اسلامی بینکاری سے متعلق تاثر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمہ داری
محمد ابوبکر صدیق
لیکچرر،انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
19 -02- 2021
……………………………..
اسلامی تورق کریڈٹ کارڈ پر میری تجزیاتی تحریر پر جہاں کافی علمائے عظام اور دیگر اسکالرز کی جانب سے تائید بھی آئی، ڈھیر ساری دعائیں بھی موصول ہوئیں۔ وہیں چند شریعہ ایڈوائزرز سے عقیدت کی حد تک لگاؤ رکھنے والے چند ایک احباب خفا بھی دکھائی دئے۔ اور میری تحریر کو الزمات و بہتان تک قرار دیا اور مجھ پر بغیر تحقیق کے تجزیہ لکھ نے کا الزام دھر دیا۔حالانکہ اس پر میں نے کئی دوستوں سے رابطے کئے بنیادی نکتوں پر معلومات لیں جیسے میں نے اپنے تجزیے کی ابتداء میں لکھا تھا۔اب اگر ہم محققین کو اسلامی بینکاری کے وہ فتاوی جات میسر ہی نہ ہوں تو کیا کی جئے۔ یہ تو بھلا ہو ان دوستوں کا جن کے ہاتھ کچھ فتوے آتے ہیں تو نام صیغہ راز میں رکھنے اور فتوی کو سیکریٹ رکھنے کی شرط پر ہمیں فراہم کردیتے ہیں۔ ایسے کرم فرما دوستوں سے عرض ہے۔ میری یہ تحریر کسی بھی شریعہ ایڈوائزر کی ذات کے خلاف نہیں بلکہ شریعہ ایڈوائزری کے عمومی رویے سے اور اس رویے سے ان کے اپنے بارے میں معاشرے میں پیدا ہونے والے ماحول سے متعلق ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اسلامی بینکوں میں ملازمت کرنے والے علما ءکی ہمت کسی اَن دیکھے بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ پروڈکٹس سے متعلق تفصیلی فتوی شیئر کرنے سے کتراتے ہیں۔ فتوی مانگا جائے تو ’’یہ جی وہ جی‘‘کی ایک کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بنکوں کے بند کمروں میں بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ معاشرے کے دیگر دارالافتاوں کی جانب رخ کی جئے تو پتہ چلے وہاں کے علما شریعہ ایڈوائزرز کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ میں نے تو اسلامی بینکاری کی شریعہ اپروولز کے موضوع سے متعلق اپنی پی ایچ ڈی کا ڈیٹا کلیکٹ کیا ہے تو آنکھیں کھلی ہیں کہ اسلامی بینکاری سے باہر کے علمائے عظام اور دیگر شریعہ اسکالرز میں کتنی شدید تشویش اور غصہ پایا جاتا ہے۔ اسلامی بینکوں سے وابستہ کارپوریٹ سیکٹر والے تو اب شریعہ ایڈوائزرز کے بارے وہ جملے کستے دکھائی و سنائی دیتے کہ اللہ کی پناہ۔
میں نے تو صرف یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ جناب آپ کے دامن کو آپ ہی کے رویے سے خطرہ لاحق ہے‘‘۔ ہماری خواہش ہے کہ شرعی حکم یعنی فتوی کو کمرشل ہونے سے بچایا جائے۔ تفصیلی فتاوی جات جن میں شرعی دلائل و حوالہ جات کے ساتھ کسی پروڈکٹ کو اپروو کیا گیا ہو انہیں دیگر علما و محققین کی دسترس میں لانے کے لئے عام کرایا جائے۔اپنے پی ایچ ڈی کے ڈیٹا الیکشن کےدوران مفتیان عظام کی جانب سے یہ بھی تشویش سامنے آئی ہے کہ ’’چند لائنوں کے سوا شریعہ ایڈوائزرز کوئی ایسا تفصیلی محقق فتوی جس میں نصوص، دلائل اور حوالہ جات ہوں سرے سے دیتے ہی نہیں ہیں۔ سب کچھ زبانی چلتا ہے اور آخر میں چند لائنوں میں شریعہ کمپلائینس کا فتوی دیتے ہیں‘‘۔ چند مفتیان کرام نے یہ بھی کہا کہ ’’ لاکھوں میں تنخواہیں اور مراعات لینے کے بعد بھی ۔ شریعہ ایڈوائزرز سے تفصیلی فتوے نہیں لکھے جاتے جبکہ دارالافتاء یہی خدمت مفت میں کرتے ہیں اور تفصیلی فتوے دیتے ہیں جو ہر ایک کی دسترس میں بھی ہوتے ہیں‘‘۔ اسلامی تورق کریڈٹ کارڈ کے فتوے کو دیکھ کر تو یہ خدشات مزید قوی ہوگئے ہیں کہ اگر اسلامی بینکاری کے شریعہ ایڈوائزرز کا فتوی واقعی ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر معاشرے کے علمائے کرام اپنی بیان کردہ رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ کیونکہ اس فتوے میں حرام ہے جو ایک دلیل ، نص یا عبارت ذکر کی گئی ہو۔
اگر یہ غلط فہمی ہے تو اسے دور کرنا کس کا فریضہ ہے؟ انگلیاں بالآخر اسلامی بینکوں سے وابستہ علما کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔
ہم تو اب بھی اسی حسن ظن رکھتے ہیں کہ شریعہ ایڈوائزری بورڈز کے پاس اسلامی بینکوں کی پروڈکٹس اور آپریشن کے جواز سے متعلق تفصیلی فتاوی جات تحریری صورت میں موجود ہونگے۔ جب کوئی پروڈکٹ اپروول کے لئے آتی ہوگی تو شریعہ بورڈ کے ممبران ایک ایک نکتے پر اپنی اپنی تحقیقات مع دلائل و حوالہ جات باقاعدہ لکھتے ہونگے اور لکھنے بھی چاھییں پھر مل بیٹھ کر بحث کرتے ہونگے۔ پھر جب کسی متفقہ فیصلے پر پہنچتے ہونگے۔ تو اس کے لئے ایک ایک نکتے پر تفصیلی دلائل مع حوالہ جات فتوی لکھتے ہونگے جیسا کہ اصول افتاء کی کتب میں کہا گیا ہے۔ حتی کہ ایوفی کا شریعہ اسٹینڈرڈ نمبر 29 جو اصول افتاء پر ہے وہ بھی یہی کہتا ہے اور شریعہ ایڈوائزرز کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اپنے فتوے میں دلائل اور حوالہ جات کی تفصیل دیں۔
میری گزارش صرف اتنی ہے کہ جناب والا! یہ فتاوی جات احکام شریعت کا حصہ ہیں۔ آپ کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں عام کرائیں۔ اسلامی بینکوں کی ویب سائیٹ پر میسر کروائیں۔ میں نے کرنسی سلم اور رننگ مشارکہ کی پروڈکٹس پر مقالہلکھنے سے قبل کئی دن تک مطالعہ کیا ، محنت کی ، روابط کئے کہ کہیں سے ان پروڈکٹس سے متعلق کوئی تفصیلی دلائل پر مبنی فتوی مل جائے لیکن بے سود ۔ بالآخر مجھے ایک اسلامی بینک کے شریعہ ایڈوائزر کے پاس جانا پڑا اور ان سے تفصیلات لینی پڑیں ۔ ان سے یہ بھی پتہ چلا کہ ان پر کوئی تفصیلی فتوی سرے سے موجود ہی نہیں۔ بس شریعہ ایڈوائزر کی اجازت پر چل رہا ہے۔ اگر کوئی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزامات ہیں تو بتائیے انہیں دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا آپ کی ذمہ داری ’’ یہ الزام ہے‘‘ کا جملہ بول کر سائیڈ پر ہوجانا ہے؟ اگر آپ فتاوی عام نہیں کرتے تو علمائے کرام اور محققین یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔
اکثر مفتیان عظام کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلامی بینکاری کے شریعہ ایڈوائزرز ہماری صفوں کے ہی لوگ ہیں۔ ان کے یہ رویے صرف انہیں کو نہیں بلکہ ہماری کریڈیبلٹی اور عوام میں پائے جانے والے ہمارے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ لوگ ہم سے آ کر کہتے ہیں “ مفتی صاب تسی وی اناں آر ہوجانڑا جداں توانوں وڈیاں وڈیاں گڈیاں تے وڈیاں تنخاواں لبھنڑ دیاں ” ۔
یہ میرے الزامات نہیں ہیں۔ میں نے تو معاشرے میں پائی جانے والی رائے بیان کی ہے کہ جناب! لوگ آپ کے بارے یہ سوچتے ہیں کچھ کی جئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ بجائے اس کے کہ آپ کوئی مثبت کردار ادا کرتے الٹا مجھ پر ہی الزامات دھر دئے کہ میں بہتان لگا رہا ہوں حیرت ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے التماس
اسلامی بینکاری اور شریعہ ایڈوائزری سے متعلق معاشرے میں بنتے ہوئے اس منفی تاثر کے پیش نظر ریگولیٹری اتھارٹی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اسلامی بینکنگ ڈویژن کے ذمہ دار افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں کیونکہ شریعہ ایڈوائزری کی روز بروز گرتی ہوئی یہ سا کھ پوری اسلامی بینکاری کی انڈسٹری کے لئے خطرہ ہے۔ معاشرے کے وہ علمائے کرام اور مفتیان عظام جن کا تعلق عوام سے زیادہ ہے اور جن پر عوام زیادہ اعتماد کرتی ہے ، اگر وہ ہی اسلامی بینکاری سے متعلق یہ رائے رکھیں گے تو سوچیں عوام پر اس کا کیا اثر مرتب ہوگا۔ اس کا واحد حل یہی ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اسلامک بینکنگ ڈویژن اسلامی بینکاری سے متعلق نظر ثانی کرے اور درج ذیل تجاویز پر غور کرے۔
اول : اسلامی بینکوں کا شریعہ بورڈ مختلف نظریات سے وابستہ علمائے کرام پر مشتمل ہو۔
دوم: شریعہ ایڈوائزر کی لئے مقرر کردہ معیار میں یہ اضافہ کیا جائے کہ شریعہ ایدوائزر کے پاس شرعی علوم کے ساتھ اکنامکس، بینکنگ، اسلامک بینکنگ کی ایم ایس/ایم فل یا ان مضمامین میں سے کسی ایک میں پی ایچ ڈی ڈگری ہونی چاھئے ۔
سوم: شریعہ بورڈ کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ جب بھی وہ کسی پروڈکٹ یا آپریشن کا اپروول دیں تو ان کا فتوی/شریعہ اپروول ایسا ہو کہ اس میں ہر اہم کلاز اور نکتے پر قرآن و سنت ، فقہائے کرام کی کتب سے دلائل اور حوالہ جات موجود ہوں۔ اگر فتوے میں ضرورت و حاجت ، حیلہ یا تلفیق جیسے امور کا سہارا لیا گیا ہے تو اس کے لئے عقلی دلائل اور وجوہات کو ذکر کریں ۔
چہارم: فتاوی جات کے طریق کار اور فارمیٹ کے لئے ایوفی کا شریعہ اسٹینڈرڈ نمبر ۲۹ اختیار کیا جائے اور شریعہ بورڈز کو اس کا پابند کیا جائے۔
پنجم: ہر اسلامی بینک کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے شریعہ بورڈز کے فتاوی جات یا تو کتابی صورت میں شائع کریں یا پھر اپنی اپنی ویب سائیٹ پر میسر کریں ۔
ششم: شریعہ ایدوائزرز کی تنخواہیں اور مراعات کی ذمہ داری اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اسلامی بینکاری ڈویژن اپنے ذمے لے۔ ہر اسلامی بینک اپنے شریعہ بورڈ کے واجبات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اسلامی بینکاری ڈویژن کو دے اور اس کے لئے کوئی باقاعدہ
طریق کار تجویز کیا جائے۔
اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو یقینا شریعہ ایڈوائزری کا اعتماد بحال ہوگااور اسلامی بینکاری کی ترویج میں اچھی پیش رفت ہوگی۔
اللہ تعالی ہم سب پر کرم فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1