشرعی اصولوں سے یقینی انحراف مو جود ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاملہ قیامت تک جائز قرار نہیں پائے گا۔ جیسے بہت سارے ماضی کے امور ۱۴۰۰ صدیاں قبل بھی ناجائز تھے ، آج بھی ناجائز ہیں اور قیامت تک ناجائز رہیں گے۔ کیونکہ وہ شرعی اصولوں سے متصادم ہیں۔
آن لائن جماعت میں کیا مسائل ہیں ؟
۔1۔ مقتدی امام سے آگے کھڑا نہ ہو ۔جو مقتدی امام سے ایک قدم بھی آگے کھڑا ہو تووہ امام کی اقتداء سے نکل جائے گا ۔ اس مسئلے پر تمام فقہا متفق ہیں۔ آن لائن جماعت میں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ امام آگے ہے یا مقتدی ؟
۔۲۔ جماعت کے قیام کے لئے بنیادی مسئلہ امام و مقتدی کے مابین فاصلے کا ہے۔ حتی کہ اگر ایک شخص اسی مسجد میں جگہ ہونے کے باوجود باہر صحن میں کھڑا ہوجائے تو وہ امام کی اقتداء میں شمار نہیں ہوتا ۔
۔۳۔ دو لوگ جماعت کریں تو امام اور مقتدی اس طرح برابر کھڑے ہوتے ہیں کہ مقتدی کا پاوں امام کے پاوں کی ایڑھی برابر ہو۔ آن لائن جماعت میں امام ایوان صدر میں ہے اور اکیلا ہے ایک مقتدی آن لائن ہے تو وہ کیسے کھڑے ہوں گے ؟
۔۴۔ دو لوگوں کی جماعت ہو رہی ہو اور تیسرا بندہ آجائے تو امام ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے اور مقتدی ایک قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔ آن لائن جماعت میں یہ کیسے ہوگا؟
۔۵۔ صفوں کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ مرد پہلی صف پر ۔ بچے دوسری صف پر ، خنثی یعنی خسرے تیسری صف پر اور عورتیں چوتھی صف میں ۔ آن لائن جماعت یہ کیسے ہوگا ؟
۔۶۔ دوران نماز اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ پیچھے کھڑے شخص کو آگے مصلے پر کھڑا کرتا ہے ۔ آن لائن جماعت میں ایوان صدر کا امام یہ کیسے کرے گا ۔ اگر وہاں امام اکیلا ہو اور باقی سب آن لائن تو پھر امام کسے اور کیسے آگے کھڑا کرے گا؟
۔۷۔ آن لائن جماعت میں انٹرنیٹ کنکشن ہی منقطع ہوگیا پیکج ختم ہوگیا تو وہ کیا کرے گا ؟
یہ سارے وہ مسائل ہیں جو آن لائن جماعت سے پیدا ہوتے ہیں۔ یقین کریں کہ آن لائن جماعت کے یہ مسائل کم اور لطیفے زیادہ ہیں ۔ لبرلز کی جانب سے ان سب کا ایک ہی ممکنہ جوا ب ہو سکتا ہے ۔۔۔اور وہ یہ کہ ۔۔۔ جی آن لائن جماعت سے یہ ساری مشکلیں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں ۔ ۔۔ اور اس جواب کے ایک جاہلانہ جواب ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاھیے۔
آن لائن جماعت سے ایک بنیادی اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گھروں میں بیٹھے بیٹھے جماعت میں شرکت ہوجاتی ہے تو پھر مسجد کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟
اس کا جو ممکنہ جواب ہے وہ یہ ہوسکتا ہے : آن لائن جماعت کا اطلاق عام حالات میں نہیں بلکہ موجودہ وبائی حالات کے پیش نظر شرعی رخصت کے تناظر میں ہوگا۔ اس جواب سے پھر ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی رخصت کی تاثیر کیا نوعیت کیا ہے؟
استثنائی حالات میں رخصت ایک شرعی حکم سے مکمل طور پر استثنا ء دیتی ہے ۔ جزوی استثنا ء نہیں ۔ مثلا مرض میں مبتلا یا تو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے یا پھر گھر میں ادا کرے ۔ درمیان کی کوئی صورت حال نہیں ہے۔ جیسے مسجد کا سپیکر آن کرلیں اور گھر بیٹھا مریض آواز کے ذریعے یا سکرین کے ذریعے گھر بیٹھے اقتدا ء کرتا رہے ۔ ورنہ وہی سولات پھر پیدا ہونگے جس کا ذکر ہم پیچھے کر آئے ہیں۔ مسافر ْیا مریض روزہ رکھے یا نہ رکھے رخصت ہے ۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں کہ جب جب بھوک لگے کھاتا رہے اور روزہ بھی قائم رہے۔ اس لئے جماعت سے رخصت کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یا تو جماعت میں شریک ہوجاو یا پھر شرعی عذر کی بدولت گھروں میں اکیلے پڑھ لو ۔
(موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد ) دیکھ لیں جس میں مختلف اسناد سے مروی احادیث اسی موضوع پر ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت مبارکہ ناساز ہوئی تو امامت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ مبارک مسجد نبوی سے متصل تھا اور دروازہ مسجد نبوی میں بھی کھلتا تھا۔ لیکن آپ نے اس کے باوجود گھر میں رہتے ہوئے بستر پر استراحت فرما ہوتے ہوئے بھی امامت نہیں فرمائی اور نہ ہی حجرہ مبارک میں بیٹھے ہوئے جماعت کی اقتداء کی۔ اگرچہ امام کی آواز بھی حجرہ مبارک میں واضح آتی تھی۔صحت ناساز تھی عذر بھی شرعی تھا۔ شارع بھی خود تھے۔ اس سب کے باوجود گھر میں رک کر جماعت نہ کرانے میں اور نہ ہی مسجد کی جماعت میں شامل ہونے میں اہل عقل کے لئے ۔۔ پھر دہرائے دیتا ہوں۔۔۔۔کہ ۔۔۔ صرف اہل عقل کے لئے واضح اشارے ہیں کہ گھروں میں رہتے ہوئے مسجد کی جماعت کے ساتھ شرکت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل شریعت میں موجود ہے۔
آن لائن جماعت کا قول حقیقت میں شرعی رخصت ہے یا شرعی امور میں جہالت کی بدولت دینی احکام پر غیر مطلوب شدت اختیار کرنا ہے ؟
یہ ہے وہ سب سے اہم نکتہ جس کی جانب احباب کی توجہ دلاتا چلوں ۔ کہ جناب آن لائن جماعت کا تصور در حقیقت دینی احکام میں ایسی جاہلانہ شدت اختیار کرنا ہے جس کی مثال شاید اسلامی تاریخ میں اٹھنے والے باطل فرقوں حتی کہ خوارج کے ہاں بھی نہیں ملے گی۔
اسلام جب وبائی حالات جیسے استثنائی حالات میں جماعت کے ترک کی جانب رخصت دیتا ہےتو غامدی صاحب جماعت کے قیام کا ایسا شدید قول کیوں اختیار کر رہے ہیں کہ جماعت ضرور ہی ہو ۔بھلے اللہ تعالی نے رخصت دی ہے لیکن غامدی صاحب نہیں دینے لگے۔
علما ئے کرام نے بھی یہ فرمایا ہے کہ اکثریت گھروں میں تنہا نماز پڑھے لے بالخصوص بچے ، بوڑھے اور مریض ۔ یا پھر ہر گھر کے افراد اپنے اپنے گھروں میں قیام جماعت کا اہتمام کر لیں ۔ صرف محدود لوگ مسجد کو ویران کرنے سے بچانے کی غرض سے جماعت کا تسلسل جاری رکھیں ۔ اور جماعت کا یہ تسلسل یا جماعت کیوں ضروری ہے اس کی اہمیت پر سنت نبوی ﷺ کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔
ہذا عندی وما توفیقی اللہ باللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1