عقد کی اقسام اور شرائط ( مختصر تعارف )
محمد ابوبکر صدیق
لیکچرر،انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
21 -02- 2021
……………………………..
یہ پوسٹ میں نے اسلامی مالیات کے محققین، فقہ اسلامی کے طالب علموں اور ان احباب کے افہام لئے مختصراً تحریر کی ہے جو اسلامی تجارتی احکام کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اس بحث میں دو اصطلاحات :عقد کی اصل اور عقد کا وصف کو سمجھ لی جئے پھر آگے کی بحث سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
عقد کی اصل: اس سے مراد یہ ہے کہ جن امور پر عقد ہونا یا نہ ہونا منحصر ہو۔ احناف کے نزدیک وہ صرف ایجاب و قبول ہیں۔ جبکہ جمہور فقہا اس میں عاقدین اور معقود علیہ دونوں کو شامل کرتے ہیں۔
عقد کا وصف: اس سے مراد وہ خارجی امور ہیں جن سے عقد مکمل ہوتا ہے۔ جیسے معقود علیہ معلوم ہو۔ اس کی قیمت معلوم ہو۔
صحت و فساد کے اعتبار سے عقد کی اقسام
عقد صحیح: جس عقد کی اصل اور وصف دونوں میں مسئلہ نہ ہو تو وہ عقد صحیح کہلاتا ہے۔
عقد فاسد : جس عقد کے صرف وصف میں مسئلہ ہو تو وہ عقد فاسد کہلاتا ہے۔ جیسے کسی چیز کی خصوصیات بتائے بغیر اور خریدار کو دکھائے بغیر فروخت کرنا۔ حالانکہ فروخت کنندہ اور خریدار عاقل بالغ ہیں۔ اور مرضی سے ایجاب و قبول کررہے ہیں۔ شرع کی نظر میں یہ عقد صحیح نہیں بلکہ فاسد ہوگا۔ کیونکہ عقد کی اصل ٹھیک ہے یعنی ایجاب و قبول میں مسئلہ نہیں ہے کہ فریقین عاقل بالغ ہیں اور رضامندی سے ایسا کر رہے۔ لیکن خارجی وصف یعنی جو چیز بیچی و خریدی جارہی اس کے یا اس کی قیمت کے مجہول ہونے کی وجہ سے غرر پایا جارہا ہے جو عقد کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایک خارجی وجہ ہے جو عقد کو درست نہیں ہونے دے رہی اور اس میں فاسد کا سبب بن رہی ہے۔ اسی طرح قرض کے معاملے میں سود/ربا کی شرط لگانا بھی عقد کو فاسد کردیتی ہے۔ کیونکہ قرض بذات خود جائز ہے اور اس میں اگر ایجاب و قبول میں بھی مسئلہ نہیں ہے تو صحیح ہے لیکن سود کی ایک بیرونی شرط نے اسے ناجائز کردیا ہے۔ اس لئے اگر شرط ہٹا دیں گے تو عقد درست ہوجائے گا ورنہ عقد تو منعقد ہوجائے گا لیکن فاسد رہے گا۔
عقد باطل:جب کسی عقد کی اصل اور وصف دونوں میں یا پھر صرف عقد کی اصل میں مسئلہ ہو تو عقد باطل ہوتا ہے۔ جیسے عقد کرنےوالے دونوں یا کوئی ایک فریق عاقل بالغ نہ ہو یا مجنوں ہو اور اس میں سود کی بھی شرط ہو۔ اب یہاں عقد کی اصل اور وصف دونوں میں خلل آگیا۔ اس لئیے یہ عقد باطل قرار پائے گا۔
عقد فاسد اور باطل میں فرق اور ان کا شرعی حکم :
باطل عقد سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا اور اسے دوبارہ سے ایجاب و قبول سے منعقد کرنا پڑتا ہے۔ لیکن فاسد عقد اگرچہ ایجاب و قبول کی وجہ سے منعقد ہوجاتا ہے لیکن کسی بیرونی امر جیسے شرط فاسد کی وجہ سے وہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو اس عقد کو ختم کرنا واجب ہوتا ہے یا پھر شرط فاسد کو ہٹانا واجب ہوتا ہے۔ شرط فاسد ہٹ جائے تو عقد صحیح ہوجاتا ہے اور دوبارہ ایجاب و قبول کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ یاد رہے عقد کی یہ قسم یعنی عقد فاسد صرف احناف کے نزدیک ہے۔ باقی تینوں فقہا عقد فاسد کو بھی عقد باطل کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک عقد کی صرف دو ہی قسمیں ہیں صحیح اور باطل۔
عقد منعقد تو رہے گا لیکن فاسد ہوجائے گا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ چیز پر ملکیت فروخت کرنے والے سے خریدار کو منتقل ہوجائے گی اور چیز سے منسلک سارے خطرات خریدار کو منتقل ہوجائیں گے۔ اسی طرح خریدار پر قیمت کی ادائیگی لازم ہوجائے گی اور اس پر قبضے کے بعد فروخت کنندہ قیمت کا مالک بن جائے گا۔ اگر فاسد عقد ابھی کینسل نہیں ہوا تھا یا اس کی شرط فاسد کو ختم نہیں کیا گیا تھا اور اس دوران خریدی گئی چیز کسی آفت کی بدولت ضائع ہوگئی یا ڈاکو چھین کر فرار ہوگئے تو یہ نقصان خریدار کا شمار ہوگا۔ البتہ اب عقد کینسل نہیں ہوسکتا کیونکہ معقود علیہ ہی ضائع ہوگیا تو اب عقد ہی باقی نہ رہا تو کیسے کینسل کیا جائے۔ لیکن فریقین پر توبہ کرنا لازم ہوگا کیونکہ عقد فاسد کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ضرور ہوئے ہیں۔
اسی طرح اگر فروخت کنندہ قیمت پر قبضہ کرچکا تھا اور وہی کچھ ہوگیا تو یہ نقصان فروخت کنندہ کا شمار ہوگا۔ لیکن یہاں عقد کو کینسل کرنا اب لازمی ہے کیونکہ چیز تو ابھی بھی موجود ہے صرف قیمت ضائع ہوئی ہے اس لئے قیمت کی واپسی ان بھی ممکن ہے۔
لیکن اگر چیز یا قیمت کے ضائع ہونے کا یہی معاملہ عقد باطل میں پیش آجائے تو نقصان مالک کا ہوگا بھلے چیز دوسرے فریق کے قبضے میں ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ باطل عقد سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ بھلے خریدار چیز اپنے قبضے میں لے چکا ہو وہ اس کا مالک نہیں بنے گا بلکہ اس چیز کا مالک فروخت کرنے والا ہوگا۔ اسی طرح بھلے فروخت کرنے والا قیمت پر قبضہ کرچکا ہو نقصان خریدار کا شمار ہوگا۔ اور ایک دوسرے کی اشیائ ان کے ہاتھوں میں امانت سمجھی جائیں گیں۔
شرائط عقد :
عموما فقہائے کرام شرائط کو چار اقسام میں شمار کرتے ہیں:
1) شرائط انعقاد عقد 2) شرائط نفاذ عقد 3) شرائط صحت عقد 4) شرائط لزوم عقد
1) شرائط انعقاد عقد:
ایسے امور جن کا پایا جانا کسی بھی عقد کے منعقد ہونے کے لئے شرط ہو اس طرح کہ اگر وہ نہ ہوں تو عقد بھی منعقد نہ ہو تو انہیں شرائط انعقاد کہا جاتا ہے۔ جیسے عقد کی اصل یعنی ایجاب قبول کا صحیح ہونا انہی شرائط میں سے ہے۔ عاقدین کا عاقل بالغ ہونا، مجلس عقد کا ایک ہونا، معقود علیہ کا صحیح ہونا وغیرہ یہ سب شرائط منعقد میں سے ہیں۔
احناف کے نزدیک اگر عقد کی اصل والی شرط موجود نہ ہوتو عقد باطل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ باقی جو بھی شرط نہیں پائی جائے گی تو اس سے عقد باطل نہیں ہوگا بلکہ فاسد ہوگا۔جبکہ جمہور فقہا کے نزدیک جو ان میں سے جو بھی شرط نہیں پائی جائے گی عقد باطل ہوجائے گا۔
2) شرائط نفاذ عقد
ایسی شرط جس کے بغیر معقود علیہ سے متعلق حکم ہی ثابت نہ ہو لیکن اس کے بغیر معقود علیہ پر تصرف منعقد ہوجاتا ہے۔ احکام بیع میں ایسی شرائط نفاذ دو ہیں۔
الف) عقد کرتے وقت فروخت کرنے والا بیچی جانے والی چیز کا مالک ہی نہ ہو تو اس سے عقد نافذ نہیں ہوگا بلکہ معلق ہوجائے گا۔ اگر اصلی مالک اس عقد کی اجازت دے دے گا تو پھر وہ عقد نافذ ہوجائے گا۔
ب) اسی طرح اگر ایک چیز دو لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہو تو کسی ایک فریق کا دوسرے کی اجازت کے بغیر اسے بیچنا یا کرائے پر دینا یا تحفے میں دینا وغیرہ کے سارے عقد موقوف ہونگے اور نافذ نہیں ہونگے۔ اگر دوسرا شریک اجازت دے دے گا تو عقد نافذ ورنہ عقد باطل ہوجائے کیونکہ دوسرے فریق کی اجازت نہ دینے سے ایجاب و قبول میں خلل آگیا جو کہ عقد کی اصل ہے اور عقد کی اصل میں مسئلہ آنے سے عقد باطل ہوجاتا ہے۔
3) شرائط صحت عقد
وہ شرائط جن کے پائے جانے سے ہی عقد صحیح ہوسکتا ہے وہ شرائط صحت کہلاتی ہیں۔ یہ شرائط شرعی اثر مرتب کرنے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی شرط موجود نہ ہو تو عقد فاسد ہوجاتا ہے۔
فقہی کتب میں شرائط صحت کو دو طرح سے تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلی تقسیم:
شرائط صحت عقد تین ہیں۔
الف) ایسی شرط عقد جس کا تقاضا کرتا ہو۔ جیسے خریدار کہے قیمت تب دوں گا جب چیز میرے حوالے کرو گے، یا فروخت کرنے والا کہے چیز تب دونگا جب قیمت میرے حوالے کروگے وغیرہ کی شرائط لگانا درست ہے۔ کیونکہ عقد بیع خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ چیز یا قیمت حوالے کی جائے۔ البتہ اگر یہ شرط نہ بھی لگائی جائے تو بھی عقد صحیح رہتا ہے۔ ایسی شرائط کو فقہی زبان میں ’’مقتضائے عقد شرط‘‘ کہتے ہیں۔
ب) ملائم عقد شرط: ایسی شرائط جو عقد کا تقاضا تو نہیں ہوتیں لیکن عقد کو مکمل کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ ایسی شرائط سے عقد صحیح رہتا ہے فاسد نہیں ہوتا۔ جیسے ادھار کی بیع میں فروخت کرنے والا خریدار سے کہے کہ کوئی چیز گروی رکھو تاکہ مجھے یقین ہو کہ تم قیمت ادا کروگے۔ تو گروی رکھنے کی یہ شرط اگرچہ عقد اس کا تقاضا نہیں کرتا لیکن عقد کو مکمل کرنے میں معاون ہے۔
ج) ایسی شرائط جو مقتضائے عقد تو نہ ہوں لیکن معاشرے میں ان شرائط کے لگانے رواج یا چلن یا عرف بن چکا ہو تو ایسی شرائط لگانے سے بھی عقد صحیح رہتا ہے اور فاسد نہیں ہوتا۔ جیسے تین سال کی گارنٹی پر کوئی مشینری خریدنا۔ اگرچہ یہ شرط نہ تو مقتضائے عقد ہے اور نہ ہی ملائم عقد ہے لیکن معاشرے میں اس کا رواج بنا چکا ہے عرف اور تعامل ہے اور لوگ اسے قبول کر چکے ہیں۔ اس لئے ایسی شرط لگانے سے عقد صحیح رہے گا۔
دوسری تقسیم
شرائط صحت کی اس تقسیم میں شرائط کے دو درجے بنائے گئے ہیں۔ عام شرائط اور خاص شرائط۔
الف)عام شرائط: وہ شرطیں جو تمام بیوعات کی صحت کے لئے لازمی ہیں۔ اگر کسی عقد میں درج ذیل تمام امور یا ان میں سے کوئی ایک یا چند امور نہ پائے جائیں تو وہ عقد صحیح کہلائے گا۔ گویا ان امور کا نہ پایا جانا عام شرائط صحت میں سے ہے۔
1. بیع میں مبیع، ثمن، یا مدت حوالگی وغیرہ مجہول نہ ہو اسے فقہ میں جہالتِ فاحشہ کہا جاتا ہے۔
2. کسی بھی فریق کو عقد پر مجبور نہ کیا گیا ہو۔
3.عقد ہر طرح کی غیر یقینی صورت حال سے خالی ہو یعنی غرر نہ پایا جائے
4.عقد میں کوئی بھی شرط ایسی نہ ہو جو عقد کو فاسد کردے۔
ب) خاص شرائط: یہ وہ شرائط ہیں جن کا تعلق خاص عقود سے ہے۔ جیسے
1۔منقولہ مال کو قبضے سے قبل فروخت نہ کیا جائے۔
2۔بیع صرف میں فریقین کا عوضین پر قبضہ کرنا
3۔بیع سلم کے لئے بیع سلم کی جملہ شرائط
4۔استصناع کے لئے اس کی جملہ شرائط
5۔ ربوی اموال کے ہم جنس تبادے میں عوضین میں برابری اور ہاتھوں ہاتھ تبادلہ
6۔بیوع الامانات جیسے مرابحہ وغیرہ میں مبیع کی پہلی قیمت خرید کا معلوم ہونا
4) شرائط لزوم عقد
عقد دو طرح کا ہوتا ہےعقد لازم اور غیرلازم عقد۔
ان شرائط لزوم کا تعلق عقد لازم سے ہے۔ یعنی ایسی شرط جو عاقدین پر عقد کو لازم کردے۔ اس کے بعد کسی فریق کے لئے اکیلے اس عقد کو ختم کرنا ممکن نہ ہو۔ باہم رضامندی سے کریں تو اور بات ہے۔ بیوعات کے باب میں ایسی صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ کہ عقد کرتے وقت کئی بھی فریق اپنے لئے ’’عقد کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار محفوظ رکھنے ‘‘ کی شرط نہ لگائے۔ اگر کوئی بھی فریق اپنے لئے یہ شرط رکھ دیتا ہے تو وہ عقد غیر لازم بن جاتا ہے۔ لیکن اس سے عقد فاسد یا باطل نہیں ہوتا۔ گویا اس شرط سے عقد کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
صحت، فساد اور بطلان کے اعتبار سے شرائط کی اقسام
اس اعتبار سے شرائط کی تین اقسام ہیں
2) شرط صحیح : تمام وہ شرائط جو اوپر شرائط صحت عقد میں بیان ہوئیں۔
3) شرط فاسد: وہ شرط جو نہ تو مقتضائے عقد، نہ ملائم عقد ہو اور نہ ہی معاشرے میں اس کا عرف و تعامل ہو بلکہ وہ ان میں سے کسی ایک کے خلاف ہو اور وہ شرط کسی ایک فریق کے حق میں جاتی ہو تو ایسی شرط شرط فاسد کہلاتی ہے۔ جیسے کوئی یہ کہے کہ میں آُپ کو اپنی گاڑی اس شرط پر بیچوں گا کہ 4 دن اسے میں چلاوں گا۔ یہ شرط فاسد ہوگی۔ کیونکہ یہ شرط ایسی ہے کہ نہ تو عقد اس کا تقاضا کرتا ہے بلکہ یہ مقتضائے عقد کے ہی خلاف ہے، نہ تو ملائم عقد ہے بلکہ الٹا عقد کو ختم کرنے والی شرط ہے۔ کیونکہ خریدار کیسے یہ شرط مانے گا وہ تو عقد ہی نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی معاشرے میں اس شرط کا تعامل و عرف ہے۔
3) شرط لغو یا باطل:اس سے مراد ایسی شرط لگانا ہے جو نہ تو مقتضائے عقد ہو، نہ ملائم عقد ہو، نہ معاشرے میں اس کا عرف و تعامل ہو اور نہ اس شرط کے لگانے میں کسی فریق کا فائدہ ہو تو ایسی شرط کو شرط لغو یا شرط باطل کہتے ہیں۔ جیسے یہ شرط لگانا کہ میں تمہیں اس شرط پر اپنی چیز بیچتا ہوں کہ تم اسے کسی کو فروخت نہیں کروگے یا کرائے پر نہین دو گے وغیرہ۔ اس سے عقد تو درست رہے گا لیکن شرط خود بخود لغو ہوجائے یا باطل ہوجائے گی۔ اسی شرط کو شرط باطل بھی کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور سبسکرائب کریں ۔
اسلامی معلومات ، روایتی معاشیات ، اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکاری سے متعلق یو ٹیوب چینل
https://www.youtube.com/user/wasifkhansb?sub_confirmation=1