! خود فیصلہ کر لیں
محمد ابوبکر صدیق
10 -05- 2020
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ طبقہ جو مرزا انجینئر جیسوں کو ’’ عالم ‘‘ سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مرزا اس لئے ٹھیک ہے کہ وہ کہتا ہے ’’ سب کو سنو اور فیصلہ کرو کہ جس فرقے سے جو اچھی بات ملے قبول کرو‘‘۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں ایک خارجی (یعنی اسلام سے باہر دیگر مذاہب کے مقابلے میں) اور ایک اندرونی ( اسلام کے اندر دیگر مسالک کے مقابلے میں )۔
خارجی پہلو
آئیے ذرا اس سوچ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کیا یہ سوچ پہلی بار مرزا نے دی ہے ؟ نہیں بالکل نہیں۔ اسلام کا تو پہلے دن سے ہی اصول یہ رہا ہے کہ پچھلے ادیان سے اچھی چیزوں کو قبول کیا اور رہنے دیا لیکن ان معاملات کو اسلامی اصولوں پر ڈھال دیا تاکہ شرعی اصولوں سے تصادم ختم ہوجائے۔ اور اسلاف فقہائے اسلام نے یہی روش رکھی اور آج تک یہ روش جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں چیز فلاں مذہب میں اچھی ہے ؟ کیا علوم شریعت سے نابلد عام مسلمان کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عقل پر یہ فیصلہ کرے۔ نہیں بالکل نہیں۔
کیوں ؟ اسے یوں سمجھئے کہ جب بندہ کسی شدید مہلک مرض میں مبتلا ہو تو کیا میڈیکل سے نابلد مریض کو طبیب سے مشورہ کئے بغیر دوائیوں کا انتخاب خود کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اتنی ساری میڈیسن ہیں وہ خود منتخب کر لے جو اچھی لگے؟ جواب ہے نہیں کیونکہ جان کا معاملہ ہے ممکن ہے وہ غلط میڈیسن یا غیر متعلقہ میڈیسن کا انتخاب کر لے تو جان ہلاکت میں پڑ جائے گی۔ تو جناب یہ ایمان کا معاملہ ہے اگر اس میں غیر عالم مسلمان کو اس کی ذاتی پسند و ناپسند کی خواہشات پر چھوڑ دیا جائے تو غلط انتخاب کی صورت میں ایمان تو گیا پھر۔ ممکن ہے اُسے عیسائیت و یہودیت اور اسلام میں سے یہودیت پسند آجائے تو پھر کیا وہ یہودی بن جائے اور اُسے حق مذہب قرار دے۔ اگر آپ کہیں کہ نہیں حق و باطل کا یہ اختیار صرف مسلم فرقوں سے متعلق ہیں۔ تو اُس پر ہم کہیں گے جناب ذرا وہ دلیل تو بتائیے جس کی وجہ سےآپ اس فیصلے کا اختیار مختلف ادیان کے معاملے میں نہیں مانتے اور مسلم فرقوں کے لئے تسلیم کرتے ہیں؟ تو ان کی جانب سے لمبا سکوت طاری ہوجاتا ہے گویا ان کی سیٹی گم ہوگئی ہو۔ اگر حق و باطل کا فیصلہ ہر بندے کی اپنی عقل پر چھوڑنا ہی منشائے الہی ہوتا تو پھر نبی ﷺ مبعوث کرنے اور قرآن مجید نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔پھر توحضور نبی اکرم ﷺ کو معلم اخلاق بنا کر بھجنے میں کوئی حکمت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ ہر بندے نے اچھے اخلاق کا فیصلہ اپنی عقل کی بنیاد پر کرنا تھا۔ لیکن آپ ﷺ کو بھیج کر قدرت نے واضح کردیا کہ وحی الہی کی ہدایت کے بغیر حق و باطل کا فیصلہ ممکن ہی نہیں اور اس کے لئے کسی نہ کسی معلم کی رہنمائی لازم ہے۔
دوسرا امر یہ بھی ہے کہ ’’ فیصلہ خود کرو‘‘ کی رٹ لگانے والے خود ساختہ مفکرین پھر کس لئے تقاریر کرتے پھرتے ہیں۔مقالہ جات لکھتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ وہ خود فیصلہ کر لیں۔ گھنٹوں یوٹیوب پر لگا کر ریکارڈنگ کرنے والے یہ لوگ کمائی کے لئے کوئی اور کام ڈھونڈیں۔ اس پر وہ کہیں گے ’’ جناب ہم تو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں کہ خود فیصلہ کیسے کریں‘‘۔ اس پر ہماری بھی یہی گزارش ہے کہ علمائے حق کے لئے بھی یہ حق تسلیم کرلیں کہ وہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ ’’ آپ جیسے فتنہ پرور لوگوں کی تقلید کی بجائے حق کی تقلید کریں اور یہ فیصلہ کرنے میں وہ ان کی رہنمائی کریں۔
خلاصہ یہ کہ بندے کو اس کی عقل و خواہشات پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر بندے کو اس کی خواہشات پر چھوڑ دیں تو پھر وہ شریعت کا مطیع نہیں رہے گا بلکہ اپنی خواہشات کا بندہ بن جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اہم ہیں۔
۔1۔ نوجوان جو علوم شریعہ سے نابلد ہے وہ کس بنیاد پر یہ فیصلہ کرے گا؟
۔2۔’’کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بری‘‘۔ انسانی عقل میں یہ طاقت نہیں کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کرے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ ممکن ہے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے وحی الہی اسے برا کہے اور اس کے الٹ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی عقل جسے اچھا یا برا کہے وحی الہی بھی اسے اچھا یا برا کہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کسی بھی معاملے کے اچھا یا برا ہونے کا حتمی فیصلہ عقل نہیں کرسکتی۔ عقل شک میں مبتلا رہتی ہے اور ایمان کی بنیاد شک پر رکھی نہیں جاتی۔ اس لئے یقین کامل کا ہونا لازمی ہے۔ یقین تک پہنچنے کے لئے وحی الہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وحی الہی نبوت کے واسطے سے بندوں تک یقین کا علم پہنچاتی ہے۔ نبی اپنی امت تک یہ ’’یقین‘‘ علم و حکمت کے ذریعے پہنچاتا ہے۔ اور علما ہی اس علم نبوت کے وارث ہوتے ہیں جو نبی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد نسل در نسل علم کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں حتی کہ اگلا نبی مبعوث ہوجائے۔ اب چونکہ سلسلہ نبوت و رسالت سید الانبیاء و الرسل حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم کردیا گیا اور آپ کے بعد کسی نبی و رسول نے نہیں آنا۔ اس لئے آپ ﷺ نے ’’علم نبوت‘‘ کے لئے اپنی امت کے علما کو اپنا وارث قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج بھی اور قیامت تک کسی بھی معاملے کے ’’حسن و قبح‘‘ کا حتمی تعین وحی الہی سے علم نبوت کی روشنی میں ہی کیا جائے گا اور اس کے لئے علم شریعت کی ضرورت ہوگی جو کہ علمائے اسلام ہیں۔ لہذا اس معاملے کو عام مسلمانوں کی عقل پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کریں کہ دیگر مذاہب سے انہیں جو اچھا لگے وہ اسے قبول کرلیں ۔
انسانی عقل کو بنیاد بنانے والے اہل مغرب نے انسانی عقل کو بنیاد قرا دیا اور سارے فیصلے اسی کی روشنی میں کئے۔ تو ہوا یہ کہ انہوں نے ’’جوا خانے ، قحبہ خانے ، پورن انڈسٹری، ہم جنس پرستی وغیرہ‘‘ کو اچھا قرار دے کر اپنے اپنے ممالک میں قانونی طور پر لیگل و جائز قرار دے دیا۔ جب کہ وحی ان سب کو برائی سے تعبیر کرتی ہے۔ اس لئے انسانی عقل اس بارے میں ناقص ہے۔ مختصر یہ کہ وحی الہی سے کسی امر کے’’حسن و قبح ‘‘ کا تعین کرنے کے لئے عام انسانی عقل نہیں بلکہ قران و سنت کے جید عالم کا علم چاھئے۔ جب جید علما نے واضح کردیا ہے تو پھر اس انتخاب کا معاملہ عام آدمی پر کیوں چھوڑا جائے کہ وہ خود فیصلہ کر لے۔ یہ تو پھر اس کے ساتھ ظلم ہوگا کہ اگر وہ آگ میں کودنا پسند کرے تو اسے کرنے دیا جائے۔ اگر آپ بضد ہیں کہ نہیں جی عام مسلمان کو یہ اجازت ہونی چاھیے تو پھر کل اگر کوئی یہ راگ الاپنا شروع کردے کہ’’ مسلمان کو اجازت ہونی چاھیے کو وہ اپنی پسند کے مطابق اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب اختیار کرے جو اسے اچھا لگے‘‘ تو آپ اسے کس بنیاد پر روکیں گے کہ وہ ایسا نہ کرے؟۔؟ نیز یہ اختیار پھر صرف مذہب کے معاملے میں ہی کیوں ؟ پھر ہر انسانی فرد زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کرنے کے لئے خود مختار ہونا چاھئے۔ بچہ سگریٹ پسند کرے تو اجازت ہو۔ بیٹا یا بیٹی پورن انڈسٹری جوائن کرے تو اجازت ہو۔ اسی طرح دیگر امور میں ہر فرد کو یہ فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاھئے۔
اندرونی پہلو
آئیے ذرا اب مسئلے کے اندرونی ( اسلام کے اندر دیگر مسالک کے مقابلے میں ) پہلو کو بھی دیکھ لیں۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری یہ سب سنی مکاتب فکر ہیں۔ فقہ جعفری یہ شیعہ مکتب فکر ہے جس کہ اندر پھر مزید تقسیم ہے۔ چند لوگ کہتے ہیں ’’ جی سب کو دیکھیں جس کی جو چیز اچھی لگے اس پر عمل کرلو قبول کر لو‘‘ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا بذات خود کوئی قابل ستائش عمل ہے ؟ کیا شریعت کا مقصود بھی یہی ہے ؟ اگر تو واقعی یہ ایک حسین کام ہے جیسا کہ بظاہر جملے سے لگتا ہے تو پھر واقعی کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو ایسا نہیں کرے گا یا ایسا کرنے کی مخالفت کرے گا۔ لیکن پہلے ذرا اس نظریے کی چند صورتیں بنا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ پھر اس کا نتیجہ نکالیں گے کہ یہ کام اچھا ہے یا کسی بڑے فتنے کا سبب بنتا ہے۔
۔1۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ وہ حنفی مسلمان ہے لیکن فقہ شافعی سے اسے کیکڑے اور کچھوے کھانے کا عمل پسند ہے اس لئے وہ کھانے سے متعلق فقہ شافعی کو پسند کرتا ہے اور یوں وہ کچھوے کھانا شروع کردیتا ہے۔ اس آدمی سے پہلے فقہ حنفی اور شافعی والے اپنے اپنے مسلک پر سکون سے عمل پیرا تھے۔ لیکن اس تیسرے بندے نے جو کام شروع کیا ہے یہ فساد پیدا کردے گا۔ کیونکہ اگر وہ خود کو حنفی کہے گا تو احناف غصے ہونگے کہ کیکڑا و کچھوا حرام ہے لہذا تو حرام خور ہوگیا ہے ہم تمہیں حنفی مانتے ہی نہیں۔ دفع ہوجا۔ وہ شوافع کے پاس جائے گا تو فقہ شافعی والے غصے ہوجائیں گے کہ باقی امور میں تو حنفی ہے ہم تجھے کیسے قبول کرلیں۔
۔2۔ ایک آدمی کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اس نے وضو کی حالت میں بیوی کو مس کیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے کسی وجہ سے منہ بھر قے آگئی۔ لیکن اس نے کہا بیوی کو چھونے سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا لہذا میں یہاں حنفی رائے پسند کرتا ہوں اور قے آنے سے چونکہ امام شافعی کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا لہذا یہاں میں شافعی رائے پسند کرتا ہوں۔ اس لئے میرا وضو تو باقی لہذا وہ نماز پڑھ لیتا ہے ۔ اس کی نماز باطل ہوگی نہ فقہ شافعی میں نماز ہوئی اور نہ فقہ حنفی کی رو سے۔ اس نے حقیقت میں دین کی نہیں اپنی ذاتی خواہش کی پیروی کی ہے۔ جو شریعت میں منع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (اور خواہشات نفس کی پیروی مت کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی)۔ اس لئے لازم ہے کہ مجتہد آئمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے جو قرآن و سنت سے احکام اخذ کرتا ہے اور اس کے اصول وضع کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أنابَ إليَّ ( اس شخص کی اتباع کر جس کا رجوع میری جانب ہو) ۔ اس لئے اب جو شخص دین حق پر عمل پیرا ہونا چاھتا ہے وہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی میں سے مکمل طور پر کسی ایک حلقے کا انتخاب کرے گا۔ اگر وہ اپنی ضد پر آکر خواہشات نفس کی پیروی میں ملغوبہ طرز اپنائے گا تو وہ ایک فتنے کی بنیاد رکھے گا۔ کیا نیا فرقہ پیدا کرنا اچھی بات ہے؟ اگر اچھی بات ہے تو پھر پہلے والے فرقے کی بات پر عمل کرنا برا کیوں ہوا۔ اور اگر نیا فرقہ بنانا فتنہ پھیلانا ہے تو پھر بہتر ہے کہ پہلے والے کسی ایک مسلک کو ہی اپنا لیا جائے تاکہ معاشرہ کسی نئے فتنے سے بچ جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں نیا فرقہ ایسی نوعیت کا ہوگا جو آئے روز معاشرے میں کوئی نہ کوئی فساد کھڑا کرے گا۔
ان دو مثالوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے۔ کہ ’’ جہاں سے جو اچھا لگے وہی کرو ‘‘ جیسا بظاہر پرکشش سلوگن حقیقت میں کتنے بڑے فساد اور فتنے کو پیدا کرتا ہے۔ آپ ذرا تحقیق کر لی جئے کہ مرزا انجینئر کے نمودار ہونے کے بعد نوجوانوں میں باہم مذہبی نفرت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔ اللہ کرے گا معاملہ واضح ہوجائے گا۔ اب ذرا ملاحظہ کر لی جئے کہ مرزے کی اڑان تمام مکاتب فکر کے مخالف ہے یا موافق ہے۔ کہیں یہ نیا فتنہ تو نہیں بننے جارہا ۔۔( فتنہ مرزائیت ) ’’ نہ میں فلاں نہ میں ڈھمکاں میں تو علمی و کتابی‘‘ کی وضاحت اسی سلوگن میں ہے کہ میری اڑان ایک اور فرقے کی بنیاد رکھنے کی جانب ہے۔ بے وقوف بنانے کے لئے کہتا کیا ہے ’’ او جی ہم کسی فرقہ واریت میں نہیں پڑتے‘‘ ۔ یا تو وہ خود بے وقوف ہے یا پھر کچھ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ بھیا ذرا سنبھل کے۔
ایک اور زاویہ نظر
آئیے ذرا اب مسئلے کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
۔1۔ ایک آدمی اہل حدیث مسلک کی مسجد میں جا کر آذان دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے آذان سے پہلے صلواة و سلام پڑھنے میں مسلک اہل سنت کی رائے پسند ہے۔ لہذا وہ آذان سے قبل شروع ہوجاتا ہے الصلواة والسلام علیک يا رسول الله ۔ تو سوچئے کیا ہوگا ؟
۔2۔ ایک اہل حدیث آدمی فقہ جعفریہ والوں کی کسی محفل میں چلا جاتا ہے اور وہاں اس کا دل کرتا ہے کہ یزید کو شہزادہ کہے اور رضی اللہ عنہ کہے۔ فقہ جعفری والے کا دل کرتا ہے کہ وہ اہل حدیث کی رائے قبول کرے۔ تو سوچئے دونوں کے ساتھ اہل حدیث و فقہ جعفریہ کیا سلوک کریں گے! اور وہ دونوں کتنے بڑے فساد کا سبب بنیں گے۔
۔3۔ ایک دیوبندی کا دل کرتا ہے کہ وہ اپنی مسجد میں سیدنا غوث اعظم کہے اور ان کی گیارہویں منائے تو سوچیں کیا فتنہ کھڑا جائے گا۔ یہ اور اس جیسے دیگر فتنے جو پیدا ہوسکتے ہیں سب کی بنیاد ہے ’’ مجھے جس مسلک کی جو چیز اچھی لگے قبول کرلوں‘‘ ۔
خود فیصلہ کر ہو یہ درحقیقت ایک ’’ شر‘‘ ہے جس کے دامن میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ کہ یہ نظریہ ایک اور فرقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ اور ایسا فرقہ جو ہر وقت ہر کسی سے فساد میں مبتلا ہوگا۔ نہ میں وہابی، نہ میں دیوبندی نہ میں بریلوی نہ میں شیعہ میں تو بس علمی و کتابی یہ ایک نئے فرقے کا لانچنگ سلوگن یے۔ ابھی تک جو ہوا ہے اور ہو رہا ہے یہ سب اس نئے فرقے کی’’ ان آگریشن سرمنی‘‘ ہے۔ ابھی اس اسٹیج تک ملک کے نوجوانوں میں مذہبی عناد اتنا بڑھ گیا ہے تو سوچیں آگے کیا ہوگا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار اللہ کریم ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا جو قران مجید کی سورہ المتحنہ میں مذکور ہے وہ مانگنی چاھئے۔
رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ الممتحنہ ۴۔۵)
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ »
اے اللہ! عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، مسیح دجال اور زندگی اور موت کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہوں اورقرض سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1